حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا دورہ کوئٹہ و قندھار

۱۶ اکتوبر ۹۵ء کو مولانا عبد المالک صاحب ہزاروی نے بذریعہ فون شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے جامعہ قاسمیہ کلی دیبہ کوئٹہ کے جلسہ دستار بندی کے لیے تاریخ کا تقاضا کیا جو کہ حضرت نے منظور فرما لیا اور ۲۹ تا ۳۱ اکتوبر بروز اتوار پیر اور منگل کی تاریخیں دے دیں۔ 

۲۹ اکتوبر بروز اتوار لاہور ایئر پورٹ سے ۲ بج کر ۵۵ منٹ پر پی آئی اے کے طیارہ پر سوار ہوئے اور تقریباً سوا چار بجے کوئٹہ ایئر پورٹ پر پہنچے، وہاں ایئرپورٹ پر مولانا عبد المالک ہزاروی، مولانا عبد الغفور صاحب مہتمم جامعہ قاسمیہ، مولانا عبد المجید صاحب، مولانا حافظ خیر محمد صاحب اور حاجی محمد ابراہیم صاحب تقریباً‌ پندرہ گاڑیوں پر سوار ساتھیوں کے ہمراہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب کو دیکھ کر کوئٹہ ایئرپورٹ نعرہ ہائے تکبیر اور علماء دیوبند زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ 

ایئرپورٹ سے جامعہ قاسمیہ پہنچے۔ وہاں مختصر قیام کے بعد جامعہ خیر المدارس گلی گل محمد پہنچے۔ وہاں مغرب کی نماز کے بعد حضرت شیخ الحدیث صاحب نے طلبہ اور علماء سے خطاب فرمایا اور شام کا کھانا وہیں کھایا۔ 

عشاء کی نماز پڑھ کر حاجی محمد ابراہیم صاحب کے ہاں گلی عالمو چمن روڈ پہنچے۔ رات کو وہاں قیام کیا۔ 

سوموار کو صبح کی نماز کے بعد حاجی محمد ابراہیم کی مسجد میں افغانستان کے زخمی طالبان سے پشتو میں خطاب فرمایا اور ان سے حالات معلوم کیے۔ اور وہاں مولانا محمد اختر صاحب جو کہ طالبان کے اہم عہدے دار تھے، انہوں نے اپنے رفقاء سمیت حضرت شیخ الحدیث دام مجدہم سے حاجی محمد ابراہیم کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور قندھار جانے کی پرزور دعوت دی۔ گوجرانوالہ واپسی کے ٹکٹ ۳۱ اکتوبر کے ہو چکے تھے مگر ان حضرات کے شدید اصرار پر سیٹیں کینسل کروا کر ۲ نومبر ۹۵ء جمعہ کے دن کی سیٹیں دوبارہ لی گئیں۔ 

سوموار کے دن ۱۱ بجے کے قریب جامعہ قاسمیہ میں دارالحدیث کا افتتاح کیا۔ جامعہ قاسمیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد القادر، جامعہ کے خطیب عزیز احمد صاحب اور ناظم حافظ عبد الرؤف اور شہر کے دیگر علماء اور معززین کی موجودگی میں طلبہ کو بخاری شریف کی ایک حدیث پڑھ کر روایتِ حدیث کی اجازت عنایت فرمائی۔ 

حاجی محمد ابراہیم صاحب اور مولانا عبد الغفور صاحب نے شہر کے اہم مقامات کی سیر کرائی اور پھر حاجی محمد ابراہیم کی رہائش گاہ میں آرام و طعام کے لیے تشریف لے گئے۔ 

ظہر کی نماز کے بعد جامعہ قاسمیہ کے جلسہ کی پہلی نشست شروع ہوئی اور عصر کی نماز کے بعد راقم الحروف نے مدارس عربیہ اور ان کی اہمیت کے موضوع پر معروضات پیش کیں۔ 

عشاء کی نماز کے بعد جلسہ کی دوسری نشست شروع ہوئی، مولانا عبد الکریم ندیم صاحب نے سیرت رسولؐ پر مفصل خطاب فرمایا۔ ان کے بعد حضرت شیخ الحدیث صاحب دام مجدہم نے حفاظ کی دستار بندی کی اور جلسہ سے خطاب فرمایا۔ 

جلسہ سے فارغ ہو کر حاجی محمد ابراہیم صاحب کی رہائش گاہ پر چلے گئے۔ رات کو وہاں آرام کیا اور صبح کی نماز اور ناشتہ سے فارغ ہو کر قندھار کے لیے روانہ ہوئے۔ لشکر محمدی طالبان کے امیر مولانا اختر محمد صاحب اپنے رفقاء سمیت اس قافلہ کے ہمراہ تھے۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب دام مجدہم، حافظ عبد القدوس قارن، مولانا عبد الغفور صاحب، حافظ خیر محمد صاحب، مولانا عبد المجید صاحب، مولانا عبد المالک صاحب، حاجی محمد ابراہیم صاحب اور حاجی محمد عمر صاحب بھی اس قافلہ میں شریک تھے۔ یہ قافلہ چمن سے گزر کر پاک افغان سرحد پر پہنچا۔ 

وفد کے ذمہ دار حضرات نے ضروری کارروائی مکمل کروانے کے بعد افغانستان میں جانے کے لیے افغان گاڑیوں کا انتظام کیا اور پہلی چوکی بولاک پہنچے۔ وہاں طالبان نے اس قافلہ کا خیر مقدم کیا اور دوپہر کے کھانے اور چائے کا انتظام کیا۔ ظہر کی نماز بولاک میں ادا کی اور پھر قندھار کے لیے روانہ ہوئے۔ اور ٹریفک کا دائیں ہاتھ چلنا پاک افغان سرزمین کے درمیان پہلی تبدیلی محسوس کی گئی۔ 

مغرب کی نماز قندھار کے قریب برلبِ سڑک ادا کی اور پھر قندھار گورنر ہاؤس پہنچے۔ رات کو آرام کیا اور صبح تقریباً دس بجے لشکر محمدی طالبان کے سربراہ اور طالبان کے مفتوحہ علاقہ کے کنٹرولر مولانا محمد عمر صاحب اور گورنر قندھار مولانا محمد حسن صاحب سے گورنر ہاؤس میں ملاقات کی۔ اس دوران طالبان کے بہت سے راہنما شریک تھے۔ ملاقات کے دوران حضرت شیخ الحدیث دام مجدہم، مولانا عبد المجید اور مولانا عبد الغفور نے مختصر خطاب کیا اور بعض خدشات کا اظہار کیا جن کے جوابات طالبان کے راہنماؤں نے باحسن طریق دیے اور اس پروپیگنڈہ کی پر زور تردید کی کہ طالبان کی کوئی بیرونی حکومت مدد کر رہی ہے۔ ان حضرات نے واضح طور پر بتایا کہ پاکستان سمیت کوئی بھی طاقت طالبان کو نہ تو مدد دے رہی ہے اور نہ طالبان کے اسلامی حدود کے نفاذ اور شریعت کے قانون پر راضی ہے۔ ان حضرات نے ہرات کے لیے اصرار کیا اور جہاز کا انتظام کیا مگر ان حضرات کی مصروفیات کو دیکھ کر حضرت شیخ الحدیث دام مجدہم نے ہرات کے پروگرام کو تسلیم نہ کیا۔

گورنر ہاؤس میں بیرونی وفود کی آمد و رفت اور طالبان رہنماؤں سے ملاقات کا سلسلہ بدستور جاری تھا۔ بالخصوص روسی جہاز جو کہ اسلحہ لے کر کابل جا رہا تھا، اس کو قندھار ایئرپورٹ پر طالبان نے اتارا اور اس سے بھاری مقدار میں اسلحہ پر قبضہ کیا اور جہاز کے عملہ کو گرفتار کیا۔ اس عملہ کی رہائی کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے بار بار سربراہان سے مل رہے تھے اور عملہ کی رہائی کے عوض بھاری رقوم اور اسلحہ کی پیشکش کی گئی ہے۔ مگر ان حضرات کا اصرار تھا کہ روس کے افغانستان کے اندر داخل ہونے کے وقت سے لے کر اب تک ہزاروں افغانی روس کی مختلف ریاستوں میں قید ہیں، ان کو رہا کیا جائے اور ان کی لسٹ ان نمائندوں کو مہیا کی۔ 

افغان طالبان کے سربراہان کی مصروفیات کی وجہ سے دورہ مختصر کر کے جمعرات کو واپس کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے۔ اس دوران روسی جہاز جو کہ قندھار ایئرپورٹ پر کھڑا تھا، اس کو دیکھا اور دشمن سے چھینے گئے بھاری مقدار میں کارآمد و بے کار اسلحہ کو بھی دیکھا۔ طالبان لباس اور طبیعت کے لحاظ سے سادہ ہونے کے باوجود اپنے مفتوحہ علاقہ میں اخلاقی اثر اور مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ 

جمعرات رات دس بجے کے قریب کوئٹہ حاجی محمد ابراہیم کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ وہاں پہلے سے موجود جید علمائے کرام بالخصوص شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الغنی صاحب اور مولانا نور محمد صاحب وغیرہ انتظار کر رہے تھے۔ 

جمعہ کے دن صبح ناشتہ سے فارغ ہو کر حضرت شیخ الحدیث دام مجدہم کلی شابو میں ایک مدرسہ میں دستار بندی کے لیے تشریف لے گئے اور پھر جمعہ جامعہ قاسمیہ میں پڑھایا۔ جبکہ راقم الحروف نے جمعہ جامع مسجد اکبری میں پڑھایا اور جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر ایک مدرسہ میں چائے پی اور پھر وہاں سے گاڑیوں کے قافلہ کے ساتھ ایئرپورٹ پر پہنچے۔ 

کوئٹہ میں قیام کے دوران راقم الحروف نے مدرسہ مطلع العلوم بروری روڈ کے مہتمم اور جمعیت علمائے اسلام کے بزرگ راہنما حضرت مولانا عبد الواحد صاحب کی وفات پر ان کے فرزند اور دیگر حضرات سے تعزیت کی اور مولانا مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ 


اخبار و آثار

(دسمبر ۱۹۹۵ء)

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter