شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا سفر حرمین شریفین

مفتی محمد جمیل خان

جوہانسبرگ سے براستہ ڈربن ابوظہبی کے لیے روانگی ہوئی۔ نشستیں اس طرح مخصوص تھیں کہ ابوظہبی میں ایک گھنٹہ قیام اور وہاں سے بحرین میں تقریبا ۶ گھنٹہ کا قیام تھا۔ اس لیے بحرین میں مولانا محمد احمد خان بردار خورد مولانا مفتی محمد انور شاہ ناظم وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو اطلاع دے دی۔ خیال تھا کہ بحرین کی بھی سیر ہو جائے گی۔ لیکن تقدیر میں بحرین کی سیر نہ تھی۔ جوہانسبرگ سے جہاز روانہ ہونے لگا تو پتہ چلا کہ ایئرکنڈیشنر کے نظام میں خرابی ہے۔ دو گھنٹہ جہاز کی اصلاح میں لگ گیا۔ جوہانسبرگ سے ڈربن پہنچے تو ایک گھنٹہ مزید تاخیر ہو گئی۔ اس طرح جہاز مقررہ وقت سے ۴ گھنٹہ تاخیر سے پہلی منزل ابوظہبی کے لیے روانہ ہوا۔ تقریباً سوا ایک بجے جہاز ابوظہبی اترا جبکہ بحرین کی فلائٹ ہونے گیارہ بجے روانہ ہو گئی تھی۔ 

ابوظہبی پہنچ کر دوبارہ نشستیں مخصوص کرائیں تو صبح دس بجے ابوظہبی سے بحرین کے لیے جہاز ملا۔ جبکہ جدہ کے لیے حسبِ سابق ۱۲ بج کر ۴۵ منٹ پر روانگی تھی۔ پروگرام کے مطابق رات بارہ بجے سے ۲ بجے تک مولانا محمد احمد خان، قاری عبد الحلیم، قاری محمد ہاشم اور دیگر کئی حضرات حضرت اقدس کا انتظار کرتے رہے۔ دو بجے رات جب یقین ہو گیا کہ اب ابوظہبی سے بحرین پہنچنا ممکن نہیں اور ابوظہبی میں ٹھہریں گے تو مایوس ہو کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس محبت و اخلاص کا اپنی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ 

رات ابوظہبی کے ایئرپورٹ ہوٹل میں قیام ہوا ۔ صبح دس بجے ابوظہبی سے روانہ ہو کر بحرین کے وقت کے مطابق دس بجے بحرین ایئرپورٹ پر پہنچے۔ یہاں تین گھنٹہ کا انتظار تھا۔ حضرت مولانا محمد احمد خان صاحب، قاری عبد الحلیم صاحب اپنے دو صاحبزادوں کے ہمراہ ٹرانزٹ لان میں پہنچ گئے اور حضرت اقدس سے ملاقات کی۔ حضرت اقدس نے دونوں حضرات کو خوب دعائیں دیں اور دونوں حضرات اور دیگر شاگردوں کی تفصیلات معلوم کیں۔ 

قاری عبد الحلیم صاحب حفظ و تجوید کے چند مدارس کے نگران کی حیثیت سے قرآن مجید کی اشاعت میں مشغول ہیں۔ قاری صاحب جامعہ اشرفیہ کے فاضل ہیں اور پندرہ سال حضرت اقدس کے پاس گکھڑ میں شعبہ حفظ و تجوید کے صدر مدرس کی حیثیت سے بہترین خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 

مولانا محمد احمد خان جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ہیں، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کی۔ جامعہ بنوریہ میں تخصص کے مشرف کی حیثیت سے ایک سال کام کیا اور دار الافتاء کی طرف سے بحرین تشریف لائے۔ بہترین دینی خدمت انجام دے رہے ہیں، کئی غیر مسلم ان کی تبلیغ سے اسلام کی دعوت قبول کر چکے ہیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی اشاعت قرآن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کشمیر، بوسنیا اور دیگر مظلوم مسلمانوں کی امداد میں پیش پیش رہتے ہیں۔ 

دونوں حضرات کے کاموں کی تعریف کرتے ہوئے دعا فرمائی کہ اللہ خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔ حضرت اقدس نے دونوں حضرات کی ملاقات کے لیے تشریف آوری پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے دعا فرمائی کہ اللہ تعالٰی جزائے خیر عطا فرمائے۔ 

۱۲ بج کر ۴۵ منٹ پر حرمین شریفین کی برکات کے حصول کے لیے جدہ کے لیے جہاز روانہ ہوا۔ جدہ ایئر پورٹ پر مولانا مزمل حسین کپاڈیا حضرت کو لینے کے لیے آئے تھے، ان کے ہمراہ مکہ مکرمہ روانگی ہوئی۔ اس طرح اس سفر مبارک میں حرم کعبہ میں میزبانی کا شرف مولانا مزمل کے حصہ میں آیا۔ مولانا مزمل حسین کپاڈیا جامعہ بنوری ٹاؤن کے فضلاء میں سے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی مفتی اعظم پاکستان کے خصوصی تلامذہ میں ان کا نام سرفہرست ہے۔ حضرت مفتی ولی حسن صاحب کے ساتھ فتنہ انکارِ حدیث کے سلسلے میں کام کیا۔ اقراء روضۃ الاطفال کے بانیوں میں سے ہیں اور نائب مدیر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔ آج کل کُلیہ شرعیہ کی تعلیم کے لیے جامعہ ام القریٰ تشریف لائے ہیں۔ 

دو دن طویل سفر تھا، حضرت کو تھکان زیادہ تھی، اس لیے عصر کے بعد آرام فرمایا۔ بعد نماز مغرب مولانا مزمل حسین کے ہمراہ حرم بیت اللہ روانگی ہوئی۔ حضرت اقدس جب بیت اللہ پہنچے تو چہرہ مبارک عجیب انبساط اور خوشی کا مظہر تھا، کسی کو گوہرِ مقصود مل جائے، اس قسم کی کیفیت آپ پر طاری تھی۔ معصوم چہرہ جب خوشی سے منور ہو تو دیکھنے والے کو بھی سرور محسوس ہوتا ہے۔ وقار اور طمانیت کے ساتھ آپ نے بیت اللہ پر نگاہ پڑنے کی دعا فرمائی۔ احرام کو اضطباع کے مطابق کیا۔ حجرِ اسود کے قریب پہنچ کر نیتِ طواف فرماتے ہوئے پیدل بیت اللہ کا طواف فرمایا۔ طواف کی تکمیل پر ملتزم پر حاضری ہوئی۔ کافی دیر آہ و زاری کے ساتھ دعا میں مشغول رہے۔ بعد ازاں مقام ابراہیم پر تشریف لائے، دو رکعت واجب طواف ادا کر کے دیر تک دعا میں مشغول رہے۔ حرم بیت اللہ اور حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی دعا کا انداز ہی جدا تھا۔ ایک عجیب انداز میں آپ دعا فرماتے رہے۔ 

مقام ابراہیم سے جب سعی کے لیے صفا کی طرف چلے تو عشاء کی اذان کے لیے موذن نے اذان کے کلمات سے ندا دی۔ نماز عشاء ادا کر کے سعی شروع فرمائی۔ راقم نے اصرار کیا کہ گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے چلنا آپ کے لیے دوبھر ہے۔ چند قدم کے بعد سانس پھول جاتا ہے جس سے دل اور بلڈ پریشر کی تکلیف کا اندیشہ ہے۔ اس لیے کرسی پر سعی کرا دیتا ہوں۔ فرمایا، کرسی کی اجازت معذور افراد کے لیے ہے اور میں چل کر سعی کر سکتا ہوں۔ آہستہ آہستہ سعی شروع فرمائی۔ ہر چکر کے بعد پاؤں میں شدید تکلیف ہو جاتی تھی اور کئی منٹ بیٹھ کر پاؤں کی مالش وغیرہ کی جاتی۔ ان تمام تکالیف کو برداشت کیا لیکن کرسی پر بیٹھ کر سعی کرنا قبول نہیں فرمایا، ایک گھنٹہ میں سعی مکمل ہوئی اور گھر واپس تشریف لائے۔ 

دوسرے دن منگل کو مولانا مزمل حسین صاحب نے مکہ مکرمہ میں مقیم پاکستانی علمائے کرام کو مدعو کیا تھا تاکہ حضرت کی زیارت بھی ہو جائے۔ اس عشائیہ میں: مولانا عبد القیوم گلگتی جو دارالعلوم کراچی کے فاضل اور ام القریٰ میں بحیثیت محقق خدمات انجام دے رہے ہیں، کئی کتابوں پر آپ نے بہت عمدہ تحقیق کی ہے۔  مولانا سیف الرحمٰن جو حضرت درخواستی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسہ داماد اور حضرت مولانا حبیب اللہ گمانی کے تلمیذِ خاص، جامعہ اشرفیہ کے فاضل، اور مدرسہ صولتیہ میں استاد حدیث ہیں۔  مولانا علاؤ الدین افغانی جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، اور حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ خاص، مولانا حبیب اللہ گمانی اور مولانا مفتی احمد الرحمٰنؒ، مفتی ولی حسنؒ کے تربیت یافتہ، مدرسہ صولتیہ میں استاد حدیث۔ مولانا عبد الغفور سندھی جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، حضرت اقدس مولانا بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری شادی کی نسبت سے قرابت دار، رابطہ عالم اسلامی میں محقق۔  مولانا عبد القیوم سندھی جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی، مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی، مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی تلمیذ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل، جامعہ ام القریٰ میں استاد، تجوید القرآن اور تجوید کی دو کتابوں کے مؤلف۔ مولانا عبید اللہ جامعہ اشرفیہ کے فاضل، جامعہ ام القریٰ کے فاضل اور ڈاکٹریٹ کے سند یافتہ۔ محترم جناب انجینئر عبد المنان جن کو حضرت اقدس مرشدی مولانا فقیر محمد رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر علمائے کرام کی میزبانی کا شرف حاصل ہے۔  مکرم و محترم جناب حافظ عبد الستار حضرت شیخ کے متعلق خاص، علمائے کرام کے مکہ مکرمہ میں میزبان۔ عزیزم طاہر مکی جو حافظ عبد الستار کے صاحبزادے، مولانا عبد الحفیظ کے بھانجے اور حضرت مولانا مفتی محمود گنگوہی مدظلہ کے مرید خاص ہیں۔  برادرم محمد مسعود عبد الرزاق مرچنٹ قابل ذکر ہیں۔ 

حضرت اقدس سے علمائے کرام کی مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ حضرت اقدس نے علمائے کرام کو تلقین کی کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کی اشاعت میں صَرف کریں۔ بعد ازاں علمائے کرام کی نمائندگی کرتے ہوئے برادرم مولانا عبد القیوم سندھی نے حضرت اقدس سے درخواست کی کہ بخاری شریف کی چند احادیث سن کر اجازتِ حدیث مرحمت فرمائیں۔ حضرت نے پہلے بہت انکار فرماتے ہوئے کہا کہ آپ تمام علمائے کرام اور اہلِ علم ہیں۔ حرمِ کعبہ میں خدمتِ دین میں مصروف ہیں، مجھے زیب نہیں دیتا کہ میں آپ حضرات کو اجازت دوں۔ علمائے کرام حضرت اقدس کی تواضع سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور ان کے سامنے اپنے اکابر کی تصویر عملی شکل میں آگئی۔ بہرحال علمائے کرام کے اصرار پر حضرت نے اپنی دو سندوں کے مطابق اجازتِ حدیث اور اجازتِ تفسیر قرآن مرحمت فرمائی اور اپنے دستِ مبارک سے مولانا عبد القیوم سندھی کی فرمائش پر اجازتِ حدیث تحریر بھی فرما دی۔ 

نمازِ فجر حرمِ کعبہ میں ادا کی گئی۔ بعد نمازِ ظہر مولانا سیف الرحمٰن نے حضرت اقدس کے اعزاز میں ظہرانہ کا اہتمام کیا جس میں مدرسہ صولتیہ کے نائب مدیر مولانا محمد حلیم، مدرسہ صولتیہ کے مدرسین قاری محمد سراج اور عرب استاد مولانا علاؤ الدین افغانی، مولانا عبد القیوم سندھی وغیرہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر بھی ان علمائے کرام نے جو گزشتہ شب موجود نہیں تھے، اجازتِ حدیث طلب کی، حضرت اقدس نے ان کو اجازت حدیث و تفسیر مرحمت فرمائی۔ 

حضرت اقدس نے محترم مولانا حلیم صاحب سے مدرسہ صولتیہ کے حالات معلوم کیے اور بہت خوشی کا اظہار کیا کہ جناب مولانا شمیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ان کے دونوں صاحبزادے مولانا محمد ہشیم اور مولانا محمد حلیم اپنے اکابر کی طرز سے مدرسہ کا انتظام جاری کیے ہوئے ہیں۔ حضرت نے مدرسہ کی ترقیات اور حاسدین کے شر سے حفاظت کی دعا مانگی۔ رات بعد نماز عشاء مولانا عبد الغفور سندھی کے گھر میں عشائیہ کا اہتمام تھا۔ 

جمعرات کو مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم روانگی ہوئی۔ سیدھا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ ریاض الجنہ میں نوافل ادا فرما کر روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پیش فرمایا۔ کافی دیر اپنے محبوب و آقا سے راز و نیاز میں مصروف رہے۔ بعد میں روضہ اقدس اور امام کے داہنی طرف صف اول میں تشریف فرما ہو گئے۔ تلاوت کلام پاک میں تمام وقت گزارا ۔ ظہر کی نماز کے بعد حضرت کے پرانے شاگرد قاری محمد انور صاحب، قاری عبد العزیز نیازی محمد، مولانا مسعود صاحب تشریف لے آئے، انہوں نے حضرت سے درخواست کی کہ ان کے گھر میں آرام کے لیے تشریف لے جائیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ایئرپورٹ جانے تک تو حرمِ نبوی میں ہی وقت گزارنا ہے، ایئر پورٹ جاتے ہوئے جس کا گھر راستہ میں ہو، وہاں کچھ دیر کے لیے چلے جائیں گے، لیکن چلنے میں دقت ہے، اس لیے ایسی جگہ ہو جہاں چلنا نہ ہو۔ 

جناب عبد العزیز نیازی صاحب نے کہا کہ حضرت میرے پاس دروازے تک آنے کا اجازت نامہ ہے، میں گاڑی باب السلام پر لے آؤں گا۔ عصر کی نماز سے پہلے الوداعی سلام کے لیے حاضری ہوئی۔ بعد نماز عصر قاری محمد انور مولانا عبد العزیز نیازی کے ہمراہ مولانا مسعود صاحب کی مسجد میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے ظہرانہ اور عصرانہ کا مشترکہ اہتمام کیا ہوا تھا۔ وقت کی کمی کا گلہ کرتے ہوئے ان حضرات نے حضرت سے وعدہ لیا کہ آئندہ ان کے یہاں قیام فرمائیں گے۔ ایئرپورٹ تشریف لے گئے، شام سات بجے کی فلائٹ سے جدہ روانگی ہوئی۔ 

جدہ ایئرپورٹ پر عزیزم عامر سعید جو سعودی ایئر لائن میں ملازم ہیں، آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے گھر گئے۔ انہوں نے عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ برادرم مولانا مزمل حسین کپاڈیا، صاحبزادہ مولانا عبد الباسط (جو پاکستان کے ہیں۔ اچھے عالم اور خطیب ہیں۔ جدہ کی مشہور مسجد میں امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ان کے دروسِ قرآن جدہ کے مسلمانوں میں بہت مقبول ہیں۔ اردو نیوز میں قارئین کے مسائل کے فقہی جواب کا کالم بھی مقبولیت اختیار کر گیا ہے) نے بھی اس عشائیہ میں شرکت کی۔ رات عامر سعید کے یہاں قیام ہوا۔ 

صبح چھ بجے کراچی کے لیے براستہ ابوظہبی فلائٹ تھی۔ مزمل حسین کپاڈیا اور عامر سعید نے ایئرپورٹ کے تمام مراحل سے گزار کر حضرت اقدس اور راقم الحروف کو رخصت کیا۔ کراچی ایئر پورٹ پر مفتی خالد محمود جو جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی ولی حسن رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ خاص، اقرا روضۃ الاطفال کے نائب مدیر، مولانا عبد الخالق ناظم لاہور اقراء روضۃ الاطفال شاخ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، برادرم عبد الرزاق، حاجی شمیم احمد شمسی جو کراچی میں حضرت اقدس کے میزبان ہیں، استقبال کے لیے تشریف لائے تھے۔ ان کے ہمراہ شمیم شمسی کے گھر پر تشریف لے گئے۔ رات کو برادرم عبد الرزاق نے عشائیہ کا اہتمام کیا تھا، اس میں مولانا مفتی نظام الدین شامزئی فاضل جامعہ فاروقیہ اور جو جامعہ علوم اسلامیہ تھا  بنوری ٹاؤن کے استاد حدیث و مشرف تخصص فی الفقہ، مقدمہ صحیح مسلم اور دیگر کئی کتابوں کے مؤلف ہیں۔ برادرم عزیزم محمد وسیم غزالی اقرا ڈائجسٹ کے منتظم، علمائے کرام کے خادم مفتی خالد محمود، محترم شمیم احمد شمسی نے شرکت کی۔ 

حضرت اقدس نے مفتی نظام الدین سے تدریس اور مالاکنڈ میں نفاذ شریعت محمدی کی تحریک سے متعلق معلومات حاصل کیں اور حضرت مفتی نظام الدین کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی ترقیات کے لیے دعا فرمائی۔ صبح بھائی شمیم صاحب کے یہاں ناشتہ کر کے حضرت مولانا مفتی نظام الدین، بھائی شمیم احمد، برادر عبد الرزاق اور راقم الحروف نے حضرت اقدس کو لاہور کے لیے رخصت کیا۔ برادرم مولانا عبد القدوس قارن کو اللہ تعالٰی جزائے خیر عطا فرمائے، لاہور ایئرپورٹ تشریف لائے اور حضرت اقدس بخیریت و عافیت بروز ہفتہ ایک بجے دو پر گکھڑمنڈی اپنے دولت خانہ پر پہنچ گئے۔


اخبار و آثار

(دسمبر ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter