عالمِ اسلام کے مسائل، علمی و فکری تناظر میں

اقبال احمد صدیقی

جناب اقبال احمد صدیقی ملک کے معروف دانش ور صحافی ہیں، ایک عرصہ تک ’’اخبار جہاں‘‘ کراچی کے مدیر رہے ہیں اور ملتِ اسلامیہ کے مسائل و مشکلات کے ادراک و احساس سے بہرہ ور ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل کے حوالہ سے انہوں نے ’’الشریعہ‘‘ کے لیے مندرجہ ذیل مضمون ارسال کر کے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی ہے، جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں اور آئندہ بھی کرم فرمائی کی امید رکھتے ہیں۔ (ادارہ)


اقوام کی ترقی اور زوال میں ایک حد تک اندرونی انتشار، نفاق انگیز سرگرمیاں یا لاشعوری کوتاہیاں شامل ہوتی ہیں، لیکن آج عالمِ اسلام پر تمام سامراجی اور لادینی عناصر نے یلغار کر دی ہے۔ مثلاً‌ وادی جموں و کشمیر، فلسطین خصوصاً‌ بیت المقدس، بوسنیا ہرزگوینا، مصر، سوڈان، الجزائر، چیچنیا، دوسری نوزائیدہ اور روسی (مسلم ریاستیں) اور افغانستان میں مسلمانوں کا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کو تو امریکہ میں تختہ دار پر لے جایا جا رہا ہے۔ 

قومیں جب تباہ ہونے لگتی ہیں، فسق و فجور کو ثقافت اور روایات تمدن کا درجہ دے دیا جاتا ہے، تو اس منطقی عمل سے پہلے اس قوم کے اربابِ اقتدار اور اربابِ علم بگڑ جاتے ہیں۔ در حقیقت تاریخی ماثر بصائر و عبر پر عمیق نظر رکھنے والے مسلمان محقق حضرات کی اکثریت اس قول پر متفق ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کی ارفع و اعلیٰ حقانیت سے بے خبری اور چشم پوشی اختیار کرنے والے علم و عقل کی آویزش، نظریاتِ مستعار، اور افکارِ باطلہ کے گرداب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، اور ان میں سے بعض زیادہ خود فراموش اور خدا ناشناس لوگ بنی نوع انسان کے مجموعی مسائل کا حل فکری انحطاط کی اسی شکست و ریخت اور ’’محو تماشائے لب بام عقل‘‘ کے محدود دائرے میں ڈھونڈھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ دل کش اختراعات اور مسلک ایجادات کے اس ’’عجائب گھر‘‘ سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کچھ نظر آتا ہے تو یہ کہ خس و خاشاک کا ایک ڈھیر، اور حدِ نگاہ تک محض ایک سراب۔

یہ کوئی محتاجِ انکشاف راز نہیں کہ ہم کہیں، نہ خبر میں، بلکہ بوجوہ صراحت جانتے ہیں کہ جہانِ آب و گل اپنے تمام تر رنگ و روشنی کے باوجود خیر و شر سے مرکب ہے۔ علم مومن کی میراث ہے، علمائے حق انبیاء کے وارث ہیں۔ دینِ حق کی صحیح شناخت، شعور اور ادراک رکھنے والے ہمارے علو مرتبت اسلاف کے قائم مقام ہیں۔ بلکہ اس میں شک نہیں کہ انسانی شرافت، نیک نفسی، اخلاقِ کریمانہ، اور دینی شعائر کے مؤثر ابلاغ کی ذمہ داری پوری کرنے والا یہ مذہبی طبقہ معاشرے میں شریعت اور طریقت کا رہبر نگہبان ہے۔ 

خصوصاً‌ ان ناموافق حالات، طلبِ جاہ و حشم، حرص و طمع، ذاتی مفاد پرستی، دوسروں کا حق غصب کرنے کے رجحانات عام ہونے کے اس ماحول میں نیکی، ایمان، حق و انصاف پر ثابت قدم رہنا اور دوسروں کے لیے تقلید و ترغیب کی مثال بننا بڑی قوت ارادی ہے۔ اور شومئی قسمت سے کوئی شخص مردِ حق آگاہ ہو کر بھی اپنے فاضل اساتذہ اور بلند مرتبہ اسلاف کی پیروی اور دینی عظمت و ایمانی استقامت سے کنارہ کش ہو کر محض انفرادی منفعت، کرسئ اقتدار، اربابِ اختیار کی خوشنودی میں اپنا دامن دنیاوی کثافت سے آلودہ کر رہا ہے تو وہ عملاًً‌ خسارے میں ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ رحمت سے دوری اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ سے دوری، بے گانگی، اس خود پرست، خدا ناشناس کی دینی بدنصیبی بھی ہے اور دنیا میں بھی سیاہی، ذلت اور تحقیر بالذات اس کے لیے نوشتۂ دیوار ہے۔ علمائے حق نے اپنی زندگی میں بڑے صبر آزما مصائب جھیلے لیکن محکوم اور کاسہ لیس بن کر شاہانِ وقت کی دہلیز پر سجدہ ریز نہیں ہوئے۔ 

علم و عقل کی پوری آویزش میں صرف اسلام کی حقانیت ارفع و اعلیٰ ہے۔ اور کلامِ ربانی کی حکمت آفرینی اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اثر انگیزی اتنی مؤثر اور سحر خیز ہے کہ مبالغینِ اسلام پر اللہ رب العزت نے صرف ابلاغِ دینِ حق کا فرض چھوڑا ہے۔ ماضی کے دریچے گواہ ہیں کہ جب اللہ وحدہٗ لا شریک کے برگزیدہ بندے اور سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صاحبِ قاب قوسین کے اسوۂ حسنہ کے پیروکار یعنی سرکار دو عالم کے غلام کرۂ ارض پر مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب اسلام کا پیغامِ انقلاب لے کر پہنچے تو دور افتادہ ممالک میں بود و باش رکھنے والی اجنبی اقوام، دیس بدیس کے قبائل مختلف زبانیں بولنے والے امیر و غریب عوام و خواص نے ان علماء و مشائخ، مجاہدین اور صادقین کے روبرو اپنے آپ کو فرشِ راہ کر دیا۔ اور یوں جہل و کفر ایک خدا اور ایک رسولِ آخریںؐ اور دین کو مکمل کرنے والے صحیفۂ آسمانی قرآن کریم سے ناواقف معاشروں کی تاریکی میں صداقتِ اسلامی کا اجالا پھیل گیا، وہ توحید خداوندی کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔

کلمہ گویانِ حق کے حسنِ کلام نے، ان کے لائے ہوئے پیغاماتِ اخوت و محبت نے، انصاف اور مساوات کی تعلیم نے، ہر نسلی، تمدنی اور روایاتِ کہن کے احساس برتری کو یکسر معدوم کر دیا۔ اور فاران کی چوٹی سے مدینہ منورہ کی فضاؤں سے بلند ہونے والی ایک آہنگ دل نشیں کی صدائے بازگشت جب بھی اور جہاں بھی پہنچی اور مجاہدین اور خدامِ اسلام بحر و بر کے طویل راستے طے کر کے بنی نوع انسان کے لیے با مقصد زندگی گزارنے کا صحیح شعور لے کر آئے۔ افکارِ باطلہ کی بساط خودبخود الٹ کر رہ گئی۔

سرد ترین قلوب کو گرما دینے والی یہی ولولہ انگیز اور پر تاثیر آواز بے شمار فضائل و محامد والے آتا جنت باب حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، غازیان، مجاہدینِ اسلام، علمائے کرام، محدثین، فقہاء، مبلغین، مشائخ عظام کے ذریعہ ہر براعظم، ہر خطہ دشت و جبل، ہر صحرائی بستی، ساحل و آباد جزیرے اور ہر شاداب وادی میں گونجتی رہی، اذانیں بلند ہوتی گئیں، آفتابِ اسلامی کی شعاعوں سے اجالا پھیلتا گیا۔

آج نسلِ انسانی جس پر آشوب دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے اہلِ نظر بڑے درد مندانہ لہجہ سے سوال کرتے ہیں کہ ایک زمانہ علمائے حق کا وہ تھا جب وہ خطیبانہ شان سے عوام و خواص کو مخاطب کرتے تھے تو ان کی اثر انگیز بات دلوں میں بلکہ رگ و پے میں اتر جاتی تھی، اور وہ اس اظہارِ خیال کے نفسِ مضمون کو حرزِ جاں بنا لیتے تھے ، حرف و معنی کے ساتھ شعوری طور پر اپنا لیتے تھے۔ اور یہ مناظر تو ہم نے خود دیکھے ہیں کہ نماز عشاء کے بعد خطاب شروع ہو کر اذانِ فجر تک چلا لیکن حاضرین میں سے کوئی اپنی جگہ سے اٹھ کر نہیں گیا۔

لیکن آج ایسا کیوں نہیں ہے۔ کوئی مسئلہ اجتماعی ہو یا معاشرتی اہمیت کا مسئلہ ہو، یا علمی اہمیت کا، وہ ظن و تخمین کی نذر ہو جاتا ہے۔ قومی اور نظریاتی موضوع کا راستہ مصلحت روکتی ہے۔ بعض اوقات اچھے خاصے معروف علماء اہلِ دانش اور مشہور اہلِ قلم، سماجی زعماء بلند آہنگی تو اختیار کرتے ہیں لیکن حق گوئی اور اخلاقی جرأت سے محروم ہونے کے سبب سچائی کا ابلاغ نہیں کر پاتے۔ وہ ابہام کا دامن پکڑ لیتے ہیں اور ان کی آوازیں گلوگیر ہو جاتی ہیں۔ صاف اور صریح بات یہ ہے کہ جن کو خوفِ خدا کا احساس نہ ہو، ملت سے زیادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہو، منصب اور متوقع جاہ پرستی کی فکر لاحق ہو، ان کے وعظ و بیان میں نہ حلاوت اور جاذبیت باقی رہتی ہے، نہ دلوں میں گھر کر جانے والی تاثیر، جہاں سے فکری انقلاب برپا ہوتا ہے ۔ 

گویا وہی سوال بدستور قائم رہتا ہے کہ پھر کس کی نصیحت پر عمل کریں، کس مشعل کو ہاتھ میں لیں، کس اعتبار کا سہارا لیں۔ ایک خودنما عالم بے عمل ہو کر جہل و نفاق اختیار کر لیں، جب رہبر اور رہزن کا فرق مٹ جائے۔ پھر یہ تاویل پیش کی جائے کہ بعض مسائل خالص علمی نکات ہوتے ہیں، جنہیں سمجھنا سمجھانا محض خواص کا کام ہے، گویا دوسرے بے خبر اور بے تعلق رہیں۔ پھر ایک اور مشکل درپیش ہے کہ علم، عقل اور عشق کے خار مغیلاں میں ہمارا دامن ایسا الجھا ہے کہ پاسبانِ عقل کو تنہا چھوڑنے کا مشورہ بھی دیا جانے لگا ہے۔ جب کہ ثابت قدم وہ بھی ہیں:

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق 
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

جہاں تک علم کی فضیلت، حصولِ علم کی افادیت اور علمِ نافع کی ترویج و ابلاغ کا تعلق ہے ملتِ اسلامیہ کے ہر فرد، مسلم معاشرے اور ہر اسلامی فلاحی ریاست کے لیے اس کا درجہ اور مرتبہ فرضِ عین کا ہے۔ جس سے نہ انکار ممکن ہے نہ صَرفِ نظر کی اجازت دی گئی ہے۔ پھر ہم اس فرض اور خدمتِ خلق سے محروم کیوں ہیں؟ قومی خزانے سے فروغِ علم ہی پر کم سے کم سرمایہ کیوں خرچ کیا جاتا ہے۔ آقائے دو جہاں امام الانبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فروغِ علم کی تاکید ان الفاظ میں فرمائی ہے:

’’تم مسلمانوں کو ان کی متاعِ گمشدہ یعنی (دولت ِعلم) عطا کر دو‘‘۔ (حدیث نبویؐ ماخوذ جامع صغیر دیلمی فی مسندہ)

اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور انداز سے خواندگی کے فوائد بیان فرمائے:

’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان علم سیکھے اور پھر دوسرے مسلمان بھائی کو بھی سکھائے۔‘‘ (حدیثِ نبویؐ ترغیب و ترہیب) 

یہی سوال کہ اربابِ علم کی نت نئی اصطلاحات، ہلاکت خیز ایجادات، نظریاتی اختراعات اور بظاہر خوشحال لیکن عملاً زبوں حال اور دست و گریباں اقوامِ عالم کی صف میں مشرق و مغرب میں آج مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟ 

ممتاز عرب اسکالر ڈاکٹر عبد الحلیم اویسی نے اپنے تحقیقی مقالے ’’العقل المسلم و تحلیات القرن الجدید‘‘ میں اب سے چند سال قبل کہا تھا، حالانکہ اس وقت ۲۱ویں صدی کی آمد آمد کا شور و غوغا اتنی شدت سے بلند بھی نہیں ہوا تھا، نہ ان اندیشوں، خطرات اور قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا، کہ ۲۱ویں صدی کے آغاز پر دنیا بھر کے ممالک بڑے پیمانے پر سیاسی، جغرافیائی اور ثقافتی تغیرات سے دو چار ہوں گے۔ ۱۹ویں صدی کی تہذیبی سرگرمیاں ایک مدفون تمدن قرار پائیں گی، اور بیشتر قوموں اور ملکوں کی سیاسی، سماجی شناخت اور خانہ جنگی بلکہ داخلی و خارجی سطح پر ہونے والی شکست و ریخت کی تاریخ ازسرنو مرتب کرنا ضروری ہو جائے گی۔ 

بہرحال اب بنی نوع انسان کو عقل دانش کے جس نقطۂ عروج اور مادہ پرستی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی نوید ایک حسین خواب کے طور پر برملا سنائی جا رہی ہے، اس کے حقیقی نتائج فی الوقت نامعلوم ہیں۔ یا اس کا ٹھیک ٹھیک علم ۲۱صدی کے منصوبہ سازوں کو ہو گا۔ ہمارے سامنے تو مسئلہ جہل، اندھیرے اور بے خبری سے بچنے کا ہے۔ اس لیے علم درکار ہے۔

تقریباً یہی اضطراب اور کرب ہمیں مذکورہ بالا مقالے میں نظر آیا۔ فاضل عرب محقق کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ نئی صدی ہجری کی ابتداء کرتے ہوئے عقلِ مسلم کے لیے یہ ضروری ہے کہ مستقبل کے چیلنج سے غافل نہ رہے جس کا اسے بہرحال سامنا کرنا ہے۔ اور ملتِ اسلامیہ کے لیے یہ زیادہ سخت امتحان ہے۔ چونکہ اس سے ایمانی قوتِ، ملّی غیرت، جذبۂ جہاد کی توانائی اور خشیتِ الٰہی کا شعور و احساس خدانخواستہ چھین لیا جائے تو بندہ مومن بالکل تہی دامن اور خس و خاشاک کا ڈھیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ غیر مسلموں کے لیے تو مادی ترقی کافی ہے۔ 

اب مسلمانوں کی تمام تر توجہ اس نکتۂ ضرورت پر مرکوز ہے کہ آخر مسلمان جاہلیت، اقتصادی و سماجی پسماندگی، جمود، بے عملی اور ترقی یافتہ اقوامِ عالم کے دستِ نگر ہو کر کیوں رہ گئے ہیں؟ اقوامِ عالم کی پچھلی قطار میں کیوں کھڑے ہیں؟ کیا یہ بے تدبیری کا سانحہ ہے؟ 

راقم الحروف تلاشِ حق میں مصروف اس طبقۂ آگہی سے متفق ہے جو ایسی نام نہاد ترقی پسندی اور مادہ پرستی کی بیساکھی کے ذریعہ دنیا کی مالی و معاشی کایا پلٹ دینے کا دعویٰ کرنے والوں کو بیک جنبش قلم مسترد کر چکے ہیں، جن کا سارا آئیڈیل ازم خود کھوکھلے ستونوں پر کھڑا ہے، جن کے تصوراتِ حق و انصاف کی اخلاقی اقدار، اور جن کے عقائد روحانی وجدان سے خالی ہیں۔ وہ پرانے سودی مالیاتی اداروں، فلک بوس بینکوں، اور علاقائی ترقی کے پر فریب منصوبوں سے کشکول بردار پسماندہ اقوام کو بھیک تو دے سکتے ہیں لیکن خدا شناسی، حقیقی خالق و رازق، احترامِ انسانیت اور جذبۂ جہاد کا شعور نہیں دے سکتے۔

افسوسناک پہلو درماندہ حالات کا یہ بھی ہے کہ ہم عہدِ حاضر میں ارتکازِ دولت، جھوٹی شان و شوکت، اور تعیش پسندی کی مسابقت میں اتنے زیادہ مدہوش ہیں کہ اقوامِ عالم کی تاریخ و تمدن سے یہ عبرت حاصل کرنے کی فرصت بھی نہیں کہ جب کسی عہد یا نسل کی باگ ڈور جاہلوں، خود غرضوں، سچائی، انصاف اور احترامِ انسانیت کا خون بہانے والوں کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے تو قومیں اپنی تہذیبی خصوصیات اور مذہبی شعائر کے تقدس کے ساتھ تباہ ہو جاتی ہیں۔ ان کا تشخص اور نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ صرف اللہ تعالی کا حکم اور انبیائے صادقین کی رہنمائی اس تباہی کو روک سکتی ہے۔ 

اہلِ تحقیق حیرت زدہ ہیں کہ مسلمان کو جو علم عطا کیا گیا تھا، جو عقل و دانش دی گئی تھی، وہ کہاں ہے؟ وہی تو ایک (خوش نصیب انسان ہے) جس نے آسمان سے وحی پائی ہے۔ اور اس کے کان میں پہلی آواز آئی ہے کہ ’’اقرا‘‘ (پڑھ)۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس ایک لفظ نے علم و عقل کی دنیا کھول دی ہے۔ پہلی صدی کا دروازہ جس طرح اس لفظ نے کھٹکھٹایا تھا، آج پندرہویں صدی کے دروازے پر بھی وہ اسی طرح دستک دے رہا ہے۔ دعوتِ عام ہے کہ اس لفظ کے رموز پر پوری معنی آفرینی کے ساتھ غور کیا جائے۔ کیا یہ ویسا ہی بے عملی، پسماندگی، اور جاہلیت کا دور ہے جیسا اس وقت تھا، جبکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام مکہ مکرمہ کی نواحی پہاڑی کے غارِ حرا میں پہلی اور عظیم ترین تعلیم لے کر نازل ہوئے تھے۔

اقرا باسم ربک الذی خلق (۱) علم الانسان ما لم يعلم (۵) (سورۃ العلق) اس پوری سورۃ اور آیاتِ ربانی کا ترجمہ و تفسیر نہایت سنجیدہ غور و فکر کا مستحق ہے، تاہم مرکزی نکتہ اس کا یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو خزینۂ علم عطا کیا ہے، یا علم حاصل کرنے اور اس کی حکمتِ بلیغ عام کرنے کی ہدایت مضمر رکھی ہے، وہ کسی ایک موضوع یا علمی پہلو تک محدود نہیں، نہ مخصوص وقت اور زمانے کے لیے ہے۔ یہ تحفۂ خداوندی تو بنی نوع انسان کے لیے رنگ، خوشبو اور روشنیوں کی جگمگاہٹ لیے ہوئے ہے۔ اس میں شرط صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ’’جو علم ہو اللہ کے نام کے ساتھ ہو‘‘۔ چونکہ اس طرح ہر جہت سے علم خدا شناسی کی افادیت پوری کرے گا۔ اور آخرت تک زادِ سفر کے ساتھ پہنچنے کے لیے پل کا کام دے گا۔ ہمارے اہلِ قلم، فکری و ادبی اور نظریاتی محاذ پر کام کرنے والے متواتر غافل رہیں گے تو ان کا دین باقی رہے گا نہ دنیا میں فلاح واپس آئے گی۔

ہمارے ہاں ماضی قریب و بعید میں دین و دنیا، عقیدہ و عبادات، موجود اور لاموجود تمدنوں، مقامِ عقل و خرد، معاشی اصول و افکار، فلسفۂ جہاد، فکرِ سیاسی، قرآنی احکام، حدیث، فقہ، اجتماعی نظم و ضبط، اور دوسرے بے شمار موضوعات پر علمائے متقدمین، محققین نے بے شمار بلند پایہ ضخیم کتابیں تصنیف کی ہیں۔ تالیف و ترجمہ کا کام بھی ہمارے لائق اکابر نے بہت خوب کیا ہے۔ انہیں اکابر و اسلاف کی نشانی عہدِ حاضر کے صحیح العقیدہ علمائے کرام، اساتذہ اور مشائخ باعمل پر آج پھر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایمانی استقامت اور مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کو انحطاط اور زبوں حالی سے نکال کر گمشدہ عظمت واپس دلائیں۔ اور قیادت، امامت اور بے علمی و فکری رہنمائی کے پرچم کو تھام کر اللہ رب العالمین کو راضی کرتے ہوئے آگے چلیں۔ محض نعرے، محض وعدے، محض الزامات اور اختلافات ملتِ اسلامیہ کو کوئی اثاثہ نہیں دے سکیں گے۔


اسلام اور عصر حاضر

(دسمبر ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter