اقبالؒ اور تصوف

مولانا محمد عیسٰی منصوری

(مجلسِ اقبالؒ لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا کی تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ کی رونمائی کی تقریب سے ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری کا خطاب۔)


صدر محترم، مہمانانِ خصوصی اور حاضرینِ مجلس!

آج کی یہ مجلس ہمارے محترم بزرگ اور دوست، اور مجلسِ اقبال لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا صاحب کی مایہ ناز تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ کی رونمائی کے ضمن میں منعقد ہو رہی ہے۔ میں نے اخبار جنگ کی وساطت سے جناب بقا صاحب کے گرانقدر مضامین سے ہمیشہ استفادہ کیا ہے اور تقریباً ۱۵ سال سے بقا صاحب سے شناسائی و تعارف کا شرف بھی حاصل ہے۔ گزشتہ دنوں معلوم ہوا کہ اقبال اور تصوف کے موضوع پر آپ کی تازہ کتاب آئی ہے۔ میں کتاب حاصل کرنے کی فکر میں تھا کہ محترم بقا صاحب نے کرم فرمائی کی اور غریب خانہ پر تشریف لا کر کتاب عنایت فرمائی، ساتھ ہی آج کی مجلس میں خطاب کی دعوت بھی دی۔

کتاب کیا ہے، علوم و معارف کا گنجینہ ہے۔ اقبال کے کلام پر بقا صاحب کی جتنی گہری نظر ہے، اتنی ہی تصوف، علمِ کلام اور حضرات صوفیاء کرام کے احوال پر بھی نظر آئی۔ یہ چیز میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ کتاب میں انداز تحریر سلیس، عام فہم اور سادہ ہے۔ وحدۃ الوجود، مسئلہ جبر و قدر اور خودی جیسے معرکۃ الارا اور خالص علمی و فلسفیانہ مسائل کو اتنی سادہ زبان میں حل کیا ہے کہ اسے سہل ممتنع کہا جا سکتا ہے۔ نیز حضرات صوفیاء کرام کے احوال، ان کے افکار و معارف بڑے توازن و اعتدال اور جامعیت کے ساتھ کتاب میں آئے ہیں۔ میں اس بات کی شہادت دوں گا کہ اولیاء کرام کی خصوصیات، ان کے علوم و افکار اور امتیازات کو سمجھنے میں محترم بقا صاحب آج کے بیشتر علماء کرام سے زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ نیز اقبال کے اشعار، مضامین و نثری تحریروں کے انتخاب میں مصنف نے بڑی خوش ذوقی کا ثبوت دیا ہے۔ فاضل مصنف نے جس حسنِ نزاکت اور دیدہ دری کے ساتھ اقبال کے کلام کی تشریح و ترجمانی کی ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ یہ کتاب نہ صرف تصوف پر اقبال کا نکتہ نظر سمجھنے کے لیے کافی ہے بلکہ اقبال کے پیغام کی مقصدیت و افکار و تصورات کو سمجھنے اور ساتھ ہی نفسِ تصوف اور حضرات صوفیاء کے احوال اور علوم و افکار کو سمجھنے کے لیے بھی بیش قیمت وسیلہ ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں جن کتب سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا ہوں ان میں بقا صاحب کی یہ شاہکار تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ بھی شامل ہے۔ کتاب کے لفظ لفظ سے مصنف کی محنت اور قابلیت چھلکتی ہے۔ کتاب حشو و زوائد سے بالکل مبرا ہے۔ میں اتنی جامع، معلومات افزا اور بصیرت افروز کتاب لکھنے پر مصنف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی ان کے پبلشرز نے کتاب کو طباعت، جلد و سرورق کے لحاظ سے جتنے حسین و خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اس کے لیے میر شکیل الرحمٰن صاحب اور ادارہ جنگ بھی بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس کتاب کے ذریعے پہلی بار تصوف کے موضوع پر اقبال کے افکار و خیالات کا اتنا عظیم اور وقیع ذخیرہ سامنے آیا ہے۔ یہ واقعہ بھی ہے اور حادثہ بھی کہ تاریخ کی اکثر عظیم شخصیات مظلوم ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس ضمن میں جہاں اور بہت سے نام آتے ہیں اس میں علامہ اقبال بھی اس المیہ کا شکار ہیں۔ پاکستان میں اقبال پرستی کی ایک خاص فضا تیار کر کے اقبال فروشی کے کاروبار چمکائے گئے ہیں۔ اقبال کے افکار و آثار مسخ و مجروح شکل میں اس دھڑلے اور اس تکرار سے عام کیے گئے ہیں کہ حقیقی اقبال کی دریافت کارِ دشوار ہو گئی ہے۔ مرحوم آغا شورش کاشمیری نے کیا پتہ کی بات کہی ہے:

’’اقبال وہ شبلی نعمانی ہے جسے کوئی سلیمان ندوی نہ مل سکا۔‘‘

علامہ اقبال نے حافظ کی شاعری کے چند پہلوؤں پر تنقید کی تھی۔ اس کا سہارا لے کر علامہ کے نظریہ تصوف کے بارے میں شد و مد سے غلط فہمیاں پھیلائی گئیں اور انہیں تصوف کا مخالف مشہور کیا گیا۔ اس کتاب میں بقا صاحب نے وضاحت سے بتایا ہے کہ اقبال کس تصوف کے مخالف تھے اور کس تصوف کے موافق۔ بدقسمتی سے آج اقبال کا جانشین وہ طبقہ بن بیٹھا ہے جسے اقبال کے سوز و گداز، عشقِ نبویؐ اور اسلام کی انانیت و ابدیت پر یقین سے کوئی نسبت نہیں۔ جس کے نزدیک مغرب کی نقالی ہی ترقی کی معراج ہے۔ جو تصوف تو کیا اسلام اور اسلامی اقدار و روایات ہی سے باغی ہے۔ اس کے نزدیک اقبال کے کلام کا بہت بڑا حصہ منسوخ ہو چکا ہے جو تجدد پسندی اور مغربیت نوازی کے خلاف ہے۔ اسے صرف وہ چند اشعار یاد ہیں جو اقبال نے علماء سو یا جاہل صوفیا کے متعلق کہے ہیں۔ اس قسم کے چند اشعار کے حوالہ سے حضرات صوفیا اور تصوف کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ محترم بقا صاحب کی اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے میں خود اقبال کو نفسِ تصوف کے معاند گروہ میں سمجھتا تھا۔ ’’اقبال اور تصوف‘‘ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ تصوف کے متعلق اقبال کا نکتہ نظر بلا کم و کاست وہی ہے جو ہر دور میں علماء محققین اور اسلام کی نابغہ اور جلیل القدر ہستیوں کا رہا ہے، اور اس میں انتہائی توازن و اعتدال ہے۔

اقبال کے افکار کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے نفسِ تصوف پر ایک نظر ڈالیں۔ آج کے دور میں اسلام میں تصوف سے زیادہ شاید ہی کوئی مسئلہ متنازعہ فیہ ہو۔

  • ایک طبقہ تصوف پر، اس کی تمام جزئیات کے ساتھ بلکہ ہر ہر دور میں وسائل و ذرائع کے طور پر جو جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، جن میں بڑی حد تک ان ممالک کے معاشرہ و ماحول، اس قدر کے مزاج و نفسیات اور تہذیب و تمدن کا دخل ہے، من و عن ایمان لانا ضروری سمجھتا ہے۔
  • جبکہ دوسرا طبقہ نفسِ تصوف ہی کو اسلام کے خلاف سازش اور اسلام میں عجمی یا غیر اسلامی پیوند قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک تصوف بدعت بلکہ دین کی تحریف و تنسیخ ہے جس کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

آئیے ہم قرآن و سنت، رسول اللہؐ کی سیرتِ طیبہ اور تاریخ کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائزہ لیں:

جب ہم قرآن و سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ، آپ کے اقوال اور احوال پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دین کے دو پہلو ہیں:

  • ایک ظاہری احکام، نماز روزہ، ذکر و تلاوت، صدقہ و خیرات۔
  • اور دوسرے باطنی کیفیات، اخلاص و احتساب، خشوع و خضوع، صبر و توکل، تسلیم و رضا۔

پہلے کو فقہ ظاہر کہا جا سکتا ہے اور دوسرے کو فقہ باطن قرار دیا جا سکتا ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دی ہے۔ اس میں جہاں ظاہری احکام و اعمال داخل ہیں وہیں باطنی کیفیات، کمالِ ایمان، درجۂ احسان، تسلیم و رضا بھی داخل ہیں۔ اگر ان باطنی کیفیات کو ہم احسان و تزکیہ کے نام سے یاد کرتے یا اسے فقہ باطن کہتے ہیں تو اس شدید اختلاف کی نوبت نہ آتی۔ دورِ نبوت میں ہر مسلمان دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں پر مکمل طور پر عامل تھا۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، ذکر و تلاوت کے ساتھ ساتھ خشوع و خضوع، اخلاص و احسان اور رسولؐ کی محبت، آخرت کا شوق، استحضار، اخلاص و استقامت کا حصول، ساتھ ہی ریا، طمع، حبِ جاہ، دنیا کی محبت و حسد، تکبر و غرور جیسے رذائل و امراضِ باطنی کا علاج بھی ضروری سمجھتا تھا۔

اس باطنی پہلو کے حصول کے طرق و ذرائع کا نام بعد کی صدیوں میں تصوف پڑ گیا۔ چونکہ لفظ تصوف اور اس کی اصطلاحات و تعبیرات، اور اسی طرح وہ طرق و ذرائع جو تزکیہ باطن یا احسانی کیفیت کے حصول کے لیے بعد کے ادوار میں اختیار کیے گئے، کم از کم شروع کی ڈیڑھ صدی میں نہیں ملتے۔ اس لیے بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی غیر اسلامی چیز اسلام میں داخل ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری چیز جس نے تصوف سے بدظن کیا وہ ہر دور میں بعض پیشہ ور صوفیا کا وجود ہے۔ چنانچہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب ’’تزکیہ و احسان‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’دوسری چیز جس نے اس حقیقت کو زیادہ غبار آلود کر دیا وہ پیشہ ور، جاہ طلب، حقیقت فروش، اور الحاد شعار فاسد العقیدہ نام نہاد صوفی ہیں جنہوں نے دین میں تحریف کرنے، مسلمانوں کو گمراہ کر کے معاشرہ میں انتشار پیدا کرنے، آزادی و بے قیدی کی تبلیغ کرنے کے لیے تصوف کو آلہ کار بنایا۔ اور اس (تصوف) کے محافظ و علمبردار بن کر لوگوں کے سامنے آئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ غیرت اور اہلِ حمیت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان سے بدظن ہو گئی۔ کچھ غیر محقق صوفیا ایسے تھے جو اس شعبہ کی روح اور اس کے حقیقی مقاصد سے ناآشنا تھے۔ وہ مقاصد اور وسیلہ میں تمیز نہ کر سکے۔ بعض اوقات انہوں نے وسائل پر تو بہت اصرار کیا اور مقاصد کو نظرانداز کر دیا۔ اس شعبہ اور اس فن میں ایسی چیزیں داخل کیں جس کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا اور اس کو فن کی روح اور تن کا کمال قرار دیا بلکہ مقصود و مطلوب سمجھ بیٹھے۔‘‘ (ص ۱۸)

غرض ایسے صوفیا کی وجہ سے مخلصین اور باغیرت مسلمانوں کے ایک طبقہ میں نفسِ تصوف ہی سے دوری اور بُعد پیدا ہوا۔ اور انہیں اس بات کا اندیشہ ہونے لگا کہ تصوف کے نام پر جو عجمی افکار و تصورات دین میں داخل کیے جا رہے ہیں اگر انہیں رد نہیں کیا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام کی صحیح صورت ہی مسخ ہو جائے۔ اس لیے انہوں نے دین کی تحریف و تبدیلی کے اندیشہ سے نفسِ تصوف ہی سے انکار کر دیا۔ بندہ کے نزدیک تصوف سے تنفر اور دوری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعد کے ادوار میں ان علماء نے، جن پر تصور کا گہرا رنگ چڑھا ہوا تھا، اپنی نیک نفسی اور حسنِ عقیدت کی بنا پر بعض اکابر صوفیا کے صراحتاً غیر اسلامی افکار و خیالات اور بدیہی طور پر غلط بلکہ خلافِ اسلام باتوں کو، جو ان حضرات سے اکثر حالتِ سکر و حالتِ جذب میں صادر ہوتی رہی ہیں، دور اَز کار تاویلات کے ذریعہ شریعت کے مطابق ثابت کرنا چاہتا۔ جیسے محی الدین ابن عربی، منصور حلاج اور مہدوی فرقہ کے بانی شیخ محمد جونپوری کے افکار و دعووں کو صراحتاً خلافِ شرع کہنے کے بجائے ان بزرگوں کے علم و فضل، زہد و تقوٰی اور بعض ظاہری و باطنی کمالات کی وجہ سے ان کی غلط سے غلط باتوں اور دعووں کو کھینچ تان کر شریعت کے موافق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض علماء کا یہ طرز عمل خاص طور پر ہمارے اس دور میں تصوف کے لیے بہت بڑا حجاب بن گیا اور بعض حلقوں نے چند ایسی باتوں کو نہایت ہوشیاری سے نفسِ تصوف کے خلاف اور تصوف سے بدظن اور متنفر کرنے کے لیے بڑی بے رحمی سے استعمال کیا۔

جہاں یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ دورِ صحابہؓ کے بعد اسلام کی اشاعت میں سب سے نمایاں کردار حضراتِ صوفیا کا رہا ہے، دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسلام انہی پاک نفس اہل اللہ کے ذریعہ پھیلا ہے، وہیں دوسری جانب آج آپ کسی بزرگ کے مزار پر چلے جائیں تو وہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس کی ایک جھلک دیکھ کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ مشہور عالم ربانی، تصوف کے امام اور اپنے وقت کے بہت بڑے محقق مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اپنے آخری دور میں اعتراف کیا تھا کہ تصوف سے فائدہ بھی ہوا ہے اور نقصان بھی بے حد و حساب ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا منظور احمد نعمانی مدظلہ لکھتے ہیں:

’’تصوف کی تاریخ پر جن حضرات کی نظر ہے ان سے یہ بات مخفی نہیں ہو گی کہ مختلف زمانوں میں اس راہ سے کیسی کیسی گمراہیاں امت میں داخل ہوئی ہیں، اور آج بھی اپنے کو تصوف و صوفیا کی طرف منسوب کرنے والے حلقوں میں کتنی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے تصورات اور اعمال اسلام و توحید کی بہ نسبت کفر و شرک سے زیادہ قریب ہیں۔ اللہ نے جنہیں واقفیت اور بصیرت دی ہے، وہ جانتے ہیں کہ خانقاہی حلقوں میں اس قسم کی گمراہیاں زیادہ تر بزرگوں کے ساتھ عقیدت اور خوش اعتقادی میں غلو اور تعظیم میں افراط سے پیدا ہوئی ہیں۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۴۴)

یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے علماء محققین نے تصوف میں غیر اسلامی افکار و خیالات اور باطل نظریات و فلسفوں کو رد کیا ہے اور احسان و تصوف کو صاف و شفاف طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ مولانا ندوی لکھتے ہیں:

’’اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر ملک میں ایسے لوگ پیدا کر دیے جو دین کو مبالغہ کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کی غلط بیانیوں اور جاہلوں کی تاویلات سے پاک و صاف اور عجمیت و فلسفہ سے محفوظ کرتے رہے، بغیر کسی تاویل و تحریف کے خالص تزکیہ کی دعوت دیتے رہے، جس کا نام احسان اور فقہ باطن ہے۔ انہوں نے اس طبِ نبوی کی ہر زمانہ میں تجدید کا فرض انجام دیا۔‘‘ (ص ۱۸)

یقیناً آج بھی اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر دور کی طرح آج بھی غیر اسلامی چیزیں تصوف کا جزو بنتی جا رہی ہیں۔

اب آئیے اسلام میں لفظ تصوف اور اس کی تعبیرات کی درآمد کا سراغ لگائیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ لفظ تصوف اور اس کی بعض تعبیرات یونانی اشراقیت سے آئی ہیں، چنانچہ مشہور حکیم ابو ریحان بیرونی لکھتا ہے:

’’صوف یونانی میں حکمت کو کہتے ہیں میں حکمت کو کہتے ہیں اور اسی سے فیلسفوف کو یونانی میں ’’پیلا سوپا‘‘ کہتے ہیں یعنی حکمت کا عاشق۔ چونکہ اسلام میں بعض لوگ ان کے قریب گئے اس لیے وہ بھی اسی نام (صوفیہ) سے پکارے گئے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ۔ ص ۹۴)

لفظ تصوف پر بحث کرتے ہوئے مولانا ندوی لکھتے ہیں:

’’سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوا کہ اس لفظ کی حقیقت و مراد بتائیے؟ اس کا ماخذ  و منبع کیا ہے؟ آیا وہ صوف سے ماخوذ ہے یا صفا سے نکلا ہے یا صفہ سے؟ یا وہ ایک یونانی لفظ صوفیا سے لیا گیا ہے جس کے معنی حکمت بتائے جاتے ہیں؟ آخر یہ لفظ کہاں سے برآمد کیا گیا اور کس طرح اس کا رواج ہوا؟ جبکہ نہ قرآن و حدیث میں اس کا وجود ملتا ہے، نہ صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کے اقوال میں، نہ خیر القرون میں اس کا سراغ ملتا ہے۔ اور یہ ایسی چیز جس کا یہ حال اور جس کی یہ تاریخ ہو، بدعت کہلانے کی مستحق ہے۔‘‘ (تزکیہ و احسان ۔ ص ۱۴)

درحقیقت تصوف اسلام کے مدمقابل اور شریعت کے مخالف اسی وقت بنتا ہے جب بے جا طور پر تصوف کے نام پر یونانی فلسفہ یا افلاطونی افکار یا اشراقیت کو رائج کیا جائے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعد کے ادوار میں تصوف میں ان چیزوں کی آمیزش ہوئی ہے۔ بہت سے صوفیا یونان و اسکندریہ کے فلسفوں میں منہمک رہے ہیں۔ بعد کے دور میں ان حضرات کے فلسفیانہ افکار و خیالات کو بھی حسنِ عقیدت کی بنا پر دین یا تصوف سمجھ لیا گیا۔ چنانچہ علامہ سید سلمان ندویؒ لکھتے ہیں:

’’فلسفیانہ تصوف سے مقصود الٰہیات سے متعلق حکیمانہ خیالات رکھنا اور فلاسفہ کی طرح خشک زندگی اختیار کر کے ان کی اخلاقی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ اس فلسفیانہ تصوف کا ماخذ یونان کا اشراقی اور اسکندریہ کا افلاطونی اسکول ہونا بعض قدیم علماء کے نزدیک بھی مسلم ہے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۹۶)

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے رسالہ علم الظاہر والباطن میں باطنیہ و قرامطہ کی تلسیات کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اور اس قسم کی بہت سی باتیں متکلمین صوفیا کے کلام میں راہ پا گئیں۔‘‘

’’صوفیا میں بعض متکلمین کے طریق پر ہیں اور بعض فلاسفہ کے طریق پر اور ایک جماعت وہ ہے جو اہل حق کے مسلک پر ہے۔ جیسے فضیل اور وہ تمام لوگ جن کا امام قشیری نے رسالہ میں تذکرہ کیا ہے۔‘‘ (جلاء العینین ص ۳۵ ۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۹۹)

معلوم ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری کے اواخر سے ہی صوفیا کا ایک گروہ فلسفیانہ و کلامی مسائل کی بھول بھلیاں میں الجھ گیا تھا۔ ان میں سے بعض تو ایسے تھے جو انہیں باطل نظریات کے ہو کر رہ گئے تھے، جیسے کہ شیخ ابن سینا کے متصوفانہ فلسفہ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اسے یونانی فلسفہ، بدعتی جہمیہ کے خیالات، اور اسماعیلی (آغا خانی) قرامطہ باطنیہ کے ملحدانہ خیالات کا ملغوبہ قرار دیا ہے۔

بعض اکابر صوفیا کے فلسفیانہ مباحث میں مشغول رہنے کی سب سے واضح اور بدیہی مثال وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہے جو اصلاً فلسفہ کا مسئلہ تھا مگر صدیوں تک اسے مذہبی رنگ دے کر بال کی کھال اتاری گئی۔ خیال آتا ہے کہ وحدۃ الوجود جیسے فلسفیانہ مسئلہ پر صدیوں تک ہمارے صوفیا کرام الجھے رہے اور ہمارے بہترین دماغ اس کی گتھیاں سلجھانے میں منہمک رہے۔ آج کے دور اور موجودہ حالات کے پس منظر میں یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے مگر ہمیں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ حضرات صوفیا کے وحدۃ الوجود جیسے فلسفیانہ مسائل میں اشتعال پر اعتراض کی بڑی وجہ اس دور کا پس منظر سامنے نہ ہونا ہے۔

دوسری صدی ہجری کے اواخر میں جب اسلام عرب سے نکل کر دور دراز علاقوں تک پھیلا، اس دور میں یونان، ہندوستان، ایران وغیرہ میں دیدانت فلسفہ و حکمت کا بڑا زور تھا۔ اس دور کا تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ انہی اصطلاحات و تعبیرات میں بات کہنے اور سمجھنے کا عادی تھا۔ اسے اس دور کی زبان یا اس دور کا میڈیا کہا جا سکتا ہے۔ اب اہل اسلام کے ایک طبقہ نے اپنی بات سمجھانے کے لیے وہ زبان و اصطلاحات و تعبیرات استعمال کیں جو اس دور کی ضروریات اور اس دور کی زبان تھی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کوئی کامیاب ہوا، کوئی پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا۔ کسی نے کسی حد تک مسئلہ کو سلجھایا اور کسی نے مسئلہ سلجھانے کی کوشش میں اسے اور الجھا دیا۔ محققین نے ہمیشہ صوفیا کے فلسفیانہ مباحث میں اشتعال سے اختلاف کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کو صوفیا کے جس مسئلہ سے زیادہ اختلاف تھا وہ یہی وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’’اس وحدۃ الوجود کی غایت یہ ہے کہ اس کے ماننے والے عبد اور معبود، خالق اور مخلوق کا کردار، امر در امور، طاعت اور معصیت میں فرق نہیں کرتے۔‘‘ (طریق الہجرتین ص ۳۳۳)

’’ملاحدہ اہل وحدۃ الوجود کے نزدیک غیر حق عین حق میں گم ہو جاتا ہے بلکہ غیر حق کا وجود نفس حق کا وجود ہوتا ہے۔‘‘ (مدارج السالکین ج ۳ ص ۸۷ ۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۱۲)

دوسری چیز جس میں اہلِ تصوف حدِ اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں وہ احسانی کیفیت کے حصول کے وسائل و ذرائع، یا تربیت کے ان طریقوں پر اصرار کرنا ہے جو مختلف زمانوں میں اہلِ تصوف نے اختیار کیے ہیں۔ جن کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کوئی طبیب حاذق مریض کے لیے دوا تجویز کرتا ہے جو ہر مریض کے مزاج اور موسم و احوال کے اعتبار سے بدلتی رہی ہے۔ چنانچہ مولانا اسماعیل شہیدؒ فرماتے ہیں:

’’صوفیا کے نفع بخش اشغال کی حیثیت دوا و معالجہ کی ہے کہ بوقت ضرورت ان سے کام لے اور بعد کو پھر اپنے کام میں مشغول ہو۔‘‘ (ایضاح الحق الصریح۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۷۱)

چنانچہ محققین نے تصریح کی ہے کہ ان اشغال یا اوراد و وظائف کی حیثیت احسانی کیفیت کے حصول کے لیے محض ذریعہ کی سی ہے۔ جیسے مریض کے لیے دوا، جو ہر شخص کے مزاج اور ہر زمانہ کے مطابق بدلتی رہتی ہے، جس پر اصرار کرنا یا یہ سمجھنا کہ ان اشغال کے بغیر قلوب کا تزکیہ ہو ہی نہیں سکتا، صریح جہالت ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ قول جمیل میں فرماتے ہیں:

’’ہرگز خیال نہ کرنا کہ نسبت (خدا کا تعلق) بجز ان اشغال کے کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘

ان وسائل و ذرائع میں غلو کرنے یا انہیں ہی مقصودِ اصلی سمجھ لینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شریعت و طریقت کی دوئی کا ذہن بنتا ہے کہ شریعت الگ ہے، طریقت الگ، جو خالص جہالت و کم فہمی پر مبنی ہے۔ چنانچہ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں:

’’ اور بعض جہلا جو کہتے ہیں کہ شریعت اور ہے، طریقت اور ہے، محض ان کی کم فہمی ہے۔ طریقت بے شریعت خدا کے گھر مقبول نہیں۔ صفائی قلب کفار کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ قلب کا حال مثل آئینہ کے ہے۔ آئینہ زنگ آلود ہے تو پیشاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے اور گلاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن فرق نجاست و طہارت کا ہے۔ ولی اللہ کے پہچاننے کے لیے اتباعِ سنت کسوٹی ہے۔ جو متبع سنت ہے وہ اللہ کا دوست ہے۔ اگر مبتدع ہے تو محض بیہودہ ہے۔ خرق عادات تو دجال سے بھی ہوں گے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۵۹)

اس بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ آج کل تصوف کی جن باتوں پر اعتراض و اشکال کیا جاتا ہے، محققین کے نزدیک وہ مقصود و مطلوب نہیں ہیں۔ ان کی حقیقت محقق صوفیا کے نزدیک بھی محض وقتی وسائل و ذرائع کی ہے۔ چنانچہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی مدظلہ نے اپنی کتاب ’’تزکیہ و احسان‘‘ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تصوف و شریعت کے مابین نزاع درحقیقت نزاع لفظی ہے۔ دراصل دوسری صدی ہجری میں اہل تصوف نے ایسی تعبیرات و اصطلاحات استعمال کیں جو بظاہر قرآن و سنت اور دور نبوت و دور صحابہ میں نہیں ملتیں۔ یہ تعبیرات و اصطلاحات اس دور کی فلسفیانہ زبان تھی۔

اس میں شبہ نہیں کہ تعبیرات کا بھی ایک پس منظر ہوتا ہے۔ تعبیرات و اصطلاحات مستعار لینے سے اس دور کے افکار و خیالات اور فلسفیانہ اثرات کا آنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ تاریخِ تصوف کے لائق مصنف پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے تصوف کی یہ اصطلاحات و تعبیرات اور صفائی باطن کے ریاضات و مجاہدات ہندومت، بدھ مت، عیسائی و یہودی تصوف میں بھی تفصیل سے بیان کی ہیں۔ لیکن محض ان تعبیرات کو اختیار کرنے کی وجہ سے نہ دین کے اس اہم جزو کو چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ تزکیہ و احسان سے بے اعتنائی برتی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مولانا ندوی فرماتے ہیں:

’’چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن دین کے ایک شعبہ اور نبوت کے ایک اہم رکن کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہے اور اس کو تزکیہ سے تعبیر کرتا ہے، اور ان چار ارکان میں اس کو شامل کرتا ہے جن کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت سے متعلق اور مقاصدِ بعثت میں شامل تھی، اور زبانِ نبوت اس کو ’’احسان‘‘ سے تعبیر کرتی ہے جس سے مراد یقین و استحضار کی وہ کیفیت ہے جس کے لیے ہر مسلمان کو کوشاں ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ احسان کیا ہے تو آپ نے فرمایا، تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ (بخاری و مسلم)‘‘ (ملخصاً ص ۱۴ ۔ ۱۵)

یہی وہ تزکیہ و احسان ہے جسے دوسری صدی ہجری میں تصوف کے لفظ سے یاد کیا جانے لگا۔ آگے مولانا ندوی مزید وضاحت سے فرماتے ہیں:

’’زیادہ مناسب تھا کہ ہم اس علم کو، جس کا نام تزکیہ نفس و تہذیبِ اخلاق ہے، تزکیہ و احسان ہی کے نام سے یاد کرتے یا کم از کم فقہ باطنی ہی کہتے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید اختلاف و نزاع کی نوبت ہی نہ آتی اور سارا جھگڑا ختم ہو جاتا، اور دونوں فریق جن کو اصطلاح نے ایک دوسرے سے برسرِ نزاع کر رکھا ہے، مصالحت پر آمادہ ہو جاتے۔‘‘ (تزکیہ و احسان ۔ ص ۱۶)

’’اگر اہلِ تصوف اس مقصد کے حصول کے لیے (جس کو ہم تزکیہ و احسان سے تعبیر کرتے ہیں) کسی خاص اور متعین راستے یا شکل پر اصرار نہ کرتے (اس لیے کہ زمان و مکان اور نسلوں کے مزاج و ماحول کے ساتھ اصلاح و تربیت کے طریقے اور ان کے نصاب بدلتے رہتے ہیں) اور وسیلہ کے بجائے مقصد پر زور دیتے تو اس مسئلہ میں آج سب یک زبان ہوتے ور اختلاف کا راستہ ہی باقی نہ رہتا۔‘‘ (ص ۱۷)

اس کے بعد مولانا ندوی نے فیصلہ کن بات فرما دی ہے جو میرے نزدیک انتہائی قرین انصاف اور حرفِ آخر ہے۔ فرماتے ہیں:

’’میں تزکیہ کی کسی خاص لگی بندھی اور متعین شکل پر زور نہیں دیتا، جس کا رواج عام ہوا اور جس کا نام آخری دور میں تصوف پڑا، اور نہ ہی تصوف کے حاملین میں سے سب کو ہر طرح کی غلط روی و غلط فہمی سے بری سمجھتا ہوں، اور نہ ان کو معصوم قرار دیتا ہوں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس خلا کو، جو ہماری زندگی اور ہمارے معاشرہ میں واقع ہو گیا ہے، جلد پُر کیا جائے اور تزکیہ و احسان اور فقہ باطن کو پھر سے تازہ کیا جائے، جس طرح ہمارے اسلاف نے اپنے اپنے زمانہ میں تازہ کیا تھا، اور یہ سب منہاجِ نبوت اور کتاب و سنت کی روشنی میں ہو۔ بہرحال ہر دور میں اور ہر جگہ جہاں مسلمان بستے ہوں یہ کام ضروری ہے، اس لیے کہ حقیقت میں یہ خلا ایک عظیم خلا ہے اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس کے اثرات و نتائج بہت دور رس ہیں۔

اپنے اپنے دور میں اس ذمہ داری کو ادا کرنے والوں اور اس خدمت کے انجام دینے والوں پر تنقید کرنے والوں سے ایک عربی شاعر کی زبان میں کہنا چاہتا ہوں ؏

اقلو علیھم لا ابا لابیکم من اللوم او سدوا المکان الذی سدوا۔

’’ان اللہ کے بندوں پر ملامت بہت ہو چکی۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ان کی جگہ لینے والا اور درد کا مداوا کرنے والا کوئی ہے؟‘‘ (تزکیہ و احسان ص ۲۴۔۳۵)

اس ساری بحث کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلو ضروری ہیں، اور تصوف اس دوسرے پہلو کے حصول کا محض ایک ذریعہ رہا ہے۔ محقق صوفیا کے نزدیک بھی تصوف کے اشغال مقصودِ اصلی نہیں بلکہ عشق و اخلاص اور خدا کا تعلق پیدا کرنے کے ذرائع ہیں۔ اسی طرح بیعت بھی ضروری و لازمی نہیں، محض اعتماد کے اظہار کا طریقہ ہے۔ اور کسوٹی بہرحال قرآن و سنت ہی ہے، نہ کہ کوئی بزرگ یا ولی۔ لیکن آج کل بعض پڑھے لکھے لوگوں نے یہ فیشن بنا لیا ہے کہ بڑی بے باکی سے نفسِ تصوف ہی کو زیغ و ضلال اور گمراہی کہہ دیتے ہیں۔ عام طور پر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اس کوچہ سے نا آشنائے محض ہوتے ہیں بلکہ اسلام کے فرائض کی ادائیگی سے بھی کوسوں دور ہوتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر اسلام کی ۱۴ سو سالہ تاریخ سے اہل اللہ بزرگانِ دین اور ان کی کاوشوں کو الگ کر دیا جائے تو اسلامی تاریخ کے بہت بڑے حصے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ کیا کوئی ذی عقل اسے باور کر سکتا ہے کہ ۱۴ سو سال سے اسلام کے علمبردار اکابر اہل اللہ اور صوفیائے کرام سب کے سب اصل دین سے دور محض گمراہی میں رہے؟

اب آئیے کتاب اللہ کی طرف، قرآن عظیم رہتی دنیا تک کے لیے ہدایت نامہ بن کر آیا ہے اور اس کا دعوٰی ہے ’تبیانا لکل شئی‘‘ یعنی انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی، قرآن نے اسے مکمل طور پر بیان کر دیا، کوئی پہلو ادھورا نہیں چھوڑا۔ آئیے غور کریں کہ قرآن سے ہمیں اس ضمن میں کیا رہنمائی ملتی ہے۔

تصوف اپنے انجام کے اعتبار سے رہبانیت سے زیادہ قریب ہے کہ تصوف میں غلو کا نتیجہ ہمیشہ ہر دور اور ہر ملت و مذہب میں رہبانیت کی صورت میں نکلا ہے۔ قرآنِ عزیز نے اپنے معجز انداز میں چند الفاظ میں رہبانیت کی پوری تاریخ بیان کر دی ہے۔ سورہ حدید میں ارشاد ہے:

ورھبانیۃن ابتدعوھا ما کتبنٰھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللّٰہ فما رعوھا حق رعایتھا فاٰتینا الذین اٰمنوا منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔

(ترجمہ) ’’انہوں نے رہبانیت کو خود ایجاد کر لیا، ہم نے ان پر اس کو واجب نہ کیا تھا۔ لیکن انہوں نے اللہ کی رضا کے واسطے اس کو اختیار کیا تھا، تو انہوں نے اس رہبانیت کی پوری رعایت نہ کی۔ ان میں جو لوگ ایمان لائے، ہم نے ان کو ان کا اجر دیا اور زیادہ ان میں نافرمان ہیں۔‘‘ (از مولانا تھانویؒ)

یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ چند لفظوں میں رہبانیت کی پوری تاریخ بیان کر دی۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نصف آیت میں رہبانیت کی پوری انسائیکلوپیڈیا کو بند کر دیا ہے۔ اس آیت سے اصولی طور پر چند امور کی طرف رہنمائی ملتی ہے: (۱) رہبانیت خدا نے فرض نہیں کی۔ (۲) انسانوں نے اسے خود اختیار کیا۔ (۳) جذبہ و نیت اچھی تھی یعنی خدا کے قرب و رضا کے  حصول کی نیت رکھتے تھے۔ (۴) اس کے حدود کی رعایت نہ رکھ سکے۔ (۵) نتیجہ یہ ہوا کہ گمراہی و نافرمانی میں پڑ گئے، خدا سے قریب ہونے کے بجائے خدا سے دور ہو گئے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو تصوف کی تاریخ بھی یہی ہے کہ اللہ کے مخلص اور نیک بندوں نے احسانی کیفیت اور خدا کے تعلق و محبت کے حصول اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے کے لیے اپنے اپنے دور میں عبادات و ریاضات، اذکار و ادوار کے مختلف طریقوں کو اپنایا۔ جب تک شریعت کی حدود میں رہے ان سے فائدہ اٹھایا، اور جب غلو آ گیا تو یہی چیزیں گمراہی و نافرمانی بنتی چلی گئیں۔

حضراتِ سامعین! اگرچہ تصوف پر تمہیدی کلام کچھ طویل ہو گیا ہے مگر علامہ کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے یہ تفصیل ضروری معلوم ہوئی۔ اب آئیے اس طرف کہ تصوف کے متعلق علامہ کا نقطہ نظر کیا ہے۔ علامہ کی تحریروں کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں:

’’حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے مکتوبات میں جگہ جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تصوف شعائر فقہ اسلامیہ میں خلوص پیدا کرنے کا نام ہے۔ اگر تصوف کی یہ تعریف کی جائے تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ راقم الحروف اس تصوف کو، جس کا نصب العین شعائر اسلام میں مخلصانہ استقامت پیدا کرنا ہو، عین اسلام جانتا ہے اور اس پر اعتراض کرنے کو بدبختی و خسران کے مترادف سمجھتا ہے۔ لیکن اہلِ نظر کو معلوم ہے کہ صوفیائے اسلام میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو شریعتِ اسلامیہ کو علمِ ظاہر کے حقارت آمیز خطاب سے یاد کرتا ہے اور تصوف سے وہ باطنی دستور العمل مراد لیتا ہے جس کی پابندی سے سالک کو فوق الادراک حقائق کا عرفان ہوتا ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۸)

شاہ سلیمان پھلواری شریف کے نام مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’حقیقی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے تصوف کو کرات سے دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے ضرور غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے وہ تصوف کا خیرخواہ ہے نہ کہ مخالف۔ انہی غیر اسلامی عناصر کی وجہ سے مغربی محققین نے تمام تصوف کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے اور یہ حملہ انہوں نے حقیقت میں مذہب اسلام پر کیا ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۱۹۷)

ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’تصوف کی ادبیات کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے تعلق رکھتا ہے نہایت قابل قدر ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے طبیعت پر سوز و گداز کی حالت طاری ہوتی ہے۔ فلسفہ کا حصہ محض بے کار اور بعض صورتوں میں میرے خیال میں قرآن کے مخالف ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ۲۰۳)

سید نذیر نیازی کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اسلام کو فطرت کے طور پر Realize کرنے کا نام تصوف ہے اور ایک اخلاص مند مسلمان کا فرض ہے کہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے۔‘‘ (اقبال و تصوف)

اسی طرح ایک عزیز دوست کو لکھتے ہیں:

’’تصوف لکھنے پڑھنے کی چیز نہیں، کرنے کی چیز ہے۔ کتابوں کے مطالعے اور تاریخی تحقیقات سے کیا ہوتا ہے۔‘‘ (ص ۲۹)

ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’خدا شناسی کا ذریعہ خرد نہیں عشق ہے، جسے فلاسفہ کی اصطلاح میں وجدان کہتے ہیں۔‘‘ (ص ۲۰۳)

رومی کے ایک شعر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، عالم قلم پر چلتا ہے اور صوفی قدم پر۔

ظفر احمد صدیقی کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں کے ساتھ محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکامِ الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصد ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا کہا ہے، بعض نے اس کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی و ایرانی صوفیا جن سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ محض ہے۔ میرے عقیدے کی رو سے یہ تقسیم، بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں میری تمام تحریریں اس تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۱)

علامہ نے متعدد جگہ بصراحت اس کی تکرار کی ہے کہ وہ کس تصوف کے خلاف ہیں۔ درحقیقت تصوف میں جو عجمی اثرات ہیں، خواہ وہ ہندی ویدانت کے ہوں، بدھ مت یا عیسائیت کے، یونانی اشراقیت کے ہوں یا ایرانی، یا  ان لا یعنی فلسفوں کے جن میں ایران صدیوں تک مشغول رہا اور جس کی وجہ سے قدیم عربی لٹریچر میں ایران پر خاص طور پر عجم کا اطلاق ہوتا ہے، غرض ہر وہ چیز جو باہر سے درآمد کی جائے یا جمود کی طرف لے جائے یا جس میں شریعت و طریقت کی دوئی یا باطنیت کا شائبہ پایا جائے، علامہ کی طبیعت اس سے ابا کرتی ہے اور وہ اس کے خلاف احتجاج بلکہ جہاد اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ’’اقبال اور تصوف‘‘ کے مصنف جناب شریف بقا صاحب لکھتے ہیں:

’’بعض اہلِ طریقت یا اہلِ تصوف شریعت کے علم کو ظاہری علم اور تصوف و طریقت کے علم کو باطنی قرار دیتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں علمِ باطن علمِ ظاہر سے زیادہ اہم ہے۔ علامہ اقبال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل پیغام کو قرآن و سنت میں محفوظ خیال کرتے ہیں۔ علمِ مخفی یا علمِ باطن کے عقیدے کو ختمِ نبوت اور قرآنی ہدایت کی تکمیل کے منافی سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ خدا کے اس آخری نبیؐ نے خدا کا پورا پیغام مسلمانوں کو پہنچا دیا تھا۔ اس لیے وہ کسی مخفی علم کو حضورؐ سے منسوب کرنا قرآنی اعلان کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ وہ شریعت و طریقت کو ایک ہی حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے مرشد مولانا روم فرماتے ہیں کہ

’’شریعت ہمچو شمع است کہ رہ می نماید، چوں در راہ آمدی این رفتن تو طریقت است، چون بمقصود رسدی این رسیدن تو حقیقت است‘‘ (مثنوی دفتر پنجم)

’’شریعت راستہ دکھانے والی شمع کے مانند ہے، جب تو اس راہ میں آیا تو تیرا چلنا طریقت ہے، اور جب تو منزل مقصود تک پہنچ گیا تو تیرا یہ وہاں پہنچنا حقیقت ہے۔

یعنی شریعت روشنی ہے اور طریقت راستہ، جو منزل تک پہنچنے میں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اس لیے شریعت و طریقت ایک دوسرے کے مخالف کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘

علامہ کے نزدیک نظری طور پر عربوں کا مزاج اسلام کے مطابق ہے اور عجمیت اسلام کی شکل مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ اس لیے وہ اسلام میں عجمی اثرات کے سخت مخالف ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ عجمیت سے الرجک ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر سید یامین کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’میری رائے میں عجمیت ایشیا کے مسلمانوں کے لیے تباہی کا باعث ہوئی ہے۔ اس وقت اس باطل کے خلاف جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۱)

جب تک اسلام جزیرۃ العرب میں تھا اس میں حرارت و حرکت کا عنصر شامل تھا، لیکن جب دیگر ممالک تک پھیلا تو آہستہ آہستہ اس میں عجمی اثرات شامل ہوتے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ؎

یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی

علامہ، نیاز احمد کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام میں ہندی و یونانی تخیلات داخل کیے جا رہے ہیں۔‘‘ (ص ۲۰۶)

اسی طرح ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:

’’عجمیت کی دھند سے باہر نکل کر عرب کے صحرا کی شاندار دھوپ میں چلو۔‘‘

اور

شیخ احمد سید گردون جناب
کا سب نور از ضمیرش آفتاب
با مریدے گفت اے جان پدر
از خیالات عجم باید حذر

شیخ احمد رفاعیؒ ایک عظیم المرتبت بزرگ تھے۔ سورج ان کے ضمیر سے اکتساب نور کرتا، انہوں نے ایک مرتبہ اپنے مرید سے کہا، بیٹا تجھے عجمی خیالات سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اسی طرح ایک جگہ فرماتے ہیں:

وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا

ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’تصوف غیر اسلامی عنصر سے خالی نہیں اور میں مخالف ہوں تو صرف ایک گروہ کا جس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیعت لے کر دانستہ و نادانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی جو مذہبِ اسلام سے تعلق نہیں رکھتے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۲)

شیخ محی الدین ابن عربی جنہوں نے ساتویں صدی ہجری میں خالق و مخلوق کے اتحاد کو تصوف کا جزو لاینفک بنا دیا تھا، ان کے بارے میں علامہ لکھتے ہیں:

’’مسلمانوں اور ہندوؤں کی تاریخ میں ایک عجیب و غریب ذہنی مماثلت ہے۔ جس نکتہ خیال سے شری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی، اسی نکتہ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی۔ انہوں نے مسئلہ وحدۃ الوجود کو اسلامی تخیل کا جزو لاینفک بنا دیا۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۶)

وحدۃ الوجود کے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ہمہ اوست مذہبی مسئلہ نہیں فلسفہ کا مسئلہ ہے۔ وحدت و کثرت کی بحث سے اسلام کو کوئی سروکار نہیں۔ اسلام کی روح توحید ہے اور اس کی ضد کثرت بلکہ شرک ہے۔ وہ فلسفہ و مذہبی تعلیم جو انسان کی شخصیت کی نشوونما کے منافی ہو، بے کار چیز ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۶)

سراج الدین پال کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل میں باطنی معنی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دینا ہے (جیسا کہ قرامطہ کے طرزعمل سے ثابت ہے)۔ یہ نہایت عیارانہ طریقہ تنسیخ ہے۔‘‘ (ص ۲۰۳)

خواجہ حسن نظامی کے نام اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں:

’’رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر قوم میں پیدا ہوئی ہے اور ہر جگہ اس نے قانون اور شریعت کا مقابلہ کیا ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنا چاہا ہے۔ اسلام درحقیقت اسی رہبانیت کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۲)

علامہ کا اسلام کی صلاحیت پر اعتماد اور اذعان کا یہ عالم تھا کہ ایک مجلس میں:

’’ہم نے آپ سے دریافت کیا، فوق البشر کی تعریف کیا ہے؟ کہنے لگے ہر صحیح مومن فوق البشر ہے۔ اسلام وہ سانچہ ہے جس میں فوق البشر ڈھلتے ہیں ۔۔۔۔ کہنے لگے ہیرو کی تعریف یہ ہے کہ وہ انسان جس کے اعمال و افعال نوع انسانی کے لیے چشمہ ہائے زندگی جاری کرنے والے ہوں۔ شخصیت پرستی (Heroworship)  ہندو قوم کی امتیازی صفت ہے، مگر اسلام اس کے خلاف ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۰)

علامہ ہمیشہ ان علمائے حق اور صوفیائے عظام کے بڑے مداح اور دل سے قدردان رہے جنہوں نے تصوف کو شریعت کی حدود میں رکھا۔ ایسے علما و بزرگان دین سے بصد ادب ملتے اور ان کے مزارات پر بصد شوق و ادب حاضری دیتے، ان کے کارناموں سے مسلمانوں کے دلوں کو گرماتے، اپنے آخری دنوں میں مولانا ابوالحسن علی ندوی (جو ان دنوں نوعمر تھے) سے ملاقات کے دوران فرمایا:

’’اسلام اپنے پیروؤں میں عملیت اور حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی تجدید و احیا کی بات نکلی تو فرمایا، شیخ احمد سرہندیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور سلطان محی الدین عالمگیر کا وجود اور ان کی جدوجہد نہ ہوتی تو ہندوستانی تہذیب و فلسفہ اسلام کو نگل جاتا۔‘‘ (اقبال و تصوف)

ایک جگہ اکبر الٰہ آبادی کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’مجدد الف ثانیؒ اور مولانا اسماعیل شہیدؒ نے اسلامی سیرت کے احیا کی کوشش کی مگر صوفیا نے اس گروہِ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۷)

جاوید نامہ کے اخیر میں خطاب بہ جاوید کے عنوان سے چند باتیں جاوید کے لیے لکھی ہیں۔ ان میں ایک جگہ علامہ نے چودھری محمد حسین سے کہا:

’’عصرِ حاضر میں قحط الرجال ہے اور مردانِ خدا کا ملنا کتنا مشکل ہو رہا ہے۔ اگر تم خوش قسمت ہوئے تو تمہیں کوئی صاحبِ نظر مل جائے گا۔ اگر نہ ملا تو تم میری ہی نصائح پر عمل کرنا۔ پھر کہنے لگے، میرے مرنے کے بعد جاوید جوان ہو تو اسے ان اشعار کا مطلب سمجھا دینا۔‘‘

اب آخر میں علامہ کی ایک نصیحت سن لیجئے۔ اکبر الٰہ آبادی کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’کوئی فعل مسلمان کا ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ کے سوا کچھ اور ہو۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۲)

حضرات! بندہ نے ’’اقبال اور تصوف‘‘ سے یہ چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔ بندہ آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا علامہ کی ان روشن تحریروں اور افکار کی روشنی میں کوئی ذی عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ علامہ نفسِ تصوف کے خلاف تھے؟ اور کیا آج کے اقبال شناسی کے دعوے داروں کو اقبال کے فکر و ذہن یا افکار و خیالات سے کوئی دور کی نسبت بھی ہے؟

شخصیات

(اگست ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter