قانون گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان والا تبار میں دل آزار بات کہنے والے کو سزائے موت دی جائے گی۔ پاکستان کی مسیحی اقلیت اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ اسے انسانی حقوق کی مخالفت، آزادی فرد، فکر، مذہبی آزادی، اقلیتوں کے عقائد و عبادات کی آزادی، مسلّمہ بین الاقوامی حقوق اور اقوام متحدہ کے منشور انسانی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ اسے شخصی آزادی پر قدغن بتایا جاتا ہے۔ اس قانون نے مسیحیوں کو امتیازات کا نشانہ بنایا ہے اور انہیں دوسرے تیسرے درجہ کے شہری بنا کے رکھ دیا ہے۔
مسیحی ماہنامہ ’’کاریتاس‘‘ لاہور مئی ۹۴ء میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ
- تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی آئینِ پاکستان کے منافی ہے،
- اس سے اقلیتوں کے تحفظ کا عہد مجروح ہوتا ہے،
- یہ قانون شہریوں پر ناانصافی اور عدمِ تحفظ کے دروازے کھولتا ہے،
- حکومت کو سماجی انصاف اور معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیتا ہے،
- آئینِ پاکستان میں شہریوں کو دی گئی اظہارِ رائے کی آزادی سے محروم کرتا ہے،
- آئینی شہری آزادیوں کو استعمال کرنے میں مانع ہے،
- یہ قانون انسانی حقوق کے عالمی منشور کی کئی دفعات اور سماجی حقوق اور انصاف کے کئی بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اتنا کچھ پڑھ پڑھ کر میں حیرت میں ڈوبا جاتا تھا کہ یاخدایا! ایک ارب سے زائد انسانوں کی محبوب ترین شخصیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے سے روکنے پر مسیحی آزادیٔ تحریر و تقریر سے یکسر محروم ہو گئے! بے چارے بے دست و پا ہو گئے! ان کی سوچ و فکر کی قوتیں شل کر دی گئیں! ان کی کتنی شہری آزادیاں بھاڑ میں جا گریں! یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ مسیحی آہ و زاریوں کی بنیاد دراصل وہ اندازِ فکر ہے جس کی جڑیں مغربی افکار میں پیوست ہیں۔
اقوامِ مغرب کی سوچ کی راہیں متعین کرنے میں یونانی بت پرستی، یونانی مذہبی اقدار و شعائر، یونانی عقائد و عبادات، اور یونانی اور رومی تہذیب و ثقافت کا کردار بنیادی ہے، جسے تحریکِ اصلاحِ کلیسیا نے جلا و مہمیز بخشی تھی۔ بت پرستی میں انسانی اخلاق و اعمال پر کسی پابندی کا قطعی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ بت پرست انسان جو کرے وہی اس کا مذہب ہوتا ہے، جو وہ کہے باون تولے پاؤ رتی بجا و درست ہوتا ہے۔ اس کا ہر ہر قول و فعل پابندی، احتساب، تنقید اور اچھائی برائی کے معیاروں سے ماورا اور بالاتر ہوتا ہے۔ بت پرستی انسان کو مادر پدر آزادی عطا کرتی ہے۔ بت پرستوں کی سوچ و فکر کے گھوڑے بے لگام ہوتے ہیں۔ بت پرست اپنے خداؤں کو بھی نہیں بخشتے، انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
عیسائیت اس طریقِ فکر میں مستغرق اور رنگی ہوئی ہے۔ یہ امور عیسائی ذہنیت کا بنیادی پتھر ہیں۔ چنانچہ ’’آرتھوڈاکس چرچ آف پاکستان کے تمام شرکائے کلیسیا کے نام کھلا خط‘‘ میں پادری خورشید عالم ڈی ڈی بشپ پریسیٹیرین چرچ آف پاکستان بتاتے ہیں کہ انگلستان کا بادشاہ ہو یا ملکہ وہ انگلستان کا مذہبی سربراہ اور پارلیمانی ’’قانونِ برتری‘‘ کے باعث ’’سردار اعلیٰ اور محافظ دین‘‘ ہے۔ اس کی سرپرستی میں برطانوی پارلیمنٹ نے مرد کی مرد سے بدفعلی کو جائز قرار دیا اور اس غیر فطری گناہ کو تعزیرات میں نظرانداز کر دیا۔ اس روسیاہی کو گناہ نہ ٹھہرانے کے لیے ایک ممتاز مذہبی رہنما انگلیکن کینن کہف مونٹ فائر نے جولائی ۱۹۶۷ء میں مسیح کے شادی نہ کرنے اور مجرد رہنے کی وجہ یہ بتائی کہ مسیح لونڈے بازی سے گزارا کر لیا کرتا تھا (نعوذ باللہ)۔
پچھلے سال برطانیہ کے روزنامہ ٹیلی گراف میں یہ خبر چھپی کہ ایک گرجا کے پادری نے اپنی کتاب میں بتایا کہ وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس پر اس کے عقیدت مند دو پارٹیوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ ایک منکرِ خدا کو پادری کے فرائض ادا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ دوسری پارٹی کا کہنا تھا کہ اس میں کیا حرج ہے؟ انکارِ خدا پادری کا ذاتی نظریہ ہے، ہم اس کی شخصی آزادی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔
برطانیہ میں ’’گستاخِ مسیح‘‘ کا قانون موجود ہے۔ حال ہی میں بی بی سی پر دکھائی جانے والی فلموں کے بارے میں اس قانون کا ذکر آیا تو انسانی حقوق کے یورپی کمیشن نے سرکار برطانیہ کو اس قانون پر نظرثانی کا مشورہ دیا۔ مسلمانوں نے اس قانون کا دائرہ کار وسیع کرنے کا مطالبہ کیا۔ بحث بڑھی تو ایک ممتاز عیسائی رہنما بشپ آف ڈرہم نے کہا کہ ’’خدا کو گستاخی سے بچانا تضیع اوقات ہے۔‘‘ (ریکارڈر ۱۷/۳/۹۴)
Defending God from blasphemy was a waste of time.
اس سوچ کی تہ میں کارفرما یہ حقیقت ہے کہ بائبل خدا کو کوئی قابل احترام اور معزز ہستی پیش نہیں کرتی۔ لکھا ہے ’’خدا بھسم کرنے والی آگ ہے‘‘ (اثنا ۲ : ۲۴) ’’خدا دغا دینے‘‘ والا ہے (یرمیاہ ۴ : ۱۰) ’’خدا بیوقوف‘‘ ہے (کرنتھیوں ۲ : ۲۵)۔ عیسائی مسیح کو خدا اور بالکل ٹھیک ٹھاک مکمل اور خالقِ کائنات قادرِ مطلق خدا مانتے ہیں۔ ادھر ان کا ایمان یہ بھی ہے کہ ’’ہاں وہ کمزوری کے سبب سے مصلوب کیا گیا‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۱۳ : ۴)۔ ایک شخص جسے مسیح کے بارہ شاگردوں میں شامل ہونے کا بھی اعزاز حاصل نہیں، ڈنکے کی چوٹ رقم طراز ہے ’’میں تو اپنے آپ کو ان افضل رسولوں سے کچھ کم نہیں سمجھتا‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۱۱ : ۵)
جن لوگوں کے ہاں خدا کی شان میں گستاخی کے ہر امکان کی کھلی چھٹی ہو، جن کی کتابِ مقدس انہیں خدا سے متعلق مذکورہ الفاظ کے استعمال کا نمونہ پیش کرتی ہو، ان کی نگری میں فکری و نظری آزادی کی حدود کی وسعت مسلمانوں کے تصور میں آ ہی نہیں سکتی۔
دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں مغربی افکار و اثرات کا دور دورہ ہے۔ وہیں کی درسگاہوں کے تعلیم یافتہ یا متاثرین برسرِاقتدار اور ہر شعبہ حیات میں روح رواں ہیں۔ حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے خودکشی پر سزا ختم کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔ ایک مضبوط دلیل مطالعہ فرمائیے کہ ’’حکومت کو کسی بھی فرد کی شخصی آزادی میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے‘‘ (نوائے وقت ۲۹/۴/۹۴)
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کو بھی دفعہ ۲۹۵سی کی مخالفت میں پیش پیش پا کر میں مزید حیران ہوتا ہوں۔ بالاخر یہ عقدہ بھی حل ہو کر رہا۔ اس کمیشن کا ترجمان ماہنامہ ’’جہد حق‘‘ اپریل ۹۴ء ہمارے سامنے ہے۔ اس کے مطالعہ سے مسیحی تصورِ حقِ آزادی کے سلسلہ میں مجھ پر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ رپورٹ کا عنوان ہے ’’ژوب ڈویژن میں صوبہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘‘۔ ذیلی سرخی ’’حقِ آزادی کی تلفی‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’اپریل۔ صوبیدار خان، لورالائی، ۲/۴/۹۳ ۔ ٹیکس ادا کرنے سے انکار پر بلاجواز گرفتاری۔‘‘
’’جون۔ خداداد، موسٰی خیل، ۷/۶/۹۳ ۔ سرکاری کام میں مداخلت پر غیر قانونی گرفتاری۔‘‘
المذاہب: یعنی ٹیکس ادا کرنے سے انکار انسان کا ’’حقِ آزادی‘‘ ہے۔ سرکاری کام میں مداخلت کرنا بھی ’’انسانی حق‘‘ ہے، جرائم نہیں ہیں۔ ان کے ارتکاب پر بازپرس نہیں کی جانی چاہیے۔ یاللعجب!
میڈونا برطانیہ کی مشہور و معروف اخلاق باختہ فاحشہ ہے۔ اس نے اپنی جنسی کارگزاریوں پر باتصویر کتاب بعنوان ’’سیکس‘‘ (Sex) لکھی تو مذہبی، سماجی اور اصلاحی حلقوں کی طرف سے اس کی زبردست مخالفت کی گئی۔ اب پڑھیے کہ کمیشن کی زیرمطالعہ میں رپورٹ ذیلی سرخی ’’۷۔حکومت کی طرف سے آزادی اظہار کی خلاف ورزی‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’اپریل۔ میڈونا کی کتاب سیکس پر ۲۱/۴/۳۹ کو حکومتِ بلوچستان نے پابندی لگائی۔‘‘
المذاہب: ’’سیکس‘‘ کے تعارف کے بعد ہم ’’حکومت کی طرف سے آزادی اظہار کی خلاف ورزی‘‘ پر اظہار رائے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
آخر میں ’’اقلیتوں کے حقوق کی خلاف روزی‘‘ پر نوحہ خوانی کیجئے:
’’نومبر۔ ۱۱/۱۱/۹۳ ۔ اوم پرکاش، لورالائی، صرف چار بوتل شراب رکھنے کے جرم میں گرفتار۔‘‘
امید واثق ہے کہ مندرجہ بالا شواہد کی روشنی میں قارئین کرام پر مسیحیوں کے حقِ آزادیٔ اظہار کا حدود اربعہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا ہو گا اور وہ خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان والا تبار میں حسبِ منشا اول فول بکنا مسیحیوں کا حقِ آزادیٔ اظہار ہے جس سے انہیں محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بصورتِ دیگر وہ لاہور کیتھیڈرل کے بشپ الیگزینڈر جان ملک کے الفاظ میں اقوامِ متحدہ تک سے اپروچ کریں گے۔
قانون گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم منسوخ کرانے کے لیے مسیحی بھائی سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ان کی خدمت میں آکسفورڈ کے بشپ رچرڈ ہیریز کا قول بغرض غوروخوض تحریر ہے کہ:
’’گو گستاخی مسیح کا موجودہ قانون کئی پہلوؤں سے تسلی بخش نہیں ہے، تاہم اسے ختم کر دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ اب ہمارے معاشرہ میں مذہب کا کوئی مقام نہیں رہا ہے۔‘‘ (ریکارڈر ۱۷/۳/۹۴)