کمیونزم کیلئے مذہب کی تلاش

ادارہ

’’زار روس کے دور کے خاتمہ پر جب لینن برسراقتدار آئے اور انہوں نے کمیونسٹ حکومت قائم کر لی تو ایک دن اپنے قریبی دوستوں کی میٹنگ طلب کی اور اس میں انہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ہم اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن اس کو برقرار رکھنے اور اس کو چلانے کے لیے اس کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے نظریہ حیات کو اپنائیں جو انسانی فطرت کے مطابق ہو۔ اس لیے کہ انسان کو اپنی بقا کے لیے صرف روٹی نہیں چاہیے بلکہ اس کی روح کی تسکین کے لیے ایک مذہب کی بھی ضرورت ہے۔ میں نے تمام مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا ہے، میرے نزدیک سوائے ایک مذہب کے کسی اور میں یہ صلاحیت نہیں ہے جو ہمارے نظریہ کمیونزم کا ساتھ دے سکے۔ اس لیے میں ابھی اس مذہب کا نام ہی بتلاؤں گا، اس بارے میں رائے قائم کرنے میں آپ جلدی نہ فرمائیں، اس لیے کہ یہ سوال کمیونزم کی موت اور حیات کا ہے۔ آپ وقت لیں اور غور کریں، ہو سکتا ہے میں غلطی پر ہوں لیکن ہمیں اپنے تصفیہ کے بارے میں ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے مادی رجحانات میں کمیونزم پر پورا اترتا ہے۔ یہ سن کر مجمع میں شور ہونے لگا تو لینن نے ٹھنڈے دل سے پھر غور کرنے کی ہدایت کی کہ آج سے پورے ایک سال کے بعد پھر ہم ملیں گے اور اس وقت طے کریں گے کہ کمیونسٹ کو کوئی مذہب اختیار کرنا چاہیے؟ اور کونسا؟

برطانوی حکومت کے محکمہ خارجہ کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے اس میں برطانوی سلطنت کے لیے بڑا خطرہ محسوس کیا کہ اگر کمیونزم اور اسلام مل جائیں تو روس کو برطانیہ پر ایک ناقابل تسخیر قوت اور فوقیت حاصل ہو جائے گی۔ فوری انہوں نے ایک مسئلہ کھڑا کیا کہ

’’اسلام کے لیے مارکسزم جیسا خدا سے منحرف اور ملحدانہ نظریہ قابل قبول ہو سکتا ہے؟‘‘

علماء ازھر نے، جو اس سوال کے پس منظر سے واقف نہ تھے، ایسا فتوٰی صادر کر دیا جو برطانوی حکومت چاہتی تھی۔ یہ فتوٰی طبع کروا کر دنیا کے کونے کونے میں تقسیم کروا دیا گیا حتٰی کہ روس کے اسلامی علاقوں میں اس فتوٰی کی کاپیاں ابھی تک بعض مسلمانوں کے پاس ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس کا علم لینن کو ہو گیا۔ انہوں نے اپنی حیرت کا اظہار کیا اور کہا میں سمجھتا تھا کہ مسلمان سمجھدار ہوں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اور مذاہب کی طرح بڑے کٹر اور دقیانوسی ہیں۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسکیم دھری کی دھری رہ گئی اور اس کے مخالفین نے اطمینان کا سانس لیا۔‘‘


(ایم این رائے کی خودنوشت سوانح عمری سے اقتباس: رسالہ ’’سوویت یونین‘‘ (اردو) جلد ۲۸ جون ۱۹۸۲ء ۔ بحوالہ ’’اب بھی نہ جاگے تو ۔۔۔‘‘ مصنفہ مولانا شمس نوید عثمانیؒ)


(اگست ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter