الشریعہ کے مئی ۹۴ء کے شمارے میں محمد یاسین عابد صاحب کا مضمون بعنوان ’’گستاخِ رسول کے لیے سزائے موت اور بائبل‘‘ شائع ہوا تھا۔ ماہنامہ ’’المذاہب‘‘ لاہور کے ایڈیٹر جناب محمد اسلم رانا نے اس مضمون پر ہمیں زیر نظر تنقید لکھ کر بھیجی ہے جو کہ نذرِ قارئین ہے۔ نیز رانا صاحب کے نقطۂ نظر کی مکمل توضیح کے لیے ان کا المذاہب کے جولائی ۹۴ء کے شمارہ میں شائع ہونے والا مضمون بھی زیر نظر شمارہ میں شاملِ اشاعت ہے۔
جہاں تک ہم غور کر سکے ہیں، دونوں نقطہ ہائے نظر میں، درحقیقت، کوئی اختلاف نہیں۔ محمد یاسین عابد صاحب کے مضمون کا منشا یہ ہے کہ اسلامی شریعت کی طرح موسوی شریعت میں بھی گستاخِ رسول کے لیے سزائے موت تھی، جیسا کہ استثنا ۱۷ : ۱۲۔۱۳ سے واضح ہے۔ جس میں یہ حکم ہے کہ کاہن اور قاضی کا کہا نہ ماننے اور گستاخی سے پیش آنے والے شخص کو جان سے مار دیا جائے۔ ظاہر بات ہے، نبی کا مقام و مرتبہ کاہن و قاضی سے بلند تر ہے، اس لیے اس کے گستاخ کی سزا بھی لازماً موت ہی ہو گی۔ ہاں، البتہ، اس سزا کے اثبات کے لیے ۱۔سموئیل باب ۲۵ میں بیان ہونے والے حضرت داؤد اور نابال کے قصہ سے استدلال، جیسا کہ اسلم رانا صاحب کی تنقید سے واضح ہے، درست نہیں ہے۔
دوسری طرف اسلم رانا صاحب نے اس پہلو کو واضح کیا ہے کہ موجودہ مسیحی دنیا کے ہاں گستاخی رسول کی کوئی خاص اہمیت نہیں، بلکہ بالکل بے قید آزادی اظہار رائے کے قائل جدید مغربی ذہن سے متاثر ہونے کی بنا پر ان کے ہاں بھی اس نوعیت کی ہر چیز ’’انسانی حقوق‘‘ میں شامل ہے۔ اور یہ چیز موسوی شریعت میں گستاخ رسول کے لیے سزائے موت کے اثبات کے منافی نہیں۔ اس سے واضح ہے کہ دونوں نقطہ ہائے نظر، درحقیقت، ایک ہی مسئلے کے دو الگ الگ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
مضمون میں حضرت داؤد علیہ السلام کے نبی ہونے کا انکار، جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے، یہودی و عیسائی لٹریچر کے تناظر میں ہے، اس سے کسی غلطی فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ورنہ قرآن مجید بصراحت داؤد علیہ السلام کو اللہ کا نبی قرار دیتا ہے۔
ان ضروری تمہیدات کے بعد اب آپ اصل مضمون ملاحظہ کیجئے۔
(مدیر)
ان دنوں مسیحی اقلیت گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کی مخالفت میں ادھار کھائے بیٹھی ہے تو مسلم علما گستاخ رسول کی سزا کے اثبات میں خوردبین کی مدد سے بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
موقر جریدہ الشریعہ مئی ۹۴ء میں اسلامی نقطہ نگاہ کی حمایت میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کاہن، قاضی اور والدین کی شان میں گستاخی کی سزا وارد ہے اور عہد کے صندوق (جسے قرآن مجید میں صندوق سکینہ پکارا گیا ہے، ۲۔بقرہ ۲۴۸)، لیکن خوب سمجھ لینا چاہیے کہ بائبل گستاخِ رسول کی سزا کے ضمن میں یکسر خالی، کوری اور معرا ہے۔
مضمون میں داؤد اور نابال کے قصہ سے ’’گستاخ رسول کی سزا موت‘‘ کشید کرنا شدید غلط فہمی، اور اس بیان کو ٹھیک طور پر نہ پڑھنے اور نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہے۔ مضمون کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:
’’حضرت داؤد علیہ السلام کا نبی اللہ ہونا انجیل سے ثابت ہے (عبرانیوں ۱۱ : ۳۲)۔ معون کے رہنے والے نابال نامی ایک شخص نے حضرت داؤدؑ کے متعلق گستاخانہ الفاظ ادا کیے کہ ’’داؤد کون ہے اور یسی کا بیٹا کون ہے؟‘‘ اس کی خبر جب داؤد نبیؑ کو ہوئی تو زبانِ نبوت سے شاتِم رسول کے لیے قتل کے احکامات یوں صادر ہوئے۔‘‘
عبرانیوں کے خط سے داؤد کی نبوت ثابت کرنا کئی لحاظ سے محلِ نظر ہے۔ عبرانیوں کے نام خط کا مصنف گمنام ہے۔ پولوس، اپولوس، برنباس، لوقا، ٹموتھی، اکوئیلا، پرسیلا، ارسٹن، فلپ ڈیکن سبھی اس کے مصنف قرار دیے جا چکے ہیں۔ یہ جھگڑا آج تک طے نہیں ہو سکا ہے (وکلف بائبل کمنٹری، عہد جدید : ۱۴۰۳ کالم ۲)۔ اس لیے دیر بعد اسے سند فضیلت ملی۔ اکثر قدیم لوگ اسے پولوس کا خط سمجھتے رہے ہیں، چنانچہ انگریزی بائبلوں میں اس خط کو پولوس کے نام منسوب کر دیا گیا ہے (ڈملو صفحہ ۱۰۱۲ کالم ۱)۔ پروٹسٹنٹ اردو بائبلوں کی روش بھی یہی ہے۔ پرانی اردو بائبلوں میں اسے ’’کا خط‘‘ لکھا بھی ملتا ہے۔ پھر یہ خط مسیحیوں کے ہاں مستند، معتبر، کلامِ خدا اور الہامی تو ہو سکتا ہے، یہودیوں کے نزدیک اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بنیاد پر داؤد کو (یہودیوں کا) نبی قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ داؤد کا ذکر بائبل کی مخصوص یہودی کتب مقدسہ (عہد عتیق) میں ہے جہاں داؤد کو نبی نہیں بتایا گیا ہے، اس لیے یہودی داؤد کو نبی نہیں مانتے۔ ان کی نظر میں داؤد اسرائیل کا عظیم ترین بادشاہ تھا، عہد عتیق کی ایک اہم ترین شخصیت تھا (قاموس الکتاب صفحہ ۳۹۲ کالم ۱)۔ پادری ڈملو نے داؤد کو جنگجو، موسیقی کا ماہر، ولی، زبور نویس اور ’’خدا اس کے ساتھ تھا‘‘ لکھا ہے، نبی نہیں لکھا (تفسیر ڈملو صفحہ ۱۸۱ کالم ۱)
ازروئے بائبل داؤد خود نبی نہیں تھا، اس کے دور میں سموئیل اور ناتن نبی تھے۔ سموئیل نے داؤد کو بطور بادشاہ مسح کیا تھا (۱۔سموئیل ۱۶ : ۱۳)۔ ناتن نبی صلاح مشورے دیا کرتا تھا، مثلاً بت سبع کے معاملہ میں اس نے داؤد کو سرزنش کی تھی (۲۔سموئیل ۱۲ : ۹)۔
بائبل کی کتاب اول سموئیل باب ۲۵ میں داؤد اور نابال کا قصہ تفصیل سے مذکور ہے۔ معون کا مکین مسمی نابال بڑا بے ادب، بدکار، خبیث اور احمق تھا۔ ہزاروں بھیڑوں بکریوں کا مالک تھا۔ تفاسیر میں بتایا گیا ہے کہ اس زمانہ کا رواج تھا اور فی زمانہ بھی یہی وطیرہ ہے کہ عرب ڈاکوؤں سے مال کی حفاظت کرنے والے، مالک سے اپنا حق الخدمت لیا کرتے ہیں۔ داؤد نے کوہ کرمل میں نابال کے ریوڑوں کی حفاظت کی تھی (۲۵ : ۷) جس کا صلہ لینے کے لیے اس نے اپنے جوان نابال کے پاس بھیجے کہ
’’ان جوانوں پر تیرے کرم کی نظر ہو اس لیے کہ اہم اچھے دن آئے ہیں۔ میں تیری منت کرتا ہوں کہ جو کچھ تیرے ہاتھ میں آئے اپنے خادموں کو اور اپنے بیٹے داؤد کو عطا کر۔‘‘ (۲۵ : ۸)
یہ الفاظ بڑے صاف ہیں۔ داؤد کا لہجہ ایک دولت مند سے اس کے مال کی حفاظت کرنے کی مزدوری مانگنے کا ہے۔ یہ خطاب ایک نبی کا اپنے پیروکار سے نہیں ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ نبی قوم کا باپ ہوتا ہے بیٹا نہیں۔ جواب میں نابال نے داؤد کو حسبِ عادت درشت زبانی کی تو داؤد کو اس کی ناشکری اور نا احسان شناسی پر بڑا غصہ آیا اور وہ قریباً چار سو جوان لے کر نابال کو سزا دینے چل پڑا۔ ان جوانوں میں سے ایک نے نابال کی بیوی ابیجیل کو داؤد کے حسن سلوک (۲۵ : ۱۵، ۱۶) کی ساری بات بتائی تو وہ خود داؤد کے پاس گئی۔
’’تو داؤد نے کہا تھا کہ میں نے اس پاجی کے سب مال کی، جو بیابان میں تھا، بے فائدہ اس طرح نگہبانی کی کہ اس کی چیزوں میں سے کوئی چیز گم نہ ہوئی۔ کیونکہ اس نے نیکی کے بدلے مجھ سے بدی کی۔‘‘ (۲۵ : ۲۱)
ابیجیل نے نابال کی خباثت اور حماقت کا بتا کر اس کے لیے معافی مانگی اور داؤد کو خونریزی سے روکا۔ غرضیکہ داؤد نبی نہیں تھا، اس نے بحیثیت نبی نابال سے کچھ نہیں مانگا تھا۔ اس نے نابال کے جواب کو توہینِ نبوت اور گستاخی رسول نہیں سمجھا تھا۔ نابال نے بھی داؤد کو نبی سمجھتے ہوئے وہ الفاظ ادا نہیں کیے تھے۔ داؤد کو غصہ یہ تھا کہ ہم نے نابال کے ریوڑوں کی حفاظت کی، گویا رات دن دیوار بنے رہے، اور یہ شورید سر ہماری محنت کا بدلہ بدزبانی سے چکا رہا ہے۔
نابال کی موت میں بھی اس کی موہوم ’’گستاخی رسول‘‘ کا کچھ حصہ نہیں تھا۔ داؤد سے واپس ہو کر ابیجیل نابال کے پاس گئی تو وہ شراب کے نشہ میں دھت تھا۔ صبح کو اس کا نشہ اترا تو ابیجیل نے اسے سارا واقعہ سنایا:
’’تب اس کا دل اس کے پہلو میں مردہ ہو گیا اور پتھر کی مانند سن پڑ گیا اور دس دن کے بعد ایسا ہوا کہ خداوند نے نابال کو مارا اور وہ مر گیا‘‘ (۲۵ : ۳۷)
شاید مرگی کا دورہ اس کی موت کا سبب بنا تھا (اے نیو کیتھولک کمنٹری آن ہولی سکرپچرز۔ ۱۹۸۱، صفحہ ۳۱۷ کالم ۱)