علوم و فنون کی تاریخ لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے وسعتِ نظر کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور وسعتِ مطالعہ کی بھی۔ اسی لیے اکثر علوم و فنون میں ماہرین کی کثرت کے باوجود اُن علوم کی تاریخ پر جامع تصانیف کم ہی نظر آتی ہیں۔ شاید اس موضوع پر سب سے پہلے علامہ عبدالرحمن ابن خلدون (ولادت ۱۳۲۲م، وفات ۱۴۰۶م) نے قلم اٹھایا تھا۔ انھوں نے اپنے مقدمے کی پہلی کتاب کے چھٹے باب کو علوم کی ماہیت، اقسام اور ان کے متعلقات کے لیے خاص کیا ہے۔ اس باب کا عنوان ہے: فی العلوم وأصنافہا والتعلیم وطرقہ وسائر وجوہہ وما یعرض فی ذلک کلہ من الأحوال وفیہ مقدمۃ ولواحق۔ ابن خلدون کے بعد حاجی خلیفہ (ولادت ۱۶۰۹م، وفات ۱۶۵۷م) نے کشف الظنون میں، طاش کبری زادہ (ولادت ۱۴۹۵م، وفات ۱۵۶۱م) نے مفتاح السعادۃ میں اور ساجقلی زادہ (وفات ۱۷۳۲م) نے ترتیب العلوم میں اس موضوع کو اپنے اپنے انداز سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ہندستان میں بھی علوم و فنون کی تاریخ کو موضوع بنایا گیا۔ اس ذیل میں مولانا محمد علی تھانوی کی کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، نواب صدیق حسن خان (ولادت ۱۸۳۲م، وفات ۱۸۹۰م) کی أبجد العلوم اور علامہ عبدالحی حسنی (ولادت ۱۸۶۹م، وفات ۱۹۲۳م) کی الثقافۃ الاسلامیۃ فی الھند کو سب سے نمایاں مقام حاصل ہے۔
علوم و فنون کی مجموعی تاریخ کے ساتھ مخصوص علم و فن کی تاریخ نویسی کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ اس موضوع پر ہر دور میں بہ کثرت کتابیں لکھی گئیں۔ کسی نے اپنے پسندیدہ علم و فن کی مکمل تاریخ قلم بند کی تو کسی نے زمانی یا مکانی تحدید کے ساتھ۔ اس کے باوجود موضوع کی وسعت کی وجہ سے متعدد علوم و فنون کی جامع تاریخ نہیں لکھی جا سکی۔ یہی معاملہ فن تجوید کے ساتھ بھی پیش آیا۔ خاص کر اردو دنیا میں۔
اردو زبان میں فن تجوید کی تاریخ کی طرف توجہ نہ ہونے کی اصل وجہ یہ رہی کہ برصغیر میں خود فن تجوید پر کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہاں بڑے قرائے کرام بھی پیدا ہوئے، تجوید و قرأت کے مدارس بھی قائم ہوئے، دینی مدارس میں تجوید و قرأت کے شعبے بھی قائم ہوئے، لیکن یہاں کے عام مسلم معاشرے میں تجوید کو ایک لازمی علم کے طور پر نہیں برتا گیا۔ بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کی تو فکر کی گئی، لیکن وہ بچہ قرآن کریم کو صحیح انداز سے پڑھ سکے، اس کی فکر نہیں کی گئی۔ عوام کا کیا رونا؟ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے مرکزی دینی مدارس میں بھی تجوید و قرأت کے شعبوں کو ثانوی یا ضمنی درجے کے شعبے سے زیادہ نہیں سمجھا گیا۔ اس سلسلے میں ہمارے مخدوم و مطاع محی السنۃ مولانا شاہ ابرارالحق حقی (ولادت ۱۹۲۰م، وفات ۲۰۰۵م) کا یہ ارشاد سند کی حیثیت رکھتا ہے:
’’کسی شاعر کے کلام کو غلط پڑھ کر دیکھیے کہ اسے کس قدر ناگواری ہوتی ہے اور یہ کلام پاک تو کلام رب العالمین اور کلام احکم الحاکمین ہے۔ اس کی صحت حروف اور قواعد تجوید کا کتنا اہتمام ہونا چاہیے اور قرآن پاک کی عظمت جس طرح ہے، اُسی طرح حفظ و ناظرہ کے طلبہ کا اکرام بھی قلب میں ہونا چاہیے۔ بعض مدارس دینیہ کے معائنے کے لیے جب حاضری ہوئی تو دیکھا کہ کافیہ پڑھنے کی درس گاہ میں دریاں نہایت عمدہ اور حفظ قرآن پاک کے درجے میں بوسیدہ اور گھٹیا درجے کی چٹائیاں تھیں۔ دل بے حد غم گین ہوا اور وہاں کے مہتمم صاحب سے گزارش کی گئی کہ یہ کیا حال ہے؟ مقدمات کا یہ اہتمام اور مقصود کے ساتھ یہ معاملہ؟‘‘(1)
اِس صورت حال میں اکا دکا شخصیت یا ادارے کا استثنا ہو سکتا ہے۔ عمومی صورت حال یہی ہے۔ ایسی صورت حال میں تاریخ تجوید پر کیسے توجہ ہو سکتی تھی؟ نتیجہ یہ ہوا کہ اردو زبان میں علم تجوید کی تاریخ پر کوئی مبسوط کتاب ترتیب نہیں دی جا سکی۔ علامہ عبدالحی حسنی نے علم تجوید میں اپنے عہد تک لکھی گئی فارسی اور اردو کی ہندستانی تصانیف کی فہرست بیان کی ہے۔ اس میں اکیس کتابوں کے نام ہیں۔ وہ سب کتابیں فن تجوید اور اس کے متعلقات پر ہیں۔(2) تاریخ تجوید پر کوئی مختصر رسالہ بھی نہیں ہے۔ غالب گمان یہی ہے کہ اُن کے دور تک اس موضوع پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو سکا تھا۔
اردو زبان میں تاریخ تجوید کے موضوع پر سب سے پہلی کتاب تذکرۂ قاریانِ ہند ہے۔ اس کے مصنف مرزا بسم اللہ بیگ تھے۔ تین حصوں اور ۸۱۰؍صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۹۷۰م میں شائع ہوئی۔ اپنے موضوع پر اولین تصنیف ہونے کی وجہ سے علمی دنیا میں اس کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ اس کتاب کی اولیت کی توثیق اس کی وجہِ تصنیف سے بھی ہوتی ہے۔ مصنف کتاب نے لکھا ہے:
’’کوئی بیس سال ہوئے کہ قاری حافظ ابو محمد محی الاسلام پانی پتی کی شرح سبعہ قرأت پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے دیباچے میں حضرت نے لکھا ہے: ’قرائے کرام کے حالات قلم بند کرنے میں عالمِ اسلام نے جو خدمت انجام دی، اُس میں اولیت کا فخر اندلس کو حاصل ہے۔ مگر ہندستان نے قرأت و قراء کے بارے میں کچھ نہ لکھا۔ ہندستان کے سلاطین و امرا کی تاریخیں لکھی گئیں۔ شاعروں، عالموں، خطیبوں حتیٰ کہ گویّوں کے تذکرے تالیف ہوئے، مگر خدام کلام اللہ کا کسی نے نام بھی نہ لیا۔‘ حضرت کی یہ بات میرے دل میں چبھ گئی۔ اس وقت سے خیال تھا کہ بن پڑے تو قرائے کرام کے حالات جمع کروں۔‘‘(3)
مرزا بسم اللہ بیگ کی کتاب اپنی جامعیت کے باوجود محدود تھی۔ مصنف نے اس میں صرف ہندستانی قرائے کرام کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں ذیلی مباحث کے تحت بہت سے غیر ہندستانی قرا کا تذکرہ بھی آگیا ہے۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے باوجود اردو دنیا میں ایک ایسی کتاب کی ضرورت باقی تھی، جس میں ابتدا سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے تمام اہم قرائے کرام کا تذکرہ کیا گیا ہو۔ علمِ قرأت کی ایسی نہ جانے کتنی شخصیات تھیں، جن کا یا جن کی تصانیف کا تذکرہ بار بار سننے میں آتا تھا، لیکن ان کی شخصیت اور خدماتِ تجوید کے متعلق اردو زبان میں کوئی مستند چیز دست یاب نہیں تھی۔ ہمیں خود بھی اس کا تجربہ ہو چکا تھا۔ اپنی رسمی طالب علمی کے زمانے میں قرائے سبعہ کا تذکرہ ہمارے کانوں میں پڑتا رہتا تھا۔ ایک دن ان بزرگوں کے متعلق کچھ جاننے کا شوق ہوا تو ہم نے اپنے مدرسے کی پوری لائبریری چھان ماری۔ کچھ ہاتھ نہ لگا۔ ادارے کے ایک ممتاز استاذِ تجوید سے اپنی خواہش کا ذکر کیا تو انھوں نے اپنے زمانہء طالب علمی کی ایک بیاض نکال کر دی۔ اس میں قرائے سبعہ کے متعلق کچھ کچھ سطور لکھی تھیں۔ ہم نے انھی سطور کو پڑھ کر کام چلایا۔ اس طرح قرائے کرام کے متعلق کچھ پڑھنے کی خواہش نہ جانے کتنے لوگوں کو ہوتی ہوگی۔
خالص دینی نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو اردو زبان کا یہ کتنا بڑا خلا تھا۔ قرآن مجید کے مبارک الفاظ کی خدمت کرنے والوں کے تذکرے سے اس زبان کا دامن خالی تھا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس زبان کو اس محرومی سے بچانے کا فیصلہ کیا۔ اس عظیم کام کے لیے پروردگارِ عالم نے مولانا قاری ابوالحسن اعظمی کا انتخاب فرمایا۔ اس انتخاب کی اصل وجہ تو خالقِ کائنات ہی جانے، ہم کوتاہ بینوں کو اس کی تین وجہیں سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ مولانا قاری ابوالحسن اعظمی کو فن تجوید و قرأت سے فطری اور گہری مناسبت تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ دارالعلوم دیوبند جیسے ادارے کے شیخ القراء تھے۔ وہ دارالعلوم جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اسلامی علوم کے متعدد خلا پُر کرائے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے خادموں کے تذکرے کا خلا بھی اسی ادارے کے ذریعے پُر فرمانے کا ارادہ کیا۔ تیسرے یہ کہ وہ اعظم گڑھ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اعظم گڑھ جسے شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی (ولادت ۱۸۵۷م، وفات ۱۹۱۴م) اور ان کے فیض یافتگان کی وجہ سے تاریخ و تذکرے میں منفرد مقام حاصل ہے۔ اب ربِ کائنات کا فیصلہ ہوا کہ خادمانِ کلماتِ قرآن کی تاریخ بھی اسی سرزمین کے ایک سپوت سے لکھوائی جائے۔ موضوعِ کتاب کی عظمت و تقدس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مولانا قاری ابوالحسن اعظمی کو اس عظیم کام کی توفیق عطا فرما کر اللہ تعالیٰ نے دارالعلوم دیوبند کی عظمت میں بھی اضافہ فرمایا اور سرزمین اعظم گڑھ کی بھی۔ ہم جیسا حقیر طالب علم اتنی بڑی بات کہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے جرأت سمجھا جائے، لیکن مفسر قرآن مولانا اخلاق حسین دہلوی قاسمی (ولادت ۱۹۲۴م، وفات ۲۰۰۹م) جیسا عبقری انسان یہ بات فرمائے تو کون اعتراض کر سکتا ہے؟ انھوں نے لکھا ہے:
’’کتاب مذکور اپنے موضوع کا مکمل طور پر احاطہ کرنے والی اردو میں اولین کتاب ہے۔ بلاشبہ قاری صاحب نے اپنے فیوض سے دارالعلوم دیوبند کی شہرت کو نہ صرف قائم رکھا، بلکہ اسے آگے بڑھایا ہے۔ یہ استقامت کی بات ہے اور اسلاف کرام کے ساتھ روحانی تعلق کی بات ہے۔‘‘(4)
مولانا قاری ابوالحسن اعظمی کی یہ مایہ ناز تصنیف حسن المحاضرات فی رجال القراءات کے نام سے ۱۹۹۹م میں شائع ہوئی۔ دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں ۱۲۱۸؍صفحات ہیں۔ جلد اول کے آغاز میں کچھ تقاریظ، قطعات تاریخ اور مصنف کے قلم سے لکھا ہوا بارہ صفحاتی مقدمہ ہے۔ مصنف گرامی کی فنی عظمت اور کتاب کی تاریخی اہمیت کی بنا پر اس مقدمے میں ہم جیسے طالب علموں کو تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ فنِ قرأت کے آغاز و ارتقا، عربی زبان میں اس فن کی تاریخ پر ہونے والے علمی کام کے تجزیے، ہندستان اور فن قرأت، فن قرأت پر مختلف پہلووں سے ہونے والے اعتراضات کے جائزے پر مشتمل ایک مبسوط مقدمہ مصنف محترم کے قلم سے ہوتا تو مزہ آجاتا۔ اِن میں سے اکثر موضوعات پر مصنف عالی قدر نے اپنی دوسری تصانیف میں قلم اٹھایا ہے، لیکن اردو زبان میں علم قرأت کے اساطین کے اولین تذکرے میں یہ موضوعات یکجا آجاتے تو شاید لطف دوبالا ہو جاتا۔
یہاں ایک بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ جس سال مولانا قاری ابوالحسن اعظمی کی یہ دستاویزی تصنیف منظر عام پر آئی، اُس سے چند ماہ قبل ہی اندلس میں فن قرأت کی تاریخ پر مشتمل اردو کی پہلی کتاب علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی۔ پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی (ولادت ۱۹۴۴م، وفات ۲۰۲۰م) کے قلم سے نکلی اس وقیع کتاب کا نام ’اندلس میں علوم قرأت کا ارتقا‘ ہے۔ اس میں۲۸۴ ؍صفحات ہیں۔ اس کتاب کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے پہلی مرتبہ علم قرأت کے اندلسی محسنین کو اردو زبان میں خراج پیش کیا گیا ہے۔ اردو والوں پر یہ ایک قرض تھا، جس کی ادائی اللہ تعالیٰ نے پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی کے ذریعے کرائی۔ مرزا بسم اللہ بیگ نے تذکرۂ قاریان ہند میں(5) اور مولانا قاری ابوالحسن اعظمی نے حسن المحاضرات میں(6) اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ قرائے کرام کے تذکرے لکھنے کی روایت اندلسی علماء نے شروع کی۔ لہٰذا ان محسنوں کی خدمات کا اعتراف ضروری تھا۔ اس طرح مرزا بسم اللہ بیگ، پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی اور مولانا قاری ابوالحسن اعظمی کی تین تصانیف نے علم تجوید کے حوالے سے اردو لائبریری کے تین بڑے خلاؤں کو پر کیا۔ بسم اللہ بیگ نے ہندستانی قرا کو خراج پیش کیا، تو یاسین مظہر صدیقی نے اندلس کے خادمانِ تجوید و قرأت کی خدمات کا اعتراف کیا۔ آخر میں ابوالحسن اعظمی نے ہندستان یا اندلس کی حد بندیوں سے آگے بڑھ کر ابتدائے اسلام سے موجودہ عہد تک کے تمام قرائے کرام کی احسان شناسی کا حق ادا کیا۔ یعنی ابوالحسن اعظمی کے پیش رو دونوں مصنّفین کی کتابیں بھی دو خلاؤں کو پر کر ہی ہیں، لیکن ان کے منظر عام پر آنے کے باوجود ایک بڑا اور آخری خلا باقی تھا۔ اس خلا کو قاری ابوالحسن اعظمی نے حسن المحاضرات فی رجال القراءات کے ذریعے پر کیا۔
حسن المحاضرات میں تقریباً سات سو قرائے کرام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مصنف کتاب نے شخصیات کے انتخاب کا معیار یہ رکھا ہے کہ انھوں نے درس و تدریس یا تصنیف و تالیف کے میدان میں علم تجوید کی خدمت انجام دے کر ایک طبقے کو متأثر کیا ہو۔(7) انتخاب کایہ معیار بہت مناسب ہے۔ اس کے ذریعے ہر اہم شخصیت کا ذکر بھی ہوجاتا ہے اور بھرتی کے نام شامل بھی نہیں ہو پاتے۔ مرزا بسم اللہ بیگ کی کتاب میں اس حوالے سے کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ اس معیارِ انتخاب کے ساتھ مصنف نے کتابوں کو کنگھالا اور تقریباً سات سو افراد کے ناموں کا انتخاب کیا۔ اوسط نکالا جائے تو چودہ صدیوں میں سے سات سو افراد۔ یعنی ہر صدی میں سے پچاس لوگ۔ ایک مضبوط معیار انتخاب کے ساتھ سات سو افراد کا انتخاب قرآن کریم سے دوری کے اس دور میں چونکانے والا ہے۔ اس میں ہمارے لیے عبرت کا پہلو بھی ہے۔ ہم اپنی شامتِ اعمال کے نتیجے میں قرآن کریم کے حقوق ادا کرنے سے محروم رہنا چاہیں تو رہیں، لیکن ہر دور میں قرآن حکیم کے متوالے اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرتے رہے ہیں۔ آج بھی ایسے خوش نصیب افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
مولانا قاری ابوالحسن اعظمی نے حسن المحاضرات میں معلومات پیش کرنے کا انداز علمی رکھا ہے۔ شخصیات کی ترتیب سنین وفات کے مطابق رکھی ہے۔ قرنِ اول سے عہد حاضر تک پہنچے ہیں۔ جب کسی شخصیت کا تذکرہ کرنا ہوتا ہے تو بالترتیب اس کا نام و نسب، ولادت، وطن، تعلیم، اہم اساتذہ، خدمات، اہم تلامذہ اور سن وفات بیان کرتے ہیں۔ شخصیات کے فضائل و مناقب، خدمات اور اساتذہ و تلامذہ کے تذکرے میں حتی الامکان اختصار اختیار کرتے ہیں۔ زیادہ کوشش کرتے ہیں کہ اُس شخصیت کے متعلق سلف صالحین میں سے کسی کا جامع قول نقل کر دیا جائے۔ اگر کسی کا قول نہیں نقل کرتے تو خود جو بات کہتے ہیں وہ بھی جامعیت کی حامل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر: عجوبۂ روزگار تھے، بڑے فضائل و کمالات کے حامل تھے، معلمیت کی ریاست آپ پر منتہی ہوتی تھی، متبحر فی العلوم تھے۔ اس طرح کے مختصر جملوں کے استعمال سے صاحبِ تذکرہ کا اصل مقام سامنے آجاتا ہے۔ اگر یہ طرز اختیار نہ کیا جاتا تو سات سو شخصیات کا تذکرہ بآسانی سات ہزار صفحات تک پہنچ سکتا تھا۔ لیکن مصنفِ کتاب نے اسے صرف بارہ صفحات میں سمیٹ دیا ہے۔ کتاب میں بعض مقامات پر ترجمے کے نقائص، املائی اغلاط اور کمپوزنگ کے اسقام آنکھوں میں چبھتے ہیں، لیکن خدامِ قرآن کا جامع تذکرہ مطالعے کے تسلسل میں حارج نہیں ہو پاتا۔ ہمیں ایک تسلسل کے ساتھ بہت مختصر الفاظ میں قرائے کرام کے حالات اور خدمات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔
حسن المحاضرات فی رجال القراءات کا ایک مثالی پہلو یہ ہے کہ اس میں مصنفِ گرامی قدر ’بلائے معاصرت‘ پر قابو پاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے کتاب میں اپنے متعدد معاصرین کے حالات بیان کر کے اُن کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر انھوں نے اپنے بہت سے خُردوں کو بھی کتاب میں شامل کیا ہے۔ اُن کے حالات بیان کر کے خدمات کی تحسین کی ہے۔ کتاب کا یہ پہلو ہم جیسے طلبہ کے لیے اخلاقی عظمت اور علمی دیانت کا بڑا درس رکھتا ہے۔
حسن المحاضرات میں سب سے پہلے ناشرِ قرآن، ذوالنورین، امیرالمؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہے اور سب سے آخر میں بزمِ تھانوی کے آخری رکن، محی السنۃ مولانا شاہ ابرار الحق حقی کی شخصیت اور خدمات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کا یہ مبارک آغاز اور حسن اختتام اپنے اندر کئی خوب صورت مناسبتیں رکھتا ہے۔ خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، خلیفۂ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے جانشین اور خلیفہ تھے۔ اسی طرح مولانا شاہ ابرار الحق حقی بھی نسلِ فاروقی کی ممتاز شخصیت حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نشر قرآن کا انتظام فرما کر امت کو ایک صحیفے پر جمع کیا، تاکہ قرآن کریم کو اختلافات سے بچا کر تحریفات کا دروازہ بند کیا جا سکے۔ اسی طرح مولانا ابرار الحق حقی نے پوری زندگی قرآن کریم کے ظاہری و باطنی حقوق کی پاس داری کی تحریک چلا کر نہ جانے کتنے دلوں میں عظمت قرآن کی شمع روشن کی۔ کتاب شروع ہوتی ہے تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابۂ کرام کا مبارک تذکرہ عظمت قرآن کا درس دیتا ہے۔ کتاب ختم ہوتی ہے تو اپنے وقت کے سب سے بڑے مبلغ قرآن مولانا شاہ ابرار الحق حقی کا تذکرہ عہد جدید میں تعلق بالقرآن کے آداب اور عملی طریقے سکھاتا ہے۔ اس طرح یہ کتاب تاریخ و تذکرے کے ساتھ موعظت و نصیحت کی دستاویز بھی بن جاتی ہے۔
مولانا قاری ابوالحسن اعظمی کی تصانیف کی فہرست بہت لمبی ہے۔ اُن کی تقریباً سوا سو چھوٹی بڑی کتابیں منظر عام آچکی ہیں۔ اگر وہ اتنی کثیر تعداد میں کتابیں نہ لکھتے اور صرف حسن المحاضرات تصنیف فرما دیتے، تو بھی ان کو علمی دنیا میں مدتوں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتی۔ ہم اس کتاب کو ان کا شاہ کار (Masterpiece) بھی کہہ سکتے ہیں۔ موجودہ علمی دنیا میں Small Encyclopedia (مختصر دائرۃ المعارف) کی اصطلاح بھی بہت تیزی سے رائج ہوئی ہے۔ کسی موضوع کے تمام گوشوں کو اختصار کے ساتھ جامع انداز میں پیش کی جانے والی کتابوں کو مختصر دائرۃ المعارف کا نام دیا جاتا ہے۔ اردو کے اسلامی ذخیرے میں ابھی اس کا چلن نہیں ہو سکا ہے۔ ورنہ حسن المحاضرات فی رجال القراءات کو تاریخ تجوید کا مختصر دائرۃ المعارف بھی کہا جا سکتا ہے۔
حواشی:
(1) ارشاداتِ ابرار، حکیم محمد اختر، زمزم بک ڈپو، دیوبند، ۱۳۹۷ھ، ص ۱۳، ۱۴
(2) اسلامی علوم و فنون ہندستان میں، سید عبدالحی حسنی، مترجم: ابوالعرفان خان ندوی، دارالمصنّفین، اعظم گڑھ، ۲۰۱۶م، ص ۲۳۵، ۲۳۶
(3) تذکرۂ قاریان ہند، مرزا بسم اللہ بیگ، میر محمد کتب خانہ، کراچی، ۱۹۷۰م، ص ۱
(4) حسن المحاضرات فی رجال القراءات، ابوالحسن اعظمی، مکتبہ صوت القرآن، دیوبند، ۱۹۹۹م، ج اوّل، ص ۱۵
(5) تذکرۂ قاریان ہند، حوالۂ سابق
(6) حسن المحاضرات فی رجال القراءات، حوالۂ سابق، ص ۳۲
(7) حسن المحاضرات فی رجال القراءات، حوالۂ سابق، ص ۳۳