سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی، اردو کے پہلے ادیب و مصنّف
دلائل و شواہد کے تناظر میں

طفیل احمد مصباحی


اردو زبان و ادب کے فروغ و استحکام اور اس کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام کی خدمات تاریخی مسلمّات سے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق کی بلند پایہ تحقیقی کتاب "اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام" اس کی واضح مثال ہے، جس میں صوفیائے کرام کی ادبی و لسانی کارگذاریوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان نفوسِ قدسیہ نے دین و مذہب کی تبلیغ و توسیع کے علاوہ کس طرح گیسوئے ادب کی مشاطگی کی ہے اور اس کی نشو و نما میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ضروری ہے کہ مبلغ عوامی زبان سے پوری طرح واقف ہو۔ اردو زبان سے صوفیائے کرام کی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ دعوت و تبلیغ بھی رہی ہے۔ عوام و خواص کے دلوں پر حکومت کرنے والے صوفیائے کرام اور مشائخِ ملت عوامی زبان اس لیے سیکھتے کہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ بہتر اور مؤثر طریقے پر انجام پا سکے۔ مولوی عبد الحق کے بقول:

’’علما و امرا بلکہ حکومتوں اور بادشاہوں سے بھی وہ کام نہیں ہو سکتا جو فقیر اور درویش کر گزرتے ہیں۔ بادشاہ کا دربار خاص ہوتا ہے اور فقیر کا دربار عام ہے جہاں بڑے چھوٹے، امیر غریب، عالم جاہل کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ بادشاہ جان و مال کا مالک ہوتا ہے، لیکن فقیر کا قبضہ دلوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے اُن کا اثر محدود ہوتا ہے اور اِن کا (صوفیوں اور درویشوں) بے پایاں۔ اور یہی سبب ہے کہ درویش کو وہ قوت و اقتدار حاصل ہو جاتا تھا کہ بڑے بڑے جبّار اور با جبروت بادشاہوں کو بھی اس کے سامنے سر جھکانا پڑتا تھا۔ مسلمان درویش ہندوستان میں پُرخطر اور دشوار گزار رستوں، سر بفلک پہاڑوں اور لق و دق بیابانوں کو طے کر کے ایسے مقامات پر پہنچے جہاں کوئی اسلام اور مسلمان کے نام سے بھی واقف نہ تھا اور جہاں ہر چیز اجنبی اور ہر بات ان کی طبعیت کے مخالف تھی۔ جہاں کی آب و ہوا، رسم و رواج، صورت و شکل، آداب و اطوار، لباس، بات چیت غرض ہر چیز ایسی تھی کہ ان کو اہلِ ملک سے اور اہلِ ملک کو ان سے وحشت ہو۔ لیکن حال یہ ہے کہ انہیں وصال کیے صدہا سال گزر چکے ہیں، لیکن اب بھی ہزاروں لاکھوں بندگانِ خدا صبح و شام ان کے آستانوں پر پیشانیاں رگڑتے ہیں اور جن جن مقامات پر ان کے قدم پڑے تھے وہ اب تک "شریف" اور "مقدس" کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ کیا بات تھی؟ بات یہ تھی کہ ان کے پاس دلوں کے کھینچنے کا وہ سامان تھا جو نہ امرا و سلاطین کے پاس ہے اور نہ علما و حکما کے پاس۔ لیکن دلوں کو ہاتھ میں لانے کے لیے سب سے پہلے ہم زبانی لازم ہے۔ ہم زبانی کے بعد ہم خیالی پیدا ہوتی ہے۔ درویش کا تکیہ سب کے لیے کھلا تھا۔ بلا امتیاز ہر قوم و ملت کے لوگ ان کے پاس آتے اور ان کی زیارت اور صحبت کو موجبِ برکت سمجھتے۔ عام و خاص کی کوئی تفریق نہ تھی۔ خواص سے زیادہ عوام ان کی طرف جھکتے تھے۔ اس لیے تلقین (دعوت و تبلیغ) کے لیے انہوں نے جہاں اور ڈھنگ اختیار کیے، ان میں سب سے مقدم یہ تھا کہ اس خطے کی زبان سیکھیں تاکہ اپنا پیغام عوام تک پہنچا سکیں۔ چنانچہ جتنے اولیاء اللہ سر زمینِ ہند میں آئے یا یہاں پیدا ہوئے، وہ باوجود عالم و فاضل ہونے کے عوام سے انہیں کی بولی میں بات چیت کرتے اور تعلیم و تلقین فرماتے تھے۔ یہ بڑا گُر تھا اور صوفیا اسے خوب سمجھتے تھے۔‘‘ (اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، ص : 3، 4، ناشر: انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی)

ہندوستان میں چشتی صوفیائے و مشائخ نے جہاں دین و مذہب کی گراں قدر خدمات انجام دیں، وہیں علوم و ادبیات کے فروغ و استحکام میں بھی نمایاں طور پر حصہ لیا۔ کتب و رسائل اور ملفوظات و مکتوبات کی صورت میں صوفیائے چشت اہلِ بہشت کے علمی و ادبی کارناموں کی سینکڑوں مثالیں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ محبوبِ الہٰی حضرت نظام الدین اولیاء اور آپ کے خلفا اور خلفا کے خلفا نے دین و دانش اور ادب و ثقافت کی اہم خدمتیں انجام دیں۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیگم ریحانہ فاروقی (مدیرۂ اعلیٰ آستانہ، دہلی) لکھتی ہیں:

’’اگر ہم یہ کہیں کہ دلی میں اردو ادب کی خدمت کے آغاز اور اس کی ترویج و ترقی کے بانی و معمارِ اول حضرت محبوب الہٰی خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ حضرت کی خانقاہ دینی و روحانی تعلیم کا تو مرکز تھی ہی، لیکن یہاں ظاہری تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ محبوب الہٰی یہ چاہتے تھے کہ ایک ایسی ہلکی پھلکی زبان وجود میں آئے جو عوام کے درمیان باہمی خلوص و رابطہ کا آسان ذریعہ بن سکے اور صوفیا و مشائخین اور علمائے دین اس کے ذریعہ بہ آسانی مؤثر طور پر تبلیغِ دین کر سکیں، درسِ طریقت و ریاضت دے سکیں اور اس زبان کے ذریعہ بندگانِ خدا کی حقیقی معنوں میں اثر آفریں رہنمائی و رہبری کر سکیں۔ یہ صحیح ہے کہ حضرت نے خود اردو میں کوئی تحریری کام انجام نہیں دیا، جس کا سبب یہی ہو سکتا ہے کہ حضرت موصوف نے عبادت و ریاضت اور مخلوق خدا کی بے لوث خدمت کو اولیت اور ترجیح دی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان مصروفیات کے حلقہ میں رہ کر کوئی تحریری کام کرنے کا وقت نکالنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے عزیز ترین سعادت مند و فرماں بردار مرید و شاگرد رشید حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس مقصد کے آغاز و حصول کے لیے احساس دیا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت امیر خسرو اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے کامیاب معمار اول ثابت ہوں گے۔‘‘ (دہلی کے مشائخ کی ادبی خدمات، ص : 24، ناشر: اردو اکادمی، دہلی)

حضرت نظام الدین اولیاء کے خلفا کے خلفا میں ایک نمایاں ترین ہستی کا نام حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ ہے، جنہوں نے دعوت و تبلیغ، مذہب و روحانیت اور علم و ادب کی وسیع پیمانے پر خدمت انجام دی۔ آپ جامعِ شریعت و طریقت تھے۔ لطائفِ اشرفی اور مکتوباتِ اشرفی کے مطالعہ سے علومِ ظاہری و باطنی میں آپ کے رسوخ و مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مختلف دینی و علمی موضوعات پر دو درجن سے زائد کتب و رسائل آپ کے تبحرِ علمی پر دلالت کرتے ہیں۔ آپ کو بہت ساری علمی و روحانی فضیلتیں حاصل ہیں۔ آپ کے علمی و ادبی فضائل میں سے ایک نمایاں ترین فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ اردو کے پہلے مصنف ہیں۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے اردو رسالۂ اخلاق و تصوف کی دریافت میر نذر علی دردؔ کاکوروی کا ایک عظیم کارنامہ ہے اور اس کے لیے وہ پوری دنیائے ادب کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر فرقان علی مخمورؔ کاکوروی نے نذر علی دردؔ کاکوروی کی اس عظیم تحقیقی دریافت کو سراہا ہے اور دوسرے ادبا و محققین کی صرف اس لیے سرزنش کی ہے کہ اس تحقیقی دریافت کا سہرا دردؔ کاکوروی کے بجائے پروفیسر حامد حسن قادری کے سر کیوں باندھا جاتا ہے۔ اردو کی پہلی تصنیف اور اردو کے پہلے مصنف کے بارے میں طرح طرح کی خیال آرائیاں اور قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ کسی نے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کو تو کسی نے کو حضرت امیر خسرو کو اردو کا پہلا مصنف قرار دیا ہے، لیکن میر نذر علی دردؔ کاکوروی کی تحقیق و دریافت کے مطابق حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی اردو کے پہلے ادیب و مصنف قرار پاتے ہیں۔ دردؔ کاکوروی جب یہ نئی تحقیق لے کر اپنی دھماکے دار انٹری کے ساتھ میدانِ ادب میں وارد ہوئے تو اردو نثر کی تاریخ کے سابقہ بلند بانگ دعوے اور بہت سارے مزعومات و مسلّمات کی دیواریں منہدم ہو گئیں اور رفتہ رفتہ اربابِ ادب و تحقیق اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی واقعی اردو کے پہلے ادیب و مصنف ہیں اور اخلاق و تصوف سے متعلق ان کا تحریر کردہ بلند پایہ رسالہ اردو نثر کی پہلی کتاب ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں عصری دانش گاہوں سے تعلق رکھنے والے فضلا اور ماہرینِ زبان و ادب کے وقیع افکار و آرا جمع کیے گئے ہیں، تاکہ علمی و ادبی حلقوں میں اس فکر و خیال کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جا سکے۔

(۱) سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ سے متعلق دردؔ کاکوروی کی تحقیقی دریافت اور دردؔ صاحب کی تحقیقی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر فرقان علی مخمورؔ کاکوروی لکھتے ہیں:

’’دنیا کی ہر زبان کے نگار خانے میں ہم کو تین طرح کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جو صرف شاعری کرتے ہیں۔ دوسرے جنہوں نے نثر نگاری کو اپنا شعار بنایا اور تیسرے وہ جو شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ میر نذر علی دردؔ کاکوروی کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے شاعری بھی کی اور نثر کے میدان میں بھی اپنے اشہبِ قلم کو جولاں کیا۔ یہاں یہ بھی عرض کر دینا بعید از موضوع نہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کی تعداد خال خال ہے جن کو نظم اور نثر دونوں میں کامل دستگاہ حاصل ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دردؔ کی ایوانِ ادبِ اردو میں اہمیت و افادیت اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ دردؔ کاکوروی نے اپنے عہدِ شباب میں شاعری کے ساتھ نثر نگاری کی طرف بھی خاص توجہ کی اور مختلف تاریخی، ادبی اور مذہبی موضوعات پر قلم اٹھایا۔ ان کی نثر میں سادگی اور سلاست کے ساتھ علمی سنجیدگی ہے۔ اسی لیے ان کے ادبی اور تاریخی مضامین میں ان کی فکر پوری طرح ظاہر ہوئی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت دردؔ نے زبان پر جس قدرت کا ثبوت دیا ہے، وہ انشا پردازی نہیں ہے، بلکہ فکر و خیال کی ترسیل کا کامیاب نمونہ ہے۔ نثر میں دردؔ کئی حیثیتوں سے نمودار ہوتے ہیں۔ وہ بیک وقت مصنف بھی ہیں اور مؤلف بھی، محقق بھی ہیں اور ناقد بھی، مرتب بھی ہیں اور مؤرخ بھی۔ انہوں نے اپنی نثر میں مختلف النوع مضامین یادگار چھوڑے ہیں۔‘‘

دردؔ کاکوروی جس پایہ کے شاعر ہیں، اسی پایہ کے نثر نگار بھی ہیں۔ اردو نثر میں ان کے دو مضامین ایسے ہیں جنہوں نے بحیثیتِ نثر نگار ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ایک مضمون تو وہ ہے جس میں انہوں نے مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے "رسالۂ معرفت" کو اردو نثر کی پہلی کتاب قرار دیا ہے۔ اگرچہ یہ بات ابھی تک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی ہے، پھر بھی اس کتاب کے وجود سے یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دردؔ کاکوروی نے خود ۲۰۷ صفحات پر مشتمل مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی اس قلمی کتاب کو دیکھا تھا اور اس کے چند جملے بھی بطورِ نمونہ پیش کیے تھے۔ ان کا یہ مضمون (ماہنامہ) نگار، دسمبر ۱۹۲۵ ء میں شائع ہوا تھا اور پروفیسر حامد حسن قادری نے اپنی کتاب " داستانِ تاریخ اردو " میں اس رسالہ کو اردو کی پہلی کتاب تسلیم کرتے ہوئے لکھا:

’’میر نذر علی دردؔ کاکوردی رسالہ نگار بابت دسمبر ۱۹۲۵ ء میں لکھتے ہیں کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے سلسلہ کے ایک بزرگ مولانا وجیہ الدین کے ارشادات کو اردو زبان میں ( جس کو اس زمانہ میں زبان ہندی کہا کرتے تھے )، خود جمع کیا ہے۔ میں نے اپنے بزرگ کے پاس خود اس کتاب کو دیکھا ہے۔ یہ قلمی کتاب ۲۰۷ / صفحہ کی ہے۔ اس کے ص : ۱۱۸ کی عبارت کا ایک ٹکڑا یہ ہے: "اے طالب ! آسمان و زمین سب خدا میں ہے۔ ہوا سب خدا میں ہے۔ جو تحقیق جان اگر تجھ میں سمجھ کا کچھ ذرہ ہے تو صفات کے باہر بھیتر سب ذات ہی ذات"۔‘‘

دردؔ کاکوروی کی یہ تحقیق حامد حسن کے حوالے سے اتنی مشہور ہوئی کہ ادبی حلقوں میں انہیں کے نام سے منسوب ہو گئی۔ حالاں کہ قادری صاحب نے اس سلسلہ میں دردؔ کاکوروی کی تحقیق کا ہی حوالہ دیا تھا۔ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے ڈاکٹر نسیم قریشی نے بھی یہی غلطی کی ہے کہ حامد حسن قادری کی کتاب دیکھے بغیر ہی انہوں نے اپنی کتاب " اردو ادب کی تاریخ " کے ص: ۱۱۹ پر لکھ دیا کہ پروفیسر حامد حسن قادری کی تلاش و تحقیق نے ایک اردو رسالہ کا پتہ لگایا ہے جو "دہ مجلس" سے سوا چار سو برس پہلے ۱۳۰۰ء میں تصنیف ہوا۔ اس کے مصنف خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی ہیں۔ اب علمی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ یہ دریافت دردؔ کاکوروی کی مرہون منت تھی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ایڈیٹر ماہنامہ نگار، کراچی (پاکستان) نے لکھا ہے کہ:

’’شعبۂ تحقیق میں بھی اہل کاکوری کے بعض اضافے بہت اہم ہیں۔ میر نذر علی دردؔ کاکوروی نے "نگار" دسمبر ۱۹۲۵ء کے شمارے میں حضرت امیر خسرو کے ایک معاصر اشرف جہانگیر سمنانی کے "رسالۂ معرفت" کا سراغ دے کر اہلِ نظر کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ اردو نثر کی پہلی تصنیف یہی رسالہ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو اردو میں نظم و نثر کے آغاز کا زمانہ ایک ہی قرار پاتا ہے اور اُردو نثر کی تاریخ بھی کوئی سات سو سال پرانی ہو جاتی ہے۔‘‘ (میر نذر علی دردؔ کاکوروی : حیات اور کارنامے، ص : 285، 286، ناشر : مخمور کاکوروی، تقسیم کار: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی)

(۲) ڈاکٹر حامد حسن قادری، دردؔ کاکوروی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’خواجہ سید اشرف جہاں گیر سمنانی نے (جن کا مزارِ مبارک کچھوچھہ شریف علاقۂ اودھ میں ہے) اُردو میں ایک رسالہ "اخلاق و تصوف" پر ۱۳۰۸ء / ۷۰۸ھ میں تصنیف کیا۔ نثرِ اردو میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں۔ سید اشرف جہاں گیر سمنانی صاحب ۱۲۸۹ء / ۶۸۸ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ سال کی عمر پا کر بہ حسابِ قمری ۱۴۰۵ء / ۸۰۸ھ میں وفات پائی۔ "خالقِ باری" کا سالِ تصنیف معلوم نہیں۔ لیکن چوں کہ امیر خسرو، سید اشرف صاحب سے عمر میں ۳۵ سال بڑے ہیں، اس لیے "خالقِ باری" کو مقدم رکھا گیا ہے۔ ممکن ہے سید اشرف صاحب کی کتاب پہلے لکھی گئی ہو اور اردو زبان میں تصنیفِ اولین یہی ہو۔ بہرحال اولیت انہیں دونوں (حضرت امیر خسرو و حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی علیہما الرحمہ) میں دائر ہے۔ اب تک اربابِ تحقیق متفق الرائے تھے کہ شمالی ہند میں اٹھارہویں صدی عیسوی (بارہویں صدی ہجری) سے پہلے تصنیف و تالیفِ نثر کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ فخر دکن کو حاصل ہے کہ وہاں شمالی ہند سے چار سو برس پہلے اُردو کی تصانیف کا آغاز ہوا۔ اب سید شرف جہاں گیر کے " رسالہ تصوف " کی دریافت سے وہ نظریہ باطل ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ دکن میں اردو زبان کی بنیاد پڑنے سے پہلے شمالی ہند میں امیر خسرو اور سید اشرف جہاں گیر نے نظم و نثر دونوں کی بنیاد ڈال دی تھی۔‘‘ (تاریخ و تنقید، ص: ۹، ناشر : لکشمی نرائن اگروال پبلشر، آگرہ)

ڈاکٹر حامد حسن قادری اپنی دوسری مدلل تحقیقی کتاب "داستان تاریخِ اردو" میں لکھتے ہیں:

’’خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی (جن کا مزار کچھوچھہ شریف علاقۂ اودھ میں ہے) نے اُردو میں ایک رسالہ اخلاق و تصوف پر ۱۳۰۸ء / ۷۰۸ھ میں تصنیف کیا۔ میر نذر علی دردؔ کاکوروی "رسالہ نگار لکھنؤ" بابت دسمبر ۱۹۲۵ء میں لکھتے ہیں کہ "سید اشرف جہانگیر نے اپنے سلسلے کے ایک بزرگ مولانا وجیہہ الدین کے ارشادات کو اردو زبان میں (جس کو اس زمانے میں ہندی زبان کہا کرتے تھے) خود جمع کیا ہے۔ میں نے اپنے ایک بزرگ کے پاس خود اس کتاب کو دیکھا ہے۔ یہ قلمی کتاب ۲۰۷ صفحہ کی ہے۔ اس کے صفحہ: ۱۱۸ کی ایک عبارت کا ٹکڑا یہ ہے: اے طالب! آسمان و زمین سب خدا میں ہے۔ ہوا سب میں خدا ہے۔ جو تحقیق جان اگر تجھ میں کچھ سمجھ کا ذرہ ہے تو صفات کے باہر بھیتر سب ذات ہی ذات۔ نثرِ اُردو میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں ہے۔ سید اشرف صاحب جہانگیر ۱۲۸۹ء / ۶۸۸ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ سال کی عمر کو پہنچ کر ۱۴۰۵ء / ۸۰۸ھ میں وفات پائی۔ "خالقِ باری" کا سال تصنیف معلوم نہیں لیکن چوں کہ امیر خسروؔ، سید اشرف سے عمر میں ۳۵ سال بڑے ہیں۔ اس لیے خالق باری کو مقدم رکھا گیا ہے۔ ممکن ہے سید اشرف صاحب کی کتاب پہلے لکھی گئی ہو اور اُردو زبان میں تصنیفِ اولین یہی ہو۔ بہرحال اولیت انہیں دونوں میں دائر ہے۔ بعض محقیقین کی نظر میں " خالقِ باری " کا انتساب حضرت امیر خسرو سے مشتبہ ہے۔ اس نظریہ کی بنا پر اگر خالق باری کسی بعد کے مصنف کا کارنامہ ہے تو پھر سید اشرف جہانگیر کا رسالہ تصوف ہی اُردو کی پہلی کتاب ہے۔ اب تک اربابِ تحقیق متفق الرائے تھے کہ شمالی ہند میں اٹھارویں صدی عیسوی (بارہویں صدی ہجری) سے پہلے تصنیف و تالیفِ نثر کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ فخر دکن کو حاصل ہے کہ وہاں شمالی ہند سے چار سو برس پہلے اُردو کی تصانیف کا آغاز ہوا۔ اب سید اشرف جہانگیر کے رسالۂ تصوف کی دریافت سے وہ نظریہ باطل ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ دکن میں اُردو زبان کی بنیاد پڑنے سے پہلے شمالی ہند میں امیر خسرو اور سید اشرف جہانگیر نے نظم و نثر دونوں کی بنیاد ڈال دی تھی۔‘‘ (داستان تاریخِ اردو، ص : ۵۳، ۵۴، ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی)

(۳) پروفیسر اختر اورینوی (صدر شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی، بہار) اپنے تحقیقی مضمون "بولیوں کا سنگم" میں لکھتے ہیں:

’’دہلی اور بہار اسکول میں مماثلت ضرور ہے۔ لیکن ہر دو نے ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہوئے انفرادی طور پر ترقی کی ہے اور دونوں اسکول از خود پیدا ہوئے۔ میر حسن کے استاد میر ضیاؔ دہلی سے عظیم آباد چلے آئے۔ اشکؔی اور جمالؔی نے خواجہ میر دردؔ سے اصلاحیں لیں، مگر اس کو کیا کیجیے کہ خود میر تقی میرؔ، جعفرؔ عظیم آبادی کے شاگرد تھے۔ راسخؔ عظیم آبادی اور جوششؔ عظیم آبادی کی شاعری میرؔ و سوزؔ کی شاعری کا جواب ہے۔ غالبؔ نے بیدلؔ عظیم آبادی کے کلام کو سامنے رکھ کر مشقِ سخن کی۔ موجودہ تحقیقات کی بنا پر تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امیر خسروؔ اور حضرت خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے بعد دہلی اور صوبۂ متحدہ میں اُردو کو اُس وقت تک فروغ نہ ہوا، جب تک ولؔی دکنی نے دہلی کے تخیل کو آ کر نہ چھیڑا۔‘‘ (تحقیق و تنقید، ص: ۳۰، ناشر: کتابستان، الہٰ آباد)

(۴) اردو کے مایۂ ناز ادیب و محقق پروفیسر مظفر اقبال (سابق صدر شعبۂ اردو بھاگل پور یونیورسٹی، بھاگل پور، بہار) کے بقول:

’’مولوی عبد الحق صاحب کی کوششوں سے جب جنوبی ہند کا بیش قیمت سرمایۂ ادب اہلِ فکر و نظر کے سامنے پیش ہوا تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ شمالی ہند سے بہت پیش تر جنوبی ہند میں اُردو نثر میں ترجمہ و تالیف کا کام شروع ہو چکا تھا۔ محققین نے دکن میں اردو نثر کا پہلا مصنف شیخ عین الدین گنج العلم متوفیٰ: ۱۳۹۳ء / ۷۹۵ھ کو قرار دیا ہے لیکن ان کے رسائل کا پتہ نہیں چلتا۔ اس لیے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز متوفیٰ: ۱۴۲۲ء / ۸۲۵ھ ھم نہ کی تصنیف "معراج العاشقین" کو دکن میں اردو نثر کا قدیم ترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کا سنِ کتابت ۱۴۴۲ء بتایا جاتا ہے اور سنِ تصنیف ۸۰۱ھ مطابق ۱۳۹۸ء سے قبل۔ معراج العاشقین کی دریافت کے بعد عرصۂ دراز تک اسے اُردو نثر کی اولین تصنیف کا درجہ حاصل رہا اور اردو نثر نویسی کے سلسلے میں جنوبی ہند کی اولیت کو تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن سید اشرف جہانگیر سمنانی کی نثری تصنیف کی دریافت کے بعد اولیت کا سہرا پھر شمالی ہند کے سر پر باندھ دیا گیا اور اب تک کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ معراج العاشقین کی تصنیف سے ۱۷  سال پیش تر شمالی ہند کے جلیل القدر صوفی سید اشرف جہانگیر سمنانی (متولد: ۶۸۸ھ مطابق ۱۲۸۹ء - وفات: ۸۰۸ھ مطابق ۱۴۰۵ء) نے اردو نثر میں جو رسالہ تصنیف کیا تھا، وہی اُردو نثر کی سب سے پہلی کتاب ہے۔ اس کا سنِ تصنیف ۷۰۸ھ مطابق ۱۳۰۸ء ہے اور موضوع اخلاق و تصوف ہے۔‘‘ (بہار میں اردو نثر کا ارتقا، ص: ۱۴، ۱۵، ناشر: کتاب خانہ ترپولیا، پٹنہ، بہار)

(۵) مشہور محقق پروفیسر وقار احمد رضوی لکھتے ہیں:

’’اردو نثر کی تاریخ آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ اردو نثر کا قدیم نمونہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ہے جو ۷۰۸ھ مطابق ۱۳۰۸ء کا ہے۔ پھر شیخ عین الدین گنج العلم متوفیٰ: ۷۹۵ھ کی تصانیف کا حوالہ ملتا ہے۔ اس کے بعد معراج العاشقین از خواجہ بندہ نواز گیسو دراز گلبرگوی کا ذکر آتا ہے۔‘‘ (ممبئی عظمیٰ کی تاریخ، ص: ۶۶، ناشر: ادارہ معارفِ اسلامی، ممبئی، بحوالہ تاریخِ نقد، ناشر: نیشنل بک فاؤنڈیشن، کراچی، پاکستان ۲۰۰۴، ص : ۲۸۵)

(۶) ڈاکٹر عابدہ بیگم (شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی) لکھتی ہیں:

’’تمام محققین نے "کربل کتھا" کو شمالی ہند کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق اس سے پہلے نثری تصانیف کا آغاز ہو چکا تھا۔ ان کے ادبی یا معیاری ہونے کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان کو نثری تصانیف کی صف سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ابتدائی تحریروں کا ذکر کرتے ہوئے مؤرخین نے سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالہ کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے ممدو خاں کے رسالے کو نقشِ اول بتایا ہے۔ انھیں یہ رسالہ بیجا پور میں دستیاب ہوا۔ اس رسالے کے ساتھ دو اور منظوم رسالے پند نامہ اور چکی نامہ بھی منسلک تھے، سنِ تصنیف درج نہیں۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اس کی زبان اور اندازِ بیان کو دیکھتے ہوئے اسے سید اشرف جہانگیر سمنانی سے قبل کی تصنیف قرار دیتی ہیں ........ حامد حسن قادری نے سید اشرف جہانگیر سمنانی کے اردو رسالے کا ذکر کیا ہے۔ قادری صاحب نذرؔ کاکوری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سید مخدوم اشرف کا یہ رسالہ اخلاق و تصوف پر مبنی ہے۔ اس رسالہ میں مصنف نے اپنے بزرگ کے ارشادات کو جمع کر کے رسالے کی شکل دے دی ہے۔‘‘ (اردو نثر کا ارتقا، ص: ۱۳، ۱۴، ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی)

(۷) مشہور ناقد و محقق اور ادیب و صحافی ڈاکٹر فرمان فتح پوری (ایڈیٹر "نگار") نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالۂ تصوف و معرفت اردو کی پہلی تصنیف ہے اور اردو نظم و نثر کے آغاز کا زمانہ تقریباً ایک ہی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’شعبۂ تحقیق میں بھی اہل کاکوری کے بعض اضافے بہت اہم ہیں۔ میر نذر علی دردؔ کاکوروی نے "نگار" دسمبر ۱۹۲۵ء کے شمارے میں حضرت امیر خسرو کے ایک معاصر اشرف جہانگیر سمنانی کے "رسالۂ معرفت" کا سراغ دے کر اہلِ نظر کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ اردو نثر کی پہلی تصنیف یہی رسالہ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو اردو میں نظم و نثر کے آغاز کا زمانہ ایک ہی قرار پاتا ہے اور اُردو نثر کی تاریخ بھی کوئی سات سو سال پرانی ہو جاتی ہے۔‘‘ (پیش لفظ سخنورانِ کاکوری، ص: 13، ناشر: میخانۂ ادب، ناظم آباد، کراچی)

(۸) ڈاکٹر نسیم قریشی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے اپنی بلند پایہ تصنیف "اردو ادب کی تاریخ" میں سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالۂ اردو (جو اخلاق و تصوف پر مشتمل ہے) کی لسانی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور دردؔ کاکوروی و حامد حسن کی تائید کرتے ہوئے آپ کے کے مذکورہ بالا رسالے کو اردو کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’شمالی ہند میں اردو شعر گوئی کا عام رواج محمد شاہ رنگیلے کے عہد سے ہوا۔ جب ولؔی دکنی کے دوبارہ دورۂ دہلی نے دار السلطنت میں ادبی چہل پہل کی نئی فضا پیدا کر دی، شمالی ہند کے با کمالوں نے اس ذوق و شوق، طبیعت داری اور فن کے رچاؤ کے ساتھ اُردو شاعری کو وسیلۂ اظہارِ خیال بنایا کہ بہت جلد اس کا بلند فنی معیار قائم ہو گیا، لیکن شمالی ہند میں ادب اور زندگی پر فارسی کا تسلط اس قدر شدید اور قوی تھا کہ اردو نے بڑی صبر آزما منزلیں طے کر کے اور ایک حد تک اپنا جوہر کھو کر با قاعدہ ادبی حیثیت اختیار کی۔ ۱۸۰۰ء تک شمالی ہند میں اردو نثر نے کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ اب تک عام خیال یہ تھا کہ شمالی ہندی اردو نثر کی پہلی کتاب فضلی کی "دہ مجلس" ہے جس کا سنِ تصنیف ۱۷۳۲ء ہے۔ پروفیسر حامد حسن قادری کی تلاش و تحقیق نے ایک اور رسالہ کا پتہ لگایا ہے جو "دہ مجلس" سے سوا چار سو برس پہلے ۱۳۰۸ء میں تصنیف ہوا۔ اس کے مصنف خواجہ سید جہانگیر اشرف سمنانی ہیں۔ رسالہ اخلاق و تصوف سے متعلق ہے۔ اس کی تمام تر اہمیت لسانی ہے۔‘‘ (اردو ادب کی تاریخ، ص: 129، ناشر: ادارۂ فروغِ اردو، لکھنؤ)

(۹) ڈاکٹر عبد الرؤف (سابق صدر شعبۂ اردو کلکتہ یونیورسٹی) لکھتے ہیں:

’’اردو کا ایک رسالۂ تصوف اور چند فقرے حضرت اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ سے منسوب ہیں ......... خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اردو میں ایک رسالہ اخلاق و تصوف پر ۱۳۰۸ء / ۷۰۸ھ میں تصنیف کیا۔‘‘ (مغربی بنگال میں اردو کا لسانیاتی ارتقا، ص: 99، ناشر : مغربی بنگال اردو اکیڈمی، کلکتہ)

(۱۰) ماضی قریب کے مشہور محقق و مؤرّخ پروفیسر سید حسن عسکری، پٹنہ نے بھی سید اشرف جہانگیر سمنانی کی طرف ایک اردو رسالہ منسوب کیے جانے کی بات کہی ہے اور بتایا ہے کہ جب تک اس پر تنقیدی نظر نہ ڈالی جائے، اس کی قدامت و اصلیت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’حضرت اشرف جہانگیر سمنانی سے ایک رسالہ اردو منسوب ہے، لیکن جب تک اس پر نظرِ غائر نہ ڈالی جائے اس کی قدامت و اصلیت کے متعلق صرف دو تین اشعار سے کچھ فیصلہ کرنا مناسب نہ ہو گا۔ لیکن ہندی کی واقفیت اور استعمال کی شہادت تو خود لطائفِ اشرفی میں موجود ہے۔‘‘ (عہدِ وسطیٰ کی ہندی ادبیات میں مسلمانوں کا حصہ، ص: 52، 53، ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)

ان دلائل و شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کا شمار اردو ادب کے سابقین اولین مصنفین میں ہوتا ہے اور آپ کا مذکورہ رسالہ اردو کی پہلی تصنیف ہے۔ حضرت مخدوم پاک کثیر التصانیف بزرگ تھے۔ بعض سوانح نگاروں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ سلسلۂ چشتیہ میں آپ نے تصنیف و تالیف کی طرف جس قدر توجہ دی ہے اور جتنی کتابیں لکھی ہیں، شاید ہی کوئی دوسرے چشتی بزرگ آپ کے مثل ہوئے ہوں۔ آپ کی زندگی کا چوتھائی حصہ (تقریباً تیس سال) سفر میں گذرا۔ سفر میں کتابوں کا ذخیرہ ساتھ رکھتے اور دورانِ سفر وعظ و ارشاد اور تعلیم و تلقین کا سلسلہ جاری رہتا۔ دورانِ سفر لوگوں کی فرمائش پر کتابیں لکھ کر ان کے حوالے کر دیتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اگر آپ کی کتابوں کی نقلیں محفوظ رکھی جاتیں تو آج دنیا آپ کی تصنیفی کثرت کا اعجاز ملاحظہ کرتی۔ مجدّدِ سلسلہ اشرفیہ، شیخ المشائخ حضرت مولانا شیخ محمد علی حسین اشرفی کچھوچھوی (معروف بہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں) آپ کی تصانیفِ عالیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’حضرت مولانا ابو الفضائل نظام الدین یمنی خلیفۂ مخدوم اشرف و جامعِ ملفوظات لطائفِ اشرفی فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب یزدانی کا علم عجیب خدا داد علم تھا۔ روئے زمین میں جہاں تشریف لے جاتے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کر کے وہاں کے لوگوں کے لیے چھوڑ آتے۔ بہت سی کتابیں آپ نے عربی، فارسی، سوری، زنگی اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں تصنیف فرمائیں، جن کی فہرست اگر لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علمائے جلیل القدر کا قول ہے کہ جس قدر تصانیف حضرت محبوب یزدانی نے فرمائیں بہت کم علماء اس قدر تصانیفِ کثیرہ کے مصنف ہوں گے۔ کتاب کنز الاسرار، ذکر اسمائے الہٰی اور تسخیرِ کواکب حضرت نے تالیف فرمائی جس کی تعلیم مجھ کو حضور سے حاصل ہوئی تھی۔ یہ عجیب کتاب آپ کی تالیفات سے فنِّ تکسیر میں تھی۔ تصانیفِ کثیرہ آپ کی اس قدر ہیں کہ جس کی فہرست لکھنا محال ہے۔ اکثر کتابیں آپ کی تالیفات سے بنام قدوۃ الخوانین حضرت سیف خاں (خلیفۂ مخدوم اشرف) جو داماد فیروز شاہ بادشاہ دہلی کے تھے، تصنیف ہوئیں اور اس فقیر نظام یمنی نے دو جلدیں حضرت کے ملفوظات سے کتاب "لطائف اشرفی" اور کتاب "سرّ الاسرار" اور رقعات حضرت کے جمع کر کے اس کو "مرقوماتِ اشرفی" کے نام سے موسوم کیا اور کتاب "سکندر نامہ" حضرت نظامی گنجوی کی بھی شرح لکھی۔ ان کتب کے علاوہ مقاماتِ مختلفہ میں حضور محبوب یزدانی نے جو کتابیں تحریر فرمائیں، ان میں سے خاص خاص کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
امام عبد اللہ یافعی کے ارشاد اور شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کی روحانی بشارت سے کتاب "عوارف المعارف" کی آپ نے شرح لکھی۔ جب روم تشریف لے گئے تو حضرت مولانا شیخ محیی الدین ابن عربی قدس سرہ کی کتاب "فصوص الحکم" کی شرح لکھی اور اس کو صاحب المعارف شیخ نجم الدین ابن شیخ صدر الدین فغانی کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ میں نے اس شرح کو حضرت شیخِ اکبر کے حکم پر لکھا ہے۔
حضرت محبوب یزدانی جب عرب تشریف لے گئے تو اہلِ عرب نے حضرت کے رسائلِ تصوف کی طرف بڑی توجہ دی کیا اور وہاں آپ نے کتاب "قواعد العقائد" عربی زبان میں تصنیف فرمائی۔ حضرت نے اہلِ عرب میں تقسیم کے واسطے خاص کر یہ کتاب لکھی، جیسا کہ مولانا اعظم مولانا علی نے لمعات کو عربی کیا۔ آپ نے اس کی شرح بھی عربی زبان میں لکھی اور بہت کچھ اسرارِ معارفِ الہٰی اس میں درج فرمائے۔ جب حضرت محبوب یزدانی اطرافِ عراق و خراسان و ماوراء النہر میں تشریف لے گئے تو وہاں کے سادات نے کتاب "بحر الانساب" پیش کی۔ حضرت محبوب یزدانی نے کتاب مذکور سے منتخب کتاب "اشرف الانساب" تصنیف کی اور کتاب "بحر الاذکار" بھی وہاں تصنیف فرمائی اور رسالہ "اشرف الفوائد" اور "فوائد الاشرف" صوبۂ گجرات میں تصنیف فرمایا اور کتاب "بشارۃ الذاکرین" اور رسالہ "تنبیہ الاخوان" اور رسالہ "بشارۃ الاخوان" بپاسِ خاطر حضرت سیف خان تصنیف فرمائے اور روم کے سفر میں رسالہ "مصطلحاتِ تصوف" تحریر فرمایا اور رسالہ "مناقب خلفائے راشدین و فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ" لکھا جس پر علمائے محمد آباد گوہنہ نے کثیر مناقبِ حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سبب اعتراض کیا تھا اور چند رسائل تصوف میں بمقام روم اور لکھے جن کے نام یاد نہیں۔ رسالہ "حجۃ الذاکرین" بنگال میں تصنیف فرمایا۔ اس رسالہ میں پانچوں وقت بعد ادائے فریضہ تین بار بآوازِ بلند کلمۂ طیبہ کا ثبوت احادیت اور تفاسیر سے فرمایا ہے۔ اس رسالہ کو "نصیحت نامہ" کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ کتاب "فتاوائے اشرفیہ" بزبان عربی محض بپاسِ خاطر حضرت نور العین تحریر فرمایا۔ اس کتاب میں مسائلِ فقہ بڑی بڑی کتابوں سے انتخاب کر کے تصنیف فرمایا۔ یہ فتاویٰ جامعِ مسائل ضروریہ مذہبِ حنفیہ میں اس خوبی کے ساتھ لکھا کہ کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا کہ جس کی سفر و حضر میں دیکھنے کی ضرورت نہ ہو۔
علم تفسیر میں کتاب "تفسیرِ ربح سامانی" اور کتاب "تفسیرِ نور بخشیہ" تصنیف فرمائی اور کتاب "ارشاد الاخوان" اوراد و اشغالِ مشائخِ چشت اہلِ بہشت میں تصنیف فرمائی اور ایک رسالہ بحثِ "وحدۃ الوجود" میں لکھا، یہ ایک نایاب رسالہ ہے جس میں "سرِّ ہمہ او ست" کو بہ دلائل احادیث و تفسیر تحریر فرمایا اور رسالہ "تجویزیہ" در جواز بر لعنِ یزید جون پور میں علما کے مباحثہ کے بعد تحریر فرمایا اور موافقِ عقیدۂ صاحب شرحِ عقائد نسفی یزید پر لعنت فسقی کہنا جائزہ ثابت کیا اور کتاب "بحر الحقائق" میں معرفت و حقیقت کے اسرار و رموز بیان فرمائے۔ علم نحو میں "نحوِ اشرفیہ" تصنیف فرمایا جس میں تمام مسائل نحوی بالتفصیل درج فرمائے۔ نیز کتاب "کنز الدقائق" تصوف میں تصنیف فرمائی اور رسالہ "بشارۃ المریدین" حسبِ درخواست سلطان ابراہیم شرقی جون پور میں تصنیف کیا اور "رسالہ غوثیہ" ذکرِ مردان اہل خدمات ابدال و اوتاد و غوث و قطب وغیرہ میں تصنیف کیا۔ "رسالہ قبریہ" اپنی قبر شریف میں لکھا جس میں حالاتِ نزولِ ملائکہ، اظہار اپنے عقائدِ حقہ اور بشارتِ عالمِ غیب تحریر فرمایا اور علم اصول میں "فصولِ اشرفی" لکھی۔ ایک جلد "مکتوباتِ اشرفی" آپ کے صاحبِ سجادہ حضرت نور العین نے جمع کی۔ "مرقوماتِ اشرفی" حضرت مولانا نظام الدین یمنی حضرت کے خلیفہ نے جمع کیا۔ ایک جلد "رقعاتِ اشرفی" جس کو حضرت مولانا شیخ محمد دُرّ یتیم نے جمع کیا تھا۔ اس میں مختصر رقعاتِ حضرت محبوب یزدانی درج کیے گئے ہیں اور "دیوانِ اشرفؔ" ایک مبسوط کتاب منظوم ہے، جس کو اہلِ زمانہ مثلِ دیوانِ حافظؔ شیرازی مانتے ہیں۔‘‘ (تحائفِ اشرفی، حصہ اول، ص: 115 تا 118، ناشر: ادارہ فیضانِ اشرف دار العلوم محمدیہ، ممبئی)

اس اقتباس سے حضرت مخدوم اشرف کی کثرتِ تصانیف کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بات دو ٹوک کہی جا سکتی ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی اردو کے پہلے مصنف تھے اور اخلاق و تصوف کے موضوع پر آپ کا یہ رسالہ اردو کی پہلی نثری تصنیف ہے۔ دردؔ کاکوروی سمیت اردو کے ایک درجن کے قریب محققین و مؤلفین کے اقوال و آرا ہمارے دعویٰ کی تائید و توثیق کے لیے کافی ہیں۔


سیرت و تاریخ

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۰

قراردادِ مقاصد کا پس منظر اور پیش منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دستور میں حکومتی ترامیم: ملی مجلسِ شرعی کا موقف
ڈاکٹر محمد امین

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۷)
ڈاکٹر محی الدین غازی

انسانیت کے بنیادی اخلاق اربعہ (۱)
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مسئلہ جبر و قدر: متکلمین کا طریقہ بحث
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

’’اقوالِ محمودؒ‘‘ سے ’’نکہتِ گُل‘‘
مولانا فضل الرحمٰن

علما کیا خاموش ہو جائیں؟
خورشید احمد ندیم

مدارس دینیہ میں تدریسِ فقہ: چند غور طلب پہلو
ڈاکٹر عبد الحئی ابڑو

اہلِ کتاب خواتین سے نکاح: جواز و عدم جواز کی بحث
مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

جارج برنارڈشا کی پیشِین گوئی
حامد میر

سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی، اردو کے پہلے ادیب و مصنّف
طفیل احمد مصباحی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۲)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

عہد نبوی میں رقیہ اور جلدی امراض کی ماہر خاتون
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

افغانستان میں طالبان حکومت کے تین سال
عبد الباسط خان

سائنس یا الحاد؟
ہلال خان ناصر

ختمِ نبوت کانفرنس مینار پاکستان پر مبارکباد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

A Glimpse of Human Rights in Islam
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter