اسلام میں مشرکین سے واضح امتیاز برتتے ہوئے اہلِ کتاب کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا گیا ہے اور ان کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے۔ جمہور کا اس پر اتفاق ہے۔ اگرچہ بعض صحابہ و تابعین کو اس سے اختلاف بھی رہا ہے۔اسلامی تاریخ میں جمہور کے قول پر ہی عمل رہا ہے۔ البتہ موجودہ دور میں کئی اعتبارات سے اس مسئلے پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں اور اس حوالے سے مختلف رجحانات ابھر کر سامنے آئے ہیں: ایک رجحان جمہور صحابہ و تابعین کے موقف کے مطابق بالکلیہ جواز کے حق میں رہا ہے۔ جب کہ دوسرا رجحان اس کے مکمل طور پر حرام ہونے کا قائل ہے۔
دورِ جدید میں عالمِ اسلام کی بعض اہم شخصیات مثلاً محمد یوسف موسیٰ، علامہ ابن بادیس وغیرہ مطلق تحریم کی قائل رہی ہیں۔ یوسف موسیٰ کی اس موضوع پر کتاب کا نام ہے: جریمۃ الزواج بغیر المسلمات: فقہا وسیاسۃ۔ تیسرا رجحان ان دونوں کے مابین ہے یعنی یہ کہ کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ مع الکراہت اس کی اجازت ہے۔کم و بیش یہی تینوں رجحانات اپنی تائید میں دلائل کے اختلاف کے ساتھ ماضی میں بھی رہے ہیں۔
کتابیہ کے ساتھ نکاح کے جواز کے دلائل
اہلِ کتاب خواتین کے ساتھ نکاح کے جواز کی دلیل سورہ مائدہ کی پانچویں آیت ہے:
الیوم احل لکم الطیبت و طعام الذین اوتوا الکتب حل لکم و طعامکم حل لہم و المحصنت من المؤمنت و المحصنت من الذین اوتوا الکتب من قبلکم۔
’’آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی‘‘۔ (المائدۃ:۵)
اس پر عمل کرتے ہوئے متعدد صحابہ کرام نے بھی اہل کتاب خواتین سے شادیاں کیں۔ خود خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی نے نائلہ بنت الفرافصہ الکلبیہ سے شادی کی جو بعد میں مسلمان ہو گئیں۔ اسی طرح طلحہ بن عبید اللہ اور حذیفہ بن الیمان وغیرہ کے بارے میں بھی مروی ہے کہ انہوں نے کتابی خواتین سے شادیاں کیں۔(۱) چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں ہے:
وقد تزوج جماعۃ من الصحابۃ من نساء النصاری ولم یروا بذلک باسا اخذا بہذہ الآیۃ الکریمۃ (ای آیۃ المائدۃ:۵)
’’اسی سورہ مائدہ کی پانچویں آیت سے استدلال کرتے ہوئے صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے نصاریٰ کی عورتوں سے شادی کی اور اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا‘‘۔(۲)
البتہ بعض فقہاء سے مختلف شرطیں اور قیود مروی ہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک بنی تغلب (مسیحی عرب قبیلہ) کی خواتین سے نکاح جائز نہیں ہے۔ امام شافعی اس کے جواز کو صرف اسرائیلی خواتین کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ آیت ہے جس میں بنی اسرائیل کو اہلِ کتاب قرار دیا گیا ہے:
ولقد آتینا بنی اسرائیل الکتاب والحکم والنبوۃ۔
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکومت اور نبوت سے نوازا۔ (الجاثیۃ،۱۶)
صحابہ میں سے عبد اللہ ابن عباس کا موقف ہے کہ صرف ذمی و معاہد خواتین سے نکاح جائز ہے۔(۳) تاہم جمہور اس تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک ذمی و غیر ذمی اور معاہد و محارب دونوں طرح کی خواتین اہل کتاب سے نکاح جائز ہے۔ البتہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے جواز کے ساتھ اس میں کراہت پائی جاتی ہے۔
عدمِ جواز کے قائلین اور ان کے دلائل
عدمِ جواز کے قائلین میں صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عمر کا نام آتا ہے۔ ان کے بارے میں روایت ہے کہ جب ان سے یہودی و نصرانی خواتین کے ساتھ نکاح کی بابت سوال کیا جاتا تھا تو وہ جواب دیتے تھے کہ:
ان اللہ حرم المشرکات علی المسلمین ولا اعلم من الشرک شیئا اعظم من ان تقول ربھا عیسی بن مریم وہو عبد من عبید اللہ۔
’’اللہ تعالی نے مومنین پر مشرک خواتین کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ اس سے بڑھ کر اور شرک کیا ہوگا کہ وہ (یعنی مسیحی خواتین) اس کی قائل ہوں کہ ان کا رب حضرت مسیح ہیں۔ حالانکہ وہ خدا کے بندے تھے‘‘۔(۴)
حضرت عبد اللہ بن عمر کا استدلال سورہ بقرہ کی اس آیت سے ہے جس میں اللہ تعالی نے مشرکین کی عورتوں سے نکاح سے منع کیا ہے:
ولا تنکحوا المشرکات حتی یؤمن و لامۃ مؤمنۃ خیر من مشرکۃ و لو اعجبتکم۔
’’اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہو جائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو۔‘‘ (البقرۃ،۲۲۱)
موجودہ دور میں اس رجحان کے نمائندگان کی دلیل یہ ہے کہ اب اہلِ کتاب خاص طور پر مسیحی اپنے صحیح دین پر عامل نہیں رہے۔سیکولر مادیت کا رجحان اس پر اس قدر غالب آچکا ہے کہ مذہب کے بنیادی حقائق اور اساسی تصورات پر ان کا یقین باقی نہیں رہا۔ اس طرح اصل مسیحیت گم ہو چکی ہے۔ بنا بریں ان کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعض اصحابِ علم کی رائے یہ رہی ہے کہ اس سے مراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو غیر محرف مذہبی کتابوں کے پیروکار ہیں لیکن یہ نہایت کمزور بات ہے۔ علامہ رشید رضا تفسیر المنار میں لکھتے ہیں:
قد احل اکل طعام اہل الکتاب و نکاح نسائہم علی الحال التی کانو اعلیہا فی زمن التنزیل وکان ہذا من آخر ما نزل من القرآن۔ وقد وصفہم بانہم حرفوا کتبہم ونسوا حظا مما ذکروا بہ فی ہذہ السورۃ نفسہا کما وصفہم فیما نزل قبلہا ولم یتغیر یوم استنبط الفقہاء تلک المسألۃ شئ من ذلک۔
’’اہلِ کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کو اس حال کے باوجود جائز قرار دیا گیا جس حال پر نزولِ قرآن کے زمانے میں وہ تھے۔ قرآن کی یہ آیت جس میں اہلِ کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کو حلال قرار دیا گیا ہے، نزولِ قرآن کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔ قرآن کے مطابق اہلِ کتاب اپنی کتابوں میں تحریفات کے مرتکب ہوئے اور احکاماتِ خداوندی کے بڑے حصے کو انہوں نے بھلا دیا تھا، اسی کا ذکر اسی سورت میں موجود ہے۔ اہلِ کتاب کے اوصاف کا ایسا ہی بیان سورہ مائدہ سے قبل نازل ہونے والی آیاتِ قرآنی میں موجود ہے۔ اور اس بیان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی (یعنی اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہوا تھا) جب فقہاء نے اہلِ کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کے حلال ہونے کا مسئلہ مستنبط کیا۔‘‘(۵)
ممکنہ درست موقف کیا ہے؟
ابن قدامہ المغنی میں لکھتے ہیں:
لیس بین اہل العلم اختلاف فی حل حرائر نساء اہل الکتاب و من روی عنہ ذلک عمر و عثمان و طلحہ و حذیفہ و سلمان و جابر و غیرہم۔
’’اہلِ علم کے درمیان اہلِ کتاب آزاد خواتین کے ساتھ نکاح کے حلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت عمر، عثمان، طلحہ، حذیفہ، سلمان اور جابر رضی اللہ عنہم سے اس کے حلال ہونے کا موقف مروی ہے‘‘۔(۶)
رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس کا موقف ہے کہ یہ آیت جس میں مشرک خواتین سے نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت سے منسوخ ہے۔ جہاں تک حضرت عبد اللہ ابن عمر کے موقف کا سوال ہے، بعض علماء نے اسے تحریم کے بجائے کراہت پر محمول کیا ہے۔ ابن تیمیہ اور بعض دوسرے علماء کی یہی رائے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس شدت کے ساتھ یہ قول ان سے مروی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی حرمت کے ہی قائل تھے اور اس آیت (البقرہ:۲۲۱) کو جس میں مشرکین کے ساتھ نکاح سے منع کیا گیا ہے، دوسری آیت (المائدۃ،۵) کا ناسخ تصور کرتے تھے، جس میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ ابن تیمیہ کے نزدیک حضرت ابن عمر کا قول کراہت پر محمول ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وقد روی انہ کرہ نکاح النصرانیۃ وہ الیوم مذہب طائفۃ من اہل البدع وقد احتجوا بالآیۃ فی سورۃ البقرۃ۔
’’روایت کے مطابق حضرت عمر نصرانی عورت سے نکاح کو پسند نہیں کرتے تھے۔ آج اہل بدعت کے ایک گروہ کا مذہب یہی ہے۔ انہوں نے سورہ بقرہ کی آیت سے استدلال کیا ہے‘‘۔(۷)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ علم کا ایک طبقہ مطلقاً اس کے عدمِ جواز کا بھی قائل رہا ہے لیکن مستند اہلِ علم اسے بدعت سے تعبیر کرتے تھے۔ چناں چہ فقہ جعفری کا نقطہ نظر وہی ہے جو حضرت عبداللہ ابن عمر کا ہے۔
میرے خیال میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس حوالے سے علمائے امت کے درمیان دو موقف رہے ہیں۔ دو مواقف کی تعبیر اس وقت درست ہوگی جبکہ دوسرے موقف کے حاملین میں قابل ذکر علماء کی ایک تعداد شامل ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں تک حضرت عبد اللہ بن عمر کے موقف کا معاملہ ہے تو اسے ان کے تفرد پر محمول کرنا چاہیے جس کی مثالیں صحابہ کرام کے یہاں بکثرت پائی جاتی ہیں، جیسے ابو طلحہ اولہ کھانے کو ناقض صوم تصور نہیں کرتے تھے اور حضرت حذیفہ طلوع آفتاب تک سحری کھانے کی گنجائش کے قائل تھے۔
جواز و عدم جواز سے ہٹ کر ایک رجحان ابتدا سے جواز کے ساتھ کراہت کا رہا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر نے حضرت حذیفہ سے فرمایا کہ وہ اپنی کتابی بیوی کو طلاق دے دیں۔ حضرت علی سے بھی کراہت منقول ہے۔ اسی طرح تابعین میں عطا بن رباح اور تبع تابعین و فقہائے مجتہدین میں حضرت امام مالک سے شدت کراہت کا قول مروی ہے۔ جبکہ ابن تیمیہ نے اکثر علماء سے کراہت نقل کی ہے۔
معاصر کتابی خواتین کے ساتھ نکاح کا حکم
اس موضوع پر گفتگو کی دوسری شق اور اس کا مرکزی پہلو یہ ہے کہ موجودہ دور میں کتابی خواتین کے ساتھ نکاح کے جواز و عدمِ جواز کے حوالے سے ممکنہ درست موقف کیا ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے پیدا ہونے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سے اہم یہ ہیں:
- یورپ میں اصلاح اور نشاۃِ ثانیہ کی تحریک کے بعد مسیحیت کے مذہبی تصورات میں اساسی نوعیت کا تغیر پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً خدا کے حوالے سے ڈے ازم (Deism) کا تصور جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کا فعال تعلق اس کائنات کے ساتھ باقی نہیں رہا۔ اس نے دنیا کی تخلیق تو ضرور کی ہے لیکن اب نظام کائنات سے وہ دست کش ہو چکا ہے۔ اسی طرح غیر مشخص یا امپرسنل گاڈ (Impersonal God) کا تصور جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کی ذات اس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ اس کا حصہ ہے۔ وہ کوئی مشخص ذات نہیں کہ ہر شخص اس سے اپنا تعلق قائم کرے اور اس سے دعائیں مانگے۔ یہ تو تب ہے جب کہ کم از کم خدا کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ ورنہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے اکثر مفکرین ملحد و مادیت پرست رہے ہیں جیسے نطشے، مارکس، فرائڈ ،فیورباخ وغیرہ۔ اب اس وقت سیکولرزم نے الحاد کی ہی نہیں بلکہ بقول کنیڈین فلاسفر چارلس ٹیلر الحاد کے دھماکہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس پہلو کا سب سے بہترین مطالعہ ٹیلر نے اپنی کتاب A Secular Age میں کیا ہے۔
- دوسری اہم وجہ یورپ کا سماج ہے۔ وحی کے بجائے مجرد اور تکنیکی عقل اور روحانیت سے مکمل پہلو تہی کے ساتھ محض سیکولر مادیت کی بنیاد پر یورپ میں جس اخلاقیات کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے، اس میں حیا و عفت کے تصورات بہت حد تک اباحیت میں گم ہو چکے ہیں۔
- تیسری وجہ یہ ہے کہ اسلام میں کتابیہ سے شادی کا جواز اس سماجی سیاق سے تعلق رکھتا ہے جب اسلام کو ایک تہذیبی قوت حاصل تھی۔ وہ اپنا سیاسی و ثقافتی غلبہ رکھتا تھا۔ اس لیے کتابی خواتین کے حوالے سے یہ امید غالب تھی کہ وہ اسلامی ماحول میں اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر یا تو اسلام قبول کر لیں گی یا کم از کم شوہر اور بچوں پر زیادہ اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔ لیکن اب صورتحال بالکل تبدیل ہو چکی ہے ۔سیاسی و تہذیبی مغلوبیت کے شکار مسلمانوں کی اکثریت دوسروں کو اپنے اسلامی رنگ میں رنگنے کی بجائے اس کے غیر اسلامی رنگ میں رنگ جانے کی صلاحیت زیادہ رکھتی ہے۔ مغرب کی آزاد سوسائٹی میں بچوں کی اسلامی تربیت تو ویسے ہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ ماں غیر مسلم ہو اس کا یہ امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ اس تربیت کی کمی باپ سے پوری ہو جائے گی۔
ایسی صورت میں درست موقف یہ نظر آتا ہے کہ اہلِ کتاب خواتین سے نکاح جائز تو ہے لیکن وہ جن شرطوں کے ساتھ مشروط ہے ان کا وجود معدوم نہیں تو بہت حد تک مشکوک ضرور ہے۔ اہلِ کتاب اور محصنات کے تصور میں شرط کے طور پر بظاہر یہ بات شامل ہے کہ کتابی خواتین سماوی دین کے بنیادی تصورات پر قائم ہوں اور یہ ہے کہ وہ عفیفہ اور پاک باز ہوں جو آج مغربی معاشرے میں بہت کم ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نص کے جواز کو محدود سے محدود تر رکھنے کی کوشش کی جائے۔
مولانا امین احسن اصلاحی کا موقف اس حوالے سے بہت حد تک اعتدال پر مبنی ہے۔ وہ متعلقہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"اگر ماحول اسلامی تہذیب و معاشرت کا ہو اور آدمی کسی حد تک چال چلن کی کتابیہ سے نکاح کر لے تو اس میں مضائقہ نہیں لیکن کافرانہ ماحول میں جہاں کفر اور اہلِ کفر کا غلبہ ہو اس قسم کا نکاح چاہے اس آیت کے الفاظ کے خلاف نہ ہو لیکن اس کے فحوی، اس کی روح اور اس کے موقع و محل کے خلاف ضرور ہے۔ اسلام کے بہت سے قوانین دارالاسلام کی شرط کے ساتھ مشروط ہیں۔ اسی طرح بعض رخصتیں اور اجازتیں بھی خاص ماحول اور خاص حالات کے ساتھ مشروط ہیں‘‘۔(۸)
حواشی و حوالہ جات
۱۔ احکام القران، جصاص، ج، ۲، دیوبند: زکریا بک ڈپو، سن ندارد، ص، ۴۰۸۔۴۰۹
۲۔ ابن کثیر، ج، ۲، الریاض، دار عالم الکتب، ۱۹۹۷، ص،۲۸
۳۔ ابوبکر جصاص، احکام القرآن، ج، ۲ص،۴۱۱
۴۔ ایضا، ص،۴۰۹
۵۔ رشید رضا، تفسیر المنارج،۶، ، بیروت:دارالفکر، سن ندارد، ص،۱۷۹
۶۔ ابن قدامۃ، المغنی ج،۹،ص،۵۴۵، مکتبہ شاملہ
۷۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ج،۱۴، ص،۹۱ مکتبہ شاملہ
۸۔ مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن جلد ۲، دہلی: تاج کمپنی،۲۰۰۹، ص،۴۶۶