اللہ رب العزت کا یہ احسان ہے کہ اس نے اسلام کی دولت سے سرفراز کیا ہے اور آپ ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا ہے ۔اسلامی شریعت نے زندگی کے تمام معاملات میں ہماری راہنمائی کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس ہم اسلامی شریعت کی تعلیمات کو سیکھ کر اپنی عملی زندگی میں اس کو نافذ کریں۔ آج کی گفتگو کا موضوع :’’انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں ‘‘ ہے ۔
انسانی جان کی اہمیت قرآنی آیات کی روشنی میں
اللہ رب العزت نے انسانی کی اہمیت قرآن حکیم میں بیان فرمائی ہے ذیل میں تین آیات مبارکہ پیش کی جا رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا1
’’یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں، دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔‘‘
۲۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ2
’’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔‘‘
۳۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ3
’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا ، اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔‘‘
نفس انسانی کے حقوق سے متعلق احادیث
۱۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لاَ يَخُونُهُ وَلاَ يَكْذِبُهُ وَلاَ يَخْذُلُهُ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْتَقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ.4
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس سے جھوٹ نہ بولے، اور اس کو بے یار و مددگار نہ چھوڑے، ہر مسلمان کی عزت، دولت اور خون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے، تقویٰ یہاں ( دل میں ) ہے، ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے۔‘‘
۲۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ"5
’’حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی مسلمان کا ، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، خون حلال نہیں ، مگر تین میں سے کسی ایک صورت میں ( حلال ہے ) : شادی شدہ زنا کرنے والا ، جان کے بدلے میں جان ( قصاص کی صورت میں ) اور اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے الگ ہو جانے والا۔‘‘
درج بالا احادیث میں انسان کا مقام بیان کیا گیا ہے اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ اپنا مقام کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی شریعت کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے ۔ ذیل میں انسان کے اپنی ذات پر کیا حقوق ہیں ترتیب کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔
پہلا حق :اللہ کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کرنا
انسان پر اپنی ذات سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی اطاعت نہ کریں ،اس لیے اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے وہی اس امر کا مستحق ہے کہ اس کی بندگی بجالائی جائے ۔اسی امر کی طرف قرآن حکیم میں کئی مقامات پر اشارہ کیا گیا ہے ۔
۱۔ ارشاد باری تعالی ہے :
يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ◌ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ6
’’اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔‘‘
۲۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ7
’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی (١) پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟‘‘
قرآن حکیم کا اولین مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی کے علاوہ کسی اور کی بندگی نہ کرے ،اسی کے احکامات کو زندگی کے تمام معاملات میں عمل کرنے کی سعی کرے ۔اسی امر کی تعلیم آپ ﷺ نے دی ہے ذیل میں حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور حدیث پیش کی جا رہی ہے جس میں اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ حق بیان کیا گیا ہے ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ»، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّ حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا»، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ»8
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ، کہا : میں ( سواری کے ایک جانور پر ) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا ، میرے اور آپ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کی لکڑی ( جتنی جگہ ) کے سوا کچھ نہ تھا ، چنانچہ ( اس موقع پر ) آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں نے عرض کی : میں حاضر ہوں اللہ کے رسول ! ز ہے نصیب ۔ ( اس کے بعد ) آپ پھر گھڑی بھر چلتے رہے ، اس کے بعد فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں نے عرض کی : میں حاضر ہوں ، اللہ کے رسول ! زہے نصیب۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ عز و جل کا کیا حق ہے ؟ ‘‘ کہا : میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ ارشاد فرمایا :’’ بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ ‘‘ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں عرض کی : میں حاضر ہوں اللہ کے رسول ! زہے نصیب ۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا آپ جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو پھر اللہ پر ان کا حق کیا ہے ؟ ‘‘ میں نے عرض کی ، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے ۔ ‘‘
دوسرا حق : اپنے آپ کو آگ سے بچانے کی کوشش کرنا
انسان کے اوپر دوسرا حق یہ ہے کہ اپنی ذات کو ان تمام امور سے اپنی حفاظت کرے جو آگ کی طرف لے جانے والے ہیں، اسی امر کی طرف قرآن حکیم میں کئی مقامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ موت سے قبل اپنی ابدی زندگی کی تیاری کی فکر کی جائے۔ ذیل میں اس سے متعلق آیات قرآن پیش کی جا رہی ہیں۔
۱۔: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ9
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ (١) جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں ۔‘‘
۲۔يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ10
’’اے ایمان والو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت (١) اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘
۳۔وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ11
’’اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو۔‘‘
۴۔اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَا لَكُمْ مِنْ مَلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَكِيرٍ 12
’’اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آجائے جس کا ہٹ جانا ناممکن ہے ، تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی (٢)۔‘‘
درج بالا آیات میں اس امر کی طرف دعوت دی جا رہی ہے کہ اہل ایمان اپنی آخرت کی فکر کو اولین ترجیح میں رکھیں اور اسی کے مطابق اپنے تمام امور بجا لانے کی کوشش کریں۔
آپ ﷺ نے اپنے متبعین کی اس انداز میں تربیت فرمائی ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنے رب کی بندگی اور اپنے رسول کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں ۔
۱۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ سَبْعًا هَلْ تُنْظَرُونَ إِلَّا إِلَى فَقْرٍ مُنْسٍ، أَوْ غِنًى مُطْغٍ، أَوْ مَرَضٍ مُفْسِدٍ، أَوْ هَرَمٍ مُفَنِّدٍ، أَوْ مَوْتٍ مُجْهِزٍ، أَوِ الدَّجَّالِ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ، أَوِ السَّاعَةِ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ13
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے ( یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی ) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے۔‘‘
حضرت میمونؓ فرماتے ہیں:
اعْمَلُوا فِي الصِّحَّةِ قَبْلَ الْمَرَضِ، وَفِي الْحَيَاةِ قَبْلَ الْمَوْتِ، وَفِي الشَّبَابِ قَبْلَ الْكِبَرِ، وَفِي الْفَرَاغِ قَبْلَ الشُّغْل14
’’مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے حالت صحت میں ،موت سے قبل زندگی میں ،نوجوانی میں بڑھاپے سے پہلے، مصروفیت آنے سے قبل فارغ وقت میں نیک اعمال کرو۔‘‘
عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: كُنَّا نَتَوَاعَظُ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ بِأَرْبَعٍ، كُنَّا نَقُولُ: «اعْمَلْ فِي شَبَابِكَ لِكِبَرِكَ، وَاعْمَلْ فِي فَرَاغِكَ لشُغْلِكَ، وَاعْمَلْ فِي صِحَّتِكَ لِسَقَمِكَ، وَاعْمَلْ فِي حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ»15
’’حضرت غنیم بن قیسؓ فرماتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی میں ایام میں ایک دوسرے کو چار چیزوں کی نصیحت کرتے تھے ،ہم کہتے تھے :نوجوانی میں بڑھاپے کے لیے عمل کرو، مشغولیت سے قبل فارغ وقت میں نیک اعمال کرو، حالت صحت میں نیک اعمال کرو، موت سے قبل زندگی میں نیک عمل کرو۔‘‘
تیسرا حق :طاقت سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہ ڈالنا
تیسرا حق یہ ہے کہ اپنی طاقت اور بساط کے مطابق اپنے امور بجا لانے کی کوشش کی جائے حتی کہ عبادات میں بھی میانہ روی اختیار کی جائے تاکہ زندگی کے دیگر امور متاثر نہ ہوں ۔ذیل میں ایک صحابی کا عمل ذکر کیا جارہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کے ذریعے ہماری یہ تربیت کی ہے کہ ہم اپنے امور میں اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔
عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ لَهَا: مَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، فَجَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ؟ قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُومُ، قَالَ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ فَقَالَ: نَمْ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قَالَ: سَلْمَانُ قُمِ الآنَ، فَصَلَّيَا فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ سَلْمَانُ16
’’حضرت عون بن ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ میں ( ہجرت کے بعد ) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو ( ان کی عورت ) ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو بہت پراگندہ حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ہیں جن کو دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور ان کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں تو روزے سے ہوں، اس پر سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہو گے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہو گئے ( اور روزہ توڑ دیا ) رات ہوئی تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔‘‘
چوتھا حق:جسم کے اعضاء (آنکھ، کان، ذہن کی حفاظت، ہاتھ، پاؤں، پیٹ، ذہن) کی حفاظت
ایمان لانے کے ایک بندہ مختلف ذمہ داریوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کو اپنے تمام اعمال کی کڑی نگرانی کرنی ہوتی ہے ۔اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ہے بالخصوص جسم کے تمام اعضاء کہ جن سے انسان اپنے امور بجا لاتا ہے ۔اسلامی شریعت نے یہ تعلیم دی ہے کہ ان اعضاء کی حفاظت کی جائے اس لیے کہ قیامت کے دن تمام اعضاء کو گویائی دی جائے گی جس کے نتیجے میں وہ ان تمام امور کو واضح کریں گے جو ان سے صادر کیے گئے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا17
’’جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘
قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر ان الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ18
’’جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔‘‘
درج بالا آیات سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعضاء قیامت کے روز اس کے حق میں یا اس خلاف گواہی دیں گے، اس لیے اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے اعضاء سے کوئی ایسا کام نہ کرے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے تاکہ قیامت کے روز شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ لہذا جسم کے اعضاء کا حق قرآن حکیم میں واضح کردیا گیا ہےکہ ان کو درست راہ میں استعمال کیا جائے ۔
اسی طرح آپ ﷺ نے ذہن اور پیٹ میں جانے والی اشیاء کی نگہداشت کی تعلیم دی ہے، جس کی وضاحت درج ذیل حدیث میں کی گئی ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ» ، قَالَ: إِنَّا نَسْتَحِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: «لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنْ مَنِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ فَلْيَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَلْيَحْفَظِ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْيَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلَاءَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ»19
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہو۔‘‘
حقوق کی حفاظت پر فوائد و ثمرات
۱۔اللہ کے احکامات پر عمل
۲۔یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے
۳۔خیر کے کاموں میں رغبت بڑھ جاتی ہے۔
۴۔اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے
۵۔جسمانی صحت درست رہتی ہے
۶۔آخرت میں کامیابی ملے گی
محترم سامعین!
دین اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں انسان سے متعلق تمام امور کی راہنمائی دی گئی ہے ،اس لیے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے اس کے احکامات کو احسن انداز میں سیکھ کر اس کے مطابق عمل کریں۔ اللہ رب العالمین ہمیں دین اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین
حواشی
1. الإسراء:70:17
2. التين:4:95
3. المائدة:32:5
4. سنن ترمذی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي شَفَقَۃِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ،ح1927
5. صحیح مسلم ،بَابُ مَا يُبَاحُ بِہِ دَمُ الْمُسْلِمِ،ح۱۶۷۸
6. البقرۃ :۲۱:۲
7. النحل :36:16
8. صحیح مسلم ،بَابُ مَنْ لَقِي اللہَ بِالْإيمَانِ وَھُو غَيْرُ شَاكٍّ فِيہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَحُرِّمَ عَلَی النَّارِ،ح48
9. التحریم :6:66
10. البقرۃ:254:2
11. الزمر:55:39
12. الشوری47:42
13. سنن ترمذی،ح2306،حکم ضعیف (البانی)
14. الزهد والرقائق لابن المبارك،عبداللہ بن مبارک، بَابُ التَّحْضِيضِ عَلَی طَاعَۃِ اللّہِ عَزَّ وَجَلَّ،ح5
15. مسند احمد بن حنبل،ح1451
16. صحیح بخاری، بَابُ صُنْعِ الطَّعَامِ وَالتَّكَلُّفِ لِلضَّيْفِ،ح1948
17. الاسراء:36
18. النور:24:24
19. مسند احمد بن حنبل ،3671