پہلی بات یہ ہے کہ ملک میں وقفہ وقفہ سے دستور کے تحفظ، عملداری اور بالادستی کی بحث بہت عجیب معلوم ہوتی ہے جو کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ دستورِ پاکستان کے بارے میں بے یقینی اور تذبذب کی فضا کو قائم رکھنا کسی منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر سے دستوری مسائل کو کسی نہ کسی حوالے سے موضوع بحث بنانے کو اس مہم کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ وطنِ عزیز کو یہ دستور پہلے ہی کافی عرصہ کے بعد اور متعدد دستوری بحرانوں سے نکل کر نصیب ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلا باضابطہ دستور ۱۹۵۶ء میں نافذ ہوا تھا جو ۱۹۵۸ء کے مارشل لاء کی نذر ہو گیا۔ دوسرا دستور ۱۹۶۲ء میں سامنے آیا جسے ۱۹۶۹ء کے مارشل لاء نے ختم کیا اور اس کے بعد ملک دولخت ہو گیا۔ جبکہ موجودہ دستور ملک کا تیسرا آئین ہے جو ۱۹۷۳ء میں تمام سیاسی و دینی جماعتوں نے متفقہ طور پر طے کیا تھا اور منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے اس کا نفاذ ہوا تھا۔ اسے بھی دو بار فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا، پہلی مرتبہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹۷۷ء میں مارشل لاء نافذ کیا اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے نیم مارشل لاء کے ذریعے دستوری عمل میں رکاوٹ ڈالی۔
مگر ان دونوں جرنیلوں نے یہ مہربانی کی کہ دستور کو منسوخ کرنے کا انتہائی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے یہ ابھی تک موجود چلا آ رہا ہے۔ اور اس کے پیچھے شاید کسی درجہ میں یہ احساس ہر سطح پر پایا جاتا ہے کہ کہیں ہم ایک بار پھر ۱۹۷۰ء کی پوزیشن سے دوچار نہ ہو جائیں۔ بہرحال دستور موجود و نافذ ہے مگر دستور پاکستان کے بارے میں مختلف اطراف سے شکوک و شبہات کے بادل وقفہ وقفہ سے امڈتے دکھائی دینے لگتے ہیں اور تازہ صورتحال بھی کچھ ایسی ہی محسوس ہوتی ہے کہ ملک میں حالات کو اس موڑ تک بہرصورت لے جایا جائے کہ کوئی نئی مداخلت خدانخواستہ اس دستور کو بھی ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے دستوروں کی صف میں کھڑا کر دے۔
ایک طرف ملک کی سیکولر لابیاں ہیں جو عالمی سیکولر حلقوں اور اداروں کی مکمل پشت پناہی اور سپورٹ کے ساتھ مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ دستورِ پاکستان کی نظریاتی اساس یعنی اسلامی نظریہ اور مسلم تہذیب کو اس سے خدانخواستہ کسی نہ کسی طرح الگ کر کے ملک کو سیکولر جمہوریہ کی حیثیت دے دی جائے۔ ان عناصر کو نظریہ پاکستان، قرارداد مقاصد اور دستور کی اسلامی دفعات سے خدا واسطے کا بیر ہے اور وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کو ہر قیمت پر ختم کرنے کے درپے ہیں۔
دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دستورِ پاکستان کو اس بنیاد پر غیر اسلامی قرار دے کر اس کی نفی کر رہے ہیں کہ اس میں حکومت کے قیام کا ذریعہ عوامی رائے اور ووٹ کو تسلیم کیا گیا ہے، جو ان حضرات کے نزدیک جمہوریت کا حصہ ہے اور وہ اسے اسلام کے منافی تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ دستورِ پاکستان کی بنیاد عوام کی حاکمیت پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ پر رکھی گئی ہے اور پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ البتہ حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو دیا گیا ہے جسے غیر اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حکمرانی نامزدگی یا طاقت کے حوالے سے قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ امت کا عمومی اعتماد اس کی اساس تھی۔ جس کی وجہ سے فقہاء اسلام اسلامی حکومت کی تشکیل کی سب سے پہلی اور اولیٰ صورت عوامی رائے کو ہی قرار دیتے آ رہے ہیں۔ مگر بہرحال ایک طبقہ ملک میں موجود ہے جو دستورِ پاکستان کو اسلامی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
جبکہ تیسرا طبقہ ان قوتوں پر مشتمل ہے جو دستور کی نظریاتی اساس اور تہذیبی امتیاز کی بحث میں پڑے بغیر عملی طور پر اسے اسلام اور جمہوریت دونوں کے تقاضے پورے کیے بغیر اپنے ایجنڈے پر چلا رہی ہیں۔ چونکہ اقتدار اور حکمرانی کے ذرائع زیادہ تر اسی طبقہ کے پاس چلے آ رہے ہیں اس لیے عملاً اس کا ایجنڈا ملک میں کارفرما رہتا ہے اور اس طبقہ کے مختلف گروہوں کے درمیان جب بھی پاور شیئرنگ میں اتار چڑھاؤ کی صورت پیدا ہوتی ہے تو دستور پھر سے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس لیے ہمارے خیال میں یہ کشمکش نہ نظریاتی ہے نہ عوامی بلکہ طبقاتی اور گروہی ہے جس پر ہمیں ’’میگنا کارٹا‘‘ کا دور یاد آنے لگتا ہے جسے برطانیہ میں انسانی حقوق کی پہلی بنیاد کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ معاہدہ اصل میں بادشاہ اور جاگیردار طبقوں کے مابین آپس میں اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ تھا جس میں چند باتیں عوام کے حقوق کی بھی شامل کر دی گئی تھیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی شاید اسی طرح کے معاملات سے دوچار ہیں جو ان قوتوں کے مابین تقسیم کار مکمل ہونے تک جاری رہیں گے۔
البتہ ہم ان حلقوں اور عناصر کو توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں جو قیامِ پاکستان کے تہذیبی پس منظر، دستور کی نظریاتی اساس، اسلامی احکام و قوانین کے لیے عوام کی خواہش اور اپنے ملی مسائل و مشکلات سے دلچسپی اور ان کا شعور رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے فریضہ اور کردار سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ہماری اصل قومی ضرورت ملک کی وحدت و سالمیت، قومی خودمختاری، دستور کی بالادستی و عملداری، بیرونی ڈکٹیشن سے نجات، اور اسلامی تعلیمات و احکام کا فروغ و نفاذ ہے۔ ان کا شعور و ادراک رکھنے والے طبقات اور حلقوں کو منظم و متحرک ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ ’’پاور شیئرنگ‘‘ کی جنگ لڑنے والوں کے دنگل میں ہماری ان نظریاتی اور تہذیبی بنیادوں کے متاثر ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا۔