آئین کی رو سے احمدیوں کے مذہبی حقوق
سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک اہم فیصلہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بعدالت ِعظمی پاکستان

(اپیلیٹ اختیار ِ سماعت)

موجود:

جناب جسٹس سید منصور علی شاہ

جناب جسٹس امین الدین خان

کریمنل پٹیشن نمبر 916-ایل/2021ء

(کریمنل متفرق نمبر 31929 آف 2021ء میں لاہور ہائی کورٹ، لاہور، کے حکمنامے مؤرخہ 24 مئی 2021ء کے خلاف)

طاہر نقاش و دیگر  (درخواست گزاران)

بنام

ریاست و دیگر (مسئول علیہان)

درخواست گزاران کے لیے:

مرزا محمود احمد، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔شیخ عثمان کریم الدین، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔

ریاست کے لیے:

مرزا عابد مجید، ڈپٹی پروسیکیوٹر جنرل، پنجاب۔ سید زاہد حسین، ڈی ایس پی۔ ارشد علی، انسپکٹر/ تفتیشی افسر۔ عبد الرشید، ایس ایچ او

شکایت کنندہ کے لیے:

جناب شوکت رفیق باجوہ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔ بہ تعاون حافظ مصعب رسول، ایڈووکیٹ

تاریخ سماعت:    12 جنوری 2022ء


فیصلہ


جسٹس سید منصور علی شاہ۔ درخواست گزاران لاہور ہائی کورٹ کے 24 مئی 2022ء کے حکم نامے کے خلاف اپیل کی اجازت مانگ رہے ہیں جس میں ان کی وہ درخواست مسترد کی گئی تھی جو انھوں نے اپنے خلاف قراردادِ جرم میں تبدیلی/ اضافے کو زیر دفعہ 561-اے، مجموعۂ ضابطۂ فوجداری ("سی آر پی سی")،چیلنج کیا تھا، اور جس میں 4 جنوری 2021ء اور 3 مئی 2021ء کو بالترتیب ٹرائل کورٹ اور نگرانی کی عدالت کے جاری کیے گئے حکمناموں کو برقرار رکھا گیا تھا۔

2۔ مختصر الفاظ میں، درخواست گزاران اور ایک اور شخص کے خلاف مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان 1860ء ("پی پی سی") کی دفعات 298-بی اور 298-سی کے تحت ایف آئی آر نمبر آف 2020ء مؤرخہ 3 مئی 2020ء اس الزام پر درج کی گئی کہ انھوں نے احمدی/قادیانی ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے طرز پر بنایا تھا اور اس کے اندر دیواروں پر شعائرِ اسلام بشمول (الف) کلمۂ طیبہ، (ب)  بسم الله الرحمان الرحیم، (ج) یا حيّ یا قیّوم) لکھوایا تھا اور اپنی عبادت گاہ کے اندر قرآن مجید کے نسخے رکھے ہوئے تھے۔  یہ الزام بھی لگایا گیا کہ عبادت گاہ کا نقشہ مسجد کے طرز پر تھا اور بجلی کے بل میں بھی اس عبادت گاہ کو مسجد کے طور پر ذکر کیا گیا تھا۔ ان الزامات پر ان کے خلاف مقدمہ شروع ہوا  اور ٹرائل کورٹ، یعنی مجسٹریٹ کی عدالت،  نے 23 نومبر 2020ء کو ان کے خلاف پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی کے تحت قراردادِ جرم عائد کی۔

3۔ بعد میں شکایت کنندہ نے سی آر پی سی کی دفعہ 227 کے تحت قراردادِ جرم میں تبدیلی کی درخواست اس بنیاد پر دائر کی کہ اس مقدمے میں پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا بھی اطلاق ہوتا ہے اور قراردادِ جرم میں ان کا اضافہ ہونا چاہیے۔ ٹرائل کورٹ نے اپنے حکمنامے مجریہ 4 جنوری 2021ء کے ذریعے قرار دیا کہ درخواست گزاران کے خلاف الزامات پر پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق ہوتا ہے اور اس لیے اس نے یہ درخواست منظور کرلی۔ درخواست گزاران نے ٹرائل کورٹ کے اس حکمنامے کے خلاف نگرانی کی درخواست دائر کی لیکن ایڈیشنل سیشنز جج نے اپنے حکمنامے مؤرخہ 3 مئی 2021ء کے ذریعے یہ درخواست مسترد کردی۔ درخواست گزاران نے ان دونوں حکمناموں کے خلاف ہائی کورٹ میں سی آر پی سی کی دفعہ 561-اے کے تحت درخواست دائر کی لیکن اس کا انجام بھی یہی ہوا اور اسے بھی معترضہ حکمنامے مؤرخہ 24 مئی 2021ء کے ذریعے مسترد کردیا گیا۔

4۔ درخواست گزاران کے فاضل وکیل نے استدلال کیا کہ ایف آئی آر میں مذکور الزامات پر پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کااطلاق نہیں ہوتا۔ صرف عوامی سطح پر احمدیوں کی جانب سے خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرنے یا اپنے عقیدے کو اسلام قرار دینے اور عوامی سطح پر وہ خطابات، توضیحات اور القابات استعمال کرنے، جنھیں اسلام کی بعض مقدس شخصیات اور مقامات کےلیے مخصوص کیا گیا ہے، کے ذریعے احمدی مذہب کی تبلیغ کو ہی قانون، یعنی پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی، نے  روکا ہے،جیسا کہ ظہیر الدین بنام ریاست1 نے اس کی تعبیر پیش کی ہے، لیکن نجی سطح پر  احمدیوںپر اپنا مذہب ماننے یا اپنے عقیدے کے مطابق اس پر عمل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس مقدمے میں درخواست گزاران مسلّمہ طور پر اپنی نجی عبادت گاہ میں موجود تھے، اور شعائرِ اسلام کا اظہار اور قرآن مجید کے نسخوں کا رکھنا ان کی نجی عبادت گاہ کے اندر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اس وجہ سے وہ قرآن مجید کی بے حرمتی یا رسولِ پاک کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ریکارڈ پر ایسا کوئی مواد نہیں ہے کہ درخواست گزاران نے ایسے کسی فعل کا ارتکاب کیا ہو؛ اس لیے موجودہ مقدمے میں پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق نہیں ہوتا۔

5۔ سرکاری مستغیث نے بھی اور شکایت کنندہ کے وکیل نے بھی ظہیر الدین کیس اور اس کے علاوہ مجیب الرحمان بنام وفاقی حکومت2، جہانگیر جوئیہ بنام ریاست3، خورشید احمد بنام حکومت پنجاب4 پر انحصار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزاران کی عبادت گاہ عوامی مقام ہے اور وہاں شعائرِ اسلام کے اظہار پر اور قرآن مجید کے نسخے اور دیگر مواد جو ان سے برآمد ہوا ہے رکھنے پرپی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ غیر مسلموں/احمدیوں کی جانب سے کلمۂ طیبہ یا قرآن محض پڑھنے سے ہی کلمے، قرآن مجید اور رسولِ پاک کی توہین ہوتی ہے۔

6۔ ہم نے فریقین کے وکلا کے دلائل کا بغور جائزہ لیا اور مقدمے کا ریکارڈ بھی دیکھا۔ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ جرم کی اطلاع اور تفتیش کے دوران میں برآمد شدہ مواد کی بنا پر کیا ان جرائم کا اطلاق ہوتا ہے جنھیں پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی میں قابلِ سزا قرار دیا گیا ہے؟

7۔ اوپر جن مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے ان پر مسئول علیہان کے فاضل وکلا نے بہت انحصار کیا یہ ثابت کرنے کےلیے کہ موجودہ مقدمے پر پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق ہوتا ہے۔ تین بنیادی مقدمات، مجیب الرحمان، خورشید احمد اور ظہیر الدینیا تو قادیانی گروہ، لاہوری گروہ اور احمدیوں کے خلافِ اسلام افعال (ممانعت اور سزا) آرڈی نینس، 1984ء،  کے ذریعے وجود میں لائی گئی پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی، یا احمدیوں کی جانب سے اپنے مذہب کے عوامی اظہار یا تبلیغ کو روکنے کےلیے انتظامی احکامات کی دستوری حدود سے بحث کرتے ہیں۔ ان مقدمات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی دستورِاسلامی جمہوریۂ پاکستان 1973ء کی حدود کے اندر ہیں، اور اس کے علاوہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے سے روکنے کےلیے ایسے انتظامی احکامات کو برقرار رکھا گیا ہے۔

8۔ ظہیر الدین کیس میں اس عدالت نے یہ قرار دیا تھا کہ پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی دستوری حدود کے اندر ہیں اور دستور کی دفعہ 20 کے خلاف نہیں ہیں۔ ظہیر الدین میں بنیادی امر یہ تھا کہ احمدیوں کی جانب سے عوامی سطح پر صد سالہ جشن اور تقریبات منانے سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے، جس سے ان میں اشتعال اور عداوت پیدا ہوگی، اور اس طرح امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا جس سے شہریوں کی جان و مال کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔ عدالت نے مزید یہ قرار دیا کہ دستور کی دفعہ 20 کے تحت "مذہبی آزادی " کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کا تحفظ صرف ان مذہبی افعال کو حاصل ہے جو مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں، جبکہ (اُس مقدمے میں) اپیل کنندگان یہ دکھانے میں ناکام رہے تھے کہ صد سالہ تقریبات ان کے مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں، اور یہ افعال صرف عوامی سطح پر اور عوام کی نظروں کے سامنے، سڑکوں اورگلیوں میں یا عوامی مقامات پر،  سرانجام دیے جانے تھے ۔ تاہم اس عدالت نے اگرچہ ان انتظامی احکامات کو برقرار رکھا تھا جن کے ذریعے احمدیوں کو عوامی سطح پر صد سالہ جشن اور تقریبات منانے سے روکا گیا تھا، لیکن اس کے ساتھ واضح طور پر قرار دیا تھا کہ احمدی یہ افعال نجی سطح پر سرانجام دے سکتے ہیں۔ ظہیر الدین میں ججز کی اکثریت کی جانب سے لکھا:5

حکمنامے کا مقصد آخری ہدایت میں واضح کردیا گیا ہے کہ کوئی اور ایسا کام نہیں کیا جائے گا جو بلا واسطہ یا بالواسطہ مسلمانوں کے جذبات مشتعل یا مجروح کردے۔ ان قیود سے صاف طور پر مراد صرف وہ افعال ہیں جو عوامی سطح پر عوام کے سامنے سرانجام دیے جانے تھے، نہ کہ وہ افعال جو نجی سطح پر سرانجام دیے جانے تھے۔

اسی طرح مجیب الرحمان میں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے فل بنچ کی جانب سے چیف جسٹس فخرِ عالم نے درج ذیل الفاظ لکھے:6

یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا اور غیر مسلموں کو مسلمان امت کو منتشر کرنے کےلیے مسلمان برادری کے حقوق اور مراعات کے خلاف تجاوز کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔مزید یہ کہ اس سے مرزا صاحب پر قادیانیوں کے ایمان رکھنے کے حقوق متاثر نہیں ہوتے۔۔۔ نہ ہی اس سے ان کے اس حق میں مداخلت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں یا اس کے احکام کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کریں۔

مسلمانوں کی شریعت غیرمسلموں کو اپنے عقیدے کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کو پورا تحفظ دیتی ہے۔۔۔ اسی وجہ سے رسولِ پاک ﷺ اور آپ کے محترم خلفاء نے بہترین شرائط، بشمول مشرکین اور غیر مسلموں کےلیے مذہبی آزادی کے، تسلیم کیں، خواہ وہ مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہوں یا نہ ہوں۔

پس نہ تو ظہیر الدین اور نہ ہی مجیب الرحمان نے احمدیوں کو اپنی عبادت گاہ میں اپنے مذہب کے مطابق اپنے مذہب پر عمل اور اس کے اظہار سے روکا یا اس پر پابندی عائد کی ہے۔

دستوری اقدار اور بنیادی حقوق

9۔ اس عدالت اور وفاقی شرعی عدالت کی مذکورہ بالا ملاحظات ہمارے دستور کے دیباچے میں مذکور دستوری اقدار سے ہم آہنگ ہیں جو ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم بحیثیتِ قوم متحمل مزاج ہوں، آزادی، مساوات اور سماجی انصاف پر یقین رکھیں اور اپنی اقلیتوں کا احترام کریں اور انھیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اپنی ثقافتوں کی ترقی اور اپنے جائز مفادات کے تحفظ کےلیے کافی مواقع فراہم کریں۔پاکستان کے تمام شہریوں کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، دستور کے تحت بنیادی حقوق ، بشمول قانون اور عوامی اخلاقیات کے ماتحت مرتبے میں مساوات، حریتِ فکر، اظہار، عقیدہ، ایمان اور عبادت، کی ضمانت دی گئی ہے۔ دستور اس بات پر زور دیتا ہے کہ جب ہم ان اقدار کا احترام کریں گے، تو صرف تبھی ہم، پاکستان کے لوگ، ترقی کرسکیں گے اور دنیا کی اقوام کے اندر اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کرسکیں گے اور امن، ترقی اور انسانیت کی خوشحالی کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں گے۔

10۔ دستور کی دفعہ 14 ہر شخص کےلیے تکریم کی ضمانت دیتی ہے۔ انسانی تکریم اپنے اندر یہ تصور سموئے ہوئے ہے کہ ہر شخص بنیادی مساوی قدر رکھتا ہے۔ یہ سادہ لیکن گہرا تصور تین عناصر پر مشتمل ہے: اول، انسانی کنبے کا ہر فرد قدر رکھتا ہے – کسی کو مسترد یا نظر نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اس کے ساتھ بدسلوکی یا برا رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے جیسے ان کا انسان ہونا بے معنی ہو؛ دوم، ہر شخص کی قدر دوسرے ہر شخص کے برابر ہے اور کسی کی زندگی کسی دوسرے شخص کی زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہے؛ سوم، انسانی تکریم انسانی شخصیت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اس سے الگ نہیں کی جاسکتی۔7 ہمارے ملک کے کسی غیر مسلم (اقلیت) کو اس کے مذہبی عقائد ماننے سے محروم رکھنا، اسے اپنی مذہبی عبادت گاہ کی چاردیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار سے روکنا ہمارے جمہوری دستور کی اساس کے بھی خلاف ہے اور ہماری اسلامی جمہوریہ کی روح اور کردار کے بھی منافی ہے۔ یہ انسانی تکریم کو بھی بری طرح مسخ اور پامال کرتا ہے اور کسی غیر مسلم اقلیت کی حقِ خلوت (پرائیویسی) کو بھی، جبکہ وہ دستور کی رو سے ملک کے دیگر شہریوں کی طرح برابر کے حقوق اور حفاظتیں رکھتے ہیں۔ ہماری اقلیتوں کے ساتھ عدم برداشت کا رویہ پوری قوم کی غلط تصویر کشی کرتا ہے اور ہمیں غیر متحمل مزاج، متعصب اور غیر لچکدار دکھاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی دستوری اقدار اور مساوات اور برداشت کے متعلق بہترین اسلامی تعلیمات اور روایات کو قبول کرلیں۔

11۔ دستور کی دفعہ 20 (اے) ہر شہری کو ، قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کی حدود کے اندر، اپنے مذہب پر عمل اور اس کی ترویج کا حق دیتی ہے۔ دفعہ 20 (بی) قرار دیتی ہے کہ ہر مذہبی گروہ یا فرقے کو اپنے ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال کرنے  اور ان کا انتظام چلانے کا حق ہے ۔دفعہ 22 کے تحت دستور قرار دیتا ہے کہ کسی شخص کو کسی تعلیمی ادارے میں کسی مذہب کی تعلیم حاصل کرنے یا اس کی کسی مذہبی رسم میں شامل ہونے یا عبادت ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، اگر ایسی تعلیم، رسم یا عبادت اس کے اپنے مذہب کے بجاے کسی اور مذہب کی ہو۔ دفعہ 22 (3) (اے) قرار دیتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا برادری کو اس سے نہیں روکا جاسکتا کہ وہ اس برادری سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں اپنی مذہبی تعلیم دے جس کا نظم و نسق کلی طور پر اسی برادری یا گروہ کے پاس ہو۔دفعہ 25 نے طے کیا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور انھیں قانون کا یکساں تحفظ حاصل ہے۔

12۔ اگرچہ دستور کی دفعہ 260 (3) اعلان کرتی ہے کہ احمدی/قادیانی غیر مسلم ہیں لیکن یہ نہ تو بطورِ پاکستانی شہری ان سے قطع تعلق کرتی ہے، نہ ہی انھیں ان بنیادی حقوق سے محروم کرتی ہے جن کی ضمانت دستور نے دی ہے۔ دستور تمام شہریوں کو یکساں سلوک، حفاظت اور تحفظ فراہم کرتا ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا ٖغیر مسلم۔ دستور کی دفعہ 4، جو قانون کے تحفظ اور قانون کے مطابق سلوک کی ضمانت دیتی ہے،اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے ۔

پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی

13۔ اس دستوری تناظر میں ہم اس سوال کے جواب کی طرف بڑھتے ہیں کہ کیا موجودہ مقدمے میں پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق ہوتا ہے؟ اس مقصد کےلیے ضروری ہے کہ ہم ان دفعات میں دی گئی ہیں ان جرائم کی تعریفات دیکھیں۔ چنانچہ یہ دفعات یہاں پیش کی جارہی ہیں:

دفعہ 295-بی قرآن مجید کی توہین وغیرہ

جوکوئی قرآن مجید کے کسی نسخے کو یا اس کے کسی اقتباس کی قصداً توہین کرے، یا اسے نقصان پہنچائے، یا اس کی بے حرمتی کرے، یا اس کا استعمال گستاخانہ انداز میں یا کسی غیر قانونی مقصد کےلیے کرے، تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

دفعہ 295-سی رسول پاک  ﷺ کے خلاف گستاخانہ کلمات وغیرہ کا استعمال

جو کوئی الفاظ کے ذریعے، خواہ وہ بولے گئے ہوں یا لکھے گئے ہوں، یا نظر آنے والی علامات کے ذریعے، یا اشارتاً یا کنایتاً یا دلالتاً، بلا واسطہ یا بالواسطہ، نبی پاک حضرت محمد ﷺ کے اسمِ گرامی کی توہین کرتا ہے، تو اسے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

دفعہ 295-بی کے تحت جرم کے وجود میں آنے کےلیے ضروری ہے کہ ملزم نے قرآن مجید کے کسی نسخے کی یا اس کے کسی اقتباس کی قصداً توہین کی ہو ، یا اسے نقصان پہنچایا ہو، یا اس کی بے حرمتی کی ہو، یا اس کا استعمال گستاخانہ انداز میں یا کسی غیر قانونی مقصد کےلیے کیا ہو۔جرم کی اطلاع میں ایسا کوئی الزام نہیں ہے جس سے یہ جرم بنتا ہو۔ ماتحت عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ کسی غیر مسلم/احمدی کی جانب سے صرف کلمہ یا قرآن مجید کے پڑھنے سے ہی دفعہ 295-سی کا اطلاق ہوگا۔ یہ ہمارے خیال میں نہ صرف بہت کھینچ تان کر کیا گیا ہے، بلکہ اس میں جرم کے بنیادی عناصر، یعنی مجرمانہ قصد اور مجرمانہ فعل، ہی نہیں پائے جاتے۔ صرف وہ کچھ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت کسی غیر مسلم کے ذہن میں جو کچھ پایا جاتا ہے، اس جرم کی تشکیل کےلیے کافی نہیں ہے۔ پی پی سی کی دفعہ 295-بی کے اطلاق کےلیے ایسے ظاہری عمل (مجرمانہ فعل) کا ہونا ضروری ہے جو دکھائے کہ قرآن مجید کے کسی نسخے کی یا اس کے کسی اقتباس کی قصداً توہین کی گئی، یا اسے نقصان پہنچایا گیا، یا اس کی بے حرمتی کی گئی، یا اس کا استعمال گستاخانہ انداز میں یا کسی غیر قانونی مقصد کےلیے کیا گیا۔موجودہ مقدمے میں ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جو یہ ثابت کرے۔

14۔ اسی طرح پی پی سی کی دفعہ 295-سی کے تحت جرم کے وجود میں آنے کےلیے ضروری ہے کہ ایسے الفاظ ہوں، خواہ وہ بولے گئے ہوں یا لکھے گئے ہوں، یا نظر آنے والی علامات ہوں، یا ایسا اشارہ، کنایہ یا دلالت ہو جن کے ذریعے ، بلا واسطہ یا بالواسطہ، نبی پاک حضرت محمد ﷺ کے اسمِ گرامی کی توہین ہو۔ موجودہ مقدمے میں عبادت گاہ کے اندر کلمے کا اظہار، جس میں رسولِ پاک حضرت محمد ﷺ کا نام تھا، ایسا فعل نہیں تھا جو اس جرم کے عناصر کی تشکیل کرے۔ کسی احمدی کے ذہن میں کلمہ پڑھتے وقت کیا تھا، اس سے پی پی سی کی دفعہ 295-سی کا جرم وجود میں نہیں آتا جب تک اس کی جانب سے اس کے ساتھ کوئی ایسا ظاہری عمل نہ ہو جس سے رسولِ پاک حضرت محمد ﷺ کے اسمِ گرامی کی توہین ہوتی ہو۔ موجودہ مقدمے میں ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جو یہ ثابت کرے۔

15۔ ہم یہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ دستوری جمہوریت میں قوانین کا ہدف مفاد عامہ ہوتا ہے اور وہ فرد کی آزادیوں کا لحاظ کرتے ہیں اور اس میں کم سے کم مداخلت کرتے ہیں۔ چنانچہ تعبیرِ قانون کا یہ ضابطہ تشکیل دیا گیا ہے جس کی رو سے ضروری ہے کہ سزا کے قانون کی محدود تعبیر کی جائے جس کا فائدہ ملزم کو پہنچے۔ اس محدودیت کا انحصار قانون کی شدت پر ہے۔ تاہم یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ سزاؤں کے تمام قوانین کی محدود تعبیر کی جائے گی، تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ عدالت یہ دیکھے گی کہ جس جرم کا الزام لگایا گیا ہے وہ استعمال شدہ الفاظ کے سادہ مفہوم میں آتے ہیں اور الفاظ کو کھینچ تان کر اس پر لاگو نہیں کرے گی۔ بہ الفاظِ دیگر، محدود تعبیر کے اصول کا تقاضا ہے کہ قانون کے الفاظ کی ایسی تعبیر اختیار نہ کی جائے کہ اس کے مفہوم میں وہ افعال بھی شامل ہوجائیں جنھیں مناسب تعبیر نہ کہا جاسکے۔ تاہم محدود تعبیر کا اصول اس بنیادی اصول کے تابع رہے گا کہ ہر قانون کا مفہوم  مقننّہ کے صریح یا واضح ارادے کی روشنی میں متعین کیا جائے گا۔8 اس مقدمے میں جن افعال کا الزام لگایا گیا ہے، ان پر پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق نہ تو ان دو دفعات کے الفاظ کے سادہ مفہوم کی رو سے ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پیچھے موجود مقنّنہ کے صریح یا واضح ارادے کا چشمہ لگا کر۔

16۔ ان اسباب کی بنا پر ہمارا موقف یہ ہے کہ موجودہ مقدمے کے حقائق اور حالات میں ٹرائل کورٹ اور نگرانی کی عدالت نے پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کے تحت قابلِ سزا جرائم کے وجود میں آنے کےلیے ضروری عناصر کا درست جائزہ نہیں لیا اور ظہیر الدین کیس کا صحیح مفہوم سمجھنے میں ناکام رہیں، اور ان دونوں حکمناموں کو برقرار رکھ کر ہائی کورٹ نے قانوناً غلطی کی۔ اس لیے اس درخواست کو اپیل میں تبدیل کرکے منظور کیا جاتا ہے: معترضہ حکمنامہ منسوخ کیا جاتا ہے، سی آر پی سی کی دفعہ 561-اے کے تحت درخواست گزاران کی درخواست منظور کی جاتی ہے اور ٹرائل کورٹ اور نگرانی کی عدالت کے فیصلے غیر مؤثر کیے جاتے ہیں۔ درخواست گزاران کے خلاف مقدمہ  قراردادِ جرم مؤرخہ 23 نومبر 2020ء کی بنیاد صرف پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی کے تحت قابلِ سزا جرائم کے بارے میں ہی چلایا جائے گا۔

جج

جج

اسلام آباد

12 جنوری 2022ء


اشاعت کے لیے منظور شدہ



حواشی

  1. 1993 ایس سی ایم آر 1718۔
  2.  پی ایل ڈی 1985 ایف ایس سی 8۔
  3.  پی ایل ڈی 1987 لاہور 458۔
  4.  پی ایل ڈی 1992 لاہور 1۔
  5.  ص 1757۔
  6.  ص 93۔
  7.  Erin Daly & James R. May, Dignity Law, Global Recognition, Cases, and Perspectives. 2020. HEIN
  8. N.S Bindra’s Interpretation of Statutes, 12th edition (2017) LexisNexis, pp 824-5, 836.


اخبار و آثار

(جون ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter