تحریک انصاف کا بیانیہ: بنیادی سوال

محمد عمار خان ناصر

سماجی نفسیات اور منطق واستدلال کے اصولوں سے تھوڑی بہت دلچسپی کی وجہ سے میں اس سوال پر غور کرتا رہتا ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی پر سیاسی تنقید جن بنیادوں پر کی جا رہی ہے، وہ کیوں خان صاحب اور ان کے ہمدردوں اور سپورٹرز کو اپیل نہیں کرتی۔ اس تنقید کا غالباً‌ سب سے نمایاں پہلو خان صاحب کے قول وفعل کا تضاد یا دوہرے اخلاقی یا سیاسی معیارات ہیں۔ یعنی وہ جن بنیادوں پر مخالفین پر تنقید کرتے ہیں، خود انھی کاموں کو اپنے لیے درست سمجھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کئی ایسی چیزوں کا خود اعتراف بھی کرتے ہیں، جیسے مثلاً‌ ارکان پارلیمنٹ کی وفاداریاں خریدنا یا سیاسی جوڑتوڑ یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی عمل میں مداخلت وغیرہ کے سوالات ہیں۔

غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تنقید دراصل خان صاحب اور ان کے حامیوں کے اصل بیانیے کو موضوع ہی نہیں بناتی۔ اگر اس پورے بیانیے کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ بنیادی طور پر متعارف سیاسی اخلاقیات یا جمہوری تصورات یا آئینی ضابطوں کی پابندی کی کہیں بھی کمٹمنٹ نہیں کرتا جن کو توڑنا یا ان کی خلاف ورزی کرنا ان کے نزدیک کوئی قابل اعتراض عمل ہو۔ عمران خان کا بیانیہ بنیادی طور پر ایک ’’اخلاقی “ بیانیہ ہے جو سیاسی اصول وضوابط سے بالاتر ہے اور مروجہ سیاسی اصول اور نظام اس بیانیے کی تکمیل کے لیے محض ایک ذریعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بیانیہ بالکل صاف اور واضح ہے اور یہ کہتا ہے کہ موجودہ سیاسی قوتیں اخلاقی طور پر اقتدار میں آنے کا حق نہیں رکھتیں اور انھوں نے طاقت کے زور پر معاشرے اور ریاستی نظم میں جو اثر ورسوخ پیدا کر رکھا ہے، ریاست کے تمام اداروں بشمول فوج اور عدلیہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس کو ختم کرنے میں عمران کی مدد کرے۔ اس اعلی تر مقصد کے لیے عمران خان کو الیکٹیبلز کو ساتھ ملانا پڑے یا کچھ کرپٹ عناصر کو دے دلا کر ان کی تائید حاصل کرنی پڑے تو یہ ایک عملی مجبوری اور ضرورت ہے۔

اس سادہ اور واضح بیانیے کو پیش نظر رکھا جائے تو بالکل سمجھ میں آ جاتا ہے کہ قول وفعل کے تضاد کی تنقید کیوں اس بیانیے میں کوئی بڑا ڈینٹ نہیں ڈالتی۔ اخلاقی وجمہوری اصولوں کی پاسداری یا پامالی اس بیانیے کا بنیادی استدلال ہے ہی نہیں۔ بنیادی استدلال ایک خاص تعریف کے مطابق ’’ایماندار “ اور ’’کرپٹ “ ہونا ہے۔ ایماندار سیاسی طاقت ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو چونکہ اس کا مقصد درست ہے، اس لیے اس اعتراض کا کوئی وزن نہیں۔ مخالف سیاسی طاقتوں کا بنیادی مقصد چونکہ غلط ہے، اس لیے یہ تمام طریقے اگر وہ استعمال کریں تو وہ قابل اعتراض ہیں۔ یہ موقف چاہے پی ٹی آئی کے حامی زبان سے واضح طور پر بیان کریں یا نہ کریں، ان کی ذہنی تفہیم بہرحال یہی ہے۔

اس لحاظ سے، میرے خیال میں پی ٹی آئی کے بیانیے پر اب تک کی غالب سیاسی تنقید ناکافی ہے۔ اس تنقید میں بنیادی نکتے کو موضوع نہ بنانے کا نقصان یہ ہے کہ فکری پولرائزیشن گہری ہوتی جا رہی ہے اور پی ٹی آئی کے لوگ سرے سے یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ آخر پورا ریاستی سسٹم اور ملک کی بہت بڑی اکثریت کی نمائندگی کرنے والی سیاسی قوتیں ہاتھ دھو کر عمران خان کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہیں۔ ان کے نزدیک اس کی ایک ہی تفہیم باقی بچتی ہے، یعنی حق کے مقابلے میں باطل کا مجتمع ہو جانا اور قومی آزادی کے سوال پر بیرونی طاقتوں کا مقامی میر جعفروں کی سرپرستی کرنا۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کو سیاسی بحث ومباحثہ میں موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔


تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ نے پاکستانی ریاست کے خلاف جو بیانیہ پیش کیا تھا اور جس سے ایک پوری نسل متاثر ہوئی، اس کے بنیادی التباس کو نہ سمجھنے بلکہ اس کا شکار ہو جانے کی وجہ سے پوری مذہبی فکر آرمی پبلک اسکول پشاور  کے اندوہناک واقعے تک دو ذہنی اور تضاد کا نمونہ بنی رہی اور اپنے گول مول موقف سے دہشت گردی کے بیانیے کو بالواسطہ تائید مہیا کرتی رہی۔

بیانیہ بڑا واضح اور جذباتی لحاظ سے بہت طاقتور تھا: ایک کافر ملک نے ایک مسلمان ملک پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے شرعاً‌ جہاد فرض ہو چکا ہے۔ افغانستان کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں پر بھی جہاد فرض ہے۔ ریاست پاکستان نے اس کے بالکل برعکس، امریکی کیمپ کا حصہ بن کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے جو شرعاً‌ کفر ہے۔ اس لیے پاکستانی ریاست اور اس کے نمائندہ اداروں کا حکم بھی کفار کا ہے جن کے خلاف جہاد فرض ہے۔

اس دوٹوک اور انتہائی طاقتور بیانیے کا مذہبی فکر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، کیونکہ سارے مقدمات اسلامی فقہ سے ہی ماخوذ تھے۔ علماء کرام اور ساری مذہبی جماعتیں ایک طرف یہ کہتی رہیں کہ ہم اس موقف کی حمایت نہیں کرتے، کیونکہ اس سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچے گا، لیکن ان کے پاس استدلال کو رد کرنے کی نہ جرات تھی اور نہ علمی بنیاد۔ چنانچہ یہ کہہ کر ایک طرح سے اس کو تائید ہی مہیا کی جاتی رہی کہ یہ ردعمل ریاست کے غلط فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، اس لیے ریاست کو ان عناصر کے خلاف اقدام کے بجائے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے۔

ہمارے نزدیک بالکل یہی صورت حال آج پی ٹی آئی کے بیانیے کی بن چکی ہے اور اس پر درست سوال نہ اٹھانے کی وجہ سے قوم کا ایک بڑا حصہ عمران خان کے گمراہ کن بیانیے کا شکار ہو چکا ہے۔

ٹی ٹی پی اور عرب عسکریت پسندوں کے تکفیری بیانیے کا مین اسٹریم مذہبی فکر کے پاس تو، جیسا کہ عرض کیا گیا، ذہنی الجھاؤ اور تضاد فکری کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔ البتہ متعدد اہل علم نے فقہی وکلامی اور سیاسی واخلاقی اصولوں کی روشنی میں اس کو موضوع بنایا اور اس کی غلطی واضح کی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب اور ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کی تحریریں کتابی صورت میں بھی دستیاب ہیں۔ راقم نے بھی ایک تسلسل کے ساتھ اس بیانیے کے مختلف پہلوؤں پر تنقیدی معروضات پیش کیں جنھیں ایک مجموعے کی شکل دینے کا کام جاری ہے۔

میری تنقید میں ایک اہم سوال جو اٹھایا گیا، وہ یہ تھا کہ کسی بھی صورت حال کی نوعیت اور اس میں مسلمانوں کی دینی ذمہ داری متعین کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ عسکریت پسند صورت حال پر جو شرعی حکم لگا رہے ہیں اور اس کی روشنی میں مسلمانوں کی ذمہ داری طے کر کے خود کو اس فریضے کی انجام دہی کے لیے مامور کر رہے ہیں، وہ یہ کس حیثیت سے کر رہے ہیں؟ بالفاظ دیگر انھیں یہ استحقاق کس بنیاد پر حاصل ہوا ہے کہ وہ اپنے فہم کے مطابق جس نتیجے پر پہنچے ہوں، نہ صرف پوری مسلمان امت یا کسی خاص مسلمان ملک کو اس کا پابند قرار دیں بلکہ امت کی طرف سے کوئی فیصلہ یا اقدام کرنے کا اختیار بھی خود کو تفویض کر دیں؟

یہ وہ سوال تھا جو اس بحث میں نہیں اٹھایا جا رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس کے اٹھانے سے اس پورے گمراہ کن بیانیے کی بنیادی غلطی بالکل واضح ہو گئی اور ایک جذباتی ذہنی کیفیت پیدا کر کے فقہی وشرعی تلبیسات کو بطور دلیل استعمال کرنے کا رجحان بتدریج دم توڑتا چلا گیا۔ یہ سوال ویسے تو مختلف اسالیب میں متعدد تحریروں میں اٹھایا گیا، لیکن یہاں نمونے کے طور پر دو اقتباسات پیش کرنا مناسب ہے:

’’اس معاملے میں آخری بات میں ان حضرات سے جو عسکری جدوجہد کے راستے سے ملکی نظام کی تبدیلی کے طریقے پر یقین رکھتے ہیں، یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک تو آپ معاشرے کی معروضی صورت حال سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ جو کامیابی کے عملی امکانات ہیں، ان پر بھی یا تو توجہ نہیں دے رہے یا کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ یہاں فوج کی طاقت کا ذکر ہوا، وہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آپ اس کو کیسے حل کریں گے؟ اور بڑی اہم بات یہ ہے کہ دیکھیں،۱س ملک میں اسلام کے نام لیوا، اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے کوئی ایک طبقہ نہیں ہے۔ صرف جماعت اسلامی یا تنظیم اسلامی نہیں ہے یا جو گروہ عسکری جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، وہی نہیں ہیں۔ یہ سب اسلام کے نام لیوا ہیں۔ آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں کہ سب اسلام کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک گروہ اٹھ کر اپنی حکمت عملی باقی سب پر ٹھونسے؟ حکمت عملی تو اجتہادی معاملہ ہے۔ آپ نے یہاں آگے بڑھنے کے لیے کیا راستہ اختیار کرنا ہے؟ یہاں کی جو مذہبی قوتیں ہیں، اہل علم ہیں، یہاں کی جو مذہبی قیادت ہے، اس وقت تک کی صورت حال تو یہی ہے کہ وہ اس طریقے سے اتفاق نہیں کرتی، اس کو غلط سمجھتی ہے، اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سو اگر کوئی گروہ اٹھ کر یہ کہتا ہے کہ میری نظر میں چونکہ یہی طریقہ صحیح ہے، اور باقی سب کی رائے یا ان کا اجتہاد چونکہ ہماری نظر میں غلط ہے تو ہم اس کی کوئی پروا نہیں کرتے، ہم اپنی حکمت عملی ٹھونسیں گے تو یہ طرز فکر ایک اخلاقی مسئلہ بھی ہے۔ اجتہادی معاملات میں آپ اپنی رائے دوسروں پر نہیں ٹھونس سکتے۔ اجتہادی معاملات میں آپ کو اجتماعیت سے کام لینا ہوتا ہے۔ جس رائے پر متعلقہ لوگوں کا عمومی اتفاق ہو، اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘  (الشریعہ، مارچ ۲۰۱۵)

’’طاقت کے توازن کو نظر انداز کرنے کے علاوہ تشدد اور تصادم کی مذکورہ حکمت عملی کے نتیجے میں کئی اہم مذہبی واخلاقی اصول بھی مجروح ہوئے۔ مثال کے طور پر زیادہ تر مثالوں میں عسکری تصادم کے فیصلے کو قوم کی اجتماعی نمائندگی حاصل نہیں تھی، بلکہ چند گروہوں نے اپنے تئیں یہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر کے اس کے نتائج کو پوری قوم پر مسلط کر دیا، حالانکہ اسلامی شریعت کی رو سے کسی علاقے میں مسلح مزاحمت کا حق چند افراد یا کسی ایک گروہ کا حق نہیں، بلکہ پوری قوم کا اجتماعی حق ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کے جواز کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے قوم کی اجتماعی تائید اور پشت پناہی حاصل ہو اور قوم اس کے لازمی نتائج کا سامنا کرنے اور اس کے لیے درکار جانی ومالی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ اگر قوم اپنی مجموعی حیثیت میں ایسے کسی فیصلے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو یا اس کے لیے آمادہ نہ ہو تو کسی گروہ کا ازخود کوئی فیصلہ کر کے اسے عملی نتائج کے اعتبار سے ساری قوم پر تھوپ دینا شرعاً واخلاقاً درست نہیں ہے۔‘‘  (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۱۷)

میرے نزدیک عمران خان کے بیانیے اور سیاسی طرز فکر سے متعلق بھی بنیادی ترین سوال کی حیثیت اب اسی کو حاصل ہے۔ اس کا ایک واضح جواب طلب کیے بغیر عمران خان کے بیانیے پر کسی قسم کی سیاسی گفتگو محض وقت کا ضیاع ہوگا۔


قوم کے اجتماعی معاملات سے متعلق کسی بھی بیانیے کے لیے اس سوال کا جواب دینا کہ وہ قوم اور اس کے نمائندہ طبقات کے لیے اس بیانیے کو اجتماعی رائے سے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار مانتا ہے یا نہیں، کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ بیانیے دسیوں ہو سکتے ہیں اور ہر بیانیے کو اپنا استدلال پیش کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن کیا کوئی بھی بیانیہ یا اس کے علمبردار اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ پوری قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنا ان کے ہاتھ میں ہے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا طبقہ قوم کی نمائندگی کا جواز نہیں رکھتا؟

یہ وہ سوال ہے جو ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں بار بار زیر بحث آیا ہے اور اس حوالے سے دو واضح رجحان ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک رجحان سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین، ٹی ٹی پی، جامعہ حفصہ کے ذمہ داران اور ٹی ایل پی کی صورت میں ہے جو صرف بیانیہ اور اس کا استدلال قوم کے سامنے رکھنے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ خود ہی اپنے آپ کو وہ مجاز اتھارٹی بھی قرار دیتا ہے جسے فیصلہ یا اقدام کرنے کا حق حاصل ہے۔

دوسرا رجحان قائد اعظم کی زیر قیادت مسلم لیگ کی صورت میں اور قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کی صورت میں اپنا ظہور کرتا ہے۔ قائد اعظم نے ایک ایسے ماحول میں جہاں سیاسی منظر نامے پر تحریک خلافت، جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار اسلام جیسی قوتیں غالب تھیں، جدوجہد کا آغاز کیا اور طویل جدوجہد کے بعد سیاسی عمل کے ذریعے سے اس مرحلے تک پہنچ گئے جب مسلمانوں نے قطعی انداز میں اپنا اجتماعی فیصلہ ان کے حق میں دے دیا کہ مسلم لیگ ہی سیاسی قضیے میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔

مولانا مودودی کے بیانیے اور حکمت عملی میں یہ نکتہ کتنی اہمیت رکھتا ہے، اسے مولانا کی اپنی زبان سے اس اقتباس میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ اگر پاکستان خدا نخواستہ ایک غیر اسلامی اور سیکولر ریاست میں بھی تبدیل ہو جائے تو وہ اپنا بیانیہ قوم کے سامنے رکھنے اور رائے عامہ کو قائل کرنے کی جدوجہد ازسرنو شروع کر دیں گے:

’’واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:

ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے، وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انھوں نے اپنی قوم سے کیے تھے، اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے، اسے خود محسوس کر لیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ ۔……..

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور وارادے کو بتدریج اس حد تک نشو ونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آ جائے۔

ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہو گئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی، وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آ گیا، لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کر دی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیام پاکستان کی راہ میں انھوں نے کیں اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کر دیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔‘‘ (ابوالاعلیٰ مودودی: ’’اسلامی ریاست۔ فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی‘‘، مرتب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۰ء، ص ۶۳۶، ۶۳۷)


سوال یہ ہے کہ عمران خان کے انداز فکر کی جڑیں ان میں سے کس رجحان میں ہیں اور ان کی سیاسی فکر کا شجرہ نسب کس سے جا ملتا ہے؟

گذشتہ ایک دہائی کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر معمولی نظر رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان افتاد طبع اور انداز فکر کے اعتبار سے پہلے رجحان کے حامل ہیں۔ خاص طور پر اقتدار سے محرومی پر انھوں نے جس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ان کی نفسیاتی ساخت کی بہت واضح ترجمانی کرتا ہے۔

ان کی سیاسی کارکردگی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اصل بیانیے کو قربان کر تے ہوئے انھوں نے الیکٹبکز کی ایک بڑی تعداد کو پارٹی میں قبول کر کے 2013 کا الیکشن لڑا۔ پھر حکومت بنانے کے لیے انھیں ایسے کئی سیاسی عناصر کے ساتھ بھی معاملہ کرنا پڑا جن پر وہ اس سے پہلے نفرین بھیجتے تھے۔ یہ سارا بندوبست مقتدر قوتوں کی مکمل تائید سے کیا گیا جسے اپنے اصولی اور ابتدائی موقف کے برعکس عمران خان نے قبول کیا۔

اقتدار میں آنے کے بعد جب وہ متوقع کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے تو انھوں نے تدریجاً‌ یہ اعتراف کرنا شروع کر دیا کہ انھیں حکومتی معاملات کا تجربہ نہیں تھا، ان کے پاس مناسب ٹیم نہیں تھی اور انھوں نے پہلے سے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ہوا تھا۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بھی انھوں نے کئی غلط فیصلوں کا اعتراف کیا۔ وہ اور ان کے حواری برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی اس کارکردگی کی وجہ سے عوام میں ان کی مقبولیت بہت گر گئی تھی اور منتخب اراکین عوام کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔

اس ساری صورت حال میں اپنی حکومت کے خاتمے کو حقیقت پسندانہ انداز میں سیاسی شکست کے طور پر قبول نہ کرنے اور ردعمل میں مرنے مارنے پر اتر آنے کی وجہ وہی انداز فکر ہے جو انھیں یہ باور کراتا ہے کہ اس ملک کی تقدیر سنوارنے کے لیے قدرت نے انھیں چن لیا ہے اور انھوں نے کچھ کر کے دکھایا ہو یا نہ ہو، اقتدار بہرحال انھی کا حق ہے۔ اس سے انھیں محروم کرنے کی کوشش کو ایک سیاسی عمل کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا، یہ لازماً‌ قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کی سازش ہے جس کی ذمہ داری عالمی طاقتوں کے فیصلے، کرپٹ سیاسی عناصر کی ملی بھگت اور ریاستی اداروں کی فعال یا خاموش تائید پر عائد ہوتی ہے۔ یوں پورا نظام عمران خان کا "مجرم" ہے جس کے محاسبے کے لیے قوم کو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سڑکوں پر نکل آنا چاہیے۔

اس تناظر میں عمران خان کے سیاسی بیانیے اور اس کے استدلال پر گفتگو کی اہمیت بہت ثانوی ہو جاتی ہے۔ بنیادی ترین اور اہم ترین سوال یہ بن جاتا ہے کہ عمران خان کو اس مقام پر آخر کس نے براجمان کیا ہے؟ اگر وہ اور ان کے معتقدین خود ہی انھیں یہ حیثیت دے دینے کے مجاز ہیں تو ان کے طرز عمل میں اور ان عناصر کے طرزعمل میں کیا بنیادی فرق ہے جن کا اس بحث میں اوپر ذکر کیا گیا ہے؟

ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم

مشاہدات و تاثرات

(جون ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter