مشائخ احناف کے تصور دلالۃ النص پر چند سوالات

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

ان سوالات کا مقصد نفس مسئلہ کو سمجھنا ہے۔ حنفی اصول فقہ کے مطابق حدود و کفارات میں قیاس کااجراء جائز نہیں کہ قیاس ظنی ہے جس میں شبے کا امکان ہوتا ہے اور شبے سے حدود ساقط ہوجاتی ہیں نیز حدود شارع کی مقرر کردہ مقدارات ہیں جن میں رائے کا عمل دخل جائز نہیں۔ تاہم احناف کے نزدیک دلالۃ النص کے ذریعے حدود و کفارات کے احکام کا پھیلاؤ جائز ہے۔ چونکہ دلالۃ النص اور قیاس دونوں سے بظاہر منصوص حکم پھیل کر فرع پر جاری ہوتا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ دلالۃ النص اور قیاس میں کیا فرق ہے؟ یہاں ہم مشائخ احناف کے نزدیک اس کے تصور پر بحث کرتے ہیں۔

مشائخ احناف کے مطابق:

1) دلالۃ النص لفظ کی لغوی دلالت کا معاملہ ہے نہ کہ شرعی دلالت کا، احناف قیاس کو شرعی تاثیرات کا معاملہ کہتے ہیں اور ان دونوں میں شعورا اسی بنا پر فرق کرتے ہیں، نیز

2) اس کی دلالت ایسی واضح ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے کے معاملے میں عامی اور مجتہد دونوں برابر ہیں۔

دلالۃ النص کی دلالت قیاس کے مقابلے میں قوی تر ہونے کی بنا پر حدود و کفارات میں دلالۃ النص کے اجراء کو احناف جائز کہتے ہیں۔ یاد ر ہے کہ دلالت کی تقویت کے لحاظ سے احناف دلالۃ النص کو عبارۃ النص سے نیچے رکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عبارت النص کے مساوی قوی لغوی دلالت نہیں بلکہ اس سے کم تر ہے۔

درج بالا بیان میں "لغوی دلالت" سے کیا مراد ہے؟ اس سے ذہن میں تین امکانات آتے ہیں:

1) باعتبار وضع لفظ کا مفہوم،

2) باعتبار عرف لغوی لفظ کا مفہوم،

3) تیسرا امکان بطریق استعمال ہے، یعنی سیاق کلام میں لفظ کےاستعمال کا کسی معنی کو ظاہر کرنا ۔

اس اعتبار سے دلالۃ النص کے تحت پیش کردہ مثالوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔

1) اگر کسی نے کہا کہ "میں زید کو ایک روپیہ نہ دوں گا"، تو دو روپے یا اس سے زائد رقم دینا بطریق اولی منع ہوگا کیونکہ دو روپے میں ایک روپے کا مفہوم شامل ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے قرآن میں آیا کہ جو شخص ایک ذرے کے برابر عمل کرے گا اسے اس کا اجرملے گا۔ تو ایک سے زیادہ پر عمل کا اجر بطریق اولی ثابت ہوا اور یہ لغوی دلالت "بطریق وضع" کی صورت ہے ۔

2) لیکن اگر کسی نے کہا کہ "فلاں کے پاس ایک ٹکا بھی نہیں ہے " ، یہاں دو ٹکوں کی نفی تو بطریق وضع لازم آئے گی مگر ایک سے کم کی نفی لازم نہیں آئے گی بلکہ اس کے لئے اہل زبان کے عرف کو دیکھنا ہوگا، یعنی اگر وہ محاورتاً ایک ٹکے کی نفی سے ہر قسم کے مال کی نفی مراد لیتے ہیں تو پھر آدھے ٹکے کی نفی بھی درست ہوگی ۔ اسی طرح اگر کہا کہ "فلاں شخص کو ڈھیر مال بھی دو تو خیانت نہیں کرتا" تو ڈھیر سے کم مقدار مال بطریق اولی اس میں شامل ہوگا کہ وہ ڈھیر میں شامل ہے مگر ڈھیر سے زیادہ مثلا دو ڈھیر بطریق وضع اس میں شامل نہیں ہوگا۔ البتہ بطریق عرف اسے مراد لینے کی گنجائش ہوگی ۔

3) قرآن نے کہا کہ والدین کو "اف " نہ کہو اور سیاق کلام سے واضح ہوا کہ مقصد والدین کا احترام ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا : لَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ)۔ چنانچہ لفظ کے استعمال کے مقام نے "اف" کے مفہوم کو واضح کردیا اور یوں والدین کو مارنے، گالی دینے اور قتل وغیرہ کرنے کی ممانعت بطریق اولی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہوگئی۔ یاد رہے کہ لفظ "اف" سے لغوی طور پر مارنے کی ممانعت بطریق وضع لازم آنا ضروری نہیں کیونکہ یہ لفظ "مارنے"کے مفہوم کو شامل نہیں (جیسے دو میں ایک کا مفہوم شامل ہے) بلکہ ایسا ممکن ہے کہ "اف" کہنے سے منع کرنے کے باوجود زیادہ ایذا دینا جائز ہو۔ مثلا ایک بادشاہ کسی محترم شخص (مثلا کسی دوسرے ملک کے بادشاہ) کو کسی جرم کے سبب قتل کرناچاہتا ہے اور جلاد کو کہتا ہے: "اسے اف تک مت کہنا، بس قتل کردو" تو یہ کلام قابل فہم ہے۔ اسی قبیل کی مثال یہ ہےکہ شارع نے یتیم کا مال (ناجائز طریقے پر ) کھانے سے منع کیا ہے، سیاق کلام سے واضح ہے کہ مقصود صرف کھانا نہیں بلکہ ضائع کرنا ہے، لہذا اس کے مال کو جلانا بھی اسی مفہوم میں شامل ہوا۔

احناف کے نزدیک درج بالا سب مثالیں دلالۃ النص میں شامل ہیں۔ تاہم ان کے سوا چند ایسی مثالیں بھی ہیں جو دلالۃ النص کی درج بالا تشریح پر بمشکل پورا اترتی ہیں۔ دو مثالوں پر غور کرتے ہیں:

1) نص میں باندی پر بدکاری کی سزا آزاد عورت کے مقابلے میں نصف قرار دی گئی ہے۔ کیا غلام پر بھی یہی حکم لاگو ہوگا؟ احناف اسے دلالۃ النص قرار دیتے ہوئے غلام پر بھی یہی حکم جاری کرتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہےکہ لفظ باندی کے مفہوم میں لغوی اعتبار سے غلام کی شمولیت کا طریقہ کیا ہے؟ ظاہر ہے نہ بطریق وضع اور نہ ہی بطریق عرف لفظ باندی غلام کے مفہوم پر مشتمل ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہاں اس حکم کی بنیاد باندی ہونا نہیں بلکہ "غلامیت" کا وصف ہے تو اسے ہی قیاس کرنا کہتے ہیں، یعنی وصف مشترک کی بنا پر ایک جزئی کے حکم کو دوسرے پر جاری کرنا۔ اس استدلال کو یتیم کا مال کھانے یا والدین کو اف کہنے کی طرح "بطریق استعمال "قرار دینا بھی مشکل ہے کیونکہ سیاق کلام سے اسے سمجھنا ممکن نہیں، چہ جائیکہ عامی بھی اسے سمجھ سکے۔ احناف اسے قیاس اس لئے نہیں کہتے کیونکہ ان کے نزدیک حدود میں قیاس جائز نہیں اوراس لئے وہ اس حکم کو دلالۃ النص کے تحت پھیلاتے ہیں۔

2) حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک اعرابی نے اپنی بیوی کے ساتھ روزے کی حالت میں مجامعت کرلی تو آپﷺ نے اس پر کفارہ عائد کیا۔ احناف کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر روزے کی حالت میں کھا پی لے تب بھی اس پر کفارہ عائد ہوگا اور اس کی بنیاد ان کے نزدیک یہ ہے کہ کفارہ عائد کئے جانے کی وجہ جانتے بوجھتے روزہ توڑنا اور اس کی اہانت کرنا تھا نہ کہ مجامعت کرنا، لہذا کھانا پینا بھی دلالۃ النص کے طریقے پر مجامعت کے مفہوم میں شامل ہے۔ یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے جو باندی والی مثال پر پیدا ہوا کہ آخر کھانے پینے کو مجامعت کے مفہوم میں شامل کرنے کی "لغوی بنیاد" کیا ہے نیز اس میں اور قیاس میں کیا فرق ہے؟ مزید یہ کہ "روزہ ٹوٹنا" ایک شرعی مفہوم ہے نہ کہ لغوی معاملہ، اسے دلالۃ النص قرار دیتے ہوئے لغت کا معاملہ کس مفہوم میں مراد لیا جائے؟ یہاں بھی احناف کے نزدیک اسے قیاس نہ ماننے کی وجہ یہی ہے کہ حدود و کفارات میں ان کے نزدیک قیاس جائز نہیں۔ امام جصاص و امام سرخسی کے ہاں اعرابی والی مثال پر بحث دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات اس حکم کی توجیہہ معین نص کے خاص الفاظ سے بھی کرتے ہیں جس کے بعد یہ دلالۃ النص کے بجائے عبارت النص کی صورت بن جاتی ہے اور اسے دلالۃ النص کی مثال کہنا درست نہیں رہتا۔1

ایک ممکنہ توجیہ اور اس کے مسائل

ممکنہ طورپر ایک توجیہ یہ ذہن میں آتی ہے کہ دلالۃ النص میں "شریعت یا شارع کا عرف"بھی مراد ہے، یعنی شرع کے احکام کا استقراء کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے بعض قسم کے احکام میں بعض قسم کے اوصاف و فروق کا لحاظ نہیں رکھا، لہذا اگرچہ آیت کسی خاص جزئی کا حکم بیان کررہی ہو مگر دیگر خود بخود اس میں شامل سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ بدکاری کی سزا میں تخفیف کا حکم اگرچہ باندی کے لئے آیا ہے، تاہم اسے غلام کے لئے بھی مانا جائے گا کیونکہ حکم کی بنیاد "غلامیت " کا وصف ہے نہ کہ مرد و عورت ہونا۔ اس توجیہ سے تین سوالات جنم لیتے ہیں:

پہلا مسئلہ- مشائخ کی عبارات کی توجیہ کیا ہوگی؟

مشائخ احناف شعوری طور پر اس بات کی نفی کرتے ہیں، یعنی وہ واضح کرتے ہیں کہ یہ لغت کا معاملہ ہے نہ کہ شرعی احکام پر مبنی عرف کا۔ چنانچہ اس توجیہ کو ماننے کے لئے مشائخ کی صریح عبارات کی توجیہ و تاویل کرنا ہوگی۔ ان عبارات کو اس توجیہ کے ساتھ کیسے ایڈجسٹ کیا جائے؟

امام دبوسی، سرخسی (م 483 ھ) و بزدوی (م 482 ھ) رحمہم اللہ نے دلالۃ النص کو جن الفاظ میں پیش کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

  • امام دبوسی نے پانچ باتیں صریح الفاظ میں واضح فرمائی ہیں:2

الف) دلالۃ النص لغوی مفہوم سے ثابت ہونے والا حکم ہے (فمن حيث كان الموجب ثابتاً بمعنى النص لغة) نہ کہ شریعت کے احکام سے (لأن معناه بلا خلل فيه معروف باللغة لا بالشريعة)

ب) یہ معنی فی الفور اور بلاخلل سمجھ آنے والا ہوتا ہے، برخلاف قیاس جہاں غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے

ج) اس لغوی دلالت کو عامی (یعنی غیر مجتہد) بھی سمجھ لیتا ہے (حتى فهمه كل من عرف معنى النص لغة كما لو كان النص عاماً)

د) اگر کسی زبان میں لفظ "اف" کا مطلب ایذا نہ ہو تو اس زبان والے پر اس کی یہ دلالت ثابت نہ ہوگی (حتى لا يحرم على قوم لا يعقلون معناه أو كان عندهم هذا اسماً لضرب كرامة)

ھ) قیاس کا مطلب شرعی مفہومات و تاثیرات کے پھیلاؤ سے معلوم ہونے والا حکم ہوتا ہے نہ کہ لغت سے (فالقياس منا: استنباط علة من النص بالرأي ظهر أثرها في الحكم بالشرع لا باللغة)

چنانچہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ دلالۃ النص کا مطلب "شریعت کے عرف" کا لحاظ رکھتے ہوئے حکم کو پھیلانا بھی ہے۔

  • امام سرخسی3 کی عبارت بھی یہ بتاتی ہے کہ دلالۃ النص میں جسے لغوی دلالت کہا جاتا ہے اس کا شرعی احکام پر مبنی عرف سے تعلق نہیں اور اسی بنا پر یہ قیاس سے الگ ہوتا ہے نیز آپ فرماتے ہیں کہ یہاں فقہیہ و غیر فقہیہ دونوں برابر ہیں (ويشترك فِي معرفَة دلَالَة النَّص كل من لَهُ بصر فِي معنى الْكَلَام لُغَة فَقِيها أَو غير فَقِيه)۔ نیز آپ بھی امام دبوسی کے تتبع میں "اف" والی مثال میں فرماتے ہیں کہ جسے اس لفظ کا مطلب نہ معلوم ہو یا جس کا تعلق ایسی قوم سے ہو جن کی زبان میں یہ لفظ اکرام کے معنی میں بولا جاتا ہو اس کے لئے یہ حکم ثابت ہی نہیں ہوسکے گا کیونکہ یہ لغت کا معاملہ ہے۔ اسی طرح آپ نے قیاس اور دلالۃ النص کا جو فرق کیا ہے وہ بھی یہی واضح کررہا ہے کہ ان کے ہاں دلالۃ النص کا "شریعت کے عرف والی لغوی دلالت" سے تعلق نہیں، شرعی امور کی تاثیرات کا تعلق قیاس سے ہے۔
  • امام بزدوی بھی یہی فرماتے ہیں کہ دلالۃ النص اجتہاد و استنباط سے ثابت شدہ شرعی احکام کا معاملہ نہیں ہے بلکہ لغت کا معاملہ ہے نیز اسے سمجھنے میں عامی و مجتہد سب برابر ہیں۔4

پس اگر یہ بات مان لی جائے کہ دلالۃ النص شریعت کے عرف کا معاملہ ہے تو مشائخ احناف کی ان صریح عبارات کی کیا توجیہہ کی جائے جو اس کی نفی کرتی معلوم ہورہی ہیں ۔

دوسرا مسئلہ- کیا مجتہد و عامی اسے سمجھنے میں مساوی ہوسکتے ہیں؟

اس توجیہ کے بعد اس بات کا کیا مطلب رہا کہ دلالۃ النص کو سمجھنے میں عامی و مجتہد دونوں برابر ہیں ؟ مشائخ احناف دلالۃ النص کے نزدیک لغوی دلالت پر مبنی حکم کا ایسا پھیلاؤ ہے جسے سمجھنے میں مجتہد و عامی دونوں مساوی ہوتے ہیں۔ امام دبوسی نے دلالۃ النص کے مفہوم کو سمجھانے کے لئے دس مثالوں کا تذکرہ کیا ہے، یہاں ہم ان میں سے تین مثالیں پیش کرتے ہیں۔5

  • لوطی پر حد کا اجرا

قرآن نے زانی پر حد کی سزا کا اجرا کیا، بعض علماء (جیسے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ) نے لوطی پر بھی اس بنا پر اسے جاری فرمایا کہ ان کے نزدیک زنا کا مطلب شرم گاہوں کا ملاپ ہے نیز یہ کہ اس کی حرمت اس لحاظ سے بڑھ کر ہے کہ خاتون کے ساتھ مباشرت نکاح سے جائز ہوجاتی ہے جبکہ مرد کے ساتھ اس کی ممانعت دائمی ہے نیز یہ کہ اس میں انسانی نسل کا بھی ضیاع ہے۔ تاہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عمل قوم لوط زنا کے مساوی نہیں کہ ایک تو مفعول کے لحاظ سے اس عمل میں ویسی شہوت نہیں پائی جاتی جیسے زنا میں مفعول میں پائی جاتی ہے نیز یہ کہ اس میں زنا کی طرح انسانی نسل کا ضیاع نہیں پایا جاتا۔ پس آپ لوطی پر حد جاری کرنے کے قائل نہیں۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس معاملے کے منصوص سے اولی و مساوی ہونے میں اختلاف عامی میں نہیں ہوا بلکہ ائمہ مجتہدین کے مابین ہوا۔ ایسے میں عامی سے یہ توقع کیسے رکھی جائے کہ وہ اس معاملے کو سمجھ سکے؟

  • کھانے پینے سے روزے کا کفارہ لازم آنا

جماع سے کفارہ لازم آنے کی وجہ روزے کی افطار ہے نہ کہ بیوی سے تعلق کرنا، اگر یہی سبب ہوتا تو کفارہ لازم نہ آتا (کیونکہ بیوی سے جماع ازخو د جائز ہے) اور روزہ توڑنے کا معنی ، جو کہ ایک شرعی اسم ہے، کھانے پینے میں بھی مساوی طور پر شامل ہے۔ روزے کا مطلب شہوت کو روکنا ہے اور اس اعتبار سے کھانا پینا و جماع مساوی معنی میں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ قیاس نہیں بلکہ قیاس وہ ہے جو امام شافعی نے کیا کہ اگر کسی کو زبردستی کچھ کھلایا پلایا جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا جیسے بھولے سے کچھ کھانے سے نہیں ٹوٹتا کیونکہ دونوں میں ارادہ نہ پایا جانا مشترک ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک جماع پر تو کفارہ لازم آتا ہے مگر کھانے پینے سے نہیں کیونکہ آپ اسے جماع کی خصوصیت قرار دیتے ہیں۔ اب اگر یہ ایسا لغوی معاملہ ہوتا جیسے عامی بھی سمجھ سکتا ہے تو امام شافعی جیسے مجتہد اور عربی دان پر یہ کیوں کر مخفی رہا؟

  • قتل عمد اور یمین غموس پر کفارہ

شارع نے قتل خطا پر کفارہ عائد کیا ہے، امام شافعی کے مطابق قتل عمد پر بطریق اولی کفارہ عائد ہوگا کیونکہ خطا ایسا عذرہے جس سے حقوق اللہ ساقط ہوتے ہیں ۔ لہذا اصول کا تقاضا یہ تھا کہ قتل خطا پر کفارہ عائد نہ ہوتا ، لیکن جب غلطی کے باب میں شرع نے کفارہ واجب کیا تو عمداً ایسا کرنے پر بطریق اولی ہوگا۔ اسی طرز پر امام شافعی کہتے ہیں کہ جس طرح یمین منعقدہ (مستقبل کی بات پر قسم کھا کر) توڑنے پر کفارہ ہے اسی طرح یمین غموس (ماضی کی بات پر جھوٹی قسم کھانے) پر بطریق اولی کفارہ ہوگا کیونکہ موخر الذکر میں جھوٹ پایا جانا زیادہ واضح ہے۔ احناف کے نزدیک یمین غموس پر کفارہ نہیں ۔ اس کی وجہ امام دبوسی یہ بتاتے ہیں کہ کفارہ ان امور پر لازم نہیں آتا جو سراسر ممنوع و حرام ہوں بلکہ کفارہ ان امور پر لازم آتا ہے جن میں اباحت و ممانعت دونوں پہلو پائے جائیں۔ پس قتل عمد چونکہ اصلا حرام ہے لہذا اس پر کفارہ عائد نہیں ہوگا اور اسی طرح یمین غموس چونکہ اصلا حرام ہے اس لئے اس بھی کفارہ عائد نہ ہوگا ۔ یمین منعقدہ میں یہ دونوں پہلو اس لحاظ سے جمع ہوگئے کہ ایسی قسم اصلا جائز ہے مگر زیادہ قسمیں کھانے کو پسند نہیں کیا گیا۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ امام شافعی جو استدلال فرما رہے ہیں، پہلی مثال کے برعکس اس کا جواب متعلقہ عمل میں کسی ایسی جہت کا دکھانا نہیں جس سے وہ کم معنی کی حامل ہوجائے (جیسا کہ لوطی کی مثال میں ہوا کہ امام ابوحنیفہ نے اس میں ایسی جہات واضح فرمائیں جس سے اس کی حرمت زنا کم تر ہوگئی) بلکہ امام دبوسی نے اس کا جواب شریعت کے ایک الگ و مستقل اصول (کفارات مباح و ممانعت لئے ہوئے امور میں ہوتا ہے) سے دیا ۔ کیا عامی اس اصول کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا اعرابی والی (یا کسی دوسری) مثال میں عامی اس اصول کا لحاظ رکھ سکتا ہے؟

تیسرا مسئلہ- دلالۃ النص اور قیاس میں فرق کیا ہے؟

آخری سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس کے بعد قیاس اور دلالۃ النص میں کیا فرق ہے؟ دلالۃ النص کے ضمن میں امام دبوسی ہی کی پیش کردہ چند مثالوں پر غور کرتے ہیں۔

  • گھروں میں گھومنے والی بلی کی نجاست کا حکم

آپﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ بلی کا جھوٹا نجس نہیں کیونکہ وہ طوافین (یعنی عام طور پر گھروں میں گھومنے پھرنے والیوں ) کی طرح ہے۔ امام دبوسی کہتے ہیں کہ بلی کے جھوٹے کی نجاست کی تطہیر عبارت النص کے طور پر جبکہ گھروں میں گھومنے والے دیگر جانوروں جیسے کہ سانپ (یا چھپکلی وغیرہ) کے جھوٹے کی تطہیر دلالۃ النص سے ثابت ہوئی۔ اس مثال سے معلوم ہوا کہ منصوص علت (اگرچہ صریح نہ ہو) پر مبنی حکم کا پھیلاؤ دلالۃ النص ہے۔ "صریح منصوص علت" سے مراد ایسے الفاظ کا استعمال ہے جو بااعتبار وضع لغوی طور پر سببیت کے مفہوم کا فائدہ دیتے ہیں، جیسے "کی" (تاکہ) یا "من اجل ذٰلک" (اس لیےیا اسی وجہ سے) وغیرہ الفاظ۔

  • استحاضہ کے خون کا حکم

آپﷺ نے استحاضہ (حیض کی مدت سے متصل دورانئے میں خاتون کو آنے والے خون) کے بارے میں فرمایا کہ یہ رگ سے نکلنے والا خون ہے، اس کے نکلنے کے بعد ہر نماز کے لئے وضو کیا جائے۔ پس خون کی نجاست کا یہ حکم جسم کے دیگر مقامات سے نکلنے والے خون پر بطریق دلالۃ النص ثابت ہوگا۔ یہاں بھی علت اگرچہ صریح طور پر منصوص نہیں، تاہم اس سے ثابت ہونے والے حکم کا پھیلاؤ امام دبوسی کے نزدیک دلالۃ النص ہے۔

ان دو مثالوں سے واضح ہوا کہ غیر صریح منصوص علت کے پھیلاؤ سے حاصل ہونے والا حکم دلالۃ النص کی کیفیت لئے ہوتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک وہ علت جو قیاسی حکم کا فائدہ دیتی ہے، وہ دلالۃ النص والی علت یا معنی سے مختلف کیسے ہے؟ کیا مشائخ احناف کے ہاں اخذ علت کے ایسے طرق بھی موجود ہیں جو صراحتا منصوص و غیر منصوص کے سوا ہوں؟

مشائخ احناف دلالۃ النص اور قیاس کے مابین اس بنیاد پر فرق کرتے ہیں کہ دلالۃ النص لغوی دلالت سے جبکہ قیاس شرعی تاثیرات سے حاصل ہونے والا حکم کا پھیلاؤ ہے۔ یہاں یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ "شرعی تاثیر " سے کیا مراد ہے؟ مشائخ کے نزدیک اس سے مراد کسی وصف کا کسی حکم میں اثر ظاہر ہونا ہے (یہ تعریف بذات خود سرکلر نوعیت کی محسوس ہوتی ہے)۔ یہ اثر کیسے ظاہر ہوتا ہے یا با الفاظ دیگر اس اثر کا علم کیسے ہوتا ہے؟ اس کا جواب مشائخ کے نزدیک نصوص و اجماع کے بیانات ہیں۔ اس مقام پر آکر اصل مشکل سامنے آتی ہے: آخر دلالۃ النص اور قیاسی علت میں فرق کی بنیاد کیا ہے؟ اسے یوں سمجھئے کہ مسالک علت کیا کیا ہیں؟ امام دبوسی و سرخسی کے ہاں اس عنوان سے کلام نہیں ملتا، البتہ امام سرخسی قیاس کی بحث میں اس سوال سے بحث کرتے ہوئے کہ "کسی نص کا معلول ہونا کیسے معلوم ہوتا ہے"، اصول السرخسی میں اس کے طرق کو یوں بیان کرتے ہیں کہ کسی نص کی تعلیل چار طرح ہوتی ہے:6

الف) کسی نص سے، جیسا کہ ارشاد ہوا لَا يكون دولة بَين الْأَغْنِيَاء مِنْكُم،

ب) فحوی النص سے، جیسے آپﷺ کا یہ فرمان کہ اگر چوہا جمے ہوئے گھی میں گرجائے تو چوہا نکال کر آس پاس والے گھی کو پھینک دو اور باقی استعمال کرلو لیکن اگر گھی مائع حالت میں ہو تو سارا گھی پھینک دو، اس حدیث میں علت کی طرف اشارہ ہے۔ یہی معاملہ ربا کی علت کا ہے یعنی وہ بھی اسی طرح فحوی النص کے قیبل سے ہے،

ج) نص میں مذکور حکم پر استدلال سے، جیسے استحاضہ کے خون والی مثال،

د) اور قائلین قیاس کے اجماع سے

غور کیجئے کہ دلالۃ النص میں بھی انہی جیسے امور کی بنا پر حکم پھیلایا جاتا ہے جیسا کہ اوپر دی گئی دو مثالوں سے واضح ہوا۔ مزید غور طلب بات یہ ہے کہ امام دبوسی (اور اسی طرح امام سرخسی) استحاضہ والی مثال کو دلالۃ النص کے تحت رکھتے ہیں جبکہ یہاں امام سرخسی اسے تعلیل کے مسلک "استدلال" کے تحت لارہے ہیں۔ ایسے میں یہ مزید سوال ذہن میں آتا ہے کہ قیاسی علت کے مسلک استدلال اور دلالۃ النص کی لغوی دلالت میں فرق کیا رہا؟ تیسری قابل غور بات یہ ہے کہ امام سرخسی کے مطابق ربا کی علت استدلال نہیں بلکہ فحوی النص کے قبیل سے ہے جبکہ یہ مشائخ دلالۃ النص اور قیاس کا فرق سمجھاتے ہوئے مسئلہ ربا کو قیاس کی مثال کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ پس اگر ربا قیاس کی مثال ہے جس کی علت فحوی النص کے قبیل سے ہے، تو یہ دلالۃ النص سے الگ کیسے ہوئی؟

مزید آگے بڑھتے ہوئے جب مشائخ احناف کے ہاں قیاس کی بحث (فصل فی الرکن) میں یہ دیکھا جائے کہ کسی وصف کی "شرعی تاثیر" ظاہر ہونے کی کیفیت یا صورتیں کیا ہیں، تو امام سرخسی و بزدوی اس کی مثال میں استحاضہ کی مثال بھی ذکر کرتے ہیں7 جہاں خون کی تاثیر حکم نجاست میں ظاہر ہوئی جبکہ اسی مثال کو دلالۃ النص بھی کہا گیا جو کہ لغوی علت ہوتی ہے۔

پس ان سب امور کے پیش نظر یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ مشائخ احناف کے ہاں دلالۃ النص اور قیاس میں فرق کی بنیاد کیا ہے؟ ان کے بیانات کی روشنی میں کیا دلالۃ النص اور قیاس میں "کم و زیادہ غور و فکر کی ضرورت " کے سوا بھی کوئی اصولی فرق ہے؟

مراجعات

أصول البزدوي، للبزدوی، دار السراج، مدینۃ المنورۃ، طبعۃ الثانیۃ، 2016 ء

أصول الفقہ، لأبي بكر السرخسي، دار المعرفۃ، بيروت، (تاريخ الطباعۃ غير موجود)

الفصول في الأصول، للجصاص الرازي، وزارۃ الأوقاف الكويتيۃ، 1994 ء

المبسوط، للسرخسي، دار المعرفۃ، بيروت، 1993ء

تقويم الأدلۃ في أصول الفقۃ، لأبي زيد الدبوسي، دار الكتب العلميۃ، بيروت، 2001


حواشی

  1. امام سرخسی کے الفاظ یوں ہیں: وَلَنَا حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ «أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْطَرْتُ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ: مِنْ غَيْرِ مَرَضٍ وَلَا سَفَرٍ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ أَعْتِقْ رَقَبَةً» وَإِنَّمَا فَهِمَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ سُؤَالِهِ الْفِطْرَ بِمَا يَحُوجُهُ إلَيْهِ، كَالْمَرَضِ وَالسَّفَرِ. وَذَكَرَ أَبُو دَاوُد أَنَّ الرَّجُلَ قَالَ: شَرِبْتُ فِي رَمَضَانَ۔۔۔وَقَالَ عَلِيٌّ ": - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - إنَّمَا الْكَفَّارَةُ فِي الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَالْجِمَاعِ (المبسوط: 3 / 73)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب اس حکم کو لفظ "فطر" کے عموم کے تحت رکھتے ہیں۔ اسی طرح امام جصاص فرماتے ہیں: فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: قَدْ أَوْجَبْتُمْ ‌الْكَفَّارَةَ عَلَى الْآكِلِ فِي رَمَضَانَ قِيَاسًا عَلَى الْمُجَامِعِ. وَالْأَثَرُ إنَّمَا وَرَدَ فِي الْمُجَامِعِ. قِيلَ لَهُ: لَيْسَ (هَذَا) كَمَا ظَنَنْتَ؛ لِأَنَّهُ قَدْ وَرَدَ فِي إيجَابِ ‌الْكَفَّارَةِ لَفْظٌ يَقْتَضِي ظَاهِرُهُ وُجُوبَهَا عَلَى كُلِّ مُفْطِرٍ، وَهُوَ مَا رُوِيَ «أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفْطَرْتُ فِي رَمَضَانَ، فَأَمَرَهُ بِالْكَفَّارَةِ» وَلَمْ يَسْأَلْهُ عَنْ جِهَةِ الْإِفْطَارِ، وَظَاهِرُهُ يَقْتَضِي وُجُوبَهَا عَلَى كُلِّ مُفْطِرٍ (الفصول فی الاصول: 4 / 108)
  2. آپ کے الفاظ یوں ہیں: وأما الثابت بدلالة النص: فما ثبت بالاسم المنصوص عليه عيناً أو معنى بلا خلل فيه، ولكن في مسمى آخر هو غير منصوص عليه. فمن حيث كان الموجب ثابتاً بمعنى النص لغة بلا خلل لم يكن الحكم في المحل الذي لا نص فيه ثابتاً قياساً شرعياً، لأن معناه بلا خلل فيه معروف باللغة لا بالشريعة۔ ومن حيث ثبت في محل لا نص فيه لم يكن منصوصاً عليه بعينه فسميناه ‌دلالة ‌النص لأن الحكم أبداً يعم بعموم موجبه فالمحل المنصوص عليه وإن كان خاصاً فالموجب عام فدل عمومه على عموم الحكم لما لا نص فيه. مثال قوله تعالى: {فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما} فالتأفيف حرام نصاً والشتم والقتل ‌دلالة ‌النص حتى فهمه كل من عرف معنى النص لغة كما لو كان النص عاماً، وذلك لأن الحرام بالنص التأفيف وإنه اسم وضع لكلام فيه ضرب إيذاء واستخفاف فصار حراماً بمعناه لا بصورة النظم حتى لا يحرم على قوم لا يعقلون معناه أو كان عندهم هذا اسماً لضرب كرامة فكانت الصورة محلاً للمعنى. ولما كان سبب الحرمة معناه وهو الإيذاء وإنه بقدره موجود في كلمات أخر وأفعال من الضرب والقتل مع زيادة ثبتت الحرمة عامة، ولم يكن قياساً۔ فالقياس منا: استنباط علة من النص بالرأي ظهر أثرها في الحكم بالشرع لا باللغة متعدية إلى محل لا نص فيه كما قلنا في قوله صلى الله عليه وسلم: "الحنطة بالحنطة" إنه معلول بالكيل والجنس بالرأي لأنه ليس بعين الحنطة ولا عين معناها لغة، ولا ما أوجبه النص (تقویم الادلۃ: 132)
  3. فَأَما الثَّابِت بِدلَالَة النَّص فَهُوَ مَا ثَبت بِمَعْنى النّظم لُغَة لَا استنباطا بِالرَّأْيِ لِأَن للنظم صُورَة مَعْلُومَة وَمعنى هُوَ الْمَقْصُود بِهِ فالألفاظ مَطْلُوبَة للمعاني وَثُبُوت الحكم بِالْمَعْنَى الْمَطْلُوب بِاللَّفْظِ بِمَنْزِلَة الضَّرْب لَهُ صُورَة مَعْلُومَة وَمعنى هُوَ الْمَطْلُوب بِهِ وَهُوَ الإيلام ثمَّ ثُبُوت الحكم بِوُجُود الْمُوجب لَهُ فَكَمَا أَن فِي الْمُسَمّى الْخَاص ثُبُوت الحكم بِاعْتِبَار الْمَعْنى الْمَعْلُوم بالنظم لُغَة فَكَذَلِك فِي الْمُسَمّى الْخَاص الَّذِي هُوَ غير مَنْصُوص عَلَيْهِ يثبت الحكم بذلك الْمَعْنى وَيُسمى ذَلِك ‌دلَالَة ‌النَّص فَمن حَيْثُ إِن الحكم غير ثَابت فِيهِ بتناول صُورَة النَّص إِيَّاه لم يكن ثَابتا بِعِبَارَة النَّص وَمن حَيْثُ إِنَّه ثَابت بِالْمَعْنَى الْمَعْلُوم بِالنَّصِّ لُغَة كَانَ ‌دلَالَة ‌النَّص وَلم يكن قِيَاسا فَالْقِيَاس معنى يستنبطه بِالرَّأْيِ مِمَّا ظهر لَهُ أثر فِي الشَّرْع ليتعدى بِهِ الحكم إِلَى مَا لَا نَص فِيهِ لَا استنباط بِاعْتِبَار معنى النّظم لُغَة كَمَا فِي قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْحِنْطَة بِالْحِنْطَةِ مثل بِمثل جعلنَا الْغلَّة هِيَ الْكَيْل وَالْوَزْن بِالرَّأْيِ فَإِن ذَلِك لَا تتناوله صُورَة النّظم وَلَا مَعْنَاهَا لُغَة وَلِهَذَا اخْتصَّ الْعلمَاء بِمَعْرِفَة الاستنباط بِالرَّأْيِ ويشترك فِي معرفَة ‌دلَالَة ‌النَّص كل من لَهُ بصر فِي معنى الْكَلَام لُغَة فَقِيها أَو غير فَقِيه لأَجله ثبتَتْ الْحُرْمَة وَهُوَ الْأَذَى حَتَّى إِن من لَا يعرف هَذَا الْمَعْنى من هَذَا اللَّفْظ أَو كَانَ من قوم هَذَا فِي لغتهم إكرام لم تثبت الْحُرْمَة فِي حَقه (اصول السرخسی: 1 / 241)
  4. وَأَمَّا‌‌ الثَّابِتُ بِدَلَالَةِ النَّصِّ فَمَا ثَبَتَ بِمَعْنَى النَّصِّ لُغَةً لَا اجْتِهَادًا وَلَا اسْتِنْبَاطًا مِثْلُ قَوْله تَعَالَى {فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ} [الإسراء: 23] هَذَا قَوْلٌ مَعْلُومٌ بِظَاهِرِهِ مَعْلُومٌ بِمَعْنَاهُ، وَهُوَ الْأَذَى وَهَذَا مَعْنًى يُفْهَمُ مِنْهُ لُغَةً حَتَّى شَارَكَ فِيهِ غَيْرُ الْفُقَهَاءِ أَهْلَ الرَّأْيِ وَالِاجْتِهَادِ (اصول البزدوی: 300)
  5. تقویم الادلۃ: 133 – 134
  6. ثمَّ تَعْلِيل النَّص قد يكون تَارَة بِالنَّصِّ نَحْو قَوْله تَعَالَى {لَا يكون دولة بَين الْأَغْنِيَاء مِنْكُم} ۔۔۔ وَقد يكون بفحوى النَّص كَقَوْل النَّبِي عَلَيْهِ السَّلَام فِي السّمن الَّذِي وَقعت فِيهِ فَأْرَة إِن كَانَ جَامِدا فألقوها وَمَا حولهَا وكلوا مَا بَقِي وَإِن مَائِعا فأريقوه فَإِن فِي هَذَا إِشَارَة إِلَى أَنه مَعْلُول بعلة مجاورة النَّجَاسَة إِيَّاه، وَكَذَلِكَ خبر الرِّبَا من هَذَا النَّوْع كَمَا بَينا وَقد يكون بالاستدلال بِحكم النَّص كَقَوْلِه عَلَيْهِ السَّلَام فِي دم الِاسْتِحَاضَة إِنَّه دم عرق انفجر فتوضئي لكل صَلَاة، وَقد يكون على اتِّفَاق الْقَائِلين بِالْقِيَاسِ (اصول السرخسی: 2/ 149)
  7. اصول السرخسی: 2/ 187 ، اصول البزدوی: 592


مکاتب فکر

(جون ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter