مولانا وحید الدین خانؒ کی وفات اہلِ دین کیلئے باعث صدمہ ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ ایک صاحبِ طرز داعی تھے جن کی ساری زندگی اسلام کی دعوت کو عام کرنے اور اپنی فکر کے مطابق دعوت کے ناگزیر تقاضوں کو اجاگر کرنے میں گزری۔ وہ دعوتِ اسلام کے روایتی اسلوب کے بعض پہلوؤں سے اختلاف رکھتے تھے اور اس حوالہ سے کچھ تفردات کے حامل بھی تھے مگر مجموعی طور پر ان کی محنت
- دعوتِ دین کے عصری تقاضوں کی نشاندہی
- نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے ازالہ
- اور افہام و تفہیم کی عصری ضروریات
کو سامنے لانے کے لیے ہوتی تھی، اور یہی ان کی وسیع تر پذیرائی کا باعث تھی۔ برطانیہ کے ایک سفر کے دوران مجھے ان سے ملاقات و گفتگو کا موقع ملا تو ان کے خلوص و سادگی نے بہت متاثر کیا۔ ان کی گفتگو اور تحریر دونوں عام فہم اور مخاطبین کی ذہنی سطح اور نفسیات کو سامنے رکھ کر ہوتی تھیں جو میرے نزدیک آج کے دور میں دعوتِ دین کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور عفو و فضل کے ساتھ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔