عصرِ رواں میں مولانا مودودی کا شمار ان اہلِ علم میں ہوتا ہے جن کے ساتھ تحقیق کے نام پر اکثر لوگوں نے بے حد ناانصافی کی ہے۔ مولانا کے منتسبین اسلامی قانون اور روایت سے وہ شغف نھیں رکھتے جتنی دلچسپی دیگر امور میں رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بعض طے شدہ امور میں مولانا کے چاہنے والے تردد کا شکار ہیں۔ اس کے بنیادی وجوہ میں خود مولانا کے تحریکی لٹریچر کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک ان پر بہت سارے مسائل واضح نہ ہوسکے۔ مولانا کی جانب نسبت رکھنے کا اخلاقی تقاضا ہے کہ اسلامی قانون سے زیادہ نہ سہی، واجبی واقفیت حاصل کی جائے۔تاہم دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے مولانا کی طرف بہت ساری غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک توہینِ رسالت کی سزا کا مسئلہ بھی ہے۔ ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ (جولائی ۲۰۱۶ء) میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں فاضل مضمون نگار جناب ڈاکٹر عبدالباری عتیقی نے مولانا کی مختلف کتابوں سے عبارتیں اکٹھی کرکے مولانا کی طرف وہ باتیں منسوب کی ہیں جو انھوں نے کہی ہی نہیں ہیں۔ توہینِ رسالت پر حالیہ بحث میں یہ مضمون سوشل میڈٰیا پر کافی پھیلایا گیا، جس سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
فاضل مضمون نگار کا انداز نہایت غیر مربوط اور اضداد کا مجموعہ تھا۔ جو نتائج انھوں نے اخذ کیے، ان سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی توہینِ رسالت کے مرتکب کے لیے سزائے موت کے قائل نہیں ہیں۔ پہلا نکتہ انھوں نے یہ اٹھایا ہے کہ اگر ذمی توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کا ذمہ نھیں ٹوٹتا۔ اس کے لیے انھوں نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کی یہ عبارت نقل کی ہے:
’’ ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمہ نھیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقص ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں عقدِ ذمہ باقی نھیں رہتا: ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جاملے، دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے۔‘‘ 1
اس عبارت سے صاحبِ مضمون نے درج ذیل نتائج اخذ کیے ہیں:
- مولانا مودودی کے نزدیک توہین رسالت سے ذمہ نھیں ٹوٹتا، اس لیے اس کو سزائے موت نھیں دی جا سکتی؛
- مولانا مودودی کے نزدیک چونکہ گستاخی لازمی طور پر فساد فی الارض یا بغاوت کے زمرے میں نھیں آتی، اس لیے ذمی کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
پہلا نتیجہ:
اگر ان جرائم سے ذمہ نہیں ٹوٹتا تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ سزا بھی نھیں دی جائے گی؟ مولانا نے مذکورہ عبارت میں صرف گستاخی رسول کو ناقصِ ذمہ نھیں کہا بلکہ دیگر شنیع جرائم بھی ذکر کیے ہیں جیسے: مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا اور مسلمان کو قتل کرنا بھی ناقص ذمہ نہیں ہیں۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ ناقص ذمہ نہیں ہیں، لہذا اس پر سزائے موت نہیں دی جائے گی؟ دراصل مولانا نے یہ بات دستوری سیاق میں کہی ہے۔ اگر مسلمان ان میں سے دوسرے جرم (مسلمان عورت کی آبرو ریزی) کا ارتکاب کرے اور کوئی یہ کہے کہ اس سے وہ خارج از ملت نہیں ہوگا تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست ہوگا کہ مجرم کو سزائے موت نہیں دی جائے گی؟ مولانا نے ’’ رسائل ومسائل‘‘ میں قانونی اور دستوری فرق کو واضح کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’جواب : یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس میں آپ یا دوسرے حضرات جو رائے بھی رکھتے ہوں، رکھیں اور اپنے دلائل بیان کریں۔ دوسری طرف بھی علماء کا ایک بڑا گروہ ہے اور اس کے پاس بھی دلائل ہیں۔ اصل اختلاف اس بات میں نہیں ہے کہ جزیہ نہ دینا،یا سب نبی صلعم، یا ہتک مسلمات قانونی جرم مستلزم سزا ہیں یا نہیں، بلکہ اس امر میں ہے کہ یہ جرائم آیا قانون کے خلاف جرائم ہیں یا دستور مملکت کے خلاف۔ ایک جرم وہ ہے جو رعیت کا کوئی فرد کرے تو صرف مجرم ہوتا ہے۔ دوسرا جرم یہ ہے جس کا ارتکاب وہ کرے تو سرے سے رعیت ہونے ہی سے خارج ہو جاتا ہے۔ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ ذمی کے یہ جرائم پہلی نوعیت کے ہیں۔ بعض دوسرے علماء کے نزدیک ان کی نوعیت دوسری قسم کے جرائم کی سی ہے۔ یہ ایک دستوری بحث ہے جس میں دونوں طرف کافی دلائل ہیں۔‘‘ 2
صاحبِ مضمون نے بھی مولانا کے اس جواب کو نقل کیا ہے، لیکن نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ: ’’یہ بات مولانا مودودی نے چونکہ فقہ حنفی کی کتب بدائع]بدائع الصنائع[ اور فتح القدیر کے حوالے سے بیان کی ہے، اس لیے مولانا مودودی کی رائے قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ شاتمِ رسول ذمی کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی‘‘۔ یہ نتیجہ بھی خود ساختہ ہے۔ یہ رائے فقہائے احناف کی ہے اور نہ مولانا مودودی کی کہ ذمی کو شتمِ رسول پر سزائے موت نہیں دی جائے گی۔3 صاحب مضمون نے اسی قسم کی تعمیم پورے مضمون میں کی ہے۔
علاوہ ازیں حدود میں ارتداد اور شربِ خمر کے علاوہ مسلمان اور ذمی میں بھی کوئی فرق نھیں، ان دو سزاؤں کے علاوہ دنوں کو یکساں سزا دی جائے گی۔ اگر ذمی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرے تو اس کا ذمہ تو نہیں ٹوٹے گا، لیکن کیا عتیقی صاحب اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ایسے فرد کو عمومی حالات میں موت کی سزا نہیں دی جائے گی؟ فقہ حنفی کے مطابق شاتمِ رسول ذمی کو سیاسۃ سزا دی جائے گی جو امام کا حق ہے۔ ذمی کے لیے یہ سزا امام کی صوابدید پر ہے، لیکن یہ کہنا کہ عمومی حالات میں سزائے موت نہیں دی جائے گی، درست نہیں ہے۔ سیاسہ کے تحت یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ امام ذمی کے لیے اس شنیع فعل پر مستقل سزائے موت کا قانون بنائے۔ چونکہ یہ امام کا حق ہے، اس لیے وہ سزا کو معاف بھی کرسکتا ہے۔
بعد ازاں عتیقی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ فقہ اسلامی میں اس بات پر اجماع پایا جاتا ہے کہ توہین رسالت کی کوئی سزا قرآن وسنت میں متعین نہیں کی گئی بلکہ یہ فقہا کی اجتہادی اور استنباطی رائے ہے۔ اجماع والی بات علی الاطلاق صحیح نھیں ہے۔ نیز فقہا قرآن اور سنت ہی سے استنباط کرتے ہیں، کسی غیر اسلامی ماخذ سے نہیں۔ اگر عتیقی صاحب خود قرآن سے براہِ راست استنباط کرسکتے ہیں تو فقہاے کرام کو بھی یہ اجازت دینی چاہیے۔ تاہم پہلے یہ لکھا کہ یہ قرآں و سنت میں یہ سزا مذکور نھیں ہے اور فقہا کی استنباطی رائے ہے، مگر اس کے بعد پھر انھی فقہا کی رائے نقل کی ہے۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
تفہیم القرآن سے کچھ عبارتیں نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا نے قتل بالحق کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں۔ لیکن اس سے بھی عتیقی صاحب کا مدعا قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا۔ اوپر مذکور ہوا کہ اگر ذمی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرے تو اس کا ذمہ اگر چہ نہیں ٹوٹتا مگر ذمہ نہ ٹوٹنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو قتل بھی نہیں کیا جائے گا۔ مولانا نے قتل بالحق کی جو اقسام بیان کی ہیں ـــــ جو یقینا فقہ اسلامی ہی سے ماخوذ ہیں ـــــ اس میں ارتداد کے علاوہ باقی تمام سزائیں ذمی کو دی جاسکتی ہیں، ذمی کو زنا کی سزا بھی وہی دی جائے گی جو اسلامی حکومت کے قانون میں مذکور ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا قطعی طور پر درست نہیں ہے کہ ان پانچ صورتوں میں شاتمِ رسول کی سزا نہیں ہے، لہذا ذمی کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ یہاں پر انھوں نے پھر وہی تعمیم کی ہے۔ ایک طرف مسلم اور غیر مسلم کا فرق ملحوظ نھیں رکھا، مسلمان کے لیے تو پانچ صورتوں میں مرتد والی سزا موجود ہے۔ غیر مسلم کے بارے میں جب واضح ہے کہ اس کو سیاسۃ سزا دی جائے گی اور مولانا کی رائے بھی صاحب مضمون فقہ حنفی کے حوالے پر نقل کرتے ہیں تو پھر یہ کیسے ثابت ہوا کہ ذمی کو سزا نہیں دی جائے گی؟ مولانا مودودی اسی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے، دونوں صورتوں میں سارق کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ذمی کسی مسلمان عورت سے زنا کرے یا مسلمان کسی ذمی عورت سے زنا کرے، دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔‘‘ 4
دوسرانتیجہ:
دوسرا نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کی گستاخی مولانا کے نزدیک فساد فی الارض کے زمرے میں نہیں آتی۔ ایک تو فساد فی الارض کو انھوں نے واضح نہیں کیا، اور کیا فی الواقع رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کی ہر قسم اور نوعیت فساد فی الارض کے زمرے میں نہیں آتا؟ یہ دوسرا نتیجہ مولانا کی طرف صریح طور پرغلط منسوب کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی نے یہ کس جگہ لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی فساد فی الارض کے زمرے میں نہیں آتی؟
جہاں تک کعب بن اشرف اور ابو رافع کے قتل کا تعلق ہے تو مولانا مودودی نے اس کو اسلام کے قانونِ جنگ کے تحت ذکر کیا ہے۔ کعب بن اشرف کے جرائم متعدد تھے، جن میں رسول اللہﷺ کی شان میں ہجویہ اشعار کہنا بھی تھا، لہذا توہین رسالت کو وجوہ قتل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔5 مولانا مودودی نے بھی کعب بن اشرف کے جرائم میں اس کا ذکر کیا ہے۔6 مولانا نے اسلام کے قانون جنگ کے باب میں ’’چند مستثنیات‘‘ کے عنوان کے تحت اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ استثنائی معاملات تھے۔ دشمن کے سردار کو خفیہ طریقے سے قتل کرنا اسلامی قانون جنگ کا مستقل حصہ نہیں ہے۔ تاہم اس بنیاد پر عتیقی صاحب نے ان معروف واقعات کو، جن سے عام طور پر گستاخی رسول کی سزا ثابت کی جاتی ہے، ہدفِ تنقید بنایا ہے حالاں کہ مسئلہ کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ فقہا نے کس طرح ان مسائل کو دیکھا ہے۔
جناب اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ’’ناموسِ رسالت اور قانونِ توہین رسالت‘‘ میں مولانا مودودی کا ایک مضمون نقل کیا ہے جو ’’رنگیلا رسول‘‘ کے فیصلے کے بعد ’’الجمعیۃ ‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ مضمون کا عنوان تھا ’’رنگیلا رسول کا فیصلہ اور اس کے نتائج‘‘ 7 اس مضمون میں مولانا نے کوئی قانونی بحث نہیں کی بلکہ واقعات جمع کرکے ان سے عمومی استدلال کیا ہے کہ شاتم رسول کو قتل کردیا جائے گا۔ فاضل مضمون نگار کی نظر میں اس مضمون اور ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘کے مندرجات میں تضاد ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کی بحث بالکل الگ نوعیت کی ہے۔ چنانچہ تضاد کو رفع کرنے کے لیے مضمون نگار ’’الجمعیۃ ‘‘ والے مضمون کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اس مضمون کو ٢٤ سالہ نوجوان صحافی کی ایک جذبہ انگیز تحریر سمجھنا چاہیے۔‘‘
اگر صاحبِ مضمون تھوڑی سی تحقیق اور کرلیتے تو یہ بات کبھی بھی نہ لکھتے۔ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘بھی اسی دور کی کتاب ہے۔ مولانا نے الجمعیۃ میں ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘کا پہلا مضمون ٢ فروری ١٩٢٧ء کو لکھا تھا اور ’’رنگیلا رسول ‘‘ والے مسئلے پر تبصرہ جون ١٩٢٧ء کو لکھا۔ یہ دونوں تحریریں ایک ہی زمانے کی ہیں لیکن عتیقی صاحب اپنے غلط دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک جانب مولانا کی عبارتوں کو manipulate کرتے ہیں اور دوسری جانب اس میں کامیاب نہیں ہوپاتے تو ایک دعوے کے لیے دوسرا دعویٰ کرجاتے ہیں۔ اگر اپنے مقدمہ کے خلاف بات کو نوجوان کی جذبہ انگیز تحریر کہہ کر مسترد کیا جا سکتا ہے تو اس نوجوان کی بالکل اسی دور کی رائے پر، اگر چہ اس کی نوعیت دوسری ہے، مقدمہ کس اصول کے تحت قائم کرتے ہیں؟ مزید ستم یہ کہ توہینِ رسالت کی سزا دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے؟ اس میں پھر اسی کتاب سے حوالہ دیا ہے، جس کو انھوں نے پہلے ٢٤ سالہ نوجوان صحافی کا جذبہ انگیز تحریر قرار دیا تھا۔
جو بھی رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کرے تو اس کو لازما سزا دی جائے گی، لیکن مسلمان اور غیر مسلم میں فرق ملحوظ رکھا جائے گا۔ اگر مسلمان کرے تو مرتد ہوجائے گا اور اس کو ارتداد کی سزا دی جائے گی جو حد ہے۔ فقہ حنفی کے مطابق مرتد کی توبہ قبول کی جائے گی۔ دوسری جانب غیر مسلم ہے۔ غیر مسلم کی سزا سیاسہ کے تحت ہے، یہ امام کا حق ہے اور امام عمومی حالات میں اس کے لیے مستقل بھی سزائے موت کا قانون نافذ کرسکتا ہے۔ چوں کہ یہ امام کا حق ہے، اس لیے اس میں تخفیف بھی کرسکتا ہے اور معاف بھی۔ لیکن فقہ حنفی سے لوگ آدھی بات لے کر کہتے ہیں کہ غیر مسلم کو موت کی سزا نہیں دی جائے۔ فقہائے احناف نے صرف یہ جزئیہ بیان نہیں کیا، بلکہ اس بابت ان کے پورے قانون کو دیکھنا چاہیے۔
اب مولانا مودودی کی رائے دیکھیے۔ مولانا ارتداد نے کی سزا پر ایک چھوٹی سی کتاب بھی لکھی ہے جس میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ یہ اسلامی قانون کا مستقل حصہ ہے۔8 مولانا بعض مسائل میں دوسرے فقہا کی رائے پر انحصار کرتے ہیں لیکن وہ حنفی ہی ہیں اور دیگر بیشتر مسائل کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ذمی کے بارے میں بھی مولانا کی وہی رائے ہے جو فقہ حنفی میں بیان ہوئی ہے۔ توہین رسالت کے مسئلہ پر انھوں نے کہیں بھی تفصیل سے کلام نہیں کیا لیکن اس کا یہ مقصد ہر گز نھیں کہ وہ سزا ہی کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ مولانا کے بارے میں عتیقی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے وہ نتائج ثابت نہیں ہوتے جو انھوں نے لکھے ہیں۔
مضمون کے آخر میں فاضل مضمون نگار نے ’’خلاصہ کلام‘‘ پیش کیا ہے۔ اس کے بالعکس (اُس مضمون کے تناظر میں) درج ذیل نتائج پیشِ خدمت ہیں:
- ذمی اگر توہینِ رسالت کا ارتکاب کرے تو اس ذمہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن ذمہ نہ ٹوٹنا سزا نہ دینے کو مستلزم نہیں ہے۔
- ذمی اگر اس جرم کا ارتکاب کرے تو ’’عمومی حالات‘‘ میں بھی اس کو سیاسۃ سزائے موت دی جاسکتی ہے، لیکن یہ حالات پر منحصر ہے۔ چونکہ یہ سزا حق الامام ہے تو اس کو معاف کرنے کا اختیار بھی امام کے پاس ہے۔
- قرآن و سنت میں توہینِ رسالت کی سزا متعین نہ ہونے پر اجماع کا دعویٰ غلط ہے اور اس دعوے کی مولانا مودودی کی طرف نسبت بھی غلط ہے
- فقہا نے توہینِ رسالت کی سزا کے متعلق اصول و ضوابط قرآن و سنت کی نصوص سے اخذ کیے ہیں۔
- کعب بن اشرف کے قتل کو توہین رسالت سے الگ کرنا صحیح نھیں ہے کیونکہ یہ اس کے جرائم میں سے ایک سنگین جرم تھا۔ البتہ چونکہ وہ محارب بھی تھا اس لیے اس کے خلاف جنگی اقدام اس بنیاد پر کیا گیا کہ وہ جنگ کا ایک جائز ہدف تھا۔ مولانا مودودی نے صرف حملے کے طریقے کے پہلو سے استثنا قرار دیا ہے کہ جنگ میں محاربین پر عام حالات میں اس طرح کا حملہ نہیں کیا جاتا۔
- ذمی کے لیے امام مستقل سزائے موت بھی متعین کرسکتا ہے، لیکن یہ امام کا حق ہے ،وہ اس میں تخفیف بھی کرسکتا ہے اور معاف بھی۔
- دیگر سزاؤں کی طرح توہین رسالت کی سزا کا نفاذ بھی مسلمانوں کا امام ہی کرے گا نہ کہ 'ریاست'۔
حواشی
- الجہاد فی الاسلام، سید ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، جون۱۹۹۶، ص ۲۸۹
اس عبارت پر عمار خان ناصر صاحب نے تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’بعض جگہ مولانا مودودی نے اہلِ ذمہ کے قانونی احکام کے حوالے سے فقہی رجحانات میں ایک رجحان کو، جو ان کے اختیار کردہ زاویہ نظر سے ہم آہنگ ہے، یوں بیان کیا ہے جیسے وہ اسلامی قانون کا کوئی متفقہ مسئلہ ہو ۔‘‘ (جہاد ایک مطالعہ، محمد عمار خان ناصر، لاہور: المورد ادارہ علم و تحقیق، نومبر ۲۰۱۳، ص ۳۴۶)عمار صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ فقہا کا ایک بڑا گروہ دوسری رائے رکھتا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے عمار صاحب ہر جگہ اس اصول کو ملحوظ رکھتے ہیں کہ جمہور کی کیا رائے ہے۔ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں مولانا نے فقہ حنفی پر انحصار کیا ہے۔ اب ظاہر ہے جب کوئی اپنی فقہ کے مطابق رائے دے گا تو اسی اسلوب میں دے گا۔ نیز مولانا نے یہ مسئلہ فقہ حنفی سے نقل کیا ہے۔ - رسائل ومسائل، سید ابوالاعلی مودودی، لاہور: اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ، تاریخ ندارد، جلد ۴، ص ۱۸۵
- توہین رسالت کی بابت فقہائے احناف کی جانب بہت غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک جانب مذہبی جدیدیت پسند ہیں جو فقہ حنفی سے آدھی بات لے کر کہتے ہیں کہ حنفیہ غیر مسلم کو توہین رسالت پر سزائے موت دینے کے قائل نہیں ہیں۔ دوسری جانب خود کو حنفی کہلانے والے ہیں جو اپنے مذہب سے واقف نہیں ہیں۔ تاہم چونکہ مسئلہ قانونی ہے، اس لیے ہر پہلو کو دیکھنا پڑے گا۔ بات اس قدر آسان نہیں ہوتی جس قدر سمجھی جاتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد حنفی فقہا کی رائے بیان کرنا نہیں، بلکہ عتیقی صاحب کے مضمون نے جو غلط فہمی پیدا کی ہے، اس کو واضح کرنا ہے۔ حنفی رائے پر بہترین تحقیق کے لیے ملاحظہ کیجیے: توہینِ رسالت کی سزا کے متعلق حنفی مسلک، ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ماہنامہ الشریعہ، جون ۲۰۱۱ء
- الجہاد فی الاسلام، ص ۲۸۸
- کعب بن اشرف دراصل محارب تھا، اور جن مسلمانوں نے ان کو قتل کیا تھا، انھوں نے اس کو امان نہیں دی تھی، اس لیے اس کا قتل جائز تھا، لیکن توہین رسالت جیسے جرم کو وجوہ قتل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
- ایضا، ص ۳۱۱
- یہ مضمون مولانا کے ۱۹۲۷ء میں شائع ہونے والے ’’الجمعیۃ ‘‘کے مجموعۂ مضامین ’’آفتابِ تازہ‘‘، لاہور: ادارہ معارف اسلامی ، ص ۱۸۶- ۱۸۲ میں شامل ہے ۔
- مرتد کی سزا اسلامی قانون میں، سید ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور: اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ، اپریل۱۹۷۰