’’ترجمان القرآن‘‘ : چند نمایاں خصوصیات

مولانا وقار احمد

ترجمان القرآن مولانا ابو الکلام آزاد کی تصنیف لطیف ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ۱۸۸۸ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام محی الدین احمد تھا۔ آپ کے والد ہندوستا ن کے معروف عالم اور پیر مولانا خیر الدین ہیں، جب کہ والدہ کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا۔ مولانا کا انتقال  ۲۲ فروری ۱۹۵۸ء کو ہوا۔

مولانا ابو الکلام برصغیر کے سب سے بڑے مذہبی اور سیاسی لیڈر تھے۔ مولانا تقسیم ملک کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے، اور ہندوستان کے نظام تعلیم کو منظم کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔آپ ایک بے مثل عالم تھے، ہندوستان کی سیاسیات میں متحرک کردار ادا کیا، اس کے ساتھ ہندوستان کی صحافت کو بھی ایک نئی جہت عطا کی۔ ان تمام تر مصروفیات کے باوجود آپ نے منفرد علمی کتب اور مقالات تحریر کیے ہیں۔ 

مولانا آزاد کا فہم قرآن 

قرآن حکیم مولانا کے غور و فکر کا سب سے اہم ماخذ تھا، انہیں قرآن حکیم سے ایک طویل رفاقت حاصل تھی۔ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں:  ’’میں نے قریب قریب تیئیس سال قرآن کو اپنا موضوعِ فکر بنایا۔ میں نے ہر پارے، ہر سورۃ اور ہر آیت اور ہر لفظ کو گہرے فکر و نظر سے دیکھا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کی موجودہ تفاسیر مطبوعہ یا غیر مطبوعہ کا بہت بڑا حصہ میری نظر سے گزرا ہے، میں نے فلسفۂ قرآن کے سلسلے میں ہر مسئلے کی تحقیق کی ہے۔“

شورش کاشمیری نے مولانا کے ترجمہ و تفسیر اور قرآن دانی سے متعلق جو سوال و جواب مولانا ظفر علی خان سے کیا، اسے شورش اپنی کتاب میں یوں نقل کرتے ہیں: 

عرض کیا ، ’’کیا مولانا ابوالکلام تفسیرِ قرآن میں اسلاف کے پیرو اور اس عہد کے مجتہد ہیں؟“ 

فرمایا: ’’بالکل، اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی کے باب میں انہیں خاص ملکہ عطا کیا ہے ، وہ زمانہ کی فکری تحریکوں کو بخوبی سمجھتے اور قرآن کو ہر زمانے کی پیچیدگیوں کا حل قرار دے کر انسانی معاشرے کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔ وہ قرآن کی ابدی دعوت پر نظامِ کائنات کی اساس رکھتے ہیں۔ ان پر بفضلِ ایزدی علم القرآن کے اس طرح کھلے ہیں کہ ان کے لیے کوئی سی راہ مسدود و منقطع نہیں۔ اُن کی آواز قرآن کی آواز ہے۔“

راقم: ’’مولانا کے ترجمہ و تفسیر میں بڑی خوبی کیا ہے؟ اور کونسا پہلو ہے جو دوسرے تراجم اور تفاسیر کے مقابلے میں منفرد ہے؟“

مولانا : ’’اُن کے ترجمہ و تفسیر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کی زبان میں خطاب کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان کے الفاظ الوہیت اور نبوت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں اور یہ صرف اللہ کی دین ہے۔ دوسرے تراجم جو اب تک ہندوستان میں ہوئے ہیں، وہ قرآن کے الفاظ میں لغوی ترجمہ ہیں، ان میں قرآن کے شکوہ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔ عربی الفاظ کا ترجمہ اردو الفاظ میں کیا گیا ہے ، مطالب کی طاقت و پہنائی اوجھل ہو گئی ہے۔ آزادؔ کی تفسیر محض مقامی و محض اسلامی نہیں، بین الاقوامی و بین الملی ہے۔ وہ الہیاتی زبان میں کائنات کو خطاب کرتے ہیں۔“ (ابو الکلام آزاد، ص ۴۸۲)

خورشید احمد صدیقی مولانا کے فہم قرآن کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’مولانا پہلے اور آخری شخص ہیں جنہوں نے براہ راست قرآن کو اپنے اسلوب کا سر چشمہ بنایا “ (مولانا آزاد کی قرآنی بصیرت، مولانا اخلاق حسین قاسمی، صفحہ۵۵)

ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں: ’’مولانا روح تفسیر کے محرم ہیں اور کلام الہی کے مطالب کو اس حکیمانہ انداز میں سمجھاتے ہیں جن سے نئے زمانے کے تنقیدی ذہن کو بھی تسکین ہو جاتی ہے۔“ (ابوالکلام آزاد ، شورش کاشمیری، صفحہ ۳۱۴)

مولانا آزاد قرآن حکیم کے حوالے سے تین کام کرنا چاہتے تھے: 

۱۔ مقدمہ تفسیر البصائر: اس کتاب میں مولانا قرآن کریم کے مطالب و مقاصد پر اصولی مباحث لکھنا چاہتے تھے جس کا ایک حصہ انہوں نے لکھا اور وہ شائع بھی ہوا، مگر وہ نامکمل ہے۔ 

۲۔ البیان فی مقاصد القرآن:  اس کتاب میں مولانا کے پیش نظر ایک مکمل و مفصل تفسیر تھی  جس کو مولانا اپنی سیاسی مصروفیات کی بنا پر مکمل نہ کر سکے اور لکھا ہوا حصہ بھی ضائع ہو گیا۔ 

۳۔ ترجمان القرآن: قرآن حکیم کے حوالے سے مولانا کی یہی کتاب معروف ہوئی ہے۔ اس کا تعارف کراتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں

’’ترجمان القرآن کی ترتیب سے مقصود یہ تھا کہ قرآن کے عام مطالعہ و تعلیم کے لیے ایک درمیانی ضخامت کی کتاب مہیا ہو جائے، مجرد ترجمے سے وضاحت میں زیادہ، مطول تفاسیر سے مقدار میں کم۔ چنانچہ اس غرض سے یہ اسلوب اختیار کیا گیا کہ پہلے ترجمہ میں زیادہ سے زیادہ وضاحت کی کوشش کی جائے، پھر جابجا نوٹ بڑھا دیے جائیں۔ اس سے زیادہ بحث و تفصیل کو دخل نہ دیا جائے۔ باقی رہا اصول اور تفسیری مباحث کا معاملہ تو اس کے لیے دو الگ الگ کتابیں ’’مقدمہ“ اور ’’ البیان“ زیر ترتیب ہیں۔“ (ترجمان القرآن ، ابو الکلام آزاد ، جلد۳)

مولانا کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، چنانچہ انہیں تفسیر قرآن لکھنے کے زمانے میں سیاسی مسائل کی وجہ سے متعدد بار جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی، چنانچہ اس دوران ان کے مسودات تفسیر ضائع ہوئے، متعدد دفعہ تفتیش کے نام پر حکام نے ضبط کیے، مگر مولانا نے ہمت نہ ہاری۔ مولانا کی زندگی میں تفسیر کا مقدمہ ، تفسیر سورہ فاتحہ اور پہلی دو جلدیں شائع ہو گئی تھی، جب کہ تیسری جلد ان کی وفات کے بعد ان کے مسودات سے مرتب کی گئی ہے۔

ترجمان القرآن کا انتساب

 علما کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنی علمی کاوش کو کسی نامور شخصیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مولانا آزاد نے بھی اپنی کتاب کا انتساب لکھا ہے، مگر وہ کسی نامور شخصیت کے بجائے ایک گمنام شخص کی طرف ہے۔ مولانا اس کے ذوق سے متاثر ہوئے تھے، چنانچہ اس کے ذوق کی قدر دانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’انتساب

غالباً دسمبر ١٩١٨ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک شخص بکل اوڑھے کھڑا تھا۔

آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔

کہاں سے؟

سرحد پار سے۔

یہاں کب پہنچے؟

آج شام کو پہنچا۔ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا۔ وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔

افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟

اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ 

یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھاکہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔

مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔

۱۲ ستمبر سنہ ۱۹۳۱ء، کلکتہ“

ترجمان القرآن اہل علم کی نظر میں

ترجمان القرآن کی علمی حیثیت کو سید سلیمان ندوی واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:  

’’میں نے قرآن کریم کی جتنی تفاسیر پڑھی ہیں، ان میں ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تفاسیر سے بہتر کوئی تفسیر نہیں، ’’ترجمان القرآن ’’ کا مصنف قابل مبارک باد ہے کہ اس نے یورپی سامراج کے زمانے میں بڑی ہمت اور دلیری سے ابن تیمیہ اور ابن قیم کی اس صورت سے پیروی کی ہے   جس طرح انہوں نے منگولی فاتحوں کی مزاحمت کے سلسلے میں کی تھی۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، اخلاق حسین قاسمی، ص ۱۶)

مفسر قرآن مولانا احمد سعید دہلوی ترجمان القرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  ’’قرآن کریم کی عربی مبین مولانا آزاد کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ آ کر اسے اردوئے مبین کے قالب میں ڈھالیں۔ ترجمان القرآن مولانا آزاد کا غیر فانی کارنامہ ہے۔“ (نقش آزاد،  غلام رسول مہر، صفحہ۸۷)

مولانا سعید احمد اکبر آبادی کہتے ہیں:  ’’(سید رشید رضا مصری کی) تفسیر المنار اور مولانا کا ترجمان القرآن مطالب و معانی کے اعتبار سے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ زبانیں دو ہیں، مقصد ایک۔ مولانا، علامہ ابن تیمیہ ، جاحظ اور ابن قیم کے شانہ بشانہ ہیں۔“ (ابوالکلام آزاد ، شورش کاشمیری، صفحہ ۳۳۴)

خصوصیات ترجمان القرآن

۱۔ ادیبانہ ترجمہ

مولانا کی تفسیر ترجمان القرآن اور اس کا ترجمہ ایک اہم علمی تحفہ ہے۔ خاص کر ترجمہ تو بہت ہی عمدہ چیز ہے ، اور اس ترجمہ پر خود مولانا کو بھی فخر تھا۔ فرماتے ہیں : ’’ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کی تمام خصوصیات کا اصل محل اس کا ترجمہ اور ترجمہ کا اسلوب ہے۔ اگر اس پر نظر رہے گی تو پوری کتاب پر نظر رہے گی۔ وہ اوجھل ہو گئی تو پوری کتاب نظر سے اوجھل ہو جائے گی۔“ (ترجمان القرآن، جلد  ۳) ڈاکٹر ذاکر حسین لکھتے ہیں:  ’’مولانا کی زبان میں غضب کی وہ دلکشی ہے جس نے ان کے ترجمے اور تفسیری اشارات میں اردو ادب کے ایک شاہکار کی شان پیدا کر دی ہے۔“ (ابوالکلام آزاد ، شورش کاشمیری، صفحہ ۳۳۴)

۲۔ زبان و بیان کی سادگی

مولانا نے ترجمہ میں عام قاری کے ذہن کو ملحوظ نظر رکھا ہے، اور مطالب قرآنی بالکل سادہ مگر اعلیٰ زبان میں پیش کر دیے ہیں۔ ترجمان میں مولانا نے الہلال اور البلاغ کی سی ثقیل زبان استعمال نہیں کی، نہ ہی اپنی عادت کے مطابق عربی و فارسی کی ثقیل عبارات اور استعارات استعمال کیے ہیں۔ خود مولانا کہتے ہیں: ’’ہم نے یہ مطلب اسی سادہ طریقہ پر بیان کر دیا ہے جو قرآن کے بیان و مطالب کا طریقہ ہے۔“ (ترجمان القرآن ج  ۲ ،صفحہ ۴۳)

۳۔ داعیانہ سوز

مولانا کی کتاب میں ایک داعیانہ سوز پایا جاتا ہے، پوری کتاب کا اسلوب ایسا رکھا کہ قاری کا جذبہ عمل بیدار ہو اور اسے قرآن پر عمل کرنا آسان لگے۔

۴۔ فکری اعتدال

مولانا معتدل فکر رکھتے تھے۔ انہوں نے عقل و نقل دونوں سے برابر رہنمائی حاصل کی۔ ان کے لیے رہنما شاہ ولی اللہ دہلوی کا منہج فکر تھا۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں:  ’’مولانا آزاد کے سامنے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا طرز فکر واضح تھا  جس میں درایت و روایت اور تعقل اور اتباع سلف دونوں باتیں اعتدال کے ساتھ موجود تھیں۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، ص ۲۸)

۵۔ منہج سلف کی پیروی

مولانا آزاد نے تفسیر میں اسلاف کے منہج کی مجتہدانہ پیروی کی ہے، اس کو رہنما بنا کر اپنے زمانے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مولانا قاسمی لکھتے ہیں:  ’’ مولانا آزاد نے دینی افکار کی تشریح محدثین سلف کے طریقہ کے مطابق کر کے اسلام کے بنیادی افکار وحی و نبوت اور نبوت کے حقائق اور وحدت دین کی تشریح ولی اللہی فکر کے مطابق ، حضرات صحابہ کے دینی مقام و مرتبہ اور تفسیر قرآن میں سلف کرام کے اصولی دائرہ کی پابندی وغیرہ ، دین کے مباحث پر روشنی ڈالی ۔ ترجمان القرآن کے فکری مباحث کی روح اسی منظر میں واضح ہوتی ہے۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، ص ۲۹)

۶۔ فکر مغرب سے مرعوب مفکرین کا رد

مولانا نے اپنی تفسیر میں بغیر نام لیے  سرسید احمد خان اور ان کے ہمنوا دیگر مفکرین کا عمدہ طریقے سے رد کیا ہے۔ مولانا کا یہ رد خالص علمی اور مثبت انداز میں ہے، اس میں تفسیر حقانی کی طرح طنز نہیں پائی جاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر حقانی کے بجائے مولانا کی تفسیر زیادہ مقبول ہوئی اور اس نے جدید ذہن کے اشکالات کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا قاسمی لکھتے ہیں: ’’مولانا آزاد مناظرانہ انداز گفتگو کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے سنجیدہ اور مثبت انداز میں سید احمد خان کے تصورات کی ترجمان القرآن میں مکمل تردید ملتی ہے۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، ص ۲۹)

۷۔ جامعیت

مولانا کی تفسیر مختصر مگر جامع ہے، بسا اوقات ایک حاشیہ پورے مقالے کے قائم مقام ہے۔ مولانا خود اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:   ’’اکثر مقامات میں ایسا ہوا کہ معارف ومباحث کا ایک پورا دفتر دماغ میں پھیل رہا تھا ، مگر نوک قلم پر آیا تو ایک سطر یا ایک جملہ بن گیا۔“ (ترجمان القرآن ، جلد ۲ ،صفحہ ۴۴)

مولانا کی کتاب سے بعد کے مصنفین نے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ مولانا آزادکی تفسیر پر مختلف حضرات نے بعض پہلوؤں سے اعتراضات بھی کیے ہیں  جن کے مختلف علمی و فکری پس منظر ہیں۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی ؒ نے اپنے علمی مقالہ ’’ ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ’’ میں ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔


تعارف و تبصرہ

(جنوری ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter