افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کا یہ موقف تسلیم کر لیا ہے کہ افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے مذاکرات ہی مسئلہ کا واحد حل ہیں اور افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے افغان طالبان سے کہا ہے کہ انہیں ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کی طرف آنا ہوگا۔

افغان مسئلہ کے فوجی حل کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو عسکری یلغار کی تھی اس کی ناکامی کا اعتراف خود امریکی جرنیل متعدد بار کر چکے ہیں اور یہ بات پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ فوجی قوت کے ذریعے افغان عوام کو زیر کرنے کا امریکی منصوبہ بھی کارگر نہیں ہو سکا جبکہ اس سے قبل برطانوی استعمار اور سوویت یونین بھی بھرپور عسکری قوت کے استعمال کے باوجود اپنے اپنے دور میں ناکام رہے ہیں۔ اور افغان عوام کی یہ قومی روایت ایک بار پھر تاریخ کے صفحات میں ثبت ہوگئی ہے کہ انہیں قوت کے زور پر زیر کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے والوں کو بہرحال ان کی غیرت و حمیت اور اسلامیت کا اعتراف کرتے ہوئے باوقار گفتگو کے ذریعے ہی باہمی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کئی بار یہ تقاضا کر چکا ہے کہ افغان طالبان مذاکرات کی میز پر آ کر بات کریں اور افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے گفت و شنید کا راستہ اختیار کریں۔ طالبان کو بھی اس سے انکار نہیں ہے، البتہ وہ جائز طور پر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ امریکی اتحاد کو مذاکرات سے قبل افغانستان میں اپنے فوجی مشن کو ختم کرنے کا اعلان کر کے فوجوں کی واپسی کا ٹائم ٹیبل دینا ہوگا، اس کے بغیر مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس جائز اور معقول شرط کو قبول کرنے کے لیے ابھی تک تیار نہیں نظر آتے جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بیٹھے ہیں، اور یہ وجہ بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ جن مقاصد اور اہداف کے لیے انہوں نے افغانستان پر عسکری یلغار کی تھی وہ ان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہی مقاصد مذاکرات کی میز پر حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چنانچہ مذاکرات کے موجودہ عمل میں ہمارے خیال کے مطابق یہی پہلو کسی مثبت پیشرفت میں رکاوٹ بن گیا ہے۔

سادہ سی بات ہے کہ سوویت یونین کی عسکری جارحیت کے خلاف افغان عوام نے علم جہاد بلند کیا اور اپنی قومی خودمختاری اور اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے میدان عمل میں آئے تو امریکہ نے سوویت یونین کے ساتھ اپنی محاذ آرائی میں اسے مفید سمجھتے ہوئے افغان مجاہدین کی حمایت کی اور انہیں مکمل سپورٹ کیا جس سے افغان مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف جہاد میں کامیابی حاصل کرنے میں خاصی مدد ملی، البتہ وہ اس فریب کو نہ سمجھ سکے یا سمجھتے ہوئے بھی وقتی سہولت کی خاطر ٹریپ ہوگئے کہ افغان جہاد میں امریکی امداد افغانستان کی قومی خودمختاری اور اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ سوویت یونین کے بکھر جانے کی صورت میں اس خطہ میں امریکی اجارہ داری کے قیام کے لیے ہے۔ اور یہیں سے جہاد افغانستان کی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی، جنیوا معاہدہ اس امریکی حکمت عملی کا شاہکار تھا جس نے افغانستان کو ایک نئی خانہ جنگی اور افراتفری سے دوچار کر دیا، اس دلدل سے افغانستان کو نکالنے کے لیے افغان طالبان سامنے آئے اور قومی خودمختاری اور اسلامی تشخص کی شاہراہ پر پھر سے افغان قوم کو گامزن کر دیا، جو نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بلکہ دنیا کی سبھی استعماری قوتوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا کیونکہ عالمی سطح پر استعماری عزائم رکھنے والے تمام ممالک اور اقوام تمام تر باہمی اختلافات و تنازعات کے باوجود اس نکتہ پر پوری طرح متفق ہیں کہ اسلامی شریعت کو دنیا کے کسی خطہ میں ملکی قانون و نظام کے طور پر برداشت نہیں کیا جائے گا، جبکہ افغان طالبان کی امارت اسلامیہ کا بنیادی ایجنڈا ہی نفاذ شریعت ہے، چنانچہ اس سے ایک نئی کشمکش کا آغاز ہوگیا جو اب تک جاری ہے۔

اس صورتحال میں جبکہ افغانستان پر امریکی اتحاد کی عسکری یلغار اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکی اور مذاکرات کی میز بچھائی جا رہی ہے، جنیوا طرز کے ایک اور معاہدے کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں تاکہ امن و امان تو کسی درجہ میں قائم ہو جائے مگر افغانستان کی مکمل قومی خودمختاری اور افغان قوم کا اسلامی تشخص بدستور ابہام کا شکار رہے اور ان کے گرد سازشوں کا حصار مسلسل قائم رہے۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا افغان طالبان کو یہ مشورہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آئیں، کیونکہ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں بنتا کہ وہ امریکہ کی فوجی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے اس کی شرائط کے سامنے سرنڈر ہو جائیں اور جو کامیابی امریکی اتحاد عسکری میدان میں حاصل نہیں کر سکا اسے افغان طالبان خود مذاکرات کی میز پر طشتری میں سجا کر امریکہ بہادر کے حضور پیش کر دیں۔ ہم مذاکرات کے حق میں ہیں اور اسی کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں لیکن شاہ محمود قریشی کا یہ مشورہ ہمارے نزدیک مذاکرات کے لیے نہیں بلکہ سرنڈر ہونے کا مشورہ ہے جو کسی طرح بھی پاکستان کے شایان شان نہیں ہے اور حکومت پاکستان کو اس پر بہرحال نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ اگر ویت نام کی جنگ میں امریکہ وہاں کے آزادی پسندوں (ویت کانگ) سے ہتھیار رکھوانے کی شرط کے بغیر مذاکرات کر سکتا ہے تو افغان طالبان کے ساتھ موجودہ پوزیشن میں مذاکرات میں آخر کیا چیز مانع ہے؟

حالات و واقعات

(جنوری ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter