اس وقت مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تازہ تصنیف ’’تذکار رفتگاں‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ کتاب کیا ہے، پڑھ کر ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس پایے کی کتاب ہے اور اس میں کتنا قیمتی تاریخی علمی مواد موجود ہے۔ یہ کتاب تقریباً نصف صدی سے زائد کے اکابر علماء، زعماء، مشائخ، قائدین، سربراہان مملکت اور قومی وبین الاقوامی شخصیات کے حالات زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب میں اس فانی دنیا سے رخصت ہو جانے والے اکابر اہل علم کی وفات پر ہلکے پھلکے انداز میں مولانا نے اپنے قلبی تاثرات وجذبات کا اظہار پیش کیا ہے۔
مولانا کو اللہ رب العزت نے گوناگوں صفات وکمالات سے نوازا ہے۔ علم وعمل، درس وتدریس، تقریر وتحریر، خطابت وصحافت، فقہ واجتہاد، تواضع وانکسار جیسی صفات سے مالا مال فرمایا ہے۔ مولانا کا قلم عجب قلم ہے، آپ کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ آپ کو مشکل سے مشکل بات آسان پیرایے میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل نکالنے میں مولانا اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ غبی اور کم علم بھی آپ کی تحریر کو شوق سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ اہل علم کا ایک بڑا طبقہ آپ کے قلم کا گر ویدہ ہے۔ آپ کے قلم سے نکلی شستہ تحریر محبت کا پیغام دیتی، مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑتی اور پست ہمت لوگوں کو باہمت بنا دیتی ہے۔ آپ کی تحریر بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لاتی، فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوؤں کو وحدت آشناکرتی اور گم کردہ راہوں کو نشان منزل عطا کرتی ہے۔
مولانا کو نصف صدی سے زیادہ تک امت کے اساطین علم اور اکابر اہل علم کی سرپرستی میں دینی خدمات کا موقع ملا ہے، حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی، مفتی محمود صاحب، مولانا عبید اللہ انور، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہم اللہ جیسی عظیم ہستیوں سے حصول علم اور کسب فیض کا موقع میسر آیا ہے۔ اللہ رب العزت مولانا کو اور زیادہ صحت وعافیت سے نوازیں اور ان کی قومی، ملکی، دینی، ملی خدمات کے دائرے کو وسیع فرمائیں۔
زیر نظر کتاب کو چار مرکزی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے: اساتذہ واکابر، قومی وبین الاقوامی شخصیات، رفقاء واحباب، اور مختصر تعزیتی شذرات۔ تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل علم و قلم، اصحاب علم و دانش، صاحب ثروت شخصیات کا تذکرہ عقیدت و محبت کے ساتھ بڑے والہانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، بالخصوص چند عظیم شخصیات کا تذکرہ تو بڑی چاہت و محبت اور تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ حضرت مفتی محمود صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر لگ بھگ پچپن صفحات میں اظہار خیال کیا گیا ہے، مرکز ی جامع مسجد گوجرانوالہ کے سابق خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب کو چودہ صفحوں میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا عبداللہ درخواستی کا تذکرہ بھی محبت و عقیدت کے ساتھ بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، لیکن سب سے زیادہ قلبی جذبات و تاثرات کا اظہار مولانا صوفی عبدالحمید سواتی اور شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے تذکرہ میں ہوا ہے۔ اول الذکر مولانا کے عم محترم اور ثانی الذکر مولانا کے والد محترم ہیں، ان دونوں کا تذکرہ مولانا نے بڑی چاہت اور محبت میں ڈوب کر کیا ہے۔
مولانا اپنے والد محترم کے تذکرہ میں مضمون کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں:
’’حضرت مولانا سرفراز خان صفدر میرے والد گرامی تھے، استاد محترم تھے، شیخ ومربی تھے، اور ہمارے درمیان دوستی اور بے تکلفی کا وہ رشتہ موجود تھا جو ہر باپ اور اس کے بڑے بیٹے کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘
اس کے بعد مولانا نے اپنے والد گرامی کے خانگی حالات، بچوں کی تعلیم وتربیت کا انداز، تدریسی اور تحریکی زندگی، تصنیفی اور تالیفی خدمات اور روزمرہ کے معمولات کو سپرد قلم کیا ہے جو ہم سب کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’حضرت والد صاحب کی صحت میں شب و روز کا نظام کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ سحری کے وقت اٹھ کر بلاناغہ غسل کرتے تھے اور تہجد کی نماز ادا کرتے تھے۔ اس وقت ہماری والدہ مرحومہ بھی بیدار ہو کر تہجد پڑھتی تھیں اور ناشتہ تیار کرتی تھیں۔ اذان فجر کے فوراً بعد والد محترم ناشتہ کرتے تھے جو عام طور پر پراٹھے اور چائے پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسجد میں چلے جاتے تھے، ساتھ ہی والدہ مرحومہ بھی مسجد میں چلی جاتی تھیں، اس لیے کہ فجر کی نماز اور درس میں خواتین بھی باقاعدہ شریک ہوا کرتی تھیں اور خواتین کے لیے مسجد میں الگ انتظام موجود تھا۔ نماز فجر پڑھانے کے فوراً بعد حضرت والد محترم درس دیتے تھے جو تین دن قرآن پاک اور تین دن حدیث پاک کا ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرت العلوم میں پڑھانے کے لیے چلے جاتے تھے جہاں سے دوپہر سے کچھ پہلے واپسی ہوتی تھی۔ کھانا کھا کر اور اخبار پڑھ کر سو جاتے تھے۔ ظہر تک آرام ہوتا تھا، ظہر سے عصر تک اپنی چارپائی پر بیٹھے لکھنے اور پڑھنے کا کام کرتے رہتے تھے اور اسی دوران بچیاں مختلف اسباق کی تعلیم حاصل کرتی رہتی تھیں۔ عصر کی نماز کے بعد قرآن کی منزل پڑھتے تھے جو عام طور پر روزانہ ایک پارہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد گھر کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ جس زمانے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی، لیمپ اور لالٹین کے شیشے صاف کرنا، چارپائی کی ڈھیلی ادوائن کو کسنا، پیڑھی وغیرہ اگر قابل مرمت ہو تو اسے ٹھیک کرنا اور اسی طرح کے دیگر چھوٹے چھوٹے کام کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا۔ نماز مغرب کے بعد کھانا کھاتے اور مطالعہ کرتے تھے، عشاء کے بعد سردیوں میں مطالعہ کرتے اور گرمیوں میں جلد سونے کی کوشش کرتے تھے۔‘‘
حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا مفتی محمود صاحب صرف ایک سیاستدان نہیں تھے بلکہ دینی علوم کے معتبر استاد، بیدار مغز مفتی، فقیہ النفس عالم، حق گو خطیب، شب زندہ دار عارف باللہ بھی تھے، اس لیے ان کی ان متنوع اور گو نا گوں حیثیتوں میں سے سیاستدان اور سیاسی قائد کی حیثیت کو الگ کرنا اور اس کے امتیازات و تخصصات کو جداگانہ طور پر پیش کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے، اور یہ شاید ان کے ساتھ نا انصافی بھی ہو کہ ان کو صرف سیاسی قائد کے طور پر سامنے لایا جائے۔ مولانا مفتی محمود صاحب ایک مفتی اور فقیہ کی حیثیت سے اسلامی احکام کی تعبیر و تشریح، ترجمانی اور دفاع کی ذمہ داری سے تدبیر اور بصیرت کے ساتھ عہدہ برآ ہوتے تھے۔
افتاء اور تفقہ میں ابتدائے اسلام سے دو الگ الگ ذوق پائے جاتے ہیں۔ ایک ذوق سختی اور تشدد کا ہے کہ مسئلہ بیان کرنے اور فتویٰ دینے میں کوئی لچک نہ دی جائے، دوسرا ذوق رخصت اور لچک کا ہے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو شرعی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن سہولت اور لچک فراہم کی جائے اور اسے مشکل اور الجھن سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، حضرت مفتی محمود صاحب کا ذوق نرمی اور سہولت کا تھا اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ کوئی شخص مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا ہے تو اس بات کو غنیمت سمجھو کہ وہ دین کے دائرے میں رہنا چاہتا ہے، اس لیے اسے جتنی سہولت فراہم کر سکتے ہو، اس کے لیے پوری کوشش کرو اور اصول کے دائرے کو قائم رکھتے ہوئے فروع و جزئیات میں زیادہ سختی نہ کرو، امت کے اجتماعی مسائل و مشکلات کے حوالے سے ان کا ذوق یہی تھا اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی مسئلہ میں شرعی اصول اور قواعد کی حدودمیں رہتے ہوئے نرمی اور سہولت کا راستہ اختیار کیا جائے اور مسئلہ کو الجھانے اور ڈیڈلاک کی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے مسئلہ کے حل اورسلجھاؤ کی کوئی صورت نکالی جائے۔ مفتی صاحب کو قدرت نے اسلامی احکام و مسائل کی حکیمانہ تشریح اور دفاع کا بھی خصوصی ذوق عطا کیا تھا اور وہ اسلامی قوانین پر اعتراضات کے جواب میں پورے اعتماد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے منطق و استدلال کا ایسا حصار قائم کر دیتے تھے کہ کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی ان کے دلائل کا سامنا مشکل ہو جاتا تھا۔‘‘
جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوری کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’مولانا عبداللہ رائے پوری کی ذاتی زندگی انتہائی سادگی اور کفایت شعاری سے عبارت تھی، وہ جامعہ رشیدیہ سے اپنی تنخواہ وصول کرتے وقت مہینہ میں کی ہوئی چھٹیوں کا حساب کر کے اتنے دنوں کی تنخواہ وضع کروا لیتے تھے۔ درسگاہ میں پڑھائی کے وقت کے علاوہ جو وقت گزارتے، اس کا حساب کر کے اتنا بجلی کا بل مدرسہ میں جمع کروا دیتے۔ حضرت کے لیے جامعہ رشیدیہ میں ایک کمرہ الگ مخصوص کیا گیا تھا مگر وہ آخر وقت تک جامعہ کو اس کا کرایہ ادا کرتے رہے۔ حضرت مدرسہ کے شیخ الحدیث ہو نے کے باوجود مدرسہ کے لیٹر پیڈ اور قلم دوات کو فتویٰ نویسی کے علاوہ کسی کام کی لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ مدرسہ کی سالانہ تعطیلات کی تنخواہ بھی وصول نہیں کرتے تھے۔ دوسرے مدارس کے سالانہ اجتماعات اور امتحانات وغیرہ کے لیے جاتے تو ان سے سفر کے اخراجات سے زائد رقم وصول نہ کرتے تھے۔‘‘
مولانا زاہد الراشدی صاحب کا اصلاح و ارشاد اور بیعت کا تعلق مولانا عبیداللہ انور صاحب سے تھا، ان کا تذکرہ بھی مولانا نے بڑی محبت سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’مولانا عبید اللہ انور میرے شیخ تھے، میرا ان کے ساتھ اصل تعلق سلسلہ قادریہ میں بیعت کا تھا۔ میں نے چند بزرگ ایسے دیکھے ہیں جن کا مستقل معمول تھا کہ وہ رات کو نہیں سوتے تھے۔ ایک مولانا عبیداللہ انور، دوسرے مولانا سید حامد میاں۔ ان کا معمول تھا کہ ساری رات نماز، مطالعہ، ذکر میں گزارتے تھے۔ مطالعہ بہت کرتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں وسعت مطالعہ کے اعتبار سے تین چار آدمی دیکھے ہیں کہ وہ ہر موضوع پر طویل کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے تھے۔ ایک والد محترم مولانا سرفراز خان صفدر مطالعہ و تحقیق کے آدمی تھے۔ دوسرے امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے بڑے بیٹے حضرت مولانا سید ابوذر شاہ بخاری۔ تیسرے مولانا عبیداللہ انور۔ چوتھے حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب بڑے کتاب دوست آدمی تھے۔
ابتدا میں جب میں لکھتا تھا تو ’’زاہد گکھڑوی‘‘ کے نام سے لکھتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت فرمانے لگے کہ زاہد صاحب! یہ گکھڑوی بڑا ثقیل لفظ ہے، کہتے ہوئے بڑ ا زور لگانا پڑتا ہے۔ کوئی سادہ سا لفظ ساتھ رکھیں۔ میں نے کہا حضرت! گکھڑ سے تعلق ہے، اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتا ہوں۔ فرمانے لگے کہ سلسلہ کی نسبت کرو۔ ہمارا سلسلہ کہلاتا ہے، عالیہ قادریہ راشدیہ۔ عالیہ حضرت علیؓ کے حوالے سے، قادریہ حضرت شنخ عبدالقادر جیلانی کے حوالہ سے، اور راشدیہ حضرت شاہ محمد راشد سندھی کے حوالہ سے۔ اس وقت مولانا سعید الرحمان علوی میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا، علوی تو یہ بیٹھے ہیں اور قادری بھی بہت ہیں، اب میں راشدی ہو جاؤں؟ فرمایا: ہاں، ہو جاؤ، چنانچہ اس دن سے میں ’’زاہد راشدی‘‘ ہوں۔‘‘
غرض مولانا نے تین سو کے لگ بھگ اکابر علماء، مشائخ عظام، احباب ورفقاء، قومی وبین الاقوامی شخصیات کا تذکرہ بڑے ہی دل نشیں انداز میں کیا ہے۔ چند ایک کے نام حسب ذیل ہیں: قائد احرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا مفتی محمد حسن، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا قاری محمد طیب، الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا خواجہ خان محمد، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف، مولانا سلیم اللہ خان، شاہ فیصل بن عبدالعزیز، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق شہید، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، نوابزادہ نصراللہ خان، نواب محمد اکبر خان بگٹی، صدر صدام حسین، ملا محمد عمر مجاہد، اسامہ بن لادن، مولانا شاہ احمدنورانی، قاضی حسین احمد، علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا حق نواز جھنگوی، حکیم محمد سعید، مولانا محمد ضیاء القاسمی، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی، مولانا محمد اعظم طارق، علامہ علی شیر حیدری، مجید نظامی اور جنرل حمید گل۔
کتاب بہترین کاغذ، خوبصورت ٹائٹل کےِ ساتھ تقریباً آٹھ سو صفحات کے لگ بھگ شائع ہوئی ہے۔ شائقین علم وادب کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی اشاعت خاص کے طور پر منظر عام پر آیا ہے۔ امید ہے کہ اگلا ایڈیشن مزید اضافوں کے ساتھ اس سے بہتر انداز میں شائع ہو گا، ان شاء اللہ۔