گوجرانوالہ میں قادیانی مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گوجرانوالہ شہر کے حیدری روڈ پر رمضان المبارک کی ۲۹ (انتیسویں) شب کو رونما ہونے والے سانحہ کے بارے میں ملک کے مختلف حصوں سے احباب تفصیلات دریافت کر رہے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی پریس میں طرح طرح کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں میسر معلومات سے قارئین کو آگاہ کر دیا جائے۔ 

حیدری روڈ پر قادیانیوں کے پندرہ بیس خاندان ایک عرصہ سے رہائش پذیر ہیں اور اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ۱۹۹۲ میں اسی محلہ میں ایک واقعہ پیش آیا کہ قادیانیوں نے اپنے مرکز میں ڈش لگا کر احمدیہ ٹی وی کی نشریات کے ذریعہ اردگرد کے نوجوانوں کو ورغلانے کا سلسلہ شروع کیا تو علاقہ کے مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا۔ شہر میں غیر مسلم اقلیتیں ہمیشہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں اور اگر حدود سے تجاوز کی بات نہ ہو تو انہیں برداشت کیا جاتا ہے۔ اس برداشت اور رواداری میں گوجرانوالہ شہر بہت سے دوسرے شہروں سے بہتر روایات رکھتا ہے۔ مگر قادیانیوں کا مسئلہ مختلف ہے اس لیے کہ وہ اپنی دعوت اور سرگرمیاں اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔ حالانکہ پوری امت مسلمہ انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتی ہے اور پاکستان کے دستور میں بھی انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن وہ اس فیصلے اور دستور پاکستان کو مسترد کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ و دعوت پر بضد رہتے ہیں جس پر پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ دستور و قانون کو بھی اعتراض ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی سرگرمیاں قابل قبول نہیں ہوتیں، اور وہ جہاں بھی ایسا کرتے ہیں اردگرد کے مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔

۱۹۹۲ کے اس واقعہ پر علاقہ کے مسلمان مشتعل ہوئے تو قانون حرکت میں آیا اور قادیانیوں کی ان سرگرمیوں کو روک دیا گیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بین الاقوامی حلقوں سے رابطہ قائم کیا اور کم و بیش ستائیس افراد اس بہانے کینیڈا کا ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور وہ وہیں آباد ہیں۔ اس کے بعد دو عشروں سے زیادہ عرصہ خاموشی کے ساتھ گزر گیا اور ایک محلہ میں رہنے کے باوجود مسلمانوں اور قادیانیوں میں کشیدگی کا کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ 

رمضان المبارک کی انتیسویں (۲۹) شب کو عاقب نامی ایک قادیانی نوجوان نے صدام حسین نامی مسلمان لڑکے کو فیس بک پر ایک خاکہ بھجوایا جس میں بیت اللہ شریف کی توہین کی گئی ہے۔ یہ تصویر موبائل ریکارڈ پر موجود ہے اور اس کا پرنٹ بھی بعض دوستوں نے سنبھال رکھا ہے۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس میں ایک بد صورت ننگی عورت کو خانہ کعبہ کی چھت پر (نعوذ باللہ) گندگی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک محفل میں وہ خاکہ اور تصویر بعض دوستوں نے مجھے دکھانا چاہی تو میں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ میں اس معاملہ میں بہت کمزور واقع ہوا ہوں۔ یہ توہین آمیز خاکہ جس کیفیت میں بتایا جا رہا ہے میں اسے نہیں دیکھ سکوں گا۔ صدام حسین نے یہ خاکہ دیکھ کر اپنے دو چار دوستوں سے بات کی اور وہ مل کر ڈاکٹر سہیل صاحب کی دکان پر گئے جو پہلے قادیانی تھے اب مسلمان ہیں۔ ان لڑکوں نے ان سے کہا کہ وہ عاقب کو سمجھایں کہ وہ ایسی حرکتیں نہ کرے، یہ ناقابل برداشت ہیں۔ وہیں عاقب بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آگیا اور ان کے درمیان خاصی توتکار ہوئی جو بڑھتے بڑھتے اس نوبت تک پہنچ گئی کہ قریب کے قادیانی مکانات کی چھتوں سے اینٹیں اور پتھر برسنا شروع ہوئے۔ عاقب نے صدام اور اس کے ساتھیوں سے کہا کہ جاؤ تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو، مجھے کوئی پروا نہیں ہے ، اس کے ساتھ ہی قادیانی لڑکوں میں سے کسی نے فائرنگ بھی کر دی جس سے قریب کی ایک مسجد کے امام مولانا حاکم خان کا تیرہ سالہ لڑکا زخمی ہوگیا جس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی۔ علاقہ کے سابق کونسلر مقبول احمد کہتے ہیں کہ وہ اس لڑکے کو اٹھا کر سول ہسپتال لے گئے، اس دوران فائرنگ اور باہمی تصادم کی خبر اردگرد کے محلوں میں پھیل گئی اور لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ محلہ کے پندرہ بیس حضرات یہ دیکھ کر تھانہ پیپلز کالونی گئے اور انچارج تھانہ سے بات کی کہ حالات زیادہ خراب ہونے کا خدشہ ہے اس لیے وہ مداخلت کریں اور وہاں پہنچیں۔ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی دونوں سے ان کی بات ہوئی مگر ان دونوں کو واقعہ میں دل چسپی لینے پر قائل کرنے میں انہیں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ گئے۔ 

یہ وہ وقت تھا جب لوگ تراویح کی نماز سے فارغ ہو کر مساجد سے نکل رہے تھے، اس لیے اردگرد محلوں کی بیسیوں مساجد کے نمازی وہاں جمع ہوئے اور ہزاروں افراد کا اجتماع ہوگیا۔ محلہ کے پندرہ بیس سرکردہ حضرات اس وقت تھانے میں پولیس افسران کو قائل کرنے میں مصروف تھے۔ سابقہ کونسلر مقبول احمد زخمی بچے کو لے کر ہسپتال گئے ہوئے تھے۔ ہجوم مشتعل تھا اور کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں تھا، اس لیے مشتعل اور بے قابو ہجوم نے قادیانیوں کے گھروں کا رخ کیا اور انہیں آگ لگانا شروع کر دی۔ اس دوران ضلعی امن کمیٹی کے ارکان قاری محمد سلیم زاہد، مولانا مشتاق چیمہ اور بابر رضوان باجوہ بھی وہاں پہنچ گئے اور صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب پہنچے تو مکانوں کو آگ لگی ہوئی تھی، پولیس ایک طرف کھڑی تھی، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ہجوم نے ایک طرف روکی ہوئی تھیں جبکہ پولیس کے جوان ہجوم کی کاروائیوں سے روکنے اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو راستہ دلوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے تھے۔ اس کے بعد جب ڈی سی او، سی پی او، اور پھر کمشنر صاحب وہاں پہنچے تو انہوں نے کاروائیوں کو رکوانے میں پولیس اور محلہ داروں کی مدد سے موثر کردار ادا کیا اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے کے لیے وہاں پہنچ پائیں۔ محلہ داروں کا کہنا ہے کہ آتش زنی اور لوٹ مار کے افسوسناک واقعات ہوئے ہیں لیکن محلہ داروں نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ باہر سے آنے والے نا معلوم حضرات نے ایسا کیا ہے، بلکہ ایک مکان میں پھنسے ہوئے آٹھ دس قادیانی افراد کو محلہ داروں نے ہی وہاں سے نکالا ہے اور اس کوشش میں ایک مسلمان خود بھی جھلس گیا ہے۔ 

اس دوران آتش زنی سے قادیانی گھرانے کی ایک خاتون اور دو بچیاں جاں بحق ہوئیں، رات دو بجے کے لگ بھگ اس صورت حال کو کنٹرول کیا جا سکا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ دونوں طرف سے مقدمات تھانے میں درج ہو چکے ہیں اور عید کی چھٹیاں گزارنے کے بعد اس سلسلہ میں سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ 

محلہ کے ذمہ دار حضرات اور امن کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ خانہ کعبہ کی توہین ناقابل برداشت ہے، اس پر عوام کا مشتعل ہونا فطری بات تھی مگر اسے بروقت کنٹرول کرنے میں اگر تھانہ پیپلز کالونی محلہ کے ذمہ دار حضرات سے تعاون کرتا اور ڈیڑھ دو گھنٹے کا وقت وہاں ضائع نہ ہو جاتا تو آتش زنی اور لوٹ مار کے افسوسناک بلکہ شرمناک واقعہ کی نوبت شاید نہ آتی۔

حالات و واقعات

(ستمبر ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter