۱۴ مارچ، جمعۃ المبارک کو صبح اذان فجر ہو رہی تھی کہ قاری محمد یوسف عثمانی صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ میاں محمد عارف صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دو روز قبل میں ان سے مل کر آیا تھا، ان کا ہارٹ کا آپریشن ہوا تھا اور بظاہر کامیاب ہوگیا تھا۔ ہم خوش تھے کہ آپریشن کامیاب ہوگیا ہے اور وہ بھی حالات حاضرہ پر حسب معمول گفتگو کر رہے تھے۔ ہم نے اجازت چاہی تو کہا کہ آنا اپنی مرضی سے ہوتا ہے لیکن جانا ہماری مرضی سے ہوگا، اس لیے چائے پیے بغیر نہیں جا سکیں گے۔ اس بہانے کچھ دیر ان کے ساتھ گفتگو رہی جو زیادہ تر حالات حاضرہ اور حکومت طالبان مذاکرات کے بارے میں تھی۔ وہ مولانا سمیع الحق کے بارے میں پریشان تھے کہ وہ اس بڑھاپے میں بہت بڑی آزمائش سے دو چار ہوگئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے، میں بھی مولانا سمیع الحق کے لیے مسلسل دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی عزت اور بھرم کو قائم رکھیں، وہ ہمارے شریف اور باوقار بزرگوں میں سے ہیں، آمین یا رب العالمین۔
میاں محمد عارف کا تعلق گوجرانوالہ کی انصاری برادری سے تھا۔ ان کا خاندان تقسیم ملک کے بعد امرتسر کے علاقہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ میں آباد ہوا تھا اور پل لکڑ والا کے قریب گلی آسا ملتانیہ میں ان کی رہائش تھی۔ ان کے والد محترم میاں رحیم بخش انصاری نیک دل اور خداترس بزرگ تھے، کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، پرانے ریلوے اسٹیشن کے سامنے ریل بازار میں سفینہ کلاتھ مارکیٹ میں ان کی بیڈ شیٹ وغیرہ کی دکان ہے اور ایک فیکٹری بھی ہے جس میں اسی نوعیت کی چیزیں تیار ہوتی ہیں۔ میاں رحیم بخش صاحب مرحوم والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے قریبی ساتھیوں اور معتقدین میں سے تھے، اور حضرت والد محترمؒ کے بارے میں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا کرتے تھے کہ ’’وہ اس صدی کے مجدد ہیں‘‘۔
میاں محمد عارف مرحوم کے ساتھ میرا تعلق اس دور میں قائم ہوا جب وہ کالج کے اسٹوڈنٹ تھے اور میں نصرۃ العلوم میں آخری درجات کا طالب علم تھا۔ جمعیۃ طلباء اسلام کی تشکیل کا مرحلہ تھا، اس موقع پر ہمارے استاذِ محترم مولانا حافظ عزیز الرحمنؒ کو جمعیۃ طلباء اسلام کا گوجرانوالہ میں صدر چنا گیا اور میاں محمد عارف سیکرٹری چنے گئے، جبکہ مجھے نائب صدر بنایا گیا۔ وہیں سے ہماری جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ باہمی ربط و تعلق کا آغاز ہوا جو کہ کم و بیش پینتالیس برس جاری رہنے کے بعد اس دنیا میں ان کی وفات پر ختم ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے ساتھ عقیدت و محبت کا گہرا رشتہ تھا۔ حضرت درخواستیؒ ان کے گھر تشریف لایا کرتے تھے اور بہت شفقت فرمایا کرتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے ساتھ میرا تعلق بھی اسی نوعیت کا تھا اور خانپور اور شیرانوالہ کی حاضری ہمارے لیے ’’ایمان کی تازگی‘‘ کا باعث ہوا کرتی تھی۔ میں جمعیۃ طلباء اسلام میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں منتقل ہوگیا جبکہ میاں صاحب مرحوم ایل ایل بی سے فراغت کے بعد جمعیۃ طلباء اسلام میں ہی متحرک رہے اور اپنی محنت اور صلاحیتوں کے باعث بڑھتے بڑھتے مرکزی صدر کے منصب تک جا پہنچے۔ جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کے دوران حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ ، حضرت مولانا سید نفیس الحسینی ؒ ، حضرت مولانا محمد اکرمؒ اور دیگر بزرگوں کے ساتھ مسلسل رابطے رہتے تھے اور میاں محمد عارف کو ان بزرگوں سے خوب استفادہ اور رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جب جمعیۃ علماء اسلام دو حصوں میں بٹ گئی تو میری طرح میاں محمد عارف مرحوم بھی حضرت درخواستیؒ کے ساتھ تھے اور بہت پر جوش اور متحرک تھے۔ ہمارا مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھا، میں ہمیشہ موقف میں بے لچک مگر طرز عمل اور گفتگو میں نرم رو رہا ہوں۔ میاں صاحبؒ دونوں حوالوں سے بے لچک اور سخت تھے جس کا اظہار وہ بے باکی کے ساتھ کرتے تھے بلکہ بعض دوست تو ان کے غصے کا نظارہ کرنے کے لیے اس قسم کے مسائل ان کے سامنے چھیڑ دیا کرتے تھے۔
گوجرانوالہ میں قدیم اور جدید تعلیم کے امتزاج کے ساتھ ایک نیا تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا کچھ دوستوں نے پروگرام بنایا تو وہ بھی شروع ہی سے ہمارے رفیق کار تھے۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی جو کہ اب جامعہ شاہ ولی اللہؒ کے نام سے جامعۃ الرشید کراچی کی شاخ کے طور پر کام کر رہی ہے، اسی پروگرام کا نتیجہ ہے جس کے لیے الحاج میاں محمد رفیق مرحوم کے ساتھ میاں محمد عارف مرحوم بھی ایک عرصہ تک سرگرم عمل رہے اور اب بھی وہ جامعہ شاہ ولی اللہؒ کے مشاورتی نظام کاحصہ تھے، اور اس کی بہتری اور ترقی کے لیے آخر دم تک فکر مند رہے۔
جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ایک مرحلہ میں بعض انتظامی معاملات میں تنازعہ نے شدت اختیار کر لی اور معاملات عدالتوں تک جا پہنچے تو حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ پورے شد و مد اور جوش و خروش کے ساتھ کھڑے ہو کر مقابلہ کرنے والے دوستوں میں میاں محمد عارف سر فہرست تھے۔ وہ مدرسہ کی کمیٹی کے صدر بھی بنے اور وفات تک رہے۔ شہر کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے کئی بار حصہ لیا، اپنے حلقہ کے کونسلر اور ناظم رہے اور ایک موقع پر ڈپٹی میئر کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔
مولانا سمیع الحق کے ساتھ ان کا بہت گہرا تعلق تھا، اور وہ ان کے مشیر خاص سمجھے جاتے تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی نائب امیر تھے اور جماعت کی پالیسی سازی میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔ گزشتہ دنوں مولانا سمیع الحق نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالہ سے مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں کو اعتماد میں لینے کے لیے لاہور کے ایک ہوٹل میں کل جماعتی کانفرنس کی تو مجھے وہاں میاں محمد عارف دکھائی نہ دیے جو میرے لیے حیرت اور تعجب کی بات تھی۔ دوستوں سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں اور انہیں ہارٹ کی تکلیف ہوگئی ہے۔ دوسرے دن فون پر ان سے حال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ انجیو گرافی کے لیے لاہور جا رہے ہیں۔ ایک دو روز کے بعد پھر حال معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ان کا ہارٹ کا آپریشن ہوا ہے اور وہ گوجرانوالہ واپس آگئے ہیں۔ گزشتہ روز ان کی عیادت کے لیے جلیل ٹاؤن ان کے گھر گیا جس کا حال پہلے لکھ چکا ہوں، اور آج صبح ان کے انتقال کی خبر مل گئی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آج میں ایک مخلص، پر جوش اور درد دل سے بہرہ ور ساتھی کی پینتالیس سالہ رفاقت سے محروم ہوگیا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اب مجھ سے جھگڑے کون کرے گا، تلخ و تند لہجے میں اختلاف کون کیا کرے گا اور ملی و قومی مسائل پر گہرے رنج و اضطراب کے ساتھ اظہار خیال کس سے سننے کو ملے گا؟ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔