فیثا غورث اپنے وقت کا جتنا بڑا سائنس دان تھا، اس سے کہیں بڑا ریاضی دان بھی تھا۔ اس نے جیومیٹری کے قائمۃ الزاویہ سے متعلق جو نظریات پیش کیے، انھیں بعد میں کوئی ریاضی دان چیلنج نہ کر سکا۔ اس کا ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والا قول ہے کہ جسے ریاضی نہیں آتی، وہ اپنے آپ کو انسان نہ سمجھے۔ یہ شخص ایک بتی سے کئی تراشے دکھانے والا ریاضی دان تھا۔
فیثا غورث نے اپنی کامیابی اور علمیت کا راز تین باتوں میں بتایا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پینے کے لیے کھلے منہ کا برتن ہونا چاہیے۔ (آج ہم صبح سے شام تک کولا پیتے ہیں، وہ بھی پائپ بوتل میں ڈال کر پیتے ہیں۔ بوتل کا منہ ویسے ہی چھوٹا ہوتا ہے۔) دوسری بات جلیل القدر فیثا غورث نے یہ بتائی کہ کھانے کے لیے موٹا آٹا ہونا چاہیے۔ (بند، ڈبل روٹی، کیک، بسکٹ، باقر خانی، کلچہ کے شیدائی اپنا انجام سوچیں۔) تیسری بات یہ بتائی کہ جوتا چمڑے کا ہونا چاہیے۔
بظاہر یہ بڑے سادہ لیکن حقیقت میں بہت انمول اصول ہیں۔ نت نئے پکوانوں کے فیشن نے ہمارے گردوں اور جگر کا ستیاناس کر دیا ہے۔ پیزا اور سموسے جس دستر خوان پر دیکھے گئے، انھیں صبح شام کسی نہ کسی کلنک پر حاضری دیتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ ہیپا ٹائٹس اور جسمانی دردیں تو آج ہماری پہچان بن گئی ہیں۔ اس کے ساتھ فارمی مرغی کے بے تحاشا استعمال نے لوگوں کو خونی امراض میں مبتلا کر دیا ہے، اس لیے ہر چھوٹا بڑا خونی یا بادی بواسیر کی شکایت کر رہا ہے۔ فیثا غورث نے کبھی میدہ یا باریک آٹے کے متعلق سوچا بھی نہ ہوگا۔ اس غذا کا پہلا حملہ معدہ پر ہوتا ہے۔ یہیں سے معدہ بگڑتا ہے اور انسانی جسم میں شوگر کے مرض کی ابتدا ہوتی ہے۔