’’الشریعہ‘‘ کے مدیر اعلیٰ مولانا زاہد الراشدی صاحب کچھ عرصہ سے تسلسل کے ساتھ نفاذ اسلام کے لیے آئینی اور جمہوری جدوجہدکی تلقین فرما رہے ہیں اور مسلح مزاحمت کے مقابلے میں غیر مسلح مزاحمت کے طریق کار کی دعوت پیہم اصرار سے دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلح مزاحمت کسے کہتے ہے؟ اور غیر مسلح مزاحمت کیا ہے؟
مسلح مزاحمت کیا ہے؟
مسلح مزاحمت یا مسلح بغاوت دراصل کسی کمزورفریق کے مقابلہ میں بے حد طاقتور فریق کے ظلم، جبراورآمرانہ سوچ اورشکنجہ کو بے رحمی سے اس کمزورفریق پرمسلط کرنے کے نتیجہ میں رونما ہوتا ہے۔مسلح بغاوت یا مزاحمت درحقیقت کسی بے حد طاقتورسلطنت میں کمزورکواپنی مرضی کی زندگی نہ گزارنے دینے کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے۔پُرامن،باانصاف اور غریب پرور معاشروں میں مسلح بغاوت یا مزاحمت ایک روگ، ایک بیماری او ر ایک فتنہ ہے، جبکہ ظالم، بے انصاف، بے رحم ، بے حس ،غریب کُش اور کمزوروں کا استحصال کرنے والے معاشروں میں مسلح بغاوت یا مزاحمت ظلم،جبر،بے رحمی اور بے انصافی کی لعنتوں کا ردعمل ہے۔جوطاقت و قوت کے زعم اور تکبر میں مبتلا ایوانوں کے ردعمل میں جنم لیتا ہے ۔طاقت کے وہ ایوان جنہیں اپنے قارونی خزانوں اور مہیب مسلح قوتوں کا زعم اور نشہ ہر کمزور اور مخالف سوچ کو کچل دینے پہ آمادہ پیکار رکھتا ہے،مسلح بغاوت یا مزاحمت اس مکروہ ظالمانہ اور بے رحم معاشرے کے چہرے پرکمزوروں کا زوردار طمانچہ ہوتا ہے۔ازل سے ایسا ہوتا رہا ہے کہ انسان کی انانیت،تکبر اور اس میں چھپا ہوا ابلیس اسے اپنے سے کمزوروں کا استحصال اور ان کا دائرہ حیات تنگ کرنے پر آمادۂ پیکار کرتا رہا ہے۔جس کا نہایت مسکت جواب قوانین فطرت کے عین مطابق’’مسلح بغاوت یا مسلح مزاحمت‘‘ کی صورت میں ہردور کے نمرودوں اور فرعونوں کو ملتا رہا ہے۔
لیکن دنیا پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات اور اسلام کے سورج کے روشن ہوجانے کی وجہ سے ابلیس کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگردنیا کے نادار،غریب اور کمزورطبقات کی اسلام کے ’’جذبہ جہاد‘‘ تک رسائی ہوگئی توپھر فرعونیت، قارونیت اورہامانیت یعنی بے رحم اور بے حس سرمایہ داروں،جاگیرداروں اوربادشاہوں کا دنیا سے ہمیشہ کے لیے صفایاہوجائے گا۔’’جذبہ جہاد‘‘ کی یہ وہ ہیبت ناک تلوار تھی جس نے ابلیس اور ابلیسی ذریت کو بے حد خوف اور فکر میں مبتلا کردیا۔چنانچہ اس نے اس کا توڑکرنے، انسانیت کو ’’جہاد‘‘ اور ’’جذبہ جہاد‘‘ سے محروم کرنے کے لیے حضرت انساں کے ہاتھوں میں جمہوریت،آزادی رائے اور انتخابی و احتجاجی سیاست کے ساحرانہ کھلونے تھما دیے۔اسی حقیقت کا اظہار ہمیں اقبال کے اشعار میں بھی جابجاملتاہے ۔چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
(بال جبریل بعنوان ’’آزادی افکار‘‘)
یہ علم ،یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت
جو کچھ ہے وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد
(ارمغان حجازبعنوان ’’د وزخی کی مناجات‘‘)
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خودشناس و خودنگر
(ارمغان حجازبعنوان ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘)
جمہورکے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک
(ارمغان حجازبعنوان ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘)
جدید دور کے سامری نے جمہوریت نامی اس کھلونے کے ذریعہ ساری دنیا کے انسانوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا۔ اس طرح اپنے مکر،فریب اور سحر کے ذریعہ انسانیت کو ایک بار پھر اسلام سے اوردنیا اور آخرت کے دکھوں سے نجات حاصل کرنے کی راہ سے دورلے جانے میں کامیاب ہوگیا۔عہد حاضر کے سامری کا یہ وہ جادو ہے جو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ نہ صرف اسلام کی دولت سے محروم طبقات عہد جدید کے سامری کے ’’جمہوریت‘‘ نامی اس سحر میں بری طرح گرفتار ہوچکے ہیں بلکہ اس سحر نے اسلام کے پیروکاروں کی عظیم اکثریت کو بھی اپنے جال میں جکڑ لیا ہے، حتیٰ کہ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بہت سے مسلم مذہبی زعما، قائدین اور علماء تک کے اذہان پر اس سحر نے رسائی حاصل کر لی۔ لہٰذا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے بہت سارے نہایت محترم قائدین اور علماء بھی جمہوریت،آئینی جدوجہداورانتخابی و احتجاجی سیاست کواسلام اورمسلمانوں کے لیے بالکل اسی طرح مفید،ضروری اورناگزیر قرار دیتے ہیں جس طرح مغرب کے ملحد،لادین اور سرمایہ پرست اسے اپنے معاشروں کے لیے بے حد مفید،ضروری اور ناگزیر قرار دیتے ہیں۔
دکھ اور افسوس کا مقام صرف یہ نہیں ہے کہ مغرب کے مقتدرابلیسی اور دجالی اذہان دیار مغرب میں رہنے والے انسانوں کی عظیم اکثریت کو جمہوریت ،آئین،انتخابی اور احتجاجی سیاست کے کھلونے دے کران کا ذہنی،جسمانی اور روحانی بدترین استحصال کررہے ہیں بلکہ ’’درداتنا ہے کہ ہررگ میں ہے محشر برپا‘‘ کے مصداق ناختم ہونے والی اذیت کامقام یہ ہے کہ اہل اسلام کے نہ صرف سیاسی قائدین بلکہ دینی مذہبی راہنما اور مفکرین کی نگاہ میں بھی جمہوریت، آئین، انتخابی اور احتجاجی سیاست کے دجالی کھلونے اہل اسلام کے دکھوں کا واحد علاج اور مداوا ہیں۔
غیر مسلح مزاحمت کیا ہے؟
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ یہ غیر مسلح مزاحمت یا احتجاجی سیاست کس نیلم پری کا نام ہے۔ابلیس اور اس کے پیروکاروں نے ہزاروں سال تک مذہب کا راستہ روکنے اور انسانیت کی روح کا گلا دبانے کی سرتوڑکوششوں کے بعد جب یہ دیکھا کہ ان کی تمام تر کاوشوں کے باوجود اسلام کا سورج طلوع ہوچکا ہے جو ابلیس کی بنائی گئی مہیب ترین اور ہیبتناک ترین قیصروکسریٰ کی سلطنتوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے گیا توانہیں عالم تصور میں ہرظالم،قاہراور بدمعاش سلطنت و قوت ڈوبتی ہوئی نظر آنے لگی۔لہٰذا آنے والے دور میں ظالموں،بدمعاشوں، خائنوں، دغابازوں اور انسانیت کے دشمنوں کے تحفظ کے لیے اور انسانیت کو اسلام کی رحمت سے دور رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ایسا مذہب اور ایسی فکر ایجاد کی جائے جو دکھوں کی ماری انسانیت اوراسلام کے درمیان ایک ناقابل عبور دیوار کھڑی کردے۔اور یوں انسانیت ایک بار پھر اپنے دکھوں کا علاج اپنے خالق و مالک سے دریافت کرنے کی بجائے ابلیسوں اوردجالوں کے جعلی نسخوں میں تلاش کرنے میں سرگرداں رہے۔ابلیس کے پرانے جعلی نسخے اب مزید چلتے دکھائی نہیں دے رہے تھے،لہٰذا ابلیس نے جمہوریت،آزادی رائے اورانتخابی واحتجاجی سیاست کے خوشنما ودلفریب عنوان سے نیا نسخہ تیار کیا اور انسانیت کے ہاتھ میں اسے تھما دیا۔
آج جب ہم اپنے اردگردنگاہ دوڑاتے ہیں توحیرت میں گم ہوجاتے ہیں کہ ابلیس اپنی چال میں میں کیسا زبردست کامیاب رہا؟ آج ساری دنیا کے شیاطین اور مقتدرطبقات (ابلیس کی نمائندہ عالمی طاقتوں )نے دنیا بھرمیں جمہوریت کو اپنی محبوب ترین لونڈی بنایا ہوا ہے۔یہ عالمی طاقتیں اپنی اس لونڈی کے ذریعے اسلام کی بدترین مخالفت کررہی ہیں، اسلام،اہل اسلام، مشاہیر اسلام کا مذاق اڑا رہی ہیں اورمسلمانوں کے محبوب ترین شعائر یعنی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن حکیم کی بدترین توہین کی مرتکب ہورہی ہیں۔ابلیس،اس کی آلہ کارعالمی طاقتیں اور ان عالمی طاقتوں کے آلہ کارمسلم حکمرانوں نے ساری دنیا میں فتنہ اور فساد کا بازاد گرم کیا ہوا ہے۔ یہ ابلیسی ٹولہ انسانیت کی روح کا گلا دبا رہا ہے، انسان کی روحانی زندگی کے لیے یہ ٹولہ ایک عذاب بنا ہوا ہے۔درحقیقت یہ ٹولہ بدترین دہشت گرد ہے، جس نے اپنے اختیارات ،وسائل ،جدید جنگی ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ سے نوع انسانی کو ایک دہشت اور خوف میں مبتلا کیاہوا ہے۔ یہ ابلیسی ٹولہ نہ صرف انسان اور آخرت(انسان کی ابدی مسرت) کے درمیان ایک دیوار بن کرکھڑا ہوگیا ہے بلکہ ابلیس لعین کا یہ پیروکار ٹولہ انسان اور اس کی دنیا کی نہایت محدود زندگی کی مسرتوں کے درمیان بھی ایک دیوار بن کر کھڑا ہے۔ ساری دنیا کے انسانوں کو سود کی لعنت اور نحوست میں جکڑدیاگیا ہے، ساری دنیا کے انسانوں کے لیے زندگی کی بنیادی ترین ضرورتیں پورا کرنا مشکل سے مشکل تر کردیاگیا ہے۔تازہ آکسیجن، خالص او ر صحت بخش غذا،سرچھپانے کے لیے چھت،اپنی نئی پود کی روحانی و جسمانی تعلیم یہ وہ بنیادی ترین ضرورتیں ہیں جن سے آج کے انسان کومحروم کرنے کے لیے تہذیب ، آزادی اور جمہوریت کے نام پر بدترین مکاریاں کی جارہی ہیں۔لعنت ہے ایسی ترقی،ایسی جمہوریت اور ایسی نام نہاد آزادی پرجو نہ صرف انسان کو اس کی آخرت کی ابدی مسرتوں سے محروم کردے بلکہ دنیا کی قلیل زندگی کی مسرتوں کا بھی گلا گھونٹ کررکھ دے۔
عالمی طاقتوں اور ان کے آلہ کارسرمایہ پرست حکمرانوں کی دولت کی بھوک اور ہوس نے فضاؤں کواس حد تک آلودہ کردیا ہے کہ تازہ آکسیجن ملنا محال ہوگیا ہے،دودھ کے نام پر ڈبوں میں بندسفید خوشنما زہرنما محلول سے اس کے جسم کی پرورش کی جارہی ہے،خوشنما غذاؤں کے ذریعے سے بیماریوں کی پرورش کی جارہی ہے،عام انسان کے لیے عمدہ سبزی اور دال تک رسائی مشکل سے مشکل ترکردی گئی ہے ، سرچھپانے کے لیے چھت حاصل کرنے کو ’’سرمایہ غم فرہاد‘‘بنا کررکھ دیاگیا ہے۔متوسط اور غریب طبقہ کے علاج کی راہ میں ڈاکٹرو کی شکل میں ڈاکو بٹھادیے گئے ہیں پھر جدید دور کا انسان ان ڈاکو نمامسیحاؤں سے لٹ کر نکلتا ہے توارزاں ترین دوائیں مہنگی ترین قیمتوں پر خریدنے پر مجبو ہوجاتا ہے۔مگر اس ظلم ، اس استحصال اور اس شیطنیت پر مجال ہے جمہوریت اور جمہوری نمائندوں کے ماتھے پر کوئی شکن پڑے۔جدید زندگی کی یہ وہ اذیتناکیاں ہیں جنہیں دیکھ کر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دوزخ میں جلتے ہوئے انسان کے جذبات کواپنی نظم’’دوزخی کی مناجات‘‘ کے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا:
اللہ تیرا شکر کہ یہ خطہ پُرسوز
سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد
حقیقت یہ ہے کہ ابلیس نے ’’جمہوریت اور آزادی‘‘ کے عنوان سے اجتماعی سطح پرانسانیت کا جو بدترین استحصال کیا ہے اور انسانیت کو زندگی کی بنیادی ترین ضرورتوں سے جس طرح محروم کیا ہے، ماضی کی بدترین بادشاہتوں کے دور میں بھی اجتماعی سطح پر انسانیت کا اس طرح گلا دبانا ناممکن تھا۔ یہی وجہ ہے ابلیس نے جہاں انسانیت کی ’’روح اورجسم‘‘ ہردوکا گلا دبانے کی جو نہایت گھناؤنی اور بدترین چال تیار کی تھی وہاں اسے یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ کہیں انسانوں کا کوئی فہیم طبقہ اٹھے اورقرآن کے جذبہ جہاد سے سرشار ہوکرتمام عالم کے ان ابلیسی آلہ کاروں سے ٹکرا جائے جو انسانیت کو بدترین دکھوں میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔لہٰذا ابلیس نے اپنے آلہ کاروں کی حفاظت کے لیے احتجاجی سیاست (’’غیرمسلح مزاحمت /تصادم‘‘)کا نسخہ ایجاد کیا۔تاکہ عوامی احتجاج کے ذریعے سے وقتاً فوقتاً عوام کے موڈ کا پتہ چلتا رہے اور ابلیسی آلہ کار حالات کے مطابق اپنی حفاظت کا بندوبست کرتے رہیں۔ابلیس نے جدید دور کے سامری کے ذریعے سے آئین اورجمہوریت وغیرہ کا جو سحر پھونکااس کی رو سے عوام کے لیے اپنے جمہوری آقاؤں/انسانیت کے دشمنوں کے خلاف کسی بھی صورت ’’مسلح تصادم‘‘ کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیاگیا۔یعنی جمہوری آقا اگرآپ سے آپ کی خالص غذا چھین لیں، غذا کے نام پر آپ کو ہر روز زہر کھانے پر مجبورکریں، آپ کو زندگی کی بنیادی ترین ضرورتیں آپ کی صلاحیتوں کا بدترین استحصال کرکے اور آپ کو کولہو کا بیل بناکر بھی پوری نہ ہونے دیں،آپ کے لیے ایسا ماحول بنادیں کے آپ کے لیے سودسے پاک معیشت اختیار کرنا،بے حیائی اور عریانیت سے پاک معاشرت اختیار کرنا اور مادہ پرستی و زرپرستی سے پاک تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوجائے اور انسان کی بنیادی ترین ضرورتوں کا حصول اس حدتک مشکل کردیاجائے اور اس کی خاطر اسے پیسے کے پیچھے اتنا بھگایا اور تھکایاجائے کہ وہ پیسے کا پرستار اورپجاری بن کر رہ جائے۔اس حقیقت کا اظہار مریدرومی علامہ اقبال ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
عصرحاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی طبقہ جمہوریت اور جمہوریت کی ان لعنتوں سے آزاد رہنے کی کوشش کرتا ہے (مثلاً پہاڑی علاقوں پر رہنے والے اور اسلام سے محبت کرنے والے مسلم قبائل)تو تعلیم،آزادی،تہذیب اورجمہوریت کے خوشنماعنوانات کے تحت انہیں ان لعنتوں میں گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے جس میں اس وقت نوع انسانی من حیث المجموعی گرفتار ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے آزاد اور بہادر مسلم قبائل ابلیسی قوتوں کے اس بہکاوے اور لالچ میںآنے سے جب انکار کرتے ہیں اورمغربی ابلیسیت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں توانہیں دہشت گرد قرار دے کر ان پر جنگ مسلط کردی جاتی ہے۔
یہ وہ معروضی حقائق ہیں جن سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ عالمی ابلیسی طاقتیں اور ان کے پیروکاراپنے ان سب جرائم کو جمہوریت، آزادی اور آئین کے خوشنما پردوں میں چھپانے کی کس طرح کوشش کرتے ہیں اور انسانی معاشروں کے فہیم طبقہ کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیتے کہ وہ اپنے ملک و قوم اور ساری انسانیت کو ابلیسیت کے اس ملعون اور منحوس شکنجے سے نکالنے کے لیے اسلام کے جذبہ جہاد وقتال کو کام میں لائے۔ابلیس کی یہ داشتہ جمہوریت اسلام کے ماننے والوں پر لازم کرتی ہے کہ وہ ابلیس اور اس کی نمائندہ عالمی طاقتوں اور ان کے آلہ کار مسلم حکمرانوں کے اسلام کش اور انسانیت سوز جرائم پر زیادہ سے زیادہ بس ’’احتجاج ‘‘ کرلیا کریں۔اس ’’احتجاج‘‘ سے آگے بڑھ کر اگر انہوں نے ابلیس اور اس کے آلہ کارعالمی طاقتوں کے انسانیت سوز جرائم کے خلاف قرآن کے جذبہ جہاد و قتال سے کام لینے کی کوشش کی تواس کی انہیں کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔
افسوس صد افسوس جدید دور کا سامری اپنی آلہ کار عالمی طاقتوں کے ذریعے سے ساری دنیا کے انسانوں سے جو مطالبہ کررہا ہے عین وہی مطالبہ ہمارے نہایت محترم علمائے دین بھی کرنے لگ گئے ہیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
(1) ہم نہ ہی سیاسی حکومت کا قیام بذریعہ انتخاب(Election) کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے دینی و دنیاوی استحصال پر احتجاج کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ہمارا اصل دکھ تو یہ ہے کہ ان ٹولز کو ضرورت اور کام چلانے کے ٹولز کے عام مقام پر رکھنے کی بجائے ہمارے قائدین اور دینی زعماء انہیں انسانیت کی یافت اور مسائل کا واحد حل بناکر پیش کررہے ہیں۔
(2) جہاد وقتال کے قرآنی و نبوی منہاج پر کب کیسے اور کس طرح عمل پیرا ہونا چاہیے، یہ ایک الگ معاملہ ہ اور اس پر اختلاف رائے کی پوری پوری گنجائش موجود ہے۔نیز یہ کہ جس طرح دین کے کسی بھی جز اور رکن کو اللہ کی رضا اور اخروی نجات کے جذبے کے تحت ادا کرنا مطلوب ہے اور ذاتی و دنیوی مقاصد کے حصول کے لیے دینی ارکان کی ادائیگی اللہ کے نزدیک بجائے اجر کے الٹا عذاب کا باعث بنادیتی ہے بالکل اسی طرح ’’جہاد و قتال‘‘ کے قرآنی حکم کو ذاتی اغراض اور مفادات کے لیے استعمال کرنے کی شدید حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان کے اس ’’بازار‘‘ میں یہ جعلی پراڈکٹ اتنی زیادہ کیوں بک رہی ہے؟کہیں ایسا تونہیں کہ قرآن وسنت جیسی اعلیٰ ترین نعمت کی ناقدری وخلاف ورزی اور ایمان و اخلاق کے معاملہ میں افلاس و قحط زدگی میں مبتلا غافل قوم کی غفلت کا فائدہ اٹھا کرعالمی ابلیسی قوتوں نے اسلام،مسلمانوں اور مذہبی قوتوں کو بدنام کرنے اور برائی کا سمبل ثابت کرنے اور مسلم ممالک کو بدترین خانہ جنگی میں دھکیلنے کے لیے ایک طرف جعلی مجاہدین بناکرانہیں مسلم علاقوں کا امن تباہ کرنے اور مسلم افواج سے لڑائی پر لگادیا۔تاکہ اس طرح مسلم علاقوں کا امن وامان بھی تباہ و برباد کردیاجائے اور مسلمانوں کی اعلیٰ ترین دفاعی قوت(جہاد و قتال‘)کوبھی دہشت گردی کا نام دے کرنہ صرف غیرمسلم دنیا بلکہ غفلت ومعاصی میں ڈوبی ہوئی مسلم دنیا میں بھی اسے برائی کا ایک سمبل بناکررکھ دیاجائے۔اوراپنے اس جعلی جہاداورجعلی مجاہدین کے ذریعے سے اصلی جہاد اور اصل مجاہدین کو بدنام اور ان کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیاجائے۔جبکہ قرآن وسنت نہایت شدومد سے مسلمان اور جذبہ جہاد کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔حدیث نبوی کی رو سے جس کے اندر شہادت کی آرزو نہیں اور اس کی اس حالت میں موت واقع ہوگئی تو اس کی موت ایک قسم کے نفاق پر ہوئی۔جبکہ پاکستانی معاشرے میں ’’ایمان اور جہاد‘‘ کی دعوت اور محنت ایک اجنبی دعوت بن چکی ہے۔ ہم اجتماعی طور پرایک طرف اگر ایمان کی آبیاری، ایمان کے احیا اور سیرت و اخلاق کے تزکیہ سے غافل و لاپرواہ ہیں اور اس طرح امت مسلمہ کے محوری و مقصدی اورداخلی حصار سے بدترین غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں تو دوسری طرف امت مسلمہ کے خارجی حصار یعنی جذبہ جہاد وقتال کی آبیاری، آگاہی، اس کی متوازن تعلیم اور اس کی حکیمانہ ومومنانہ تربیت سے ہم تہی دست اور بانجھ ہوچکے ہیں۔اوراس نہایت اہم ترین فریضہ(ایمان و جہاد)پر اپنی توجہات کو مرکوز کرنے کی بجائے ہم اپنی قو م کو ’’اسلام کا نفاذ بذریعہ جمہوری واحتجاجی تحریک‘‘کا لالی پاپ دیے چلے جارہے ہیں جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا:
اٹھاکر پھینک دوباہرگلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
ہمیں مولانا زاہدالراشدی اور دیگرمسلم مفکرین کے اخلاص پہ کوئی شبہ نہیں ہے۔اور ہمارے خیال میں ان کی زیربحث متنازعہ سوچ کی پشت پر بھی’’نئی تہذیب کے ان گندے انڈوں‘‘ کو ایک جبراور مجبوری (لادینیت )سے نجات کے لیے بطورہتھیاراستعمال کرنے کا مبارک جذبہ کارفرما ہے۔اور’’جہاد‘‘ کے نام پر مسلم معاشروں کو بدترین بدامنی اورخانہ جنگی کی طرف دھکیلنے سے بچانابھی مطلوب ہوسکتا ہے۔ہم ان کے ان مبارک احساسات کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔لیکن ہم نہایت ادب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جدید شیطانی تہذیب کی طرف سے مسلط کردہ جبراور مجبوری(لادینیت) سے نجات کے لیے اسی تہذیب کے ٹولزمیں جزوی ترامیم کرکے انہیں اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کرنا اوراس کی عظمت کے گن گائے بغیر اسے ایک عارضی ضرورت سمجھناایک الگ معاملہ ہے، عقل و شریعت جس کی تائید کرتی ہیں۔لیکن وقتی ضرورت کے ان عارضی ٹولز کو اسلام کے غلبہ کے لیے واحد منہاج قرار دے دینااور اسے انسانیت کے لیے ایک عظیم نعمت قرار دے دینانہ صرف مبالغہ آمیزی ہے بلکہ اسے اس حد تک اہمیت دینا کہ اسلام کا ’’جہاد و قتال‘‘ کا تصوردب جائے اور پس پردہ چلا جائے(اور مغرب کی ابلیسی طاقتوں کی چلائی گئی مہم کہ جہاد فساد ہے کی تائیدہوتی محسوس ہو) تو ہمارے نزدیک ایک مثبت اورمبارک جذبہ کے تحت وقوع پذیر ہونے والی سوچ مبالغہ اور عدم توازن کا شکار ہوکرلاشعوری اوربالواسطہ طور پراسلام کے تصور جہادوقتال کی توہین اور تنقیص کی مرتکب ہورہی ہے۔
جب دنیا کا منظرنامہ یہ صورتحال پیش کررہا ہو کہ پوری دنیا میں’’جمہوریت ‘‘ کے نام پر انسانیت کی بدترین تذلیل اور استحصال ہورہا ہو۔ساری دنیا کی حکومتیں جمہوریت کا نام لے کراپنے عوام کی ’’روح اور جسم‘‘ ہردوکا slowly & steadily گلا دبارہی ہوں۔ابلیس کی آلہ کار عالمی طاقتیں اسلام اور جمہوریت کو ایک دوسرے کی ضد ثابت کرنے پر تلی ہوں۔دنیا کے ہر کونے میں ’’جمہوریت ‘‘ کے نام پر اسلامی اقداراور اس کی علامتوں(حیا،پردہ،حجاب، داڑھی)کو چن چن کر ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہوں اورجہاں بس چلے (مثلاً فلسطین، چیچنیا، کوسوو، بوسنیا، میانمار، کشمیر، عراق، افغانستان میں) مسلمانوں کو بھی چن چن کر مار دیا جائے۔ عالمی ابلیسی قوتوں کے آلہ کارحکمران طبقات کومسلم معاشروں میں جمہوریت کے نام پرکرپشن، بددیانتی، بدعہدی، لوٹ مار، قانون شکنی، غریب کا گلا گھونٹنے،ظلم و فساد کا بازارگرم کرنے، تعلیم، صحت،قانون،عدالت،امن غرض ہرشعبہ زندگی کی ’’حیات’’ کا گلا نہایت مکاری، منافقت، سفاکی اور بے حسی سے گھونٹنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ان مقاصد کے حصول کے لیے عالمی طاقتوں کاابلیسیت کی تمام طاقتوں سے مسلح ہوکراپنے آلہ کار مسلم حکمرانوں کی مکمل سرپرستی کرنااور بار بار جمہوریت کا راگ الاپناوہ بدترین فعل ہے جس نے مسلم ممالک میں بدترین فساد،بربادی،تباہی، انارکی کا ایک ناختم ہونے والا منحوس چکر چلایا ہوا ہے۔جمہوریت کے نام پر مسلم ممالک کا تعلیمی شعبہ مغربی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارا صحت کا شعبہ ابلیسی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارا عدالتی نظام قانون کے نام پر بے انصافی اورانصاف میں تاخیرکی خوفناک دہشت گردی کا شکار ہے،ہماری معیشت، ہماری معاشرت، ہمارے ذرائع ابلاغ غرض زندگی کا ہر ہر موثروقابل ذکر شعبہ ابلیسی دہشت گردی کا شکار ہے۔اور ہم اس بدترین زوال، اس بدترین دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود۔۔۔اور تسلسل کے ساتھ مسلم معاشروں کے ہر شعبہ زندگی پر مغرب کے ابلیسی فکری و عملی دہشت گردانہ حملوں کی موجودگی میں تنازعات کو صرف’’جہاد بذریعہ غیرمسلح احتجاجی تحریک‘‘میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ رویہ نہ صرف جہاد بمعنی قتال میں مداہنت کے ارتکاب پر مبنی ہے بلکہ مسلم ممالک اورساری انسانیت کو درپیش ابلیس کے شش اطراف دہشت گردانہ حملوں سے آنکھیں چرانے اور غض بصر کرنے کے مترادف ہے۔
پس چہ بایدکرد!
ہمارے محترم قائدین کے لیے مستقل اور اصل لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت پر پوری قوت سے کاربند ہوجائیں۔اپنے عمل ، اپنے کردار اور اپنے رویوں سے ایمان واخلاق کا ایسانمونہ پیش فرمائیں کہ مسلم عوام سیرت سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان زندہ نمونوں کو آئیڈیلائز کرنے پر آمادہ ہوجائیں جس کا نتیجہ ہوگا کہ امت مسلمہ کے ایمان اور اخلاق کے اجتماعی نمونہ کی کشش ساری دنیا کے باضمیرانسانوں کو اپنی طرف مائل کرے گی۔اور ساری دنیا کے اذہان کو قرآن اور سنت نبوی کا زندہ، مثبت اور پُرکشش پیغام متاثرکرے گا۔مستقل اور اصل لائحہ عمل کے ساتھ پیہم وابستگی اور تمسک کرنے کے ساتھ ساتھ اس وقتی واضطراری لائحہ عمل کے جواز کوتسلیم کیاجاسکتا ہے کہ ہماری دینی قوتیں اپنے اصل فرض منصبی اور مستقل لائحہ عمل کو ترک کیے بغیراپنے اپنے ملکوں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام دینی قائدین و مسلم زعماء کے اتفاق رائے سے نفاذ اسلام کے لیے انتخاب یا احتجاج کا اضطراری آپشن استعمال کریں۔اگرچہ ہماری رائے میں مغرب کی عالمی ابلیسی قوتوں نے یہ اٹل فیصلہ کیا ہوا ہے کہ انہوں نے ان دونوں آپشنز کو غلبہ اسلام اور نفاذ دین کاذریعہ کسی صورت نہیں بننے دینا۔دوسرے لفظوں میں اسلام کا نفاذمغربی طاقتوں کے لیے کسی صورت قابل برداشت نہیں۔لہٰذاان آپشنز کو صرف ایک وقتی مجبوری اوراضطرارسمجھیں ۔لہٰذا اس طریقہ کے ذریعے نفاذ اسلام میں ناکامی کی صورت میں انہیں لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیں،نہ کہ نفاذ اسلام کے لیے اسے کائنات کا بہترین اور واحد ممکن ترین طریقہ ثابت کرنے پر اپنی توانائیاں اور وقت ضائع کرتے چلے جائیں۔
اس تناظر میں اس اضطراری آپشن کا نہایت محتاط اور صرف بوقت ضرورت استعمال کے جواز کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دینی قوتوں کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کے خوشنما چہرے میں چھپی ہوئی بدترین شیطنیت کا ادراک کریں اور جدید،روشن خیال تہذیب کے عنوان سے پچھلے دو سوسالوں سے ابلیسیت کی نمائندہ عالمی طاقتوں کی انسانیت (اور انسانیت کے حقیقی محافظ اسلام)کے خلاف اعلان جنگ کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ کار میں(تعلیم اور ابلاغ کے ذریعے سے)ایمان اور جہادوقتال کے قرآنی و نبوی منہاج کی دعوت کوڈسپلن بنیادوں پر استوار کریں۔
ہماری دینی قوتوں پر ہردم یہ واضح رہنا چاہیے کہ ایمان واخلاق نہ صرف تمام شعبہ ہائے حیات کی اصلاح کا مستقل اورابدی نبوی منہاج اور حل ہے بلکہ انسانی شعبہ ہائے حیات پر ابلیسیت کے جابرانہ اورقاتلانہ حملوں،امن کے خلاف ابلیس کے پیدا کردہ فساد، دہشت گردی اورجنگ کے تدارک کے مستند ترین اور کائنات کے رب کے محبوب ترین علاج ’’جہاد و قتال‘‘ کا بھی داخلی محافظ و نگہباں ہے جبکہ جہاد وقتال ایمان واخلاق کا خارجی محافظ ہے۔آج مسلم عوام کو، مسلم اساتذہ کو، مسلم صحافیوں کو، مسلم ذرائع ابلاغ کو، مسلم حکمرانوں کواور مسلم مسلح افواج کو ابلیسیت کے شش اطراف انسانیت کش حملوں سے بچانے کا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ اان کے فکر و عمل کو ’’ایمان واخلاق‘‘کی ابدی طاقت اور ‘‘جہاد قتال‘‘کی ہنگامی ربانی طاقت سے مسلح کرنے میں ہمارے قائدین اور مفکرین مسلسل، پیہم اور بلاتعطل جدوجہد پر اپنی صلاحیتوں کو مرکوز فرمائیں۔اس جدوجہدسے غفلت اورعدم توجہی نے انسانیت کی روح کو ’’موت و حیات‘‘ کی کشمکش میں مبتلا کیا ہوا ہے۔اگرہمارے نہایت محترم قائدین کسی مجبوری یا عذرکی وجہ سے اپنی اصل اور مستقل ذمہ داری نباہنے سے قاصر ہیں تو ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ وہ کم از کم امت مسلمہ کے وقاراور اسلام کے نفاذکو ان وقتی ہنگاموں،احتجاجی جلوسوں اور لانگ مارچوں سے مشروط کرنے کا سبق نہ پڑھائیں، جنہیں آزما آزما کرحضرت انسان تھک چکا ہے مگرمنزل ہے کہ ہاتھ لگتی ہی نہیں۔ یہ فرسودہ احتجاجی ہتھکنڈے(بمعنی منظم اورپرامن احتجاجی تحریکیں) کم از کم پچھلے ایک سوسال سے مسلم سیاسی ومذہبی تحریکوں کے زیرعمل ہیں۔۔۔لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے،دنیا میں غلبہ واقتدار اور دین کا احیا تو کیا ہوتا، الٹا ایمان اورمذہب کی رہی سہی قدریں بھی اس راہ میں گم ہوکر رہ گئیں۔سوال کیاجاسکتا ہے کیوں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اضطرار کو اضطرار کے مقام پر رکھنے کی بجائے اسے اوڑھنا بچھونا بنالیاگیا اوراس غیر فطری اصرار اور جنون میں وہ اپنا اصل اور مستقل لائحہ عمل بھلاتے اور پس پشت کرتے چلے گئے۔
ماضی وحال کا ذرا باریک بینی سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں توصاف نظرآتا ہے انسانیت کے اجتماعی ضمیر نے جب بادشاہت اور کلیسا کے انسانیت کش گٹھ جوڑ کے ظالمانہ شکنجے سے نکلنے کے لیے اپنے شدید غم وغصہ کا اظہار بذریعہ ایک غیرمسلح احتجاجی تحریک کیا تواس کے نتیجے میں دنیا ’’بادشاہت اور کلیسا‘‘ کے جبر اور تسلط سے تو نکل آئی مگرابلیس نے فوراً اپنا لباس تبدیل کرلیا اورنتیجتاً دنیامغرب کے عیار،بے حس،مکار اور انسانیت دشمن جمہوریت پسندتاجروں کے تسلط میں پھنس گئی اور بیسویں صدی کے یہی جمہوری درندے تھے جن کے درمیان دو عالمگیر جنگیں برپا ہوئیں جس میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے، کسی جنگ میں اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کی ہلاکت تاریخ انسانی میں صرف پہلی بار ہوئی، ان جمہوریت پرست درندوں نے براعظم امریکہ کے کروڑوں انسانوں کو چن چن کرجانوروں کی طرح ہلاک کیا۔اور آج تک یہ انسانیت دشمن، ابلیس کے پیروکار، حیا اور اسلام سے دہشت زدہ جمہوری درندے ساری دنیا پر مسلط ہیں۔ اگرجمہوریت نے مغرب کے ان درندہ صفت انسانوں میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہوتی (جو Dark Agesمیں بھی بالکل درندوں ہی کی طرح ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہتے تھے)تویہ انسانیت کوعقیدہ و فکر کی آزادی دیتے، انسانیت کے لیے زندگی کی ضروریات وسہولیات کا حصول (ارزاں ترین قیمت پر)آسان ترین کردیتے،اسلام اور حیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن نہ سمجھتے، دولت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو ساری دنیا کے انسانوں کے دکھ ،درداور مسائل دور کرنے کے لیے استعمال کرتے، جنگی جنون اور مہلک ایٹمی و کیمیاوی ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہ کرتے۔مگر آج دنیا کا جو منظر نامہ ہے وہ ان مثبت باتوں کے بالکل الٹ ہے۔ان مہلک نتائج کو دیکھ کر ہی حضرت علامہ اقبال کو آج سے قریباً سو سال پہلے کہنا پڑا:
تیری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تونے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس
(نوٹ: جمہوریت کے مکروہ اور وحشی چہرے سے یوں پردہ اٹھتا دیکھ کر عام امن پسند انسان کے ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ پھر موجودہ دنیا کے لیے قابل عمل سیاسی نظام کون سا ہوسکتا ہے تواس کا جواب ہے خلافت۔اس ضمن میں عملی پیچیدگیوں کی وضاحت کی لیے مولانا زاہد الراشدی صاحب کی کتاب’’اسلام ،پاکستان اور جمہوریت‘‘میں قابل قدرمواد موجود ہے ،ان سطور کے حقیر راقم کا یہ مضمون اس کتاب کے آخری باب کا نقدلیے ہوئے ہے۔جبکہ خلافت کے مقاصدکے حوالے سے ڈاکٹر محمودغازیؒ کی کتاب’’محاضرات شریعت‘‘ میں بے حد مفید مواد دستیاب ہے)
اسلامی انقلاب بذریعہ غیر مسلح مزاحمت کوبطورایک فلسفہ اورمستقل منہاج بتانے والوں کی سوچ زمینی حقائق سے کس قدرنابلداورلاتعلق ہے؟اوربظاہر ایک نہایت سنجیدہ فلسفہ ہونے کے باوجود اس میں کس قدرلطیفے پنہاں ہیں۔۔۔یہ کہانی پھرسہی۔ طوالت کے خوف سے ہم اپنی گذارشات کو یہیں پہ ختم کرتے ہیں اور اپنے بزرگوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری گذارشات پر ضرور غورفرمائیں گے۔اختلاف رائے میں اگر کہیں حدادب سے تجاوز ہوا ہو تو اپنی درج ذیل کیفیت کی وجہ سے ہم دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہیں:
گفتار کے اسلوب پہ قابونہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات