گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے ڈنگہ سے میراتعلق ہے، جو کھاریاں رسول روڈ پر صدیوں سے واقع ہے، سندر داس ایک بہت بڑابزنس مین تھا اُس نے ڈنگہ میں بہت ہی شاندار بلڈنگ ہائی سکول کے لیے بنوائی تھی، اب یہ ہائر سکینڈری سکول ہے آٹھویں تک میری تعلیم وہاں ہوئی جس تعمیر ملت سکول رحیم یار خان سے میں نے میٹرک کیا وہ سکول بنیادی طورپر جماعت اسلامی کے اراکین کی زیر نگرانی چلتا تھا، اس سکول میں فکری نشوونما اور کردار سازی پربڑی توجہ دی جاتی تھی۔ امتحان سے زیادہ کردار سازی پرتوجہ ہوتی تھی فکری نشوونما پرزیادہ زورتھا اُس کے بعدگورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور بی اے آنرز کیا اورپھر ایم اے کیا اورپھرگورنمنٹ کالج لاہور میں ہی لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ہوا جہاں سے میں نے (1967) میں CSS کا امتحان پاس کیا اور سول سروس میں چلا گیا۔
میں بچپن ہی سےCreativeتھا ایک ایسا لڑکا جوتصورات اورتخیل کی دنیا میں رہتا ہو مجھے یادہے جب میں بہت چھوٹا بھی تھا تو عام طور پر تخیل میں گم سارہتا تھا جہاں تک مجھے یاد ہے میں چھٹی کلاس میں تھا میرے پاس کوئٹہ سے ایک ماہانہ رسالہ ’’زمانہ‘‘ آیاکرتا تھا مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے میری پہلی کہانی اس رسالے میں چھپی تھی پھرجب میں نویں، دسویں میں تھا اور میں رحیم یارخان میں پڑھتا تھا تولاہور سے نکلنے والے رسالہ’’ بچوں کی دنیا‘‘ میں میری چھوٹی موٹی کہانیاں کبھی کبھار چھپتی تھیں جس کی تصیح میرے استاد انیس احمد اعظمی صاحب کیا کرتے تھے میں اپنے اُستاد کو اپنی ہر تحریر دکھاتا تھا۔ انیس صاحب میری حوصلہ افزائی کرتے اور اس کو ٹھیک کر دیتے تھے اُس کے بعدگورنمنٹ کالج کے زمانے میں بھی مسلسل لکھتا رہا۔ ہمارے زمانے میں گورنمنٹ کالج کے میگزین راوی کا شمار اچھے پرچوں میں ہوتاتھا اورراوی سال میں تین دفعہ چھپا کرتا تھا اس طرح آپ اسے ایک طرح کاسہ ماہی رسالہ بھی کہہ سکتے ہیں جتناعرصہ میں گورنمنٹ کالج میں رہا شاید ہی کوئی ایسا راوی ہو جس میں میراکوئی مضمون یاافسانہ نہ چھپا ہو۔ انہی دنوں میں نے اخبارات اور رسائل میں تقریریں لکھنا شروع کیا، روزنامہ مشرق، نوائے وقت، ہفت روزہ قندیل اور اقدام میں بھی عام طور پر لکھا کرتا تھا اور نیم ادبی رسالوں کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے میگزین میں بھی میرے افسانے چھپتے رہتے تھے اسی دور میں میری ایک کہانی خوشتر گرامی کے رسالے بیسویں صدی میں چھپی جس کا ادبی حلقوں میں خاصا ذکر رہا۔ بیسویں صدی معیاری اور مقبول رسالہ تھا چنانچہ مجھے بہت سے خطوط موصول ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہر سال کانوکیشن کے موقع پر بہترین لکھاری کا ایوارڈ دیا جاتا ہے میں بی اے آنرز کا طالب علم تھا جب 1963میں مجھے بہترین لکھاری (اردو) اور طارق علی خان کو بہتری لکھاری (انگریزی) کے ایوارڈ ملے۔ بہترین لکھاری کا ایوارڈ کالج کا بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علم تھا تو میں نے نیو ہوسٹل سے ایک رسالے کا آغاز کیا جس کا نام ’’پطرس‘‘ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ رسالہ ابھی تک شائع ہو رہا ہے اور اس میں میرا نام پہلے ایڈیٹر کی حیثیت سے شامل ہوتا ہے۔ گویا گورنمنٹ کالج لاہور ککے دور میں ہی میں لکھنے پڑھنے میں خاصا مصروف ہو گیا۔ ریڈیو کے پروگراموں میں شرکت کرنے، یونی ورسٹی اور کالج میگزین اور اخبارات کی وجہ سے لاہور کے اخباری حلقوں میں میرا نام طالب علمی کے زمانے میں ہی مانوس ہو گیا تھا۔
دراصل کچھ لکھنے پڑھنے کی صلاحیت قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے اور اگراچھا ماحول اورمناسب اساتذہ مل جائیں تووہ اس صلاحیت کی نشوونما کرکے پروان چڑھا دیتے ہیں اورآپ کی تربیت کرکے آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید اجاگرکردیتے ہیں ۔ میرے کردار پہ کسی حد تک اثرمیرے رحیم یارخاں کے سکول کے ایک استاد کاہے جن کانام انیس احمد اعظمی ہے یہ اعظم گڑھ (یوپی) کے رہنے والے تھے ۔جماعت اسلامی سے متاثر تھے اور جماعت پر تنقید بھی کرتے تھے میرے زمانے میں وہ تعمیر ملت سکول رحیم یار خان میں میرے استاد تھے وہ مجھے کتابیں دیاکرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ پڑھ کے مجھے بتاؤ کہ تم نے کیاپڑھا ہے، اس طرح بچپن سے ہی انہوں نے میرے اندر تاریخ کاشوق پیداکیا اورپھر یہ شوق زندگی بھر کے لیے میرا یہ ذوق بن گیااورمیرے مزاج کاحصہ بن گیا اُن کے نام سے میں نے ایک اپنی کتاب بھی منسوب کی ہے جس کانام ہے ’’پاکستان تاریخ و سیاست‘‘ اُس کے بعدجب میں گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا توپروفیسر مرزا محمدمنور صاحب نے مجھ پرخاصی توجہ دی۔ اقبالیات اور تحریک پاکستان کے بارے میں میرے اندر ذوق و شوق پیداکیا اورپھر زندگی کے آخری دنوں تک میرااُن سے قلبی و ذہنی تعلق رہا جو میری زندگی کا بیش بہا اثاثہ ہے ان کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو میں زندگی کے قیمتی لمحات سمجھتا ہوں۔ مرزا محمد منور بہت پڑھے لکھے اور درویش صفت کے انسان تھے عالم فاضل،عاشق رسولؐ، عاشق اقبال،عاشق قائداعظم تحریک پاکستان سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔اُنہوں نے مجھ پرتوجہ بھی دی اورخاص طور پر قائداعظم، اور تحریک پاکستان سے محبت کا ایک رشتہ قائم کردیا۔ محبت اورشوق کا یہ رشتہ قائم کرنے میں اُن کابنیادی کردار تھا۔ سکول اور کالج کی سطح پر جن استادوں نے مجھ پرتوجہ دی میں اُن کااحسان زندگی بھرنہیں بھولوں گا بعدازاں ان اساتذہ سے میرا تعلق دوستی کے رشتے میں ڈھل گیا۔ دوستی کا یہ رشتہ آج تک قائم ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں ایک Rolling Stoneکی مانند تھا لیکن آج واپس مڑکردیکھتاہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ بعض اوقات کچھ لوگ ہوتے ہیں جو کسی شعبہ یا مضمون سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور یہ صرف اسی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کم ازکم ایم اے تک میری یہ کیفیت نہیں تھی جوبھی کتاب ملی وہ پڑھ لی مثلاً میرے اُستاد جن کامیں نے ابھی ذکر کیاانیس احمداعظمی صاحب انہوں نے مجھے9thاور10thمیں جوکتابیں دیں اُن میں سب سے پہلی کتاب مولانا ابوالکلام کی غبارخاطر تھی اورمجھے آج تک یاد ہے کہ وہ کتاب میں نے ایک رات میں پڑھ ڈالی تھی شام کوبستر پہ لیٹ کرشروع کی اور ختم کرکے اٹھا ،اور اگلے دن اُن کوجاکر واپس کردی اس کتاب میں سے پڑھے ہوئے اشعار مجھے اب بھی یاد ہیں۔ پھرمیں نے افسانے بے پناہ پڑھے نقوش کے کئی افسانہ نمبرآئے جنہیں میں شوق سے پڑھتا رہا۔ راجندرسنگھ بیدی سے لے کر منٹو، کرشن چند، قرۃ العین، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، شہاب سبھی کو اس دور میں پڑھا۔ بعد ازاں منشا یاد کے افسانوں سے متاثر ہوا اور صادق حسین، انتظار حسین کو شوق سے پڑھا۔ جدید شعراء میں فیض سے اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی،احمد ندیم قاسمی تک میں نے تقریباً سبھی شعرا کوپڑھا اوراُس زمانے تک جتنے دیوان فیض صاحب کے چھپ چکے تھے۔ تقریباً تین چارمجھے زبانی یاد تھے۔ کلام اقبال کا مجھے بے حد شوق تھا، میں ہوسٹل میں کمرہ بندکرکے کلام اقبال کو اونچی آواز سے اورذوق وشوق سے پڑھا کرتا تھا مطلب یہ کہ مطالعے کی حد تک شاعری بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ ایم اے کرنے کے بعدجاکر مجھ پروہ اسٹیج آئی کہ میں نے تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان کواپنا اوڑھنا،بچھونا بنا لیا۔Rolling stoneہونے کی وجہ سے مجھے ایک فائدہ یہ ہوا کہ اگرچہ میں ساری زندگی باقاعدہ اردو ادب کا طالب علم نہیں رہا لیکن مجھے اردو لٹریچر سے تھوڑی سی شناسائی حاصل ہو گئی۔ اقبالیات کوبھی پڑھا دنیا جہان کی جوچیزیں مجھے ملتی گئیں میں پڑھتا گیا۔ جب میری اپنی اولاد جوان ہوئی اورمیں یونیورسٹی اورکالجوں میں جاتا رہا قائد اعظم یونی ورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر رہا اور پھر ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی رہا اس طرح میرا طالب علموں سے گہرا رابطہ رہا تو پتاچلا کہ آج کے طلبہ اپنے Subject کے علاوہ دنیا کی کوئی اور بات جانتے ہی نہیں تب مجھے محسوس ہوا ہمارے استادوں کی پالیسی ٹھیک تھی کہ ان کی بنیاد وسیع کرو۔ مثلاً میں نے قرآن حکیم کی تفسیر پڑھیں، سیرت النبیؐ پر چند ایک کتابیں پڑھیں مجھے یاد ہے کہ میٹرک کاامتحان دینے کے بعد ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن خاص طور پر پوری پڑھ ڈالی شبلی نعمانی اور سلیمان ندوی سے ہوتے ہوئے جتنے حضرات کی کتب سیرت النبیؐ پر مل سکیں میں نے پڑھیں ہمارے دور میں طلبہ کا مطالعہBroad baseہوتا تھا وہ صرف ایک مضمون ایک شعبہ تک محدود نہیں رہتے تھے بلکہ ہمہ جہتی اور متنوع موضوعات کا تھوڑا تھوڑا علم سبھی کے پاس ہوتا تھا علمی زندگی اور تحقیق کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد میں نے خاص طورپر اپنے لیے جو مضمون چنا وہ پاکستانیات ہے۔
پاکستانیات کوجب آپ چنتے ہیں توظاہر ہے آپ کوتحریک پاکستان بھی پڑھنی پڑتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قائداعظم اور اقبال کوبھی اُس حوالے سے پڑھنا پڑھتا ہے اورپاکستان کی تاریخ و سیاست اُس کومیں نے خاص طور پرتحریر اور مطالعہ کا موضوع بنایا۔ مجھے یادہے کہ میں نے 1964ء میں ایم اے کاامتحان دیا 1965ء میں ہمارا رزلٹ نکلا اوراُسی سال میں گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچررہوگیا اور1965ء میں روزنامہ نوائے وقت لاہورمیں جواُس وقت مغربی پاکستان کاسب سے بڑااخبار ہواکرتا تھا انہوں نے بدھ کے دن پورا آدھا Editorial pageمیرے لیے مخصوص کیاہوا تھا اور میں اس اخبار میں گاہے گاہے بازخواں کے نام سے تاریخ پاکستان کے مختلف پہلوؤں پر لکھا کرتاتھامیری عمر اُس وقت 22،23 برس تھی۔اُس کے بعدمیں نے پاکستانیات کواپناایک مستقل موضوع بنالیا اوراُس کوموضوع بنانے میں بھی ایک واقعہ کاخاص عمل دخل ہے ایم اے میں میراThesisتھا مسلم لیگ کادورحکومت1947ء سے لے کر 1954ء تک بعدازاں میں نے اس پر مزید محنت کی انڈیاآفس لائبریری میں بیٹھا واشنگٹن کے خفیہ پیپرز دیکھے، دنیاجہاں کا مواد کھنگال لینے کے بعد اس کی پُوری شکل ہی بدل گئی۔ اس کتاب میں زیادہ مواد طالب علمی کے دور کے بعد کاہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تحقیق کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے ۔ہم اب بھی اُس لحاظ سے1965 کے دورمیں ہیں، میں ایک دفعہ انڈیا آفس لائبریری میں بیٹھا تھاتومیں نے ایک اسسٹنٹ سے کہا کہ میں نےLondon Timesاخبارکا مطالعہ کرنا ہے1947ء سے لے کر 1954ء تک میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی سیاست کے بارے میں لندن ٹائمز میں کیا خبریں، تبصرے اور تجزیے چھپے۔ لائبریرین نے مجھے کہاکہits very simple۔یہ انڈیکس پڑاہواہے ۔انڈیکس کھولیں کتابوں کی صورت میں لندن ٹائمز کا انڈیکس انہوں نے چھاپا ہوا ہے ہرسال کا انڈیکس نکالو۔ اُس میں پاکستان نکالو اُس میںPolitics نکالو اور صفحہ نوٹ کرلو۔ اخبار کا ریکارڈ مائیکرو فلم پر موجود ہے جو پڑھنا چاہتے ہو پڑھ لو۔ اس طرح وہ کام میں نے تقریباً سات دن میں مکمل کرلیا جبکہ پاکستان میں جب میں نے اخبارات دیکھنا شروع کئے تو پاکستان ٹائمز سول ملٹری گزٹ نوائے وقت ، ڈھاکہ ٹائمز اور ڈان کی فائلیں پڑھنے میں کئی برس لگ گئے۔ ان اخبارات کا ایک ایک صفحہ مجھے پڑھنا پڑتا تھا اوراُس میں جومجھے میرے کام کا مواد ہوتا تھا وہ ہاتھ سے کاپی پرنوٹ کرتاتھا اور اُس کے نتیجے میں اتنا مواد اکٹھا ہواکہ ہمارے گھر میں رضائیوں والا صندوق میری کاپیوں اوررجسٹروں سے بھرگیا پاکستان میں Researchکرنا گدھوں والا کام ہے آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کام کیسے کریں گے اکانومسٹ لندن کاجوبڑامعتبر رسالہ ہے میں نے ایک دن میں سات سال کی فائل پڑھ لی۔ ریسرچ کے دوران میں پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں زرد بلب کے نیچے بیٹھ کرمٹی سے بھرے ہوئے اخبارات کاایک ایک صفحہ اپنی انگلی سے الٹ کر پڑھتا تھا۔ پرانے اخبارات کی مٹی اور بو میری سانسوں کا حصہ بن جاتی تھی۔ وہاں میں نے گلے کی خرابی کا مستقل روگ پالا۔
میں نے پاکستانیات کواپنا اوڑھنا بچھونا اس لیے بنایا کہ پاکستان کی محبت میرے رگ و پے میں موجود تھی۔ جس زمانے میں میں تحقیق کے لیے پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں کام کر رہا تھا اُسی زمانے میں آکسفورڈ کاایک طالب علم وہاں آیا ہواتھا جوPolitical parties of pakistan کے عنوان پر Thesis لکھ رہاتھا۔ لائبریری میں صرف دو ہی تحقیق کرنے والے ہوتے تھے۔ ہماری آپس میں گپ شپ دوستی شروع ہوئی پھرمیں اُسے کھانے پہ لے گیا، بے تکلفی ہوگئی وہ آدمی آکسفورڈسے ڈاکٹریٹ کررہا تھا اور یونی ورسٹی والوں نےMaterial اکٹھا کرنے کے لیے اُسے پاکستان بھیجا تھا۔اس پروہ بڑاExtensiveکام کررہا تھا ایک دن اُس نے باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھا کہ کیاتم مجھے کوئی پاکستان میں ایک ایسی کتاب Suggestکرسکتے ہو جسے پڑھ کرمیں پاکستان کے تمام پہلوؤں سے آشنا ہوجاؤں تومیں بغلیں جھانکنے لگا۔اُس کے بعدمجھے بڑی شرم آئی کہ پاکستان بنے ہوئے 17برس گزرچکے ہیں ہم نے کوئی کام ہی نہیں کیاتوپھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں صرف پاکستان پر کام کروں گا اس طرح میں کام میں لگارہا اورآج جوآٹھ ،دس کتابیں ہیں وہ پاکستان کے مختلف پہلوؤں پر ہیں تحریک پاکستان کامطالعہ ،قائداعظم اورعلامہ اقبال کامطالعہ اُس پس منظر کوسمجھنے کے لیے ضروری تھا چنانچہ میں نے اپنی حد تک ان موضوعات کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن میرا مرکزومحور مطالعہ پاکستان ہی رہا۔
میں گزشتہ کئی سالوں سے کوئی تحقیقی کتاب نہیں لکھ سکا میری زندگی کا تجربہ یہ بتاتا ہے اور میرے استاد منور صاحب یہی کہا کرتے تھے کہ جس وقت جوتمہارا جی چاہ رہا ہے۔ وہ لکھو،اگر افسانہ لکھنے پر طبیعت مائل ہو تو افسانہ لکھو شعر کہنا چاہتے ہو تو شعر لکھو، طنز و مزاح لکھنے کو جی چاہتا ہے تو وہ لکھو، بہرحال وہ ایک طرح سے میری تربیت کرتے رہے اب کچھ عرصے سے میں اپنے آپ میں ہمت نہیں کر پاتا اور نہ ہی طبیعت راغب ہوتی ہے کہ میں جم کربیٹھ کرتحقیق کروںیا کوئی مستقل ریسرچ کروں جہاں تک مجھے یادپڑتا ہے کہ میری آخری تحقیقی کتاب 1980ء میں آئی اور اس کے کوئی 8دس سال کے وقفے کے بعدمیری کتاب Pakistan Political Roots and Deue...... منظر عام پر آئی یہ کتاب آکسفورڈ نے شائع کی ہے۔ اور تقریباً پوری دنیا میں پھیل گئی ہے میں دنیا کی جس بھی لائبریری میں جاتا ہوں وہاں اپنی کتابیں دیکھ کر مجھے اس بات کی خوشی ہوتی ہے مثلاً امریکہ کی میں تقریباً سب بڑی یونیورسٹیوں میں گیا ہوں کولمبیا۔برکلے میں نے امریکہ کی ہریونیورسٹی لائبریری میں اپنی کتابیں دیکھی ہیں اُن کے پاس کئی ایسی کتابیں بھی ہیں جن کی کاپی میرے پاس بھی نہیں ہے۔ میں برکلے یونی ورسٹی میں گیا تواُن کاایک طریقہ ہوتا ہےWelcomeکرنے کاوہاں ایک پروفیسر Steven Poulis ہے جو ساؤتھ ایشین ڈیپارٹمنٹ کا وائس چےئرمین ہے۔اُس کے ساتھ ایک آدھ دن گپ شپ رہی اگلے دن اُس نے کہا کہ ہماری گریجوایٹ کلاسزز کوتین چار لیکچرزدوپھرایک دن اُس نے کہاکہ آؤ میں آپ کو لائبریری دکھاؤں وہ مجھے برکلے یورنیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں لے گیا۔ برکلے یونیورسٹی دنیا میں عالمی سطح کی ایک یونیورسٹی مانی جاتی ہے اُس نے لائبریرین سے میرا تعارف کرایا کہ یہ ڈاکٹرصفدر محمود ہیں پاکستان سے آئے ہیں توانہوں نے کہاJust waitاُس نے کمپیوٹرمیں میرانام انٹرکیا تومیری کتابوں کی لسٹ نکل آئی جو انہوں نے مجھے دے دی میرابیٹا آسٹن میں پڑھتا تھا تووہ کہتاہے کہ ایک دن مجھے پاکستان پرریسرچ کرنی تھی ریسرچ کرتے کرتے کہیں آپ کانام سامنے آگیا ۔کلک کیاتو آپ کی سب کتابیں میری لائبریری میں موجود تھیں مطلب یہ کہ میں جہاں بھی گیا مجھے میری کتابیں اُن لائبریریوں میں موجود ملیں یہی صورت میں نے جاپان میں بھی دیکھی لیکن اس کے بعد میں کالم نگاری کے چکر میں ایسا پھنسا کہ کتاب لکھنے کے لیے وقت ہی نہیں رہا۔
میں بڑی دیر تک سوچتا رہا کہ وہ کون سی ایسی کتاب ہو سکتی ہے جس نے مجھے بہت متاثرکیا ہو سچی بات تو یہ ہے کہ بہت سی کتابیں متاثربھی کرتی رہیں کچھ کتابیں اپنی گہری تحقیق کی وجہ سے یا کچھ کتابیں اپنے جذبوں اور اسلوب کی وجہ سے کچھ کتابیں اپنے مشاہدات، فکر اور تاریخی حقائق کی وجہ سے بھی متاثر کرتی رہیں۔ سیکھتا بھی رہا لیکن اگرآپ مجھے یہ کہیں کہ کوئی ایسی کتاب کانام بتائیں جس نے مجھے بہت زیادہ متاثرکیا ہو جس نے میرے ذہن پرمستقل اثرات چھوڑے ہوں وہ یاد نہیں پڑتی۔ میں علامہ اقبال سے بے حد متاثرہوں تھوڑابہت مولانامودودیؒ صاحب کوبھی پڑھا ہے۔ تحریک پاکستان اور قائد اعظم پراب تک جتنی اچھی کتابیں اندرون بیرون ملک چھپی ہیں تقریباً سبھی کومیں نے پڑھا اور کچھ میں جھانکا لیکن ایسی کوئی کتاب جس نے مجھے جھٹکا دیاہو یادنہیں پڑتی۔
ابتدامیں مجھے ابوالکلام آزاد کو استاد نے پڑھایا توظاہر ہے کہ ابوالکلام آزاد نے سکول کی عمر میں مجھے بہت متاثر کیا۔میٹرک کا امتحان دے کر چھٹیوں میں نسیم حجازی، پرم چند، منٹو اور دوسرے افسانہ نگاروں کو خوب پڑھا۔ ساتھ ہی ساتھ اقبال کی سوانح عمری پر اور سیرت النبیؐ پر بھی کتابیں پڑھتا رہا۔
میں ابتدامیں تو افسانے کاقاری تھا۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے مثلاً قراۃ العین حیدر، راجندر سنگھ بیدی ،پریم چند کومیں نے میٹرک کے بعدپڑھا اس طرح منٹو، حاجرہ مسروراور خدیجہ مستور، احمدندیم قاسمی کوکالج کے دورمیں توجہ سے پڑھا۔ عصمت چغتائی کوبھی پڑھا لیکن ان افسانہ نگاروں میں مجھے جس شخص نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیا وہ سعادت حسن منٹوتھا۔لیکن ایک ایک افسانہ مجھے شاید سب کاہی یادہوگا۔مثلاً کرشن چند کا تائی اسیری، بیدی کا ایک طویل ’’اک چادر میلی سی‘‘ مجھے آج تک یادہے۔ احمدندیم قاسمی کا ایک افسانہ ’’سناٹا‘‘ اچھا لگا اشفاق احمد کا ’’گدڑیا‘‘ متاثر کر گیا لیکن اس دور میں جس افسانے نے متاثر کیا وہ تھا ’’اکھیاں میٹ کے سینا تکیا‘‘ میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ جتنے افسانہ نگار قیام پاکستان سے لے کر 1970ء تک نمایاں ہوئے میں نے تقریباً ان سب کو پڑھا لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے سب کے افسانے پڑھے۔
شاعری میں اقبال نے فکری لحاظ سے بہت گہرا اثر ڈالا اورجدید شعرا میں فیض احمدفیض مجھے بہت پسند ہیں۔اسرار الحق مجازبہت پسند تھا، قاسمی صاحب کی شاعری کو بھی پڑھا ۔ قتیل شفائی اورساحر لدھیانوی کو بھی میں نے پڑھا اور خوب پڑھا نوجوانی میں ایک اسٹیج آتی ہے جب آپ کوساحر لدھیانوی بہت پسند ہوتا ہے ’’تلخیاں‘‘ ہم بڑے ذوق شوق سے پڑھا کرتے تھے لیکن جوشاعر میرے ساتھ ساری زندگی رہے وہ اقبال اورفیض ہیں اورجب سیاست کے حوالے سے پڑھتا ہوں توحبیب جالب بھی یاد آتا ہے۔
علاقائی زبانوں میں میں نے پنجابی میں صوفیانہ کلام پڑھا۔ میاں محمد بخش‘ سلطان باہو، بابا فرید اور بلھے شاہ شوق سے مطالعہ کیا اور ان سے خاصا متاثربھی ہوا ان صوفی شعراء کا بھی میرے مزاج پر گہرا اثرہے بابافرید اور سلطان باہوخاص طورپر۔ محسوس کرتاہوں کہ میرے لاشعور میں بلھے شاہ کے کلام کا بھی اثرہے میرے اندر روشنی کی ایک کرن پیداکرنے یابعداززندگی کوسمجھنے میں اور عشق مجازی یاعشق حقیقی کوسمجھنے میں ان کابہت اہم کردارہے۔ افسانوی ادب میں متاثر کرنے والا اشفاق احمدکاافسانہ گڈریا ہے جسے میں کبھی نہیں بھول سکا اُس میں ایک کردارتھا باؤجی ۔ اُس نے مجھے بہت متاثرکیا یہ اُن افسانوں میں سے ہے جنہوں نے میرے ذہن پر ٹیچر کی Dedication کے حوالے سے نقوش مرتب کیے۔ استاد کی Commitment کیاہونی چاہیے اس افسانے کو پڑھ کر سمجھ آتی ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے رسالے ’’راوی‘‘ کے صد سالہ اور ایک سو پچیس سالہ انتخابات کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ مجھے یہ اعزازحاصل ہے کہ طنزومزاح کے انتخاب میں بھی میرا مضمون شامل ہے اورافسانوں کے انتخاب میں بھی میراافسانہ شامل ہے۔ صد سالہ اور ایک سو پچیس سالہ انتخاب میں شامل ہونا ایک اعزاز ہے۔
طنزح ومزاح میں مشتاق احمد یوسفی کو پڑھا۔یلدرم کاایک مضمون مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ بہت اچھا لگا پھراُس کے بعدکرنل محمد خان کی جنگ آمد بجنگ آمد بہت اچھی لگتی ہے ۔ مشتاق یوسفی کی پہلی دوکتابیں چراغ تلے اور خاکم بدہن مجھے بہت اچھی لگیں ،شوکت تھانوی کالم نگاری کی حدتک ٹھیک تھے لیکن پطرس تو سرتاپا فطری مزاح ہے جو مجھے بے حد پسند ہے۔ پطرس کا مزاح کبھی باسی نہیں ہوتا۔ شفیق الرحمان صاحب کوبھی میں نے پڑھا کرنل محمد خان اورضمیر جعفری کے تو میں طویل عرصے تک ساتھ بھی رہا کسی زمانے میں کرنل محمدخان،ضمیر جعفری اورمیں نے مل کرراولپنڈی سے طنزومزاح کاایک بہت معیاری سہ ماہی رسالہ ’’اردو پنج‘‘ نکالتے تھے ’’اردو پنچ‘‘ میں اعلیٰ معیار کے مزاحیہ مضامین شامل ہواکرتے تھے کرنل محمدخان اپنے ذاتی تعلق کی بنیاد پرشفیق الرحمن سے اورمشتاق یوسفی سے اور باقی دوستوں سے بھی مضامین لینے میں کامیاب ہوجایا کرتے تھے طویل عرصے تک کرنل محمد خان ضمیر جعفری صفدر مسعود سلطان رشک اُس کے ایڈیٹررہے یہ رسالہ کئی برس تک چھپتا رہا۔ اُس زمانے میں اس کی دھوم تھی۔ شاعروں میں انور مسعود صاحب ہیں انعام الحق جاوید ہیں جو طنزیہ مزاحیہ شاعری کرتے ہیں مجھے پسند ہیں ضمیرجعفری صاحب کے بعض قطعات اوررباعیات زبان زدعام ہیں مجھے یاد بھی ہیں اور میں نے انہیں جعفری صاحب کی زبان سے سنا بھی ہے۔
کوئی ایک نہیں جس کا بہت اثر ہوا ہو میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ہر لکھاری اپنے اپنے انداز کے مطابق کچھ نہ کچھ اثرات چھوڑتا چلاگیا۔
موجودہ کالم نگاروں میں مجھے جاویدچودھری، عطاالحق قاسمی اور عبدالقادر حسن پسندہیں باقی کالم نگاروں کے کالموں میں بھی روزانہ جھانکتا ہوں کہ یہ ایک مجبوری ہے عطاالحق قاسمی جب سیاست پرلکھتے ہیں تووہ مجھے اپیل نہیں کرتا۔ مجھے ان کا ادبی اور مزاحیہ کالم پسند آتا ہے۔ جب کہ جاوید چودھری کے کالم مجھے عام طورپراچھے لگتے ہیں۔ اخبارات میں تقریباً سارے ہی دیکھتا ہوں اورپھرانتخاب کرتاہوں کہ ان میں کن مضامین کوپڑھنا ہے۔
دوران سفربڑے لفظ کے پرنٹ والی کوئی ادبی کتاب اپنے ساتھ رکھتاہوں تاکہ عینک نہ لگانی پڑے،فلسفہ، ادب مذہبی کتاب زیادہ پسند آتی ہے زندگی میں کبھی کتاب کے بغیرمیں نے سفر نہیں کیا یہ الگ بات کہ بعض اوقات کتاب ساتھ تو رہی پڑھی نہ جا سکی۔
زمانہ طالب علمی میں حافظہ کی صورت یوں تھی کہ شعرپاس سے بھی گزرتا تومجھے یادہوجاتا تھا اب صورت یہ ہے کہ بعض شعرجومجھے بہت اچھے لگتے ہیںیاد نہیں رہتے۔منیرنیازی ،ناصرکاظمی کومیں بہت بڑاشاعر سمجھتا ہوں اب تک مجھے جتنے بھی شعریاد ہیں وہ تقریباً وہی ہیں جو جوانی تک میں نے پڑھے تھے، اب تو بعض اوقات کسی شعر کو لکھتے وقت تسلی کے لیے دیوان دیکھنا پڑتا ہے۔ جب سے میرا رجحان پاکستانیات کی طرف ہوا ہے اور یہ میرے قلب و ذہن کا حصہ بنا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اکثر حوالے اور تاریخیں تقریباً 90فی صد یاد ہیں، چنانچہ اب شعرو شاعری اور ادب پیچھے رہ گئے ہیں اور صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ مجھے اپنے حافظہ سے یہ شکایت رہتی ہے کہ بہت سی چیزیں یادنہیں رہتیں۔ جوانی کے دور میں حفیظ جالندھری، پروفیسر منور، شورش کاشمیری، حمید جالندھری، مجیب الرحمن شامی، فتح محمد ملک، منور حسین یاد، صادق حسین، ڈاکٹر جمیل جالبی، داکٹر وحید قریشی، قیوم نظیر، اکرام رانا، محمد طفیل نقوش، ضمیر جعفری سے محفلیں رہتی تھیں لیکن وقت نے ان محفلوں کو ویران کر دیا۔
مطالعہ کے دوران نوٹس لینے کی عادت نہیں تھی۔ اب کچھ عرصے سے مجھے یہ شکایت شروع ہوئی ہے کہ میراحافظہ میراساتھ نہیں دیتا چنانچہ پچھلے سات آٹھ سال سے جو کتاب پڑھ رہاہوتاہوں اُس کے آخری Blank page پرمیں اپناانڈیکس بنانا شروع کردیتاہوں میں قلم سے لکھنا شروع کردیتا ہوں کہ فلاں صفحے پر یہ بات تحریر ہے یہ انڈکس سوالوں کے کام آتا ہے۔
ذاتی لائبریری میں کتابوں کی تعدادکبھی گنی نہیں ہے۔تقریباً 3چار سوکتابیں تو ایک لائبریری کوDonateکرچکا ہوں جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اب ان کے حوالوں کی ضرورت نہیں رہی اور اب جومیرے پاس کتابیں ہیں یہ وہ کتابیں ہیں جومیرے مرنے کے بعدمیری اولاد کسی لائبریری کوDonateکردے گی یا ردی میں بیچے گی لیکن نہیں میں اپنی لائبریری کو صدقہ جاریہ کے طور پر کسی لائبریری کے حوالے کروں گا تاکہ طلبہ اور ریسرچ سکالرز اس سے استفادہ کر سکیں۔
میرے بچے بچپن سے ہی میرے مطالعے میں شریک رہے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ میرے بچے چار میں سے تین ایسے ہیں جو ملکی معاملات میں بڑی گہری دل چسپی رکھتے ہیں چوتھا بچہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں گم ہو چکاہے۔ بچپن سے ان کے ساتھ میں باتیں Share کرتا رہا ہوں ان کوواقعات سناتا رہاہوں اور ان کے ذہنوں میں پاکستانیات کے نئے مستقل جگہ بناتا رہا ہوں۔ اُن میں ایک بیٹاتو اتنا involveہے کہ امریکہ میں رہنے کے باوجود بھی چاہتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کسی انقلابی پارٹی کوجوائن کرے۔ گزشتہ دنوں وہ تحریک انصاف کا سرگرم رکن تھا جو پیچھے ہٹ گیا۔
میراتجربہ یہ ہے کہ کتاب بڑی مہربان شے ہوتی ہے اس کوجوبھی اغواکرکے لے جائے یہ احتجاج نہیں کرتی یہ ایک دفعہ لائبریری سے نکل جائے تو عام طور پر واپس نہیں آتی میری کتابیں جولوگوں نے مستعارلیں وہ کبھی واپس نہیں کیں اوربعض دوست ایسے بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً مجھے کہتے رہتے ہیں کہ تمہاری فلاں کتاب میں نے واپس کرنی ہے لیکن میرے بعض ایسے دوست بھی ہیں جن سے بعض اوقات میں نے کتاب لی اور اگر وہ کتاب میرے مضمون سے متعلق ہو تو میں کہہ دیتا ہوں کہ یہ تمہیں واپس نہیں ملے گی۔
مجھے تحریک پاکستان، قائد اعظم،اقبالیات اور پاکستان کی تاریخ وسیاست پرکتابوں کی تلاش رہتی ہے۔اُس میں بعض اوقات مجھے دقت اس لیے نہیں ہوتی کہ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر کتابیں پاکستانی مارکیٹ میں مل جاتی ہیں ورنہ امریکہ یا برطانیہ میں کسی دوست سے منگوالیتا ہوں۔تحریک پاکستان کے جذبے سے میری وابستگی کا یہ عالم ہے کہ میں جب حکومت پنجاب میں سیکرٹری اطلاعات و ثقافت (1986-89) تھا تو میں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ تحریک پاکستان کے مجاہدوں، کارکنوں اور قائد اعظم کے سپاہیوں کی عزت افزائی اور پہچان کے لیے انہیں طلائی تمغے دینے اور ان کی دیکھ بھال کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سلسلہ میں نے میاں نواز شریف کی سرپرستی میں 1987میں شروع کیا جس سے ملک بھر میں جوش و خروش پیدا ہوا۔ 1990میں جناب غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ بنے تو اسے ٹرسٹ کی حیثیت سے رجسٹر کروایا گیا اور وائیں صاحب نے اس ٹرسٹ کے لیے نہ ہی صرف عمارت تعمیر کروائی بلکہ فنڈز بھی دئیے۔ شکر الحمد للہ کہ سرکاری ملازمت کے دوران رزق حلال کھایا، اصولوں کی پاسداری کی اور حاکموں کی خوشامد سے دور رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ذہن پر کسی زیادتی کا بوجھ نہیں اور سکون کی نیند سوتا ہوں۔ عمر بھر قومی و ملکی خدمت کو اولین ترجیح بنائے رکھا۔ نامور لکھاریوں کے ساتھ ساتھ صوفیا اور اولیا اکرام کی مجلسیں بھی نصیب ہوئیں۔ حکمرانوں سے لڑائیاں بھی ہوتی رہیں اور اس کی سزا بھی ملتی رہی لیکن میں نے ہمیشہ مشاہدہ اور تجربہ کیا کہ بچانے والا مارنے والے سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے ورنہ جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو میری تنقیدی تحریروں سے سیخ پا بھی رہے لیکن خواہش کے باوجود نوکری سے نہ نکال سکے کیوں کہ بچانے والا میرے ساتھ تھا۔
یہ ایک قدرتی بات ہے اس کوآپ ارتقائی عمل کہہ لیں جیسے جیسے آپ تحقیقی کتابیں پڑھتے ہیں اس سے آپ کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور آپ کے فہم و ادراک کی بھی تشکیل ہوتی ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں آپ کی رائے بہتر سے بہتر اوربعض چیزوں کے بارے میں آپ کے رائے بدل جاتی ہے مثلاً یہ ایک بڑی عجیب وغریب بات ہے اور میں اس کو کہہ دینامناسب سمجھتا ہوں۔اس بارے میں میری Controversiesبھی چلتی رہتی ہیں۔مثلاً یہ کہ میں طویل عرصے تک قائداعظم کو مغربی طرز کی ماڈرن شخصیت سمجھتا رہا سیکولرقسم کی شخصیت لیکن بہت سی چیزیں پڑھنے اور مواد کے دریا میں اترنے کے بعد پتہ چلاکہ قائداعظم کے اندر ایک سچا مسلمان موجود تھا جس کی طرف ہماری نظربہت کم گئی ہے مجلس ترقی ادب نے قائداعظم کی تقاریر پرچارجلدیں شائع کی ہیں اگر آپ پڑھیں توآپ کواندازہ ہو گا کہ قائداعظم کی شخصیت کیاہے جب میں نے ان کی ذاتی زندگی کواندرسے جھانکا تومیری رائے ان کے بارے میں پہلے سے مزید بہترہوگئی ہے۔
ایسی کتابیں جن میں وطن عزیز پاکستان کے بارے میں مایوسی اورناامیدی پھیلائی گئی ہو وہ میری ناپسند کی فہرست میں آتی ہیں۔مثلاً طارق علی کی بعض کتابیں ایسی متعصب کتابیں جو 1971ء کی Tragedyکے بارے میں لکھی گئی ہیں۔ باقی مطالعہ کے لیے سیرۃ النبیؐ شبلی نعمانی اورسیدسلمان ندوی کی کتابیں مجھے بے حدپسند ہیں اورتفاسیرمیں تفہیم القرآن مجھے بہت پسند ہے۔ فلسفے اور سیاسیات اور پاکستانیات پر کتابیں شوق سے پڑھتا ہوں۔ دل میں ایک آواز تڑپتی رہتی ہے کہ مرنے سے قبل کوئی بڑی قومی خدمت کر جاؤں اور کسی ایسے صدقہ جاریہ کی بنیاد رکھ جاؤں جو بخشش اور روحانی بلندی کا ذریعہ بنے۔ اب تک اسی آرزو کی تکمیل کے لیے زندہ ہوں۔ دیکھئے خدا کو کیا منظور ہے کیوں کہ اس کی رضا کے بغیر ایسے کام نہیں ہو سکتے۔