مسجد اقصیٰ، یہود اور امتِ مسلمہ: تنقیدی آراء کا جائزہ

مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے ہماری جو تحریر کچھ عرصہ قبل ان صفحات میں شائع ہوئی تھی، اس میں چونکہ ایک نہایت حساس اور نازک معاملے پر عام رائے سے بالکل مختلف نقطہ نظر اختیار کیا گیا تھا،1 اس لیے اس پر تیز و تند تنقیدوں کا سامنے آنا پوری طرح سے متوقع تھا۔ کسی بھی نقطہ نظر کی جانچ پرکھ اور اس کی علمی قدر و قیمت کے تعین میں تنقید کا کردار غیر معمولی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگرچہ خالصتاً علمی سطح پر مسئلے کی تنقیح کے لیے ایک ایسی سنجیدہ اور مفصل تنقید کی ضرورت ابھی باقی ہے جس میں ہمارے استدلال کے جملہ پہلوؤں کا مربوط انداز میں جائزہ لیا گیا ہو، تاہم اب تک سامنے آنے والی جزوی، غیر مربوط اور زیادہ تر جذباتی تنقیدیں بھی اس حوالے سے یقیناً مفید ہیں کہ انہوں نے ذہنوں میں موجود بہت سے ایسے اشکالات کی ترجمانی کی ہے جن سے تعرض کرنا ہمارے نقطہ نظر کی توضیح و تکمیل کے لیے ناگزیر ہے۔ چنانچہ تمام ناقدین اس لحاظ سے ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس بحث کو آگے بڑھانے اور اس کے تنقیح طلب پہلوؤں پر اپنی معروضات کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کا موقع ہمیں فراہم کیا ہے۔

زیر نظر سطور میں، جو کہ اصل تحریر کے تتمہ کی حیثیت رکھتی ہیں، ناقدین کی جانب سے اٹھائے گئے انہی نکات کو ایک مناسب ترتیب کے ساتھ زیر بحث لانا مقصود ہے۔

یہود کے حق تولیت کی شرعی حیثیت

زیر بحث مسئلے کا بنیادی سوال، جیسا کہ ہم نے اصل تحریر میں واضح کیا تھا، مسجد اقصیٰ کی تولیت کی شرعی حیثیت کا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، سید سلیمان ندویؒ اور مولانا قاری محمد طیبؒ جیسے اکابر اہل علم کی رائے میں بنی اسرائیل کا حق اس عبادت گاہ سے، ازروئے شریعت، اسی طرح منسوخ کر دیا گیا ہے جس طرح کہ مشرکین بنی اسماعیل سے مسجد حرام کی تولیت کا حق چھین لیا گیا تھا۔ یہ رائے، ہمارے علم کی حد تک، برصغیر کے مذکورہ اہل علم سے پہلے امت مسلمہ کی پوری علمی تاریخ میں کسی نے ظاہر نہیں کی، تاہم کوئی نئی بات نہ محض اس وجہ سے رد کی جا سکتی ہے کہ وہ اس سے پہلے کسی کے احاطہ خیال میں نہیں آئی اور نہ صرف اس وجہ سے اسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ اس کو بعض جلیل القدر اصحاب علم نے پیش کیا ہے۔ علمی آرا کے رد و قبول کے لیے واحد معیار کی حیثیت دلیل کو حاصل ہے اور اس معیار پر کمزور ثابت ہونے والی کسی بھی رائے کو، چاہے وہ قدیم ہو یا جدید، شرف قبولیت نہیں بخشا جا سکتا۔ یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے حوالے سے مذکورہ رائے، جہاں تک ہم غور و فکر کر سکے ہیں، اسی زمرے میں آتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان اہل علم نے معاملے کے اصل پس منظر کو ملحوظ رکھے اور جملہ علمی پہلوؤں پر مناسب غور و خوض کیے بغیر ایک نتیجہ اخذ کر لیا، ورنہ آل ابراہیم کی تاریخ اور اسلامی شریعت کے واضح احکام و ہدایات، جن میں سے بیشتر کی تشریح و تفصیل خود انہی اہل علم کی تحریروں میں موجود ہے، علمی بنیادوں پر اس تصور کی صاف نفی کرتے ہیں۔ ہم نے اصل تحریر میں اس رائے کے ضعف کے بعض نمایاں پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا تھا، لیکن فقہ و شریعت کے مباحث سے مناسب واقفیت نہ رکھنے کے باعث بعض اصحاب قلم ہماری تنقید کو پوری طرح سے سمجھ نہ سکے اور انہوں نے جواب میں اسی استدلال کو دوبارہ پیش کر دیا، چنانچہ اس بات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ اس مسئلے کو تمام متعلقہ تفصیلات کی روشنی میں پورے علمی استدلال کے ساتھ واضح کیا جائے۔

سب سے پہلے تو اس معاملے کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھیے:

صحف سماوی یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے رشد و ہدایت کا سلسلہ تو آغاز ہی سے جاری فرما دیا تھا، البتہ نسل انسانی کے معاشرتی و تمدنی ارتقا کے لحاظ سے اس کے عملی طریقے میں مرحلہ وار تبدیلی کی جاتی رہی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے پہلے تو اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ بنی آدم مختلف معاشرتی و تمدنی تقاضوں کے تحت قبیلوں اور گروہوں میں تقسیم ہو کر جہاں جہاں بھی آباد ہیں، وہاں وہاں ان میں انبیاء بھیجے جائیں جو انہیں کائنات کے ابدی حقائق سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ ان میں اپنے رب کے حضور جواب دہی کا احساس پیدا کریں۔ انبیاء کی بعثت کا یہ سلسلہ رکے بغیر جاری رہا، لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ اسکیم بدل دی گئی اور تمام اقوام اور علاقوں میں الگ الگ رسول مبعوث فرمانے کے بجائے نبوت و رسالت کو آل ابراہیم کے لیے خاص فرما کر انہیں پہلے خود دین حق پر عمل پیرا ہونے اور اس کے بعد دنیا کی باقی اقوام تک اس کے ابلاغ و دعوت کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔

آل ابراہیم کے لیے اس ذمہ داری کی ادائیگی کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا:

پہلے مرحلے میں سیدنا یعقوب علیہ السلام کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کو اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے انہیں فلسطین کا علاقہ بطور وراثت و ملکیت عنایت کیا گیا، تورات کی صورت میں احکام و قوانین کا ایک جامع مجموعہ عطا کیا گیا، اس کے بعد ان میں انبیاء کا غیر منقطع سلسلہ جاری کیا گیا اور دین و دنیا کی نعمتیں ان پر نچھاور کی گئیں۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے زمانے میں ’ہیکل سلیمانی‘ کے نام سے ایک نہایت پرشکوہ عبادت گاہ یروشلم میں تعمیر کی اور اسے بنی اسرائیل کا قبلہ اور ان کے مذہبی و روحانی جذبات کا مرکز قرار دیا۔ بنی اسرائیل کا رویہ اس ذمہ داری کے حوالے سے مختلف ادوار میں مختلف رہا۔ بعض ادوار میں وہ اس ذمہ داری کو پوری شان سے ادا کرتے رہے، جبکہ اکثر و بیشتر وہ خود دین و شریعت کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے کے بجائے اس سے منحرف اور گریزاں رہے۔ ایک لمبے عرصے کی آزمائش کے بعد جب بنی اسرائیل مذہبی و اخلاقی لحاظ سے اس سطح پر پہنچ گئے کہ من حیث القوم اس ذمہ داری کی ادائیگی کی کوئی توقع ان سے باقی نہ رہی تو ان کے اندر جاری سلسلہ نبوت کو سیدنا مسیح علیہ السلام کی بعثت پر تمام کرتے ہوئے ملت ابراہیمی کی دعوت کو اقوام عالم تک پہنچانے کی ذمہ داری آل ابراہیم کی دوسری شاخ یعنی بنی اسمٰعیل کے سپرد کر دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

بنی اسمٰعیل کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حجاز کے علاقے میں آباد کیا تھا اور انہیں ملت ابراہیمی کی اعتقادی اساسات کے علاوہ عبادات، سنن اور شعائر پر مبنی عملی تعلیمات کا ایک مجموعہ آغاز ہی سے عنایت کر دیا گیا تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سرزمین عرب میں خدائے واحد کی عبادت کے لیے جو سب سے پہلا گھر مکہ مکرمہ میں تعمیر کیا، اس کی تولیت و دربانی کے فرائض بھی آل ابراہیم کی اسی شاخ کے سپرد کیے گئے۔ بنی اسماعیل اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں اصل ملت پر قائم رہے، تاہم رفتہ رفتہ ان میں بھی انحراف پیدا ہوتا گیا اور شرک و بدعت ان کے مابعد الطبیعیاتی تصورات، مناسک عبادت اور معاشرتی رسم و رواج میں سرایت کرتے چلے گئے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے دنیا سے تشریف لے جانے کے چھ صدیاں بعد بنی اسمٰعیل میں اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے ملت ابراہیمی کی اصل تعلیمات کا احیا کرتے ہوئے اس کی طرف انتساب کا دعویٰ کرنے والے دونوں گروہوں یعنی مشرکین بنی اسماعیل اور اہل کتاب کے اختیار کردہ انحرافات کی اصلاح کی اور ان دونوں گروہوں کے اس دعوے کا ابطال کیا کہ وہ ملت ابراہیمی کے حقیقی پیروکار ہیں۔ ان دونوں گروہوں پر اتمام حجت اور جزیرۃ العرب کے بڑے حصے میں دین اسلام کو اپنی حیات ہی میں غالب کر دینے کے بعد رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور آپ کے بعد آپ کی نیابت میں اس دین کو اقوام عالم تک پہنچانے کی ذمہ داری صحابہ اور پھر نسلاً بعد نسل امت مسلمہ پر عائد کر دی گئی۔

آل ابراہیم کی ان دونوں شاخوں کے مابین پائی جانے والی ضلالت و انحراف کی یہی مماثلت وہ بنیاد ہے جس پر یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے قائل اہل علم نے اپنے استدلال کی عمارت کھڑی کی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ فرماتے ہیں:

”یہ دونوں ہی گروہ خدا کے دین کے دو سب سے بڑے مرکزوں پر قابض تھے اور ان کو انہوں نے، ان کے بنیادی مقصد کے بالکل خلاف، نہ صرف شرک و بت پرستی کا اڈا بلکہ، جیسا کہ سیدنا مسیح نے فرمایا ہے کہ ”تم نے میرے باپ کے گھر کو چوروں کا بھٹ بنا ڈالا ہے“، ان کو انہوں نے چوروں اور خائنوں کا بھٹ ہی بنا ڈالا تھا۔ یہ دونوں ہی مقدس گھر بالکل خائنوں اور بے ایمانوں کے تصرف میں تھے اور یہ ان میں اس طرح اپنی من مانی کر رہے تھے گویا ان گھروں کا اصل مالک کانوں میں تیل ڈال کر اور آنکھوں پر پٹی باندھے سو رہا ہے اور اب کبھی وہ اس کی خبر لینے کے لیے بیدار ہی نہیں ہو گا۔ معراج کا واقعہ، جیسا کہ ہم نے پیچھے اشارہ کیا ہے، اس بات کی تمہید تھا کہ اب ان گھروں کی امانت اس کے سپرد ہونے والی ہے جو ان کے اصلی مقصدِ تعمیر کو پورا کرے گا۔ “ (تدبر قرآن ۳/ ۷۱۷، ۷۱۸)

قائلین تنسیخ کے استدلال کی تشریح کے بعد اب ہم اس ضمن میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کریں گے۔ ہمارے نزدیک قرآن مجید کے صریح نصوص کی روشنی میں اس امر میں بھی کوئی کلام نہیں کہ آل ابراہیم کے یہ دونوں حصے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اصل ملت سے منحرف اور اس کے مقاصد و مطلوبات کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے، اور یہ بات بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اس انحراف کی پاداش میں بنی اسماعیل کو بیت الحرام جبکہ بنی اسرائیل کو مسجد اقصیٰ کے حق تولیت سے محروم کیا گیا، البتہ ان دونوں گروہوں کے حق تولیت سے محروم کیے جانے کی نوعیت میں، ہمارے نزدیک، ایک بنیادی فرق ہے، اور وہ یہ کہ بنی اسماعیل کا حق تولیت تو ازروئے شریعت ابدی طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دوبارہ بیت اللہ پر متصرف ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اس کے برعکس بنی اسرائیل کو شرعی طور پر نہیں بلکہ محض تکوینی طور پر مسجد اقصیٰ کی تولیت سے محروم کیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس عبادت گاہ کے دوبارہ ان کے زیر تصرف آنے میں اسلامی شریعت کا کوئی حکم مانع نہیں اور اللہ تعالیٰ جب چاہیں، ایسے حالات و اسباب پیدا فرما سکتے ہیں کہ یہ امکان حقیقت کا روپ دھار لے۔

دونوں عبادت گاہوں کے مابین اس فرق کی دلیل، ہمارے نزدیک یہ ہے کہ قرآن مجید نے رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے مقصد بعثت اور آپ کی جدوجہد کے اہداف میں ان دونوں عبادت گاہوں کے حوالے سے ایک بالکل واضح امتیاز قائم کر دیا ہے، اور رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے اس کی روشنی میں عملی لحاظ سے جو رویہ اختیار فرمایا، وہ ان دونوں عبادت گاہوں کے حوالے سے قطعی مختلف اور متباین ہے۔

پہلے مسجد حرام کے معاملے کو دیکھیے:

قرآن مجید نے یہ بات نہایت اہتمام کے ساتھ ایک مسلسل مضمون کے طور پر بیان کی ہے کہ مسجد حرام کو مشرکین کے قبضے سے چھڑانا اور اس کو شرک و بدعت کے آثار سے بالکل پاک کر کے اصل حیثیت میں دوبارہ توحید کی دعوت کا عالمی مرکز بنا دینا رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے مشن کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ چنانچہ مشرکین پر اتمام حجت کے مرحلہ میں مسلمانوں پر یہ بات پورے تسلسل کے ساتھ واضح کی جاتی رہی کہ مسجد حرام پر مشرکین کا کوئی حق نہیں، اس کے اصل حق دار اہل ایمان ہیں اور اگر مشرکین انہیں اس مسجد میں آنے اور وہاں عبادت کرنے سے روکیں تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس حق کے حصول کے لیے مشرکین کے ساتھ قتال کریں۔ اس ضمن میں قرآن مجید میں مرحلہ وار نازل ہونے والی تاکیدات حسب ذیل ہیں:

✩ ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کو مشرکین کے ساتھ قتال کی اجازت سب سے پہلے جس آیت میں دی گئی، وہ بیت اللہ پر مشرکین کے قبضہ اور ان کے طرز عمل کے تناظر میں وارد ہوئی ہے۔ سورۂ حج میں اس سلسلہ بیان کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے کہ

ان الذین کفروا ویصدون عن سبیل اللہ والمسجد الحرام الذی جعلناہ للناس سواء ن العاکف فیہ والباد ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم۔ (الحج: ۲۶)
”جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے مساوی کر دیا ہے، وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں، جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے، ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔ “

اس کے بعد مشرکین کے الحاد اور کفر کو واضح کرنے کے لیے آیت ۲۶ سے ۳۸ تک بیت اللہ کی ابتدائی تاریخ اور اس کی تعمیر کے اصل مقصد کو واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کے لیے جگہ خود متعین فرما کر حضرت ابراہیم کو اس کی تعمیر کا حکم دیا اور انہیں اس کا متولی بنا کر ہدایت کی کہ وہ اس کو خدائے واحد کی عبادت کرنے والوں کے لیے کفر و شرک کی آلودگیوں سے پاک رکھیں۔ اسی ضمن میں قربانی کی رسم کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ملت ابراہیمی میں قربانی صرف اللہ کے نام پر مشروع کی گئی تھی اور اس کے پیروکاروں سے کہا گیا تھا کہ وہ خدائے واحد ہی کے حضور قربانی گزرانیں اور اصنام و اوثان کی نجاست سے دور رہیں۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ چونکہ مشرکین نے ملت ابراہیمی کے اصل پیروکاروں یعنی اہل ایمان کو محض اس وجہ سے مکہ مکرمہ سے نکال دیا ہے کہ وہ توحید کے قائل ہیں، اس لیے انہیں اجازت ہے کہ اس ظلم کا بدلہ لینے کے لیے مشرکین سے جہاد کریں:

 أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن الله على نصرهم لقدير۔ الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ۔ (الحج: ۳۹)
”جن مسلمانوں سے کافر جنگ کر رہے ہیں، انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ بے شک اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا، صرف یہ کہنے پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے۔ “

✩ ۲ ہجری میں غزوۂ بدر کے موقع پر سورۂ انفال میں جو ہدایات نازل کی گئیں، ان میں مسلمانوں کو اس حقیقت کی دوبارہ یاددہانی کرائی گئی۔ فرمایا گیا کہ جب تک پیغمبرﷺ مکہ مکرمہ میں ان مشرکین کے مابین مقیم تھے، اس وقت تک اللہ کے ضابطے کی رو سے ان پر عذاب نہیں آ سکتا تھا، لیکن آپؐ کی ہجرت کے بعد اس عذاب کے نازل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی:

وما لهم ألا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام وما كانوا أولياءه إن أولياؤه إلا المتقون ولكن أكثرهم لا يعلمون۔ (الانفال: ۳۳)
”اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سزا نہ دے حالانکہ یہ مسجد حرام سے روکتے ہیں جبکہ وہ اس کے متولی نہیں۔ اس کی تولیت کے حق دار تو صرف اہل تقویٰ ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ “

اس کے بعد چند آیات میں مشرکین کے طرز عمل کی قباحت و شناعت کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اہل ایمان کو مخاطب کر کے یہ حکم دیا گیا ہے کہ:

وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة ويكون الدين كله لله فإن انتهوا فإن الله بما يعملون بصير۔ (الانفال: ۳۹)
”اور تم ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے۔ پھر اگر یہ باز آ جائیں تو اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔ “

✩ ۶ ھ میں معاہدۂ حدیبیہ کے قریبی زمانے میں حج و عمرہ کی رسوم کے حوالے سے بعض اہم احکام قرآن مجید میں نازل ہوئے جن کا ذکر سورہ بقرہ کی آیات ۱۸۹ تا ۲۰۳ میں ہے۔ اس سلسلہ بیان کا آغاز اس آیت سے ہوا ہے:

یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج۔ (البقره: ۱۸۹)
”وہ تم سے محترم مہینوں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو یہ لوگوں کے فوائد اور حج کے اوقات ہیں۔“

بیت اللہ پر اس وقت مشرکین قابض تھے، اور اس بات کا پورا امکان موجود تھا کہ وہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکیں گے۔ چونکہ اس صورت حال میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم پہلے سے دیا جا چکا تھا، اس لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ حرمت والے مہینوں میں تو قتال مشروع نہیں، پھر مشرکین سے جہاد کیسے کیا جائے؟ چنانچہ حج کے متعلق ہدایات کے اصل سلسلے کو روک کر قرآن مجید نے یہاں اس سوال سے تعرض کیا اور فرمایا کہ اگر مشرکین مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنے کی کوشش کریں تو ان کے ساتھ قتال لازماً کیا جائے۔ حرام مہینوں میں قتال سے متعلق اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

واقتلوهم حيث ثقفتموهم وأخرجوهم من حيث أخرجوكم والفتنة أشد من القتل ولا تقاتلوهم عند المسجد الحرام حتى يقاتلوكم فيه فإن قاتلوكم فاقتلوهم كذلك جزاء الكافرين فان انتھوا فان اللہ غفور رحیم۔ (البقرہ:۱۹۱، ۱۹۲)
”اور انہیں جہاں بھی پاؤ، مار ڈالو اور جیسے انہوں نے تمہیں نکالا ہے، تم بھی انہیں نکال دو۔ اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں۔ پھر اگر یہ تم سے لڑیں تو تو ان کو مار ڈالو۔ ان کا فروں کا بدلہ یہی ہے۔ ہاں اگر باز آ جائیں تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ “

مولانا امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”اس سورہ میں قبلہ کی بحث سے لے کر یہاں تک کے مباحث پر اگر آپ کی نظر ہے تو یہ حقیقت آپ سے مخفی نہیں ہو سکتی کہ یہ ساری بحث عام کفار سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کا خاص تعلق کفار قریش سے ہے۔ ان کی اور مسلمانوں کی نزاع کسی جزوی معاملے کے لیے محض ایک وقتی نزاع نہیں تھی بلکہ اصلاً یہ نزاع بیت اللہ کی تولیت کے لیے تھی۔ قرآن کا دعویٰ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم کے بنائے ہوئے گھر کی تولیت کے اصلی حقدار اہل ایمان ہیں نہ کہ کفار و مشرکین جنہوں نے اس گھر کو اس کے بنیادی مقاصد کے بالکل بر خلاف شرک و کفر کا ایک گڑھ بنا کے رکھ دیا ہے۔ قرآن کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیم کی دعا اور وعدۂ الٰہی کے بموجب جس آخری نبی کے ذریعہ سے اس گھر کے مقاصد کی تجدید و تکمیل ہوئی تھی، محمد رسول اللہ ﷺ کے ظہور قدسی نے اس وعدے کی تکمیل کر دی اور اب یہ لازمی ہے کہ یہ گھر کفار و مشرکین کے تسلط سے آزاد اور کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک ہو کر ملت ابراہیم- اسلام- کا مرکز اور تمام اہل ایمان کا قبلہ بنے۔ یہ دعویٰ جن دلائل و براہین اور جس زور و قوت کے ساتھ اس پوری سورت میں پیش ہوا ہے، اس میں کہیں کسی لچک اور کسی نرمی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ واضح الفاظ میں بات یوں کہی جا سکتی ہے کہ بیت اللہ کو کفار کے قبضہ سے چھڑانا اور اس کو شرک و کفر کی تمام آلائشوں سے پاک کر کے ازسرنو اس کو توحید و اسلام اور ملت مسلمہ کا مرکز بنانا رسالت محمدی کا اصلی نصب العین تھا اور اس نصب العین کا حصول ہی گویا آنحضرت صلعم کے مقدس مشن کا آخری کام تھا۔ “ (ایضاً، ص ۴۷۶)

احکام شریعت کے اسی سلسلہ بیان میں آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ مقصد کے حصول کے لیے مسلمانوں پر قتال کی فرضیت کے حکم کا اعادہ کیا ہے اور مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ اس باب میں کسی قسم کی مداہنت کا شکار نہ ہوں:

کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیئا وھو شر لکم واللہ یعلم وانتم لا تعلمون۔ (آیت ۲۱۶)
”تم پر قتال فرض کیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمہیں ناپسند ہے۔ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بہتر نہ ہو۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“

✩ بیت اللہ پر قابض مشرکین کے خلاف جہاد و قتال کی ان مسلسل تاکیدات کے بعد جب ۶ ہجری میں رسول اللہ ﷺ صحابہ کے ساتھ عمرے کے ارادے سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو مشرکین نے انہیں حدیبیہ کے مقام پر روک دیا۔ سابقہ ہدایات کی رو سے اس موقع پر جہاد مسلمانوں پر لازم تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے بعض اہم تر مصالح کے پیش نظر مشرکین سے صلح کا معاہدہ کر لیا تو اس کو ذہنی طور پر قبول کرنا صحابہ کے لیے ایک آزمائش بن گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید میں اس صلح کی حکمت اور اس کے پوشیدہ فوائد پر باقاعدہ ایک سورت نازل کرنا پڑی، جس میں انہیں یہ بتایا گیا کہ اگرچہ مشرکین ان کو مسجد حرام سے روکنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، لیکن چونکہ مکہ میں ابھی بہت سے ایسے اہل ایمان موجود ہیں جو اپنے ایمان کو مخفی رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اور مشرکین کے مابین واضح امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ بھی لڑائی میں تہ تیغ ہو جائیں گے، اس لیے اس موقع پر قتال کو موخر کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں فتح مکہ کی بشارت اس وضاحت کے ساتھ دی گئی کہ مسجد حرام کا مسلمانوں کے تصرف میں آنا چونکہ ’اظہارِ دین‘ کا لازمی تقاضا ہے، اس لیے یہ وعدہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا:

لقد صدق الله رسوله الرؤيا بالحق لتدخلن المسجد الحرام إن شاء الله آمنين محلقين رءوسكم ومقصرين لا تخافون فعلم ما لم تعلموا فجعل من دون ذلك فتحا قريبا ھو الذی ارسل رسوله بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کله وکفی باللہ شھیدا۔ (الفتح: ۲۷، ۲۸)
”یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا کہ اللہ نے چاہا تو تم یقیناً پورے امن و امان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گے، سر منڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے، تمہیں کوئی خوف لاحق نہیں ہو گا۔ وہ ان باتوں کو جانتا ہے جن کو تم نہیں جانتے، پس اس نے اس کے بعد ایک قریبی فتح تمہارے لیے مقدر کر دی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے۔ اور اللہ کافی ہے گواہی دینے والا۔“

✩ یہ بشارت معاہدہ حدیبیہ کے دو ہی سال بعد ظہور پذیر ہو گئی۔ چنانچہ مشرکین کی طرف سے نقض عہد کے بعد رسول اللہ ﷺ اس مشن کی تکمیل کے لیے دس ہزار صحابہ کے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے اور مکہ مکرمہ کو فتح کر لیا۔ اس موقع پر آپ نے بیت اللہ کو تمام اصنام و ادیان اور مشرکانہ رسوم کے تمام آثار سے پاک کر کے اس کو دینِ ابراہیمی کی اصل اساس یعنی توحید کا عالمی مرکز ہونے کی حیثیت سے بحال کر دیا2۔ تاہم بیت اللہ کے ظاہری انتظام و انصرام کو آپ نے سردست سابقہ طریقے پر قائم رہنے دیا3 اور مشرکین کو بھی فی الحال بیت اللہ میں آنے اور اس میں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی4۔

✩ اس مشن کے آخری مرحلہ کے طور پر ۹ ہجری میں قرآن مجید کی سورہ براءۃ میں یہ اعلان کیا گیا کہ چونکہ مشرکین پر اتمام حجت کا مرحلہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، اس لیے اب ان کو جان کی امان حاصل نہیں رہی۔ انہیں یا تو اسلام قبول کرنا ہو گا اور یا مرنے کے لیے تیار ہونا ہو گا5۔ اسی حکم کی ایک فرع یہ بھی ہے کہ ۹ ہجری کے بعد مشرکین بیت اللہ کی تولیت اور اس میں عبادت تو کجا، اس کے قریب آنے کے حقدار بھی نہیں ہیں6۔ اس سال حج کے موقع پر اس حکم کی باقاعدہ منادی کی گئی7۔ ۱۰ ہجری میں رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور دین ابراہیمی کی روایات کے مطابق مناسک حج کی تعلیم لوگوں کو دی8۔ اس کے ساتھ ہی کفر و شرک سے بیت اللہ کی تطہیر اور اس کو توحید کا عالمی مرکز بنانے کا مشن مکمل ہو گیا، چنانچہ آپ نے اس موقع پر یہ اعلان فرمایا کہ:

 ان الشیطان قد ايس من ان يعبد فی بلادكم هذه ابدا (ترمذی، الفتن، ۳۰۸۵)
”شیطان کو اب اس بات کی کوئی امید نہیں رہی کہ جزیرة العرب میں دوبارہ کبھی اس کی پوجا کی جائے گی۔“

اب اس کے مقابلے میں اس رویے کو ملاحظہ فرمائیے جو مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اختیار کیا گیا:

۱۔ مکی عہد نبوت میں سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں رسول اللہ ﷺ کے سفر اسراء کا ذکر کیا گیا ہے جو آپ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کرایا گیا۔ اس سلسلہ بیان میں اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کی تباہی و بربادی اور اس سے یہود کی بے دخلی کے دو معروف واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ یہ ان کی سرکشی اور فساد کے نتیجے میں رونما ہوئے تھے۔ مسجد اقصیٰ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت وہ یہود کے زیر تصرف نہیں تھی، بلکہ تباہ شدہ کھنڈرات (Ruins) کی صورت میں ویران پڑی تھی۔ یہ بات بھی، ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ مستقبل قریب میں اس عبادت گاہ کو آباد کرنے کا شرف عملاً مسلمانوں کو حاصل ہونے والا ہے۔ اگر یہود کے حق تولیت کی شرعی بنیادوں پر قطعی تنسیخ مقصود ہوتی تو یہاں یہود سے صاف صاف یہ کہہ دینا چاہیے تھا کہ فساد اور سرکشی کے نتیجے میں اس مسجد سے بے دخلی کے بعد اب تمہارے اس پر دوبارہ متصرف ہونے کا کوئی امکان نہیں اور اس عبادت گاہ کی آبادی اور تولیت کا حق اب تمہارے بجائے ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے سپرد کر دیا جائے گا، لیکن اس کے برعکس بعد قرآن مجید صاف لفظوں میں یہ فرماتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے پہلے کی طرح اب بھی اس مسجد کے دوبارہ بنی اسرائیل کے تصرف میں آنے کا امکان موجود ہے:

عسی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا۔ (بنی اسرائیل: ۸)
”توقع ہے کہ تمہارا رب تم پر پھر رحمت کرے گا۔ اور اگر تم نے دوبارہ یہی روش اختیار کی تو ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔“

امام بقاعیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ولما انقضى ذلك كان كانه قيل: اما لهذه المرة من كرة كالاولى؟ فاطمعهم بقوله سبحانه و تعالی:(عسى ربكم) اى الذى عودكم باحسانه (ان يرحمكم) فيتوب عليكم ويكرمكم ثم افزعہم بقوله تعالى: (وان عدتم) ان بما نعلم من دبركم الى المعصية مرة ثالثة فما فوقها (عدنا) ای بما تعلمون لنا من العظمة الى عذابكم فی الدنيا۔ (البقاعی نظم الدرر، ۴/ ۳۶۳)
”جب یہ بات مکمل ہو گئی تو اب گویا یہ سوال سامنے آیا کہ کیا پہلے کی طرح بنی اسرائیل پر دوبارہ اللہ کی رحمت کے متوجہ ہونے کا کوئی امکان ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ توقع دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ، جو پہلے بھی ان پر انعام و احسان کرتا رہا ہے، اب بھی تم پر رحم کر سکتا اور تم پر نظر عنایت کر کے تمہاری عزت افزائی کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہہ کر ان کو متنبہ بھی کر دیا گیا کہ اگر تم نے تیسری یا چوتھی مرتبہ پھر نافرمانی کی طرف پلٹ جانے کا وطیرہ اختیار کیا تو ہم بھی اپنی اس عظمت و قدرت کے ساتھ جسے تم خوب جانتے ہو، دنیا ہی میں تمہیں دوبارہ عذاب کا نشانہ بنا دیں گے۔“

امام صاحبؒ نے اس کے بعد اس وعدے کی تفسیر میں تورات کا حسب ذیل بیان نقل کیا ہے:

”اور جب یہ ساری باتیں یعنی برکت اور لعنت جن کو میں نے آج تیرے آگے رکھا ہے، تجھ پر آئیں اور تو ان قوموں کے بیچ جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو ہنکا کر پہنچا دیا ہو، ان کو یاد کرے اور تو اور تیری اولاد دونوں خداوند اپنے خدا کی طرف پھریں اور اس کی بات ان سب احکام کے مطابق جو میں آج تجھ کو دیتا ہوں، اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے مانیں تو خداوند تیرا خدا تیری اسیری کو پلٹ کر تجھ پر رحم کرے گا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میں سے جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو پراگندہ کیا ہو، جمع کرے گا۔ اگر تیرے آوارہ گرد دنیا کے انتہائی حصوں میں بھی ہوں تو وہاں سے بھی خداوند تیرا خدا تجھ کو جمع کر کے لے آئے گا اور خداوند تیرا خدا اسی ملک میں تجھ کو لائے گا جس پر تیرے باپ دادا نے قبضہ کیا تھا اور تو اس کو اپنے قبضہ میں لائے گا۔ “ (استثنا ۱:۳۰۔ ۵)

اس سے واضح ہے کہ ۷۰ء میں بنی اسرائیل کو تکوینی طور پر اس مسجد کی تولیت سے محروم کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا، اس کو تشریعی حکم میں تبدیل کر کے یہود کے اس حق کو قطعی اور حتمی طور پر منسوخ کر دینا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں ہے۔

بعض اہل علم کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی بعثت کے بعد یہود کے حق میں اس وعدے کا پورا ہونا آپ پر ایمان لانے کے ساتھ مشروط ہو گیا تھا اور چونکہ آپ کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، اس لیے اس وعدے کے پورا ہونے کا امکان اب ان کے حق میں باقی نہیں رہا9، دو وجوہ سے بالکل بے معنی ہے:

ایک تو یہ کہ جب اسلامی شریعت میں یہود کو ایک مذہبی گروہ کے طور پر باقی رہنے اور اپنے مذہب پر پوری آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق دیا گیا اور ان کے مذہبی مقامات و شعائر کے احترام کی تلقین کی گئی ہے تو ان کو اپنے قبلے سے محروم کرنے کی کیا تک ہے؟ کسی مذہبی گروہ سے یہ کہنا کہ تمہیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کا تو پورا پورا حق ہے اور ہماری طرف سے تمہارے مذہبی شعائر و مقامات کو بھی پوری طرح تحفظ حاصل ہو گا لیکن اگر تم اپنے قبلے کے ساتھ کوئی تعلق باقی رکھنا اور اس میں عبادت کا حق حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمہیں اپنے مذہب سے دست برداری اختیار کر کے ہمارے مذہب میں آنا ہو گا، آخر ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟

دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت، بدیہی طور پر، صرف جزیرۂ عرب کے یہود پر ہوا تھا نہ کہ پوری دنیا کے یہودیوں پر۔ جزیرۂ عرب کے یہود دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے بنی اسرائیل کا صرف ایک حصہ تھے۔ اب یہ بات کیسے معقول اور مبنی بر انصاف ہو سکتی ہے کہ جزیرۂ عرب کے یہود پر اتمام حجت کی بنیاد پر ایشیا، افریقہ اور یورپ کے مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے ان سارے یہودیوں پر بھی تنسیخ تولیت کا فیصلہ صادر کر دیا جائے جن پر اتمام حجت تو درکنار، ابھی رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی بعثت کی خبر بھی نہیں پہنچی تھی؟

۲۔ مسجد اقصیٰ کا ذکر دوسری مرتبہ ہجرت مدینہ کے بعد تحویل قبلہ کے تناظر میں سورہ بقرہ میں ہوا ہے۔ سورہ بقرہ کے نظم کی روشنی میں دیکھیے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں حق تولیت کے حوالے سے مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے فرق کو بہت نمایاں طریقے سے واضح فرمایا ہے۔ سورۂ بقرہ کے پہلے تہائی حصے میں بنی اسرائیل کے تاریخ کے بعض اہم واقعات کے تذکرہ کے بعد سورہ کے باقی حصے میں ملت ابراہیمی میں مسجد حرام کی حیثیت اور رسول اللہ ﷺ کے مشن کے ساتھ اس کے تعلق کو ایک مربوط طریقے سے واضح کیا گیا ہے، چنانچہ بیت اللہ کی ابتدائی تاریخ کے ساتھ بعثت محمدی ﷺ کے بارے میں سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی دعا کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ کے اس اصل مشن کو واضح کرتا ہے جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ اسی ضمن میں تحویل قبلہ کا واقعہ بیان کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ ملت ابراہیمی کے اصل مرکز اور مرجع کی حیثیت مسجد حرام کو حاصل ہے نہ کہ مسجد اقصیٰ کو۔ آگے چل کر شرعی احکام و ہدایات کے سلسلہ بیان میں مشرکین کے ساتھ جہاد کا حکم دیا گیا ہے جو اس مرکز توحید کو کفر و شرک کا گڑھ بنائے ہوئے تھے اور اہل توحید کو اس میں داخل ہونے سے روکتے تھے۔ احکام و ہدایات کے اس سلسلے کے مکمل ہونے کے بعد مسلمانوں میں فتح مکہ کے لیے جہاد کا جذبہ بیدار کرنے کی غرض سے بنی اسرائیل کی تاریخ سے ایک گہری مماثلت رکھنے والا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے طالوت اور سیدنا داؤد کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا۔ اس کے بعد سورہ کے آخر تک اس جہاد ہی کے تعلق سے انفاق فی سبیل اللہ کے احکام اور اس کے آداب و شرائط کو بیان کیا گیا ہے۔ گویا بیت اللہ کی ابتدائی تاریخ سے لے کر سورہ کے آخر تک رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کا ابراہیمی مشن اور اس میں مسجد حرام کی اہمیت ایک مسلسل اور مربوط مضمون کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھ لیجیے، حق تولیت کے حوالے سے صرف مسجد حرام زیر بحث آئی ہے اور اسی کے لیے جہاد و قتال کی ترغیب دی گئی ہے۔ مسجد اقصیٰ کا ذکر ہوا ہے تو رسول اللہ ﷺ کے مشن کے تعلق سے اس کی اہمیت بیان کرنے کے لیے نہیں بلکہ، اس کے برخلاف، یہ واضح کرنے کے لیے کہ اس کو ملت ابراہیمی کے اصل مرکز کی حیثیت حاصل نہیں۔ اس کو عارضی طور پر قبلہ مقرر کرنا محض بعض وقتی مصالح کے تحت تھا، ورنہ مسلمانوں کے لیے قبلے اور مرکز کی حیثیت اول و آخر مسجد حرام کو حاصل ہے اور اسی کو مشرکین کے قبضے سے چھڑا کر توحید کا عالمی مرکز بنا دینا رسول اللہ ﷺ کے مشن کا سب سے بڑا ہدف ہے۔

علاوہ ازیں مسجد اقصیٰ کا ذکر کرتے ہوئے ’قبلتھم‘ کے الفاظ سے جس طرح اس کے ساتھ یہود کے قلبی تعلق اور وابستگی کو ایک مثبت جذبے کے طور پر نمایاں کیا گیا ہے، وہ بذات خود تنسیخ تولیت کے تصور کے خلاف ایک لطیف اشارے کی حیثیت رکھتا ہے۔

۳۔ اس باب کا سب سے اہم اور صریح بیان، جو حق تولیت کے حوالے سے ان دونوں عبادت گاہوں کے فرق کو غیر مبہم طریقے سے واضح کر دیتا ہے، سورۂ براءۃ میں وارد ہوا ہے۔ سورہ براءۃ کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ نزول کے لحاظ سے عہد نبوت کے بالکل آخری زمانے کی سورہ ہے اور اس میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم اور اسلام کے مخالف دونوں بڑے گروہوں یعنی مشرکین عرب اور اہل کتاب کے بارے میں اس حتمی پالیسی کی وضاحت کی گئی ہے جس کی پیروی اس کے بعد مسلمانوں کے لیے ضروری تھی۔ اس پالیسی کا بنیادی ہدف، جیسا کہ آیت ۳۳ میں بیان کیا گیا ہے، اس وعدۂ الٰہی کی تکمیل تھا کہ دین اسلام کو جزیرۂ عرب اور اس کے اطراف میں موجود تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے گا۔ گویا ان ہدایات کی نوعیت عبوری نہیں بلکہ حتمی اور جامع پالیسی کی ہے جس میں ان حدود (Parameters) کا پوری طرح تعین کر دیا گیا ہے جن سے کسی قسم کا کوئی تجاوز کیے بغیر مسلمانوں کو ان گروہوں کے ساتھ معاملہ کرنا ہو گا۔ اس تناظر میں اب ان ہدایات کا تقابلی جائزہ لیجیے جو مذکورہ دونوں گروہوں کے بارے میں اس سورہ میں دی گئی ہیں:

مشرکین کے حوالے سے بیان کردہ پالیسی تو تین نکات پر مبنی ہے:

ا۔ نئے معاہدات پر پابندی، چنانچہ جو مشرکین اس سے قبل معاہدے توڑتے رہے ہیں، اشہر حرم گزرنے کے بعد ان کے ساتھ کیے جانے والے تمام معاہدے منسوخ ہو جائیں گے۔ جبکہ جن مشرکین نے نقض عہد کا ارتکاب نہیں کیا، ان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے طے شدہ مدت تک پورے کیے جائیں گے، لیکن اس کے بعد کوئی نیا معاہد ہ نہیں کیا جائے گا10۔

۲۔ اسلام یا تلوار میں سے ایک کا انتخاب، یعنی اس سے قبل مشرکین کے ساتھ ’فان قاتلوكم فاقتلوهم‘ اور ’فان اعتدى عليكم فاعتدوا علیہ‘ کے اصول پر معاملہ کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا، وہ اب منسوخ ہے، چنانچہ اشہر حرم گزرنے یا معاہدوں کی مدت مکمل ہو جانے کے بعد ان کے ساتھ صلح و سلامتی یا پر امن بقائے باہمی کا معاملہ نہیں ہو گا۔ ان کے پاس ایمان لانے اور یا پھر قتل ہو جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں11۔

۳۔ کعبۃ اللہ کی تولیت اور اس میں عبادت کے حق کی حتمی اور فیصلہ کن تنسیخ، کیونکہ مشرکین کو مسجد حرام کی تولیت اور آباد کاری کا کوئی حق نہیں۔ یہ حق اہل ایمان کو حاصل ہے12۔ اسی حکم کی ایک فرع یہ ہے کہ ۹ ہجری کے بعد ان کو حج کے لیے، یا ایک رائے کے مطابق مطلقاً کسی بھی حالت میں، مسجد حرام میں داخل ہونے کی اجازت نہیں13۔

اس کے برخلاف اہل کتاب کے بارے میں بیان کردہ پالیسی صرف ایک نکتے تک محدود ہے، یعنی یہ کہ ان کے ساتھ قتال کر کے ان کو سیاسی لحاظ سے مطیع اور ذلت کے ساتھ جزیہ دینے پر مجبور کر دیا جائے14۔ اس ایک نکتے پر اکتفا کرنا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قتال کے اس مشترک حکم کے علاوہ مشرکین کے بارے میں دی جانے والی باقی دو ہدایات یعنی معاہدات پر پابندی اور خانہ خدا کے حق تولیت کی تنسیخ کا اطلاق اہل کتاب پر نہیں ہوتا۔

سورۂ براءۃ کی آیات سے یہ استدلال ہماری اصل تحریر میں چونکہ نہایت اجمال کے ساتھ بیان ہوا تھا، اس وجہ سے بعض ناقدین اس کو سمجھنے سے قاصر رہے اور انہوں نے اس کے جواب میں یہ نکتہ پیش کر دیا کہ ایک مقام پر کسی حکم کے عدم ذکر سے حکم کی بالکلیہ نفی لازم نہیں آتی، حالانکہ یہ بات سورہ براءة کے نظم پر عدم تدبر اور زبان و بیان کے اسالیب سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سورہ براءۃ میں اختیار کیے جانے والے اس اسلوب کی وضاحت کر دی جائے جس پر ہمارا استدلال مبنی ہے۔

سورہ کے نظم کو بیک نظر سامنے لائیے تو معلوم ہو گا کہ اس کے مضامین واضح طور پر تین حصوں میں تقسیم ہیں:

ا۔ آیت اسے آیت ۲۷ تک مشرکین کی فرد جرم اور ان پر نافذ کردہ سزا کی مختلف دفعات زیر بحث آئی ہیں۔

۲۔ آیت ۲۹ سے آیت ۳۵ تک اہل کتاب کے جرائم اور ان سے متعلق پالیسی کی وضاحت کی گئی ہے۔

۳۔ چونکہ مذکورہ دونوں گروہوں کے ساتھ جہاد و قتال کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے آیت ۳۸ سے سورہ کے آخر تک مسلمانوں کو جہاد و قتال کی ترغیب نیز کمزور مدعین ایمان اور منافقین کے جہاد سے اعراض اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے زجر و توبیخ کے مضامین بیان ہوئے ہیں۔

نظم کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو مشرکین اور اہل کتاب کے بارے میں، ان کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے، الگ الگ ہدایات دینا مطلوب تھا، اس لیے اس نے ان کے احکام میں فرق کو واضح کرنے کے لیے ’تقابل‘ کے اسلوب میں انہیں بالترتیب دو الگ الگ اور متوازی گروہوں کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ امام رازیؒ اس اسلوب کی معنویت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اعلم انه تعالى لما ذكر حكم المشركين فی اظهار البراءة عن عهدهم وفى اظهار البراءة عنهم فی انفسهم وفی وجوب مقاتلتهم وفی تبعيدهم عن المسجد الحرام و اورد الاشكالات التی ذكروها واجاب عنها بالجوابات الصحيحة ذكر بعدہ حکم اهل الكتاب وهو ان يقاتلوا الى ان يعطوا الجزية۔ (مفاتح الغیب، ۱۰/ ۲۷)
والمقصود تمييزهم من المشركين فی الحكم لان الواجب فی المشركين القتال او الاسلام و الواجب فی اهل الكتاب القتال او الاسلام او الجزية۔ (۱۰/ ۳۰)
”جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے جب مشرکین کے بارے میں یہ احکام بیان کر دیے کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے منسوخ ہیں، ان کی جانوں کو کوئی امان حاصل نہیں، ان کے ساتھ لڑنا فرض ہے اور یہ کہ انہیں مسجد حرام سے دور کر دیا جائے، اور ان اشکالات کا ذکر کے جو انہوں نے وارد کیے تھے، ان کے ٹھیک ٹھیک جواب بھی دے دیے تو اس کے بعد اہل کتاب کے بارے میں یہ حکم دیا کہ ان سے لڑائی کی جائے یہاں تک کہ وہ جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ ..... اس اسلوب کا مقصد یہ ہے کہ ان کے اور مشرکین کے حکم میں فرق کو واضح کیا جائے، کیونکہ مشرکین کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ اسلام لے آئیں ورنہ ان سے قتال کیا جائے گا، جبکہ اہل کتاب کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جزیہ ادا کر دیں (اور اپنے مذہب پر قائم رہیں)۔ “

مختلف افراد اور صورتوں کے احکام میں فرق کو تقابل کے اس اسلوب میں واضح کرنے کا بلاغت کے اعتبار سے ایک نمایاں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں تکرار کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ چنانچہ اگر ایک صورت میں کسی حکم کا اثبات اور دوسری صورت میں اس کی نفی مقصود ہو تو ایک جگہ اس کا ذکر کر کے دوسری جگہ سکوت اختیار کر لینا ہی وہاں اس کی نفی کی دلیل بن جاتا ہے اور صراحتاً اس کی نفی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ مثال کے طور پر کوئی عدالت اگر کسی فوجداری مقدمے میں دو ملزموں کو سزا سناتے ہوئے یہ قرار دے کہ ان میں سے ایک مجرم کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے، اس کی املاک و جائیداد ضبط کر لی جائے اور اس سے دس لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا جائے، جبکہ دوسرے مجرم کی سزا میں صرف یہ بات بیان کرے کہ اس سے پانچ لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا جائے تو کسی عاقل کو یہ بات سمجھنے میں کوئی تردد نہیں ہو گا کہ پھانسی پر چڑھانے اور املاک و جائیداد کی ضبطی کا جو حکم پہلے مجرم کے لیے دیا گیا ہے، دوسرا مجرم اس سے مستثنیٰ ہے، اس لیے کہ تقابل کے اسلوب میں ایک کے لیے کسی سزا کا ذکر کرنا اور دوسرے کے لیے نہ کرنا اس استثنا کی قطعی دلیل ہے۔ اس اسلوب میں عدم ذکر سے مقصود ہی عدم حکم کو واضح کرنا ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ عدم ذکر سے عدم حکم لازم نہیں آتا تو ظاہر ہے کہ یہ صریح جہالت پر مبنی استدلال ہو گا۔

خود قرآن و حدیث میں اس اسلوب کی نہایت واضح مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سورۂ نساء کی آیت ۹۲ میں قتل خطا کی مختلف صورتوں کے احکام بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے فرمایا ہے:

وما کان لمومن ان یقتل مومنا الا خطأ و من قتل مومنا خطأ فتحریر رقبۃ مومنۃ و دیۃ مسلمۃ الی اهله الا ان یصدقوا فان کان من قوم عدو لکم و هو مومن فتحریر رقبۃ مومنۃ وان کان من قوم بینکم و بینھم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ و تحریر رقبۃ مومنۃ۔
”کسی مومن کے لیے روا نہیں کہ وہ دوسرے مومن کو قتل کر دے، الا یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے۔ جو شخص کسی مومن کو بلا ارادہ مار ڈالے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرے اور مقتول کے عزیزوں کو دیت ادا کرے، الا یہ کہ وہ معاف کر دیں۔ اور اگر مقتول کا تعلق کسی دشمن قوم سے ہے اور وہ خود مومن تھا تو قاتل کے ذمے صرف ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اور اگر اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جس کے ساتھ تمہارا عہد و پیمان ہے تو پھر اس کے عزیزوں کو دیت بھی ادا کی جائے اور ایک مسلمان غلام کو بھی آزاد کیا جائے۔“

یہاں قتل خطا کی تین صورتیں بیان ہوئی ہیں: ایک یہ کہ مقتول دار الاسلام کا باشندہ ہو۔ دوسری یہ کہ وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کا فرد ہو جس کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہیں۔ تیسری یہ کہ اس کا تعلق کسی ایسی غیر مسلم قوم سے ہو جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہے۔ پہلی اور تیسری صورت میں اللہ تعالیٰ نے کفارۂ قتل میں دو چیزیں لازم قرار دی ہیں، ایک دیت کی ادائیگی اور دوسرے ایک مومن غلام کو آزاد کرنا، جبکہ دوسری صورت میں صرف ایک چیز کا ذکر کیا ہے یعنی ایک مسلمان غلام کی آزادی۔ یہاں دیکھ لیجیے، اس صورت میں دیت کا ذکر نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس صورت میں دیت کی ادائیگی لازم نہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

البكر بالبكر جلد مائة ونفى سنة والثيب بالثيب جلد مائة والرجم۔ (مسلم، الحدود، ۳۱۹۹)
”کنوارا مرد کنواری عورت سے زنا کرے تو سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، جبکہ شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو سزا سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے۔“

یہاں بھی دیکھ لیجیے، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانیوں کی سزا میں فرق بیان کرنا مقصود ہے، اور اس کے لیے تقابل کا یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ کنوارے زانی کی سزا میں ’تغریبِ عام‘ کا ذکر ہے، لیکن شادی شدہ کی سزا میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس طرح شادی شدہ زانی کی سزا میں ’رجم‘ کا ذکر ہے جس کا کنوارے زانی کی سزا میں ذکر نہیں کیا گیا۔ دونوں جگہ عدم ذکر ہی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ تغریب عام کی سزا شادی شدہ زانی کو جبکہ رجم کی سزا غیر شادی شدہ زانی کو دینا مقصود نہیں۔

اسلوب کی اس وضاحت کے بعد اب اس کی روشنی میں سورہ براءت کی زیر بحث آیات کا مطالعہ کیجیے تو صاف واضح ہو گا کہ مشرکین کے بارے میں معاہدات پر پابندی، قبول اسلام تک قتال، اور کعبۃ اللہ کے حق تولیت و عبادت کی تنسیخ پر مبنی تین نکاتی پالیسی بیان کرنے کے بعد اہل کتاب کے بارے میں صرف ایک حکم یعنی جزیہ کی ادائیگی تک قتال پر اکتفا کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ قتال کے اس مشترک حکم کے علاوہ معاہدات پر پابندی اور خانہ خدا کے حق تولیت کی تنسیخ کے جو دو حکم مشرکین کے لیے بیان کیے گئے ہیں، اہل کتاب ان کے دائرۂ اطلاق سے خارج ہیں۔


سطور بالا میں ہم نے جو بحث کی ہے، اس سے یہ بات تو بالکل مبرہن ہو جاتی ہے کہ ملت ابراہیمی سے انحراف کی مماثلت کے باوجود قرآن مجید نے خانہ خدا کی تولیت کے حوالے سے مشرکین اور یہود کے ساتھ ایک جیسا معاملہ نہیں کیا، تاہم ہمارا خیال ہے کہ اس فرق کی نظری اور عملی حکمتوں کی وضاحت کے بغیر یہ بحث، غالباً، مکمل نہیں ہو گی۔ ذیل میں ہم ان متعلقہ نکات کی تفصیل کریں گے جن کی طرف ہم نے اصل تحریر میں محض اشارہ کر دینے پر اکتفا کی تھی۔

ہماری رائے میں بیت الحرام سے مشرکین بنی اسماعیل کے حق تولیت کی تنسیخ کے حکم کو محیط تین پہلو ایسے ہیں جو مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے مابین قرآن مجید کے قائم کردہ مذکورہ امتیاز کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں:

ایک، ملت ابراہیمی میں کعبۃ اللہ کا مقام اور حیثیت،

دوسرے، ملت ابراہیمی سے بنی اسماعیل کے انحراف کی نوعیت،

اور تیسرے، بنی اسماعیل پر اتمام حجت کی نوعیت۔

پہلے نکتے کو لیجیے:

’مسجد حرام‘ وہ سب سے پہلا گھر ہے جسے خدائے واحد کی عبادت کے لیے اس سرزمین پر تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر ملت ابراہیمی کے بانی سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے خود کی اور اس کے اندر نماز، اعتکاف، قربانی اور حج جیسی عبادات کے تمام رسوم بھی انہوں نے اللہ کی راہنمائی میں خود متعین فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت گاہ کو آل ابراہیم کے لیے ایک روحانی مرکز اور مرجع قرار دیا اور اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دور و نزدیک علاقے کے لوگوں کو سفر کر کے اس میں حاضر ہونے اور مختلف عباداتی رسوم ادا کرنے کی دعوت دی۔ ملت ابراہیمی کی اساس پر بننے والی دنیا کی تمام عبادت گاہوں کی اصل اور ان کے قبلہ کی حیثیت اسی مسجد کو حاصل ہے۔ مولانا حمید الدین فراہیؒ کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل کے عارضی قبلہ یعنی ’خیمہ اجتماع‘ اور مستقل قبلہ یعنی ’مسجد اقصیٰ‘ دونوں کو ’مسجد حرام‘ کے تابع قرار دے کر ان کے نقشہ تعمیر میں یہ بات ملحوظ رکھی گئی تھی کہ ان کا رخ جنوب یعنی مکہ مکرمہ کی جانب ہو۔ خیمہ اجتماع اور مسجد اقصیٰ کے مقدس ترین مقام یعنی ’قدس الاقداس‘ کا رخ بھی جنوب کی جانب تھا۔ علاوہ ازیں یہود کو یہ حکم تھا کہ ان کی بڑی قربانیوں کا رخ بھی جنوب ہی کی طرف ہونا چاہیے15۔ خود انبیائے بنی اسرائیل کی وابستگی بھی مسجد حرام کے ساتھ باقاعدہ قائم رہی، چنانچہ سیدنا موسیٰ اور سیدنا یونس علیہما السلام کے بارے میں تو مستند روایات میں یہ ذکر ہے کہ وہ بیت اللہ کے حج کے لیے حاضر ہوئے16، جبکہ بعض غیر مستند روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ بیت اللہ کی تعمیر کے بعد دنیا میں کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو اس کی زیارت و طواف کے لیے حاضر نہ ہوا ہو17۔ گویا اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں یہ بات روز اول سے طے شدہ تھی کہ توحید کی دعوت کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے مرکز کی حیثیت اسی عبادت گاہ کو حاصل ہو گی۔ چنانچہ اس کی تولیت بنی اسماعیل کے سپرد کی گئی جن میں، سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی دعا کے مطابق، اس آخری پیغمبر کو مبعوث ہونا تھا جو ملت ابراہیمی کی دعوت توحید کو آل ابراہیم کے محدود دائرے سے نکال کر اقوام عالم تک پہنچانے کے سلسلے کا آغاز فرمائے۔ قرآن مجید نے بیت اللہ کی تاریخ کے یہ تمام پہلو نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔

اس کے برعکس مسجد اقصیٰ کی حیثیت محض بنی اسرائیل کے قومی قبلہ اور مرکز عبادت کی تھی۔ مسجد حرام کے بالکل برعکس، دعوت توحید کے عالمی سطح پر ابلاغ میں اس مسجد کا کوئی بنیادی کردار نہ اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں مقرر کیا گیا تھا، نہ اس کے بنانے والوں کے ذہن میں اس کا کوئی تصور موجود تھا اور نہ عملاً اس کو ایسا کوئی مقام تاریخ میں کبھی حاصل ہوا۔ مولانا قاری محمد طیبؒ اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”حق تعالیٰ کی حکمت و قدرت کا کرشمہ تھا کہ یہ دعوت گو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ خیر و برکت میں عرفی اور تبلیغی انداز سے پوری دنیا تک نہ پہنچ سکی لیکن حکمت الٰہی نے انہیں کے ذریعہ اس دعوت کو ایک خاص تکوینی انداز سے عالمگیر بنا دینے کی صورت میں انہیں کے ہاتھوں سے قائم فرما دی اور وہ یہ کہ انہوں نے بامر خداوندی اس دنیا میں وہ مرکز رشد و ہدایت قائم فرما دیا جو اس دعوت عامہ کے لیے مرکز نشر و اشاعت اور مرکز توحید و اتحاد بننے والا تھا۔ اور وہ کعبہ مقدسہ تھا جس کی تعمیر کا انہیں امر دیا گیا اور اس طرح اس دعوت کے عموم کی اساس و بنیاد قائم ہو گئی۔ دوسرا مرکز آپ ہی نے فلسطین میں (ارض مقدسہ میں) قائم فرمایا یعنی مسجد اقصیٰ کی بنیاد ڈالی تاکہ بنی اسرائیل ملت ابراہیمی سے ہٹنے نہ پائیں۔ اور اگر وہ اسے آگے نہ بھی بڑھا سکیں تو کم سے کم اس عبادت گاہ کی بدولت خود تو اس ملت پر جمے رہیں، اس لیے مسجد اقصیٰ کی خدمت اور تولیت ان ہی کی اولاد میں بنی اسرائیل کے حصہ میں آئی جو فلسطین میں آباد ہوئے۔ مگر یہ اک حقیقت ہے کہ حضرت خلیل اللہ کو اس دعوت ابراہیمی یا ملت ابراہیمی کو عالمی انداز سے پھیلانے کی جو توقعات بیت اللہ کے راستے سے حجاز مقدس اور بنی اسماعیل سے قائم ہوئیں، وہ مسجد اقصیٰ کے راستے فلسطین میں بنی اسرائیل سے قائم نہیں ہوئیں۔ یعنی ان کے ذہن مبارک میں حقیقی مرکز ارشاد و ہدایت کعبہ مقدس تھا، مسجد اقصیٰ نہ تھی۔ (مقامات مقدسہ اور اسلام کا اجتماعی نظام، ۷۲، ۷۳)
”کعبہ واقصیٰ کو برکت و ہدایت کا گھر بھی ایک ہی انداز سے بتایا گیا۔ فرق اتنا ہے کہ کعبہ کی برکت و ہدایت ’هدی للعالمین‘ سے عالم گیر بتلائی گئی جس سے برکت و ہدایت کی لاتحدیدی نمایاں ہے، اور اقصیٰ کی برکت و ہدایت کے ساتھ ’الذی باركنا حولہ‘ فرمایا گیا جس میں ہمہ گیری کا ذکر نہیں بلکہ ماحول کی قید سے مقامیت عیاں ہے۔“ (ایضاً، ص ۳۶۰)

دونوں عبادت گاہوں کے مقام اور حیثیت میں یہ فرق اسلامی شریعت کے احکام میں بھی پوری طرح نمایاں ہے۔

✩ مسجد حرام کو تو اسلامی شریعت میں نماز کے لیے قبلہ بھی مقرر کیا گیا ہے اور حج اور قربانی جیسی عبادات کے لیے مرکز بھی، جبکہ مسجد اقصیٰ کو ان میں سے کوئی ایک شرف بھی حاصل نہیں۔ اس ایک فرق کے سوا کہ اس میں عبادت کا ثواب عام مساجد سے ڈھائی سو گنا زیادہ ہے، اس میں اور باقی مساجد میں درجے یا احکام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔

✩ مسجد حرام کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے کو، اسی خصوصی حیثیت کی وجہ سے، شریعت میں ’حرم‘ کی حیثیت حاصل ہے جہاں مخصوص پابندیوں کا اہتمام لازمی ہے اور جس میں غیر مسلموں کا قیام عارضی وجوہ کے علاوہ جائز نہیں، جبکہ مسجد اقصیٰ اور اس کے ارد گرد علاقے کو اس طرح کا کوئی خصوصی امتیاز حاصل نہیں۔

✩ مسجد حرام کے مقام و مرتبہ، اس کی خصوصی حیثیت اور اس میں عبادت کی فضیلت سے، ظاہر ہے، کوئی مسلمان ناواقف نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ قرآن و سنت کے نصوص اور دین کے تواتر عملی سے یہ چیز کسی شک و شبہے کے بغیر ثابت ہے۔ اس کے برخلاف مسجد اقصیٰ میں عبادت کے اجر و ثواب کا ذکر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے بعض صحابہ کے سامنے محض انفرادی طور پر کیا۔ آپ کا یہ ارشاد امت تک تواتر کے طریقے سے نہیں بلکہ اخبار آحاد کے ذریعے سے نقل ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اکابر صحابہ بھی، جن کا ذکر ہم اصل تحریر میں باحوالہ کر چکے ہیں، اس مسجد کی کسی خصوصی فضیلت اور اہمیت سے آشنا نہیں تھے۔

✩ روایات کی رو سے عبادت کی نیت سے باقاعدہ سفر کر کے جانا تو ان دونوں عبادت گاہوں کی طرف مشروع ہے لیکن اگر آدمی مسجد حرام یا مسجد نبوی میں نماز ادا کر سکتا ہو تو مسجد اقصیٰ کے سفر کی منت مان لینے کے باوجود اس کو پورا کرنا لازم نہیں۔ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک شخص سے، جس نے بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی، فرمایا کہ تم یہیں مسجد حرام میں نماز پڑھ لو، تمہاری منت پوری ہو جائے گی18۔ اسی طرح ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک خاتون کو، جو بیت المقدس کے سفر کے لیے تیار تھی، روک دیا اور فرمایا کہ یہیں مسجد نبوی میں نماز ادا کر لو19۔

دونوں عبادت گاہوں کے درجے اور احکام میں پائے جانے والے ان اصولی اور فروعی فروق کو حق تولیت کے معاملے میں کسی طرح سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ اس پر بھی نہایت گہرے طور سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ مسجد حرام کو رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی بعثت خاصہ اور بعثت عامہ دونوں کے مقاصد اور اہداف کے مرکز و محور کی حیثیت حاصل تھی۔ آپ کی بعثت خاصہ بنی اسماعیل کی طرف ہوئی تھی اور آپ کا اصل مشن بنی اسماعیل میں توحید کا احیا اور شرک کی بیخ کنی تھا۔ بعثت عامہ کے لحاظ سے آپ کی ذمہ داری یہ تھی کہ ابراہیمی مرکز توحید کو اپنی اصل حیثیت میں بحال کر کے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مشن کا عالمی سطح پر احیا فرما دیں۔ چونکہ اس مرکز یعنی مسجد حرام پر مشرکین قابض تھے اور ان کے قبضے سے اس کو واگزار کرائے بغیر ان دونوں بعثتوں کے اہداف کی تکمیل کی کوئی صورت ممکن نہیں تھی، اس لیے مشرکین کے حق تولیت کا ابطال اس سارے معاملے میں ایک ناگزیر اقدام کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے مقابلے میں اس طرح کی کوئی اہمیت، رسول اللہ ﷺ کے مشن کے حوالے سے، مسجد اقصیٰ کو حاصل نہیں تھی، چنانچہ اس کے حق تولیت سے یہود کو محروم کرنے کا کوئی عملی محرک اور ضرورت بھی موجود نہیں تھی۔

اب دوسرے نکتے کو لیجیے:

آل ابراہیم کی دونوں شاخیں، جیسا کہ اوپر واضح ہوا، ملت ابراہیمی کی اصل تعلیمات و ہدایات سے منحرف ہو گئی تھیں، تاہم دونوں گروہوں کے انحراف میں ایک واضح فرق تھا۔ بنی اسمٰعیل کا انحراف تو، جیسا کہ قرآن مجید کے نصوص سے واضح ہے، یہ تھا کہ وہ ملت ابراہیمی کی اصل اساس یعنی توحید ہی کے صاف منکر ہو چکے تھے اور ’شرک‘ کو باقاعدہ اعتراف و اقرار کے ساتھ بطور مذہب اختیار کر چکے تھے۔ وہ ایک ’الٰہ‘ کی نہیں بلکہ متعدد ’آلہہ‘ کی عبادت کے قائل تھے اور صرف خدائے واحد کی عبادت کا تصور ان کے لیے اچنبھے کا باعث تھا:

انھم کانوا اذا قیل لھم لا الہ الا اللہ یستکبرون ویقولون ائنا لتارکوا الھتنا لشاعر مجنون۔ (الصافات ۳۵، ۳۶)
”ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں، کیا ہم ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں؟“
أجعل الاٰلھۃ الٰھا واحدا ان ھذا لشیء عجاب۔ (ص۔ ۵)
”کیا اس (پیغمبر) نے سب خداؤں کی جگہ ایک ہی خدا کو مان لیا؟ یہ تو ایک بڑی ہی انوکھی بات ہے۔“

ان کے ’شرک‘ کے اسی پہلو کو قرآن مجید نے ’شاهدين علىٰ انفسهم بالكفر‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ مولانا اصلاحیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”کفر سے مراد یہاں ان کا شرک ہی ہے۔ شرک کو کفر سے تعبیر کر کے دین کی یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ شرک کے ساتھ خدا کو ماننا بالکل اس کے نہ ماننے کے ہم معنی ہے۔ خدا کا ماننا صرف وہ معتبر ہے جو توحید کے ساتھ ہو، بالخصوص اس شرک کے ساتھ تو ایمان باللہ کے جمع ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے جس کا کھلم کھلا اقرار و اظہار ہو۔ مشرکین عرب کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے ہاں شرک کی نوعیت یہ نہیں تھی کہ ان کے کسی قول یا عمل سے شرک ایک لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتا ہو بلکہ شرک کو بطور دین اور عقیدہ کے انہوں نے اختیار کیا تھا۔ یہ ان کے تصور الوہیت کا ایک غیر منفک حصہ تھا۔ “ (تدبر قرآن، ۳ / ۱۴۰)

اس کے برخلاف اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ بے شمار اعتقادی اور عملی گمراہیوں میں مبتلا ہونے اور بہت سے مشرکانہ تصورات و اعمال سے آلودہ ہونے کے باوجود اصولی طور پر ’توحید‘ ہی کے علمبردار تھے اور اپنے مشرکانہ تصورات و اعمال کو مختلف تاویلات کے ذریعے سے ’توحید‘ کے منافی تصور نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے مسلمانوں اور اہل کتاب کے مابین ’توحید‘ کو ایک مشترک اساس کے طور پر تسلیم کیا اور اسی کی بنیاد پر انہیں اپنے مشرکانہ تصورات و اعمال کو چھوڑ دینے کی دعوت دی:

یا اهل الکتاب تعالوا الى کلمۃ سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا الله و لا نشرک به شیئا و لا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله۔ (آل عمران: ۶۴)
”اے اہل کتاب، آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے مابین یکساں مسلم ہے، یعنی یہ کہ ہم نہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت کریں، نہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کچھ لوگ دوسرے لوگوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیں۔ “

مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اہل کتاب آسمانی صحیفوں کے حامل ہونے کے سبب سے توحید کی تعلیم سے اچھی آشنا بھی تھے اور اس کے علمبردار ہونے کے مدعی بھی۔ ان کے صحیفوں میں نہایت واضح الفاظ میں توحید کی تعلیم موجود تھی۔ انہوں نے اگر شرک اختیار کیا تھا تو اس وجہ سے نہیں کہ ان کے دین میں شرک کے لیے کوئی گنجائش تھی بلکہ اپنے نبیوں اور صحیفوں کی تعلیمات کے بالکل خلاف محض بدعت کی راہ سے انہوں نے یہ چیز اختیار کی اور پھر متشابہات کی پیروی کرتے ہوئے، جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں، اس کے حق میں الٹی سیدھی دلیلیں گھڑنے کی کوشش کی۔ قرآن نے ان کو دعوت دی کہ یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مسلم ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی کی بندگی کی جائے، نہ اس کا کسی کو ساجھی ٹھہرایا جائے اور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو رب ٹھہرائے، پھر اس مسلم و مشترک حقیقت کے برخلاف تم نے خدا کی عبادت میں دوسروں کو شریک کیوں بنا رکھا ہے اور اپنے احبار اور رہبان اور فقیہوں صوفیوں کو ’اربابا من دون اللہ‘ کا درجہ کیوں دے دیا؟“ (تدبر قرآن، ۲/ ۱۱۲)

چنانچہ قرآن مجید نے دونوں گروہوں کے انحراف و گمراہی کو واضح کرتے ہوئے یہ بات تو واشگاف انداز میں بیان فرمائی کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ نسبت قائم کرنے اور ان کی ملت پر عمل پیرا ہونے کے دعوے میں دونوں گروہ جھوٹے ہیں، لیکن انحراف کی نوعیت میں مذکورہ فرق کی بنا پر دونوں کے ساتھ عملی معاملہ میں چند واضح امتیازات بھی قائم کر دیے:

ا۔ ایک یہ کہ وہ ’مشرکین‘ کا لقب خاص طور پر بنی اسمٰعیل ہی کے لیے استعمال کرتا اور ’اہل کتاب‘ کو مشرکین کے زمرے میں شمار کرنے کے بجائے ہر جگہ اہتمام کے ساتھ ان کا ذکر ’مشرکین‘ سے الگ ایک مستقل گروہ کے طور پر کرتا ہے20۔

۲۔ مشرکین کے حوالے سے تو، ان کے عقیدۂ شرک کی نجاست کو واضح کرنے کے لیے، یہ حکم دیا گیا کہ ان کا ذبیحہ کسی حال میں جائز نہیں، چاہے وہ اللہ کا نام لے کر جانور کو ذبح کریں۔ اس کے برخلاف اہل کتاب کے ان ذبائح کو جنہیں وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کریں، مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیا گیا21۔

۳۔ اسی بنیاد پر مشرک عورتوں سے نکاح تو مسلمانوں کے لیے حرام لیکن اہل کتاب کی پاک دامن عورتوں کے ساتھ نکاح مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیا گیا22۔

ان دونوں حوالوں سے اہل کتاب اور مشرکین کے مابین امتیاز کی وجہ واضح طور پر ’شرک‘ تھی، اسی وجہ سے فقہاء یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مجوس بھی مشرکین عرب کی طرح ’شرک‘ کے صریحاً اور اعترافاً قائل ہیں، اس لیے ان کے ذبیحہ اور ان کے ساتھ نکاح کا حکم بھی وہی ہے جو مشرکین کا ہے۔ سرخسیؒ اہل کتاب اور مجوس میں اس فرق کی علت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وهذا لان المجوس يدعون الاهين فلا يصح منهم تسمية الله على الخلوص وهو شرط حل الذبيحة واهل الكتاب يظهرون التوحيد وان كانوا يضمرون فی ذلک شرکا۔ (شرح السیر الکبیر، ۱/ ۱۴۶)
”اس کی وجہ یہ ہے کہ مجوسی دو خداؤں کے قائل ہیں لہٰذا وہ ذبیحہ پر خالص اللہ کا نام نہیں لے سکتے جو کہ ذبیحہ کے حلال ہونے کی شرط ہے۔ اس کے برخلاف اہل کتاب اصولاً توحید کے قائل ہیں اگرچہ اس میں وہ شرک کی ملاوٹ کر دیتے ہیں۔“

اسی فرق پر یہ فقہی جزئیہ بھی مبنی ہے کہ اگر کوئی بت پرست ’لا الہ الا اللہ‘ کا کلمہ کہہ دے تو یہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے کافی ہو گا، لیکن اگر کوئی یہودی یا عیسائی ’لا الہ الا اللہ‘  کہہ دے تو اس کے مسلمان ہونے کے لیے اتنا کافی نہیں ہو گا۔ فقہاء نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل کتاب چونکہ قبول اسلام سے پہلے ہی توحید کے قائل ہیں، اس لیے ان کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے لیے کلمہ توحید کا اقرار کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ انہیں ’محمد رسول اللہ‘ کا بھی اقرار کرنا ہو گا23۔

اس تفصیل کے بعد اب یہ دیکھیے کہ قرآن مجید نے مسجد حرام سے مشرکین کے حق تولیت کی تنسیخ کی بنیادی علت ان کے ’شرک‘ کو قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کے نصوص سے یہ علت اتنے غیر مبہم طریقے سے واضح ہے کہ حکم کے پس منظر پر روشنی ڈالنے والے کم و بیش تمام مفسرین نے اس کو نمایاں کیا ہے۔ ابوبکر الجصاصؒ فرماتے ہیں:

المومنون .... اولى بالمسجد الحرام من الكفار لقوله انما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر فاعلمهم الله ان الكفر بالله وبالمسجد الحرام وهو ان الله جعل المسجد للمومنين ولعبادتهم اياه فيه فجعلوه لاوثانهم ومنعوا المسلمين منه فكان ذلك كفرا بالمسجد الحرام۔ (احکام القرآن، ۱/ ۴۴۰)
”اہل ایمان مسجد حرام پر کفار سے زیادہ حق رکھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مساجد کو آباد کرنے کا حق انہی لوگوں کو حاصل ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو بتایا ہے کہ وہ اللہ اور مسجد حرام دونوں کے ساتھ کفر کے مرتکب ہیں، کیونکہ اللہ نے تو مسجد اہل ایمان کے لیے بنائی تھی تاکہ وہ اس میں خالص اللہ کی عبادت کریں جبکہ ان مشرکین نے اس کو ایک بت کدہ بنا کر مسلمانوں کو اس میں عبادت کرنے سے روک دیا ہے اور اس طرح مسجد حرام کی حرمت کو بٹہ لگا دیا ہے۔ “

بقاعیؒ لکھتے ہیں:

(شاهدين على انفسهم) اى التی هی معدن الارجاس والاهوية (بالكفر) ای باقرارهم لانه بیت الله وهم يعبدون غير الله وقد نصبوا فيه الاصنام بغير اذنه وادعوا انها شركاؤه فاذن عمارتهم تخريب لتنافی عقدهم وفعلهم۔ (نظم الدرر، ۳/ ۲۸۲)
”ان کے نفوس جو کہ نجاستوں اور خواہشات کی آماج گاہ ہیں، یوں اپنے کفر کی گواہی خود دیتے ہیں کہ یہ اقرار کرنے کے بعد کہ یہ ’اللہ کا گھر‘ ہے، یہ اس میں غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کی اجازت کے بغیر انہوں نے اس میں بت نصب کر رکھے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کے شریک ہیں۔ ان کا اس مسجد کو آباد کرنا درحقیقت اس کو ویران کرنا ہے، کیونکہ ان کا قول اور ان کا فعل باہم بالکل متضاد ہیں۔“

ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:

يقول تعالى: ما ينبغی للمشركين بالله ان يعمروا مساجد الله التی بنيت على اسمه وحده لا شریک له ومن قرا مسجد الله فاراد به المسجد الحرام اشرف المساجد فی الارض الذی بنى من اول يوم على عبادة الله وحده لا شریک له و اسسه خلیل الرحمن هذا وهم شاهدون على انفسهم بالكفر۔ (تفسیر القرآن العظیم، ۲/ ۳۴۰)
”اللہ کا ارشاد ہے کہ مشرکین کو یہ حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو، جو اللہ وحدہ لاشریک کے نام پر بنائی گئی ہیں، آباد کریں۔ اگر اس لفظ کو ’مساجد اللہ‘ کے بجائے ’مسجد اللہ‘ پڑھا جائے تو اس سے مراد مسجد حرام ہو گی جو کہ روئے زمین کی سب سے زیادہ محترم مسجد ہے اور جس کی تعمیر روز اول سے اللہ کے خلیل نے اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کے لیے کی تھی۔ لہٰذا شرک کے قائل ہونے کی وجہ سے مشرکین اس عبادت گاہ پر کوئی حق نہیں رکھتے۔“

آلوسیؒ لکھتے ہیں:

وما كانوا اولياءه اى وما كانوا مستحقين ولاية المسجد الحرام مع شركهم .... ان اولیاؤه ای ما اولياء المسجد الحرام الا المتقون من الشرک الذی لا يعبدون فيه غيره تعالى۔“ (روح المعانی، ۹/ ۲۰۲)
”مشرکین اپنے شرک کے ساتھ مسجد حرام کی تولیت کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ یہ حق تو ان لوگوں کو حاصل ہے جو شرک سے بچیں اور اس مسجد میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔“

ابو حیان الاندلسیؒ فرماتے ہیں:

ومعنى الآية ..... ان الكافرين بالله هم الظالمون ظلموا انفسهم بترك الایمان بالله وبما جاء به الرسول وظلموا المسجد الحرام الذی جعله الله متعبدا له فجعلوه متعبدا لاوثانهم۔ (البحر المحیط، ۵/ ۲۰)
”آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا انکار کرنے والے ظالم ہیں۔ انہوں نے اللہ اور رسول پر ایمان نہ لا کر اپنے آپ پر بھی ظلم کیا ہے اور مسجد حرام کو، جو خالص اللہ کی عبادت کے لیے قائم ہوئی تھی، اپنے بتوں کی عبادت گاہ بنا کر اس پر بھی ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۔“

ابو السعودؒ لکھتے ہیں:

شاهدين على انفسهم بالکفر ای باظهار آثار الشرك من نصب الاوثان حول البيت والعبادة لها فان ذلك شهادة صريحة على انفسهم بالكفر۔ (۲/ ۲۵۹)
”مشرکین اپنے کفر کے خود گواہ ہیں کیونکہ انہوں نے بیت اللہ کے ارد گرد بت نصب کر رکھے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ ان کی طرف سے اپنے کفر کی کھلی گواہی ہے۔“

خود مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے ’ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد الله‘ کی تشریح میں مشرکین سے مسجد حرام کی تولیت چھینے جانے کے حکم کی اس علت کو بہت خوبی سے واضح کیا ہے:

”مشرکین کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں اس عام سے مراد قریش ہیں جو بیت اللہ کی تولیت کے مدعی تھے۔ نام کے بجائے وصف سے ان کے ذکر کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ یہ حکم عام ہو جائے اور اس کی علت بھی واضح ہو جائے۔ مساجد اللہ سے مراد اگرچہ مسجد حرام ہی ہے، چنانچہ آیت ۱۹ میں اس کی وضاحت بھی ہو گئی ہے لیکن اس کو جمع کے لفظ سے تعبیر فرمایا اس لیے کہ مسجد حرام کا معاملہ تنہا مسجد حرام ہی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ تمام مساجد الٰہی کا معاملہ ہے۔ یہی تمام مساجد کی اصل، سب کا مرکز و محور اور سب کا قبلہ ہے۔ اس کے انتظام و انصرام، اس کے مقصد اور اس کی دعوت میں کوئی فساد پیدا ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ تمام ہدایت و سعادت اور ساری خیر و برکت کا مرکز ہی درہم برہم ہو گیا۔ فرمایا کہ مشرکین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسجد حرام کے، جو تمام مساجد الٰہی کا مرکز اور قبلہ ہے، منتظم بنے رہیں جبکہ وہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں۔ کفر سے مراد یہاں ان کا شرک ہی ہے۔ شرک کو کفر سے تعبیر کر کے دین کی یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ شرک کے ساتھ خدا کو ماننا بالکل اس کے نہ ماننے کے ہم معنی ہے۔ خدا کا ماننا صرف وہ معتبر ہے جو توحید کے ساتھ ہو۔ بالخصوص اس شرک کے ساتھ تو ایمان باللہ کے جمع ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے جس کا کھلم کھلا اقرار و اظہار ہو۔ مشرکین عرب کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے ہاں شرک کی نوعیت یہ نہیں تھی کہ ان کے کسی قول یا عمل سے شرک ایک لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتا ہو بلکہ شرک کو بطور دین اور عقیدہ کے انہوں نے اختیار کیا تھا۔ یہ ان کے تصور الوہیت کا ایک غیر منفک حصہ تھا۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ اس کفر کے علم بردار ہوں، ان کو یہ حق کسی طرح نہیں پہنچتا کہ وہ اس گھر کی تولیت پر، جو دنیا میں توحید اور خالص خدا پرستی کا سب سے پہلا گھر اور تمام مساجد الٰہی کا قبلہ ہے، قابض رہیں۔ “ (تدبر قرآن، ۳/ ۱۳۹، ۱۴۰)

شرک کی یہ علت جس کی بنا پر مسجد حرام کا حق تولیت مشرکین سے چھینا گیا، اہل کتاب بالخصوص یہود میں ہرگز نہیں پائی جاتی۔ یہود من حیث القوم ایک سے زیادہ خداؤں کے قائل تو کبھی نہیں ہوئے، تاہم اپنی تاریخ کے ابتدائی اور متوسط دور میں وہ مشرکانہ اعمال و رسوم میں ملوث ہوتے رہے۔ ۵۸۶ ق م میں ہیکل سلیمانی کی تباہی اور بابل کی ۷۰ سالہ اسیری کے بعد وہ شرک کے معاملے میں نمایاں طور پر محتاط ہو گئے اور اس کے بعد نہ انہوں نے اجتماعی طور پر بت پرستی کو اختیار کیا اور نہ مسجد اقصیٰ کو کسی بھی دور میں بت پرستی اور شرک کا مرکز بننے دیا۔ چنانچہ مسجد اقصیٰ اور یہود کے معاملے کو مسجد حرام اور مشرکین کے معاملے کے کسی بھی طرح مماثل قرار نہیں دیا جا سکتا تھا24۔

اب تیسرے نکتے کو دیکھیے:

اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ افراد اور اقوام کے مواخذے میں جن امور کو ملحوظ رکھتا ہے، ان میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں: ایک یہ کہ ان کے جرم کی سنگینی اور شناعت کس درجے کی ہے اور دوسرے یہ کہ ان پر اتمام حجت کس درجے میں ہوا اور حق بات کو قبول نہ کرنے پر ان کے پاس کس نوعیت کا عذر موجود ہے۔ اس قانون کے مطابق جرم کی نوعیت کے لحاظ سے سزا کی سنگینی میں بھی تفاوت ہوتا ہے اور اگر اتمام حجت میں کسی پہلو سے کوئی کمی رہ جائے تو بھی مجرم کو اس کا فائدہ ضرور ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار اعتقادی اور عملی ضلالتوں میں پڑ جانے کے باوجود بنی اسرائیل چونکہ اصلاً توحید کے ساتھ وابستہ رہے، اس لیے ان کو صفحہ ہستی سے بالکل مٹا دینے کے بجائے ان پر قیامت تک کے لیے مغلوبیت کا عذاب مسلط کیا گیا اور سیدنا یونس علیہ السلام کی قوم، عذاب آنے کا واضح اعلان ہو جانے کے باوجود صرف اس وجہ سے عذاب سے بچ گئی کہ اس کی طرف مبعوث کیے جانے والے پیغمبر اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر اس کو چھوڑ کر چلے گئے تھے25۔ اسی ضابطے کے مطابق، چونکہ مشرکین کا جرم سنگینی کے لحاظ سے اہل کتاب کے جرم سے شدید تر تھا، اور رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی طرف سے ان دونوں گروہوں پر اتمام حجت کی نوعیت میں بھی ایک واضح فرق تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کے انجام کا فیصلہ بھی ایک دوسرے سے مختلف کیا۔ مشرکین کی طرف تو رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی بعثت، بعثت خاصہ تھی کیوں کہ آپ کی ذات کی حد تک آپ کی ذمہ داری اصلاً یہ تھی کہ آپ بنی اسماعیل کو ملت ابراہیمی کی اصل تعلیمات پر دوبارہ قائم کر دیں، چنانچہ آپ نے اپنی جدوجہد اور مساعی کا اصل ہدف انہی کو بنایا۔ اس کے نتیجے میں جب حق کی دعوت مشرکین پر من حیث القوم آخری درجے میں واضح ہو گئی اور اس کے باوجود وہ ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی سزا بھی ان پر، کسی رعایت کے بغیر، آخری درجے میں نافذ کر دی گئی۔ اس کے برعکس اہل کتاب بھی اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب تھے اور آپ نے دلائل و براہین کی بنیاد پر ان پر بھی حجت قائم کی، لیکن وہ آپ کی دعوت اور تبلیغی مساعی کا اس طرح ہدف نہیں تھے جس طرح کہ مشرکین بنی اسماعیل تھے، اس وجہ سے اس بات کا امکان موجود تھا کہ اہل کتاب کے علماء و احبار اگرچہ اپنے علم کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کے دعوائے نبوت کی حقانیت کو جانتے ہوں لیکن من حیث القوم اہل کتاب پر یہ بات اس طرح سے واضح نہ ہوئی ہو کہ ان کو کوئی رعایت دیے بغیر آخری درجے میں ان پر سزا نافذ کر دی جائے۔

آلوسیؒ اس نکتے کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

وهی توخذ عند ابی حنيفة من اهل الكتاب مطلقا ومن مشركی العجم والمجوس لا من مشرکی العرب لان كفرهم قد تغلظ لما ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نشا بين اظهرهم وارسل اليهم وهو علیہ الصلاة والسلام من انفسهم ونزل القرآن بلغتهم و ذلک من اقوى البواعث على ايمانهم فلا يقبل منهم الا السيف او الاسلام زيادة فی العقوبة عليهم۔ (روح المعانی، ۱۰/ ۷۹)
”امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جزیہ عرب و عجم کے اہل کتاب اور عجم کے مشرکین اور مجوس سے وصول کیا جائے گا لیکن عرب کے مشرکین سے قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ان کا کفر کئی وجوہ سے سنگین تر ہے۔ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے انہی کے مابین زندگی کے مختلف مراحل گزارے، آپ انہی کا ایک فرد تھے اور انہی کی طرف مبعوث ہوئے تھے، اور قرآن مجید بھی انہی کی زبان میں نازل ہوا۔ یہ تمام امور ان کے ایمان لانے کے نہایت قوی محرکات کا درجہ رکھتے ہیں، اس لیے (انکار کی صورت میں) ان کو سزا بھی سنگین تر ملی ہے، چنانچہ ان سے تلوار یا اسلام کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔ “

مولانا امین احسن اصلاحیؒ فرماتے ہیں:

”اہل کتاب کے ساتھ جو معاملہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، وہ اس سے مختلف ہے جس کی ہدایت اوپر مشرکین کے باب میں کی گئی ہے۔ مشرکین کے باب میں تو یہ حکم ہوا کہ جب تک یہ کفر سے توبہ کر کے اسلام نہ اختیار کر لیں، اس وقت تک ان کا پیچھا نہ چھوڑو، لیکن ان اہل کتاب کو جزیہ کی ادائیگی پر امان دے دینے کی ہدایت ہوئی۔ اس فرق کی وجہ وہی ہے جس کی وضاحت ہم پیچھے کر چکے ہیں کہ مشرکین عرب کی طرف رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی بعثت براہ راست تھی، آپ انہی کے اندر سے اٹھائے گئے تھے، انہی کی زبان میں آپ پر اللہ کا کلام اترا اور انہی کو آپ نے اپنی دعوت کا مخاطب اول بنایا اور ہر پہلو سے انہی کے معروف و منکر اور انہی کے مطالبات کے مطابق آپ نے ان پر اتمام حجت کیا۔ اس اہتمام کے بعد ان کے لیے کسی مزید مہلت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ چنانچہ مشرکین بنی اسمٰعیل ذمی نہیں بنائے جا سکتے ہیں لیکن دوسرے غیر مسلموں کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ اسلامی حکومت میں ذمی بن کر رہ سکتے ہیں۔“ (تدبر قرآن، ۳/ ۱۵۰)

اس فرق کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کا تو بطور ایک مذہبی گروہ کے مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا لیکن اہل کتاب کو ایک مستقل مذہبی گروہ کی حیثیت سے باقی رہنے اور اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی۔ دونوں گروہوں کے انجام میں اس بنیادی فرق ہی کی وجہ سے مشرکین کی تمام عبادت گاہوں کو، جن میں وہ اصنام و اوثان کی پوجا کیا کرتے تھے، رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ایک ایک کر کے ڈھا دینے کا حکم دیا، جس کی تفصیل ہم اصل تحریر میں بیان کر چکے ہیں، جبکہ اہل کتاب کی عبادت گاہوں کو ’مساجد اللہ‘ اور ذکر الٰہی کے مراکز قرار دیتے ہوئے نہ صرف انہیں پورا پورا تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ اسلامی قانون جہاد کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اس بات کو قرار دیا گیا کہ اگر مسلمانوں کے علاوہ اہل کتاب کی عبادت گاہوں کو بھی تباہی اور بربادی کا خطرہ درپیش ہو تو ان کے دفاع کے لیے مسلمانوں کی تلوار حرکت میں آئے گی26۔

ہمارے نزدیک اس فرق کا بھی عبادت گاہ کے حق تولیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اس لیے کہ اگر ایک مذہبی گروہ کے کلی خاتمہ (Extermination) کا فیصلہ کر دیا جائے تو ان سے ان کے قبلہ کو چھین لینا اور ان کی تمام عبادت گاہوں کو ڈھا دینا اس فیصلے کا ایک منطقی تقاضا قرار پاتا ہے، لیکن کسی مذہبی گروہ کو وجود و بقا کا حق اور اس کی عبادت گاہوں کو تحفظ کی ضمانت دینے کے بعد اس سے قبلے کا حق تولیت چھین لینا ایک لاینحل داخلی تضاد کی حامل بات ہے۔ ہم نے اصل تحریر میں اس نکتے کو ان لفظوں میں واضح کیا ہے:

”اس تضاد کا کیا حل ہے کہ جب اسلام میں اہل کتاب کی عام عبادت گاہوں کو تحفظ دیا گیا اور ان پر اہل مذہب کی تولیت و تصرف کا حق تسلیم کیا گیا ہے تو ان کے قبلہ اور مرکز عبادت کے بارے میں یہ فیصلہ کیوں کیا گیا کہ وہ اس پر تولیت و تصرف یا اس کے اندر عبادت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مذہب اور اس کے قبلے کو روحانی لحاظ سے لازم و ملزوم کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اور اپنے قبلے پر اہل مذہب کے حق کی نفی کا سیدھا سیدھا مطلب خود اس مذہب کے وجود و بقا اور اور اس کے ماننے والوں کے مذہبی و روحانی بنیاد پر اتحاد و اجتماع کے حق کی نفی ہے۔ علم و منطق کی رو سے ان دونوں باتوں میں کوئی تطبیق نہیں دی جا سکتی کہ ایک مذہب کے لیے بطور مذہب تو وجود و بقا کا حق تسلیم کیا جائے اور اہل مذہب کے روحانی و مذہبی جذبات کے احترام کی تعلیم بھی دی جائے، لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیا جائے کہ اپنے قبلے میں عبادت اور اس کی تولیت کا کوئی حق ان کو حاصل نہیں ہے۔ اگر آپ ماننا چاہتے ہیں تو دونوں باتوں کو ماننا ہو گا، اور اگر نفی کرنا چاہتے ہیں تو بھی دونوں باتوں کی کرنی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے مشرکین عرب سے محض کعبہ کی تولیت کا حق ہی نہیں چھینا، بلکہ اس کے ساتھ ان کے اپنے مذہب پر قائم رہنے کے اختیار کی بھی صاف طور پر نفی فرما دی اور کہا کہ ان کے لیے نجات کی راہ صرف یہ ہے کہ وہ دین حق کو قبول کر لیں۔“

اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہود اور مشرکین کے مابین اور اسی طرح مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے مابین وہ مماثلت سرے سے پائی ہی نہیں جاتی جس کو فرض کر کے بعض اہل علم نے ایک گروہ اور اس کے زیر تولیت عبادت گاہ کے احکام کا اطلاق دوسرے گروہ اور اس کے زیر تولیت عبادت گاہ پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسجد حرام سے مشرکین کے حق تولیت کی تنسیخ کی بنیادی وجہ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت گاہ کو دین ابراہیمی کی عالمی دعوت کے لیے ایک مرکز قرار دیا تھا جبکہ مشرکین ملت ابراہیمی کی اساس یعنی توحید کو چھوڑ کر شرک کو بطور مذہب اختیار کر چکے تھے، چنانچہ کسی بھی مذہبی یا اخلاقی اصول کے تحت وہ اس عبادت گاہ کی تولیت کا کوئی استحقاق نہیں رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں پیغمبر صلى الله علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد ایک مذہبی گروہ کے طور پر ان کے خاتمے کا فیصلہ کر دیا گیا تھا جس کے بعد بیت اللہ کے ساتھ ان کے تعلق و وابستگی کا سوال ہی سرے سے ختم ہو گیا تھا۔ ان وجوہ میں سے کوئی ایک وجہ بھی مسجد اقصیٰ اور یہود میں ہر گز نہیں پائی جاتی، اور اشتراک علت کے بغیر دو گروہوں کے مابین اشتراکِ حکم ثابت کر دینے کی علمی لحاظ سے جو حیثیت ہو سکتی ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔

چند مزید استدلالات اور ان کا جائزہ

اگرچہ سابقہ بحث کی روشنی میں مسئلے کا بنیادی اور فیصلہ کن پہلو ہمارے نقطہ نگاہ سے منقح ہو چکا ہے، تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بحث کی تکمیل کے لیے ان جزوی اور ثانوی نوعیت کے استدلالات پر بھی یہاں تبصرہ کر دیا جائے جو اس حوالے سے مختلف ناقدین کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔

اس ضمن میں واقعہ اسراء اور تحویل قبلہ کے واقعات کے حوالے سے جو استدلال بالعموم پیش کیا جاتا ہے، اس پر ہم اصل تحریر میں تنقید کر چکے ہیں۔ بعض ناقدین نے اگرچہ ان واقعات کو دوبارہ بطور دلیل پیش کر دیا ہے لیکن ہمارے اٹھائے ہوئے تنقیدی نکات سے، سردست، کسی ناقد نے تعرض کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ان کے علاوہ جو مزید دلائل وقرائن اس سلسلے میں سامنے آئے ہیں، انہیں ایک مناسب ترتیب کے ساتھ ہم یہاں زیر بحث لائیں گے:

ا۔ ’تکوینی مشیت‘ اور ’تشریعی حکم‘ میں فرق

تورات اور قرآن دونوں کے بیانات کی رو سے یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ہیکل سلیمانی کی بربادی اور یہود کے اس سے بے دخل کیے جانے کے واقعات اللہ تعالیٰ کی مشیت سے بنی اسرائیل کی بدکرداری کی پاداش میں رونما ہوئے۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض ناقدین نے یہ کہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اہتمام فرمایا ہے کہ یہود اپنے قبلے کی تولیت سے محروم رہیں تو امت مسلمہ انہیں یہ حق کیونکر دے سکتی ہے؟

یہ استدلال اللہ تعالیٰ کی ’تکوینی مشیت‘ اور ’شرعی حکم‘ کے مابین اس نازک فرق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس کا ہم نے اصل تحریر میں اشارتاً ذکر کیا تھا۔ سطور بالا میں ہم اپنے اس نقطہ نظر کے دلائل تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کے حق تولیت سے یہود کا محروم کیا جانا سراسر ایک تکوینی معاملہ ہے جسے امت مسلمہ کسی بھی اصول کی رو سے اپنے طرز عمل کا ماخذ نہیں بنا سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی ’تکوینی مشیت‘ اور ’شرعی حکم‘ کے مابین یہ فرق اہل علم کے ہاں مسلم ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کسی گروہ کے مواخذہ کے لیے تکوینی لحاظ سے اس کے ساتھ جو مخصوص معاملہ فرماتے ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ شریعت کی واضح ہدایات کے بغیر ہمارے لیے واجب الاتباع نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس نوعیت کے کسی فیصلے کو اپنے طرز عمل کا ماخذ بنانا شریعت کی رو سے حرمت کے درجے میں ممنوع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے بخت نصر اور طیطس کے ہاتھوں مسجد اقصیٰ کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بندے تھے جنہوں نے اس کی تکوینی مشیت کے تحت مسجد کی بے حرمتی کی، بنی اسرائیل کا قتل عام کیا اور ہر چیز کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی یہ تکوینی مشیت کسی بھی طرح ہمارے لیے شرعی ماخذ نہیں بن سکتی اور نہ کوئی مسلمان اس کی بنیاد پر مسجد اقصیٰ کے ساتھ اس سلوک کو جائز قرار دے سکتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے یہاں جس بات کو اپنی تکوینی مشیت کا نتیجہ قرار دیا ہے، دوسرے مقام پر اسی طرز عمل کو اختیار کرنے پر نصاریٰ کی مذمت کی ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ میں یہ ارشاد کہ  ’ومن اظلم ممن منع مساجد الله ان يذكر فيها اسمه وسعى فی خرابها27 نصاریٰ کے اس طرز عمل ہی کے حوالے سے وارد ہوا ہے جو انہوں نے مسجد اقصیٰ کی توہین اور یہود کو اس میں عبادت سے روکنے کے حوالے سے اپنا رکھا تھا۔

یہی معاملہ اس تکوینی حکم کا بھی ہے جس کے نتیجے میں من حیث القوم جلا وطنی، ذلت و رسوائی اور اقوام عالم کے ہاتھوں اذیتیں سہنے کا انجام بنی اسرائیل کے لیے مقدر کر دیا گیا۔ اس کے باوجود کسی شرعی یا اخلاقی جواز کے بغیر محض اس بنیاد پر یہودیوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک روا رکھنا کہ یہ سزا اللہ تعالیٰ نے ان پر نافذ کر رکھی ہے، کسی صاحب علم کے نزدیک درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنی پوری تاریخ، بالخصوص اندلس کے عہد حکومت اور خلافت عثمانیہ کے دور میں یورپ کے عیسائیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہونے والے یہودیوں کو بھرپور مالی اور سیاسی پناہ فراہم کرتے رہے ہیں۔

سرزمین فلسطین پر یہودی ریاست کے قیام کو بھی بہت سے اہل علم نے اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے اسے ایک سزا قرار دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف تکوینی طور پر مسلمانوں پر نافذ کی گئی ہے28 لیکن اس کے باوجود وہ نہ قیام اسرائیل کو جائز تسلیم کرتے ہیں اور نہ اس بنیاد پر بیت المقدس سے دستبرداری قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اللہ کی تکوینی مشیت کو قانونی و شرعی جواز کا ماخذ نہیں سمجھتے۔ اس سے واضح ہے کہ اللہ کی تکوینی مشیت، شرعی حکم کے مترادف نہیں ہوتی اور نہ اس سے کسی طرز عمل کے حق میں جواز اخذ کرنا درست ہے۔ ہمارے لیے ایسے امور میں بھی معیار اور ضابطے کی حیثیت انہی شرعی احکام اور اخلاقی مسلمات کو حاصل ہے جنہیں ہم باقی تمام امور میں اپنے طرز عمل کا ماخذ بناتے ہیں۔

٢۔ ’ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد الله‘ کی تعمیم

سورۂ براءت کی آیت ۱۷ اور ۱۸ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مشرکین چونکہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں، اس لیے انہیں اللہ کی عبادت کے لیے قائم کردہ مساجد کی تولیت کا کوئی حق نہیں۔ ان کے اعمال اکارت ہیں اور یہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ اللہ کی مساجد کی تولیت کا حق ان اہل ایمان کو حاصل ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا اہتمام کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔

بعض ناقدین نے اس آیت کو تمام مساجد کی تولیت کے حوالے سے ایک اصولی اور عمومی حکم قرار دیتے ہوئے یہ استدلال کیا ہے کہ اس کی رو سے کوئی بھی مسجد ہدایت الٰہی سے منحرف کسی بھی گروہ کے زیر تولیت نہیں رہ سکتی، لیکن اصول استنباط کی روشنی میں یہ استدلال ایک بالکل ناپختہ اور خام استدلال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو یہ حکم اپنے الفاظ اور سیاق و سباق ہی کے لحاظ سے اس سے ابا کرتا ہے کہ اسے کوئی عام حکم قرار دیا جائے۔ آیت کے الفاظ اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ یہاں زیر بحث صرف مشرکین اور مسجد حرام پر ان کا حق تولیت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ کے نبیوں کی قائم کردہ مساجد کے حق تولیت کا مسئلہ قرآن مجید میں صرف ایک جگہ یعنی زیر بحث آیت میں بیان نہیں ہوا اور نہ اس آیت کی نوعیت اس حکم کے واحد ماخذ کی ہے۔ قرآن مجید میں ان مساجد کے حق تولیت کی بحث، جیسا کہ ہم پوری تفصیل سے بیان کر چکے ہیں، ہجرت مدینہ کے بعد ایک مسلسل مضمون کے طور پر بیان ہوئی ہے اور اس بحث میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ محل نزاع صرف مسجد حرام کو قرار دیا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً یہ بات بھی واضح فرما دی ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کسی بھی درجے میں رسول اللہ ﷺ اور امت مسلمہ کے مشن کا ہدف نہیں۔ زیر بحث حکم اسی تناظر میں ان احکام کے ضمن میں وارد ہوا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے مشن کے تکمیلی مرحلے میں خاص طور پر صرف مشرکین عرب کے بارے میں دیے گئے، چنانچہ اپنے الفاظ، سیاق و سباق اور پس منظر کے لحاظ سے یہ حکم اس کا متحمل ہی نہیں کہ اس کی تعمیم کر کے یہود اور مسجد اقصیٰ کو اس کے دائرۂ اطلاق میں شامل کیا جا سکے۔

ناقدین کے لیے غلط فہمی کا سبب غالباً یہ بات ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشرکین کے حق تولیت کی تنسیخ کی علت ان کے ’کفر‘ کو قرار دیا ہے اور کفر کی علت یہود میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن اول تو، جیسا کہ ہم اکابر مفسرین کے حوالے سے واضح کر چکے ہیں، اس آیت میں ’کفر‘ سے مراد مشرکین کا ’شرک‘ ہی ہے۔ دوسرے یہ کہ بالفرض یہ مان لیا جائے کہ ’کفر‘ کا لفظ یہاں اپنی تمام صورتوں کے لیے عام ہے تو بھی اس نوعیت کے احکام میں ان کے اصل پس منظر کو ملحوظ رکھے بغیر محض کسی ایک آیت کے ظاہری الفاظ پر حکم کے عموم یا خصوص کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو نتیجہ متکلم کے منشا کے صریح منافی نکلے گا۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ میں مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کی ممانعت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن ولأمة مؤمنة خير من مشركة ولو أعجبتكم اولئک یدعون الی النار۔ (البقره: ۲۲۱)
”مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ صاحب ایمان لونڈی بھی ایک مشرک عورت سے بہتر ہے، اگرچہ اس کا حسن تمہیں لبھائے۔ یہ اہل شرک تو جہنم کی آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔“

یہاں مشرک عورت سے حرمت نکاح کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’مشرکین آگ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ اگر اس معاملے میں وارد دیگر نصوص کو نظر انداز کر دیا جائے تو آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی غیر مسلم عورت سے، چاہے وہ اہل کتاب میں سے ہو، نکاح جائز نہیں کیونکہ جہنم کی طرف بلانے کی علت ان میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن جیسا کہ واضح ہے، یہ متکلم کا منشا نہیں ہے اور خود قرآن مجید نے دوسرے مقام پر صراحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو حلال قرار دیا ہے۔ بالکل اسی طریقے سے سورۂ براءۃ کی مذکورہ آیت کے ظاہری الفاظ کی بنیاد پر حق تولیت کی تنسیخ کو مسجد اقصیٰ کے لیے عام قرار دینا علمی لحاظ سے ایک بالکل فاسد استدلال ہے، کیونکہ اس معاملے سے متعلق دیگر نصوص میں، جن کی تفصیلی وضاحت ہم اوپر کر چکے ہیں، حق تولیت کے حوالے سے مشرکین اور اہل کتاب کے مابین ایک واضح امتیاز قائم کر دیا گیا۔

اس تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ سورہ براءۃ کا مذکورہ حکم یہود کو مشرکین پر ’قیاس‘ کرنے کے لیے بھی بنیاد نہیں بن سکتا۔ کسی صریح نص کے بغیر یہود کے حق تولیت کا حکم ’قیاس‘ کے اصول پر ان نصوص سے اخذ کرنے میں جن میں مشرکین کے حق تولیت کا حکم بیان ہوا ہے، تین باتیں مانع ہیں:

ایک یہ کہ حق تولیت کی تنسیخ ایک بے حد نازک اور اہم معاملہ ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’نص‘ کا متقاضی ہے، اس لیے اس بارے میں نص صریح سے کم تر کوئی چیز، خواہ وہ قیاس ہو یا عقلی استدلال کی کوئی اور قسم، قبول نہیں کی جا سکتی۔

دوسرے یہ کہ قیاس سے رجوع صرف اس معاملے میں کیا جا سکتا ہے جو غیر منصوص ہو، جبکہ زیر بحث مسئلے میں نصوص خاموش نہیں ہیں بلکہ صریحاً اس تصور کی نفی کرتی ہیں۔

تیسرے یہ کہ اس معاملے کو غیر منصوص فرض کر لیا جائے تو بھی مقیس علیہ اور مقیس کے مابین جس نوعیت کی مماثلت قیاس کی بنیاد بن سکتی ہے، وہ زیر بحث صورت میں مفقود ہے اور ملت ابراہیمی سے انحراف کی ظاہری مماثلت سے مذکورہ نتیجہ اخذ کرنا ان دونوں گروہوں اور عبادت گاہوں کے مابین فرق و امتیاز کے ان غیر مبہم (Unmistakable) وجود کو نظر انداز کیے بغیر ممکن نہیں جو آل ابراہیم کی تاریخ اور اسلامی شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہیں اور جن کی پوری تفصیل ہم اوپر کی سطور میں بیان کر چکے ہیں۔

۳۔ ہیکل پر ’مسجد‘ کے لفظ کا اطلاق

یہ استدلال بھی سامنے آیا ہے کہ یہودی حضرت سلیمانؑ کی قائم کردہ عبادت گاہ کو ’ہیکل‘ کہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ’مسجد‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس کو ’مسجد‘ قرار دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہود اس پر کوئی حق نہیں رکھتے، اس لیے کہ ’مسجد‘ کا لفظ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کے لیے بولا جاتا ہے۔

یہ استدلال بدیہی طور پر غلط ہے، اس لیے کہ ’مسجد‘ کا لفظ یقیناً اپنے اصطلاحی اور عرفی مفہوم کے لحاظ سے مسلمانوں کی مخصوص عبادت گاہوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اپنے اصل لغوی مفہوم کے لحاظ سے یہ مطلقاً ’عبادت گاہ‘ کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے، چاہے وہ مسلمانوں کی ہو یا اہل کتاب کی۔ قرآن و حدیث میں اس استعمال کے نظائر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۴ میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اس طرز عمل کی مذمت کی ہے کہ وہ مذہبی اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر تعدی کرتے اور عبادت گزاروں کو ان میں جا کر اللہ کو یاد کرنے سے روکتے ہیں۔ یہاں اہل کتاب کی عبادت گاہوں کے لیے ’مساجد اللہ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے:

ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ و سعی فی خرابھا۔
”اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اللہ کا نام یاد کرنے سے روکے اور ان کو ویران کرنے کی سعی کرے۔“

سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا، جو مسیحی مذہب کے پیروکار تھے، ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے ہم مذہب لوگوں نے ان کی یاد میں ایک عبادت گاہ تعمیر کر لی۔ یہاں گرجے کے لیے ’مسجد‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے:

قال الذین غلبوا علی امرھم لنتخذن علیھم مسجدا۔ (آیت ۲۱)
”جو لوگ ان کے معاملے میں غالب آ گئے، انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کی نسبت سے اس جگہ پر ایک عبادت گاہ قائم کریں گے۔“

ام المومنین ام سلمہؓ اور ام المومنین ام حبیبہؓ نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ان گرجوں کا اور ان میں موجود تصویروں کا تذکرہ کیا جو انہوں نے سرزمین حبشہ میں دیکھی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان تصویروں کا پس منظر واضح کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ:

ان اولائک اذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور (بخاری، الصلاة، ۴۰۹)
”ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تو یہ اس کی قبر پر عبادت گاہ تعمیر کر لیتے اور اس میں ان کی یہ تصویریں سجا لیتے ( جو تم نے دیکھی ہیں)۔“

یہاں بھی دیکھ لیجیے، نصاریٰ کی عبادت گاہوں کے لیے ’مسجد‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اب اگر ہیکل سلیمانی کو ’مسجد‘ کے نام سے ذکر کرنا یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کی دلیل ہے تو اہل کتاب کی باقی تمام عبادت گاہوں سے بھی ان کا حق تولیت اسی بنیاد پر منسوخ قرار پانا چاہیے، حالانکہ کوئی شخص اس کا قائل نہیں۔

۴۔ بیت المقدس میں یہود کا قیام

فتح بيت المقدس کے موقع پر سیدنا عمرؓ اور اہل بیت المقدس کے مابین جو معاہدہ طے پایا، اس میں یہ شرط شامل تھی کہ:

ولا يسكن بايلياء معهم احد من اليهود (طبری، الکامل فی التاریخ، ۳/ ۶۰۹)
”بیت المقدس کے مسیحی باشندوں کے مابین کسی یہودی کو قیام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔“

اس سے بعض ناقدین نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب یہودیوں کو اس شہر میں رہنے تک کی اجازت نہیں تو ہیکل کی تعمیر نو یا احاطہ ہیکل کے حق تولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن غور کیجیے تو یہ شرط سرے سے زیر بحث نکتے سے متعلق ہی نہیں۔ اہل تاریخ بتاتے ہیں کہ دراصل یہودیوں کے اس شہر میں ٹھہرنے پر پابندی رومی شہنشاہ ہیڈرین نے دوسری صدی عیسوی میں عائد کی تھی جسے بعد میں مسیحیوں نے بھی برقرار رکھا۔ یروشلم کے مسیحی بطریق نے مسلمان فاتحین سے اسی قدیم شرط کو برقرار رکھنے کی درخواست کی تھی جسے منظور کر لیا گیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس شرط کے پس منظر میں مسجد کی تولیت کا معاملہ نہیں تھا، کیونکہ نصاریٰ نہ خود اس مسجد کی تولیت کے مدعی تھے اور نہ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی ہو سکتی تھی کہ اس کی تولیت کی ذمہ داری یہود کے بجائے مسلمان سنبھالیں۔ علاوہ ازیں تاریخی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یہ کوئی لازمی اور بے لچک شرط نہیں تھی اور نہ اس پر عمل درآمد میں کسی قسم کی کوئی سختی روا رکھی گئی۔ خود سیدنا عمرؓ نے طبریہ کے ستر یہودی خاندانوں کو یروشلم میں آ کر آباد ہونے اور احاطہ ہیکل سے بالکل متصل ایک جگہ پر رہائش اختیار کرنے کی اجازت دی29۔ مورخین بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے صدیوں سے عائد پابندی کے بعد پہلی مرتبہ یہودیوں کو اس شہر میں رہنے کی اجازت دی۔ ’دی انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن‘ میں لکھا ہے:

”۶۳۸ء کے بعد کچھ یہودی بھی یروشلم میں آکر بسنے لگے کیونکہ مسلمانوں نے انہیں اس شہر میں، جہاں ان کا رہنا پانچ صدیوں سے ممنوع چلا آ رہا تھا، دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ یہودی بڑے اشتیاق کے ساتھ یہاں آئے اور انہوں نے اپنی مذہبی تعلیم کا مرکزی مدرسہ بھی طبریہ سے یروشلم میں منتقل کر لیا۔ غالباً وہ احاطہ ہیکل میں کسی جگہ پر دعا اور عبادت بھی کیا کرتے تھے۔“ (The Encyclopedia of Religion, article: “Jerusalem” vol. 8, p. 12, 1987)

اموی خلیفہ عبد الملک نے ساتویں صدی میں قبۃ الصخرہ تعمیر کروایا تو اس کی تعمیر اور انتظام و انصرام کے لیے دس یہودی خاندانوں کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہیں بیت المقدس میں مستقل سکونت کی اجازت عطا کر کے انہیں جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ تاہم بعد میں عمر بن عبد العزیز نے اپنے عہد خلافت میں انہیں یہاں سے نکال دیا30۔

صلیبی جنگوں کے دور میں بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والے یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی دعوت دی اور بہت سے یہودی یہاں آ کر رہنے لگے31۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں بھی اسپین کی مسیحی حکومت کی ایذا رسانی سے بھاگنے والے بہت سے یہودیوں کو یروشلم میں بسایا گیا32۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ معاہدۂ بیت المقدس کی مذکورہ شرط محض وقتی نوعیت کی ایک سیاسی شرط تھی جس کا نہ مسجد اقصیٰ کی تولیت سے کوئی تعلق تھا اور نہ اسلامی تاریخ میں اس پر عمل درآمد کو لازم ہی سمجھا گیا۔ چنانچہ میثاق عمرؓ کے حوالے سے یاسر عرفات کا درج ذیل دعویٰ بھی، جو انہوں نے ۲۴ ستمبر ۱۹۹۶ء کو ایک نشریاتی خطاب میں کیا، دوسرے بہت سے دعووں کی طرح تاریخی لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے:

”میثاق عمر کے مطابق (جو عمر اور صفرونیوس کے مابین طے پایا تھا) ایک شرط ایسی تھی جو تمام مسیحیوں نے مسلمانوں کے لیے مانی تھی، یعنی یہ کہ یروشلم میں کوئی یہودی کسی صورت میں نہیں رہے گا۔ یہ معاہدہ ۱۹۱۷ء میں برطانوی انتداب کے آغاز سے پہلے تک نافذ العمل رہا۔“ (Middle East Digest, February 1997, (http://christianactionforisrael.org/)

۵۔ ’شروط عمریہ‘ سے استدلال

محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے معاملے میں امت مسلمہ کے فقہی اور آئینی موقف کی بنیاد ’شروط عمریہ‘  کو قرار دیا ہے۔ ’شروط عمریہ‘ سے مراد وہ شرائط ہیں جن کے مطابق، مبینہ طور پر، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بازنطینی سلطنت کے مختلف صوبوں اور شہروں کو فتح کرنے کے بعد وہاں کے مسیحی باشندوں سے معاہدے کیے تھے33۔ ان شروط کے بارے میں سب سے پہلی بات تو یہ واضح رہنی چاہیے کہ اگرچہ دور متوسط کے فقہاء اور مورخین ان شروط کو بالعموم مستند تسلیم کرتے اور کلاسیکل فقہی لٹریچر میں ان شرائط کو اہل ذمہ کے حقوق و فرائض اور ان پر لازم پابندیوں کے حوالے سے معیار مانا جاتا ہے34، لیکن بہت سے معاصر ناقدین نے ان کے تاریخی ثبوت اور استناد کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر چیلنج کیا ہے۔ ان کی بنائے استدلال متعدد امور ہیں:

ایک یہ کہ یہ شرائط جن سندوں سے مروی ہیں، وہ تمام کی تمام منقطع اور ضعیف ہیں۔

دوسری یہ کہ ابتدائی دور کے مستند ماخذوں میں ان شروط کا تذکرہ اس شکل میں بالکل نہیں ملتا۔

تیسری یہ کہ ان شروط کے متن میں استعمال ہونے والے بعض الفاظ، مثلاً ’زنار‘ کا لفظ سیدنا عمر کے عہد میں عربی زبان میں مستعمل ہی نہیں تھے۔

چوتھی یہ کہ ان میں سے بیشتر شرائط اہل کتاب کے ساتھ مسامحت اور رواداری کے اس رویے کے بالکل منافی ہیں جو دورِ صحابہ میں ان کے ساتھ عمومی طور پر اختیار کیا گیا۔

بہت سے مستشرقین نے بھی، جو بالعموم اسلامی تاریخ کا مطالعہ معاندانہ نقطہ نظر سے کرتے ہیں، اسی بنیاد پر سیدنا عمرؓ کی طرف ان شرائط کی نسبت کے درست ہونے میں شک و شبہے کا اظہار کیا ہے35۔

جہاں تک زیر بحث مسئلے میں ’شروطِ عمریہ‘ سے استدلال کا تعلق ہے تو کم از کم ہمارا ناقص فہم ان میں کسی معقول بنائے استدلال کا سراغ نہیں لگا سکا۔ اتنی بات تو واضح ہے کہ ان شروط میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کا معاملہ صراحتاً کہیں زیر بحث نہیں آیا۔ اس لیے غالباً ڈاکٹر صاحب ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ مخصوص دفعات سے مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حکم ’استنباط‘ کرنا چاہتے ہیں۔ بہت غور کرنے اور طائر تخیل کو پرواز کی پوری آزادی دینے کے بعد ہمیں ان شروط میں صرف ایک بات ایسی محسوس ہوتی ہے جس سے ممکنہ طور پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کہ سیدنا عمر کے زمانے میں جب الجزیرہ کا علاقہ فتح ہوا تو دوسرے علاقوں کی طرح یہاں کے لوگوں اور مسلمان فاتحین کے مابین بھی صلح کا ایک معاہدہ ہوا۔ فقہ اور تاریخ کی اکثر کتابوں میں اس معاہدے کی تفصیلات منقول ہیں اور ان میں سے ایک دفعہ یہ ہے کہ:

ولا نجدد ما خرب من كنائسنا
”ہم اپنے برباد، منہدم ہو جانے والے کلیساؤں میں سے کسی کو ازسرنو تعمیر نہیں کریں گے۔“

اس شرط سے استدلال، غالباً، یوں ہے کہ چونکہ یہودیوں کا ہیکل صدیاں پہلے تباہ و برباد ہو چکا ہے، اس لیے اب انہیں اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ہمارے نزدیک اس استدلال کے بے جواز ہونے کے وجوہ حسب ذیل ہیں:

شروط عمریہ کے استناد کے بارے میں محققین کے عمومی تحفظات کا تو ہم اختصاراً تذکرہ کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں بالخصوص زیر بحث شرط کے حوالے سے تاریخی مواد کا جائزہ لیجیے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کے ملکی قانون پر تصنیف کیے جانے والے اولین مآخذ، جن میں دور خلافت راشدہ اور بالخصوص سیدنا عمرؓ کے دور میں اہل ذمہ پر عائد کردہ شروط پر باقاعدہ بحث کی گئی ہے، اس شرط کے تذکرہ سے خالی ہیں۔ مثال کے طور پر امام ابو یوسفؒ (۱۱۳ـ ۱۸۲ھ) نے کتاب الخراج میں ”فصل فی الكنائس والبيع والصلبان“ میں مختلف معاہدوں کے متن نقل کیے ہیں اور ان شرائط کی تفصیلاً وضاحت کی ہے جو اہل ذمہ پر ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی شعائر کے حوالے سے نافذ کی گئیں، لیکن اس ساری بحث میں مذکورہ شرط کا کوئی ذکر نہیں36۔ امام محمدؒ (۱۳۲ـ ۱۸۹ھ) نے ’السیر الکبیر‘ میں عبادت گاہوں اور مذہبی شعائر کے حوالے سے اہل ذمہ کے حقوق اور ذمہ داریوں پر ایک مستقل باب میں بالتفصیل بحث کی ہے، اس میں نہ صرف یہ کہ اس شرط کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ اس کے برعکس یہ کہا گیا ہے کہ

فان انهدمت كنيسة من كنائسهم القديمة فلهم ان يبنوها كما كانت۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ص ۱۵۳۵)
”اگر ان کی پرانی عبادت گاہوں میں سے کوئی منہدم ہو جائے تو انہیں پہلے کی طرح اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے۔“

امام ابو عبیدؒ (۱۵۴ـ ۲۲۴ھ) نے کتاب الاموال میں ”باب الشروط التی اشترطت على اهل الذمة حين صولحوا واقروا على دينهم“ کے تحت سیدناعمر کی عائد کردہ ان شروط کا باقاعدہ تذکرہ کیا ہے لیکن ان میں بھی اس شرط کا نام و نشان تک نہیں ملتا37۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء کے ہاں بھی یہ شرط متفق علیہ نہیں بلکہ مختلف فیہ ہے۔ بعض شافعی اور حنبلی فقہاء اگرچہ اس شرط پر عمل درآمد کے قائل ہیں38، لیکن امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور ایک رائے کے مطابق امام احمدؒ اس قسم کی کوئی شرط اہل ذمہ پر عائد نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اہل ذمہ کو اپنی جزوی یا کلی طور پر منہدم ہو جانے والی عبادت گاہوں کی مرمت اور تعمیر نو کا پورا پورا حق حاصل ہے39۔

تاہم، برسبیل تنزل، ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ شرط سیدنا عمرؓ سے ثابت ہے، اس کے باوجود اس سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کی ممانعت پر استدلال کسی طرح بھی نہیں کیا جا سکتا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ عہد صحابہ میں ’شروط عمریہ‘ کے مطابق طے پانے والے ان تمام معاہدوں میں معاہدے کا دوسرا فریق نصاریٰ تھے نہ کہ یہود، چنانچہ ان شرائط کی پابندی کا مطالبہ یہود سے کرنا کسی بھی قانونی و آئینی منطق کی رو سے درست نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آج کے دور میں صدیوں پہلے طے پانے والے معاہدات کی حرف بحرف پابندی کا مطالبہ کسی بھی اصول کی رو سے درست نہیں ہو سکتا۔ یہ معاہدے ساتویں صدی میں مسلمانوں کے عسکری غلبے کے نتیجے میں مقامی باشندوں کے ساتھ طے پائے تھے۔ صلیبی جنگوں کے دور میں یہ سابقہ معاہدے اگرچہ کالعدم قرار پائے لیکن مسلمانوں کے سیاسی غلبہ اور تفوق کی صورت حال بیسویں صدی کے آغاز تک قائم رہی۔ انیسویں صدی میں خلافت عثمانیہ نے جہاں یورپی جمہوریت کے بہت سے تصورات کو اپنے نظام میں جگہ دی، وہاں سلطنت کی غیر مسلم رعایا کے لیے مذہب اور نسل کی تفریق کے بغیر مساوی شہری اور مذہبی حقوق سے بہرہ مند ہونے کا حق بھی تسلیم کیا اور مختلف معاہدوں میں یورپی طاقتوں کو اس کی باقاعدہ یقین دہانی کرائی40۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس خطے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں نے مسلمانوں کے غلبہ اور تفوق کی صورت حال کو بالکل تبدیل کر دیا۔ آج یہود و نصاریٰ کی حیثیت یہاں ’اہل ذمہ‘ کی نہیں بلکہ جدید جمہوری تصورات کے مطابق مساوی حقوق رکھنے والے آزاد شہریوں کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہاں آباد تینوں مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی حقوق اور مقدس مقامات کی تولیت و انتظام کے لیے آئینی ماخذ کی حیثیت لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو حاصل ہے اور فلسطین کی سیاسی قیادت ان کی پابندی کو باقاعدہ قبول کر چکی ہے41۔ ہم نہیں سمجھ سکے کہ سیاسی اور قانونی صورت حال میں رونما ہونے والے ان جوہری تغیرات کے بعد ’شروط عمریہ‘ کو مسلمانوں کے فقہی اور آئینی موقف کی بنیاد کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

تیسری چیز یہ ہے کہ ان معاہدوں کو آج کے حالات میں، بالفرض، نافذ العمل مان لیجیے تو بھی عبادت گاہوں کی تعمیر نو پر پابندی سے متعلق اس شرط کو تمام علاقوں اور شہروں کے لیے عمومی اصول کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس شرط کا تذکرہ عہد صحابہ میں اہل کتاب کے ساتھ کیے جانے والے تمام معاہدات میں سے صرف اہل جزیرہ کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے میں ملتا ہے اور مخصوص نوعیت کے حالات میں طے پانے والے معاہدات کی ایسی شقوں کو کسی بھی ضابطے کی رو سے اسلام کے عمومی اور غیر متبدل قانون کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ حنفی فقیہ ابن عابدین نے یہ بات اصولی طور پر تسلیم کی ہے کہ اہل شام کے ساتھ سیدنا عمر نے جو شرائط طے کیں، ان کا اطلاق ہر مفتوحہ علاقے پر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ساتھ معاملہ ان شرائط کے مطابق کیا جائے گا جو ان کے ساتھ طے کی جائیں گی42۔

خود اہل بیت المقدس کے ساتھ سیدنا عمرؓ نے جو معاہدہ کیا، اس میں صاف طور پر وہاں کے باشندوں کو یہ ضمانت دی گئی کہ ان میں سے جو لوگ اس شہر کو چھوڑ کر رومیوں کے علاقے میں جانا چاہیں، ان کی جان و مال اور ان عبادت گاہوں کو جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ جائیں گے، مسلمانوں کی طرف سے تحفظ حاصل ہو گا:

ومن احب من اهل ايلياء ان يسير بنفسه وماله مع الروم ويخلی بيعهم وصلبهم فانهم آمنون علی انفسهم وعلى بيعهم وصلبهم حتى يبلغوا ما منهم۔ (طبری، الکامل فی التاریخ، ۳/ ۶۰۹)
”ایلیا کے باسیوں میں سے جو یہ چاہیں کہ اپنی جان و مال لے کر رومیوں کے پاس چلے جائیں اور اپنے گرجوں اور صلیبوں کو چھوڑ جائیں تو ان کی جانوں، گرجوں اور صلیبوں کو امان حاصل ہو گی یہاں تک کہ وہ کسی پُرامن جگہ پر پہنچ جائیں۔“

اس دفعہ میں بیت المقدس کو چھوڑ کر جانے والوں کو ان کے متروکہ گرجوں اور صلیبوں کی بھی امان دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ان مذہبی شعائر کی سابقہ حیثیت کو برقرار رکھا جائے گا اور مسلمان ان پر قابض ہو کر ان کی بے حرمتی یا ان کی ہیئت و نوعیت کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس نوعیت و ہیئت کو برقرار رکھنے کا مقصد، ظاہر ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ اہل مذہب جب چاہیں، ان کو دوبارہ آباد کر سکتے ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ سیاسی معاہدات میں طے پانے والی شرائط کی حیثیت بے لچک شرعی احکام کی نہیں ہوتی، بلکہ باہمی تعلقات اور مفادات کے لحاظ سے ان میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے اور طے شدہ شرائط کے نفاذ میں نرمی اور مسامحت کا رویہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں اسلامی تاریخ میں موجود ہیں۔ بنو تغلب کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدے میں سیدنا عمرؓ نے یہ شرط طے کی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو مسیحی نہیں بنائیں گے، لیکن عملاً اس شرط کے نفاذ میں کوئی سختی نہیں برتی گئی بلکہ شرط کی مخالفت کے باوجود ان کے ساتھ معاہدہ برقرار رکھا گیا43۔ ’شروط عمریہ‘ ہی میں ایک شرط یہ مذکور ہے کہ مفتوحین ان مفتوحہ علاقوں میں کوئی نئی عبادت گاہ تعمیر نہیں کریں گے، لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ باہمی اعتماد اور حسن تعلق کی بنیاد پر بعد میں مسیحیوں نے ان علاقوں میں نئے گرجے تعمیر کیے اور تعلقات میں کشیدگی کی صورتوں کے علاوہ ان سے، بالعموم، کوئی تعرض نہیں کیا گیا44۔ اس ضمن میں ’یہودی انسائیکلو پیڈیا‘ کا یہ اعتراف قابل ملاحظہ ہے:

”یہ بات تو یقینی ہے کہ خلیفہ عمر کے عہد حکومت میں ان شرائط کے نفاذ میں سختی نہیں برتی گئی، تاہم (اسلامی تاریخ میں) مختلف مواقع پر ان کو نافذ کیا جاتا رہا۔“ (جیوش انسائیکلو پیڈیا، آرٹیکل 'Omar I')

تباہ شدہ عبادت گاہوں کی تعمیر نو سے متعلق مذکورہ شرط کے حوالے سے مسامحت اور نرمی کا رویہ اختیار کرنے کی دو اضافی وجوہ بھی پائی جاتی ہیں:

ایک تو یہ اس کا تعلق عبادت گاہوں سے ہے، اور اہل کتاب کی عبادت گاہوں کے معاملے میں قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کا رخ اور مزاج کسی صاحب علم سے مخفی نہیں۔

دوسرے یہ کہ مبینہ تفصیلات کے مطابق اس شرط کو معاہدے میں شامل کرنے کا مطالبہ مسلمان فاتحین کی طرف سے نہیں ہوا تھا۔ یعنی صورت واقعہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان فاتحین نے اپنے سیاسی مصالح یا مفادات کے پیش نظر یا اپنے کسی شرعی و مذہبی قانون کے تقاضے کے تحت ان شرائط کی پابندی کا مطالبہ مفتوحین سے کیا ہو، بلکہ ان کے نفاذ کی پیش کش خود مفتوحین کی طرف سے سامنے آئی تھی45۔

پانچویں بات یہ ہے کہ معاہدۂ شام کی اس شرط میں ویران ہونے والی عبادت گاہوں سے، بالبداہت، وہی عبادت گاہیں مراد ہو سکتی ہیں جو بہت پرانی ہونے یا مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر منہدم ہو جائیں، نہ کہ وہ عبادت گاہیں جنہیں ڈھا کر انہیں ظلماً اور بالجبر ان سے بے دخل کر دیا گیا ہو۔ چنانچہ اس شرط کا اطلاق اور کسی صورت میں کیا جا سکتا ہو یا نہیں، کم از کم ”ہیکل سلیمانی“ پر ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔

۶۔ فتح بیت المقدس کے موقع پر سیدنا عمرؓ کا طرز عمل

ایک استدلال سیدنا عمرؓ کے اس طرز عمل کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے جو انہوں نے فتح بیت المقدس کے موقع پر مسجد اقصیٰ کے معاملے میں اختیار کیا۔ سیدنا عمر جب یہاں تشریف لائے تو سب سے پہلے تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھیں۔ اگلے روز آپ نے صحابہ کی معیت میں یہاں فجر کی نماز باجماعت ادا کی۔ اس کے بعد کعب الاحبار سے دریافت کیا کہ صخرہ، جسے یہود کے قبلے کی حیثیت حاصل ہے، کس جگہ پر واقع ہے؟ کعب نے پیمائش کر کے اس کی جگہ متعین کی۔ اس جگہ کو نصاریٰ نے یہودیوں کے ساتھ اظہار نفرت کے لیے مزبلہ (Garbage Dump) میں تبدیل کر رکھا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے گندگی کو وہاں سے ہٹا کر صخرہ کو پاک صاف کرنے کا حکم دیا اور خود بھی اس کی صفائی میں شریک ہوئے۔ پھر آپ نے کعب سے مشورہ طلب کیا کہ مسلمانوں کے نماز پڑھنے کے لیے کون سی جگہ منتخب کی جائے؟ کعب نے کہا کہ نماز صخرہ کے پیچھے ادا کی جائے تاکہ بنی اسرائیل اور امت محمدیہ دونوں کے قبلوں کی تعظیم ہو جائے۔ سیدنا عمرؓ نے یہ کہہ کر اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ ”اے ابو اسحاق! تم پر ابھی یہودیت کے اثرات باقی ہیں۔ مسجد کی بہترین جگہ اس کا اگلا حصہ ہوتی ہے۔“ اس کے بعد آپ نے مسجد کے اگلے حصے میں یعنی جنوبی دیوار کے قریب ایک جگہ کو مسلمانوں کی نماز کے لیے متعین کر دیا46۔

اس طرز عمل سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر سیدنا عمر مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق کو باقی سمجھتے تو کلیسائے قمامہ اور کلیسائے قسطنطین کی طرح یہاں بھی نماز ادا نہ کرتے۔ ان کا یہاں نماز ادا کرنا اور ان کی اتباع میں مسلمانوں کا اس میں سلسلہ عبادت کو جاری کرنا ناقدین کی رائے میں گویا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یہود کا کوئی حق اس پر تسلیم نہیں کرتے تھے۔

اس استدلال کو درست تسلیم کرنے میں پہلا مانع تو یہ ہے کہ سیدنا عمرؓ کے طرز عمل کو حق تولیت کی تنسیخ کا قرینہ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس تصور کی بنیاد قرآن و سنت میں ثابت کی جائے۔ ظاہر ہے کہ کسی عبادت گاہ کے حق تولیت کی تنسیخ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول ہی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے، سیدنا عمرؓ کسی شرعی بنیاد کے بغیر ازخود یہ فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اگر قرآن و سنت سے اس تصور کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تو پھر سیدنا عمرؓ کے طرز عمل کی توجیہ بھی اس سے مختلف کرنی ہو گی جو ہمارے ناقدین نے کی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سیدنا عمرؓ نے جو طرز عمل اختیار فرمایا، وہ داخلی شواہد کے لحاظ سے تمام تر تنسیخ تولیت کے تصور کی نفی کرتا ہے نہ کہ اس کی تائید۔ ان کے اس طرز عمل کی معنویت کو درست طور پر سمجھنے کے لیے تین پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:

ایک یہ کہ جو عبادت گاہیں اللہ کے پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ جگہوں پر اس کی ہدایات کے مطابق تعمیر فرمائی ہیں، ان کی اصل بنیادوں اور حدود کو، عام انسانوں کی قائم کردہ عبادت گاہوں کے برخلاف، ایک خاص شرعی تقدس حاصل ہے اور اسی بنیاد پر ان کی حفاظت کا اہتمام لازمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’بیت اللہ‘ کی حیثیت اصلاً اسی حصے کو حاصل ہے جس کو بانیوں نے تعمیر کیا تھا۔ اس کے ساتھ ضرورت کے تحت مزید رقبے کا اضافہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن بعد میں شامل کیا جانے والا تمام تر رقبہ اصل مسجد کے ساتھ اتصال کی وجہ سے محض توسیعاً اور ضمناً مسجد کے حکم میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے جن اصل بنیادوں پر کعبۃ اللہ کو تعمیر کیا تھا، ان کو بیت اللہ کی پوری تاریخ میں نہایت اہتمام کے ساتھ محفوظ رکھا گیا ہے۔ مسجد اقصیٰ کو بھی چونکہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ جگہ پر الٰہی ہدایات کے مطابق تعمیر کیا تھا، اس لیے اس کی اصل بنیادوں کی حفاظت کا معاملہ بھی، ظاہر ہے، اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ اب اگر یہود کے حق تولیت کے امت مسلمہ کو منتقل ہونے کے تصور کو درست مان لیا جائے تو سیدنا عمرؓ کو اس عبادت گاہ پر تصرف حاصل کرنے کے بعد اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے تھا کہ جس طرح انہوں نے کعب الاحبار کی راہنمائی میں صخرۂ بیت المقدس کو کوڑا کرکٹ اور ملبے کے نیچے سے دریافت کیا، اسی طرح ’مسجد‘ کی اصل بنیادوں کو تلاش کر کے ان کو محفوظ کرنے کا انتظام فرماتے، لیکن اس طرح کی کوئی کوشش انہوں نے نہیں کی، چنانچہ اصل مسجد کا رقبہ اور اس کی بنیادیں متعین طور پر آج بھی معلوم نہیں ہیں۔

دوسرے یہ کہ انہوں نے اس پورے احاطے کو، جو سارے کا سارا مسجد کا درجہ رکھتا تھا اور جس میں کسی بھی جگہ نماز ادا کی جا سکتی تھی، مسلمانوں کی عبادت کے لیے کھلا چھوڑ دینے کے بجائے اس میں ایک جگہ نماز کے لیے مخصوص کر دی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ساری عبادت گاہ حق تولیت کی منتقلی کے بعد مسلمانوں ہی کا حق بن چکی تھی تو اب وہ اس میں جہاں چاہتے، نماز ادا کرتے اور جس حصے میں چاہتے، عمارت کھڑی کر لیتے۔ پورے احاطے میں ایک مقام کو مخصوص کر دینے کا فائدہ اور حکمت آخر کیا تھی؟

تیسرے یہ کہ کعب الاحبار کی راہنمائی میں جب انہوں نے صخرہ کو، جسے یہود کے قبلے کی حیثیت حاصل تھی، دریافت فرما لیا تو اصل مسجد کا محل وقوع ان کے علم میں آ گیا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ کعب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس مقام کو نماز اور عبادت کے لیے منتخب فرماتے، اس لیے کہ اصل مسجد کی حیثیت اسی حصے کو حاصل تھی، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کی عبادت کے لیے ایک ایسی جگہ مخصوص فرمائی جو ہیکل کی چار دیواری کے اندر لیکن اس کی اصل عمارت سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اس کی وہ وجہ بھی یقیناً درست ہے جو روایات میں ان سے منقول ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ سیدنا عمرؓ کی اس فراست اور دور بینی کی ایک اور مثال ہے جس کا اظہار انہوں نے کلیسائے قمامہ میں نماز کا وقت آنے پر کیا تھا۔

ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے غور کیجیے تو سیدنا عمرؓ کا یہ طرز عمل یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کی دلیل نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت قرار پاتا ہے کہ وہ عبادت گاہ پر یہود کے حق کو برقرار مانتے تھے، البتہ انہوں نے اپنے نہایت حکیمانہ فیصلے کے ذریعے سے یہود کے حق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ دو مزید مقاصد بھی حاصل کر لیے:

ایک یہ کہ اس قدر فضیلت رکھنے والی عبادت گاہ کو آباد کرنے کی سبیل پیدا کر دی جس میں صدیوں سے خدائے واحد کی عبادت کا سلسلہ منقطع تھا، اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے یہاں عبادت کرنے کے حق کو بھی اس طرح سے محفوظ کر دیا کہ مستقبل میں کسی بھی موقع پر یہود کے حق کے ساتھ تعارض پیدا ہونے اور نزاع کھڑی ہونے کی نوبت نہ آئے۔

ہم آئندہ سطور میں واضح کریں گے کہ سیدنا عمرؓ کی یہی وہ فراست ہے جو آج چودہ صدیوں کے بعد بھی دنیا کے اس سنگین ترین مذہبی تنازع کے حل کے لیے ایک معقول اور قابل قبول بنیاد فراہم کرتی ہے، بلکہ اگر عبد الملک بن مروان نے سیدنا عمرؓ کے طے کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ’قبۃ الصخرۃ‘ کو تعمیر کر کے عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو غالب امکان یہ تھا کہ یہ نزاع سرے سے پیدا ہی نہ ہوتی۔

۷۔ ’مسجد‘ محل کا نام ہے یا عمارت کا؟

اس ضمن میں ایک اچھوتا نکتہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ یہود کو تولیت کا حق تو صرف اس عمارت پر حاصل تھا جو کہ ’ہیکل‘ کے نام سے بنی اسرائیل کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ یہ عمارت جس قطعہ زمین پر قائم کی گئی، وہ چونکہ حق تولیت میں شامل ہی نہیں تھا، اس لیے عمارت کے نیست و نابود ہو جانے کے بعد حق تولیت کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔

اس استدلال کی سطحیت کو واضح کرنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ انہی ناقدین نے واقعہ اسراء کو مسلمانوں کے حق تولیت کی دلیل قرار دیا ہے، حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ اس وقت یہاں کوئی عمارت، خاص طور پر مسلمانوں کی تعمیر کردہ کوئی عمارت موجود نہیں تھی۔ اگر حق تولیت کا تعلق صرف عمارت سے ہوتا ہے تو پھر وہ کون سی چیز تھی جس کا حق تولیت واقعہ اسراء کے موقع پر امت مسلمہ کو عطا کیا گیا؟ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز استدلال ہے۔ دنیا کے مذاہب میں اس تصور کا ثبوت شاید ہی کہیں پیش کیا جا سکے کہ عبادت گاہ اصل میں عمارت کا نام ہے، نہ کہ اس قطعہ زمین کا جس پر وہ قائم ہے۔ کم از کم یہودیوں اور مسلمانوں کے مذہبی قوانین میں یہ ایک بالکل اجنبی تصور ہے۔ مولانا قاری محمد طیبؒ اس حوالے سے اسلامی تصور کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”کعبہ کی طرح اقصیٰ بھی درحقیقت فضا کی ایک جہت خاص ہے، کوئی حسی یا جسمانی مکان نہیں ہے۔ رہی عمارت کعبہ یا عمارت اقصیٰ، وہ ان وضعوں پر بطور حسی اور علامتی نشانات کے بنائے گئے ہیں جن کے اندر فضا کی یہ خاص جہت آئی ہوئی ہے۔“ ( مقامات مقدسہ، ص ۱۲۵)
”کعبہ کی طرح اقصیٰ بھی اسی محل و مقام کا نام ہو گا جس پر مسجد اقصیٰ کی عمارت بنی کھڑی ہے۔ اگر اس مسجد کی عمارت کسی وجہ سے باقی نہ رہے تو اقصیٰ کے وجود و برکات میں کوئی فرق نہ آئے گا جبکہ وہ حصہ فضا ہے، عمارت نہیں۔“ (ایضاً، ص ۳۵۱)

جب عبادت گاہ عمارت کے بجائے دراصل اس مخصوص قطعے کا نام ہے جس پر عمارت قائم ہے تو ظاہر ہے کہ حق تولیت کا تعلق بھی قطعہ زمین ہی سے ہو گا۔ سرخسیؒ نے اہل کتاب کی منہدم ہو جانے والی عبادت گاہوں کی تعمیر نو کا حق اسی بنیاد پر ان کے لیے تسلیم کیا ہے:

فان انهدمت كنيسة من كنائسهم القديمة فلهم ان يبنوها كما كانت لان حقهم فی هذه البقعة قد كان مقررا لما كانوا اعدوه له فلا يتغير ذلك بانهدام البناء فاذا بنوه كما كان فالبناء الثانی مثل الاول۔ (سرخسی، شرح السیر الكبیر، ص ۱۵۳۵)
”اگر ان کی پرانی عبادت گاہوں میں سے کوئی منہدم ہو جائے تو انہیں پہلے کی طرح اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے، کیونکہ اس قطعہ زمین پر حق تو انہیں اسی لیے حاصل تھا کہ وہ اس پر عبادت گاہ قائم کریں، چنانچہ عمارت کے گرنے سے یہ حق ساقط نہیں ہو گا بلکہ اگر وہ اسے دوبارہ تعمیر کریں گے تو اس کا حکم وہی ہو گا جو پہلی عمارت کا تھا۔ “

۸۔ ’جزاء سيئة سيئة مثلها‘ كا اصول

عالم عرب کے حالیہ رویے کا جواز ثابت کرنے کے لیے یہ استدلال بھی سامنے آیا ہے کہ چونکہ یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطحوں پر ظلم وستم، ناانصافی اور حق تلفی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس لیے اصولی طور پر وہ احاطہ ہیکل پر کوئی حق رکھتے بھی ہوں تو انہیں عملاً اس سے محروم رکھنا ’Tit for Tat‘ یا ’جزاء سيئة سيئة مثلها‘ کے اصول پر جائز ہے۔

اس کے جواب میں ہماری گزارش یہ ہے کہ اگر امت مسلمہ کے طرز عمل کا ماخذ سیکولر اخلاقیات ہیں تو ممکن ہے ان کی روشنی میں یہ استدلال اپنے اندر کوئی وزن رکھتا ہو، لیکن جہاں تک ان اخلاقی تعلیمات کا تعلق ہے جو عبادت گاہوں کے حوالے سے قرآن مجید نے بیان کی ہیں، تو ان میں اس استدلال کے لیے ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں۔ قرآن مجید نہ صرف یہ کہ مذہبی وسیاسی اختلافات کی بنا پر لوگوں کو ان کی عبادت گاہوں میں عبادت سے روکنے کو ایک بہت بڑا ظلم قرار دیتا ہے47، بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ایک گروہ دوسرے گروہ کوکسی عبادت گاہ سے روکنے کے جرم کا مرتکب ہوا ہو تب بھی دوسرے گروہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ جوابی کارروائی کے طور پر پہلے گروہ کو اس عبادت گاہ میں جانے سے روکے۔ چنانچہ مشرکین عرب کے بارے میں یہ بات آغاز ہی سے مسلمانوں پر واضح کی جا چکی تھی کہ وہ مسجد حرام کی تولیت کے حق دار نہیں۔ اس کے باوجود جب انہوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکا اور یہ خدشہ پیدا ہوا کہ مسلمان بھی جواب میں ان کے عازمین حج کو مکہ مکرمہ جانے سے روکنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ایک واضح اخلاقی اصول کی روشنی میں ان کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہے:

یایھا الذین امنوا لا تحلوا شعائر الله ولا الشهر الحرام ولا الھدی ولا القلائد ولا اٰمین البیت الحرام یبتغون فضلا من ربھم و رضوانا واذا حللتم فاصطادوا ولا یجرمنکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجد الحرام ان تعتدوا وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اللہ ان اللہ شدید العقاب۔ (المائده ۲:۵)
”ایمان والو، اللہ کے شعائر اور حرام مہینوں اور قربانی کے جانوروں اور ان کے پٹوں اور بیت الحرام کا قصد کرنے والوں کی بے حرمتی نہ کرو جو اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ اور جب تم احرام سے نکل آؤ تو شکار کر سکتے ہو۔ اور اگر کسی گروہ نے تمہیں مسجد حرام سے روکا ہے تو ان کے ساتھ دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو۔ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تو ایک دوسرے کی مدد کرو، لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ نہایت سخت سزا دینے والا ہے۔“

۹۔ قانونی اور اخلاقی حق میں فرق

متعدد ناقدین کے لیے ہماری یہ بات بھی اچنبھے کا باعث بنی ہے کہ احاطہ ہیکل کی تولیت کے واقعاتی تسلسل کی بنیاد پر اگرچہ امت مسلمہ بلا شرکت غیرے اس عبادت گاہ کی مالک ہونے کے دعوے میں قانونی طور پر حق بجانب ہے، لیکن اخلاقی لحاظ سے اس کا یہ موقف درست نہیں۔ ناقدین کا خیال یہ ہے کہ کسی معاملے کے قانونی اور اخلاقی پہلوؤں میں اس طرح کی کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی۔ گویا جو چیز قانونی لحاظ سے ایک فریق کا حق ہے، لازم ہے کہ اخلاقی لحاظ سے بھی وہ ہر طرح سے اسی کا حق قرار پائے اور دوسرے فریق کو اس سے بالکل لاتعلق قرار دے دیا جائے۔

ناقدین کے لیے اس بات کا موجب حیرت ہونا خود ہمارے لیے بھی موجب حیرت ہے۔ ہم نے جو بات کہی، وہ عقل عام کے دائرے کی ایک بالکل سادہ سی بات ہے۔ اخلاقی اصولوں کے بارے میں ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ وہ درجے اور اہمیت کے لحاظ سے یکساں نہیں بلکہ متفاوت ہوتے ہیں۔ اخلاقیات کا ایک درجہ یہ ہے کہ انسان کسی معاملے میں صرف اس حق کو پیش نظر رکھے جو اسے بعض عملی پہلوؤں کی بنا پر حاصل ہے اور جس کے تحفظ کی ضمانت اسے ’قانون‘ دیتا ہے، لیکن اس سے بلند تر درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے حق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ دوسرے فریق کے جذبات و احساسات کو بھی ہمدردی کی نگاہ سے دیکھے اور کوئی قانونی جبر نہ ہو تو بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق میں دوسرے فریق کو شریک کر لے۔

قانون کی غرض اعلیٰ اخلاقیات کے فروغ سے نہیں بلکہ نزاعات کے تصفیے سے ہوتی ہے۔ اس عملی زاویہ نگاہ کے باعث بعض دفعہ ایک قانونی فیصلے میں ان بلند تر اور آئیڈیل اخلاقی تصورات کو نظر انداز کرتے ہوئے، جن کی پاس داری ایک فریق کو محض یک طرفہ طور پر (Unilaterally) کرنی چاہیے، اخلاقیات کے اس کم سے کم درجے کو بنیاد بنا لیا جاتا ہے جس کی پابندی پر فریقین کو مجبور کیا جا سکے، اور یہ صورت محض اس لیے اختیار کی جاتی ہے تاکہ کم سے کم عملی الجھنوں کو سلجھانا پڑے۔

یہی صورت حال احاطہ ہیکل کی تولیت کے معاملے کی ہے۔ مسلمانوں کا یہ موقف کہ چونکہ انہوں نے یہ عبادت گاہ یہود سے چھینی نہیں تھی بلکہ ان کی غیر موجودگی میں اسے آباد کیا تھا اور کئی صدیوں سے وہی اس کی تولیت کے ذمہ دار چلے آ رہے ہیں، یقیناً اخلاقیات کے ایک درجے کے لحاظ سے اس بات کا جواز فراہم کرتا ہے کہ وہ یہود کو اس کی تولیت کے حق میں اپنے ساتھ شریک نہ کریں، لیکن اخلاقیات کا اس سے ایک برتر درجہ بھی ہے جس کی تعلیم قرآن مجید نے خاص طور پر عبادت گاہوں کے حوالے سے دی ہے، اور وہ یہ کہ خدا کی عبادت چونکہ نیکی اور تقویٰ کا عمل ہے، اس لیے کسی گروہ کو اس کی عبادت گاہ میں جو اس کے روحانی و قلبی جذبات کا مرکز ہے، عبادت کرنے سے نہ روکا جائے، بالخصوص جب کہ وہاں سے اس کی بے دخلی ظلماً و قہراً اور مذہبی و اخلاقی اصولوں کی پامالی کے نتیجے میں عمل میں آئی ہو۔

۱۰۔ صلیبیوں سے مسجد اقصیٰ کی بازیابی

احاطہ ہیکل کی تولیت کے مسئلے میں ایک غلط فہمی امکانی طور پر سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے طرز عمل سے بھی پیدا ہو سکتی ہے، کیونکہ سلطان نے ۱۱۸۷ء میں فتح بیت المقدس کے بعد اس عبادت گاہ پر نصاریٰ کے قبضے کو ختم کر کے انہیں یہاں سے بے دخل کر دیا تھا۔ سلطان یا ان کے ساتھیوں کا عمل اگرچہ اس معاملے کی شرعی نوعیت کی تعیین میں کسی طرح بھی ماخذ نہیں بن سکتا، تاہم چونکہ ان کا یہ اقدام بذات خود شریعت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق تھا، اس لیے ہم اس کی صحیح نوعیت کو واضح کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ نصاریٰ کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مسجد اقصیٰ کی تعظیم و تقدیس اور اس کے ساتھ تعلق کے حوالے سے ان کا مذہبی نقطہ نظر یہود سے بالکل مختلف ہے۔ وہ، یہود کے برخلاف، سرے سے اس مقام کی تقدیس و تعظیم کے قائل ہی نہیں اور نہ کبھی اس بنیاد پر انہوں نے اس کی تولیت کا دعویٰ کیا۔ رومی شہنشاہ قسطنطین کی والدہ ملکہ ہیلینا (Helena) نے ۳۳۵ء میں رومی دیوتا ’جیوپیٹر‘ کے معبد کو گرا کر اس جگہ کو کوڑا کرکٹ اور گندگی پھینکنے کے لیے مخصوص کر دیا تھا48۔ ۶۳۸ء میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو احاطہ ہیکل ایک مزبلہ (Garbage Dump) کی صورت میں تھا جہاں نصاریٰ، یہودیوں اور ان کی عبادت گاہ سے نفرت کے اظہار کے لیے کوڑا کرکٹ اور گندگی پھینکا کرتے تھے۔ صلیبی دور میں جب انہوں نے اس جگہ کو اپنے تصرف میں لیا تو بھی اس کا محرک تقدس یا عظمت کا کوئی تصور نہیں تھا، جس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے یروشلم میں داخل ہونے سے پہلے یہاں کے باشندوں کو ہتھیار ڈالنے کی دعوت دی تو انہوں نے اس سے انکار کرتے ہوئے دھمکی دی کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو پامال کرنے کے لیے تمام عمارتوں کو جلا دیں گے اور قبۃ الصخرۃ کو گرا کر صخرہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے49۔ احاطہ ہیکل کے مسلمانوں کے زیر تصرف آنے کے بعد بھی مسیحیوں کی جانب سے اس عبادت گاہ کی توہین کا سلسلہ جاری رہا، چنانچہ سولہویں صدی میں سلطان سلیم عثمانی جب یہاں آئے تو احاطہ ہیکل کی مغربی دیوار یعنی دیوار گریہ کوڑے کرکٹ اور گندگی کے نیچے، جسے نصاریٰ یہاں پھینک دیا کرتے تھے، دبی ہوئی تھی۔ سلطان نے اس جگہ کو صاف کرا کر یہودیوں کو اس کی زیارت کی اجازت عطا کی50۔

اس پس منظر میں دیکھیے تو سلطان صلاح الدین کے صلیبیوں کو احاطہ ہیکل سے بے دخل کرنے کی بنیاد نصاریٰ کا یہ مخصوص رویہ تھا نہ کہ اہل کتاب کے تعلق و وابستگی کی مطلقاً نفی کا کوئی تصور، اس لیے اس اقدام کو یہود کے معاملے میں، جو اس مقام کی تعظیم و تقدیس کے پوری طرح قائل ہیں، نظری یا عملی طور پر بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔

موجودہ حالات میں اس بحث کی ضرورت

اب ہم اس مسئلے سے متعلق ان سوالات کا جائزہ لیں گے جو اس کی عملی نوعیت و اہمیت کے حوالے سے اٹھائے گئے ہیں:

پہلا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ عالم اسلام بالعموم اور عالم عرب بالخصوص یہود و نصاریٰ کی سیاسی و معاشی چیرہ دستیوں کا شکار ہے اور فلسطینی قوم کی جدوجہد آزادی ایک بے حد نازک موڑ پر ہے، مسجد اقصیٰ کی تولیت کی بحث کو چھیڑنے کی ضرورت اور اس میں ایک ایسا نقطہ نظر اختیار کرنے کا فائدہ کیا ہے جو، ناقدین کے خیال میں، امت مسلمہ کے مفادات کے صریح منافی ہے۔

اس سوال سے تعرض کرتے ہوئے پہلے تو اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری معلوم ہوتا ہے جو بعض ناقدین کو اس مسئلے کی اہمیت کے حوالے سے لاحق ہوئی ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ احاطہ ہیکل کی تولیت کی بحث ایک مردہ بحث ہے جس کا آج کے عملی حالات سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا اس پر زور قلم صرف کرنا ایک بے کار مشغلہ ہے۔ ہمارے خیال میں یہ رائے معاصر عالمی مسائل اور حالات سے بالکل بے خبری کی دلیل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ بحث پوری طرح سے ایک زندہ بحث ہے اور اسے اگر اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مذہبی تنازع قرار دیا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ صدیوں کے سکوت کے بعد صہیونی تحریک کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مساعی کے نتیجے میں یہودیوں کے ہاں ہیکل کی تعمیر کا سوال پوری شدت کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔ اس سے قبل اس کی حیثیت ایک نظری اعتقاد کی تھی لیکن قیام اسرائیل اور بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کے بعد اس نے ایک عملی مسئلے کا روپ دھار لیا ہے اور یہودی مذہبی حلقوں میں ہیکل کے محل وقوع کی تعیین، اس کی تعمیر کے نقشے، مذہبی و فقہی شرائط اور ممکنہ حکمت عملی پر زور و شور سے بحثیں جاری ہیں51۔ یہود کے مذہبی حلقوں میں ہیکل کی تعمیر نو پر اصولی اختلاف تو نہ پہلے تھا اور نہ آج ہے، البتہ بعض مذہبی شرائط اور معروضی حالات کے تناظر میں یہ حلقے باہم مختلف الرائے ہیں:

ا۔ قدامت پسند یہودی حلقوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ تیسرے ہیکل کی تعمیر صرف مسیح کے ہاتھوں ہو گی، اس سے قبل صرف دعا اور انتظار کیا جا سکتا ہے۔ نیز چونکہ سرخ بچھڑے کی غیر موجودگی میں اس وقت یہودی قوم رسمی طور پر ناپاکی کی حالت میں ہے، اس لیے ہیکل کے اصل مقام پر ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اور چونکہ ہیکل کے اصل مقام کی متعین نشان دہی سردست نہیں کی جا سکتی، اس لیے احتیاطاً پورے احاطہ ہیکل میں کسی بھی یہودی کا داخلہ جائز نہیں۔

۲۔ اس کے برعکس بعض انتہا پسند حلقوں کی رائے یہ ہے کہ ہیکل کی تعمیر فوری طور پر رو بہ عمل لائی جانی چاہیے، ورنہ کم از کم احاطہ ہیکل کو یہودیوں کے تصرف میں ضرور دے دیا جانا چاہیے۔

۳۔ یہودیوں کے مذہبی طبقات کا ایک بڑا حصہ اس بات کا قائل ہے کہ ہیکل کی فوری تعمیر کی شرائط تو پوری نہیں ہوتیں، لیکن اس وقت تک یہودیوں کو اس میں دعا اور عبادت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اسرائیل کی ۵۰ فی صد سے زائد رائے عامہ اس نقطہ نظر کے حق میں ہے اور اسرائیلی عدالتیں متعدد مواقع پر یہودی عبادت گزاروں کو احاطہ ہیکل میں داخل ہونے اور وہاں دعا کرنے کا حق دے چکی ہیں52۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ احاطہ ہیکل کے ساتھ یہودی قوم کا مذہبی تعلق پوری شدت کے ساتھ قائم ہے۔ تیسرے ہیکل کی تعمیر کی مخالفت کا اظہار اگر ہوتا ہے تو یہودیوں کے مذہب بیزار طبقات اور سیکولر پریس کی جانب سے ہوتا ہے جن کی رائے میں یہ اقدام نہ صرف سنگین سیاسی نتائج کا حامل ہو گا جس سے عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین اختلافات کی خلیج مزید بڑھنے کا حقیقی خطرہ موجود ہے، بلکہ وہ قربانی کی مختلف رسوم کو زمانہ قدیم کی یادگار قرار دیتے ہوئے جدید دور میں انہیں رجعت پسندی اور ’primitivism‘ کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک مذہبی لوگوں کا تعلق ہے تو تیسرے ہیکل کی تعمیر ان کے اعتقاد کا جزو لاینفک ہے۔ ان میں باہمی اختلاف یہ نہیں کہ ہیکل تعمیر ہو گا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا فی الفور ہیکل کی تعمیر کے لیے مذہبی شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں اور کیا معروضی سیاسی حالات اس کے لیے سازگار ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ اس سے اصل مسئلہ حل نہیں ہوتا اور نزاع بدستور باقی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجودیکہ اسرائیلی حکومتیں عالم اسلام کے دباؤ کی وجہ سے داخلی طور پر اس مطالبے کی حوصلہ شکنی کرتی رہی ہیں کہ احاطہ ہیکل کو یہودیوں کے تصرف میں دے دیا جائے، لیکن اسرائیلی رائے عامہ اور مذہبی حلقوں کے دباؤ پر ۲۰۰۰ء میں کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات میں جب بیت المقدس اور اس کے مقامات مقدسہ کی حتمی پوزیشن (Final Status) کا سوال زیر بحث آیا تو اسرائیلی وفد کی جانب سے یہ مطالبہ پورے اصرار کے ساتھ سامنے آیا کہ احاطہ ہیکل کا زیر زمین حصہ یہودیوں کے زیر تصرف دے دیا جائے اور اس کے ایک کونے میں یہودیوں کے لیے ایک عبادت گاہ قائم کرنے کی اجازت دی جائے53۔ ابھی کچھ عرصہ قبل اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے ہیکل کی تعمیر کا جو اعلان کیا، اس کا محرک بھی اسرائیلی رائے عامہ کے اسی عنصر کی سیاسی حمایت کا حصول تھا۔

اس وضاحت کے بعد اب ہم اصل سوال کا جائزہ لیں گے، یعنی یہ کہ اس بحث کو ان نازک حالات میں چھیڑنے کی آخر ضرورت کیا ہے؟ ہماری معروضات اس ضمن میں حسب ذیل ہیں:

ا۔ ہمارے نزدیک اس معاملے میں سب سے نازک سوال امت مسلمہ کی اخلاقی پوزیشن کا ہے۔ ہم نے اپنی تحریر میں رائج نقطہ ہائے نظر کے علمی پہلوؤں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاقی مضمرات کو بھی پوری طرح واضح کیا تھا اور یہ گزارش کی تھی کہ امت مسلمہ کے سیاسی اور معاشرتی وجود کی بامقصد بقا کے لیے سب سے پہلے اس کے اخلاقی وجود کا تحفظ ضروری ہے۔ اگر امت کسی معاملے میں اجتماعی طور پر ایک غیر اخلاقی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت سنگین صورت حال ہے جس کی اصلاح کی کوشش باقی تمام کوششوں سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہماری یہ گزارش کسی بھی درجے میں درخور اعتنا نہیں سمجھی گئی اور معاملے کو اس زاویے سے دیکھنے کے بجائے اسے قومی مفادات ہی کی عینک سے دیکھنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ کسی قوم کو داخلی احتساب پر آمادہ کرنا ویسے بھی کوئی آسان کام نہیں، لیکن اس کے ساتھ جب اجتماعی نفسیات میں یہ غرہ بھی ہو کہ ہم تو خدا کی آخری شریعت کے حامل اور افضل الرسل کی امت ہیں جبکہ ہمارا مخالف گروہ ایک مغضوب و ملعون گروہ ہے تو عدل و انصاف اور غیر جانب داری کی دعوت، فی الواقع، کوئی آسانی سے ہضم ہونے والی چیز نہیں رہ جاتی۔ اس کا اندازہ، زیر بحث مسئلے میں، اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے کسی ناقد نے عالم عرب کے اس موقف کی تردید کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جس کی رو سے مسلمانوں کے زیر تصرف ’الحرم الشریف‘ کا سیدنا سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ’ہیکل‘ سے، جس کا ذکر قرآن مجید نے ’المسجد الاقصیٰ‘ کے نام سے کیا ہے، کوئی تعلق نہیں اور ’مزعومہ ہیکل‘ ماضی میں کبھی بھی اس احاطے کے اندر کسی جگہ واقع نہیں تھا۔ یہ دعویٰ تاریخی و مذہبی مسلمات کی کھلم کھلا تکذیب پر مبنی ہے، اور اگر امت مسلمہ کے ’مفادات‘ کے پیش نظر اس سے بھی ’غض بصر‘  کیا جا سکتا ہے تو پھر ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے بعد ’اخلاقی حس‘ کا کون سا درجہ باقی رہ جاتا ہے جسے اپیل کرنے کی کوشش کی جائے۔

۲۔ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا معاملہ محض ایک مذہبی اور اخلاقی معاملہ نہیں، اس کا مسئلہ فلسطین کے سیاسی پہلو کے ساتھ بھی نہایت گہرا عملی تعلق ہے۔ قیام اسرائیل ان بے شمار جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں میں سے ایک ہے جو عالم اسلام کے طول و عرض میں یورپی طاقتوں کے غلبہ و استیلا کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئیں۔ یہ تبدیلیاں معمولی نوعیت کی نہیں تھیں، انہوں نے عالم اسلام کے پورے سیاسی نقشے کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ اس غلبے کے نتیجے میں عالم اسلام، جس کا بیشتر حصہ وقت کی دو عظیم سلطنتوں یعنی خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کے زیر سایہ سیاسی لحاظ سے متحد تھا، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ ان میں سے سلطنت مغلیہ کے بیشتر رقبے پر اس وقت ایک بہت بڑی غیر مسلم ریاست قائم ہے، جبکہ سلطنت عثمانیہ کے زیادہ تر یورپی مقبوضات ’عالم اسلام‘ سے نکل کر غیر مسلم دنیا کا حصہ بن چکے ہیں۔ وسطی ایشیا کا مسلم اکثریت پر مشتمل خطہ عرصہ دراز تک ایک غیر مسلم سپر پاور کا حصہ بنا رہا۔ خود باقی ماندہ عالم اسلام میں لسانی، نسلی، مذہبی، سماجی اور معاشی بنیادوں پر کثیر الجہات تبدیلیوں کا جو غیر مختتم سلسلہ شروع ہوا، وہ اس پر مستزاد ہے۔ اس سے کئی صدیاں قبل یورپ کی انہی طاقتوں کے ہاتھوں اندلس کی تعظیم الشان مسلم سلطنت کی تباہی کا زخم ہم سہہ چکے ہیں۔

سیاسی و معاشی مغلوبیت کا یہ مظہر دراصل قاضئ تقدیر کی مقرر کردہ وہ سزا ہے جو جرم ضعیفی کی مرتکب ہر قوم کو، بلا استثنا، اس دنیا میں مل کر رہتی ہے۔ یہ سزا جب نافذ ہوتی ہے تو کسی قوم کے لیے عظمت رفتہ کے خوابوں میں جینا ممکن نہیں رہتا۔ کوئی قوم اگر اس کے بعد ماضی میں جینا چاہتی ہے تو وہ اپنی سزا کی مدت میں محض اضافہ ہی کرتی ہے۔ اس کے بعد فیصلوں اور حکمت عملی کی درست بنیاد کی حیثیت معروضی حقائق کو حاصل ہو جاتی ہے نہ کہ خواہشات، امنگوں اور ماضی کے تاریخی حقائق کو۔ چنانچہ سیاست اور جغرافیہ میں رونما ہونے والی مذکورہ تمام تبدیلیوں کو، جو ظاہر ہے کہ یورپی طاقتوں کی جانب سے قانونی اور اخلاقی قدروں کی پامالی ہی کے نتیجے میں رونما ہوئی تھیں، عالم اسلام نے ’معروضی حقائق‘ کی منطق کی رو سے قبول کر لیا اور آج وہ کسی قسم کے موثر بہ ماضی مطالبات اور قانونی و نظری سوالات اٹھائے بغیر وضع موجود (Status-quo) ہی کے تناظر میں ان سب طاقتوں کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے۔

فلسطین کا معاملہ بھی معروضی حالات کے اس جبر سے مستثنیٰ نہیں، اور صہیونیت سے قطع نظر کر لیجیے تو عرب ممالک اسی خطے میں زمینی حقائق کے ادراک کا عملی ثبوت بھی دے چکے ہیں، چنانچہ دوسری جنگ عظیم میں عربوں نے ترکوں کے اقتدار سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس شرط پر برطانوی حکومت کا ساتھ دیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر ترکی کے تمام عرب مقبوضات کو ایک یا ایک سے زائد آزاد اور خود مختار عرب مملکتوں کی حیثیت دے دی جائے گی۔ تاہم برطانوی حکومت نے فرانس کے ساتھ اپنے ایک خفیہ معاہدہ (Sykes-picot Agreement) کے تحت، جس سے عربوں کو قصداً بے خبر رکھا گیا تھا54، جنگ کے اختتام پر فلسطین کا کنٹرول خود سنبھال لیا اور ۱۹۲۰ء میں لیگ خبر آف نیشنز نے فلسطین کو باقاعدہ برطانوی انتداب کے سپرد کر دیا۔ برطانوی حکومت کی اس دوغلی پالیسی کے باوجود اس کے بعد ۱۹۴۸ء تک برطانوی انتداب ہی کو قانونی اتھارٹی تسلیم کرتے ہوئے خطے کے تمام عرب ملک اس کے ساتھ معاملات کرتے رہے۔ سلطنت برطانیہ کے ساتھ کیے جانے والے قانونی و سیاسی معاہدوں کی پاس داری کا حال یہ تھا کہ ۱۹۳۸ء میں جب حکومت برطانیہ کی طرف سے ایک خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر، جس میں بتایا گیا تھا کہ سعودی حکومت فلسطین کے انقلاب پسندوں کے ساتھ مالی تعاون کرنے کے علاوہ یورپ سے اسلحہ خرید کر انہیں مہیا کر رہی ہے، سعودی حکمران شاہ عبد العزیز سے جواب طلبی کی گئی تو انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا:

”ہمارے مابین ایک سچی دوستی اور مشترک مفادات کے حوالے سے کئی معاہدات موجود ہیں۔ ہمیں اس کا پورا یقین ہے کہ عربوں کے موجودہ اور مستقبل کے مفادات کو محفوظ بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے برطانیہ کے ساتھ دوستی اختیار کر لیں۔ اگر اہل فلسطین میری بات مانتے تو برطانیہ سے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے پُرامن ذرائع کو ہی واحد حکمت عملی کے طور پر اختیار کرتے۔ حکومت برطانیہ کے علم میں اس بات کا آنا ضروری ہے کہ فلسطینی انقلاب کے لیے ہماری مدد کے حصول کے لیے بہت سی کوششیں کی گئیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم کوئی ایسا اقدام کریں جس سے ہمارے اور برطانیہ کے مابین معاہدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔“ ( جبران شامیۃ : ’آل سعود، ماضیہم ومستقبلہم‘، ص ۲۱۲)

جہاں تک معروضی حقائق کا تعلق ہے تو وہ صہیونی ریاست کے معاملے میں دنیا کے کسی بھی دوسرے سیاسی معاملے سے بڑھ کر واضح اور نمایاں ہیں۔ عربوں کے مقابلے میں یہودیوں کی ذہنی، تعلیمی، معاشی، سیاسی اور تدبیری فوقیت مسلم اور اپنے مشن کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی اور اس کے حصول کے لیے جانی و مالی قربانی کا جذبہ عدیم المثال ہے۔ اس کے ساتھ انہیں برطانیہ، روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی پشت پناہی بھی آغاز ہی سے واضح طور پر حاصل رہی ہے۔ یورپ میں صدیوں تک یہودی جس مذہبی اور معاشرتی ایذا رسانی (Persecution) کا نشانہ بنے رہے، اس کی بنا پر ہمدردی کی ایک عمومی فضا مغربی دنیا میں ان کے لیے پائی جاتی ہے اور اپنی غیر معمولی تدبیری کوششوں سے انہوں نے عالمی آئینی اداروں سے بھی ریاست اسرائیل کو فی نفسہٖ ایک جائز اور قانونی ریاست تسلیم کروا رکھا ہے۔ ریاست اسرائیل دنیا کے نقشے پر ان گوناگوں عوامل کے نتیجے میں، عربوں کی تمام تر مزاحمت کے باوجود، ظہور پذیر ہوئی اور جب تک ان عوامل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اس کا وجود باقی رہے گا۔ ان حالات میں صہیونی ریاست کے عملاً قائم ہو جانے کے بعد اسی حکمت عملی کو اپنائے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا جسے عالم اسلام کے طول و عرض بلکہ خود فلسطین میں حالات کے جبر کے تحت اختیار کیا گیا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معروضیت اور عملیت پسندی کا یہ رویہ قیام اسرائیل کے حوالے سے یکسر غائب ہے۔ عرب ممالک اور عوام ایک عرصے تک تو طاقت کے توازن میں فرق کو ہی سمجھنے میں ناکام رہے، چنانچہ قیام اسرائیل کے بعد مسلسل ربع صدی تک اسرائیل کے ساتھ عسکری مخاصمت کے راستے پر چل کر ہر جنگ میں پہلے سے زیادہ رقبے سے ہاتھ دھونے اور لاکھوں فلسطینیوں کو گھر سے بے گھر کروانے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ پھر جب نصف صدی کے تجربات ارد گرد کے عرب ملکوں اور فلسطین کی سیاسی قیادت کو زمینی حقائق سے کچھ آشنا کر دینے میں کامیاب ہوئے تو جہادی تنظیمیں اپنے خود کش حملوں کے ساتھ یہ بتانے کے لیے آن موجود ہوئیں کہ انہیں منزل سے نہیں، صرف سفر سے غرض ہے۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں فلسطینی قوم اپنے کسی ہدف کو پانے میں تو کامیاب نہیں ہو سکی، البتہ اس کے مسائل و مشکلات میں ہر گزرنے والے مرحلے کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اب اگر اسرائیل کے حوالے سے عرب دنیا کی اس جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ حکمت عملی کے نفسیاتی اسباب تلاش کیجیے تو ’مسجد اقصیٰ‘ کا معاملہ ان میں سرفہرست ہو گا۔ یہ حکمت عملی جس نفسیاتی فضا میں اختیار کی گئی، اس کی تشکیل میں اس تصور کا کردار غیر معمولی ہے کہ مسجد اقصیٰ صرف اور صرف مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ ہے اور اس خطے میں یہودیوں کے سیاسی اقتدار کو تسلیم کر لینے کے بعد اس عبادت گاہ سے ان کو دور رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حرمت کے فتوے کی بنیاد بھی اصلاً اسی مسئلے پر ہے۔ یہی مسئلہ عرب اور مسلم دنیا میں اس مذہبی جذباتیت کے فروغ کا سبب ہے جس کی بنیاد پر صدام اور ناصر جیسے قوم پرست اور سیکولر ڈکٹیٹروں کو صلاح الدین ایوبیؒ جیسے عالی مرتبت جرنیل کے ساتھ تشبیہ دینا گوارا کیا گیا۔ امت مسلمہ کی یہی وہ ’دکھتی رگ‘ ہے جس کو چھیڑ کر ایریل شیرون جیسے امن دشمن یہودی اپنے سیاسی مفادات کی خاطر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین جاری امن مذاکرات کے سارے عمل کو برباد کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اور آج بھی اس خطے میں پائیدار امن کے قیام میں جو مسائل بنیادی رکاوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں یروشلم اور اس کے مقامات مقدسہ کی تولیت کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ معروضی حالات کا ادراک کرنے کی صلاحیت پر یہ جذباتی مسئلہ کس درجے میں اثر انداز ہوا ہے، اس کا اندازہ کرنا ہو تو مولانا مودودیؒ کا تجویز کردہ یہ ”سیدھا اور صاف حل“ ملاحظہ فرما لیجیے:

”یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفر سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے، صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی ۱۹۱۷ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں، انہیں واپس جانا چاہیے۔“ ( سانحہ مسجد اقصیٰ، ص ۱۹، ۲۰)

اسرائیل کے حوالے سے اس خاص امتیازی رویے کا جواز ثابت کرنے کے لیے پیش کی جانے والی دوسری توجیہات (Justifications)، مثلاً صہیونی حکماء کے نام نہاد پروٹوکولز یا عظیم تر اسرائیل کا منصوبہ، زیادہ تر زیب داستاں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور بالفرض ان چیزوں کی کوئی واقعی حقیقت ہو بھی تو وہ اسرائیل کے ساتھ سیاسی سطح پر معاملہ کرنے میں مانع نہیں، کیونکہ اسرائیل اس مفروضہ ریاست کے قیام کے لیے اندھا دھند پیش قدمی کرنے کی پوزیشن میں بہرحال نہیں ہے، چنانچہ وہ اس مفروضہ عظیم تر ریاست کے بعض علاقوں پر قابض ہونے کے بعد عملی مصلحتوں کے پیش نظر صحرائے سینا مصر کو اور بعض مقبوضہ علاقے لبنان کو واپس کر چکا ہے، گولان کی پہاڑیاں بعض تحفظات کے ساتھ شام کو واپس کرنے کے لیے تیار ہے اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر اصولی آمادگی ظاہر کر چکا ہے۔ خود عرب دنیا اسرائیل کے مبینہ توسیع پسندانہ عزائم کے باوجود عملاً اسرائیل کے ساتھ پر امن تعلقات کے قیام کی ضرورت کا احساس کر چکی ہے۔ مصر اور اردن کب سے اس کے وجود کو جائز تسلیم کر چکے ہیں۔ سعودی عرب، لبنان اور شام ہمسایہ عرب ملکوں کے مقبوضہ علاقوں کی واپسی اور فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے قیام کی شرط پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ ظاہر کر چکے ہیں55۔ فلسطین کی سیاسی لیڈر شپ عسکریت کا راستہ ترک کر کے گزشتہ ایک دہائی سے اسرائیلی حکومتوں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں کا ڈول ڈالے ہوئے ہے۔ اور تو اور، حماس کے سپریم لیڈر شیخ احمد یاسین نے شہادت سے قبل متعدد مواقع پر یہ اعلان کیا کہ اسرائیل اگر مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی آزاد ریاست کو تسلیم کرلے تو حماس قیام امن کے عمل میں تعاون کرے گی۔ روزنامہ جنگ لاہور میں ۲۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق:

”حماس کے سرکردہ رہنما عبد العزیز رانتیسی نے اپنی خفیہ کمین گاہ سے ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا کہ اگر اسرائیل ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقے خالی کر دے تو حماس دس سالہ جنگ بندی پر تیار ہے۔ تنظیم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ موجودہ صورت حال میں ہم اپنی سرزمین کے پورے علاقے کو آزاد نہیں کرا سکتے لہٰذا فی الحال ہم مغربی کنارے، جس میں یروشلم اور غزہ کی پٹی بھی شامل ہو، پر مشتمل فلسطینی ریاست قبول کر لیں گے اور اسرائیل کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے انخلا اور فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں فائر بندی قبول کر لیں گے۔ حماس کے رہنما نے بتایا کہ اس پیشکش کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حماس اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لے گی یا اس سے اسرائیل فلسطینی جھگڑا ختم ہو جائے گا۔“

گویا ’بعد از خرابی بسیار‘ تمام متعلقہ فریق ان زمینی حقائق کو تسلیم کرنے اور ان کی بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ معاملہ کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں جن کے واقعی ادراک سے، دیگر بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ، احاطہ ہیکل کے بارے میں یہ تصور بھی نفسیاتی طور پر مانع ہے کہ یہودی اس پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اب اگر یہ تصور کوئی شرعی اور دینی بنیاد نہیں رکھتا تو کیا یہ ضروری نہیں ہو جاتا کہ معاملہ کی اصل حقیقت لوگوں کے سامنے لائی جائے اور ان بے بنیاد تصورات کی اصلاح کی کوشش کی جائے جو معروضی حقائق کو تسلیم کرنے اور کوئی نتیجہ رخی (Result-oriented) حکمت عملی اختیار کرنے کے حوالے سے امت مسلمہ، بالخصوص عالم عرب کو یکسو نہیں ہونے دے رہے؟

۳۔ اس مسئلے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے جو ہمارے لیے اس بحث کو ان نازک حالات میں چھیڑنے کا محرک بنا ہے۔ امت مسلمہ کی منصبی ذمہ داری، جیسا کہ اس بحث کے آغاز میں تفصیل سے بیان ہوا، رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی نیابت میں اقوام عالم تک دین ابراہیمی کا ابلاغ ہے۔ جہاں تک جزیرۂ عرب اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کا تعلق ہے، یہ ذمہ داری رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ’اتمامِ حجت‘ کے درجے میں انجام دی۔ اس اتمام حجت میں دو عوامل تو تکوینی لحاظ سے، عالم اسباب میں، معاون بنے:

ایک یہ کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب کے جن اہل کتاب کو اپنی دعوت کا مخاطب بنایا، وہ سرزمین عرب کے اندر مقیم ہونے کی وجہ سے اپنے مذہبی صحائف کی پیش گوئیوں اور سینہ بہ سینہ چلی آنے والی روایات سے پوری طرح واقف اور ان کی بنیاد پر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی بعثت کے منتظر تھے۔

دوسرے یہ کہ انہیں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے عہد رسالت اور اس کے مختلف مراحل کو بتمامہا اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا اور غلبہ اسلام کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے کیا تھا، اس کی تکمیل خود ان کے سامنے ہوئی۔

ان تکوینی عوامل کے علاوہ خود رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں تدبیری لحاظ سے بھی ایسی حکمت عملی اختیار فرمائی کہ اہل کتاب میں مسلمانوں کے ساتھ قرب و اشتراک کا احساس پیدا ہو اور انبیائے بنی اسرائیل اور رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی دعوت کے مابین اتحاد اور یگانگت کے پہلو اجاگر ہو جائیں۔ چنانچہ:

✩ آپ نے اپنی دعوت کے لیے مشترک اساس ملت ابراہیمی کو قرار دیا اور اہل کتاب کے سامنے یہ بات مختلف پہلوؤں سے نمایاں کی کہ آپ کسی نئے دین کے داعی نہیں بلکہ دین ابراہیمی کی انہی تعلیمات کے احیاء کے لیے تشریف لائے ہیں جو اہل کتاب اور اہل اسلام کے لیے مشترک طور پر ماخذ و مصدر کی حیثیت رکھتی ہیں56۔

✩ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ وہ اہل کتاب کو اپنی دعوت کا مخاطب بنانے میں حکمت اور موعظہ حسنہ سے کام لیں اور اگر کہیں بحث مباحثہ کی ضرورت پیش آ جائے تو تہذیب اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں57۔

✩ اسی ضمن میں انہیں یہ ہدایت بھی دی گئی کہ وہ اہل کتاب کی علمی و مذہبی خیانتوں سے محض ضرورت کی حد تک تعرض کریں اور اس کو مجادلہ و مباحثہ کا مستقل موضوع بنا کر ایک نفسیاتی و ذہنی بُعد پیدا کرنے کے بجائے ان کی اس قسم کی باتوں سے درگزر اور اعراض سے کام لیں58۔

✩ مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی کہ وہ اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے پراپیگنڈا، بے ہودہ اعتراضات، گستاخی و بے ادبی اور زبانی اذیت کی دیگر ناگوار صورتوں کو حتی الامکان صبر اور تقویٰ کے ساتھ برداشت کریں59۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی دعوتی حکمت عملی کے تحت یہود کے ناقابل برداشت حد تک گستاخانہ رویے پر بھی عام طور پر صبر و اعراض اور عفو و درگزر ہی سے کام لیا60۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی حوالوں سے اہل کتاب کے ساتھ موافقت و موانست اور دعوت و مکالمہ پر مبنی ایک نہایت پر امن، مثبت اور موافقانہ فضا قائم کی، جس کی ایک جھلک ذیل کے چند واقعات میں دیکھی جا سکتی ہے:

✩ مکی عہد نبوت میں جب روم کے مسیحیوں اور فارس کے مجوسیوں کے مابین جنگ میں رومیوں کو شکست ہوئی تو مسلمان بہت غمگین ہوئے۔ رومیوں کے ساتھ اس ہمدردی کو قرآن مجید نے بنظر استحسان دیکھا اور مسلمانوں کی تسلی کے لیے یہ وعدہ فرمایا کہ عنقریب رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہو گا اور اس دن مسلمانوں کو خوشی حاصل ہو گی61۔

✩ ہجرت کے بعد ایک مخصوص عرصے تک رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم یہود کی تالیف قلب کے لیے ان کے قبلہ یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے62۔

✩ فرعون کی غلامی سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کی خوشی میں مدینہ منورہ کے یہود محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے ان کی موافقت میں عاشورا کا روزہ رکھنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا63۔

✩ ایک انصاری نے یہ جملہ زبان سے ادا کرنے پر ایک یہودی کو تھپڑ مار دیا کہ: والذی اصطفى موسى على البشر (اس اللہ کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا کی ہے) اور کہا کہ تم موسیٰ علیہ السلام کو رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم سے بھی افضل قرار دیتے ہو؟ یہودی شکایت لے کر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس کی شکایت سن کر انصاری سے شدید ناراض ہوئے اور یہود کے مذہبی جذبات کی رعایت سے صحابہ کو اس بات سے منع فرما دیا کہ وہ ان کے سامنے انبیاء میں سے بعض کو بعض سے افضل قرار دیں64۔

✩ ۹ ہجری میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ حضور صلى الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ جب عصر کی نماز کا وقت آیا اور انہوں نے نماز پڑھنی چاہی تو صحابہ نے ان کو روک دیا، لیکن رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں نماز پڑھنے دو۔ چنانچہ انہوں نے مشرق کی سمت میں اپنے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی65۔

✩ ایک شخص کا جنازہ گزرا تو آپ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ کہا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے، تو فرمایا: کیا وہ انسان نہیں ہے؟66

✩ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ان کے ساتھ معاشرتی اور قانونی معاملات میں ہر موقع پر عدل و انصاف کا رویہ اختیار فرمایا جس کی شہادت ایک موقع پر خود یہود نے یوں دی کہ: هذا الحق و به تقوم السماء والارض۔ ”یہی وہ حق اور انصاف ہے جس کے سہارے زمین اور آسمان قائم ہیں67۔“

✩ جن معاملات میں آپ کو کوئی واضح ہدایت نہیں ملی ہوتی تھی، ان میں آپ اہل کتاب کے قوانین اور طریقوں کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے68۔

✩ لباس اور وضع قطع سے متعلق امور میں بھی آپ مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب کے طریقے کی موافقت کو پسند فرماتے تھے69۔

رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی ان تدبیری کوششوں کی وجہ سے اہل کتاب کو تعصبات اور نفسیاتی الجھنوں سے صاف ماحول میں پوری ذہنی آزادی کے ساتھ آپ کی دعوت کو سمجھنے کا موقع ملا اور آپ کے دعوائے نبوت کی حقانیت ان پر پوری طرح واضح ہو گئی، چنانچہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں70، البتہ وہ آپ کو صرف بنی اسماعیل کا نبی قرار دیتے ہوئے خود کو آپ پر ایمان لانے کے حکم سے مستثنیٰ سمجھتے تھے71۔ یہ اعتقاد عہد نبوی اور عہد صحابہ کے اہل کتاب تک محدود نہیں تھا بلکہ ان علاقوں میں آباد ان کی آئندہ نسلیں بھی بالعموم اسی کی قائل رہیں72۔

رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کی اس دعوتی حکمت عملی کی اتباع، جس کے نتیجے میں دعوت حق کے مذکورہ نتائج حاصل ہوئے، زمان و مکان کی تبدیلیوں سے قطع نظر امت مسلمہ کے لیے ہر ماحول اور ہر زمانے میں ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ شہادت حق کی ذمہ داری ادا کی جا سکتی ہے اور نہ دعوت و تبلیغ سے ان نتائج کے حاصل ہونے کی کوئی توقع ہی کی جا سکتی ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو اپنے زمانے میں حاصل ہوئے۔ لیکن اسے ایک بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ مغربی یورپ اور اس کے زیر اثر دوسرے علاقوں کے باشندوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا عمل اس طرح کے موافق اور سازگار ماحول میں شروع نہ کیا جا سکا۔ اس خطے کی مسیحی طاقتوں سے مسلمانوں کا پہلا واسطہ صلیبی جنگوں میں پڑا اور ایک صدی پر محیط ان خونریز جنگوں کی تلخ یادیں صدیوں کے لیے فریقین کے ذہنوں پر نقش ہو گئیں۔ یورپ کے عوام کے سامنے رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم، اسلام اور مسلمانوں کی جو بھیانک اور مسخ شدہ تصویر قرون وسطیٰ میں پیش کی جاتی رہی، اس کے پس منظر میں جہالت، تعصب، جذبہ تحقیق کے فقدان اور عدم رواداری کے ساتھ ساتھ صلیبی جنگوں کی پیدا کردہ نفسیاتی فضا بھی پوری طرح کار فرما تھی۔ یہ تاریخ کا ایک جبر تھا، تاہم اس کا ازالہ تاریخ کے ایک دوسرے جبر کے ذریعے سے ممکن ہوا۔ علم و فکر پر اہل مذہب کی عائد کردہ غیر فطری پابندیوں سے جب اہل مغرب کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو انہوں نے مذہب کو ایک جوا قرار دے کر اس کو اپنے کندھوں سے اتار پھینکا۔ ریاست کی طرف سے ایک مخصوص مذہب کو اختیار کرنے کی پابندی کا خاتمہ کر دیا گیا اور اپنی رائے اور ضمیر کے مطابق کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے کا حق ہر فرد کا بنیادی انسانی حق قرار پایا۔ آج مغرب اپنے تاریخی تجربات کی روشنی میں جس اخلاقی قدر کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور جس پر وہ گویا ’ایمان‘ لائے ہوئے ہے، وہ یہی مذہبی آزادی، رواداری اور باہمی احترام کی قدر ہے۔ یورپ میں مذہب اور ریاست کی علیحدگی کم از کم اس حوالے سے اپنے اندر خیر کا ایک نمایاں پہلو رکھتی ہے کہ اس نے مذہب اور ریاست دونوں کو ایک دوسرے کی مجبوریوں سے چھٹکارا دلا دیا۔ ریاست، کلیسا کے مذہبی تعصبات سے بلند ہو کر لوگوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کے قابل ہوئی، اور اہل مذہب کی چشم تنگ انسانی زندگی کی بلند تر آدرشوں اور وسیع تر مقاصد کے ادراک کے لیے وا ہو گئی۔ مستثنیات سے صرف نظر کر لیجیے تو آج یورپ میں مذہب اور ریاست دونوں اس بنیادی قدر پر متفق ہیں۔ اس ضمن میں کاتھولک کلیسا کا انقلاب حال خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ اس کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ گزشتہ صدیوں میں روا رکھا جانے والا رویہ بھی سامنے رکھیے اور وٹیکن کی مجلس دوم (۱۹۶۵-۱۹۶۲) کا یہ اعلان بھی ملاحظہ فرمائیے:

”کلیسیا اہل اسلام کو بھی عزت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ یہ تو اس واحد خدا کی تعظیم کرتے ہیں جو انسان سے ہم کلام ہوا۔ یہ اسے واجب الحی [؟] اور واجب الوجود، رحمان و رحیم، قادر مطلق، آسمان اور زمین کا خالق تسلیم کرتے ہیں اور دیانت داری کے ساتھ اس کے وہ احکام عمل میں لاتے ہیں جو محض بشری فہم و ادراک سے بالکل باہر ہیں۔ اس بات میں یہ حضرت ابراہیم کی سی اطاعت پیش کرتے ہیں جس سے اہل اسلام اپنے ایمان کے مطابق تعلق رکھتے ہیں۔ اہل اسلام اگرچہ خداوند یسوع کی الوہیت سے منکر ہیں تاہم اسے نبی کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ یسوع کی کنواری ماں کا بھی احترام کرتے ہیں اور اکثر عقیدت مندانہ طور پر اسے یاد کرتے ہیں۔ ان باتوں کے علاوہ وہ یوم قضا کے بھی منتظر ہیں جب خدا تمام بنی نوع انسان کو مردوں سے زندہ کر کے ان کے کاموں کے مطابق جزا دے گا۔ آخر کار یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ وہ اخلاقی زندگی کی قدر کرتے ہیں اور خصوصاً نماز، زکوٰۃ اور روزوں سے خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ چونکہ گزشتہ صدیوں کے دوران مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ و جدل اور عداوت برپا ہوتی رہی، اس لیے یہ مقدس مجلس سب کو یہ ترغیب دیتی ہے کہ ماضی کو بھول کر مخلصانہ طور پر ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور کل بنی آدم کے فائدے کے لیے معاشرتی انصاف، اخلاقی بھلائی، سلامتی اور آزادی کو محفوظ رکھیں اور ترقی دیں۔“ (ویٹی کن مجلس دوم، مترجم: حمید ہنری، ص ۵۶۲)

صلیبی جنگوں کی تلخ یادوں کو مغرب کی نفسیات سے مٹانے اور اسلام کی اصل دعوت کو ایک کھلے اور آزاد ماحول میں اہل مغرب تک پہنچانے کے حوالے سے یہ انقلاب حال یقیناً ایک ’خوش قسمتی‘ قرار پاتا، لیکن بدقسمتی یہاں اس طرح آڑے آئی کہ جب تعصب اور جہالت کے خلاف خود یورپ نے بغاوت کا علم بلند کیا اور اس میں ادیان و مذاہب سمیت انسانی علم کے دائرے میں آنے والی ہر چیز کی آزادانہ تحقیق کا جذبہ پیدا ہوا تو مسلمان یورپی طاقتوں کے ہاتھوں اپنی سیاسی اور معاشی مغلوبیت کے غم میں مبتلا ہو کر اپنے دعوتی کردار سے غافل ہو چکے تھے۔ چنانچہ یورپ کے ذہنی اور فکری انقلاب نے دعوت اسلام کے حوالے سے جو امکانات پیدا کیے، مسلمان ان کو کسی بھی قابل ذکر درجے میں استعمال نہ کر سکے۔ یہ فضا اسلام کی دعوت کے فروغ کے لیے جس قدر ضروری اور مفید تھی، مسلمانوں نے اتنا ہی اس کی ناقدری کا ثبوت دیا۔ اور اب تو سیاسی اور معاشی محرومیوں کا احساس اتنا غالب آچکا ہے کہ ہماری حکمت عملی میں نہ ’دعوتِ اسلام‘ کو کوئی مقام حاصل ہے اور نہ اپنے اقدامات اور پالیسیوں کا ہم اس زاویے سے جائزہ لینے کی کوئی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اسلام کی دعوت پر وہ کس طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ مغربی دنیا علمی، فکری اور سماجی سطح پر مذہبی رواداری کے حوالے سے جس قدر حساس ہوتی جا رہی ہے، مسلمانوں کی طرف سے اس قدر کی پامالی داخلی اور خارجی دونوں دائروں میں اتنی ہی شدت کے ساتھ سامنے آ رہی ہے۔ حقیقت چاہے کچھ ہو، لیکن آج لگتا یہ ہے کہ مذہبی رواداری اصل میں مغرب کی قدر ہے، اس لیے کہ مسلمان عالمی سطح پر اپنے دین کا تعارف جس صورت میں پیش کر رہے ہیں، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی، یہودی اور مسیحی عبادت گاہوں پر خودکش حملے، ہیکل سلیمانی کے بارے میں تاریخی مسلمات کی تکذیب اور نہایت کمزور دلائل کی بنیاد پر یہودیوں کے تاریخی و مذہبی حق کی نفی اس کے نمایاں مظاہر ہیں۔ ؎

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اس صورت حال کا تجزیہ تاریخی تناظر میں جو بھی کیا جائے اور اس کا ذمہ دار جن اسباب و عوامل کو بھی ٹھہرایا جائے، یہ بات طے شدہ ہے کہ اسلام کو اپنی اصل صورت میں مغربی اقوام تک پہنچانے کی ذمہ داری ان نفسیاتی اور ذہنی رکاوٹوں کو دور کیے بغیر پوری نہیں کی جا سکتی جن کو کھڑا کرنے میں خود ہماری کوتاہ نظری کا حصہ کم نہیں ہے۔ یہ اقوام مسیحیت کی پیروکار ہیں جو صدیوں سے دنیا کا سب سے بڑا مذ ہب چلا آ رہا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ایک پیش گوئی کے مطابق قیامت کے برپا ہونے کے وقت بھی اسے یہی حیثیت حاصل ہو گی73۔ گویا مغرب کی یہ مسیحی اقوام دعوت اسلام کا سب سے بڑا ہدف ہیں اور ان تک اس پیغام کو پہنچانے کے لیے مذہبی اساسات میں اشتراک کو اجاگر کرنا اور امن و بھائی چارے کی فضا کا قیام آج بھی دعوت اسلام کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو احاطہ ہیکل کے تنازع کا ایک منصفانہ اور معقول حل مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے تشدد، جارحیت اور عدم رواداری کے منفی تاثر کے ازالے اور دعوت اسلام کے حوالے سے مثبت اور سازگار فضا کی تشکیل میں غیر معمولی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر امت مسلمہ کی قیادت سطحی جذباتیت سے بالاتر ہو کر اپنی بصیرت اور فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کا یہ سنگین ترین مذہبی تنازع حل کر سکے تو دعوت اسلام کے اس قدر لامحدود مواقع اور امکانات پیدا ہو سکتے ہیں کہ ان کا پیشگی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کا انتظار کیے بغیر جب خارجی حالات کا دباؤ اس مسئلے کا کوئی ممکنہ طور پر ناپسندیدہ حل قبول کرنے پر ہمیں مجبور کر دے، یہ پیش کش خود امت مسلمہ کی جانب سے ایک بلند اخلاقی شعور اور داعیانہ بصیرت کے ساتھ سامنے آئے اور اس کے نتیجے میں دعوت اسلام کے لیے تیار ہونے والی (Responsive) فضا سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی پیشگی وضع کر لی گئی ہو۔

کیا کوئی عملی حل ممکن ہے؟

اب ہم اس بحث کے آخری نکتے کی طرف آتے ہیں۔ اوپر کی ساری بحث سے یہ سوال قدرتی طور پر سامنے آتا ہے کہ کیا اس تنازع کا کوئی قابل قبول عملی حل ممکن بھی ہے، اور کیا کوئی ایسی صورت نکالی جا سکتی ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کو اس عبادت گاہ سے بالکلیہ لاتعلق اور اس میں عبادت کے حق سے محروم کیے بغیر دونوں کے حق تولیت و عبادت کے لیے گنجائش پیدا کی جا سکے؟ ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ اس کے لیے مناسب ہو گا کہ اس مقام کی تاریخ کے بعض اہم پہلوؤں پر ایک نظر ڈال لی جائے۔

احاطہ ہیکل (Temple Mount)، جو کہ آج کل ’الحرم الشریف‘ کے نام سے معروف ہے، بحالت موجودہ تقریباً پینتالیس ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ سطح سمندر سے یہ احاطہ اوسطاً ۲۴۰۰ فٹ بلند ہے اور اس کو ایک غیر متساوی الاضلاع چار دیواری محیط ہے۔ جنوبی جانب سے اس دیوار کی لمبائی تقریباً ۹۱۰، شمالی جانب سے تقریباً ۱۰۲۵، مشرقی جانب سے تقریباً ۱۵۲۰ اور مغربی جانب سے تقریباً ۱۵۸۰ فٹ ہے۔ اسی احاطے کے اندر کسی مقام پر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے وہ شان دار عبادت گاہ تعمیر کی تھی جو تاریخ میں ’ہیکل سلیمانی‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ ’ہیکل‘ کی اصل عمارت کی بنیادیں، اس کی تعمیر کا نقشہ اور حدود اسرائیلی شریعت میں بالکل متعین تھیں اور ان میں کمی بیشی کا اختیار کسی کو حاصل نہیں تھا، چنانچہ ۵۸۶ ق م میں بخت نصر کے ہاتھوں تباہی کے بعد دوسرے ہیکل کی تعمیر بھی انہی بنیادوں پر ہوئی اور یہودی مذہبی قوانین کے مطابق تیسرا ہیکل بھی بعینہٖ انہی بنیادوں پر تعمیر ہو گا۔ البتہ ’مسجد‘ کی اصل عمارت کے ارد گرد نسبتاً وسیع تر رقبے میں ایک چار دیواری بھی تعمیر کی گئی تھی جسے بعد میں دو مرحلوں پر مزید وسیع کر دیا گیا۔ پہلی مرتبہ یہ توسیع یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس نے ۱۹ ق م میں، جبکہ دوسری مرتبہ رومی شہنشاہ ہیڈرین نے ۱۳۶ء میں کی۔ ہیڈرین کی مقرر کردہ چار دیواری ہی آج تک برقرار چلی آ رہی ہے۔

۶۳۸ء میں سیدنا عمر کی زیر قیادت بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد مسلمانوں نے اس احاطے میں نصاریٰ کے پھینکے ہوئے کوڑا کرکٹ اور گندگی کو صاف کروا کر اس کی جنوبی دیوار کے قریب ایک جگہ کو اپنی عبادت کا مرکز بنا لیا اور بعد میں وہاں ایک باقاعدہ مسجد تعمیر کر لی گئی۔ ابتدا میں کچھ عرصہ تک یہ ’مسجد عمر‘ کے نام سے معروف رہی74، لیکن چونکہ ہیکل کے پورے احاطے میں مسلمانوں نے صرف یہی جگہ نماز کے لیے مخصوص کر لی تھی، اس لیے مسلمانوں کے ہاں ’مسجد اقصیٰ‘ کا لفظ اپنے اصل مفہوم یعنی ہیکل سلیمانی اور اس کو محیط پوری چار دیواری کے بجائے رفتہ رفتہ اسی مخصوص مسجد کے لیے بولا جانے لگا۔ عبد الملک بن مروان نے اپنے دور حکومت میں احاطے کے تقریباً وسط میں واقع صخرۂ بیت المقدس پر بھی ایک قبہ تعمیر کروا دیا۔ یہی دو عمارتیں آج بھی احاطے کے اندر اہم اور نمایاں ہیں۔ عبد الملک کی پیروی میں بعد کے مسلمانوں نے بھی مختلف اوقات میں یہاں مختلف جگہوں پر چھوٹے بڑے قبے تعمیر کر لیے جنہیں مختلف ناموں سے موسوم کر دیا گیا۔

اس وقت عملی صورت حال کے لحاظ سے یہ پورا احاطہ صدیوں سے مسلمانوں کے زیر تصرف ہے اور اس تسلسل کی بنیاد پر یروشلم کے مسلم وقف کا موقف یہ ہے کہ اس احاطے کی ایک انچ جگہ پر بھی یہودی کوئی حق نہیں رکھتے اور اس کے کسی بھی حصے پر ان کو تولیت و تصرف کا حق دینا احکام شریعت کے بالکل خلاف ہے۔ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ صبری کے الفاظ میں:

”مسجد اقصیٰ کے ارد گرد تمام عمارتیں اسلامی وقف کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان عمارتوں کے دروازے، کھڑکیاں اور راستے براہ راست مسجد اقصیٰ کی جانب کھلتے ہیں اور برکت اور تقدس کے لحاظ سے ان کا درجہ بھی وہی ہے جو کہ مسجد اقصیٰ کا۔ لہٰذا اسلامی قانون کی رو سے ان میں سے کسی بھی عمارت کو غصب کر کے اسے یہودیوں کی عبادت گاہ میں تبدیل کرنا ناممکن ہے۔“ (http://www.la.utexas.edu/)

ہمارے نزدیک موجودہ نزاع کی اصل جڑ مسلم وقف کا یہی انتہا پسندانہ موقف ہے، اور اس پر نظر ثانی نہ صرف قرآن و سنت کے نصوص بلکہ امت مسلمہ کے اس رویے کی روشنی میں بھی ضروری ہے جو اس نے گزشتہ صدیوں میں، احاطہ ہیکل پر عملاً قابض ہونے کے باوجود، ہیکل کی تعمیر کے امکان کے حوالے سے اختیار کیے رکھا۔ یہودیوں کا یہ عقیدہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ ایک وقت آئے گا جب وہ اس مقام پر ’ہیکل سلیمانی‘ کی تعمیر نو کریں گے۔ اس امکان کے حوالے سے امت مسلمہ کے رد عمل کا تاریخی لحاظ سے جائزہ لیجیے تو وہ منفی نہیں بلکہ مثبت رہا ہے:

ا۔ فتح بیت المقدس کے موقع پر سیدنا عمر کے طرز عمل کا جائزہ لیتے ہوئے ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے عبادت کی ایک ایسی جگہ منتخب کی جو ہیکل کی اصل عمارت سے بالکل ہٹ کر واقع تھی۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ مستقبل میں یہود اور مسلمانوں کے مابین کسی تنازع کے پیدا ہونے کا امکان باقی نہ رہے۔

۲۔ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اگرچہ بعض سیاسی یا مذہبی اغراض کے تحت سیدنا عمرؓ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے احاطہ ہیکل کے اندر اس چٹان کے اوپر بھی ایک گنبد تعمیر کروا دیا جسے مسلم مفسرین کی تصریح کے مطابق یہود کے قبلہ کی حیثیت حاصل ہے اور جہاں یہودی روایات کے مطابق ہیکل سلیمانی کا مقدس ترین مقام (Holy of holies) واقع تھا، تاہم یہ کوئی مسجد نہیں بلکہ محض ایک زیارت گاہ تھی75۔ عبد الملک کا یہ اقدام اگرچہ عملاً ان الجھنوں اور پیچیدگیوں کا بنیادی سبب ہے جن سے آج ہمیں سابقہ پیش آ رہا ہے، تاہم خود اس کے ذہن میں پورے احاطہ ہیکل سے اہل کتاب کے حق کی بالکلیہ نفی کا کوئی تصور نہیں تھا، چنانچہ اس نے قبۃ الصخرہ کی تعمیر اور اس کے انتظام و انصرام میں یہودیوں کو بھی شریک ہونے کا موقع دیا۔ اردن یونیورسٹی میں تاریخ یروشلم کے محقق ڈاکٹر کامل جمیل العسلی اور ’Encyclopedia Judaica‘ کے مقالہ نگار بتاتے ہیں کہ ساتویں صدی میں مسجد اقصیٰ کو آباد کرنے کے بعد مسلمانوں نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو بھی یہاں بطور مجاور خدمت انجام دینے کا موقع فراہم کیا76۔

پندرہویں صدی کے عرب مورخ قاضی القضاة مجیب الدین الحنبلی (۱۴۹۶ء) نے اپنی کتاب ”الانس الجلیل بتاريخ القدس والخلیل“ میں اس کی حسب ذیل تفصیل نقل کی ہے:

”مسجد اقصیٰ کے لیے دس یہودی خادم مقرر کیے گئے جن سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ اگلی نسلوں میں ان کی تعداد بڑھ کر بیس ہو گئی۔ ان کے ذمے گرمی سردی کے موسم اور زیارت کے ایام میں مسجد اور اس کے ارد گرد طہارت خانوں کے کوڑا کرکٹ کو صاف کرنا تھا۔ اسی طرح دس مسیحی خاندانوں کو نسل در نسل مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا۔ یہ مسجد کے لیے چٹائیاں تیار کرنے کے علاوہ ان چٹائیوں اور اس نالی کی صفائی کرتے تھے جس سے گزر کر پانی حوضوں تک آتا تھا۔ دیگر کاموں کے علاوہ پانی کے حوضوں کی صفائی بھی انہی کے ذمے تھی۔ مسجد کے یہودی خادموں کی ایک جماعت شیشے کے چراغ، پیالے اور فانوس وغیرہ تیار کرتی تھی اور ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ اسی طرح وہ خادم بھی جزیہ سے مستثنیٰ تھے جنہیں چراغوں کی بتیوں کی دیکھ بھال پر مامور کیا گیا تھا۔ ان کو یہ ذمہ داری عبد الملک کے زمانے سے لے کر ہمیشہ کے لیے نسل در نسل سونپ دی گئی تھی۔“ (ص ۲۸۱)

۳۔ صخرہ کی تعظیم و تکریم کے حوالے سے عبد الملک کے اس اقدام کو اکابر اہل علم نے قرآن و سنت اور سلف کے طریقے سے صریحاً متجاوز قرار دیا اور اس پر کڑی تنقید کی۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

”نہ سیدنا عمرؓ نے صخرہ کے قریب نماز پڑھی اور نہ مسلمانوں نے، اور نہ انہوں نے اس کو چھونے یا بوسہ دینے کا طریقہ ہی اپنایا۔ عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ جب بیت المقدس میں آتے تو مسجد اقصیٰ میں آ کر نماز ادا کرتے تھے لیکن صخرہ یا دوسرے مقامات کے قریب بھی نہیں جاتے تھے۔ یہی طریقہ سلف میں سے عمر بن عبد العزیزؒ، اوزاعیؒ اور سفیان ثوریؒ جیسے معتمد اہل علم سے مروی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد کا صرف وہ حصہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے جسے سیدنا عمرؓ نے مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص کیا۔ اس کے علاوہ باقی کسی حصے کو دوسرے حصے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ ...... صخرہ تو اصل میں یہود کا قبلہ ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس کو (محض ایک محدود وقت کے لیے) قبلہ مقرر کیا گیا تھا لیکن پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا، چنانچہ ہماری شریعت میں جیسے ہفتے کے دن کے بارے میں (جس کی یہود تعظیم کرتے ہیں) کوئی خصوصی حکم نہیں، اسی طرح صخرہ کے حوالے سے بھی کوئی خصوصی حکم باقی نہیں رہا۔ اس کی تعظیم کا طریقہ یہود کی مشابہت اختیار کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔“ (اقتضاء الصراط المستقیم، ص: ۴۳۴، ۴۳۵)

۴۔ مسلمانوں کا سلسلہ عبادت پوری تاریخ میں اصلاً سیدنا عمرؓ کے مخصوص کردہ اسی حصے تک محدود رہا ہے جہاں اس وقت ’مسجد اقصیٰ‘ قائم ہے، اور اسی حصے کو وہ بلا شرکت غیرے صرف مسلمانوں کا حق سمجھتے رہے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں یروشلم کا سفر کرنے والے متعدد سیاحوں اور زائرین کے بیانات سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے یہودیوں کو احاطہ ہیکل میں آنے جانے اور ہیکل کے اصل محل وقوع کے قریب دعا اور عبادت کرنے کی اجازت حاصل تھی اور صرف مسجد عمرؓ یعنی موجودہ مسجد اقصیٰ میں ان کا داخلہ ممنوع تھا77۔

خلافت عثمانیہ کے دور میں بعض سیاسی وجوہ کے تحت احاطہ ہیکل میں یہود و نصاریٰ کے داخل ہونے پر پابندی عائد کی گئی لیکن انیسویں صدی میں جب سلطنت عثمانیہ اور یورپ کی مسیحی طاقتوں کے مابین صلح و امن کے تعلقات قائم ہوئے تو ۱۸۵۶ء میں ترکوں نے عیسائیوں اور یہودیوں کے احاطہ ہیکل میں آنے جانے پر عائد اس پابندی کو منسوخ کر کے سابقہ اجازت کی باقاعدہ تجدید کر دی78۔

۵۔ فقہی ذخیرے میں کہیں بھی مسجد اقصیٰ کے ساتھ یہود کے تعلق اور اس پر ان کے حق کی نفی نہیں کی گئی، بلکہ فقہائے احناف نے، اس کے برخلاف، اپنی کتابوں میں باقاعدہ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مسجد اقصیٰ کا معاملہ مسلمانوں کی عام مساجد سے مختلف ہے، چنانچہ عام مساجد کے لیے وہ اہل ذمہ کے وقف یا وصیت کردہ مال کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ان کی حیثیت خالصتاً مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی ہے، لیکن مسجد اقصیٰ کے حوالے سے وہ اہل کتاب کا یہ حق پوری طرح تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس کی تعمیر و تزئین اور اس کے انتظامات کے لیے اپنا مال وقف یا وصیت کریں79۔ اس کا مفہوم، ظاہر ہے، اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اس کو خالصتاً اہل اسلام کی نہیں، بلکہ اہل اسلام اور اہل کتاب، دونوں کی مشترکہ عبادت گاہ مانتے اور اس پر اہل کتاب کا مذہبی حق تسلیم کرتے ہیں۔

۶۔ اس عقیدے کا اظہار کرنے والے یہودیوں کے خلاف کسی قسم کے مواخذہ یا محاسبہ کا کوئی تذکرہ ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا بلکہ اس کے برعکس مثالیں ملتی ہیں۔ قرون وسطیٰ کے مشہور یہودی عالم اور فلسفی موسیٰ بن میمون نے اپنی کتاب ’The Code of Jewish Law‘ میں صاف طور پر لکھا تھا کہ فقہی شرائط کے پورا ہونے پر ’ہیکل سلیمانی‘ کی تعمیر یہودیوں کی ہر نسل کے لیے ایک مذہبی فریضے کی حیثیت رکھتی ہے80، اس کے باوجود انہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے دربار میں ان کے ذاتی معالج اور دوست کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل تھا اور انہی کے اثر و رسوخ کے تحت سلطان نے بعض یہودی خاندانوں کو یروشلم میں آباد ہونے کی اجازت دی تھی81۔

مذکورہ تاریخی شواہد اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ بیت المقدس اور اس کے مقامات مقدسہ سے، جن میں احاطہ ہیکل بھی شامل ہے، یہود و نصاریٰ کو روکنے کی کوشش یا حق تولیت و عبادت کے تناظر میں ان پر کوئی پابندی پوری اسلامی تاریخ میں، چند استثنائی صورتوں کے سوا، کبھی عائد نہیں کی گئی۔ یہ بات اس تناظر میں خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ حجاز مقدس کو، جس میں مسجد حرام واقع ہے، غیر مسلموں کے قیام کے لیے شرعاً ایک ممنوعہ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ دونوں مقامات کے حوالے سے ان متباین رویوں کا زیر بحث نکتے کے ساتھ تعلق اتنا واضح ہے کہ خود یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے قائل اہل علم بھی اس کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ مولانا قاری محمد طیبؒ فرماتے ہیں:

”جزیرۂ عرب سے یہود و نصاریٰ کے اخراج کی بنیاد نہ تعصب ہے نہ جانب داری اور نہ قومی انفرادیت بلکہ صرف اس حرم الٰہی کو عالمی بدامنی سے بچانا تھا جس کو تشریعاً و تکویناً ’هدى للعالمین‘ اور ’قیاما للناس‘ اور ’حرما آمنا‘ کہہ کر عالمی امن گاہ اور عالمی ہدایت گاہ بنایا گیا تھا کیونکہ قدرتی طور پر جو عالمی امن گاہ ہو گی، اس کی بدامنی بھی عالمی ہی ہو گی نہ کہ مقامی۔ اندریں صورت اگر اس مرکز امن میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین وغیرہ مختلف قوموں کی مخلوط آبادی رکھی جاتی تو قدرتی طور پر مذہبی تعصبات اور فرقہ وارانہ کشیدگیوں کا پیدا ہونا وہاں بھی ناممکن نہ ہوتا۔ ..... دوسرے کسی وقت بھی بالخصوص قومیتوں کے فروغ کے وقت، جیسا کہ آج کا دور ہے، مشرکین زور پکڑ کر یہ آواز بھی اٹھا سکتے تھے کہ چونکہ کعبہ محترمہ قومی طور پر ان کا ہے اور وہ پشت ہا پشت سے بت پرستی ہی کا مذہب لیے ہوتے تھے، لہٰذا کعبہ میں اگر مسلمان نماز پڑھیں تو اسی میں ان کی مورتیاں بھی رکھوا دی جائیں جن کی وہ بھی پوجا پاٹ کرتے رہیں۔ ..... تو نتیجہ یہ ہوتا کہ جس گھر کی وضع ہی توحید عبادت اور رد شرک کے لیے ہوئی تھی، اسی سے اشراک عبادت اور رد توحید کے دھارے بہنے لگتے۔“ ( مقامات مقدسہ، ص۵۹۳)
”جہاں بیت المقدس سابق میں مسلمانوں کا قبلہ اول اور بعد میں موضع صلوٰۃ و جائے ہجرت رہتا آ رہا ہے، وہیں وہ یہود و نصاریٰ کا بھی قبلہ اور مذہبی مرکز ہے اور اس لیے شام میں مسلمانوں کی طرح ان دونوں قوموں کی آمد و رفت اور قلبی دواعی سے ان کا قیام و مقام بھی طبعاً ضروری تھا جس سے روک دیا جانا اسلام نے باوجود اپنی قدرت و اقتدار کے کبھی گوارا نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اس رکاوٹ کو اپنا حق سمجھا، بلکہ ہمیشہ ان قوموں کو وہاں آنے جانے کی آزادی دیے رکھی جو آج تک بھی قائم ہے۔“ (ص ۶۲۳)
”مسلمانوں نے اپنے قبضہ کے دور میں بلا شائبہ تعصب مسجد اقصیٰ، بیت اللحم، صخرۂ معلقہ اور طور سینا کی اسی طرح عظمت و تقدیس اور حفاظت کی جس طرح انہوں نے کعبہ مقدسہ کو عظمتوں کا گھر یقین کر کے اس کی تقدیس کی، جس سے یہود و نصاریٰ کی کبھی بھی دل شکنی نہیں ہوئی بلکہ ان دونوں قوموں کے لیے اقصیٰ و طور کے دروازے اسی طرح بفراخ دلی کھولے رکھے جس طرح خودان کے لیے وہ کھلے ہوئے تھے۔“ (ص ۷۱۱)

سوال یہ ہے کہ جس امکان کے پیش نظر حجاز مقدس میں یہود و نصاریٰ کے قیام کو ممنوع قرار دیا گیا، وہی امکان مسجد اقصیٰ کے بارے میں یہود کے باقاعدہ اور علانیہ مذہبی عقیدے کی صورت میں امت مسلمہ کے سامنے موجود تھا، پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود امت مسلمہ نہ صرف اس شہر بلکہ اس عبادت گاہ کے ساتھ ان کے تعلق و وابستگی کو بنظر احترام دیکھتی اور یہاں ان کو آزادانہ آنے جانے اور مستقل سکونت اختیار کرنے کی اجازت دیتی رہی؟

اس تفصیل کی روشنی میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قبۃ الصخرہ سمیت پورے احاطہ ہیکل کو سیدنا سلیمان علیہ السلام کی مسجد کا حصہ ہونے کے تعلق سے ایک عمومی تقدس اور احترام کا مرتبہ تو یقیناً حاصل ہے، لیکن موجودہ ’مسجد اقصیٰ‘ کے علاوہ پورے احاطہ ہیکل پر تولیت و تصرف کا حق جتانے اور یہودیوں کے حق کی کلیتاً نفی کرنے کا دینی و تاریخی لحاظ سے نہ کوئی جواز ہے اور نہ ضرورت۔ ہمارے نزدیک یہی وہ نکتہ ہے جو اس تنازع میں ایک قابل عمل حل کی بنیاد فراہم کرتا ہے، اس لیے کہ اس کو مان لینے کی صورت میں مسلمانوں کا زاویہ نگاہ اس عبادت گاہ کے حوالے سے یہود کے زاویہ نگاہ سے قطعی مختلف قرار پاتا ہے۔ جہاں تک یہود کا تعلق ہے، ان کی دلچسپی بعینہٖ ان بنیادوں پر تیسرے ہیکل کی تعمیر سے ہے جن پر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے پہلا ہیکل تعمیر فرمایا تھا۔ ہیکل کی تباہی کو صدیاں گزر جانے کے بعد اس کی چار دیواری میں توسیع اور متعدد بار تعمیرات کے نتیجے میں ہیکل کی اصل بنیادوں کی متعین طور پر نشان دہی تو زیر زمین کھدائی اور اثریاتی تحقیق (Archaelogical Research) کے بغیر ممکن نہیں، تاہم بائبل اور تالمود میں بیان کردہ تفصیلات کی روشنی میں یہودی علماء نے تخمیناً اس کی تعیین کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں ان کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:

پہلے نقطہ نظر کے مطابق، جسے ’روایتی نقطہ نظر‘  کہا جاتا ہے اور جسے یہودی علماء اور ربیوں کے ہاں اب تک قبول عام حاصل ہے، ہیکل سلیمانی عین اس مقام پر یا اس سے نہایت قریب واقع تھا جہاں اس وقت قبۃ الصخرہ موجود ہے۔ صخرہ در حقیقت قربان گاہ کا پتھر ہے جہاں سوختنی قربانیاں پیش کی جاتی تھیں۔ بیشتر یہودی ماہرین آثار قدیمہ بھی اسی نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں۔ تاہم بعض نئی تحقیقات میں روایتی نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے یہ رائے اختیار کی گئی ہے کہ ہیکل عین قبۃ الصخرہ کے بجائے اس سے کچھ ہٹ کر واقع تھا۔ اس ضمن میں دو رائیں ہیں:

یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے راکاه (Racah) انسٹی ٹیوٹ آف فزکس کے پروفیسر آشر کوف مین (Physicist Asher Kaufman) کی تحقیق کے مطابق ہیکل کا مقدس ترین مقام یعنی قدس الاقداس (Holy of Holies) قبۃ الصخرہ کی شمالی جانب میں قبۃ الروح (Dome of the Spirits) کے اندر موجود پتھر کی جگہ واقع تھا۔ یہ جگہ قبۃ الصخرہ کے شمال میں ۱۱۰ میٹر یعنی ۳۳۰ فٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔

اس ضمن میں تل ابیب کے ایک ممتاز ماہر تعمیر توویا ساگیو (Tuvia Sagiv) کی رائے کے مطابق ہیکل کا محل وقوع قبۃ الصخرہ کی جنوبی جانب میں تھا۔ یہ جگہ قبۃ الصخرہ اور مسجد اقصیٰ کے درمیان تقریباً وسط میں ہے اور اس وقت یہاں فوارۂ کاس (Al Ka's fountain) واقع ہے82۔

یہود کے نقطہ نگاہ کے برعکس مسلمانوں کا اصل مذہبی مقصد احاطہ ہیکل کی تولیت یا ہیکل کی اصل بنیادوں پر مسجد کی تعمیر نہیں بلکہ اس مقدس مقام پر محض عبادت کا حق حاصل کرنا ہے، چنانچہ تورات میں بیان کردہ ہیکل کے مخصوص نقشے اور اس کی متعین بنیادوں کو اسرائیلی شریعت کے احکام کے حوالے سے جو بھی اہمیت حاصل ہو، اسلامی نقطہ نگاہ سے عظمت و تقدس اور عبادت پر اجر و ثواب ملنے کے پہلو سے یہ پورا احاطہ یکساں فضیلت رکھتا ہے، بلکہ اس میں اگر مزید توسیع بھی کر لی جائے تو اجر و ثواب کی نوعیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ روایات میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے جس مقام پر نماز ادا کرنے کا ذکر ملتا ہے، وہ ہیکل کی چار دیواری کے اندر لیکن ’ہیکل‘ کی اصل عمارت سے باہر واقع ہے۔ ۶۳۸ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں نے بھی ہیکل کی اصل بنیادوں سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی ظاہر کیے بغیر سیدنا عمرؓ کی پیروی میں اسی مقام پر نماز ادا کرنا شروع کر دی اور بعد میں وہاں ایک باقاعدہ مسجد تعمیر کر لی گئی۔ یہی مسجد، آج ’مسجد اقصیٰ‘ کہلاتی ہے، اور یہودی ماہرین کے تجویز کردہ مذکورہ تینوں مقامات میں سے جس مقام کو بھی ہیکل کا اصل محل وقوع مانا جائے، موجودہ مسجد اقصیٰ اس کی زد میں نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ربی شلومو گورن جیسے انتہا پسند یہودی راہنما نے بھی، جس نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیلی فوج کے کمانڈر سے قبۃ الصخرہ کو ڈائنامائیٹ سے اڑا دینے کا مطالبہ کیا تھا، وزارتی کمیٹی برائے مقامات مقدسہ (Ministerial Committee for Holy Places) کو بھیجی جانے والی یادداشت میں یہ تجویز پیش کہ قبۃ الصخرۃ کا ایریا تو مسلمانوں کے لیے ممنوع قرار دیا جائے لیکن مسجد اقصیٰ چونکہ ہیکل کی اصل عمارت کے اندر شامل نہیں، اس لیے وہاں مسلمانوں کو رسائی کی اجازت دے دینی چاہیے83۔

گویا موجودہ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کے حق تولیت کو محفوظ رکھتے ہوئے احاطہ ہیکل کے تنازع کا ایک معقول حل موجود ہے۔ یہ حل یہودی مذہبی حلقوں کے لیے تو بدیہی طور پر قابل قبول ہے، البتہ مسلمانوں کو پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے موجودہ موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان بے بنیاد مذہبی تصورات کو خیر باد کہنا ہو گا جو پوری عبادت گاہ سے یہود کے حق تولیت کی تنسیخ یا قبۃ الصخرۃ کی اہمیت و تقدس کے حوالے سے وضع کر لیے گئے ہیں اور سیدنا عمرؓ کے طرز عمل کی اتباع میں اپنے حق کو اس جگہ تک محدود ماننا ہو گا جہاں روایات میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کا تذکرہ ملتا ہے اور جسے سیدنا عمرؓ نے مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص فرما دیا تھا۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ


حوالہ جات

(۱) دیکھیے: ماہنامہ ’الشریعہ‘، ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۳ء

(۲) مسلم، الجہاد والسیر، ۳۳۳۱

(۳) ابن ماجہ، الدیات، ۲۶۱۸

(۴) ابن کثیر، السیرة النبويۃ، ۴/ ۷۰

(۵) براءۃ:۵

(۶) براءة: ۱۷، ۲۸

(۷) بخاری، تفسیر القرآن، ۴۲۹۰

(۸) مسلم، الحج، ۲۲۸۶

(۹) سید سلیمان ندوی، سیرت النبیؐ، ۳/ ۲۵۴

(۱۰) آیات ا تا ۴

(۱۱) آیت ۵

(۱۲) آیت ۱۷

(۱۳) آیت ۲۸

(۱۴) آیت ۲۹

(۱۵) رسالہ ذبیح ص۔ ۔ ۔ ۔

(۱۶) مسلم، الایمان، ۲۴۲

(۱۷) ازرقی، اخبار مکۃ، ۱/ ۷۲

(۱۸) ابو داؤد، الایمان والنذور، ۲۸۷۵

(۱۹) مسلم، الحج، ۲۴۷۴

(۲۰) البقرہ: ۱۰۵۔ المائدہ: ۸۲۔ البينۃ: ۱

(۲۱) المائده: ۵

(۲۲) البقره: ۲۲۱۔ المائدہ: ۵

(۲۳) سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱ / ۱۵۱۔ ابو اللیث السمرقندی، فتاویٰ النوازل، ص ۲۰۸۔

جمہور فقہاء اسی نقطہ نظر کے قائل ہیں جو ہم نے متن میں بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ اگرچہ اہل کتاب کے ہاں ایسے اعتقادات پائے جاتے ہیں جو یا تو صریحاً شرک کے زمرے میں آتے ہیں اور یا شرک کو مستلزم ہیں، لیکن چونکہ وہ اصولاً خدائے واحد ہی کی عبادت کے قائل ہیں اور اپنے ان شرک آلودہ اعتقادات کو ’شرک‘ تسلیم کرتے ہوئے اقراری طور پر مشرک نہیں ہیں، اس لیے ان کا شمار ’مشرکین‘ میں نہیں ہوتا۔ ابو حیان لکھتے ہیں: والجمهور على ان المشرك من اتخذ مع الله الها آخر وعلى ان اهل الكتاب ليسوا بمشركين (ابوحیان، البحر المحیط، ۵/ ۲۷) ”جمہور کی رائے یہ ہے کہ ’مشرک‘ وہ ہوتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی اور ہستی کو اپنا الٰہ مان لے، اور اہل کتاب (چونکہ اس کے قائل نہیں، اس لیے وہ) مشرک نہیں ہیں۔“

تاہم بعض اہل علم کے نزدیک مشرکانہ اعتقادات کے حامل ہونے کی وجہ سے اہل کتاب، بالخصوص نصاریٰ کا شمار بھی ’مشرکین‘ میں ہوتا ہے، البتہ سابقہ صحف سماوی پر عمل پیرا ہونے کے دعوے اور انبیائے بنی اسرائیل کے ساتھ نسبت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو رعایت دیتے ہوئے بعض عملی احکام میں ان کے اور مشرکین کے مابین امتیاز قائم کر دیا ہے۔ (رازی، مفاتیح الغیب، ۱۰/ ۳۳)

اس رائے پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اللہ کے نبیوں کے ساتھ نسبت اور ان کی ملت پر عمل پیرا ہونے کے مدعی تو مشرکین بنی اسمٰعیل بھی تھے، تو اس بنا پر یہی رعایت ان کو بھی کیوں نہیں دے دی گئی؟ تاہم اگر اس نقطہ نظر کو، برسبیل تنزل، درست مان لیا جائے تو بھی زیر بحث مسئلے میں نتیجے کے لحاظ سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے کہ مشرکین عرب اور اہل کتاب کے احکام میں عملی فرق اس رائے کے حاملین کے ہاں بھی مسلم ہے۔ یہ امتیاز جیسے باقی امور میں ملحوظ رکھا جاتا ہے، اسی طرح مسجد اقصیٰ کی تولیت کے معاملے میں بھی اس کو، لازماً، ملحوظ رکھا جانا چاہیے، کیونکہ باقی امور اور مسجد کی تولیت کے معاملے میں فرق کی کوئی نقلی یا عقلی دلیل موجود نہیں ہے۔

(۲۴) ’توحید‘ کے معاملے میں یہود کی حساسیت کا اندازہ ایک روایت سے کیا جا سکتا ہے۔ قتیلہ بنت صیفیؓ روایت کرتی ہیں کہ یہود کے علماء میں سے ایک عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد، اگر آپ اور آپ کی قوم شرک کا ارتکاب نہ کریں تو آپ بہت اچھے لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا، سبحان اللہ، ہمارے اندر شرک کی کون سی بات ہے؟ اس نے کہا کہ جب آپ لوگ قسم اٹھاتے ہیں تو کعبہ کی قسم بھی اٹھا لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے تھوڑی دیر غور کیا اور پھر فرمایا کہ بھئی، اس نے بات تو ٹھیک کہی ہے، اس لیے جو شخص قسم اٹھائے تو صرف رب کعبہ کی قسم اٹھائے۔ یہودی عالم نے پھر کہا کہ اے محمد، اگر آپ اور آپ کی قوم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں تو آپ بہت اچھے لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا، سبحان اللہ، ہم کب ایسا کرتے ہیں؟ اس نے کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں: جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ (یعنی اللہ کی مشیت اور انسان کے ارادے کو ایک ساتھ ذکر کر دیتے ہیں) رسول اللہ ﷺ نے تھوڑی دیر کے لیے غور کیا اور پھر فرمایا کہ اس نے یہ بات بھی ٹھیک کہی ہے، اس لیے جو آدمی (کسی معاملے میں) اللہ کی مشیت کو بیان کرے تو (اس کے ساتھ متصلاً کسی انسان کے ارادے کا ذکر نہ کرے بلکہ دونوں کو جدا جدا ذکر کرے اور) یوں کہے کہ ’جو اللہ چاہے اور پھر جو تم چاہو۔‘ (مسند احمد، ۲۵۸۴۵)

(۲۵) یونس: ۹۸۔ القلم : ۴۸۔ ۵۰

(۲۶) البقره: ۱۱۴۔ الحج:۴۰

(۲۷) آیت ۱۱۴

(۲۸) مفتی محمد شفیعؒ، معارف القرآن، ۵/ ۴۵۰

(۲۹) 

Encyclopaedia Judaica, "Jerusalem", vol. 9, p. 1410- 
Karen Armstrong, "The Holiness of Jerusalem", Journal of Palestine Studies, Vol. XXVII, Number 3, Spring 1998, p. 15) www.jstor.org

(۳۰) قاضی مجیر الدين الحنبلی: الانس الجلیل بتاريخ القدس والخلیل، ص۲۸۱، ۲۸۲ 

(۳۱) http://www.rabbiwein.com۔ منشی عبد القدیر، بیت المقدس، ص ۹۰۔ پندرہ روزہ تعمیر حیات، ۱۰ جون ۲۰۰۳ء، ص ۲۱

(۳۲) منشی عبد القدیر، بیت المقدس، ص ۹۲

(۳۳) ان کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ابو یوسف، کتاب الخراج، ص ۱۴۸ تا۱۶۱۔ ابن قدامہ، المغنی، ۹/ ۲۸۲۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹/ ۲۰۲

(۳۴) ابن القیم، احکام اہل الذمہ، ۳/ ۱۱۶۴، ۱۱۶۵

(۳۵) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : محمد حسین ہیکل، الفاروق عمر، ۱/ ۲۴۱، ۲۴۲۔ الدكتور توفیق سلطان الیوزبکی، تاریخ اہل الذمۃ فی العراق، ص ۱۲۷ تا ۱۳۷۔ سیدۃ اسماعیل کاشف، مصرالاسلامیہ واہل الذمۃ، ص ۳۹ تا ۴۹۔ ابن القیم، احکام اہل الذمۃ، ۳/ ۱۱۶۳، ۱۱۶۴ ہامش۔ ٹی ڈبلیو آرنلڈ، دعوت اسلام، ص ۶۱۔ جیوش انسائیکلو پیڈیا، آرٹیکل Omar I۔ منشی عبد القدیر، یت المقدس، ص ۶۲

(۳۶) الخراج، ص ۱۴۸۔ ۱۶۱

(۳۷) الاموال ص ۱۴۵

(۳۸) کشاف القناع، ۳/ ۱۳۳

(۳۹) ابن قدامۃ، المغنی، ۹/ ۲۸۴، ۲۸۵۔ الماوردی، الاحکام السلطانیۃ، ص ۱۸۶۔ مغنی المحتاج، ۶/ ۷۸۔ سرخسی، شرح السیر الکبیر، ص ۱۵۳۵

(۴۰) دیکھیے: الدكتور عبد العزيز محمد الشناوى، الدولۃ العثمانیۃ دولۃ اسلامیۃ مفتری علیہا، ۱/ ۹۶۔ ۹۸۔ نیز معاہدۂ پیرس کے متن کے لیے، جو ۳۰ مارچ ۱۸۵۶ء کو طے پایا، ملاحظہ ہو:

http://www.polisci.ucla.edu/faculty/wilkinson/ps123/treaty_paris_1856.htm

(۴۱) یاسر عرفات نے ۱۳ نومبر ۱۹۷۴ء کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ”ہم فلسطین میں ایک جمہوری ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں رنگ، نسل اور مذہب کے امتیاز کے بغیر ہر شخص کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔“ ( محمود جاوید، بیسل سے بغداد تک، ص ۱۲۰)

وٹیکن اور پی ایل او کے مابین ۱۹۹۸ء میں طے پانے والے معاہدے کے آرٹیکل ۲، پیرا گراف ۳ کے الفاظ یہ ہیں: ”پی ایل او فلسطین کے قانون میں تمام شہریوں کے مساوی انسانی اور شہری حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی، جن میں دوسرے حقوق کے علاوہ خاص طور پر یہ حق شامل ہے کہ مذہبی تعلق، اعتقاد یا عمل کی بنا پر ان کے ساتھ انفرادی یا اجتماعی طور پر امتیازی برتاؤ نہیں کیا جائے گا۔“

("The Pope and Jerusalem", Jerusalem Quarterly File, Issue 8, 2000, http://www.jqf-jerusalem.org)

(۴۲) ابن عابدین، رد المحتار، ۴/ ۲۱۴

(۴۳) جصاص، احکام القرآن، ۳/ ۱۴۰، ۱۴۱۔ ابن قدامہ، المغنی، ۹/ ۲۷۴، ۲۷۵

(۴۴) ٹی ڈبلیو آرنلڈ، دعوت اسلام، ص۶۹، ۷۱

(۴۵) اگرچہ بعض روایات میں اس معاملے کو ’شرط عليھم‘‘ (یعنی سیدنا عمرؓ نے ان پر یہ شرائط عائد کیں) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، (ابن حزم، المحلیٰ، ۴/ ۴۰۵۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ۲۸/ ۶۵۱) لیکن تاریخ اور فقہ کی کتابوں میں اس معاہدہ کا پس منظر اور مبینہ تفصیلات دیکھنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے اہل شام پر ہرگز عائد نہیں کی گئی تھی بلکہ ان لوگوں نے از خود یہ شرط اپنے اوپر عائد کر کے مسلمانوں سے امان طلب کی تھی۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹/ ۲۰۲۔ ابن قدامہ، المغنی، ۹/ ۲۸۲، مسئلہ ۷۶۸۶)

(۴۶) ابو عبید، الاموال، ص ۱۵۴۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/ ۵۵۔ ۵۸

(۴۷) البقره: ۱۱۴

(۴۸) اردو دائرہ معارف اسلامیہ، مقالہ ’قبۃ الصخرة‘، ج۱۶ / ۱، ص ۲۳۳

(۴۹) Francesco Gabrielli, Arab Historians of the Crusades, p. 157

(۵۰) سید ابو الاعلیٰ مودودی، سانحہ مسجد اقصیٰ، ص۶۔ Ernest L. Martin: The Strange Story of the False Wailing Wall, http://www.askelm.com

(۵۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سید سلمان حسینی ندوی، ہزارۂ سوم کی قیامت صغریٰ، ص ۴۴ تا ۷۷

(۵۲) 

Temple Yoel Cohen, "The Political Role of the Israeli Chief Rabbinate in the Mount Question", Jewish Political Studies Review, Vol. 11:1-2, Spring 1999 (www.jcpa.org)

(۵۳) http://www.la.utexas.edu

(۵۴) مفتی عبد القیوم قادری، تاریخ نجد و حجاز، ص۳۵۹، ۳۶۰۔ بحوالہ ’دی سیکرٹ لارنس آف عریبیہ‘، از فلپ نائٹلی/ کولن سمپسن

(۵۵) سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے سعودی عرب کے مجوزہ امن منصوبے کی معنویت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ”نئی اور اہم بات یہ ہے کہ اب اسرائیل دفعۃً واحدةً (in one shot) پورے عالم عرب کے ساتھ پر امن تعلقات قائم کر سکتا ہے۔“ ان سے پوچھا گیا کہ کیا عالم عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فی الواقع تیار ہے تو انہوں نے کہا: ”اگر وہ جنگ کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو ہم بالکل تیار ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہودیوں سے ہماری کیا دشمنی ہے؟ وہ بھی ہماری دنیا کا ایک حصہ ہیں۔“ پوچھا گیا کہ یہ تصور کرنا کچھ مشکل سا نہیں ہے کہ ریاض میں اسرائیلی سفارت خانہ قائم ہو؟ تو انہوں نے کہا: ”اگر سعودی عرب میں اسرائیلی اور اسرائیل میں سعودی سفارت خانہ قائم ہو تو دو ملکوں کے مابین تعلقات کی صورت میں یہ تو ہوتا ہی ہے۔“ (Weekly Time, April 8, 2002, p. 32)

(۵۶) آل عمران، ۶۴۔ العنکبوت، ۴۶

(۵۷) النحل، ۱۲۵۔ العنکبوت، ۴۶

(۵۸) المائده، ۱۳

(۵۹) البقره، ۱۰۴۔ آل عمران، ۱۸۶

(۶۰) بخاری، استتابۃ المرتدین، ۶۴۱۴۔ ایضاً، الہبۃ، ۲۴۲۴۔ مسلم، السلام، ۴۰۵۹۔ ترمذی، البیوع، ۱۱۳۴

(۶۱) الروم : ۱۔ ۵

(۶۲) البقره: ۱۴۳

(۶۳) بخاری، الصوم، ۱۸۶۵

(۶۴) بخاری، احادیث الانبیاء، ۳۱۶۲

(۶۵) ابن ہشام، السیرة النبويۃ، ۴/ ۱۰۸

(۶۶) بخاری، الجنائز، ۱۲۲۹

(۶۷) ابو داؤد، البیوع، ۲۹۶۱

(۶۸) مسلم، الحدود، ۳۲۱۲۔ طحاوی، شرح معانی الآثار، ۱/ ۳۱۵

(۶۹) بخاری، اللباس، ۵۴۶۲

(۷۰) البقرہ: ۷۶

(۷۱) البقرة: ۹۱

(۷۲) سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/ ۱۵۱، ۱۵۲۔ ابو اللیث السمرقندی، فتاویٰ النوازل، ص ۲۰۸۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ۲۸/ ۶۲۶

(۷۳) مسلم، الفتن واشراط الساعۃ، ۵۱۵۸

(۷۴) ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/ ۵۶

(۷۵) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، مقالہ : Dome of the Rock، ۴ / ۱۶۳۔ منشی عبد القدیر، بیت المقدس، ص ۱۸۸

(۷۶) 

Dr. Kamil Jamil Al-Asalai, "Jerusalem in History", Arab Studies Quarterly, Vol. 16 Number 4, Fall 1994, (www.al-bushra.org)
Encyclopaedia Judaica, "Jerusalem", vol. 9, p. 1410

(۷۷) تفصیل کے لیے دیکھیے : جیوش انسائیکلو پیڈیا، مقالہ ’یروشلم‘

(۷۸) اردو دائرہ معارف اسلامیہ، مقالہ ’القدس‘، ج۱۶/ ۱، ص ۳۰۸۔ جیوش انسائیکلو پیڈیا، مقالہ ’یروشلم‘۔ منشی عبد القدیر، بیت المقدس، ص ۹۳

(۷۹) ابن نجیم، البحر الرائق، ۸/ ۴۵۵۔ ابن الہمام، فتح القدیر، ۶/ ۲۰۱۔ ابن عابدین، رد المحتار، ۴/ ۳۴۱۔ فتاویٰ عالمگیری، ۶/ ۱۴۴

(۸۰) سید مودودی، سانحہ مسجد اقصیٰ، ص ۵

(۸۱) پندره روزہ ’تعمیر حیات‘، ۱۰ جون ۲۰۰۳ء، ص ۲۱۔ http://www.rabbiwein.com

(۸۲) تفصیل کے لیے دیکھیے:

 Labmert Dolphin & Michael Kollen, "On the Location of the First and Second Temples in Jerusalem", http://ldolphin.org

(۸۳)

Yoel Cohen, "The Political Role of the Israeli Chief Rabbinate in the Temple Mount Question", Jewish Political Studies Review, Vol. 11:1-2, Spring 1999 (www.jcpa.org)

سیرت و تاریخ

(اپریل و مئی ۲۰۰۴ء)

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter