کم وبیش پینتیس برس پہلے کی بات ہے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ لکھنے پڑھنے کا ذوق پیدا ہو چکا تھا۔ جناب ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگا کر ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ قومی اخبارات اور دینی جرائد میں اسلام، جمہوریت اور سوشلزم کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری تھی اور اسی ضمن میں جاگیرداری نظام، زمینداری سسٹم، مزارعت اور اجارہ پر زمین دینے کے جواز اور عدم جواز پر بہت کچھ لکھا جا رہا تھا۔ اسلامی سوشلزم کے نعرے کی بنیاد پر مسٹر بھٹو مرحوم کے خلاف مختلف دینی حلقوں کی طرف سے طعن وفتویٰ کا آغاز ہو چکا تھا جو بالآخر ایک سو تیرہ اکابر علماء کرام کے اس فتویٰ پر منتج ہوا جس میں اسے کفر قرار دے دیا گیا تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی سیاسی قیادت اس وقت حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ہاتھ میں تھی۔ ان کی راہ نمائی میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے کفر کے اس فتویٰ سے کھلم کھلا اختلاف کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ اگرچہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح درست نہیں ہے اور سوشلزم کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص یا گروہ مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے، جاگیردارانہ وسرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرتا ہے اور اس کے لیے اسلامی تعلیمات کی بالادستی سے منحرف نہیں ہے البتہ وہ اپنی جدوجہد کو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ سے تعبیر کرتا ہے تو اسے تعبیر کی غلطی کہا جائے گا، اسے اس غلطی پر تنبیہ کی جائے اور سمجھایا جائے گا لیکن اس پر کفر کا فتویٰ عائد کرنا درست نہیں ہے۔ اس پر بعض حلقوں کی طرف سے جمعیۃ علماء اسلام کے راہ نماؤں کو ’’سوشلسٹ علما‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا اور ۱۹۷۰ء کے الیکشن تک یہ معرکہ خوب گرم رہا۔
اس پس منظر میں راقم الحروف نے مزارعت اور بٹائی کے عنوان پر ایک تحقیقی مضمون لکھا جو ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور میں قسط وار شائع ہوا۔ حصہ اور بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینے کے جواز پر حضرت امام ابو حنیفہؒ اور ان کے صاحبین حضرت امام ابو یوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ کا اختلاف مشہور ہے۔ صاحبین مزارعت اور بٹائی کے جواز کے قائل ہیں جبکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ میں نے دونوں طرف کے دلائل کا مطالعہ کیا اور خاصی محنت کی جس میں بعض نادر کتابوں کے لیے خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف میں بھی ایک دو روز کے لیے حاضری دی اور وہاں کے معروف کتب خانہ سے استفادہ کیا۔ اس مطالعہ کے دوران مجھے حضرت امام ابو حنیفہؒ کے دلائل زیادہ وزنی معلوم ہوئے اور بعض اکابر احناف کی ایسی تصریحات بھی نظر سے گزریں کہ اس مسئلہ میں دلائل امام صاحبؒ کے ساتھ ہیں اور صاحبین کے موقف پر فتویٰ ’’مصلحت عامہ‘‘ کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی بنیاد پر میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ دلائل بھی امام صاحبؒ کے ساتھ ہیں اور آج کے دور کی ’’مصلحت عامہ‘‘ کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جاگیردارانہ سسٹم کا زور توڑ کر غریب کسانوں کو تحفظات فراہم کیے جائیں، اس لیے آج کے دور کے لیے حضرت امام ابو حنیفہؒ کا موقف زیادہ قرین مصلحت اور قابل عمل ہے اور علماء کرام کو بٹائی اور مزارعت کے جواز کا فتویٰ دینے کے بجائے امام صاحبؒ کے موقف کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ میرا موقف آج بھی یہی ہے اور اگرچہ اجتہاد یا افتا کی اہلیت نہ رکھنے کی وجہ سے عمل اسی پر کرتا ہوں اور مسئلہ بھی لوگوں کو وہی بتاتا ہوں جو صاحبین کے موقف کے مطابق جمہور فقہاء احناف کا مفتیٰ بہ قول ہے لیکن علمی اور تحقیقی طور پر امام صاحبؒ کے موقف کو ہی راجح اور آج کے دور کی ضروریات سے ہم آہنگ سمجھتا ہوں۔
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے آرگن ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور میں اس مضمون کا شائع ہونا تھا کہ ہر طرف شور مچ گیا۔ ’’سوشلسٹ علما‘‘ کا خطاب تو ہمیں مل ہی چکا تھا، یہ کہا جانے لگا کہ یہ مضمون سوشلزم کی حمایت کے لیے اور سوشلسٹوں کو تقویت پہنچانے کے لیے لکھا گیا ہے بلکہ بعض انتہائی ذمہ دار بزرگوں نے میری طالب علمانہ حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہ تبصرہ بھی فرما دیا کہ یہ مضمون اس کا لکھا ہوا نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے یہ مضمون لکھا ہے اور اسے بیٹے کے نام سے شائع کرا دیا ہے حالانکہ نہ حضرت والد صاحب مدظلہ کا یہ موقف تھا اور نہ ہی مضمون کی اشاعت سے قبل انھیں اس کا کوئی علم تھا لیکن زبانوں کو کون بند کر سکتا ہے؟ اس لیے چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری رہا۔
میری یہ خواہش تھی کہ کوئی صاحب طعن وتشنیع کی زبان اور نفسیات سے ہٹ کر اس مضمون کا علمی طور پر جواب لکھیں اور دلائل کا رد کریں تاکہ اگر میری کوئی استدلال کی غلطی ہے تو مجھ پر واضح ہو لیکن یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور طعن وتشنیع کا سلسلہ کچھ دیر جاری رہ کر بات ٹھندی پڑ گئی۔
یہ قصہ مجھے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالہ سے عزیزم حافظ محمد عمار خان سلمہ کا مضمون اور اس پر مختلف اطراف سے ہونے والی تنقید کو دیکھ کر یاد آیا اور میں نے مناسب سمجھا کہ اسے ریکارڈ پر لے آؤں کہ اس قسم کا معاملہ اس سے قبل عمار خان سلمہ کے والد یعنی میرے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ عزیزم سلمہ نے ایک علمی وتحقیقی عنوان پر اپنے مطالعہ وتحقیق کا حاصل اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ میں خود اس پر اپنے موقف اور بعض تحفظات کا اظہار اپنے تبصرہ میں کر چکا ہوں جو ’’الشریعہ‘‘ کے ایک گزشتہ شمارے میں شائع ہو چکا ہے، لیکن میں اسے اس عزیز کا بلکہ مطالعہ وتحقیق سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کا حق سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے مطالعہ وتحقیق کے نتائج کو سامنے لائے اور اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کرے اور اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ طعن وتشنیع کا سہارا لینے کے بجائے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرے اور اس کا اختلاف بھی اسی طرح ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات کی زینت بنے مگر مجھے افسوس ہے کہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ناظم اور ہمارے رفیق کار مولانا حافظ محمد یوسف کے سوا کسی اور اختلاف کرنے والے دوست نے اسے سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کا موضوع نہیں بنایا جبکہ ہماری خواہش ہے کہ اہل علم آج کی دنیا کے ایک اہم بین الاقوامی تنازع کے اس علمی پہلو کو سنجیدگی سے لیں اور دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کریں کیونکہ علمی مباحثہ کے ساتھ ہی اس قسم کے مسائل میں اصل صورت حال تک رسائی ہوتی ہے۔
مجھے امیدہے کہ اس مضمون سے اختلاف کرنے والے دوست اپنی علمی اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے علمی بنیاد پر اس سے اظہار اختلاف کریں گے اور ایسے کسی بھی تنقیدی مضمون کو ’’الشریعہ‘‘ میں جگہ دے کر ہمیں خوشی ہوگی۔