۲۰ تا ۲۲/ اگست ۲۰۰۳ء کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے گراؤنڈ میں جمعیۃ طلبہ عربیہ پاکستان کے زیر اہتمام دینی مدارس کے طلبہ کا کل پاکستان اجتماع عام ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کی طلبہ تنظیموں کے راہ نماؤں، ملک بھر سے ہزاروں طلبہ اور مختلف دینی جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا۔ اجتماع عام کی ایک نشست ’’عصر حاضر کے چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے مذاکرہ کی صورت میں تھی جس کی صدارت سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے کی اور اس سے سینیٹر پروفیسر غفور احمد، مولانا قاضی عبد اللطیف اور دیگر ارباب دانش کے خطابات کے علاوہ راقم الحروف کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ اس حوالہ سے ذہن میں ترتیب پانے والی گفتگو کا وقت کی قلت کے باعث مذاکرہ میں صرف خلاصہ پیش کیا جا سکا جبکہ اس گفتگو کی قدرے تفصیلی صورت کچھ یوں ہے:
’’عصر حاضر کے چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے اس نشست میں گفتگو کے لیے کہا گیا ہے۔ مجھ سے قبل مختلف اصحاب دانش نے ملت اسلامیہ کو درپیش متعدد چیلنجز کا ذکر کیا ہے اور ان پر روشنی ڈالی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہر طرف چیلنج ہی چیلنج ہیں۔ سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم، تہذیب وثقافت، سائنس، ٹیکنالوجی، اخلاقیات اور فکر وفلسفہ کے میدانوں میں مسلمانوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر ان کی صرف فہرست بیان کی جائے تو اس کے لیے خاصا وقت درکار ہوگا اور پھر ان کی ترجیحات بھی اپنے اپنے ذوق اور حالات کے مطابق ہر صاحب فکر ودانش کے نزدیک مختلف ہوں گی۔ وقت بہت کم ہے، اس لیے میں اپنی سوچ کے حوالے سے صرف دو تین باتوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے بعض دیگر دوستوں کے نزدیک ان کی زیادہ اہمیت نہ ہو مگر میں انہیں بنیادی حیثیت دیتا ہوں اور دینی مدارس اور ان کے اساتذہ وطلبہ کے مجموعی ماحول کے تناظر میں درپیش چیلنجز میں میرے نزدیک یہ امور سرفہرست ہیں۔
پہلی بات جسے میں ’’بے خبری کا بحران‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں، یہ ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی غالب اکثریت آج کے عالمی حالات اور ماحول دونوں سے بے خبر ہے۔ ہمیں نہ دنیا کے جغرافیے کا علم ہے اور نہ تاریخ کا۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ آج کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کون کیا کر رہا ہے، کیسے کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ افراد کی بات نہیں کرتا۔ دوچار فی صد حضرات ضرور اس سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن مجموعی صورت حال یہی ہے جو میں نے عرض کی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال سے صورت حال کا اندازہ کر لیجیے کہ ابھی چند روز قبل تیس چالیس حضرات کی ایک محفل میں، جنہیں آپ علما ہی سمجھ لیجیے، میں کافر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات پر گفتگو کر رہا تھا جس کے دوران میں نجران کے عیسائیوں کے ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ کے معاہدہ کا تذکرہ بھی ہوا۔ میں نے شرکاے محفل سے سوال کیا کہ نجران کہاں ہے؟ آپ یقین کیجیے کہ شرکا میں سے کوئی صاحب نہ بتا سکے اور بالآخر مجھے ان کو یہ بتانا پڑا کہ یہ جزیرۃ العرب میں ہے اور اس وقت سعودی عرب کا حصہ ہے۔
ہمیں فقہ اور افتا کے اصولوں کی تعلیم وتربیت کے دوران میں عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ: من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل۔ جو شخص اپنے زمانہ کے لوگوں کو نہیں پہچانتا، وہ جاہل ہے۔ لیکن اس کے مفہوم اور عملی تقاضوں کی طرف ہماری توجہ نہیں ہوتی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہم میں سے اکثر لوگ زندگی بھر خود اس کا مصداق بنے رہتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آج ہم جس جنگ اور کشمکش سے دوچار ہیں، اسے آپ جنگ سے تعبیر کر لیں یا کھیل سمجھ لیں لیکن یہ بات طے ہے کہ جنگ اور کھیل دونوں کے کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ قواعد ہوتے ہیں، کچھ طے شدہ طریقے ہوتے ہیں اور کچھ ہتھیار اور آلات ہوتے ہیں جو حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور جن کی پابندی جنگ اور کھیل کے دونوں فریقوں کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم فکر وفلسفہ، تہذیب وثقافت، تعلیم وتربیت اور دعوت وابلاغ کے محاذوں پر آج کے طریقہ جنگ سے شناسائی نہیں رکھتے، قواعد اور طریقہ کار کی ہمیں کچھ خبر نہیں ہے، آج کے ہتھیاروں اور آلات سے ہمیں آگاہی حاصل نہیں ہے اور دشمن کی قوت کار، دائرۂ عمل، طریق جنگ اور ہتھیاروں کی نوعیت سے ہم اکثر وبیشتر بے خبر ہوتے ہیں۔
میں دینی مدارس کے ماحول کی بات کر رہا ہوں، اساتذہ وطلبہ کی بات کر رہا ہوں۔ اگر آپ حضرات کو میری بات تلخ لگے تو میں معافی چاہتا ہوں لیکن معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ میں نے زمانہ سے بے خبری اور دشمن کے ہتھیاروں اور طریق جنگ سے ناواقفیت کی جو بات کی ہے، وہ بالکل درست ہے، اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے اور ہمارے اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت اسی حال میں مگن ہے۔ اسے بے خبری کا بحران کہہ لیں، ادراک واحساس کے فقدان سے تعبیر کر لیں یا کمیونیکیشن کے خلا (Communication gap) کا عنوان دے لیں، مگر یہ بحران موجود ہے اور میرے نزدیک دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے آج کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس بحران سے نجات حاصل کریں، بے خبری کے اس خلا کو پر کریں اور فکر وعقیدہ اور تہذیب وعقیدہ کی یہ جنگ جذباتی اور سطحی نعروں کے ذریعے سے نہیں بلکہ ادراک واحساس، فہم ودانش اور شعور وباخبری کے ہتھیاروں کے ساتھ لڑیں۔
تیسرے نمبر پر میں ایک اور چیلنج اور بحران کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ امریکہ نے پاکستان کے دینی مدارس کی اصلاح کے لیے اربوں روپے دیے ہیں اور یورپی یونین نے خطیر رقم کی بطور امداد پیش کش کر دی ہے۔ یہ روپیہ آپ کے ماحول میں پھیلے گا اور آپ کے تعلیمی نظام ونصاب کو سبوتاژ کرنے کے لیے صرف ہوگا۔ آپ سے آج کی دنیا کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ آپ عقیدہ کی تعلیم دیتے ہیں، کمٹ منٹ کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ تعلیم برائے تعلیم کے بجائے تعلیم برائے عقیدہ اور تعلیم برائے دین کے فلسفہ پر عمل کر رہے ہیں اور عقیدہ وثقافت کی صرف تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ آپ حضرات نے اپنے عملی ماحول کو بھی اس کے مطابق ڈھال رکھا ہے۔ عقیدہ وثقافت کے ساتھ بے لچک کمٹ منٹ اور اس کے مطابق معاشرتی ماحول کا تحفظ یہ دونوں باتیں آج کی دنیا کے لیے اجنبی ہیں، ناقابل قبول ہیں بلکہ ناقابل برداشت ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین کی دی ہوئی دولت اسی کمٹ منٹ کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہوگی اور آپ کے دینی اور ثقافتی ماحول کو تبدیل کرنے کے لیے صرف ہوگی۔ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اصل بات عقیدہ وثقافت اور اس کے مطابق ماحول کی ہے۔ اگر یہ دونوں تبدیل ہو گئے اور ان میں دراڑ ڈالنے میں کام یابی حاصل ہو گئی تو خالی تعلیم باقی رہ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر اگر دینی مدارس باقی رہیں تو بھی کوئی نقصان نہیں کیونکہ عقیدہ وثقافت کی کمٹ منٹ اور عملی دینی ماحول کے بغیر بننے والا مولوی یورپ کے اس پادری سے مختلف نہیں ہوگا جو صرف تنخواہ کے لیے ڈیوٹی دیتا ہے اور ڈیوٹی کے علاوہ باقی اوقات میں وہ عام سوسائٹی کے ماحول میں اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ جیسے مذہب اور اس کی تعلیمات کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ کو اس بارے میں چوکنا رہنا ہوگا اور اپنے عقیدہ وثقافت اور عملی دینی ماحول کو بچانے کے لیے خود داری، حوصلہ، دینی حمیت اور ایثار وقربانی کے ساتھ اس خطرناک چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ خدا کرے کہ ہم اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نباہ سکیں۔ آمین یا رب العالمین۔