عالم اسلام اس وقت اپنے طول و عرض میں جن سیاسی مسائل اور مشکلات سے دو چار ہے، ان میں مسئلۂ فلسطین اس لحاظ سے ایک خاص مذہبی نوعیت بھی رکھتا ہے کہ یہ سرزمین بے شمار انبیاء کا مولد و مسکن ہونے کی نسبت سے ایک نہایت بابرکت اور مقدس سرزمین سمجھی جاتی ہے اور اس میں انبیائے بنی اسرائیل کی یادگار کی حیثیت رکھنے والی تاریخی مسجد اقصیٰ موجود ہے، جس کی تولیت کے حق کا مسئلہ مسلمانوں اور یہود کے مابین متنازع فیہ ہے۔ یہود کا دعویٰ ہے کہ اس جگہ صدیوں پہلے ”ہیکل سلیمانی“ کے نام سے ان کا ایک انتہائی مقدس مرکزِ عبادت تعمیر ہوا تھا جو گوناگوں تاریخی حالات اور واقعات کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو گیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب اس جگہ کو دوبارہ اپنے تصرف میں لے کر یہاں اس عبادت گاہ کو از سر نو تعمیر کریں۔ اگرچہ اسرائیلی حکومتیں اور وہاں کے سیکولر حلقے بالعموم اس تصور کی حوصلہ شکنی ہی کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور خود یہود کے مذہبی حلقوں میں بھی اس کی تفصیلات کے حوالے سے بہت کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں، تاہم اصولی طور پر اس جگہ کی بازیابی اور یہاں ہیکل کی تعمیر کو ان کے اعتقاد کے ایک جزو لا ینفک کی حیثیت حاصل ہے۔
اس کے مقابلے میں امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے کم و بیش تمام مقتدر اہل علم اور علمی و سیاسی ادارے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے جس موقف پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ مقام تاریخی اور شرعی لحاظ سے بلا شرکت غیرے مسلمانوں کی ملکیت ہے، اس کی تولیت اور اس میں عبادت خالصتاً مسلمانوں کا استحقاق ہے، اور یہود کا اس مقام پر عبادت کرنے یا یہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا مطالبہ مسلمانوں کے ایک مقدس مقام کی توہین اور ان کے مذہبی جذبات کی پامالی کی ایک سازش ہے۔
ہمارا احساس یہ ہے کہ امت مسلمہ کی جانب سے اجتماعی طور پر اختیار کردہ اس رویے کی تشکیل میں بنیادی عنصر کی حیثیت مسئلے کی جذباتی نوعیت اور عرب اسرائیل سیاسی کشاکش کو حاصل ہے اور بعض نہایت اہم شرعی، اخلاقی اور تاریخی پہلوؤں کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے اس معاملے میں توازن و اعتدال کے حدود ٹھیک ٹھیک ملحوظ نہیں رکھے جا سکے۔ چنانچہ صورت حال اس بات کی مقتضی ہے کہ تعصبات و جذبات سے بالا تر ہو کر قرآن و سنت کی روشنی میں بے لاگ طریقے سے اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اس امت پر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے ہاتھ سے عدل و انصاف کا دامن کسی حال میں بھی نہیں چھوٹنا چاہیے، چاہے معاملہ کسی ایسے گروہ ہی کا کیوں نہ ہو جس نے ان پر ظلم وزیادتی کی اور ان کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ کیا ہو:
یایھا الذین امنوا کونوا قومین للہ شھداء بالقسط ولا یجرمنکم شناٰن قوم علی الا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی واتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون (المائدۃ،۸:۵)
”ایمان والو! اللہ کی خاطر عدل وانصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ، اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کے ساتھ دشمنی تمہیں برانگیختہ کر کے نا انصافی پر آمادہ کر دے۔ عدل پر قائم رہو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے اعمال کی پوری پوری خبر رکھنے والا ہے۔“
اگر مسلمان کسی موقع پر عدل و انصاف کے طریقے سے گریز کا رویہ اختیار کریں تو قرآن مجید کی رو سے اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی رو رعایت کے بغیر اپنے بھائیوں کے سامنے حق بات کی شہادت دیں، چاہے اس کی زد خود مسلمانوں کے جذبات یا ان کے ظاہری مفادات پر ہی پڑتی ہو:
یایھا الذین امنوا کونوا قومین بالقسط شھداء للہ ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین ان یکن غنیا او فقیرا فاللہ اولی بھما فلا تتبعوا الھوی ان تعدلوا وان تلوا او تعرضوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا (النساء،۴:۱۳۵)
”ایمان والو! عدل و انصاف پر پوری طرح قائم ہو کر اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جاؤ، چاہے اس کی زد خود تمہارے اپنے یا تمہارے والدین اور اقرباء کے مفادات پر پڑے۔ وہ شخص غنی ہو یا فقیر، دونوں صورتوں میں اللہ اس کے زیادہ قریب ہے۔ تم خواہش کی پیروی میں انصاف کے طریقے سے ہٹ نہ جاؤ۔ اور اگر تم گواہی میں کج بیانی کرو گے یا گواہی دینے سے اعراض کا طریقہ اختیار کرو گے تو یاد رکھو اللہ تمہارے اعمال کی پوری پوری خبر رکھنے والا ہے۔“
ذیل کی سطور میں ہم نے اسی جذبے کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
مسجد اقصیٰ کی مختصر تاریخ
مصریوں کی غلامی سے رہائی کے بعد جب صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے باقاعدہ شریعت عطا کی گئی تو ساتھ ہی حضرت موسیٰ کو یہ ہدایت بھی کر دی گئی کہ وہ بدنی اور مالی عبادت کی مختلف رسوم ادا کرنے کے لیے خیمے کی شکل میں بنی اسرائیل کے لیے ایک عبادت گاہ بنائیں۔ اس خیمے کی بناوٹ، اس کے ساز و سامان اور اس میں ادا کی جانے والی رسوم کی پوری تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو سمجھائی۔1 تو رات میں اس خیمے کا ذکر ”خیمۂ اجتماع“، ”مقدس“، ”مسکن“ اور ”شہادت کا خیمہ“ کے مختلف ناموں سے کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ خاص وضع کا ایک صندوق بنا کر اس میں تو رات کی الواح کو محفوظ کریں اور اسے ”خیمہ اجتماع“ میں ایک مخصوص مقام پر مستقل طور پر رکھ دیں۔2 تورات میں اس کو ”عہد کا صندوق“ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
اس متحرک اور قابل انتقال (Mobile) عبادت گاہ کا حکم صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے عارضی قیام اور مسلسل نقل مکانی کے پیش نظر دیا گیا تھا۔ ۱۴۵۰ ق م میں حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بیت المقدس کو فتح کیا۔ اس کے بعد تقریباً چار صدیوں تک بنی اسرائیل علاقے میں پہلے سے آباد مختلف نسلی گروہوں کے ساتھ لڑنے اور انہیں مغلوب کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس عرصے میں چونکہ سرزمین فلسطین پر بنی اسرائیل کے قبضے اور ان کے سیاسی اقتدار کو استحکام حاصل نہیں تھا، اس لیے مرکز عبادت کی حیثیت اس ”خیمہ اجتماع“ کو حاصل رہی۔ چار صدیوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد آخر سید نا داؤد علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل ان کی قیادت میں ان مقامی گروہوں کو بڑی حد تک کچلنے اور ایک مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایک با قاعدہ مرکز عبادت تعمیر کرنے کی ہدایت ملی۔3 حضرت داؤد نے اس مقصد کے لیے ارنان یبوسی نامی شخص سے اس کا ایک کھلیان خریدا جو کوۂ موریا پر واقع تھا4 اور تعمیر کے لیے ابتدائی تیاریاں شروع کر دیں۔5 تاہم اپنی حیات میں وہ اس مرکز عبادت کو تعمیر نہ کر سکے اور اپنے فرزند سید نا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تعمیر کی وصیت کرتے ہوئے معبد کا تفصیلی نقشہ انہیں سمجھا کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔6
حضرت سلیمان نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے دور حکومت میں اس نقشے کے مطابق متعینہ جگہ پر ایک شان دار عبادت گاہ تعمیر کرائی، جو تاریخ میں ”ہیکل سلیمانی“ (Solomon's Temple) کے نام سے معروف ہے۔ اس کی تعمیر ۹۵۰ ق م میں مکمل ہوئی۔ اپنی شان و شوکت اور جاہ و شکوہ کے لحاظ سے یہ عمارت عجائباتِ عالم میں شمار ہوتی تھی۔ اس کی تعمیر کی پوری تفصیل سلاطین ۶:۱۔ ۸ اور تواریخ ۳:۲۔ ۵ میں مذکور ہے۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق اس کی بڑی بڑی محرابوں کی تعمیر کے لیے سلیمان علیہ السلام نے ان جنات سے بھی مدد لی تھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مسخر کر دیا تھا۔7
”خیمہ اجتماع“ کی جگہ اب ”ہیکل سلیمانی“ کو بنی اسرائیل8 کی عبادات اور مذہبی رسوم کے لیے قبلہ اوران کی مذہبی و اجتماعی زندگی کے محور و مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ سوختنی قربانیوں کے لیے مذبح اور عہد کے صندوق کے لیے ایک خاص کمرہ اسی معبد میں تعمیر کیا گیا۔9 اس کی تکمیل کے موقع پر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو دعا کی، اس سے واضح ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے اس عبادت گاہ کو اسی طرح ایک روحانی مرجع و مرکز اور ”مثابۃ للناس“ کی حیثیت دے دی گئی تھی جس طرح بنی اسمٰعیل کے لیے مسجد حرام کو:
”اور سلیمان نے اسرائیل کی ساری جماعت کے رو برو خداوند کے مذبح کے آگے کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور کہا... اے خداوند میرے خدا! اپنے بندہ کی دعا اور مناجات کا لحاظ کر کے اس فریاد اور دعا کو سن لے جو تیرا بندہ آج کے دن تیرے حضور کرتا ہے، تاکہ تیری آنکھیں اس گھر کی طرف یعنی اسی جگہ کی طرف جس کی بابت تو نے فرمایا کہ میں اپنا نام وہاں رکھوں گا، دن اور رات کھلی رہیں تاکہ تو اس دعا کو سنے جو تیرا بندہ اس مقام کی طرف رخ کر کے تجھ سے کرے گا۔ اور تو اپنے بندہ اور اپنی قوم اسرائیل کی مناجات کو جب وہ اس جگہ کی طرف رخ کر کے کریں، سن لینا، بلکہ تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، سن لینا اور سن کر معاف کر دینا۔ اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کا گناہ کرے اور اسے قسم کھلانے کے لیے اس کو حلف دیا جائے اور وہ آکر اس گھر میں تیرے مذبح کے آگے قسم کھائے تو تو آسمان پر سے سن کر عمل کرنا اور اپنے بندوں کا انصاف کرنا ... جب تیری قوم اسرائیل تیرا گناہ کرنے کے باعث اپنے دشمنوں سے شکست کھائے اور پھر تیری طرف رجوع لائے اور تیرے نام کا اقرار کر کے اس گھر میں تجھ سے دعا اور مناجات کرے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کرنا اور ان کو اس ملک میں جو تو نے ان کے باپ دادا کو دیا، پھر لے آنا۔ جب اس سبب سے کہ انہوں نے تیرا گناہ کیا ہو، آسمان بند ہو جائے اور بارش نہ ہو اور وہ اس مقام کی طرف رخ کر کے دعا کریں اور تیرے نام کا اقرار کریں اور اپنے گناہ سے باز آئیں جب تو ان کو دکھ دے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنے بندوں اور اپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کردینا... اگر ملک میں کال ہو، اگر و با ہو، اگر باد سموم یا گیروی یا ٹڈی یا کملا ہو، اگر ان کے دشمن ان کے شہروں کے ملک میں ان کو گھیر لیں، غرض کیسی ہی بلا کیسا ہی روگ ہو تو جو دعا اور مناجات کسی ایک شخص یا تیری قوم اسرائیل کی طرف سے ہو جن میں سے ہر شخص اپنے دل کا دکھ جان کر اپنے ہاتھ اس گھر کی طرف پھیلائے تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے سن کر معاف کر دینا ... اب رہا وہ پردیسی جو تیری قوم اسرائیل میں سے نہیں ہے، وہ جب دور ملک سے تیرے نام کی خاطر آئے ... اور اس گھر کی طرف رخ کر کے دعا کرے تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، سن لینا ... اگر تیرے لوگ خواہ کسی راستہ سے تو ان کو بھیجے، اپنے دشمن سے لڑنے کو نکلیں اور وہ خداوند سے اس شہر کی طرف جسے تو نے چنا ہے اور اس گھر کی طرف جسے میں نے تیرے نام کے لیے بنایا ہے، رخ کر کے دعا کریں تو تو آسمان پر سے ان کی دعا اور مناجات سن کر ان کی حمایت کرنا۔ اگر وہ تیرا گناہ کریں (کیونکہ کوئی ایسا آدمی نہیں جو گناہ نہ کرتا ہو) اور تو ان سے ناراض ہو کر ان کو دشمن کے حوالہ کر دے ایسا کہ وہ دشمن ان کو اسیر کر کے اپنے ملک میں لے جائے خواہ وہ دور ہو یا نزدیک تو بھی اگر وہ اس ملک میں جہاں وہ اسیر ہو کر پہنچائے گئے، ہوش میں آئیں اور رجوع لائیں ... اور اس گھر کی طرف جو میں نے تیرے نام کے لیے بنایا ہے، رخ کر کے تجھ سے دعا کریں تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، ان کی دعا اور مناجات سن کر ان کی حمایت کرنا... سو تیری آنکھیں تیرے بندہ کی مناجات اور تیری قوم اسرائیل کی مناجات کی طرف کھلی رہیں تاکہ جب کبھی وہ تجھ سے فریاد کریں تو ان کی سنے۔“10
اس طرح اس عبادت گاہ کو بنی اسرائیل کے ایک مذہبی و روحانی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی عظمت و شوکت اور دنیاوی جاہ و جلال کے ایک نشان کی حیثیت بھی حاصل تھی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی زبانی بنی اسرائیل کو یہ تنبیہ بھی اس عبادت گاہ کی تعمیر کے ساتھ ہی فرما دی تھی:
”اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جاؤ اور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو، بلکہ جا کر اور معبودوں کی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لیے مقدس کیا ہے، اپنی نظر سے دور کر دوں گا اور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہوگا اور اگرچہ یہ گھر ایسا ممتاز ہے تو بھی ہر ایک جو اس کے پاس سے گزرے گا، حیران ہوگا اور سسکا رہے گا اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا؟“ (سلاطین ۱: ۱:۹۔ ۹۔ تواریخ ۲: ۷: ۱۱۔ ۲۲)
ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد یہ پیش گوئی پہلی مرتبہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں پوری ہوئی۔ بنی اسرائیل کے اجتماعی طور پر شرک میں مبتلا ہو جانے اور شریعت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دینے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ بنوکد نضر کو ان پر مسلط کیا جس نے ۵۸۶ ق م میں یروشلم پر حملہ کر کے ہیکل کو جلا کر برباد کر دیا، اس کے تمام خزانے اور قیمتی ظروف لوٹ لیے، بنی اسرائیل کا قتل عام کیا اور انہیں اسیر بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔11
بنی اسرائیل کی تو بہ اور اصلاح حال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ آزادی کی نعمت عطا کی اور فارس کے بادشاہ خورس (Cyrus) نے بابل کو فتح کرنے کے بعد ۵۳۸ ق م میں اسیری میں آئے ہوئے بنی اسرائیل کو واپس یروشلم جانے اور وہاں ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔12
ہیکل ثانی کی تعمیر، جس کو زربابلی ہیکل کا نام دیا گیا، ۱۵ ۵ ق م میں مکمل ہوئی۔ یہ ایک بالکل سادہ سی عبادت گاہ تھی جس کا تزئین و آرایش اور تعمیر کے معیار کے لحاظ سے سلیمانی ہیکل کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تھا۔ (حجی ۳:۲۔ ۹) یہ عبادت گاہ تقریباً ساڑھے چار سو سال تک قائم رہی، لیکن اس عرصے میں وقتاً فوقتاً حملہ آوروں کے ہاتھوں بے حرمتی کا نشانہ بنتی رہی۔ ۱۶۹ ق م میں یونانی بادشاہ انطو خیوس چہارم ایپی فینس نے ہیکل پر قبضہ کر کے اس کے ساز و سامان اور خزانے کولوٹ لیا13 اور اس میں زیوس (Zeus) دیوتا کے نام پر قربانی کا مذبح قائم کر کے سردار کاہن کو مجبور کیا کہ وہ اس پر ایک خنزیر کی قربانی کرے۔ اس کے رد عمل میں ”مکابیوں کی بغاوت“ نے جنم لیا اور ۱۶۵ ق م میں یہوداہ مکابی کی قیادت میں بنی اسرائیل حملہ آوروں کو بے دخل کر کے ہیکل کی بازیابی اور تطہیر میں کام یاب ہو گئے۔14 اس کی یاد میں یہودی اب تک حنوکہ (Hanukkah) کا سالانہ تہوار مناتے ہیں۔
۶۳ ق م میں یونانیوں کی جگہ جنرل پومپی کی قیادت میں رومی فوج نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس موقع پر زر بابلی ہیکل کا ایک بڑا حصہ تباہی کی نذر ہو گیا۔ بعد میں رومی حکومت نے یہودیوں کو نیم سیاسی خود مختاری دے دی تو یہودیہ کے بادشاہ عظیم ہیردویس نے، جس کا زمانہ حکومت ۳۷ ق م سے ۴ عیسوی تک ہے، زر بابلی ہیکل کی تعمیر نو کر کے ہیکل کے رقبے کو وسیع تر کر دیا، اس کے گرد چار دیواری تعمیر کی اور زمین سے اس کی اونچائی مزید بلند کر دی۔ یہ تعمیر ۱۹ ق م میں شروع ہو کر ۴۶ سال تک جاری رہی۔
ہیکل کی تباہی اور فلسطین سے یہودیوں کی بے دخلی کی پیش گوئی دوسری مرتبہ ۷۰ء میں پوری ہوئی۔ ۶۶ء میں یہودیوں نے رومی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی، جس کو کچلنے کے لیے رومی جنرل طیطس (Titus) نے ۷۰ء میں یروشلم پر حملہ کر کے یہود کا قتل عام کیا اور ہیکل کو بالکل تباہ و برباد کر دیا۔ زندہ بچ جانے والے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا گیا اور یروشلم میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا، تاہم بعد کے ادوار میں یہ پابندی نرم کر کے یہودیوں کو مخصوص مواقع پر یروشلم میں آنے اور ہیکل کے کھنڈرات کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ہیکل کی اس دوسری تباہی میں اس کی صرف مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی جو رفتہ رفتہ یہودیوں کا مقام اجتماع اور ان کی گریہ و زاری کا مرکز بن گئی اور اس بنا پر ”دیوار گریہ“ (Wailing Wall) کہلانے لگی۔15
۱۳۶ء میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے یروشلم کو دوبارہ آباد کر کے اس کا نام Aelia Capitolina رکھا اور ہیکل کی جگہ رومی دیوتا Jupiter کے نام پر ایک عالی شان معبد تعمیر کرایا۔ چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت کے روم کا سرکاری مذہب بن جانے کے بعد ۳۳۶ء میں قسطنطین اعظم نے اس معبد کی جگہ کلیسائے نشور (Church or Resurrection) تعمیر کرا دیا۔
۶۳۸ء میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا تو اس موقع پر امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ صحابہ کی معیت میں مسجد اقصیٰ میں آئے۔ اس وقت ہیکل کے پتھر ( صخرۂ بیت المقدس) کے اوپر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ سیدنا عمر نے صحابہ کے ساتھ مل کر اس کو صاف کیا اور احاطہ ہیکل کی جنوبی جانب میں نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ مخصوص کر دی۔ بعد میں اس جگہ پر لکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ ۶۸۸ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرۂ بیت المقدس کے اوپر ایک شان دار گنبد تعمیر کرا دیا جو ”قبۃ الصخرة“ (Dome of Rock) کے نام سے معروف ہے۔ اسی نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کر کے اس کے رقبے کو مزید وسیع کر دیا۔ اسلامی لٹریچر میں ”مسجد اقصیٰ“ سے مراد یہی مسجد ہے۔ ۱۰۷۸ء میں جب سلجوقی ترکوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو ان کے ۲۰ سالہ دور حکومت میں یورپ اور پوری دنیا سے آنے والے مسیحی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیا گیا اور ان کی زیارت میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ اس کے ردعمل میں ۱۰۹۶ء میں مغربی یورپ میں غیض و غضب کی ایک لہر اٹھی جس نے صلیبی جنگوں کا روپ دھار لیا۔ پوپ اربن دوم کے حکم پر عیسائی مجاہدین کا ایک لشکر یروشلم پر قبضے کے لیے روانہ ہوا جس نے ۱۰۹۹ء میں یروشلم پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ مسیحی فاتحین نے قبۃ الصخرہ کے اوپر ایک صلیب نصب کر کے اس کو Templum Domini کا اور مسجد اقصیٰ کو Templum Solomonis کا نام دے دیا۔
۸۸ سال کے بعد ۲ اکتوبر ۱۱۸۷ء کومسلمان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں دوبارہ یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور مسجد اقصیٰ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کر کے قبۃ الصخرہ سے صلیب اتار دی گئی۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل مشرقی یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے اور مسجد کو اسرائیلی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لیا، تاہم اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے خیر سگالی کے اظہار کے طور پر احاطۂ مقدسہ کی چابیاں اردن کے حکمران ہاشمی خاندان کے سپرد کر دیں۔ اس وقت سے اس احاطے اور اس سے ملحق بعض عمارتوں کا کنٹرول یروشلم کے مسلم وقف کے پاس ہے جو اس کے جملہ امور کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔16
اس مختصر جائزے سے واضح ہے کہ تاریخی لحاظ سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ مذہبی تعلق و وابستگی کے دعوے میں دونوں فریق بنیادی طور پر سچے ہیں۔ یہودیوں کے لیے یہ عبادت گاہ قبلہ و مرکز اور ان کی دینی و دنیاوی عظمت رفتہ کے نشان کی حیثیت رکھتی ہے۔ دعا اور مناجات کے لیے وہ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں اور اس میں سلسلۂ عبادت کے احیاء کی تمنائیں بر آنے کے لیے صدیوں سے ان کے سینوں میں تڑپ رہی ہیں۔
مسلمانوں کی وابستگی اور عقیدت بھی اس عبادت گاہ کے ساتھ معمولی نہیں ہے۔ یہ مقام انبیائے بنی اسرائیل کی ایک یادگار ہے جن پر ایمان اور جن کا احترام و تعظیم مسلمانوں کے اعتقاد کا جزو لا ینفک ہے۔ انہوں نے اس وقت اس عبادت گاہ کو آباد کیا جب یہود و نصاریٰ کی باہمی آویزشوں کے نتیجے میں یہ ویران پڑی تھی۔ ان کا یہ عمل تمام مذہبی، عقلی اور اخلاقی معیارات کے مطابق ایک نہایت اعلیٰ روحانی اور مبارک عمل ہے، جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں، کم ہے۔
فریقین کے تعلق و وابستگی کے دعوے کو درست مان لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس پر تولیت کا حق کس فریق کو ملنا چاہیے اور فریقین میں سے کس کے حق کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے ؟ جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعوائے تولیت کو ایک عملی وجہ ترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھا کر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔ نیز وہ بحالت موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور یہ ذمہ داری وہ گزشتہ تیرہ صدیوں سے، صلیبی دور کے استثنا کے ساتھ، تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔
تاہم قانونی پہلو کو اس معاملے کا واحد قابل لحاظ پہلو سمجھنے کے عام نقطۂ نظر سے ہمیں اختلاف ہے اور زیر نظر تحریر میں ہم اسی نکتے کی توضیح کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس نوعیت کے مذہبی تنازعات میں قرآن سنت کی رو سے اصل قابل لحاظ چیز، جس کی رعایت مسلمانوں کو لازماً کرنی چاہیے، وہ اخلاقی پہلو ہے۔ اس بحث کی تنقیح کے لیے ہمارے نزدیک اس بنیادی سوال پر غور و خوض مناسب ہوگا کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا مسلمانوں کے ہاتھوں میں آنا آیا شرعی نوعیت کا کوئی معاملہ ہے یا تکوینی و واقعاتی نوعیت کا ؟ دوسرے لفظوں میں، آیا یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم اور تقاضا ہے کہ مسلمان یہود کو اس عبادت گاہ سے لا تعلق قرار دے کر ان کی جگہ اس کی تولیت کی ذمہ داری خود سنبھال لیں یا محض تاریخی حالات و واقعات نے ایسی صورت حال پیدا کر دی تھی کہ مسلمانوں کو اس کی تولیت کی ذمہ داری اٹھانی پڑی؟
اگر معاملہ شرعی نوعیت کا ہے تو پھر اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ نصوص اور دلائل جن سے اس ضمن میں استناد کیا جا سکتا ہے، کون سے ہیں اور عقل و منطق کی میزان میں ان سے استدلال کتنا وزن رکھتا ہے؟ اور اگر معاملے کی نوعیت شرعی نہیں، بلکہ واقعاتی ہے تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سلسلے میں عام مذہبی اخلاقیات اور خود اسلامی تعلیمات کا تقاضا کیا ہے اور کیا محض واقعاتی تسلسل اخلاقی لحاظ سے اس بات کا جواز فراہم کرتا ہے کہ یہود کے تاریخی و مذہبی حق کو بالکل مسترد کر دیا جائے؟ آئیے ان دونوں نکتوں کا ذرا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔
حق تولیت سے یہود کی معزولی
سب سے پہلے ہم اس امکان پر غور کریں گے کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق حالات و واقعات کے نتیجے میں نہیں، بلکہ شریعت کے کسی باقاعدہ حکم کے تحت ملا ہے۔ اس حوالے سے بالعموم جو استدلال پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ چونکہ یہود انبیاء کے قتل، عہد شکنی، تحریف آیات اور کتمان حق کے مجرم ہیں اور اس جرم کی پاداش میں انہیں دنیا کی رہنمائی اور فضیلت علی العالمین کے منصب سے معزول کر دیا گیا ہے، اس لیے انبیاء کی سرزمین اور ان کی قائم کردہ عبادت گاہ پر بھی ان کا کوئی حق باقی نہیں رہا اور جس طرح انبیاء کے مشن کی وراثت امت مسلمہ کو منتقل ہو گئی ہے، اسی طرح مسجد اقصیٰ کی ملکیت و تولیت کا حق بھی یہود سے چھین کر ان کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
اس استدلال کا تنقیدی جائزہ لینے سے پیشتر یہ بات بطور اصول واضح رہنی چاہیے کہ قرآن وسنت کی رو سے کسی مذہب کے ماننے والوں کو ان کی کسی عبادت گاہ، بالخصوص قبلہ اور مرکز عبادت کے حق تولیت سے محروم کرنا ایک ایسا نازک معاملہ ہے جو شارع کی جانب سے ایک واضح نص کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر اس معاملے میں محض عقلی استدلال کی بنیاد پر کوئی اقدام کیا ہی نہیں جا سکتا۔ چنانچہ دیکھیے، مسجد حرام پر مشرکین کی تولیت کی اخلاقی حیثیت پر قرآن مجید میں یہ تبصرہ ۲ ہجری میں غزوۂ بدر سے متعلق احکام و ہدایات کے ضمن میں نازل ہو چکا تھا:
وما لهم ألا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام وما كانوا أولياءه إن أولياؤه إلا المتقون ولكن أكثرهم لا يعلمون۔ (الانفال ۸: ۳۴)
”اور ان میں کیا بات ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے، حالانکہ وہ مسجد حرام میں آنے سے لوگوں کو روکتے ہیں، جبکہ وہ اس پر تولیت کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اس کی تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔“
لیکن بیت اللہ پر مشرکین کی تولیت کے حق کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً اس وقت تک چیلنج نہیں کیا جب تک ۹ ہجری میں قرآن مجید میں اس کے بارے میں واضح ہدایت نازل نہیں ہو گئی۔ حتیٰ کہ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد بھی، جب مشرکین کی سیاسی قوت و شوکت بالکل ٹوٹ چکی تھی اور بیت اللہ کا حق تولیت ان سے چھین لینے میں کوئی ظاہری مانع موجود نہیں تھا، آپ نے کعبہ کی تولیت کے سابقہ انتظام ہی کو برقرار رکھا اور اس سال مسلمانوں نے اسی انتظام کے تحت ارکان حج انجام دیے۔17 مشرکین کو بھی اس سال حج بیت اللہ سے نہیں روکا گیا۔18
۹ ہجری میں جب سورۂ برأۃ میں مشرکین پر اتمام حجت اور ان سے اللہ اور اس کے رسول کی برأت کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ قرآن مجید میں باقاعدہ یہ حکم نازل ہوا کہ اب بیت اللہ پر مشرکین کسی قسم کا کوئی حق نہیں رکھتے، لہٰذا آج کے بعد ان کو مسجد حرام کے قریب نہ آنے دیا جائے:
ما کان للمشرکین ان یعمروا مسٰجد اللہ شھدین علی انفسھم بالکفر اولئک حبطت اعمالھم وفی النار ھم خلدون۔ انما یعمر مسجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر واقام الصلوۃ واتی الزکوۃ ولم یخش الا اللہ فعسی اولئک ان یکونوا من المھتدین۔ (برأت، ۹: ۱۷۔ ۱۸)
”مشرکوں کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے کفر کی شہادت خود دیتے ہوئے وہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں۔ ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ اللہ کی مساجد کو آباد کرنے کا حق تو صرف ان کو ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔ انہی لوگوں کے ہدایت یافتہ ہونے کی امید ہے۔“
یایھا الذین امنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا۔ (برأت، ۹: ۲۸)
”ایمان والو! بے شک مشرک نا پاک ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔“
اس حکم کے نازل ہونے کے بعد ۹ ہجری میں حج کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یوم النحر میں سورۂ برأت کی ابتدائی چار آیات پڑھ کر سنائیں، جن میں مشرکین پر اتمام حجت اور ان سے اللہ و رسول کی براءت کا اعلان ہے، اور پھر اعلان کر دیا کہ آج کے بعد نہ کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل ہو سکے گا اور نہ کسی برہنہ کو حج کرنے کی اجازت دی جائے گی۔19
اس اصول کو سامنے رکھیے تو مذکورہ استدلال کے حوالے سے سب سے پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا قرآن وسنت میں کوئی ایسی نص موجود ہے جس میں یہود کے مذکورہ مذہبی و اخلاقی جرائم کی بنیاد پر ان کے حق تولیت کی تنسیخ کا فیصلہ کیا گیا ہو؟ کیا جس طرح مسجد حرام پر مشرکین مکہ کے حق تولیت کی تنسیخ کا دوٹوک اعلان قرآن و سنت میں کیا گیا ہے، اس طرح مسجد اقصیٰ اور یہود کے بارے میں بھی کوئی صاف اور صریح نص وارد ہوئی ہے؟ ہمارے علم کی حد تک اس کا جواب نفی میں ہے، اور قرآن و سنت کی تصریحات، سیرت نبوی، تاریخ اسلام اور فقہاء کی آراء میں متعدد قرائن اس دعوے کے خلاف موجود ہیں۔ ذیل میں ہم پہلے ان قرائن کی تفصیل پیش کریں گے اور اس کے بعد ان استدلالات کا جائزہ لیں گے جو یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے قائل اہل علم نے اس حوالے سے پیش کیے ہیں۔
حق تولیت کی منسوخی کے خلاف دلائل
اولاً، قرآن مجید نے خود اپنے اسلوب سے یہ واضح کر دیا ہے کہ بہت سے دیگر امور کی طرح، جن کی تفصیل اوپر بیان ہوئی، اللہ کے نبیوں کے تعمیر اور آباد کردہ خانۂ خدا کی تولیت کے معاملے میں بھی مشرکین اور اہل کتاب کے مابین فرق کو لازماً ملحوظ رکھا جانا چاہیے، چنانچہ مشرکین کے حق تولیت کی تنسیخ کے حکم پر مشتمل سورۂ برأت کی مذکورہ آیت کے ساتھ بالکل متصل اگلی آیت میں اہل کتاب کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اب ان کی سیاسی قوت و شوکت کو توڑ کر ان کو مسلمانوں کے زیر نگیں ہونے پر مجبور کر دیا جائے:
قاتلوا الذین لا یؤمنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ما حرم اللہ و رسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتب حتی یعطوا الجزیۃ عن ید و ھم صغرون۔ (برأت ٩: ٢۹)
”اہل کتاب کے ساتھ، جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی اختیار کرتے ہیں، برسر جنگ ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ زیر دستی قبول کر کے ذلت کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔”
یہاں دیکھ لیجیے، مشرکین مکہ کے برخلاف اہل کتاب کو محض سیاسی لحاظ سے مغلوب کرنے تک حکم کو محدود رکھا گیا ہے، اور مذہبی مراکز پر ان کے حق تولیت کو اشارۃً بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ اگر مشرکین کی طرح یہود کو بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حق سے معزول کرنا مقصود ہوتا تو اس کی تصریح کے لیے اس سے زیادہ موزوں موقع اور کوئی نہیں تھا، لیکن، جیسا کہ معلوم ہے، اس قسم کا کوئی حکم یہاں نہیں دیا گیا۔
ثانیاً، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشادات میں مسجد اقصیٰ کے اس مقام و مرتبہ پر روشنی ڈالی ہے جو اسے اسلامی شریعت میں حاصل ہے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ یہ دنیا کی ان تین مقدس ترین عبادت گاہوں میں سے ایک ہے جن میں عبادت کے لیے انسان کو باقاعدہ سفر کر کے جانا چاہیے:
لا تشد الرحال الا الى ثلاثۃ مساجد: المسجد الحرام والمسجد الاقصى ومسجدى (بخاری، رقم ۱۱۸۹)
”سامان سفر صرف تین مساجد کے لیے باندھا جائے: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد۔“
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے مطابق آپ نے اس میں نماز پڑھنے کا ثواب عام مساجد سے ڈھائی سو گنا زیادہ بیان فرمایا۔20
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر کی تکمیل کے موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ جو شخص بھی مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے، وہ یہاں سے اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر جائے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔21 پھر فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرما لی ہوگی۔22
اس باب میں آپ سے منقول تمام ارشادات اسی نوعیت کے ہیں اور ان میں کہیں بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کی قانونی و شرعی حیثیت کو زیر بحث نہیں لایا گیا اور نہ آپ نے اس حوالے سے صحابہ کو کوئی ہدایت دی۔ مثال کے طور پر غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے صحابہ کرام کو یہ خوش خبری دی کہ آپ کی وفات کے بعد بیت المقدس مفتوح ہوگا۔23 یہ موقع ایسا تھا کہ اگر مسجد اقصیٰ کی حیثیت میں شرعی نوعیت کی کوئی تبدیلی پیش نظر ہوتی تو اس کے حوالے سے واضح ہدایت دے دینا مناسب تھا۔
اسی طرح اپنے مرض وفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جو بعض اہم وصیتیں کیں، ان میں سے ایک خاص طور پر مراکز اسلام کے ساتھ اہل کتاب کے تعلق کے بارے میں تھی۔ آپ نے فرمایا کہ جزیرۂ عرب میں، جسے اسلام کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے، دو دین اکٹھے نہیں ہو سکتے، اس لیے یہود و نصاری کو یہاں سے نکال دیا جائے۔24 یہ موقع بھی مسجد اقصیٰ کے بارے میں نئی ہدایات دینے کے لیے بالکل موزوں تھا، لیکن آپ نے اس حوالے سے اشارۃً بھی کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی۔
ثالثاً، حضرات صحابہ کے طرز عمل میں بھی مسجد اقصیٰ کی تقدیس و تکریم سے بڑھ کر اس پر حق تولیت کے تصور کا کوئی سراغ نہیں ملتا، بلکہ حق تولیت تو درکنار، بعض اکابر صحابہ تو بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی کسی خاص فضیلت کے تصور سے بھی نا آشنا تھے۔ حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنا مجھے بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت ابوذرؓ غفاری کا ارشاد ہے کہ کسی سرخ ٹیلے پر نماز پڑھ لینا مجھے بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے زیادہ پسند ہے۔ حضرت حذیفہؓ کا قول ہے کہ اگر میں سفر کرتے ہوئے بیت المقدس سے ایک یا دو فرسخ کے فاصلے پر پہنچ جاؤں تو بھی میں وہاں نہیں جاؤں گا اور نہ وہاں جانا مجھے پسند ہے۔ حضرت علیؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بیت المقدس کے ارادے سے ایک اونٹ خریدا ہے اور سامان سفر تیار کر رکھا ہے۔ آپ نے اس سے کہا، اپنا اونٹ بیچ دو اور اس مسجد یعنی مسجد کوفہ میں نماز ادا کر لو، کیونکہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد مجھے یہ مسجد سب سے زیادہ محبوب ہے۔25 کسی عبادت گاہ کی فضیلت و مرتبے کا قائل ہونا اس کے ساتھ تعلق اور وابستگی کا کم سے کم درجہ ہے۔ جب یہ جلیل القدر صحابہ اسی سے ناواقف ہیں تو یہ بات نا قابل تصور ہے کہ ان کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی مسجد اقصیٰ کے حق تولیت کے امت مسلمہ کو منتقل ہونے کا کوئی خیال موجود ہو۔
سیدنا عمرؓ کے عہد حکومت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو امیر المومنین خود یہاں تشریف لائے اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں فاتحین اور مفتوحین کے باہمی تعلقات اور حقوق و فرائض کے تمام اہم پہلوؤں پر واضح دفعات موجود ہیں، حتیٰ کہ مقامی عیسائی بطریق کے اصرار پر یہ شق بھی شامل کی گئی کہ کوئی یہودی ان کے ساتھ بیت المقدس میں قیام نہیں کرے گا،26 لیکن مسجد اقصیٰ کی تولیت کا معاملہ اس میں بھی زیر بحث نہیں آیا۔ پھر جب سیدنا عمر مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر صخرۂ بیت المقدس کے اوپر اور اس کے اردگرد پڑے ہوئے کوڑا کرکٹ کو صاف کیا تو اس اہم موقع پر بھی انہوں نے مسجد کی تولیت کے معاملے سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ انہوں نے کعب الاحبار سے محض یہ سادہ سا مشورہ طلب کیا کہ: این تری ان اصلی؟27 ”تمہاری رائے میں مجھے کس جگہ نماز پڑھنی چاہیے؟“ اور پھر مسلمانوں کے نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں ایک جگہ مخصوص کرنے پر اکتفا کیا، جس سے واضح ہے کہ اس کو بلا شرکت غیرے مسلمانوں کی تحویل میں دے دینے کا کوئی تصور ان کے ذہن میں نہیں تھا۔
رابعاً، اس ضمن میں یہ پہلو بھی کم قابل لحاظ نہیں ہے کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کو مسلمانوں کے دو مقدس ترین اور مخصوص دینی مراکز قرار دینے کے بعد ناگزیر تھا کہ ان مقامات کا یہ تشخص برقرار رکھنے کے لیے وہاں غیر مسلموں کے مستقل قیام کو ممنوع قرار دے دیا جائے۔ چنانچہ سید نا عمر نے یہ ضابطہ بنایا کہ وہ مدینہ منورہ میں غیر مسلموں کو ضرورت کے تحت تین دن سے زیادہ قیام کی اجازت نہیں دیتے تھے۔28 یہ روایت پوری اسلامی تاریخ میں قائم رہی ہے۔ لیکن بیت المقدس کے حوالے سے اس قسم کی کوئی ہدایت اسلامی قوانین میں نہیں دی گئی، بلکہ پوری مسلم تاریخ میں اس شہر کے ساتھ ان کی وابستگی اور تعلق کو بالعموم احترام ہی کی نظر سے دیکھا گیا اور ان کے وہاں آنے جانے اور وہاں قیام کرنے پر کسی قسم کی کوئی پابندی، بعض استثنائی اور وقتی وجوہ سے قطع نظر، اصولی طور پر کبھی عائد نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ جب بعض مسلم حکمرانوں نے بیت المقدس کی زیارت کے لیے جانے والے اہل ذمہ پر ایک خاص ٹیکس عائد کیا تو فقہاء نے صراحتاً اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیا۔29 اگر مسجد اقصیٰ پر اہل کتاب کی تولیت کو منسوخ کر کے اسے مسلمانوں ہی کے لیے خاص کر دیا گیا ہے تو حرمین شریفین اور بیت المقدس کے احکام میں اس فرق کی آخر کیا توجیہ کی جائے؟
خامساً، فقہ اسلامی کے وسیع اور جامع ذخیرے میں اس بات کی کوئی تصریح، ہمارے علم کی حد تک، نہیں ملتی کہ مسجد اقصیٰ کو اہل کتاب کے تصرف سے نکال کر اہل اسلام کی تولیت میں دے دیا گیا ہے۔ ویسے تو اس نہایت اہم معاملے سے عدم تعرض ہی اس تصور کی نفی کے لیے کافی ہے، لیکن اس سے بڑھ کر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فقہی مکاتب فکر میں سے ایک بڑے مکتب فکر یعنی فقہائے احناف کی آراء میں ایسے شواہد بھی موجود ہیں جو حق تولیت کی تنسیخ کے تصور کی صاف نفی کرتے ہیں۔
اس کا پہلا قرینہ تو اس بحث میں ملتا ہے جو سورہ برأت کی آیت ”انما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام“ کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے فقہاء کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں امام مالک، امام احمد اور امام شافعی کا بنیادی زاویۂ نگاہ ایک ہے، یعنی ان سب کے نزدیک اس حکم کی اصل علت، ظاہر نص کے مطابق، محض اعتقادی نجاست ہے، البتہ اس حکم کے دائرہ کار کی تحدید کے حوالے سے ان میں باہم اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
امام شافعی اس پابندی کو علت اور وقت کے لحاظ سے تو عام مانتے ہیں، لیکن محل کے لحاظ سے خاص۔ علت کے عموم کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم اگرچہ مشرکین کے لیے بیان ہوا ہے، لیکن اعتقادی نجاست کی علت چونکہ دوسرے غیر مسلموں میں بھی پائی جاتی ہے، اس لیے کوئی بھی غیر مسلم، چاہے وہ مشرک ہو یا کتابی، مسجد حرام میں داخل نہیں ہو سکتا۔ وقت کے عموم کا مطلب یہ ہے کہ یہ پابندی کسی خاص زمانے کے لیے نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ محل کے خصوص سے مراد یہ ہے کہ امام صاحب اس پابندی کو صرف مسجد حرام کے لیے مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی تمام مساجد میں ان کے نزدیک غیر مسلم داخل ہو سکتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہ پابندی خاص طور پر صرف مسجد حرام کے لیے بیان کی ہے، لہٰذا باقی مساجد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔30
امام مالک اور امام احمد کی رائے میں یہ حکم علت، وقت اور محل، ہر لحاظ سے عام ہے، یعنی ان کے نزدیک تمام غیر مسلموں کا داخلہ مسجد حرام سمیت تمام مساجد میں ہمیشہ کے لیے ممنوع ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ جس طرح اعتقادی نجاست کی علت کی بنا پر یہ حکم مشرکین کے علاوہ دوسرے غیر مسلموں کو بھی شامل ہے، اسی طرح حرمت و تقدس کی علت کی بنا پر مسجد حرام کے علاوہ دیگر تمام مساجد کو بھی شامل ہے۔ اگر غیر مسلم مسجد حرام کی حرمت کی بنا پر اس میں داخل نہیں ہو سکتے تو اسی علت کی بنا پر دوسری تمام مساجد میں بھی داخل نہیں ہو سکتے۔
فقہائے احناف نے اس حکم کی تعبیر ایک بالکل مختلف زاویے سے کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ پابندی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ان مشرکین عرب کے لیے تھی جن کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہیں تھا اور جن پر اتمام حجت کے بعد یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا مرنے کے لیے تیار ہو جا ئیں۔ نیز ان کے لیے بھی یہ ممانعت ہر حال میں نہیں، بلکہ حسب ذیل صورتوں میں تھی:
ایک یہ کہ وہ ایام حج میں حج کی غرض سے مسجد حرام میں داخل ہوں۔ گویا عام دنوں میں ان کے داخلہ پر کوئی پابندی نہیں تھی۔31
دوسری یہ کہ وہ عریاں ہو کر یا غلبہ اور استیلا کے ساتھ اس میں داخل ہوں۔32
تیسری یہ کہ وہ مسجد حرام کے امور میں تصرف و تولیت کے اختیار میں شریک ہوں۔33
گویا جمہور فقہاء کی رائے کے برعکس، احناف کے نزدیک مسجد حرام میں داخلے کی یہ پابندی نہ تمام غیر مسلموں کے لیے ہے اور نہ ہر زمانے کے لیے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ احناف کے نزدیک اس حکم کی علت مفرد نہیں، بلکہ مرکب ہے، یعنی اس کی وجہ محض اعتقادی نجاست نہیں کہ اس کے دائرۂ اطلاق میں تمام غیر مسلموں اور تمام مساجد کو شامل کر لیا جائے، بلکہ حکم کے سیاق و سباق کی رو سے اعتقادی نجاست کے ساتھ ساتھ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت بھی اس کی علت کا حصہ ہے۔ چونکہ مذکورہ مشرکین عرب پر ہر لحاظ سے اتمام حجت کر دیا گیا تھا، اس لیے آخری مرحلے میں ان سے اپنے دین پر قائم رہنے کا حق چھین لینے کے ساتھ ساتھ مسجد حرام کی تولیت اور اس میں عبادت کرنے کا حق بھی سلب کر لیا گیا، جس کی ایک لازمی فرع یہ تھی کہ اس میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے۔
اس تمہید کے بعد اب ہم اصل نکتے کی طرف آتے ہیں۔ احناف تمام مساجد میں غیر مسلموں کے دخول کے جواز کے قائل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس اجازت کے دائرے میں مسجد اقصیٰ بھی ان کے نزدیک شامل ہے یا نہیں ؟ فقہی ذخیرے میں ہمیں اس حوالے سے کوئی صراحت میسر نہیں ہوئی، لیکن منطقی طور پر یہاں امکان دو ہی ہیں:
ایک یہ کہ مذکورہ بحث میں احناف کے پیش نظر مسجد اقصیٰ کے علاوہ باقی مساجد ہیں اور مسجد اقصیٰ اس کے دائرۂ اطلاق سے خارج ہے۔ اگر یہ صورت ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف مسجد اقصیٰ کو ان مساجد کے زمرے میں داخل ہی نہیں سمجھتے جن کے حوالے سے اسلامی شریعت کے احکام زیر بحث آئیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی کہ ان کے نزدیک مسجد اقصیٰ پر مسلمان نہ بلا شرکت غیرے تصرف کا استحقاق رکھتے ہیں اور نہ یک طرفہ طور پر اس پر اسلامی شریعت کے احکام نافذ کرنے کے مجاز ہیں۔
دوسرا یہ کہ اس بحث کے دائرۂ اطلاق میں مسجد اقصیٰ بھی شامل ہے۔ یہ صورت اس لیے متبادر لگتی ہے کہ جس زمانے میں یہ فقہی بحث پیدا ہوئی، اس وقت مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے تصرف میں تھی اور یہود و نصاریٰ کے عملاً اس سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے اس کو عمومی حیثیت سے منجملہ دیگر مساجد کے ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس امکان کو مان لیجیے تو ایک سیدھا سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسجد اقصیٰ کا حق تولیت اہل کتاب سے چھین لیا گیا ہے تو احناف، جو مسجد حرام میں مشرکین عرب کے دخول کے عدم جواز کو حق تولیت کی تنسیخ کی ایک فرع قرار دیتے ہیں، مسجد اقصیٰ پر اس حکم کا اطلاق کیوں نہیں کرتے ؟ کیا ان کے نزدیک اس اصول کا اطلاق اہل کتاب پر نہیں ہوتا ؟ اگر ہوتا ہے تو اس کے دائرۂ اطلاق میں صرف عہد نبوی یا عہد صحابہ کے اہل کتاب آتے ہیں یا یہ حکم ہمیشہ کے لیے موثر ہے؟ نیز یہ ممانعت بالکل مطلق ہے یا بعض مخصوص حالات و کیفیات تک محدود ہے؟ اور اگر اہل کتاب پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا تو ان کے اور مشرکین کے مابین فرق کی کیا وجہ ہے؟ ان سوالات پر احناف کے ہاں اسی طرح بحث ہونی چاہیے تھی جس طرح مشرکین عرب کے حق تولیت کے حوالے سے ہوئی ہے، بلکہ اس حوالے سے ان پر بحث کا داعیہ اس لحاظ سے زیادہ قوی تھا کہ مشرکین عرب کا خاتمہ تو عہد نبوی اور عہد صحابہ میں ہی کر دیا گیا تھا، اور بعد کے حالات میں ان کے مسجد حرام میں دخول یا عدم دخول کی بحث محض نظری نوعیت کی تھی، جبکہ یہود بطور ایک مذہبی گروہ کے اس اعتقاد کے ساتھ مسلسل دنیا میں موجود ہیں کہ مسجد اقصیٰ ان کا قبلہ ہے اور ایک وقت آئے گا جب وہ یہاں اپنے ہیکل کو از سر نو تعمیر کریں گے۔ اس پس منظر کے ساتھ جب ہم فقہائے احناف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ان سوالات کے حوالے سے کسی تفصیل میں جائے بغیر مسجد اقصیٰ میں اہل کتاب کے دخول کو جائز قرار دیتے ہیں تو اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ ان کے ذہن میں اہل کتاب کے حق تولیت کی تنسیخ کا کوئی تصور موجود نہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ احناف اور شوافع نہ سہی، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک تو مسجد اقصیٰ میں اہل کتاب کے دخول کے عدم جواز کا حکم بہرحال ثابت ہے، تو اس سے ہمارے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے کہ مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس کی علت حق تولیت کی تنسیخ نہیں، بلکہ اعتقادی نجاست ہے۔ ہم یہاں جو بات واضح کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اہل کتاب کے حق تولیت کی تنسیخ کا ذکر فقہاء کے ہاں، خواہ وہ احناف اور شوافع ہوں یا مالکیہ اور حنابلہ نہیں ملتا۔ مالکیہ اور حنابلہ اگر اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے، مثلاً غیر مسلموں کی اعتقادی نجاست کی بنیاد پر مسجد اقصیٰ میں اہل کتاب کے دخول کے عدم جواز کے قائل ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ ایک بالکل دوسری بحث ہے اور اس ضمن میں ان سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر مسجد اقصیٰ کا بلا شرکت غیرے مسلمانوں ہی کی عبادت گاہ ہونا ازروئے شریعت ثابت نہیں ہے، تو اس پر مسلمانوں کی مخصوص مساجد کے احکام جاری کرتے ہوئے اہل کتاب پر یہ پابندی کیونکر عائد کی جا سکتی ہے؟
حق تولیت کی تنسیخ کے خلاف دوسرا قرینہ فقہائے احناف کے ہاں اس فقہی بحث میں ملتا ہے کہ اسلامی ریاست میں اہل ذمہ کو اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر و تزئین یا انتظام امور کے لیے مال وقف کرنے یا وصیت کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ جمہور فقہاء کی رائے میں انہیں نہ اپنی عبادت گاہوں کے لیے یہ حق حاصل ہے اور نہ مسلمانوں کی مساجد کے لیے۔ اگر وہ ایسی کوئی وصیت کریں تو اسے غیر موثر سمجھا جائے گا۔34
فقہائے احناف کے ہاں، البتہ، اس میں کچھ تفصیل ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
”جان لو کہ ذمی کی وصیت کی تین صورتیں ہیں: پہلی صورت بالاتفاق جائز ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی ایسے کام کی وصیت کرے جو ہمارے نزدیک بھی باعث ثواب ہو اور ان کے نزدیک بھی، مثلاً یہ وصیت کرے کہ اس کے مال سے بیت المقدس میں چراغ جلائے جائیں یا وصیت کرنے والا رومی ہو اور وصیت کرے کہ اس کے مال سے ترکوں کے خلاف لڑائی کی جائے۔ یہ وصیت خواہ وہ کچھ مخصوص لوگوں کے حق میں کرے یا عمومی طور پر، دونوں صورتوں میں درست ہوگی۔ دوسری صورت بالاتفاق باطل ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی ایسے کام کی وصیت کرے جو نہ ہمارے نزدیک باعث ثواب ہو اور نہ ان کے نزدیک، مثلاً گانا گانے والیوں یا نوحہ کرنے والیوں کے حق میں وصیت کر دے۔ اسی طرح اگر وہ کسی ایسے کام کے لیے وصیت کریں جو صرف ہمارے نزدیک باعث ثواب ہے، جیسے حج اور مسلمانوں کے لیے مساجد تعمیر کرنا تو ان کی وصیت درست نہیں۔ تیسری صورت میں اختلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی ایسے کام کی وصیت کرے جو صرف ان کے ہاں باعث ثواب ہو جیسے گر جاتعمیر کرنا۔ اگر یہ وصیت وہ غیر معین لوگوں کے نام کرے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک درست ہوگی، جبکہ صاحبین کے نزدیک نا درست۔ اور اگر چند معین افراد کے نام کرے تو بالاتفاق درست قرار پائے گی۔“ (رد المحتار، کتاب الوصایا، فصل فی وصايا الذمی وغیرہ ۶/۶۹۶)
اسی طرح اہل ذمہ کے وقف کی صورتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”بحر الرائق وغیرہ میں ہے کہ ذمی کے وقف کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ کسی ایسے کام کے لیے وقف کرے جو ہمارے نزدیک بھی نیکی کا کام ہو اور ان کے نزدیک بھی، جیسے فقراء کے حق میں یا مسجد اقصیٰ کے لیے۔ اگر وہ کسی گرجے پر وقف کرے تو درست نہیں، کیونکہ یہ صرف ان کے نزدیک نیکی ہے۔ اسی طرح اس کا حج اور عمرہ کے لیے مال وقف کرنا بھی درست نہیں، کیونکہ وہ صرف ہمارے نزدیک نیکی ہے۔“ (رد المحتار، کتاب الوقف، مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة ۴/۳۴۱)
یہی بات ابن ہمام نے ”فتح القدیر“ میں یوں بیان کی ہے:
”اگر ذمی نے اس مقصد کے لیے مال وقف کیا کہ اس کے ساتھ حج یا عمرہ کیا جائے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ حج اور عمرہ ان کے نزدیک قرب الٰہی کا ذریعہ نہیں ہیں۔ ہاں اگر وہ مسجد اقصیٰ کے لیے مال وقف کرے تو جائز ہے، کیونکہ یہ ان کے نزدیک بھی کار ثواب ہے اور ہمارے نزدیک بھی۔“ (فتح القدیر، کتاب الشركۃ، فصل: لا یودی احد الشریکین زکاۃ مال ۶/۲۰۱)
یہاں اس جزئیہ کی صحت یا عدم صحت سے بحث نہیں، لیکن اس سے اتنی بات بالکل واضح ہے کہ فقہائے احناف کے نزدیک مسجد اقصیٰ کا معاملہ مسلمانوں کی عام مساجد سے مختلف ہے۔ عام مساجد کے لیے وہ اہل ذمہ کے وقف یا وصیت کردہ مال کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ان کی حیثیت خالصتاً مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی ہے اور ان پر خرچ کرنا چونکہ اہل ذمہ کے نزدیک کار ثواب نہیں ہے، اس لیے ان کے حق میں ان کی وصیت یا وقف بھی درست نہیں، لیکن مسجد اقصیٰ پر خرچ کرنے کے لیے وہ اہل ذمہ کے وقف اور وصیت کو درست قرار دیتے ہیں۔ جس کا مفہوم، ظاہر ہے، اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اس کو خالصتاً اہل اسلام کی نہیں، بلکہ اہل اسلام اور اہل کتاب، دونوں کی مشترکہ عبادت گاہ مانتے اور اس کی تعمیر و تزئین کے لیے مال خرچ کرنے کو اہل کتاب کا مذہبی حق تسلیم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اہل کتاب کے حق تولیت کو از روئے شریعت منسوخ ماننے کی صورت میں ”اشتراک“ کے اس تصور کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔
مسلمانوں کے حق تولیت کے ”شرعی دلائل“ کا جائزہ
ہم اوپر تفصیل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں کہ مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کے منسوخ ہونے کا کوئی اشارہ تک قرآن و سنت اور کلاسیکل فقہی لٹریچر میں نہیں ملتا۔ یہ نقطۂ نظر حال ہی میں مسلم اہل علم اور دانش وروں کے ہاں پیدا ہوا ہے اور چونکہ کسی شرعی دلیل کے بغیر اس دعوے کی بے مائیگی بالکل واضح ہے، لہٰذا انہوں نے اس ضمن میں چند دلائل سے بھی استناد کیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان کا جائزہ بھی لے لیا جائے۔
ا۔ واقعۂ اسرا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے اہم واقعات میں سے ایک ”واقعۂ اسرا“ ہے۔ قرآن مجید کے مطابق انبیائے بنی اسرائیل کی عبادت گاہ اور ان کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کی حیثیت سے فلسطین کی مقدس سرزمین کی زیارت اور اس کے ماحول میں موجود روحانی نشانیوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عنایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے رات کے وقت معجزانہ طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومسجد اقصیٰ کا سفر کرایا۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:
سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بٰرکنا حولہ لنریہ من ایٰتنا انہ ھو السمیع البصیر۔ (اسراء ١:١٧)
”پاک ہے اللہ کی ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر کرایا، جس کےآس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔ بے شک وہ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔“
روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں یہاں نماز کی امامت بھی کرائی اور انبیائے کرام علیہم السلام نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔35
اس واقعے کو بعض اہل علم نے یہود کے حق تولیت کی تنسیخ اور امت مسلمہ کے حق تولیت کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کے خیال میں اس کی نوعیت مستقبل میں ملنے والے حق تولیت کی ”بشارت“ کی تھی۔ فرماتے ہیں:
”واقعۂ معراج کی طرف اشارہ جس میں یہ حقیقت مضمر تھی کہ اب مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ، دونوں گھروں کی امانت خائنوں اور بدعہدوں سے چھین کر نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کی گئی۔ اب یہی ان مقدس گھروں اور ان کے انوار و برکات کے وارث اور محافظ و امین ہوں گے اور ان کے قابضین۔ ۔ ۔ مشرکین قریش اور یہود ۔ ۔ ۔ عنقریب ان گھروں کی تولیت سے بے دخل کر دیے جائیں گے۔“ (تدبر قرآن، ۳ /۷۱۴)
جبکہ سید سلیمان ندوی کی رائے میں اس کی نوعیت کسی آیندہ امر کی بشارت کی نہیں، بلکہ فی الفور نافذ العمل حتمی فیصلے اور اعلان کی تھی، چنانچہ لکھتے ہیں:
”سب سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس سورہ کے جلی عنوانات کیا ہیں:
ا۔ یہ اعلان کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی القبلتین (یعنی کعبہ اور بیت المقدس، دونوں کے پیغمبر) ہیں۔
۲۔ یہود جواب تک بیت المقدس کے اصل وارث اور اس کے نگہبان و کلید بردار بنائے گئے تھے، ان کی تولیت اور نگہبانی کی مدت حسب وعدۂ الٰہی ختم کی جاتی ہے اور آل اسمٰعیل کو ہمیشہ کے لیے اس کی خدمت گزاری سپرد کی جاتی ہے۔ ... آپ کو دونوں قبلوں کی تولیت تفویض ہوئی اور نبی القبلتین کا منصب عطا ہوا۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ اور بیت المقدس، دونوں طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی لیے معراج میں آپ کو مسجد حرام (کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے جایا گیا اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی صف میں آپ کو امامت پر مامور کیا گیا، تاکہ آج اس مقدس دربار میں اس کا اعلان عام ہو جائے کہ دونوں قبلوں کی تولیت سرکار محمدی کو عطا ہوتی ہے اور نبی قبلتین نامزد ہوتے ہیں۔“ (سیرت النبی، ۳/۲۵۲۔ ۲۵۳)
اس استدلال کا ذرا گہری نظر سے جائزہ لیجیے:
دعوے کے ساتھ اس دلیل سے تعلق کی نوعیت تو یہ ہے کہ اگر ذہن میں کوئی مقدمہ پہلے سے قائم نہ کر لیا گیا ہو تو اس سے یہود کے حق تولیت کی منسوخی کا نکتہ اخذ کرنا فی الواقع کوئی آسان کام نہیں۔ قرآن مجید نے واقعۂ اسرا کی غرض و غایت خود یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان روحانی نشانیوں سے فیض یاب ہونے کا موقع دینا تھا جو انبیاء کی اس مقدس اور بابرکت سرزمین میں اور بالخصوص مسجد اقصیٰ کے اندر اور اس کے اردگرد جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ یہ اس سفر کی بنیادی غرض و غایت تھی، جبکہ دیگر جزوی اسرار اور حکمتوں پر ان چودہ صدیوں میں اہل علم مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے رہے ہیں، لیکن اس تمام لٹریچر میں اس بات کی طرف کہیں کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اس کا مقصد یہود کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حق سے معزول کرنا اور اس حق کو مسلمانوں کی طرف منتقل کر دینا تھا۔ یہ راز ہمارے علماء نے حال ہی میں دریافت کیا ہے۔
اس ضمن میں مولانا اصلاحی کے جواب میں تو ہمیں یہی عرض کرنا ہے کہ اگر واقعۂ اسرا کی نوعیت اس ضمن میں ایک اشارے کی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ اشارہ، مسجد حرام کی تولیت کے بارے میں وارد ابتدائی اشارے کی طرح، اس بات کا مقتضی تھا کہ بعد میں مناسب موقع پر اس کو واضح حکم کی شکل بھی دے دی جاتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ نہ قرآن مجید سورۂ برأۃ میں ایک مناسب موقع پیدا ہونے کے باوجود اس کی تصریح کرتا ہے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ضمن میں کوئی واضح ہدایت دیتے ہیں، نہ سیدنا عمر فتح بیت المقدس کے موقع پر اس بات کی وضاحت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ بعد کے فقہاء کے ہاں اس بات کا کوئی ذکر ملتا ہے کہ یہود کا اپنے قبلے پر اب کوئی حق باقی نہیں رہا؟
باقی رہے وہ اہل علم جو اس واقعہ کو ایک حتمی اعلان کی حیثیت دیتے ہیں، تو ہماری ان سے گزارش ہے کہ وہ ازراہ کرم حسب ذیل سوالات کا جواب عنایت فرمائیں:
ا۔ اس میں کیا حکمت ہے کہ مشرکین کے حق تولیت کی تنسیخ کا تو قرآن مجید میں ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا گیا اور اس کے بعد ۹ ہجری میں حج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی عام منادی کا اہتمام کیا، لیکن مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کی تنسیخ واقعۂ اسرا میں یوں پنہاں کر دی گئی کہ زمانۂ حال سے قبل تیرہ صدیوں تک کسی کے لیے اس کو دریافت کر نا ممکن ہی نہ ہوا؟
۲۔ مشرکین کی معزولیت کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ سالہ نبوی زندگی کے بالکل آخری زمانے میں اس وقت کیا گیا جبکہ مشرکین پر دعوت و تبلیغ کے میدان میں اتمام حجت کرنے کے بعد فتح مکہ کی صورت میں سیاسی لحاظ سے بھی ان کو مغلوب کیا جا چکا تھا۔ اس کے بر خلاف اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کا آغاز مکی زندگی کے آخری سالوں میں ہوا، جو مدنی زندگی میں اپنے عروج کو پہنچا۔ ان کی سیاسی طاقت کو توڑ کر ان کو مغلوب کر لینے کا حکم قرآن مجید میں بالکل آخری زمانے میں سورۂ برأۃ میں دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک میں اس سمت میں جدوجہد کا آغاز بھی کر دیا، لیکن اس حکم کی عملی تکمیل خلفائے راشدین کے عہد میں ہوئی۔ آخر اس کی کیا توجیہ کی جائے کہ مشرکین کی معزولی کا فیصلہ تو ان پر اتمام حجت اور سیاسی غلبہ حاصل ہو جانے کے بعد کیا گیا، لیکن بیت المقدس کے حق تولیت سے یہود کی معزولی کا فیصلہ مکہ ہی میں اس وقت کر دیا گیا، جبکہ اتمام حجت اور سیاسی غلبہ تو درکنار، ابھی ان کے ساتھ باقاعدہ مباحثہ کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا؟
۳۔ اس الجھن کا کیا حل پیش کیا جائے گا کہ مسجد اقصیٰ بہرحال اسلام میں ”تیسرے“ مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے لیے مسجد حرام اور مسجد نبوی جیسی حرمت و تقدس کے احکام بھی شریعت میں ثابت نہیں اور نہ مسلمانوں کی حج اور قربانی جیسی عبادات کے حوالے سے اسے کوئی خصوصی اہمیت حاصل ہے، تو پھر آخر کس معقول وجہ سے مسجد حرام کا معاملہ موخر کر کے مسجد اقصیٰ کی تولیت کا فیصلہ اس سے کہیں پہلے کر دینے کا اہتمام کیا گیا؟
۴۔ اگر حق تولیت کی تنسیخ کا فیصلہ واقعۂ اسرا ہی کے موقع پر ہو چکا تھا تو ہجرت مدینہ کے بعد تحویل قبلہ کے حکم کی کیا حکمت اور معنویت باقی رہ جاتی ہے؟ اس حکم کی حکمت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیرو کاروں اور کمزور مدعین ایمان کے مابین امتیاز قائم ہو جائے اور یہود اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مانوس ہو جائیں۔ واقعۂ اسرا کی اس تعبیر کے مطابق اگر مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق کی صاف نفی کی جا چکی تھی تو تحویل قبلہ سے آزمایش اور تالیف قلب کے مذکورہ مقاصد آخر کس بنیاد پر حاصل کرنا مقصود تھے؟
۵۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ واقعۂ اسرا سے اس استدلال کی جڑ قرآن مجید نے سورۂ بنی اسرائیل کی انہی آیات میں خود کاٹ دی ہے۔ واقعۂ اسرا کے ذکر کے بعد قرآن مجید نے اسی سلسلۂ بیان میں مسجد اقصیٰ کی بربادی اور اس میں سے یہود کی بے دخلی کے دو تاریخی واقعات کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے:
عسی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا۔ (اسراء ۸:۱۷)
”توقع ہے کہ تمہارا رب تم پر پھر رحمت کرے گا۔ اور اگر تم نے دوبارہ سرکشی اور فساد کا رویہ اختیار کیا تو ہم بھی اس عذاب کا مزہ تمہیں دوبارہ چکھا دیں گے۔”
یعنی قرآن مجید واقعۂ اسرا کے بعد بھی اس بات کا امکان تسلیم کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے یہود کو دوبارہ اپنے مرکز عبادت کی بازیابی اور اس میں سلسلۂ عبادت کے احیاء کا موقع ملے، اگرچہ یہ موقع بھی پہلے مواقع کی طرح اطاعت اور حسن کردار کے ساتھ مشروط ہوگا۔
ان دلائل سے واضح ہے کہ ہمارے اہل علم کی ایجاد کردہ واقعۂ اسرا کی یہ تازہ تعبیر علمی لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔
۲۔ تحویل قبلہ
یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے ضمن میں دوسرا استدلال تحویل قبلہ کے واقعے سے کیا جاتا ہے۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد یہود کی تالیف قلب اور مسلمانوں کے ایمان کو جانچنے کے لیے کچھ عرصہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام کے بجائے مسجد اقصیٰ کو، جو یہود کا قبلہ تھا، مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمایا تھا اور تقریباً سترہ ماہ تک مسلمان اس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے۔ بعد میں اس حکم کو منسوخ کر کے انہیں دوبارہ مسجد حرام کی طرف رخ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس واقعہ کا تذکرہ سورۂ بقرہ کی آیات ۱۴۲ تا ۱۴۵ میں کیا گیا ہے۔
سید سلیمان ندوی اس واقعہ کو یہود کے حق تولیت کی معزولی کا حکم نامہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”بیت المقدس اسلام کا دوسرا قبلہ ہے اور اس کی تولیت امت محمدیہ کا حق تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس تولیت کی بشارت دے دی تھی اور فرمادیا تھا کہ میری موت کے بعد یہ واقعہ پیش آئے گا۔“ (سیرت النبی، ۳/ ۳۸۵)
اس ضمن میں خود قرآن مجید کی تصریحات سے تین باتیں صاف واضح ہیں:
ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ کو قبلہ مقرر کرنے کے حکم کا مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان کی آزمایش کی جائے اور مضبوط اہل ایمان اور کمزور اہل ایمان کے مابین امتیاز قائم کر دیا جائے:
وما جعلنا القبلۃ التي كنت عليها إلا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبیہ۔ (البقرہ ۱۴۳:۲)
” اور ہم نے یہ قبلہ جس کی طرف آپ رخ کرتے رہے، صرف اس لیے مقرر کیا تاکہ ہم رسول کی پیروی کرنے والوں اور الٹے پاؤں پلٹ جانے والوں کے مابین امتیاز قائم کر دیں۔“
دوسری یہ کہ مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرنے کا یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو طبعاً پسند نہیں تھا اور آپ کی یہ خواہش تھی کہ دوبارہ مسجد حرام کو مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا جائے:
قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلۃ ترضھا (البقره ۲: ۱۴۴)
”آپ کے چہرے کے بار بار آسمان کی طرف اٹھنے کو ہم دیکھتے رہے ہیں، سو ہم آپ کو اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جو آپ کو پسند ہے۔“
تیسری یہ کہ اس حکم کے منسوخ ہونے پر یہود ناخوش تھے اور ان کی خواہش تھی کہ مسلمان انہی کے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش کو مسترد کر دیا:
وما أنت بتابع قبلتہم وما بعضہم بتابع قبلۃ بعض، ولئن اتبعت أھواءہم من بعد ما جاءک من العلم انک اذا لمن الظٰلمین۔ (البقره ۲: ۱۴۵)
”نہ آپ ان کے قبلے کی طرف رخ کریں گے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کی طرف۔ اور اگر واضح حکم آ جانے کے بعد آپ ان کی خواہشات کے پیچھے چلے تو آپ کا شمار ظالموں میں ہو گا۔“
اس کے ساتھ اہل علم کی بیان کردہ یہ حکمت بھی پیش نظر رکھیں کہ مسجد اقصیٰ کو قبلہ مقرر کرنے سے یہود مدینہ کی تالیف قلب یعنی انہیں مسلمانوں کے ساتھ مانوس اور اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود تھا۔36
اب ذرا غور فرمائیے کہ ان میں سے کون سی بات ہے جو حق تولیت کی تنسیخ کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے؟
اگر مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر کرنے کا مقصد یہود کے حق تولیت کو منسوخ کرنا تھا تو واقعہ کی یہ حکمت اہمیت کے لحاظ سے قرآن کی بیان کردہ حکمت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کیا وجہ ہے کہ قرآن اس اہم تر حکمت سے یہاں صرف نظر کر جاتا ہے؟
پھر مفسرین نے اس کی جو دوسری حکمت یعنی یہود کی تالیف قلب سمجھی ہے، وہ حق تولیت کی منسوخی کے بالکل معارض ہے۔ اگر مسلمانوں کو یہود کے قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم دینے کا مقصد یہود کے قلوب کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے نرم کرنا تھا تو ظاہر ہے کہ پھر اس حکم کا مقصد ان کے حق تولیت کی تنسیخ نہیں ہو سکتا۔ حق تولیت کی تنسیخ کے دعوے کے ساتھ ان کے قبلے کی طرف رخ کرنا آخر تالیف قلب کا کون سا طریقہ ہے؟
پھر اگر مسجد اقصیٰ کے استقبال کا مطلب مسلمانوں کے نزدیک یہ تھا کہ اس مرکز پر اب یہود کا کوئی حق باقی نہیں رہا تو اس حکم کے منسوخ ہونے پر یہود کو خوش ہونا چاہیے تھا یا نا خوش؟ کیا وہ اس لیے مسلمانوں کی طرف سے مسجد اقصیٰ کو قبلہ بنائے جانے کے خواہش مند تھے کہ اس طریقے سے مسلمان ان کے قبلے پر حق جمائے رکھیں اور زبان حال سے ان کے سینوں میں نشتر چبھوتے رہیں؟
پھر قرآن مجید جس طرح ”قبلتک“ کے الفاظ سے مسجد حرام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبی تعلق کو واضح کرتا ہے، اس طرح کسی منفی تبصرے کے بغیر ”قبلتھم“ کے الفاظ سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ یہود کی قلبی وابستگی کی کیفیت کو بھی بیان کرتا ہے۔ حق تولیت کی منسوخی کے معرض بیان میں اس اسلوب کی ناموزونیت کسی صاحب ذوق سے مخفی نہیں۔
علاوہ ازیں مدنی زندگی کے عین آغاز میں، جبکہ ریاست مدینہ کے استحکام کے لیے یہود کے داخلی تعاون کی اہمیت سیاسی لحاظ سے نا قابل انکار تھی، ایک ایسا اعلان کرنے میں کیا حکمت تھی جس کی اس وقت نہ عملاً کوئی اہمیت تھی اور نہ اس کے رو بہ عمل لائے جانے کا کوئی فوری امکان؟ یہود جیسی کینہ پرور قوم کے ساتھ ایک سنگین نوعیت کی مذہبی بحث چھیڑ دینے کا اس نازک موقع پر آخر کیا فائدہ تھا؟
واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا اسے ”یہود کا قبلہ“ تسلیم کرتے ہوئے شراکت کے اصول پر تھا نہ کہ تنسیخ کے اصول پر۔ اپنے پس منظر، جزئیات اور قرآن کے اسلوب بیان کے لحاظ سے یہ واقعہ اس سے ابا کرتا ہے کہ اس سے یہود کے حق تولیت کی منسوخی کا حکم تو درکنار، کوئی اشارہ بھی استنباط کیا جائے۔ ہم، فی الواقع، نہیں سمجھ سکے کہ اس پس منظر کے ساتھ مسجد اقصیٰ کو عارضی طور پر مسلمانوں کا قبلہ مقرر کرنے کے اس حکم کو دلالت کی کون سی قسم کے تحت مستقل تولیت کا پروانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
واقعۂ اسرا اور تحویل قبلہ کے واقعات سے استدلال کے مذکورہ انداز اصلاً علمی نوعیت کے ہیں اور ان کی کم مائیگی بالکل واضح ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور انداز استدلال بھی موجود ہے جسے صحافتی، سیاسی یا جذباتی میں سے کوئی بھی عنوان دیا جا سکتا ہے اور جسے میڈیا میں اور عالمی فورموں پر اس وقت مسلمانوں کے بنیادی استدلال کی حیثیت حاصل ہے۔ اس طریق استدلال میں یہود کے حق تولیت کے برقرار رہنے یا منسوخ ہو جانے کا سوال ہی سرے سے گول کر کے بات کا آغاز یہاں سے کیا جاتا ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر معراج کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے تھے اور مسلمانوں نے ایک مخصوص عرصے تک اس کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کی تھیں، اس لیے اس مسجد پر مسلمانوں ہی کا حق ہے اور دوسرا کوئی اس میں شرکت کا دعوے دار نہیں ہو سکتا۔
اس سلسلے میں ہماری گزارش یہ ہے کہ واقعۂ اسرا اور تحویل قبلہ کے واقعات یقیناً مسجد اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں کی اعتقادی اور مذہبی وابستگی کے اسباب میں سے اہم سبب ہیں، لیکن ان کی یہ تعبیر کہ اب اس مقام پر صرف اور صرف مسلمان حق رکھتے ہیں اور یہود کے تمام اعتقادات اور جذبات کی کوئی وقعت نہیں رہی، عقلی اور اخلاقی، دونوں لحاظ سے ایک نہایت بودا موقف ہے۔ دسمبر ۱۹۳۰ء میں برطانوی شاہی کمیشن نے دیوار گریہ کے حوالے سے مسلم موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
”کمیشن مسلم فریق کا یہ موقف قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہو کر یہاں آئے تھے، اس لیے پوری مغربی دیوار مسلمانوں کے لیے مقدس ہے، لیکن کمیشن کی رائے میں اس بات سے اس حقیقت کی نفی نہیں ہو جاتی کہ یہودیوں کے لیے بھی اس دیوار کا تقدس برقرار رہے۔ اگر پیغمبر کی تشریف آوری کی قابل احترام یاد (یہ الگ بات ہے کہ ان کے براق کو یہودیوں کے گریہ وزاری کے مقام سے ایک مخصوص فاصلے پر باندھا گیا تھا) پوری کی پوری مغربی دیوار کو مسلمانوں کے لیے مقدس بنا سکتی ہے تو اسی اصول پر اس تعظیم کو بھی احترام کی نظر سے کیوں نہ دیکھا جائے جس کا اظہار اس سے بھی کئی صدیاں پہلے سے یہودی اس دیوار کے متعلق کرتے چلے آرہے ہیں جو ان کے اعتقاد کے مطابق اس قدیم ہیکل کی واحد باقی ماندہ یادگار ہے جس کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کی موجودگی سے معمور ہے؟“ (http://domino.un.org/unispal.nsf)
یہ تبصرہ واقعۂ اسرا اور قبلہ ثانی کی مذکورہ تعبیر پر بھی بعینہٖ صادق آتا ہے۔ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد اقصیٰ میں تشریف لانے اور مسلمانوں کے کچھ عرصہ تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے مسلمان اس کی تولیت کے حق دار بن سکتے ہیں تو آخر یہود اس بنیاد پر کیوں یہ حق نہیں رکھتے کہ اس مقام کو تین ہزار سال سے ان کے قبلے کی حیثیت حاصل ہے، اس کا حج ان کے مذہبی فرائض کا حصہ ہے، اور ان کے سیکڑوں انبیاء اور کاہن صدیوں تک اس میں تعلیم و تبلیغ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں؟
۳۔ مشرکین مکہ پر قیاس
مکتب دیوبند کے معروف عالم دین مولانا قاری محمد طیب صاحب نے اس ضمن میں یہ استدلال بھی پیش کیا ہے کہ چونکہ مشرکین مکہ اور بنی اسرائیل دین ابراہیمی کی تعلیمات سے روگردانی کے حوالے سے ایک ہی نوعیت کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے مشرکین مکہ کی طرح یہود کا حق تولیت بھی لازماً منسوخ ماننا چاہیے:
”یہ تینوں مرکز اسلام کی جامعیت کی وجہ سے مسلمانوں کو کسی کے دیے سے نہیں ملے، بلکہ خدا کی طرف سے عطا ہوئے اور انہی کے قبضہ و تصرف میں دیے گئے ہیں جن میں کسی غیر کے دخل یا قبضہ کا ازروئے اصول کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ .... حجاز میں مشرکین ملت ابراہیم کے نام سے عرب پر قابض و متصرف تھے، لیکن جب انہوں نے شعائر اللہ کی جگہ بے جان مورتیوں اور پتھر کے سنگ دل خداؤں کو جگہ دے دی ... تو سنت اللہ کے مطابق قبضہ تبدیل کر دیا گیا۔.... شام کی مقدس سرزمین بلاشبہ اولاً یہود کو دی گئی اور فلسطین ان کے حصہ میں لگا دیا گیا جیسا کہ قرآن نے ”کتب اللہ لکم“ سے اس کا انہیں دے دیا جانا ظاہر کیا ہے، لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور خدائی تعلیمات سے منہ موڑ کر الٰہی میثاق کو توڑ ڈالا۔ ... ان حرکات کے انتہا کو پہنچ جانے پر حق تعالیٰ نے انہیں بیت المقدس کی تولیت اور اس ملک کی ملکیت سے محروم کر کے ان پر نصاریٰ کو مسلط کیا، چنانچہ بعثت نبوی سے تین سو سال پہلے نصاریٰ شام اور فلسطین کی ارض مقدس پر قابض ہو گئے۔ .... لیکن اقتدار جم جانے کے بعد رد عمل شروع ہوا اور بالآخر وہ بھی قومی اور طبقاتی رقابتوں میں مبتلا ہو کر اسی راہ چل پڑے جس پر یہود چلے تھے۔.... صخرہ معلقہ کو جو یہود کا قبلہ تھا، غلاظت کی جگہ قرار دیا اور اس کی انتہائی توہین شروع کر دی۔ محض اس لیے کہ وہ یہود کا قبلہ تھا، اس پر پلیدی ڈالی اور اسے مزبلہ (کوڑی) بنا کر چھوڑا۔ ... ظاہر ہے کہ شعائر الٰہیہ اور نشانات خداوندی کی تو ہین کے بعد کوئی قوم بھی پنپ نہیں سکتی، اس لیے بالآخر نصاریٰ کا بھی وقت آ گیا۔ ان کا اقتدار یہاں ختم ہوا اور حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو غلبہ دے کر انہیں بیت المقدس کا متولی بنایا۔“ (مقامات مقدسہ اور اسلام کا اجتماعی نظام ۶۴۳۔ ۶۴۷)
اس استدلال کے حاصل کو اگر فقہی اصطلاح میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ اس میں اہل کتاب کو ”مشرکین مکہ“ پر اور اس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کے معاملے کو مسجد حرام کی تولیت کے معاملے پر ”قیاس“ کیا گیا ہے۔
ہماری رائے میں یہ استدلال دو وجوہ سے اپنی بنیاد ہی کے لحاظ سے غلط ہے:
ایک یہ کہ اس میں حق تولیت کی تنسیخ کے حکم کی بنیاد محض قیاس پر رکھی گئی ہے جبکہ معاملہ، جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں، اپنی نوعیت کے لحاظ سے ”نص“ کا تقاضا کرتا ہے، چنانچہ اس بارے میں نص صریح سے کم تر کوئی چیز، خواہ وہ قیاس ہو یا عقلی استدلال کی کوئی اور قسم، قبول نہیں کی جا سکتی، بالخصوص جبکہ قرآن و سنت میں موجود متعدد قرائن اس قیاس کے خلاف بھی موجود ہیں۔
اس استدلال کی دوسری بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں اہل کتاب کے معاملے کو مشرکین پر قیاس کرتے ہوئے ان نہایت اہم اور واضح فروق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جو خود کتاب و سنت کے نصوص میں ان دونوں گروہوں کے مابین ثابت ہیں۔ ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
ا۔ توحید خالص سے انحراف اور مشرکانہ عقائد و اعمال سے آلودہ ہونے کے باوجود قرآن مجید تو حید کو اہل کتاب اور اہل اسلام کے درمیان نقطۂ اتحاد مانتا اور انہیں اس کی طرف بلانے کا حکم دیتا ہے۔37
۲۔ تورات و انجیل کے احکام سے روگردانی کے باوجود وہ اہل کتاب کو اصولی طور پر انہی کتابوں کا پیروکار تسلیم کرتا اور انہیں ”اہل کتاب“ کے خطاب سے یاد کرتا ہے۔
۳۔ اسی بنا پر مشرکین مکہ اور اہل کتاب کے مابین یہ فرق ملحوظ رکھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد مشرکین کو تو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ ان سے کہا گیا کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا مرنے کے لیے تیار ہو جائیں،38 لیکن اہل کتاب کو اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے جزیہ دے کر مسلمانوں کے زیر نگیں رہنے کی اجازت دی گئی۔39
۴۔ اسی بنا پر قرآن مجید ان کے اور مشرکین کے مابین یہ امتیاز بھی قائم کرتا ہے کہ مشرکین کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح مسلمانوں کے لیے حرام، جبکہ اہل کتاب کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح ان کے لیے جائز ہے۔40
۵۔ اور اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے صنم خانوں اور مقدس مقامات کو اتمام حجت کے بعد ایک ایک کر کے ڈھا دینے کا حکم دیا۔41 اس کے برخلاف اہل کتاب کی عبادت گاہوں کی حرمت و تقدس کو پوری طرح تسلیم کرتے ہوئے انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا گیا، جس کی … آئندہ سطور میں دیکھی جا سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر انبیاء کی تعلیمات سے یہود کے عملی انحراف کا اثر مذکورہ بالا تمام امور پر نہیں پڑتا تو صرف مسجد اقصیٰ کی تولیت کے معاملے پر وہ کس قانون، ضابطے اور اصول کی رو سے اثر انداز ہو جاتا ہے؟
علاوہ ازیں اس تضاد کا کیا حل ہے کہ جب اسلام میں اہل کتاب کی عام عبادت گاہوں کو تحفظ دیا گیا اور ان پر اہل مذہب کی تولیت و تصرف کا حق تسلیم کیا گیا ہے تو ان کے قبلہ اور مرکز عبادت کے بارے میں یہ فیصلہ کیوں کیا گیا کہ وہ اس پر تولیت و تصرف یا اس کے اندر عبادت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے ؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مذہب اور اس کے قبلے کو روحانی لحاظ سے لازم و ملزوم کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اور اپنے قبلے پر اہل مذہب کے حق کی نفی کا سیدھا سیدھا مطلب خود اس مذہب کے وجود و بقا اور اور اس کے ماننے والوں کے مذہبی و روحانی بنیاد پر اتحاد و اجتماع کے حق کی نفی ہے۔ علم و منطق کی رو سے ان دونوں باتوں میں کوئی تطبیق نہیں دی جا سکتی کہ ایک مذہب کے لیے بطور مذہب تو وجود و بقا کا حق تسلیم کیا جائے اور اہل مذہب کے روحانی و مذہبی جذبات کے احترام کی تعلیم بھی دی جائے، لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیا جائے کہ اپنے قبلے میں عبادت اور اس کی تولیت کا کوئی حق ان کو حاصل نہیں ہے۔ اگر آپ ماننا چاہتے ہیں تو دونوں باتوں کو ماننا ہوگا، اور اگر نفی کرنا چاہتے ہیں تو بھی دونوں باتوں کی کرنی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے مشرکین عرب سے محض کعبہ کی تولیت کا حق ہی نہیں چھینا، بلکہ اس کے ساتھ ان کے اپنے مذہب پر قائم رہنے کے اختیار کی بھی صاف طور پر نفی فرما دی اور کہا کہ ان کے لیے نجات کی راہ صرف یہ ہے کہ وہ دین حق کو قبول کر لیں۔42
۴۔ فتح بیت المقدس کی بشارت
سید سلیمان ندوی کے مذکورہ اقتباس میں فتح بیت المقدس کی بشارت نبوی کو بھی اس ضمن میں دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خلط مبحث کی ایک افسوس ناک مثال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جس چیز کی بشارت دی، وہ یہ تھی کہ اہل کتاب کے سیاسی طور پر مغلوب ہونے کے نتیجے میں بیت المقدس کا شہر بھی مفتوح ہو کر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے گا۔ اس کا مسجد اقصیٰ کی تولیت کے معاملے سے آخر کیا تعلق ہے؟
اگر اس فقہی ضابطے کا حوالہ دیا جائے کہ کسی شہر کے مفتوح ہونے کی صورت میں وہاں کی عبادت گاہوں پر تولیت کا حق بھی مفتوحین سے چھن جاتا ہے تو ہم عرض کریں گے کہ فقہاء کی تصریحات کے مطابق یہ ضابطہ بزور قوت مفتوح ہونے والے علاقوں کے لیے ہے، جبکہ بیت المقدس صلحاً مفتوح ہوا تھا۔ نیز اگر بیت المقدس پر اس ضابطہ کا اطلاق کیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہاں کی ساری عبادت گاہوں کو اس کے دائرے میں آنا چاہیے تو پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے معاہدۂ بیت المقدس میں یہاں کی عبادت گاہوں پر اہل مذہب کے تولیت و تصرف کے حق کو کس اصول کے تحت تسلیم کیا ؟ اور اگر بیت المقدس کے مفتوح ہونے کے بعد اہل کتاب کی دیگر عبادت گاہوں پر ان کا حق تولیت باقی رہ سکتا ہے تو مسجد اقصیٰ پر، جو کہ ان کا قبلہ بھی ہے، کیوں نہیں رہ سکتا؟ اگر یہ کہا جائے کہ مسجد اقصیٰ کا معاملہ دیگر عبادت گاہوں سے مختلف ہے تو سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت میں اس کا کہاں ذکر ہے اور اس تفریق کی شرعی بنیاد کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طور پر مغلوب ہونا ایک الگ بات ہے اور عبادت گاہ کے حق تولیت سے معزول ہونا ایک بالکل دوسری بات۔ دونوں کو کسی بھی طرح سے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۵۔ اہل کتاب کے ہاں پیش گوئیاں
مولانا قاری محمد طیب نے اس سلسلے میں نصاریٰ کی کتابوں میں موجود چند مزعومہ پیش گوئیوں کو بھی دلیل میں پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
”اسلام سے پہلے کے نصاریٰ بھی بیت المقدس کو اسلام کا حق سمجھے ہوئے تھے۔.... کتب مقدسہ کی اس خبر کے مطابق جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فتح بیت المقدس کے لیے شام پہنچے تو انہیں دیکھ کر اس کے نصرانی متولیوں نے ان تمام علامات کی تصدیق کی جو کتاب مقدس میں وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پڑھ چکے تھے اور بلا لڑے بھڑے بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا جو بیت المقدس کے حق اسلام ہونے کی نمایاں شہادت ہے۔“ (مقامات مقدسہ اور اسلام کا اجتماعی نظام ۶۵۰)
اگر ”بیت المقدس“ سے مولانا علیہ الرحمۃ کی مراد یروشلم کا شہر ہے تو وہ ہماری بحث کے دائرے سے خارج ہے، البتہ اگر شہر کی تولیت کے ضمن میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق بھی داخل سمجھا جارہا ہے تو گزشتہ سطور میں کی گئی بحث کی روشنی میں یہ بات درست نہیں۔
اور اگر ”بیت المقدس“ سے ان کی مراد براہ راست مسجد اقصیٰ ہے تو ان کا یہ استدلال نہ تحقیقی لحاظ سے کوئی وزن رکھتا ہے اور نہ الزامی لحاظ سے۔ الزامی لحاظ سے اس لیے کہ الزام کی بنیاد ظاہر ہے کہ ایسے مآخذ پر ہونی چاہیے جنہیں خود اہل کتاب کے نزدیک استناد اور اعتبار کا درجہ حاصل ہو، نہ کہ مسلم مورخین کی نقل کردہ تاریخی روایات پر۔ اور تحقیقی لحاظ سے اس لیے کہ جب تک قرآن و سنت کی تصریحات سے مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں کے لیے ثابت نہ ہو جائے، مذکورہ تاریخی پیش گوئیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی۔ گویا اصل مسئلہ اس دعوے کے حق میں قرآن و سنت سے ثبوت فراہم کرنا ہے۔ اس کے بغیر اس استدلال کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے اقدامات کے لیے شرعی جواز قرآن و سنت سے نہیں، بلکہ یہود و نصاریٰ کے ہاں موجود پیش گوئیوں سے اخذ کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے حق تولیت کا واقعاتی تسلسل
سطور بالا میں ہم اس نکتے پر سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں کہ اسلامی شریعت میں نہ مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کو منسوخ کیا گیا ہے اور نہ اس کے کسی حکم کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اس کی تولیت کی ذمہ داری لازماً اٹھا ئیں۔ اس حوالے سے جو استدلال پیش کیا گیا ہے، وہ علمی لحاظ سے بے حد کمزور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض جید اہل علم تولیت کے اس حق کو محض حالات و واقعات کا نتیجہ تسلیم کرتے اور واقعاتی حقائق ہی کو مسلمانوں کے حق تولیت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
”ہیکل سلیمانی سے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اسے ۷۰ء میں بالکل مسمار کر دیا گیا تھا اور حضرت عمر کے زمانے میں جب بیت المقدس فتح ہوا، اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا، بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے، اس لیے مسجد اقصیٰ اور قبہ صخرہ کی تعمیر کے بارے میں کوئی یہودی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ان کے کسی معبد کو توڑ کر مسلمانوں نے یہ مساجد بنائی تھیں۔“ (سانحہ مسجد اقصیٰ، ص ۷)
حکیم الامت علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
”صدیاں گزر گئیں کہ ایک معبد تعمیر ہوا تھا جسے ہیکل سلیمانی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ معبد مسلمانوں کے یروشلم فتح کرنے سے بہت پہلے برباد ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا ذکر حضرت عمر فاروق سے فرمایا تو انہیں ہیکل یا مسجد اقصیٰ کے صحیح موقع محل سے بھی مطلع کر دیا۔ فتح یروشلم کے بعد حضرت عمر بہ نفس نفیس یروشلم تشریف لے گئے تو انہوں نے مسمار شدہ ہیکل کا محل وقوع دریافت فرمایا اور وہ جگہ ڈھونڈ لی۔ اس وقت اس جگہ گھوڑوں کی لید جمع تھی، جسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔ مسلمانوں نے جب اپنے خلیفہ کو ایسا کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی جگہ صاف کرنی شروع کر دی اور یہ میدان پاک ہو گیا۔ عین اسی جگہ مسلمانوں نے ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی جس کا نام مسجد اقصیٰ ہے۔ یہود و نصاریٰ کی تاریخ میں تو یہ کہیں مذکور نہیں کہ موجودہ مسجد اقصیٰ اسی جگہ پر واقع ہے جہاں ہیکل سلیمانی واقع تھا۔ اس تشخیص کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے۔ یہود و نصاریٰ نے اس کی زیارت کے لیے اس وقت آنا شروع کیا جب یہ مشخص ہو چکی تھی۔“ (انقلاب، ۱۰ ستمبر ۱۹۲۹ء بحوالہ المعارف، اقبال نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۷۷ء، ۸۰)
اس استدلال کو مکمل انداز میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں نے اس مقام کو یہودیوں سے چھین کر یا ہیکل کو گرا کر یہاں مسجد اقصیٰ کو تعمیر نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اس عبادت گاہ کو اس وقت تعمیر اور آباد کیا جب یہ بر بادی، ویرانی اور خستہ حالی کا شکار تھی، نیز گزشتہ تیرہ صدیوں سے مسلمان اس کی تولیت کے امور کے ذمہ دار چلے آرہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی اسی بنیاد پر ان کے اس حق کو قانونی اور جائز تسلیم کیا گیا ہے، اس لیے اب یہود کے اس پر کسی قسم کا حق جتانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہم اس بحث کے آغاز میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ قانونی لحاظ سے اس استدلال کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں، لیکن ہمیں اس بات کو ماننے میں شدید تردد ہے کہ یہ موقف اس اعلیٰ اخلاقی معیار کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہے جس کی تعلیم اہل کتاب اور ان کی عبادت گاہوں کے متعلق اسلام نے دی ہے۔
آئیے، پہلے اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں:
عبادت گاہوں کے متعلق اسلام کا رویہ
قرآن مجید کے نزدیک دین کا اصل الاصول خدا کی یاد اور اس کی عبادت ہے، اس لیے وہ اعتقادات کے باہمی امتیاز، طریقہ ہائے عبادت کے اختلاف اور احکام و شرائع کے فرق کے باوجود اہل کتاب کی عبادت گاہوں کو اللہ کی یاد کے مراکز تسلیم کرتا، انہیں مساجد کے ساتھ یکساں طور پر قابل احترام قرار دیتا اور ان کی حرمت و تقدس کی حفاظت کا حکم دیتا ہے:
ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدمت صوامع وبيع وصلوات و مسٰجد يذكر فيها اسم الله كثيرا۔ (حج ۴۰:۲۲)
”اور اگر اللہ نے (دنیا میں) ایک گروہ کے ظلم و عدوان کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرنے کا قانون نہ بنایا ہوتا تو راہب خانوں، کلیساؤں، گرجوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔“
خدا کی عبادت میں اشتراک کے اس تصور سے آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے مابین جو باہمی رویہ پیدا ہوتا ہے، وہ ظاہر ہے کہ رواداری، مسامحت اور احترام کا رویہ ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ بوقت ضرورت مسلمانوں کو اہل کتاب کی عبادت گاہوں میں اور اہل کتاب کو مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ چنانچہ صحابہ میں سے حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور تابعین میں سے ابراہیم نخعی، اوزاعی، سعید بن عبد العزیز، حسن بصری، عمر بن عبد العزیز، شعبی، عطا اور ابن سیرین رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر اہل علم سے کلیساؤں میں نماز پڑھنے کی اجازت اور بوقت ضرورت اس پر عمل کرنا منقول ہے۔43
دوسری طرف ۹ ہجری میں جب نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ جب عصر کی نماز کا وقت آیا اور انہوں نے نماز پڑھنی چاہی تو صحابہ نے ان کو روکنا چاہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں نماز پڑھنے دو۔ چنانچہ انہوں نے مشرق کی سمت میں اپنے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔44
عبادت گاہوں کے تقدس و احترام کے اسی تصور کے پیش نظر قرآن مجید نے مذہبی اختلافات کی بنیاد پر لوگوں کو اللہ کی عبادت سے روکنے یا اس کی عبادت کے لیے قائم کیے گئے مراکز پر تعدی کرنے کو ایک سنگین ترین اور نا قابل معافی جرم (قرار دیا) ہے۔ یہود و نصاریٰ کے مابین اعتقادات اور قبلے کی سمت میں اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو عبادت سے روکنے اور عبادت گاہوں پر تعدی کے واقعات ان کی پوری تاریخ میں رونما ہوتے رہے ہیں۔ قرآن مجید نے اس طرز عمل پر نہایت سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے فرمایا:
و من أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه وسعى في خرابها أولئك ما كان لهم أن يدخلوها إلا خائفين لهم في الدنيا خزي ولهم في الآخرة عذاب عظيم۔ وللہ المشرق والمغرب فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ان اللہ واسع علیم۔ (البقرہ ۱۱۴:۲، ۱۱۵)
” اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کرنے میں رکاوٹ ڈالے اور مسجدوں کو ویران کرنے کی کوشش کرے؟ ان کا حق تو یہی تھا کہ وہ ان مسجدوں میں داخل ہوں تو اللہ کے خوف و خشیت ہی کی حالت میں داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں۔ سو تم جس طرف بھی رخ کرو، اللہ کی ذات اسی طرف ہے۔ بے شک اللہ بہت وسعت دینے والا علم رکھنے والا ہے۔“
عہد رسالت میں مشرکین مکہ نے متعدد مواقع پر مسلمانوں کو مسجد حرام میں جانے اور وہاں عبادت کرنے سے روک دیا جس کی بنا پر خدشہ تھا کہ مسلمان بھی موقع ملنے پر ان کے قافلوں اور عازمین حج کو روکنے لگیں گے، چنانچہ قرآن مجید نے بیت اللہ کے طواف و زیارت کا قصد کرنے والوں اور ان کے قربانی کے جانوروں سے کسی بھی قسم کا تعرض کرنے پر پابندی عائد کر دی:
یا أیہا الذین آمنوا لا تحلوا شعائر اللہ ولا الشہر الحرام ولا الہدی ولا القلائد ولا آمین البیت الحرام یبتغون فضلا من ربہم ورضوانا وإذا حللتم فاصطادوا ولا یجرمنکم شنآن قوم أن صدوکم عن المسجد الحرام أن تعتدوا وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان واتقوا اللہ إن اللہ شدید العقاب۔ (المائدہ ۲:۵)
”ایمان والو! اللہ کے شعائر اور حرام مہینوں اور قربانی کے جانوروں اور ان کے پٹوں اور بیت الحرام کا قصد کرنے والوں کی بے حرمتی نہ کرو جو اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ اور جب تم احرام سے نکل آؤ تو شکار کر سکتے ہو۔ اور اگر کسی گروہ نے تمہیں مسجد حرام سے روکا ہے تو ان کے ساتھ دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو۔ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تو ایک دوسرے کی مدد کرو، لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ نہایت سخت سزا دینے والا ہے۔“
اسی ضمن میں یہ ضابطہ بھی اسلامی تعلیمات کا ایک نا قابل تبدیل حصہ ہے کہ کسی مخصوص عبادت گاہ کی تولیت اور اس کے امور میں تصرف اور فیصلے کا حق اسی مذہب کے متبعین کو حاصل ہے جنہوں نے اس کو قائم کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود مدینہ کے ساتھ میثاق میں ”لليهود دينهم وللمسلمین دينهم” کی شق شامل کر کے ان کے تمام مذہبی حقوق کے احترام و حفاظت کی پابندی قبول کی۔ اسی طرح نجران کے مسیحیوں کے ساتھ معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ:
ولنجران وحاشيتها ذمۃ الله وذمۃ رسولہ/ رسول الله على دمائهم واموالهم وملتهم وبيعهم و رهبانيتهم و اساقفتهم وشاهدهم وغائبهم وكل ما تحت ايديهم من قليل او كثير وعلى ان لا يغيروا اسقفا من سقيفاه ولا واقها من وقيهاه ولا راهبا من رهبانيتہ۔ (الاموال، ابوعبید، ص ۱۱۸۔ السيرة النبويۃ لابن ہشام ۴ / ۱۰۸۔ سنن البیہقی ۹/ ۲۹۲)
”بنو نجران اور ان کے تابعین کی جان و مال، دین اور عبادت گاہوں، راہبوں اور پادریوں کو، غائب اور موجود سب کو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے۔ ان کے پاس موجود ہر تھوڑی یا زیادہ چیز کی حفاظت کی بھی ضمانت دی جاتی ہے، اور اس بات کی بھی کہ ان کے کسی پادری یا گرجے کے منتظم یا راہب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا۔“
سید نا ابوبکر نے جیش اسامہ کو روانگی کے وقت جو ہدایات دیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ :
ولا تهدموا بيعۃ۔ (ابن عساکر، تہذیب تاریخ دمشق الکبیر /۱۳۴۱)
”اور تم کسی گرجے کو نہ گرانا۔“
وسوف تمرون باقوام قد فرغوا انفسهم فی الصوامع فدعوهم وما فرغوا انفسهم لہ۔ (ایضاً ۱/ ۱۱۸، ۱۱۹)
”اور تمہارا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوگا جنہوں نے اپنے آپ کو خانقاہوں میں بند کر رکھا ہو۔ تم ان کو ان کے حال پر ہی چھوڑ دینا۔“
سید نا عمر نے اہل بیت المقدس کو جو تحریری امان دی، اس کے الفاظ یہ ہیں:
هذا ما اعطى عبد الله عمر امیر المومنین اهل ايلياء من الامان، اعطاهم امانا لانفسهم واموالهم ولكنائسهم وصلباتهم وسقيمها وبريئها وسائر ملتها، انہ لا تسكن كنائسهم ولا تهدم ولا ينتقض منها ولا من حيزها ولا من صليبهم ...... ومن احب من اهل ايلياء ان يسير بنفسہ ومالہ مع الروم ويخلى بيعهم وصلبهم فانهم آمنون على انفسهم وعلى بيعهم وصلبهم حتى يبلغوا ما منهم۔ (تاریخ طبری۳/ ۶۰۹)
”یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمر نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے۔ نہ ان کے گر جاؤں میں سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیا کے باسیوں میں سے جو یہ چاہیں کہ اپنی جان و مال لے کر رومیوں کے ساتھ چلے جائیں اور اپنے گرجے اور صلیبیں چھوڑ جائیں تو ان کی جانوں، گرجوں اور صلیبوں کو امان حاصل ہے یہاں تک کہ وہ کسی پر امن جگہ پر پہنچ جائیں۔“
عہد صحابہ کی فتوحات میں اہل کتاب کے ساتھ کیے جانے والے کم و بیش تمام معاہدوں میں ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت کا ذکر ملتا ہے۔45
چنانچہ اسلام کی انہی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں اسلامی تاریخ کے صدر اول میں غیر مسلموں کے فتح ہونے والے علاقوں میں دیگر مذاہب کی پہلے سے موجود عبادت گاہوں کو علی حالہا قائم رکھنے اور ان کے مذہبی معاملات سے تعرض نہ کرنے کی شان دار روایت قائم کی گئی۔ ابن قدامہ ”المغنی“ میں لکھتے ہیں:
”عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ: جس شہر کے بانی عجم ہوں اور اللہ تعالیٰ عربوں کو اس پر فتح عطا کر دے اور وہ اس میں داخل ہو جائیں تو اہل عجم کے معاملات حسب سابق برقرار رکھے جائیں گے۔ نیز صحابۂ کرام نے بہت سے شہروں پر بزور قوت فتح حاصل کی، لیکن انہوں نے اہل کتاب کی عبادت گاہوں میں سے کسی کو بھی منہدم نہیں کیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ان علاقوں میں یہود اور نصاریٰ کی عبادت گاہیں موجود ہیں اور معلوم ہے کہ یہ اسلامی فتوحات کے بعد نہیں بنائی گئیں۔ چنانچہ لازماً یہ پہلے سے موجود تھیں اور ان کو برقرار رکھا گیا۔ عمر بن عبد العزیز نے اپنے عمال کو لکھا تھا کہ وہ یہود و نصاریٰ یا مجوس میں سے کسی کی عبادت گاہ کو منہدم نہ کریں۔ پھر یہ کہ اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے، کیونکہ یہ عبادت گاہیں مسلمانوں کے علاقوں میں موجود ہیں اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔“ (المغنی ۹/ ۲۸۴)
عہد صحابہ میں اس روایت کی پاس داری کا عالم یہ رہا کہ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر جب سید نا عمر وہاں تشریف لے گئے تو مسیحی بطریق صفر نیوس نے انہیں مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کرائی۔ اس دوران میں جب وہ کلیسائے قیامت میں گئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ بطریق نے سید نا عمر سے گزارش کی کہ وہ وہیں نماز ادا کر لیں، لیکن سیدنا عمر نے فرمایا کہ اگر آج انہوں نے یہاں نماز ادا کی تو بعد میں مسلمان بھی ان کے اس عمل کی پیروی میں یہاں نماز ادا کریں گے اور اس سے مسیحیوں کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
اسی طرح جب کلیسائے قسطنطین کے دروازے پر مسیحی میزبانوں نے سیدنا عمر کے نماز پڑھنے کے لیے بساط بچھائی تو آپ نے پھر معذرت فرما دی۔
بیت لحم میں کلیسائے مہد کی زیارت کے موقع پر نماز کا وقت آیا تو سید نا عمر نے وہاں نماز ادا کر لی، لیکن پھر اندیشہ ہوا کہ ان کا یہ عمل بعد میں مسیحیوں کے لیے دقت کا باعث نہ بن جائے۔ چنانچہ ایک خاص عہد لکھ کر بطریق کو دے دیا جس کی رو سے یہ کلیسا مسیحیوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور پابندی لگا دی گئی کہ ایک وقت میں صرف ایک مسلمان اس میں داخل ہو سکے گا، اس سے زیادہ نہیں۔46
اسلامی سلطنت کے عین عروج کے زمانے میں امیر المومنین سیدنا معاویہ نے یہ چاہا کہ دمشق میں کنیسہ یوحنا کے نصف حصے کو، جو عیسائیوں کے زیر تصرف تھا، ان کی رضا مندی سے مسجد میں شامل کر لیں،47 لیکن عیسائیوں کے اس بات سے اتفاق نہ کرنے کی وجہ سے وہ اس خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور انہیں یہ ارادہ ترک کر دینا پڑا۔
اس تفصیل سے اہل کتاب اور ان کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے رخ اور مزاج کا پوری طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کو پیش نظر رکھیے تو ہر شخص یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ مسجد اقصیٰ کے معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لیے اصل معیار کی حیثیت محض قانونی اور واقعاتی استحقاق کو نہیں، بلکہ ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو حاصل ہونی چاہیے جن کی رعایت کی تلقین اسلام نے اہل کتاب کے حوالے سے کی ہے۔
اخلاقی لحاظ سے اس معاملے کی نوعیت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حسب ذیل حقائق پیش نظر رہیں:
ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ کی حیثیت یہود کے نزدیک کسی عام عبادت گاہ کی نہیں، بلکہ وہی ہے جو مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام اور مسجد نبوی کی ہے۔ مسلمان، اپنی عام عبادت گاہوں کے برخلاف، ان دونوں مساجد کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اگر خدانخواستہ کبھی وہ ان کے ہاتھ سے چھن جائیں اور کسی دوسرے مذہب کے پیروکار اسے اپنی مذہبی یا دنیاوی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیں تو ان پر سے مسلمانوں کا حق ختم ہو جائے گا۔ اپنے قبلے کے بارے میں یہی احساسات و جذبات دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے حوالے سے مانا جانے والا یہ اصول، عدل وانصاف کی رو سے، دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔
دوسرے یہ کہ ہیکل سلیمانی کو یہود نے اپنے اختیار اور ارادے سے ویران نہیں کیا، بلکہ اس کی بربادی اور حرمت کی پامالی ایک حملہ آور بادشاہ کے ہاتھوں ہوئی جس نے جبراً یہود کو یہاں سے بے دخل کر کے اس عبادت گاہ کے ساتھ ان کے تعلق کو منقطع کر دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان پر یہ ذلت و رسوائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر مسلط ہوئی، لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ یہ چیز تکوینی امور میں سے ہے جو اپنی نوعیت اور حیثیت کے لحاظ سے ہمارے لیے قابل اتباع نہیں ہیں، چنانچہ اس دائرے کے امور کو نہ کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے ماخذ بنایا جا سکتا ہے اور نہ کسی طرز عمل کے لیے دلیل۔
تیسرے یہ کہ اس عبادت گاہ کے ساتھ قوم یہود کی قلبی وابستگی اور اس کی بازیابی کے لیے ان کی تمناؤں اور امیدوں کی تصویر خود مولانا مودودی نے یوں پیش کی ہے:
”دو ہزار برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ بیت المقدس پھر ہمارے ہاتھ آئے اور ہم ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کریں۔ ہر یہودی گھر میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈراما کھیلا جاتا رہا ہے کہ ہم مصر سے کس طرح نکلے اور فلسطین میں کس طرح سے آباد ہوئے اور کیسے بابل والے ہم کو لے گئے اور ہم کس طرح سے فلسطین سے نکالے گئے اور تتر بتر ہوئے۔ اس طرح یہودیوں کے بچے بچے کے دماغ میں یہ بات ۲۰ صدیوں سے بٹھائی جارہی ہے کہ فلسطین تمہارا ہے اور تمہیں واپس ملنا ہے اور تمہارا مقصد زندگی یہ ہے کہ تم بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کرو۔ بارہویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (Maimonides) نے اپنی کتاب شریعت یہود (The Code of Jewish Law) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو ازسرنو تعمیر کرے۔ مشہور فری میسن تحریک (Freemason Movement) بھی، جس کے متعلق ہمارے ملک کے اخبارات میں قریب قریب سارے ہی حقائق اب شائع ہو چکے ہیں، اصلاً ایک یہودی تحریک ہے اور اس میں بھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کو مقصود قرار دیا گیا ہے، بلکہ پوری فری میسن تحریک کا مرکزی تصور یہی ہے اور تمام فری میسن لاجوں میں اس کا با قاعدہ ڈراما ہوتا ہے کہ کس طرح سے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کرنا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ صدیوں سے یہودی قوم کی زندگی کا نصب العین یہی رہا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرے اور اب بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہو جانے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس نصب العین کو پورا کرنے سے باز رہ جائیں۔“ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۹ء)
چوتھے یہ کہ یہودیوں کی بہت سی عباداتی رسوم، بالخصوص قربانیاں، ایسی ہیں جو ان کے مذہبی قانون کے مطابق ہیکل کے ساتھ مخصوص ہیں اور اس کے بغیر ان کی ادائیگی فقہی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ گویا مسجد اقصیٰ سے ان کو روکنا محض ایک عبادت گاہ سے محروم رکھنے کا معاملہ نہیں، بلکہ ان کے اپنی مذہبی رسوم کو بجا لانے کے حق کی نفی کو بھی مستلزم ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس مرکز عبادت سے اہل مذہب کو اس کی شدید ترین بے حرمتی کرنے کے بعد بے دخل کر دیا گیا ہو، جن کے مذہبی قانون میں اس کی تولیت کی ذمہ داری کسی دوسرے گروہ کے سپرد کرنے کی ممانعت کی گئی ہو، اور اس کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ان کے مذہبی جذبات کا عالم یہ ہو جو اوپر کے اقتباس میں بیان ہوا ہے، اس کے بارے میں اس استدلال کی عقل و اخلاق اور دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کیا حیثیت ہوگی کہ چونکہ ہم نے اہل مذہب کی غیر موجودگی میں اس مقام پر عمارت تعمیر کر لی ہے اور صدیوں سے اس میں عبادت انجام دیتے چلے آ رہے ہیں، اس لیے اس کے حوالے سے ان کے تمام حقوق بیک قلم منسوخ ہو گئے ہیں؟ کیا ایک کھوئے ہوئے مرکز عبادت میں ازسرنو جمع ہونے اور اس میں سلسلۂ عبادت کے احیا کا جذبہ، فی الواقع، ایسا ہی قابل نفرت ہے کہ اسے یوں بے وقعت کرنے کی کوشش کی جائے؟ کیا اگر، خاکم بدہن، یہود کے بجائے یہ صورت حال مسلمانوں کو در پیش ہوتی تو بھی وہ اس قسم کے استدلالات سے مطمئن ہو کر اپنے قبلے سے دست بردار ہو جاتے؟
مذہبی اخلاقیات کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ عبادت گاہوں کے بارے میں فیصلے کے لیے جس چیز کو سب سے بڑھ کر ملحوظ رکھا جانا چاہیے، وہ خود اہل مذہب کے اعتقادات اور ان کا مذہبی قانون ہے۔ اس اصول کی روشنی میں مذکورہ استدلال کی کم مائیگی بالکل واضح ہے۔48
عالم عرب کا موقف: چند علمی و اخلاقی سوالات
مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے مذکورہ دونوں نقطہ ہائے نظر کی کمزوری ہم واضح کر چکے ہیں، تا ہم اختلاف کے باوجود یہ ماننا چاہیے کہ ان کی غلطی اصلاً علمی ہے اور غلط فہمی کے اسباب بھی بڑی حد تک قابل فہم ہیں۔ لیکن بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس باب میں امت مسلمہ کے رویے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کی مشکل ہی سے کوئی علمی یا اخلاقی توجیہ کی جا سکتی ہے۔ ذیل میں ہم اس کی کچھ تفصیل پیش کر رہے ہیں:
ا۔ ہیکل سلیمانی کے وجود سے انکار
اس وقت امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے مذہبی و سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور ماہرین تاریخ کی اکثریت سرے سے ہیکل سلیمانی کے وجود کوہی تسلیم نہیں کرتی۔ اس کے نزدیک ہیکل کا وجود محض ایک افسانہ ہے جو یہود نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کے لیے گھڑ لیا ہے۔ یہ خیال نہ ہو کہ اس خیال کا اظہار سطحی قسم کے غیر معتبر لوگ محض اپنی نجی مجالس میں کر دیتے ہیں۔ نہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ اس نقطہ کی وکالت اور ترجمانی کے فرائض مسلم دنیا کے چوٹی کے مذہبی اور سیاسی رہنما اعلیٰ ترین علمی اور ابلاغی سطحوں پر کر رہے ہیں۔
عالم عرب کے معروف اسکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:
”اپنے تمام تر ترقی یافتہ سائنسی، تکنیکی اور انجینئرنگ کے ساز و سامان کے ساتھ وہ تیس سال سے تلاش کر رہے ہیں کہ مفروضہ ہیکل سلیمانی کا کوئی نشان ہی مل جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہیں۔ اس نام نہاد ہیکل سلیمانی کے وجود کا امکان ہی کہاں ہے؟“
(http://www.mkis.org/FatawasResults.asp?Id=2)
فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم عکرمہ صبری صاحب نے ۱۷ جنوری ۲۰۰۱ء کو جرمن اخبار ڈائی ویلٹ (Die Welt) کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا:
”ماضی میں اس مقام پر یہودی ہیکل کے وجود کا کوئی معمولی سا بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔ پورے شہر میں کوئی ایک پتھر بھی ایسا نہیں جو یہودی تاریخ پر دلالت کرتا ہو۔ اس کے بالمقابل ہمارا حق بالکل واضح ہے۔ یہ مقام پندرہ صدیوں سے ہمارا ہے۔ حتیٰ کہ جب صلیبیوں نے اسے فتح کیا تو بھی یہ اقصیٰ ہی رہا اور ہم نے جلد ہی اسے واپس لے لیا۔ یہودی تو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے ہیکل کا ٹھیک ٹھیک محل وقوع کیا تھا۔ اس لیے ہم اس مقام پر سطح زمین کے نیچے یا اس کے اوپر ان کا کوئی حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔“
جب ان سے کہا گیا کہ ماہرین آثار قدیمہ تو اس پر متفق ہیں کہ مغربی دیوار فی الحقیقت تباہ شدہ ہیکل ہی کی دیوار ہے تو انہوں نے جواباً فرمایا:
”دنیا کو دھوکا دینا یہودیوں کا خاص فن ہے، لیکن وہ ہمیں دھوکا نہیں دے سکتے۔ مغربی دیوار کے ایک بھی پتھر کا یہودی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہودیوں کے اس دیوار پر حق جتانے کا مذہبی یا تاریخی طور پر کوئی جواز نہیں۔ مجلس اقوام کی مقرر کردہ کمیٹی نے ۱۹۳۰ء میں یہودیوں کو یہاں دعا کرنے کی اجازت صرف ان کو مطمئن کرنے کے لیے دی، لیکن اس نے یہ ہرگز تسلیم نہیں کیا کہ اس دیوار پر ان کا کوئی حق ہے۔“
(http://www.cdn-friends-icej.ca/antiholo/mufti.html)
انہوں نے مزید فرمایا کہ:
”میں نے سنا ہے کہ تمہارا ہیکل نابلس یا غالباً بیت لحم میں تھا۔“
(Makor Rishon, May 22, 1998 - http://www.gamla.org.il/)
یریحو میں فلسطینی اتھارٹی کے ڈائریکٹر آف اسلامک وقف شیخ اسماعیل جمال فرماتے ہیں:
”اسرائیل کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الاقصیٰ کے نزدیک نہ ان کا کوئی ہیکل ہے اور نہ اس کے کوئی بچے کھچے آثار۔ قرآن مجید کی رو سے بنی اسرائیل بیت لحم کے مغرب میں کسی جگہ مقیم تھے نہ کہ یروشلم میں۔“
(Chicago Jewish Sentinel, May 18, 1995 - http://www.gamla.org.il/)
فلسطینی رہنما یا سر عرفات نے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کے ساتھ مذاکرات کے دوران میں ہیکل سلیمانی کے وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ فلسطینی اخبار ”الحياة الجديدة“، ۱۲ اگست ۲۰۰۰ء کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا:
”میں ایک مذہبی آدمی ہوں اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ میرے ذکر میں یہ بات لکھی جائے کہ میں نے اس پہاڑی کے نیچے مفروضہ ہیکل کی موجودگی کو تسلیم کر لیا۔“ (http://www.la.utexas.edu)
رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے ۷ اربیع الاول ۱۴۲۴ھ کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق:
”رابطہ کے سیکرٹری جنرل الدکتور عبداللہ بن عبد المحسن الترکی نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات کے اوپر قائم ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تاریخی دستاویزات اسرائیلیوں کے اس دعوے کے بطلان کو ثابت کرتی ہیں جس کا اعلان وہ مسجد کو گرا کر اس کی جگہ ہیکل کی تعمیر کے منصوبوں کی تکمیل کی غرض سے کرتے رہتے ہیں۔“
رابطہ عالم اسلامی کے سرکاری بیانات اور عرب اخبارات و جرائد میں لکھنے والے کم و بیش تمام اصحاب قلم کی تحریروں میں ہیکل سلیمانی کا ذکر کرتے ہوئے بالعموم ”الهيكل المزعوم“ (مفروضہ ہیکل) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ عرب میڈیا کے زیر اثر اب برصغیر کی صحافتی تحریروں میں بھی اس موقف کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے، حتی کہ دارالعلوم دیوبند جیسے موقر علمی ادارے کے ترجمان ماہنامہ ”دارالعلوم“ کے ایک حالیہ شمارے میں بھی اسی موقف کی ترجمانی کی گئی ہے۔49
حقائق و واقعات کی رو سے یہ موقف اس قابل نہیں کہ اس علمی و تاریخی بحث میں اس سے تعرض بھی کیا جائے۔ قرآن و سنت کی تصریحات، مسلمہ تاریخی حقائق، یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایات، مسلمانوں کے تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات کی روشنی میں نہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے کہ مسجد اقصیٰ در اصل ہیکل سلیمانی ہی ہے، نہ اس دلیل میں کوئی وزن ہے کہ اثریاتی تحقیق کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہو سکے اور نہ اس حسن ظن کے لیے کوئی قرینہ ہے کہ مذکورہ موقف کے وکلاء شاید حقائق سے بے خبر ہیں یا کوئی غلط فہمی انہیں لاحق ہو گئی ہے۔ خود فلسطین کے مسلم رہنما اسرائیل کے وجود میں آنے اور بیت المقدس پر صہیونی قبضے سے قبل تک ان تاریخی حقائق کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور انہیں جھٹلانے کی جسارت انہوں نے بھی نہیں کی، چنانچہ یروشلم پوسٹ کے ۲۶ جنوری ۲۰۰۰ء کے شمارے میں یروشلم کی سپریم مسلم کونسل کی ۱۹۳۰ء میں شائع کردہ ایک ٹورسٹ گائیڈ سے چند اقتباسات نقل کیے گئے ہیں، جن میں سے دو حسب ذیل ہیں:
”یہ مقام دنیا کے قدیم ترین مقامات میں سے ہے۔ اس کے ہیکل سلیمانی ہونے میں اختلاف کی کوئی گنجایش نہیں اور جیسا کہ عالمی سطح پر مانا جاتا ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت داؤد نے خدا کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور سوختنی اور امن کی قربانیاں پیش کیں۔“
”سلیمان کے اصطبل“ کے بارے میں اس کتا بچہ میں لکھا ہے:
”اس کمرے کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں یقینی طور پر کچھ معلوم نہیں۔ غالباً اس کی تاریخ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے معاصر ہے ... مورخ یوسفس کے مطابق ۷۰ عیسوی میں طیطس کے فتح یروشلم کے وقت یہ موجود تھے اور یہودیوں نے اسے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا۔“
دسمبر ۱۹۳۰ ءہی میں برطانوی ہائی کمیشن کے سامنے دیوار گریہ کے حوالے سے مسلم نمائندوں نے جو بیان دیا، اس میں کہا گیا:
”جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم یروشلم میں تشریف لائے تو قدیم ہیکل کے مقام کو، جو کہ پہلے ہی مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز تھا، مسجد حرام کے مقابلے میں مسجد اقصیٰ کا نام دیا گیا۔ اس وقت مکہ کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے، چنانچہ یروشلم اور بالخصوص ہیکل کا احاطہ ایک مخصوص عرصے کے لیے مسلمانوں کا پہلا قبلہ قرار پایا۔“
(http://domino.un.org/unispal.nsf)
یہ نکتہ اب اہل علم کے لیے ایک کھلے سوال کی حیثیت رکھتا ہے کہ عالم عرب کا یہ کم و بیش اجماعی موقف، جس کو متعدد اکابر علمائے دین و مفتیان شرع متین کی تائید و نصرت حاصل ہے اور جس کو مسلم اور عرب میڈیا تسلسل کے ساتھ دہرارہا ہے، کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟
۲۔ مقامات مقدسہ کی شرعی پوزیشن
مسجد اقصیٰ کی فضیلت اور اس کے مقام و مرتبہ کے متعلق قرآن و حدیث میں متعدد بیانات موجود ہیں، جن میں سے بنیادی نوعیت کے نصوص کا ذکر سطور بالا میں کیا جا چکا ہے۔ لیکن مسجد اقصیٰ اور اس سے متعلق بعض مقامات کو مسلمانوں کے ”مقدس“ مقامات ثابت کرنے اور عامۃ المسلمین میں اس حوالے سے جذباتی فضا پیدا کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کی سطح پر ایسے بہت سے تصورات کو بھی بلا تمیز فروغ دیا جا رہا ہے جو علمی لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہیں اور اکابر اہل علم نے ان کی واضح طور پر تردید کی ہے۔ اس ضمن میں یہاں چند تصریحات کو نقل کر دینا مناسب ہوگا:
ا۔ عرب دنیا کے اخبارات و جرائد بالالتزام مسجد اقصیٰ کا ذکر ” الحرم الشریف“ اور ”ثالث الحرمین“ کے القاب سے کرتے ہیں۔ ”حرم“ کا لفظ شریعت کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے ایسا علاقہ جس کی حرمت و تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے اندر بعض مخصوص پابندیاں عائد کر دی جائیں۔ مسجد اقصیٰ کا روئے زمین کی تیسری افضل ترین مسجد ہونا تو قابل اعتماد روایات سے ثابت ہے، لیکن اس کے ”حرم“ ہونے کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”بیت المقدس میں ایسا کوئی مکان یا مقام نہیں جس کا نام حرم ہو اور نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر اور نہ اس کے علاوہ کوئی اور مقام ہے جسے حرم کے نام سے موسوم کیا گیا ہو۔ صرف تین مقامات کے متعلق حرم کا لفظ استعمال ہوا ہے:
ا۔ حرم مکہ زادہ اللہ عزا و شرفا۔ اس کے حرم ہونے پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔
۲۔ حرم نبوی۔ جمہور علماء کے نزدیک حرم نبوی عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک ہے۔ اس کی حد تقریباً برید در برید ہے۔ جمہور علماء جیسے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک یہ حرم ہے۔ اس سلسلے میں کئی مشہور حدیثیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔
۳۔ وج، طائف کے علاقے میں ایک وادی کا نام ہے۔ اس کے متعلق ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے جو احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں بیان کی ہے، لیکن کتب صحاح میں مذکور نہیں اور اکثر علماء کے نزدیک یہ حرم نہیں۔ امام احمد نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، چنانچہ اس حدیث سے کسی نے حجت نہیں پکڑی۔
مذکورہ بالا تینوں مقامات کے ما سوا کوئی جگہ حرم نہیں۔ تمام علمائے امت اس مسئلہ میں متفق ہیں، کیونکہ حرم وہ ہوتا ہے جس جگہ شکار کرنا یا نباتات کو کاٹنا یا اکھاڑ نا اللہ نے حرام قرار دیا ہو، لیکن مذکورہ تینوں مقامات کے سوا اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ شکار کرنا یا نباتات کو اکھاڑ نا حرام قرار نہیں دیا۔“ (بحوالہ ماہنامہ ترجمان الحدیث، اپریل ۱۹۸۱ء، ۲۶)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
”دنیا میں کوئی حرم نہیں ہے، بیت المقدس نہ کوئی اور سوائے ان دو حرموں ( مکہ اور مدینہ ) کے۔ ان کے علاوہ کسی جگہ کو حرم کہنا، جیسا کہ کئی جاہل لوگ حرم القدس اور حرم الخلیل کہتے ہیں، بالکل غلط ہے کیونکہ یہ دونوں اور ان کے علاوہ کوئی اور جگہ حرم نہیں ہے۔ اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اور وہ حرم جس کے حرم ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے، وہ حرم مکہ ہے۔ رہا مدینہ تو جمہور علماء کے نزدیک اس کا بھی ایک حرم ہے جیسا کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور احادیث موجود ہیں۔“ (مجموع الفتاویٰ ۲۶/ ۱۱۷)
عبداللہ بن ہشام انصاری فرماتے ہیں:
”میں نے اس شہر (بیت المقدس) کے رہایشیوں میں سے بڑے بڑے لوگوں سے سنا ہے کہ وہ ”حرم قدس“ کا لفظ بولتے ہیں۔ وہ اس چیز کو حرام قرار دیتے ہیں جسے اللہ نے حلال کہا ہے اور ایسا کہہ کروہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔“) تحصیل الانس لزائر القدس بحوالہ ”فضیلت بیت المقدس اور فلسطین و شام“ ۴۳)
سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے اپنے فتویٰ نمبر ۵۳۸۷ میں لکھا ہے:
”ہمارے علم میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ پتا چلے کہ مسجد اقصیٰ بھی مسجد حرام اور مسجد نبوی کی طرح حرم ہے۔“ (فتاوی اللجنۃ الدائمہ ۶ /۲۲۷بحوالہ بالا)
۲۔ قبہ الصخرہ ہیکل سلیمانی کی چٹان یعنی قربانی کے پتھر کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پتھر کو یہود کے قبلہ کی حیثیت حاصل ہے، لیکن اسلامی روایات میں اس کے لیے کوئی تقدس اور فضیلت ثابت نہیں۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق سیدنا عمر جب مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے تو انہوں نے نومسلم یہودی عالم کعب احبار سے پوچھا کہ ہمیں نماز کے لیے کون سی جگہ منتخب کرنی چاہیے؟ کعب نے کہا کہ اگر آپ صخرہ کے پیچھے نماز پڑھیں تو سارا بیت المقدس آپ کے سامنے ہوگا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح یہود کے قبلے کی تعظیم بھی ہو جائے گی۔ اس پر سید نا عمر نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کردی کہ : ضاهيت اليهودیۃ یعنی ”تمہارے ذہن پر ابھی تک یہودی اثرات موجود ہیں۔“50
اس پتھر کی تعظیم کا تصور بعد کے زمانے میں سیاسی اغراض کے تحت با قاعدہ پیدا کیا گیا اور اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اس پر ایک نہایت شان دار قبہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ ولید کے اس اقدام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ابن خلکان لکھتے ہیں:
” جب عبد الملک خلیفہ بنا تو اس نے ابن زبیر کی وجہ سے اہل شام کو حج کرنے سے روک دیا، کیونکہ ابن زبیر حج کی غرض سے مکہ مکرمہ آنے والے لوگوں سے اپنے لیے بیعت لیتے تھے۔ جب لوگوں کو حج سے روکا گیا تو انہوں نے بہت شور کیا۔ چنانچہ عبد الملک نے بیت المقدس میں صخرہ کے اوپر عمارت بنادی اور لوگ عرفہ کے دن یہاں حاضر ہو کر وقوف کی رسم ادا کرنے لگے۔“ (وفیات الاعیان۳/ ۷۲)
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
”صخرہ کے پاس حضرت عمر نے نماز پڑھی نہ صحابۂ کرام نے۔ نیز خلفائے راشدین کے زمانہ میں اس پر کوئی گنبد نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت معاویہ، یزید اور مروان کے عہد حکومت میں ننگا تھا۔ پھر جب عبد الملک بن مروان نے ملک شام کو فتح کیا اور اس کے اور ابن زبیر کے مابین اختلاف کی خلیج بڑھ گئی تو لوگ حج کر کے حضرت عبد اللہ بن زبیر کے پاس اکٹھے ہو جاتے تھے۔ یہ بات عبد الملک کو ناگوار گزری۔ اس نے چاہا کہ لوگوں کو ابن زبیر کے پاس جانے سے روکا جائے۔ چنانچہ اس نے صخرہ پر ایک قبہ بنا دیا اور سردی گرمی میں اس پر غلاف دینے کا رواج شروع کیا تا کہ لوگوں کے دلوں میں بیت المقدس کی زیارت کا شوق پیدا ہو اور ابن زبیر کے پاس جمع ہونے سے ہٹ جائیں۔ صحابۂ کرام اور تابعین میں اہل علم اس صخرہ کی تعظیم نہیں کرتے تھے۔“ (بحوالہ ماہنامہ ترجمان الحدیث، اپریل ۱۹۸۱ء، ۲۳)
سیاسی اغراض کے تحت کیے جانے والے اس اقدام کو مذہبی استناد عطا کرنے کے لیے رفتہ رفتہ قبۃ الصخرۃ کے تقدس اور فضیلت کے متعلق اوہام و خرافات (Myths) کا ایک مجموعہ وجود میں آ گیا جن کی تردید اکابر اہل علم مسلسل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عوام الناس میں پھیلے ہوئے ان بے بنیاد اوہام اور ان کے متعلق اہل علم کی آرا کو حافظ محمد اسحٰق زاہد نے ذیل کے اقتباس میں بہت خوبی کے ساتھ جمع کر دیا ہے:
”یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قبۃ الصخرۃ کی الگ کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اگر کوئی فضیلت ہے تو وہ محض اس کے مسجد اقصیٰ کے اندر واقع ہونے کی وجہ سے ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کے متعلق بے بنیاد باتیں پھیلا رکھی ہیں، مثلاً یہ کہ:
ا۔ اس کے اوپر ایک موتی رات کے وقت سورج کی طرح چمکتا تھا، پھر بخت نصر نے اسے خراب کر دیا تھا۔
۲۔ یہ جنت کے پتھروں میں سے ایک ہے۔
۳۔ زمین کے تمام پانی اسی قبۃ الصخرۃ کے نیچے سے جاری ہوتے ہیں۔
۴۔ یہ قبہ فضا میں لٹکا ہوا ہے، زمین سے جڑا ہوا نہیں۔
۵۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں اور فرشتوں کی انگلیوں کے نشانات ہیں۔
۶۔ یہ اللہ کا زمینی عرش ہے اور خطۂ زمین کے عین وسط میں واقع ہے۔
۷۔ اسی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے لیے آسمانوں کی طرف لے جایا گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو یہ بھی اوپر اٹھ گیا تھا، لیکن جبریل علیہ السلام نے اسے ٹھہر جانے کا حکم دیا تو یہ ٹھہر گیا۔
۸۔ قبۃ الصخرۃ کی مسجد اقصیٰ میں وہی فضیلت ہے جو کہ خانۂ کعبہ میں جڑے ہوئے حجر اسود کی ہے۔‘‘
قبۃ الصخرۃ کے بارے میں یہ اور اس طرح کی دیگر خرافات زبان زد عام ہیں، جن کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ صخرہ کے متعلق تمام احادیث کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكل حديث فی الصخرة فهو كذب مفترى والقدم الذی فیھا كذب موضوع مما عملتہ ايدى المزورين الذين يروجون لها ليكثر سواد الزائرين۔ (المنار المنيف، ۸۷)
”صخرہ کے متعلق تمام احادیث جھوٹی اور من گھڑت ہیں اور اس میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے) قدموں کے جو نشانات بتائے جاتے ہیں، وہ بھی جھوٹے ہیں اور جھوٹے لوگوں کی طرف سے بنائے گئے ہیں، اور وہی انہیں مشہور بھی کرتے ہیں تاکہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو۔“
اور عبداللہ بن ہشام انصاری رقم طراز ہیں:
قد بلغنى ان قوما من الجهلاء يجتمعون يوم عرفۃ بالمسجد، وان منهم من يطوف بالصخرة، وانهم ينفرون عند غروب الشمس و کل ذلک ضلال واضغاث احلام (تحصیل الانس لزائر القدس، ح: ۶۴)
”میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ عرفہ کے روز کچھ جاہل لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوتے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگ صخرہ کا طواف کرتے ہیں، اور غروب آفتاب کے وقت واپس چلے جاتے ہیں، حالانکہ یہ محض گمراہی اور اڑتے پھرتے پراگندہ خیالات ہیں۔“
اور شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
الفضیلۃ للمسجد الاقصى وليست للصخرة، وما ذكر فيها لا قيمۃ لہ من الناحیۃ العلمیۃ۔
”فضیلت صرف مسجد اقصیٰ کی ہے، صخرہ کی نہیں۔ اور اس کے متعلق جو کچھ ذکر کیا جاتا ہے، اس کی علمی طور پر کوئی قیمت نہیں ہے۔“
اور سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے بھی لکھا ہے:
وليست صخرة بيت المقدس معلقۃ فی الفضاء وحولها هواء من جميع نواحيها بل لا تزال متصلۃ من جانب بالجبل التی هی جزء منہ متماسكۃ معہ۔ (فتاوى اللجنۃ الدائمہ : ۱/ ۲۶)
”بیت المقدس کا صخرہ فضا میں لٹکا ہوا ہر گز نہیں کہ اس کے اردگرد چاروں طرف ہوا ہی ہو، بلکہ وہ چٹان کے ساتھ ملا ہوا ہے جس کا وہ ایک حصہ ہے۔““ (فضیلت بیت المقدس اور فلسطین و شام، ۵۴۔ ۵۶)
۳۔ مسجد اقصیٰ کی تاریخ کے تحت ہم بتا چکے ہیں کہ ۷۰ء میں ہیکل سلیمانی کی تباہی میں اس کی صرف مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی۔ اس مذہبی و تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس دیوار کو یہود کے ہاں ایک مقدس و متبرک مقام کی حیثیت حاصل ہو گئی اور اس دیوار کی زیارت کے لیے آنے اور اس کے پاس دعا و مناجات اور گریہ وزاری نے رفتہ رفتہ ان کے ہاں ایک مذہبی رسم کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ حقیقت تاریخی لحاظ سے بالکل مسلم ہے اور مسلمانوں کے ادوار حکومت میں بھی یہودیوں کے اس حق کو بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ تا ہم انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں فلسطین میں بڑھتے ہوئے صہیونی اثر و نفوذ کے باعث یہودیوں نے سابقہ روایت سے ہٹ کر دیوار گریہ کے پاس اپنے مذہبی معمولات میں اضافہ کرنے اور اس پر قانونی ملکیت کا حق جتانے کی کوشش کی تو مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین تنازعات پیدا ہونے لگے۔ ہم یہاں اس تنازع کے قانونی اور تاریخی پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے محض اس دعوے کی اخلاقی حیثیت کو واضح کرنا چاہتے ہیں جس کو دہرانے میں مسلم میڈیا اور عرب سیاسی و مذہبی راہ نما یک زبان ہیں، یعنی یہ کہ مغربی دیوار دراصل وہ مقام ہے جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کے موقع پر اپنی سواری کے جانور ”براق“ کو باندھا تھا، اس لیے یہ مسلمانوں کا ایک مقدس مقام ہے نہ کہ یہود کا۔ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ صبری نے ۲۴ مارچ کو اطالوی اخبار La Republica کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
”بات بالکل صاف ہے : دیوار گریہ یہودیوں کا مقدس مقام نہیں ہے، یہ تو مسجد کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہم اس کو دیوار براق کہتے ہیں، جو اس گھوڑے کا نام ہے جس پر سوار ہو کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم یروشلم سے آسمان پر تشریف لے گئے۔“ (http://www.worldnetdaily.com)
”کل العرب“ میں ۱۸ اگست ۲۰۰۰ء کو شائع ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا:
”دیوار براق کے کسی ایک پتھر کا بھی یہودیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہودیوں نے اس دیوار کے پاس انیسویں صدی میں دعا مانگنا شروع کی جب ان کے دلوں میں کئی آرزوئیں پروان چڑھنا شروع ہو گئی تھیں۔“ (http://www.gamla.org.il)
۱۰ اکتوبر کو وائس آف فلسطین پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں یاسر عرفات نے کہا:
”اس دیوار کا نام مقدس دیوار براق ہے نہ کہ دیوار گریہ۔ ہم اس کو دیوار گر یہ نہیں کہتے۔ ۱۹۲۹ء میں اس مسئلے پر ہونے والے ہنگاموں کے بعد شاکمیشن (Shaw Commission) نے قرار دیا کہ یہ مسلمانوں کی ایک مقدس دیوار ہے۔“ (http://www.worldnetdaily.com)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براق کو باندھنے کا ذکر واقعۂ اسرا کی روایات میں موجود ہے،51 لیکن اس جگہ کی تعیین کا نہ کوئی قرینہ ہے اور نہ مستند مسلم مورخین نے اس کی کوئی کوشش کی ہے۔ خود عہد صحابہ میں اس ضمن میں اختلاف موجود تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براق کو باندھا بھی یا نہیں۔ سید نا حذیفہ کی رائے یہ تھی کہ:
”لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے اس جانور کو باندھ دیا۔ کیوں؟ کیا آپ کو یہ خدشہ تھا کہ وہ بھاگ جائے گا؟ اسے تو عالم الغیب و الشہادۃ نے آپ کے لیے مسخر کیا تھا۔“ ) ترمذی، رقم ۳۱۴۷۔ مسند احمد، رقم ۲۲۲۴۳)
بہت بعد میں جب مسجد اقصیٰ کے حوالے سے طرح طرح کے اوہام و تخیلات رواج پانا شروع ہوئے تو اس تناظر میں اس کے مختلف مقامات کی تعیین اور ان کے بارے میں تقدس کے تصورات پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ یہ سلسلہ تا حال جاری ہے اور دیوار گریہ کو ”دیوار براق“ قرار دینے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بیسویں صدی سے قبل اس بنیاد پر اس دیوار کے تقدس کا کوئی تصور مسلمانوں کے ہاں نہیں پایا جاتا تھا کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براق کو باندھا تھا، بلکہ سولہویں صدی عیسوی کے عثمانی خلیفہ سلطان سلیم کے بارے میں ثابت ہے کہ اس کے دور سے پہلے ”دیوار گریہ“ ملبے اور کوڑے کرکٹ میں دبی ہوئی تھی اور اس کا کوئی نشان تک لوگوں کو معلوم نہ تھا۔ سلطان سلیم کو اتفاقاً اس کے وجود کا علم ہوا تو اس نے اس جگہ کو صاف کرا کے یہودیوں کو اس کی زیارت کی اجازت عطا کی۔52
۱۹۳۰ء میں برطانوی شاہی کمیشن کے سامنے جب فریقین نے اپنا اپنا موقف پیش کیا تو دیوار براق کے حوالے سے یہودیوں نے یہ الزام عائد کیا کہ:
”ہیکل میں داخل ہونے کے لیے محمد نے کون سا راستہ اختیار کیا، اس کا تعین کبھی نہیں کیا جا سکا اور یہ صرف حالیہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمانوں نے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا ہے کہ پیغمبر یہاں سے گزرے تھے اور انہوں نے اپنے پروں والے خچر کو اس دیوار میں لوہے کے ایک حلقے کے ساتھ باندھ دیا تھا جو اب مسجد براق کا ایک حصہ ہے۔ نیز حالیہ سالوں تک مسلمان اس دیوار کو دیوار براق بھی نہیں کہتے تھے۔ مسلم اہل حل و عقد نے ۱۹۱۴ء میں حرم کی جو سرکاری گائیڈ شائع کی، اس میں اس دیوار کے کسی خاص تقدس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔“
اس کے جواب میں مسلم نمائندے کوئی دلیل دینے کے بجائے صرف یہ دعویٰ دہرا کر رہ گئے کہ:
”اس دیوار اور اس کے سامنے موجود گزرگاہ کے تقدس کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ سفر معراج کے موقع پر پیغمبر اسلام کا پروں والا خچر ”براق“ یہاں آیا تھا اور اس کو حرم کی مغربی دیوار کے ساتھ باندھا گیا تھا۔“ (http://domino.un.org/unispal.nsf)
مذکورہ بالا تمام امور کے حوالے سے امت مسلمہ کی پوزیشن علمی و اخلاقی لحاظ سے نا قابل فہم ہے۔
خلاصہ بحث
ماسبق میں مسجد اقصیٰ کی تولیت و تصرف کے حق کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کی تنقید و تنقیح پر مبنی جو بحث ہم نے کی ہے، اس کا حاصل اہم نکات کی صورت میں درج ذیل ہے:
ا۔ قرآن مجید مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ ساتھ اہل کتاب کی عبادت گاہوں کو بھی اللہ کی یاد کے لیے بنائے گئے گھر تسلیم کرتا اور ان کے احترام و تقدس کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کو علاوہ بریں یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ اس کی تعمیر ایک جلیل القدر پیغمبر کے ہاتھوں ہوئی اور اسے بنی اسرائیل کے سیکڑوں انبیائے کرام کے دعوتی و تبلیغی مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ اسلام چونکہ تمام انبیاء کو ایک ہی سلسلۂ رشد و ہدایت سے منسلک مانتا، سب کی یکساں تعظیم و تکریم کی تعلیم دیتا اور سب کے آثار و باقیات کے احترام کی تلقین کرتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کا شمار روئے زمین کی تین افضل ترین مساجد میں کیا اور مسلمانوں کے لیے اس میں نماز پڑھنے کے لیے باقاعدہ سفر کر کے جانے کو مشروع قرار دیا۔
۲۔ فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں نے اس نہایت مقدس اور فضیلت والی عبادت گاہ کو، جو صدیوں سے ویران پڑی ہوئی تھی، آباد اور تعمیر کیا۔ قرآن و سنت کی اصولی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے اس اقدام کی نوعیت خالصتاً احترام و تقدیس اور تکریم و تعظیم کی تھی نہ کہ استحقاق اور استیثار کی۔ اس کی تولیت کی ذمہ داری انہوں نے یہود کو اس سے بے دخل کر کے اس پر اپنا حق جتانے کے تصور کے تحت نہیں، بلکہ ان کی غیر موجودگی میں محض امانتاً اٹھائی تھی۔ لیکن چونکہ اس سارے عرصے میں یہود کے نزدیک نہ مذہبی لحاظ سے ہیکل کی تعمیر نو کی شرائط پوری ہوتی تھیں اور نہ وہ سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں تھے کہ اس کا مطالبہ یا کوشش کریں، اس لیے کم و بیش تیرہ صدیوں تک جاری رہنے والے اس تسلسل نے غیر محسوس طریقے سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی اور اس پر استحقاق کا ایک ایسا تصور پیدا کر دیا جس کے نتیجے میں معاملے کا اصل پس منظر اور اس کی صحیح نوعیت نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔
۳۔ گزشتہ صدی میں جب یہود کے مذہبی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ با قاعدہ صورت میں سامنے آیا تو وہ صہیونی تحریک کے سیاسی عزائم کے جلو میں آیا۔ امت مسلمہ کی اخلاقی ذمہ داری بلاشبہ یہ تھی کہ وہ سیاسی کشاکش سے بالا تر ہو کر اس مطالبے کو اس کے صحیح شرعی و مذہبی تناظر میں دیکھتی اور اسلام کی اصولی تعلیمات کی روشنی میں اس معاملے کا فیصلہ عدل وانصاف کے ساتھ بالکل بے لاگ طریقے سے کرتی۔ اہل کتاب اور ان کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلام کی اصل تعلیم رواداری اور مسامحت کی ہے۔ مرکز عبادت اور قبلہ کی حیثیت رکھنے والے مقام کے احترام اور اس کے ساتھ وابستگی کی جو کیفیت مذاہب عالم کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اسی طرح یہود کی شریعت میں ہیکل کے مقام و حیثیت، اس کی تباہی و بربادی پر ان کے دلوں میں ذلت و رسوائی کے احساسات اور اس کی بازیابی کے حوالے سے ان کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے مذہبی جذبات بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔ یہ ایک نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ ہے اور خود قرآن مجید یہود سے ان کے اس مرکز عبادت کے چھن جانے کی وجہ ان کے اخلاقی جرائم کو قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس امکان کو بھی صراحتاً تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اور ان کی آزمایش کے لیے اس مرکز کو دوبارہ ان کے تصرف میں دے دے۔
۴۔ اس معاملے میں امت مسلمہ کے موقف اور رویے کا جس قدر بھی تجزیہ کیجیے، یہی بات نکھرتی چلی جاتی ہے کہ وہ ”استحقاق“ کی نفسیات سے مغلوب ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کی ”امانت“ کو ایک مستقل مذہبی حق قرار دینے اور یہود کو اس سے قطعاً لا تعلق ثابت کرنے کے لیے علمی سطح پر انحرافات کا ایک سلسلہ وجود میں آچکا ہے۔ ایک گروہ نے سرے سے مسجد اقصیٰ کی مسلم اور متواتر تاریخ کو ہی جھٹلا دیا۔ دوسرے گروہ نے تکوینی اور واقعاتی طور پر امت مسلمہ کو ملنے والے حق تولیت کو ایک ابدی اور نا قابل تبدیلی شرعی حق کا رنگ دینے کی کوشش کی۔ جبکہ تیسرے گروہ نے تیرہ صدیوں کے واقعاتی تسلسل کو ہی حتمی اور فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں دیگر قابل لحاظ امور کے ساتھ ساتھ مذہبی اخلاقیات اور قرآن و سنت کی اصولی تعلیمات کو بھی کوئی وزن دینے سے انکار کر دیا۔ ان علمی انحرافات کے نتیجے میں آج جذبات کی شدت اور احساسات کے تناؤ کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص اس مسئلے کی غیر جانبدارانہ علمی تحقیق کرنے کے لیے تیار نہیں۔
۵۔ اس صورت حال سے واضح ہے کہ مسجد اقصیٰ کا معاملہ امت مسلمہ کے لیے بھی اسی طرح ایک اخلاقی آزمایش (Test Case) کی حیثیت رکھتا ہے جس طرح کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے تھا، اور افسوس ہے کہ اس آزمایش میں ہمارا رویہ بھی حذ والنعل بالنعل اپنے پیش روؤں کے طرز عمل ہی کے مماثل ہے۔ ارض فلسطین پر حق کا مسئلہ موجودہ تناظر میں اصلاً ایک سیاسی مسئلہ تھا، اس لیے اس کی وضع موجود میں یہود کے پیدا کردہ تغیر حالات پر اگر عرب اقوام اور امت مسلمہ میں مخالفانہ ردعمل پیدا ہوا تو وہ ایک قابل فہم اور فطری بات تھی، لیکن ہیکل کی بازیابی اور تعمیر نو کے ایک مقدس مذہبی جذبے کو ”مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پامالی کی یہودی سازش“ کا عنوان دے کر ایک طعنہ اور الزام بنا دینا، مسجد اقصیٰ پر یہود کے تاریخی و مذہبی حق کی مطلقاً نفی کر دینا اور، اس سے بڑھ کر، ان کو اس میں عبادت تک کی اجازت نہ دینا ہر گز کوئی ایسا طرز عمل نہیں ہے جو کسی طرح بھی قرین انصاف اور اس امت کے شایان شان ہو جس کو ”قوامین لله شهداء بالقسط“ کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس امت کو اپنا فرض منصبی پہچاننے، اس کے تقاضوں کو بے کم و کاست پورا کرنے اور اس باب کے تمام انحرافات سے رجوع کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
اللهم اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين۔ آمین
حواشی
- خروج باب ۲۵۔ ۳۱۔
- خروج ۲۰:۴۰۔
- ۲۔ سموئیل ۵۔ ۷۔
- تواریخ ۲۱:۱: ۲۵۔
- تواریخ ۱:۳:۲۔
- تواریخ ۲۲:۱، ۱۱:۲۸۔ ۲۱۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد حرام۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ انہوں نے دوبارہ سوال کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے مابین کتنا عرصہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال۔ (بخاری، رقم ۳۴۲۵)
اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ تاریخ سے مسلمات کی رو سے مسجد اقصی کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی اور ان کے اور سیدنا ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے مابین، جو مسجد حرام کے معمار تھے، کئی صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ روایت میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان صرف چالیس سال کا فاصلہ بتایا گیا ہے۔
علمائے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصی کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی اور مذکورہ روایت میں اسی کا ذکر ہے، جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے صدیوں بعد اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا۔ اس لحاظ سے ان کی حیثیت ہیکل کے اولین بانی اور موسس کی نہیں، بلکہ تجدید کنندہ کی ہے۔ (ابن قیم : زاد المعاد، ۱/ ۵۰۔ ابن حجر : فتح الباری، ۶/۴۹۵۔ ابن کثیر: قصص الانبیاء، ۱۵۵) - سبا: ۱۳۔
- تواریخ ۱:۲۲:۱۔
- تواریخ ۱۹:۲۲:۱۔
- سلاطین ۱: ۲۲:۸۔ ۵۳۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حضرت سلیمان علیہ السلام جب بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے دعا کی کہ جو شخص بھی مسجد اقصیٰ میں خالصتاً نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے، وہ یہاں سے اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر جائے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرما لی ہوگی۔“ (نسائی، رقم ۶۹۴۔ ابن ماجہ، رقم ۱۴۰۸) - تواریخ ۱۱:۳۶:۲۔ ۲۱۔ یرمیاہ ۱۲:۵۲۔ ۱۴۔
- عزرا: ۱۔
- مکابیوں ۱:۱: ۲۰۔ ۲۴۔
- مکابیوں ۳۶:۴:۱۔ ۴۸۔
- ہیکل سلیمانی کی ان دو مشہور و معروف بربادیوں کا تذکرہ قرآن مجید نے بھی سورۂ بنی اسرائیل میں کیا ہے:
”اور ہم نے تو رات میں بنی اسرائیل سے صاف کہہ دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی پر اتر آؤ گے۔ پس جب ان میں سے پہلا موقع آیا تو ہم نے تم پر اپنے نہایت سخت گیر اور طاقت ور بندوں کو مسلط کر دیا جو تمہارے گھروں کے اندر گھس آئے، اور یہ وعدہ پورا ہو کر رہنا تھا۔ پھر ہم نے ان کے خلاف تمہیں بالا دستی کا موقع دیا اور مال و اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں خوب جتھے والا بنا دیا۔ اگر تم نے بھلائی کا رویہ اختیار کیا تو اپنے ہی فائدے کے لیے، اور اگر بدچلن ہو گئے تو اپنا ہی نقصان کیا۔ پھر جب دوسرا موقع آیا (تو اسی طرح دشمنوں کو تم پر مسلط کیا جو تم پر چڑھ آئے) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ کر رکھ دیں اور اسی طرح مسجد میں گھس جائیں جس طرح پہلی مرتبہ گھسے تھے اور جو چیز ان کے ہاتھ لگے، اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیں۔ توقع ہے کہ تمہارا رب تم پر پھر رحم کرے گا۔ لیکن اگر تم نے دوبارہ یہی رویہ اپنایا تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ “ (بنی اسرائیل) - مسجد اقصی کی تاریخ سے متعلق ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو: ممتاز لیاقت: ”تاریخ بیت المقدس“، منشی عبد القدیر: ”بیت المقدس“، انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، مقالہ جات Solomon's Temple, Wailing Wall۔
- شبلی نعمانی: سیرت النبی، ۱/ ۳۳۸۔
- ابن كثير : السيرة النبويہ ۴/۷۰۔
- شبلی نعمانی: سیرت النبی، ۱/۳۳۹۔
- مستدرک حاکم، ۴ /۵۰۹۔
- سنن النسائی، رقم ۶۹۴۔
- سنن ابن ماجہ، رقم ۱۴۰۸۔
- سنن ابن ماجہ، ۴۰۴۲۔ مسند احمد، روایات معاذ۔
- مسند احمد، بحوالہ نیل الاوطار، ۸/۷۳۔
- مصنف ابن ابی شیبہ، ۲/۳۷۳، ۳۷۴ ۔
- یہ محض سیاسی نوعیت کی ایک وقتی شرط تھی، چنانچہ بعد کے زمانے میں جب حالات میں تبدیلی پیدا ہوئی تو مسلمانوں کے اہل حل و عقد نے بھی رفتہ رفتہ اس شہر میں یہودیوں کو قیام کی اجازت دے دی اور اہل علم نے بھی اس پر کوئی نکتۂ اعتراض نہیں اٹھایا۔
- مسند احمد، ۱/ ۳۸۔
- مصنف عبدالرزاق، ۶/ ۵۱۔
- ردالمحتار، کتاب الزكاة، باب العاشر فی الزکاۃ، ۲ / ۳۱۳۔ کتاب الجہاد، باب المستامن، فصل فی استئمان الکافر، ۴/۱۶۹۔
- ابن العربی: احکام القرآن ۲/۴۷۰۔
- ابوبکر الجصاص : احکام القرآن ۳/۱۳۱۔
- ابن الہمام: فتح القدیر ۱۰ /۶۳۔
- السرخسی : شرح السیر الکبیر، ۱/۱۳۵۔
- محمد بن احمد الشربينی الخطيب: مغنی المحتاج ۳/، کتاب الوقف۔ الشرح الكبير، ۴/۷۸، ۷۹، باب فی احکام الوقف۔ ابن قدامۃ: المغنی، ۶/۱۲۲، مسئلہ ۴۷۳۰۔ کشاف القناع عن متن الاقناع، ۴/۳۶۴۔
- ابن کثیر :تفسیر القرآن العظیم ۳/۳۴۔ البدایہ والنہایہ، ۳/۱۰۹، ۱۱۱۔
- رازی: مفاتیح الغیب، ۴/۱۱۵۔ ابن العربی : احکام القرآن، ۱ /۶۰۔
- آل عمران:۶۴۔
- برأة: ۵۔
- برأة:٢٩۔
- المائده:۵۔
- حافظ ابن کثیر نے اس کی تفصیل یوں نقل کی ہے:
”قریش اور بنو کنانہ نے نخلہ کے مقام پر عزیٰ کی عبادت گاہ قائم کر رکھی تھی اور اس کی تولیت و دربانی کی ذمہ داری بنو ہاشم کے حلیف قبیلہ سلیم کے خاندان بنو شیبان کے پاس تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو بھیج کراس کو منہدم کرا دیا۔
بنو ثقیف نے طائف میں لات کی عبادت گاہ بنا رکھی تھی اور اس کے متولی اور خادم بنو معتب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ بن شعبہ اور ابو سفیان صخر بن حرب کو بھیجا جنہوں نے اس کو گرا کر یہاں ایک مسجد بنادی۔
اوس اور خزرج اور یثرب کے دیگر قبائل نے قدید کے علاقے میں منات کی عبادت گاہ بنا رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ابو سفیان صخر بن حرب کو، اور ایک قول کے مطابق علی بن ابی طالب کو بھیج کر اس کو گرا دیا۔ (واقدی کی روایت کے مطابق اس کو سعد بن زید الاشہلی نے گرایا تھا)
قبیلہ دوس خثعم، بجیلہ اور تبالہ کے علاقے میں دیگر اہل عرب نے ذو الخلصۃ کی عبادت گاہ قائم کر رکھی تھی جس کو وہ کعبہ یمانیہ کے نام سے پکارتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جریر بن عبداللہ الجبلی کو بھیج کر اس کو منہدم کرا دیا۔
سلمیٰ اور آجا کے مابین جبل طے کے قریب قبیلہ طے اور ان کے قریبی قبائل نے قلس کی عبادت گاہ بنا رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو یہاں بھیج کر اس کو گرا دیا۔
رباط کے مقام پر قبیلہ ہذیل کی سواع کے نام پر قائم کردہ عبادت گاہ کو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے منہدم کیا۔“ (السيرة النبويۃ، ۳/۷۱۱۔ تفسیر القرآن العظیم، ۴/۲۵۳، ۲۵۴) - برأت: ۵۹۔
- بخاری، باب الصلاۃ فی البیعۃ۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ۲/ ۷۹۔ نیل الاوطار، ۲/ ۱۶۲۔ المجموع شرح المہذب، ۳/۱۶۴۔ فقہ السنۃ، ۱/۲۱۵۔
- ابن ہشام : السيرة النبویہ، ۴/۱۰۸۔ شبلی نعمانی : سیرت النبی، ۲/۲۴۔
- مثلاً دیکھیے : معاہدۂ دمشق (ابن عساکر، تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، ۱/۱۴۹۔ الاموال لابی عبید ص ۲۰۷) معاہدۂ طفلیس (الاموال ص ۲۰۸، ۲۰۹) معاہدۂ حلب ( تاریخ ابن خلدون اردو، ۱/ ۳۳۴) معاہدۂ لدو فلسطین ( تاریخ طبری ۳/۶۰۹) وغیرہ۔
- محمد حسین ہیکل : حضرت عمر، مترجم : حبیب اشعر، ۳۰۱، ۳۰۲۔
- بلاذری: فتوح البلدان اردو، ۱/۱۹۱۔ ولید بن عبد الملک نے اپنے زمانے میں جبراً عیسائیوں کے حصے کو بھی مسجد میں شامل کر لیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا دور آیا تو عیسائیوں کی شکایت پر انہوں نے حکم دیا کہ ”مسجد میں جو اضافہ کیا گیا ہے، وہ نصاریٰ کو واپس دے دیا جائے۔“ تاہم با ہمی گفت و شنید سے یہ طے پایا کہ اس گرجے کے بدلے میں عیسائیوں کو الغوط کے علاقے میں ایک دوسرا گرجا دے دیا جائے۔ (فتوح البلدان، حوالہ بالا)
- خود فقہ اسلامی کی بعض جزئیات اس استدلال کی صراحتاً نفی کرتی ہیں۔ جلیل القدر حنفی عالم ابن عابدین شامی نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ دمشق میں یہودیوں کا ایک فرقہ ”الیہود القرایین“ کے نام سے موجود تھا جس کی ایک عبادت گاہ بھی تھی۔ یہ فرقہ رفتہ رفتہ وہاں سے ناپید ہو گیا۔ ۱۲۴۸ھ میں ایک عرصے کے بعد اس فرقے سے تعلق رکھنے والے والا ایک مسافر دمشق میں آیا تو مقامی عیسائیوں نے اسے کچھ رقم ادا کر کے اس سے ان کی عبادت گاہ کو گر جا بنا لینے کی اجازت لے لی اور عیسائیوں کی قوت و شوکت کی بنا پر کچھ مقامی یہودی گروہوں نے بھی اس کی تائید کر دی۔ یہ معاملہ جب مسلم حکام کے علم میں آیا تو انہوں نے قانونی لحاظ سے اس کی پوزیشن معلوم کرنے کے لیے علمائے فقہ سے رجوع کیا۔ ابن عابدین کہتے ہیں کہ بعض دنیا پرست علماء نے اس معاملے کو درست قرار دے دیا لیکن میں نے اس کے حق میں فتویٰ دینے سے انکار کر دیا۔ اپنی اس رائے کی متعدد وجوہ میں سے ایک وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ:
”ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ یہ عبادت گاہ چونکہ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی تھی، اس لیے اس مذہب کے کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے کسی دوسرے مذہب والوں کے حوالے کر دے، اگرچہ تمام اہل کفر ہمارے نزدیک ایک ہی ملت کا حکم رکھتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی مدرسہ مثال کے طور پر احناف کے لیے وقف کیا گیا ہو تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے کسی دوسرے فقہی مسلک کے تصرف میں دے دے، اگر چہ دین دونوں کا ایک ہے۔ (رد المحتار ۴/۲۰۵) - اکتوبر ۲۰۰۲ء، ۴۵۔
- مسند احمد، ۱/۳۸۔
- صحیح مسلم و مسند احمد عن انس، مسند البزار و الترمذی عن بریده، دلائل النبوۃ للبیہقی عن ابی سعید۔ بحوالہ تفسیر ابن کثیر، ۳/ ۲۔ ۲۴۔
- سید ابوالاعلیٰ مودودی: سانحہ مسجد اقصیٰ، ص۶