آپ نے ریشمی رومال تحریک کے بارے میں سنا ہو گا مگر ریشمی رومال خطوط کے بارے میں شاید آپ نہ جانتے ہوں ،حاضر ہے کہ ان خطوط میں کیا لکھا گیا تھا ۔ ریشمی خطوط کے مضمون کیا تھے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
پہلا خط جو شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا، اس کا مضمون یہ تھا: ”یہ خط حضرت مولانا شیخ الہند کو مدینہ بھیجنا ہے۔ حضرت شیخ الہند کو خط کے ذریعہ بھی اور زبانی بھی آگاہ کر دیں کہ وہ کابل آنے کی کوشش نہ کریں ۔ حضرت مولانا شیخ الہند مطلع ہو جائیں کہ مولانا منصور انصاری اس بار حج کے لیے نہ جا سکیں گے۔ شیخ عبد الرحیم کسی نہ کسی طرح کابل میں مولانا سندھی سے ملاقات کریں“۔
دوسرا خط شیخ الہندؒ کے نام تھا جس کے سلسلہ میں ہدایت تھی کہ تحریک کے ممتاز کارکنوں کو بھی یہ خط دکھا دیا جائے! اس خط میں رضاکار فوج ”جنود اللہ“ اور اس کے افسروں کی تنخواہوں کا تذکرہ ہے۔ ۱۰۴ افراد کے نام ہیں ۔ جنہیں فوجی تربیت اور ان کے کام کی ذمہ داری کے سلسلہ میں تحریر ہے۔ اس کے علاوہ راجہ مہندر پرتاب سنگھ کی سرگرم ”جرمن مشن کی آمد، عارضی حکومت“ کا قیام روس جاپان اور ترکی وفود کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
تیسرا خط حضرت شیخ الہندؒ کے نام تھا۔ مشہور یہ ہے کہ یہ خطوط مولانا منصور انصاری نے لکھا تھا؛ لیکن عبد الحق، جنہیں یہ خط پہنچانے کے لیے دیا گیا تھا، کا بیان ہے کہ یہ خط مولانا سندھی نے اس کے سامنے لکھا تھا۔ اس خط کے خاص مضامین یہ ہیں کہ ہندوستان میں تحریک کے کون کون سے کارکن سرگرم ہیں۔ اور کون کون سے لوگ سست پڑ گئے ہیں۔ اس میں مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی گرفتاری کی اطلاع بھی تھی۔ اس میں یہ بھی تحریر ہے کہ میرا حجاز آنا ممکن نہیں ہے۔
”غالب نامہ“ تحریک کے کارکنوں کو دکھا کر قبائلی علاقہ کے سرداروں کو دکھا دیا گیا ہے۔ حاجی ترنگ زئی اس وقت ”مہمند“ علاقہ میں ہیں۔ مہاجرین نے مہمند اور ”سوات“ کے علاقہ میں آگ لگا رکھی ہے۔ جرمن ترک مشن کی آمد اور اس کے ناکام ہونے کے اسباب کا تذکرہ بھی ہے۔ مشن کی ناکامی کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ جرمنی اور ترکی کو چاہیے تھا کہ پہلی جنگِ عظیم میں شامل ہونے سے پہلے ایران اور افغانستان کی ضرورت معلوم کرے اور اس کو پورا کرنے کی صورت نکالے۔ اس کے علاوہ افغانستان کو جنگ میں شریک ہونے کے لیے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے اس کی تفصیل درج ہے۔ ساتھ ہی حضرت شیخ الہندؒ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ مدینہ منورہ میں ٹھہر کر ترکی، افغانستان اور ایران میں معاہدہ کرانے کی کوشش کریں۔ اس خط میں حضرت شیخ الہندؒ سے یہ بھی گزارش کی گئی تھی کہ وہ ہندوستان نہ آئیں حکومت نے ان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“ مولانا سندھیؒ نے یہ خطوط ریشمی رومال پر لکھ کر عبد الحق کو دیے، اور اس کو ہدایت کر دی کہ یہ خط شیخ عبد الرحیم سندھی کو پہنچا دیں۔ عبد الحق ایک نو مسلم تھا، وہ مہاجر طالب علموں کے ساتھ افغانستان گیا تھا۔ مہاجر طالب علموں میں دو طالب علم اللہ نواز اور شاہ نواز قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں رب نواز کے لڑکے تھے، جو ملتان میں انگریزی ایجنٹ تھا، عبد الحق بھی رب نواز کے یہاں رہتا تھا۔ جب یہ خطوط عبد الحق کو پہنچانے کے لیے دیے گئے تو وہ سرحد کے راستے سے پنجاب ہوتا ہوا بہاولپور پہنچا‘ وہاں بہاولپور کے مرشد کے پاس وہ کوٹ رکھ دیا جس کے استر میں وہ ریشمی ٹکڑے سلے ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ بہاولپور سے اپنے آقا رب نواز سے ملاقات کرنے کے لیے ملتان چلا گیا۔ اس نے ان دونوں کی خیریت کے علاوہ تحریک اور اس کی سرگرمی، قبائلی علاقہ اور جیل کے واقعات اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی سرگرمیوں کی تفصیل بھی بتا دی ۔اور دھمکانے پر بہاولپور کے مرشد مولانا محمد کے پاس سے لا کر وہ کوٹ بھی دیا، جس کے استر میں وہ ریشمی خطوط سلے ہوئے تھے، جب رب نواز کو یہ خطوط ہاتھ لگے تو اس نے غداری کی، اور اس نے فوراً ہی کمشنر سے ملاقات کی، اور ریشمی خطوط پیش کیے اور تمام تفصیلات سے اس کو باخبر کر دیا۔ ساتھ ہی عبد الحق کو کمشنر کے پاس لے گیا، اس کے صلہ میں اس کو ”خان بہادر“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس طرح وہ رب نواز سے خان بہادر رب نواز بن گیا۔