اسلام ہند میں دو طریقوں سے پہنچا، فتوحات کے ذریعہ اور تاجروں اور صوفیاء کے واسطہ سے۔ فتوحات میں ہندوؤں سے جنگیں بھی ہوئیں، خون بھی بہا اور ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جو جنگوں کے ماحول میں بالکل ایک فطری سی بات ہے۔ مگر جب مسلمان یہاں کے باسی ہوگئے تو انہوں نے اس ملک کو ہر طرح سے ثروت مند بنایا۔ تاجروں اور صوفیاء کے ذریعہ اسلام کی شان جمالی کا ظہور ہوا، اور مقامی لوگوں کو اسی نے زیادہ متاثر کیا۔ اس کے بعد سے ہندو مسلم اِس ملک میں صدیوں سے ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں۔ دونوں فرقوں کے درمیان کبھی کبھی ٹکراؤ، تصادم اور تنازعات بھی پیش آئے مگر ان کا تناسب تبادلۂ علمی، احترام مذہب، صلح جوئی، رواداری اور اعلیٰ انسانی سلوک کے واقعات کے مقابلہ میں کم رہا ہے۔ البتہ رواداری کی یہ صورتحال اب خاصی بدلتی جا رہی ہے۔ اب مسلمانوں کو دیش کا غدار، مادر وطن کو تقسیم کرانے کا گنہگار قرار دیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز میں عام ہوتا جا رہا یہ ظاہرہ ملک کے ہر محب وطن شہری کے لیے فکرمندی کی بات ہے۔ غیر مسلم پوش کالیونیوں میں مسلمان کو گھر نہیں ملتا۔ اس کا قتل گؤرکچھکوں (گائے کے محافظین) کے لیے ایک عام سی بات ہوتی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دونوں فرقوں کے مابین جو تلخیاں، جو نفرت اور جو غم و غصہ اب دیکھا جا رہا ہے کہ اب ایک مخصوص نظریہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اِس ملک سے مسلمان شناخت سے دور و نزدیک سے ذرا بھی تعلق رکھنے والی ہر علامت مثلاً شہروں کے نام، تاریخی عمارتیں، مساجد وغیرہ کو مٹا ڈالنا یا بدل ڈالنا چاہتے ہیں، اس کا سبب کیا ہے؟ دونوں فرقوں کے مابین پائی جانے والی یہ سخت کشیدگی اِس کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے اسباب کو گہرائی میں جا کر سوچا جائے اور باہمی زندگی کے ماضی کے اُن خوشگوار حقائق کو پھر سے لوگوں کے سامنے لایا جائے کہ جب لاہور کے خواجہ دل محمد گیتا کی ویاکھیا (شرح) دل کی گیتا لکھ رہے تھے اور وقت کے بہت بڑے ہندو ودوان (عالم) کے سامنے ان کی یہ شرح پیش کی جاتی ہے تو وہ اس کو پڑھ کر اتنا متا ثرہوتے ہیں کہ نہ صرف ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں بلکہ خواجہ دل محمد سے ملنے ان کے گھر بھی جاتے ہیں۔ دوسری جانب بہت سے پنڈتوں اور ہندو ودوانوں نے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا، نبی کریم ﷺ کی جیونی (سیرت) لکھی۔ اِس دو طرفہ صلح جوئی، خیر خواہی، گہرے علمی و سماجی رشتوں کی ایک پوری کہانی ہے جو تقسیمِ ہند سے پہلے اس ملک میں لکھی گئی۔ اِس پیپر میں تاریخی حوالوں سے اِسی کہانی کی بازیافت کی کوشش کی جائے گی۔ اِس کا فوکس علمی و ثقافتی تبادلۂ باہمی پر ہو گا۔
ہند کے مسلمان حکمرانوں میں سب سے زیادہ پروپیگنڈا اورنگزیب عالمگیر کے خلاف کیا گیا ہے کہ اس نے مندر تڑوائے، جزیہ لگایا وغیرہ، مگر اپنی سخت گیر پالیسیوں کے باوصف اس نے ہندو قوم کو سائڈلائن نہیں کیا تھا، بلکہ ان کے بارے میں اپنے پیشروؤں کی پالیسی پر ہی کم و بیش عمل جاری رکھا۔ مولانا شبلیؒ نے اپنی کتاب ’’اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ میں ان ہندوؤں کے نام لکھے ہیں جو اہم عہدوں پر فائز تھے، خاص کر فوجی عہدے و مناصب۔ یہ تقریبا ۲۵ عہدیدار ہیں جن میں بعض پنج ہزاری تھے بعض دوہزاری، بعض سہ ہزاری اور بعض قلعہ دار، تھانے دار اور بعض گورنر اور جاگیردار۔1
جنوبی ہند میں دولت آصف جاہی میں مہاراجہ سرکشن پرشاد مدار المہمام یعنی ریاست کے وزیراعظم کے جلیل القدر منصب پر فائز رہے اور ان کا نام علم و ادب کی سرپرستی کے لیے بڑا مشہور ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے ہندو امراء میں یہ لوگ شامل ہیں: پنڈت لچھمی نرائن شفیق جو شاعر بھی تھے۔ مہاراجہ بندولال، راجہ گردھاری پرشاد، رائے بالاپرشاد، رائے منالال، راجہ گوبند سنگھ وغیرہ یہ جنوبی ہند کے عمائد اور امراء میں شامل تھے۔ اکبری عہد میں راجہ ٹوڈرمل، راجہ بیربل اور راجہ مان سنگھ بڑے مشہور و معروف غیرمسلم امراء ہیں جو اس کے نورتنوں میں شامل تھے۔ بیربل کے قصے تو زبان زد عام ہیں۔ ٹوڈدرمل وزیر مالیات تھے۔ اور راجہ مان سنگھ تو سپہ سالار فوج تھے جنہوں نے مغلوں کے لیے بہت سے قلعے سر کیے۔ مان سنگھ کی سرپرستی میں برندابن کا گوونددیو مندر ۱۵۵۰ء میں تعمیر کیا گیا۔
اتنا ہی نہیں سب سے زیادہ بدنام کے گئے محمود غزنوی کے لشکر میں تین ہندو سردار بہت مشہور تھے۔ یہ تھے سودندی رائے، تلک اور ہج رائے، انہوں نے غزنویوں کی بہت سی مہموں میں حصہ لیا اور ہمیشہ وفادار سمجھے جاتے۔ تلک رائے تو دربار میں ترجمانی کے فرائض بھی انجام دیا کرتا2۔ اور معروف مؤرخ رومیلا تھاپر کے نزدیک سومناتھ کا واقعہ بھی دوسرے واقعات کی طرح کا ایک عام واقعہ تھا جس کا پروپیگنڈا بہت زیادہ کیا گیا ہے۔ اِس پر انہوں نے ایک پوری کتاب لکھی ہے3۔
جہاں تک ہندو مذہب اور ہندو ثقافت کا تعلق ہے تو مسلمانوں نے فاتح ہونے کے باوجود اس سے بے اعتنائی نہیں برتی۔ چنانچہ مسلم عہد میں اور خاص کر عہدِ مغلیہ میں بہت سی سنسکرت کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کیا گیا۔ مثلاً اکبر کے عہد میں اتھروید کا ترجمہ ہوا، ملاعبد القادر بدایونی نے سنگھاسن بتیسی کا ترجمہ خرد افزاء کے نام سے کیا۔ سنسکرت کی کتاب لیلاوتی اور مثنوی نل ومن کے ترجمے ہوئے۔ بھگوت پران کا ترجمہ ہوا۔ داراشکوہ نے اپنشد کا ترجمہ کیا وہ خود سنسکرت کا عالم تھا، بلکہ اس کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی دلچسپیوں کے میدانوں میں بڑا تنوع تھا۔ چنانچہ داراشکوہ قادری صوفی سلسلہ سے وابستہ تھا، بہترین خطاط تھا، اس نے اسلام اور ہندوستانی فکر پر ایک کتاب لکھی تھی مجمع البحرین۔اس کا ہندی میں ترجمہ سمدر سنگم کے نام سے موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک کتاب رگ وید کے ساتویں کھنڈویششٹھ کا ترجمہ بھی ہے، وہ نہ صرف صوفیاء سے بلکہ ہندو پنڈتوں اور جوگیوں سے بھی ملا کرتا تھا جن میں ویشنو گرو بابا لال، چندر بھان برہمن، یاد وداس، بنگالی داس جگن ناتھ پنڈت اور بابا سرسوتی کے نام تاریخ نے محفوظ کیے ہیں4۔ داراشکوہ اور عالمگیر کی کشمکش اصلاً اقتدار کی لڑائی تھی، بعض مسلم مؤرخین نے اس میں نمک مرچ لگا کر خواہ مخواہ اس کو کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا ہے۔
عہدِ مغلیہ میں پینٹنگ اور مصوری کے فن نے بھی بڑی ترقی کی ،ان کے درباری مصورین میں کھیم کرن، مہیش،لال مکند، مادھو، پری ہنس رام، جگن رام وغیرہ شامل ہیں۔ موسیقی کے متعدد ہندو ماہرین کی سرپرستی دربارِ مغل کرتا تھا جن میں مان سنگھ گوالیاری، نائک بخشو، تان سین اور رام داس کے نام تاریخ میں ملتے ہیں5۔ بعد میں شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید خاص امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں بڑا کمال پیدا کیا تھا۔
اسی طرح عہدِ مغلیہ میں ہندو تہواروں اور میلوں ٹھیلوں میں بھی حکمراں، شہزادے اور نواب شریک ہوتے تھے۔ جہانگیر تو خود ہندو تہواروں ہولی دیوالی وغیرہ میں شامل ہوتا تھا، اور اس کے عہد میں ہندوؤں کے میلے ٹھیلے تزک و احتشام سے منائے جاتے۔ شیوراتری کے موقع پر پنڈتوں اور برہمنوں کو دربار میں باریاب کیا جاتا۔ وہ خود راکھی باندھتا اور بندھواتا تھا۔ اس نے اپنی توزک میں اِن چیزوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ہمایوں بھی یہ تہوار مناتا تھا۔ جہانگیر کے زمانہ میں جانک رائے، سورج سنگھ آدربھٹا چاریہ وغیرہ کو انعامات دیے گئے۔ شاہجہاں کے عہد میں بھی یہ چیزیں جاری رہیں۔ اکبری دور میں مصوری کو بڑی ترقی ہوئی۔ بشن داس اور منوہر عہدِ مغلیہ کے مشہور مصوروں میں سے ہیں۔ اس عہد میں مہا بھارت اور راماین کے فارسی ترجموں کے مصور نسخے تیار کیے گئے جو آج بھی انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہیں6۔ ہولی دیوالی، دسہرہ، بسنت اور شیوراتری منائی جاتیں7۔ شاہی دربار سے الگ عوامی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عام زندگی کی ترجمانی کرنے والے شعراء نے اِس جانب بھی توجہ کی ہے۔
نظیر اکبر آبادی کی ہندو تہواروں پر کہی گئی نظمیں بہت مشہور ہیں۔ وہ دیوالی کے بارے میں کہتے ہیں8: ؎
ہر ایک مکان میں جلا پھر دیا دوالی کا
ہر ایک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے دل میں بھا گیا سماں دوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دوالی کا
اسی طرح خدائے سخن میر تقی میر بھی پیچھے نہیں رہے، انہوں نے ہولی پر اشعار کہے9: ؎
جشن نو روزِ ہند ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے
اورنگ زیب کے زمانہ میں اِن چیزوں میں کمی تو ضرور آئی مگر اس نے بھی ہندوؤں کو sideline نہیں کیا اور بہت سے عہدے اور مناصب ان کو دیے10 جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ اُس کی مراٹھوں و سکھوں کے ساتھ جنگیں، گرو تیغ بہادر سے اُس کا سلوک استثنائی واقعات ہیں جن کا موضوعی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سترہویں صدی میں مغلیہ سلطنت سے ٹوٹ کر بنگال، اودھ، میسور اور دکن میں نئی ریاستیں قائم ہوئیں جن میں دکن کی آصف جاہی سلطنت اور مملکت خداداد میسور دونوں بڑے کروفر کی اور قوت والی ریاستیں تھیں۔ میسور میں آغازِ قیام سے اس کے اختتام تک ہندوب ڑے بڑے عہدوں پر قائم رہے۔ سلطان ٹیپو کے بڑے وفادار سالار اور منصب دار ہندو تھے۔ مثلاً پنڈت پورنیا تاریخ میں مشہور ہیں۔ اودھ میں وزراء اور امراء و عماید میں بڑے پیمانہ پر ہندو شامل تھے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ منشی نول رائے، نواب صفدر جنگ کے بخشی راجہ، بینی پرساد، مدارالمہام، نواب شجاع الدولہ، راجہ ٹکیٹ، رائے نواب نصیر الدولہ کے دیوان، امرت لال: پیش کار نواب غازی الدین حیدر، منشی جوالا پرشاد، منشی الممالک، نواب نصیر الدین حیدر، راجہ رتن سنگھ زخمی فارسی کے شاعر، راجہ لکھپت، رائے تحصیل دار، راجہ لکشمی نرائن، معتمد برہان الملک، راجہ پورن چند مسجل(رجسٹرار)، نواب شجاع الدولہ۔ یہ حکمراں اور نواب صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ ہندو عوام میں بھی ویسے ہی مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔
دونوں قوموں کے درمیان چشمک اور ہندوؤں کے جبراً مذہب تبدیل کرانے اور مندروں کو مسمار کرانے کی کہانیاں انگریزی دور میں سامنے آئی ہیں اور ان کو آج دونوں قوموں کے درمیان تنافر پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسلمان اہلِ علم و دانش بھی اس بات کو سمجھتے تھے کہ مسلمانوں اور برادرانِ وطن کے درمیان مفاہمت کی شدید ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے علماء دیوبند اور ان کی سیاسی جماعت جمعیۃ علماء ہند نے مسلم لیگ کی تقسیمِ وطن کی سیاست سے کھلا اختلاف کیا بلکہ دونوں قوموں میں مفاہمت اور رواداری کے ماضی کے بہت سے ان واقعات کی تائید بھی سرکردہ علماء دیوبند نے کی، جن کی عموماً بڑی مخالفت کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اکبر بادشاہ کی کارروائیوں کی۔ چنانچہ مولانا حسین احمد مدنی فی الجملہ اکبر کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مگر شاہانِ مغلیہ کو ضرور اس طرف (تفاہم بین المذاہب کی طرف) التفات ہوا خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدہ (یعنی یہ کہ مسلمان ہندوؤں کے دشمن ہیں) کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا۔ اور اگر اس کے جیسے چند بادشاہ اور بھی ہو جاتے یا کم از کم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے دی جاتی تو ضرور برہمنوں کی یہ چال (پروپیگنڈا کہ مسلمان ہندو کے دشمن ہیں) مدفون ہو جاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔“11(بین القوسین الفاظ راقم نے توضیح کے لیے بڑھائے ہیں)
انگریزی دور کے آخر میں دونوں قوموں کے درمیان مختلف اسباب سے دوریاں بڑھنے لگیں تاہم مسلمانوں کے بارے میں پروپیگنڈا اتنا زیادہ کیا گیا ہے کہ اصل حقائق بالکل دب کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کو صحیح یا غلط مصورِ پاکستان کہا جاتا ہے، مگر اپنی ذاتی زندگی میں اقبال فرقہ واریت سے کوسوں دور تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی انا کسی مسلمان عورت کو نہیں بلکہ ڈورس احمد نام کی ایک جرمن خاتون کو بنایا تھا۔ انہوں نے رامچندر جی کو امامِ ہند کہا تھا۔ گرونانک دیو کو وحدت کا گیت کار بتایا۔ ہندوستان کی شان میں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ لکھا۔ ’اے آب رود گنگا‘ کہہ کر ماضی کے فسانہ کو یاد دلایا۔ حسرت موہانی علی گڑھ کے گریجویٹ، صوفی، شہنشاہ تغزل اور مجاہد آزادی تھے۔ وہ جب بھی حج کو جاتے تو حرم سے واپس آکر کرشن کی نگری متھرادرشن کے لیے ضرور جاتے کہ ان کو یہاں روحانی سکون محسوس ہوتا تھا۔
پھر یہ رواداری و احترام مذہب یک طرفہ نہ تھا دوطرفہ تھا۔ لکھنؤ کے مشہور ناشر منشی نول کشور عربی، فارسی اور اردو کی کتابوں کے ساتھ قرآن بھی چھاپا کرتے اور باوضو ہو کر قرآن کی طباعت کراتے (ان کا ذکر آگے آتاہے)۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت (جیونی) پر بھی ہندو وِدوانوں نے کتابیں لکھیں مثلاً عرب کا چاند سوامی لکشمن پرشاد نے لکھی۔ تو رسول اکرم کی نعت و منقبت کے معاملہ میں ملک کے ہندو شعراء مسلمانوں سے پیچھے نہیں رہے12۔
مغل عہد کے بارے میں بھی پہلے انگریزوں نے منفی پروپیگنڈا کیا اور اب ہندو تو وادی تاریخ دانوں نے اس کی تاریک تصویر عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ حالانکہ مغلیہ عہد کے بانی بابر نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی اس پر مغل بحیثیت مجموعی قائم رہے۔ بابر کی نصیحت:
’’بیٹے یہ ملک ہندوستان مختلف مذاہب کا ملک ہے ۔خدا کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں یہ ملک دیا۔ ہمیں اپنے دل سے ہر طرح کے بھید بھاؤ کو ختم کر کے سب قوموں کے ساتھ ان کے اپنے رواج کے مطابق انصاف کرنا چاہیے۔ انتظامی چیزوں میں لوگوں کی مدد لینے کے لیے ان کے دل جیتو، گائے کو ذبح نہ کرو، عبادت خانوں اور مندروں کو نقصان نہ پہنچاؤ جو ہماری قلمرو میں ہوں، ایسا نظم بناؤ کہ رعایا بادشاہ سے اور بادشاہ رعایا سے خوش ہو‘‘13۔
تاریخ کی شہادت ہے کہ بابر کی اولاد نے اس وصیت پر عمل کیا۔ دہلی سلطنت اور مغلیہ عہد میں ہندو مسلمانوں دونوں کے بقاء باہم سے ایک ہم آہنگی اور پر امن فضا ملک میں وجود میں آئی جس پر تبصرہ کرتے ہوئے سرجان مارشل نے یہ تبصرہ کیا ہے:
’’انسانیت کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ ہندو و محمڈن (اسلامی) جیسی بڑی اور وسیع تہذیبوں کے ملاپ کا واقعہ ہے۔ جو اپنے آپ میں بہت ہی زیادہ مختلف ہیں اور جن کے مذہب اور کلچر میں بہت زیادہ فرق ہے، اس سے تاریخ پر زبردست مثبت اثرات پڑے ہیں‘‘14۔
مغلوں کے دور میں ہی مرزا مظہر جان جاناں جیسے عالم و صوفی نے یہ رائے ظاہر کی کہ ’’رام اور کرشن بھی خدا کے پیغمبر ہوسکتے ہیں‘‘ 15۔ ’’عہدِ وسطیٰ کے ہندوستان میں دونوں قومیں ہندو و مسلمان بہت سارے تہوار ساتھ ساتھ اور بڑے جوش و خروش سے مناتے تھے‘‘16۔
اودھ میں یہ مشترکہ کلچر اتنا آگے بڑھا کہ مسلمان خواتین زچگی کے زمانے میں مہینوں تک سُوہر (گیت) گاتی تھیں جن میں ایک مشہور سوہر یہ تھا:
’’اللہ میاں ہمرے بھیا کا دِیونندلال‘‘ (اے اللہ میرے بھیا کو کرشن جیسا بیٹا عطا کرنا) 17۔ حالانکہ ٹھیٹ فقہی نقطۂ رکھنے والے علماء کے ہاں یہ رویہ قابل اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر سماجی و عملی زندگی میں بسا اوقات فقہی حدود سے تجاوز کرنا پڑ جاتا ہے، جیسا کہ صوفیاء کا رویہ بتاتا ہے۔ شمالی ہند کے برخلاف جنوبی ساحلوں پر ہندوستان سے اسلام کا رابطہ عرب فتوحات سے ماقبل ہی ہو گیا تھا۔
’’ہمیں اس کے آثار یہاں سے ملتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ کیرالا کی چیرامَن مسجد کو مالک بن دینار نامی صحابئ رسول ﷺ نے آپ کی زندگی ہی میں تعمیر کیا تھا، اس کا نام ایک مقامی راجہ چیرامن کے نام پر رکھاگیا‘‘19۔
قرآن کا ہندی ترجمہ کرنے والوں میں مسلمان اہلِ علم کے ساتھ ہی برادرانِ وطن کے اہلِ علم بھی شامل ہیں۔ مثلاً نند کمار اوستھی، اچاریہ ونوبا بھاوے، پنڈت رگوناتھ پرساد مشر، ستیہ دیوجی، پریم شرن پنڈت، پنڈت رام چندر وغیرہ نے قرآن کا ہندی انواد کیا ہے۔ نند کمار اوستھی جی نے اپنا ترجمہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی ایماء پر کیا تھا20۔
عہدِ وسطیٰ کے بارے میں نوبل لاریٹ امرتیہ سین کہتے ہیں:
’’میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی تاریخ کو ہمیں الگ الگ کر کے یوں نہیں دیکھنا چاہیے کہ اِس زمانہ میں مسلمانوں کی سرگرمیاں یہ تھیں اور ہندوؤں کی اِس قسم کی۔ ہمیں اِس پر زور دینا چاہیے کہ دونوں ایک مشترکہ سماج میں جی رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ آرٹ یا علم و فن کا کوئی بھی میدان لے لیں آپ پائیں گے کہ ہندو مسلم ایکٹوسٹ، آرٹسٹ اور اسکالر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں اور باہمی تعامل کر رہے ہیں‘‘21۔
انگریزی عہد کے اور آزادی کے بعد کے اردو کے بہت سے ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں سے تو ایک دنیا واقف ہے مگر مغلیہ عہد کے اخیر میں بہادر شاہ ظفر کے زمانہ میں دہلی کے اردو شاعروں کی ایک فہرست بنائی گئی تھی جس میں پانچ سو سے زیادہ شعراء کے نام تھے اور ان میں ۳۴ ہندو شاعر تھے22۔
غالباً بھگوت گیتا میں ہندو درشن اور نظریہ و عمل کا سب سے تابناک اظہار ملتا ہے۔ اور اس سے مسلمان بھی خاصے متاثر ہوئے ہیں اور انہوں نے اس کتاب کے ترجمے و شروحات لکھی ہیں۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال گیتا کو اردو میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے جیسا کہ انہوں نے حیدر آباد کے مدارالمہام سر مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط میں بیان کیا ہے۔ اِس خط میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ سنسکرت کے الفاظ کے جمال کو اردو میں اسی کیفیت کے ساتھ منتقل کر دینا بڑا مشکل کام ہے۔ انہوں نے اسی خط میں فیضی کے کیے ہوئے گیتا کے فارسی ترجمہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا:
’’ترجمہ کرتے ہوئے انہوں نے گیتا کے مضامین اور اسلوب سے پورا انصاف نہیں کیا وہ گیتا کی روح کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں‘‘23۔
اردو میں گیتا کے مشہور ترجمہ نگار یہ ہیں: (۱) خواجہ دل محمد، دل کی گیتا جو لاہور سے چھپی اور جس سے بہت شہرت پائی۔ (۲) خواجہ حسن نظامی، ان کے ترجمہ کا نام ہے کرشن بیتی۔ (۳) محمد اجمل خان (پرسنل سیکریٹری مولانا آزاد) ان کے ترجمہ کا نام نغمۂ خداوندی ہے اور اس کا پیش لفظ حسرت موہانی نے لکھا تھا۔ (۴) ڈاکٹر حسن الدین احمد نے نثر میں ترجمہ کیا جو ۱۹۷۵ء میں نیشنل بک ٹرسٹ دہلی نے شائع کیا24۔ (۵) معروف مسلم فلسفی خلیفہ ڈاکٹر عبد الحکیم (پاکستان) کے ترجمہ کو ودیا بھون ممبئی نے شائع کیا۔ یہ منظوم ترجمہ ہے اور رفیق زکریا نے اِس کو ماقبل کے تمام تراجم پر فوقیت دی ہے25۔ (۶) ڈاکٹر محمد عزیز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ان کا ترجمہ انجمن ترقی اردو ہند سے شائع ہوا۔ (۷) سید متین احمد جن کا تعلق دکن سے تھا انہوں نے ’’کشن گیتا اور ارجن گیتا‘‘ اپنے ترجمہ کا نام رکھا۔ (۸) شمش الحق حقی نے بھگوت گیتا کا شعر میں ترجمہ کیا جو انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کیا26۔
جہاں تک اردو عربی فارسی کتابوں اور قرآن پاک کی نشر و اشاعت کی بات ہے تو اس میں بھی برادرانِ وطن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ مثال کے طور پر منشی نول کشور جن کے پریس کی خدمات کے تعلق سے سید سلیمان ندوی اردو کے لیے لکھنو کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سب سے آخر میں لکھنؤ کے اس مطبع کا نام لیا جاتا ہے جس کی زندگی اب اسی (۸۰) برس کے قریب پہنچ گئی ہے (۱۹۳۹ء میں)۔ اس سے میری مراد نول کشور کا مشہور نول کشور پریس ہے۔ یہ غدر کے بعد ۱۸۵۸ء میں قائم ہوا اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی علوم و فنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتابیں اس مطبع نے شائع کیں، ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق کا کوئی مطبع نہیں کر سکتا۔ ہماری زبان کی اکثر ادبی اور علمی کتابیں اسی مطبع سے چھپ کر نکلیں۔ شعراء کے دواوین، مثنویاں، قصائد، قصے، افسانے، داستانیں اور اس کی عام کتابیں سب اسی کی کوششوں کی ممنون ہیں۔‘‘27
اور اس پریس کے معتبر ہونے کا عالم یہ تھا کہ مرزا غالب نے کہا تھا کہ یہ پریس جس شاعر کی دیوان شائع کر دیتا ہے اسے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ محض کوئی چھاپہ خانہ نہیں تھا بلکہ یہاں ترجمے کا کام بھی ہوتا تھا اور ایسی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شائع کروائی جاتی تھیں جو معدوم ہونے کے قریب تھیں۔
گرونانک نے بغداد اور مکہ کا سفر کیا۔ ان کے بہت سے مریدین مسلمان تھے۔ گروگرنتھ میں ہزاروں عربی فارسی اور اردو کے الفاظ، محاورے اور تعبیرات شامل ہیں۔ یہاں تک کہ امرت سر کے مشہور گروگردوارہ ہرمندر صاحب کا سنگ بنیاد بھی قادریہ سلسلہ کے معروف صوفی بزرگ میاں میر سے رکھوایا گیا تھا28۔
مشہور مصنف ایم این رائے نے بھی اس پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے انڈیا کو اپنا لیا تھا اور وہ اِس کے سماج کے ناگزیر عنصر بن گئے تھے۔ دہلی سلطنت (۱۲۰۶ء ۔ ۱۵۲۶ء) اور مغلیہ عہد (۱۵۲۶ء ۔ ۱۸۵۷ء) ہندو مسلمانوں کی مشترکہ حمایت و تائید سے قائم رہیں29۔
ہندو مذہب و تہذیب کے باضابطہ علمی مطالعہ کی جوریت ابوریحان البیرونی نے ڈالی تھی بعد کے زمانوں میں کسی نہ طرح وہ جاری رہی اگرچہ اس روایت میں وہ پختگی نہ رہی۔ اور موجودہ زمانہ میں بھی مسلمانوں میں خال خال ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مثلاً مولانا محمد فاروق خاں جنہوں نے اردو میں ہندو دھرم کے موضوعی مطالعہ کی روایت کو آگے بڑھایا ہے، جس میں مزید تیزی و تسلسل لانے کی ضرورت ہے۔
مسلم عہد کو عہدِ سلطنت اور مغلیہ عہد میں بانٹ کر دیکھا جاتا ہے اور اس کو سیکولر روایت کے برخلاف تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم مؤرخ مبارک علی ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ پورا عہد بھی سیکولر عہد ہی تھا۔ (سیکولر اِس معنی میں کہ ریاست کسی مذہب میں مداخلت نہیں کرتی تھی) یہ تھیاکریسی نہیں تھی البتہ اس میں بعض حکمرانوں کا استثناء ضرور ہے۔30
حواشی و حوالہ جات
- شبلی نعمانی، اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر، دارالمصنفین اعظم گڑھ
- ڈاکٹر ایشور ٹوپا، پالیٹکس ان پری مغل ٹائمز ص ۵۴۔۶۴ بحوالہ، سید صباح الدین عبدالرحمن، ہندوستان کے عہدِ ماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری۔
- ملاحظہ ہو: رومیلا تھاپر: Somnath,The many Voices of a History Penguin Books
- Dara Shikoh, the Emperor who Never was (1592-1666) by Supria Gandhi
کتاب کے علاوہ اسی عنوان سے ان کا یوٹیوب پر لیکچر بھی موجود ہے جس کو Carwan India نے ہوسٹ کیا تھا۔ - سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۵۰ ۔ ۴۵۶
- سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۸۵۔۴۸۶
- ایضا ص ۴۰۰ تا ۴۰۷
- ایضا، سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹، ص ۴۰۵
- ایضا، سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹، ص ۴۰۷
- تفصیل کے لیے دیکھیے شبلی نعمانی، اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر، دارالمصنفین اعظم گڑھ ص ۲۴۔ اور سید صباح الدین عبد الرحمنِ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۸۵۔۴۸۶، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹
- ملاحظہ ہو: مولانا نجم الدین اصلاحی، مکتوبات شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی جلد اول مرتبہ مطبوعہ در مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۹۵۲۔
- نقوش کے مشہور زمانہ رسول نمبر کی دسویں جلد اس کی شاہد عدل ہے۔ شائع کردہ فریڈ بک ڈپو نئی دہلی ۲۰۱۴۔
- Rafiq Zakaria Indian Muslims What Wnt Wong With them p 9
- Ibid p 9
- Ibid p 10
- پی این چوپڑا Histrory and Culture of Indian People
published by Bhartiya Vidia Bhawan - P 10 - سعید نقوی، وطن میں غیر، ص ۲۵ فاروس نئی دہلی (Being Other in India کا اردو ترجمہ)
- ایضا وطن میں غیر، ص ۲۵۔
- رضوان الحق فلاحی کی کتاب قرآن شریف کے ہندی انوادایک سرویکشن (جائزہ)
Brown Book Publications pvt.Ltd opposit Blind School,Quila Road Aligarh - Rafiq Zakaria Indian Muslims What Went Wong With them p 12
- Ibid p 13
- The Last Mughal Willium Dalremple p 26
- Rafiq Zakaria Indian Muslims What Wnt Wong With them p 32-33
- Ibid p 38
- Ibid p 38
- Ibid p 39
- سید سلیمان ندوی، نقوشِ سلیمانی، دارالمصنفین اعظم گڑھ ص ۸۷، طبع ۱۹۳۹۔
- p.136 Penguin Books 2019 Absolute Khuswant
- MN Roy,The Historical Role of Islam
Oxford University Press 2008
بحوالہ مشیرالحسن p 15 Moderate or Militant Images of Muslims - ملاحظہ ہو مبارک علی کی کتاب علماء اور سیاست، فکشن ہاؤس ۱۸ مزنگ روڈ لاہور ص ۴۹