مطیع سید: نبی ﷺنے حضرت علی کو درمیانی انگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔1 اس کی کیا وجہ تھی؟
عمار ناصر: بعض چیزیں اتنی لطیف ہوتی ہیں کہ پیغمبر کا ذوق ان کو محسوس کرتا ہے، ہماری ذوقی گرفت میں نہیں آتیں۔ اسی طرح بعض بہت لطیف چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق پیغمبر کوئی عمومی ہدایت بھی بیان نہیں کرتا۔صرف اپنے لیے اور اپنے خاص متعلقین کے لیے ان سے گریز کو پسند کرتا ہے۔ یہ بھی انھی میں سے ہے۔ روایت میں دو تین اور چیزوں کابھی ذکر ہے جن کے متعلق حضرت علی بتاتے ہیں کہ ان سے ہمیں منع کیاگیاہے، لیکن میں نہیں کہتاکہ تمہیں بھی یعنی عام لوگوں کو بھی منع کیاگیاہے۔
مطیع سید: جیسے ایک صحابی کو آپ نے چھوٹی عمر کا جانور قربان کرنے کی اجازت دی اور فرمایا کہ تمھارے بعد کسی اور کے لیے یہ رخصت نہیں ہے۔
عمار ناصر: نہیں، وہ تو ایک فقہی حکم تھا جس میں خصوصی طور پر کسی کو رخصت دی جا سکتی ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ آپﷺ صرف انھی کو ان کا پابند کرتے تھے جن کے بارے میں آپ چاہتے ہیں کہ یہ میرے شخصی ذوق کا بھی خیا ل رکھیں،لیکن عمومی طورپر لوگوں کو اس کا پابند نہیں بناتے تھے۔
مطیع سید: نبیﷺ نے بال لگوانے سے منع فرمایا2 لیکن آج تو علما اس کی اجازت دیتے ہیں۔
عمار ناصر:حدیث میں جس صورت سے منع کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اصل بالوں کے ساتھ زائد بال اس طرح جوڑ لیے جائیں کہ وہ قدرتی اور اصلی دکھائی دیں۔ یہ تصنع ہے جس کو نبیﷺ کے مزاج اور ذوق نے پسند نہیں کیا۔ اگر اس میں دھوکے اور تلبیس کا پہلو بھی شامل ہو جائے تو پھر یہ حرمت کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ آج کل بھی اگر اسی طرح کی صورت ہو تو اس کاحکم یہی ہوگا۔ لیکن ایک چیز اور جدید ٹیکنالوجی نے پیدا کی ہے کہ آپ گنجے پن کا علاج مصنوعی طور پر بال لگوا کر کر سکتے ہیں۔ یہ اور چیز ہے، اس کی نوعیت علاج کی یا ایک عیب کو دور کرنے کی ہے۔ یہ اس حدیث کے تحت نہیں آتی۔
مطیع سید: نبیﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ انا قاسم واللہ یعطی، میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ دیتا ہے۔3 یہ آپ ﷺ نے کن معنوں میں فرمایا؟علم کے حوالے سے یا مال کی تقسیم کے حوالے سے؟
عمار ناصر: جس سیاق میں آپﷺ نے یہ فرمایا، وہ تو مال کے حوالے سے ہی تھا۔ اگر علمی حوالے سے کہا ہوتو وہ بھی ٹھیک ہے۔البتہ اس میں وہ تصور بالکل نہیں پایا جاتا جو بریلوی حضرات بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کو مختار کل بنا دیا گیا تھا۔ تکوینی امور میں آپ بھی اللہ کے دوسرے بندوں کی طرح دعا کے ہی محتاج تھے اور دعا ہی کر سکتے تھے۔
مطیع سید: رباح،یسار، نافع وغیرہ ناموں سے آپﷺ نے منع فرمایا۔4 یہ تو اچھے نام ہیں، ان سے کیوں منع کیا گیا؟
عمار ناصر: اس کی وجہ حدیث میں ہی ذکر ہوئی ہے کہ آپ نے اس کو ناپسند کیا کہ کوئی پوچھے، کیا گھر میں رباح (یعنی فائدہ اور نفع) ہے اور جواب میں کہا جائے کہ نہیں ہے۔ اسی طرح پوچھا جائے کہ نافع گھر میں ہے اور کہا جائے کہ نہیں ہے۔ مطلب یہ ایک لطیف ذوق کی بات ہے کہ بلا ارادہ بھی گھر میں نفع اور فائدہ کی موجودگی کی نفی نہ کی جائے۔ یہ ایک طرح سے تفاول کے اصول کا اطلاق ہے۔ البتہ حدیث میں ہی یہ وضاحت بھی ہے کہ آپ نے ان ناموں سے منع کرنے کا بس ارادہ ہی فرمایا، عملاً ایسا کیا نہیں اور نہ ہی ایسے ناموں کو تبدیل کیا۔
مطیع سید: عام طورپر جونبیﷺ نے نام تبدیل فرمائے، وہ بھی اسی طرح کی وجوہ سے فرمائے؟
عمار ناصر: جی، عموماً نام کے معنی میں کوئی ایسی بات ہوتی تھی۔ جیسے ایک لڑکی کا نام برّۃ تھا جس کا معنی ہوتا ہے بڑی نیک تو آپﷺ نے فرمایا کہ بدل دو۔لاتزکوا انفسکم، خود کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو۔لیکن آپ اس کی بنیاد پر کوئی اصول اخذ کرنا چاہیں کہ کوئی بھی ایسانام جس میں تعریف کا پہلو ہو، وہ نہیں رکھنا چاہیے تو وہ بھی نہیں ہو سکتا۔کئی صورتوں میں بس پیغمبر کے ذوق اور پسند سے ہی حکم کی توجیہ کی جا سکتی ہے۔ اس سے کوئی عام شرعی اصول اخذ نہیں ہوتا۔
مطیع سید: اہلِ کتاب کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایاکہ ان کو سلام میں پہل نہ کرو اور وہ سلام کریں تو صرف وعلیکم کہو۔5 یہ بات میرے خیال سے اس وقت کے خاص حالات سے متعلق ہی لگتی ہے۔
عمار ناصر:میرا خیال بھی یہی ہے کہ اس وقت کا جو خاص ماحول تھا، اس کے تناظر میں یہ کہا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تھی اور اہلِ کتاب کا ایک گروہ تھا جو پیغمبر کو سامنے پا کر اور صداقت کی نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا رہا تھا۔تو ان سے ایک خاص طرح کا فاصلہ رکھنے اور ان سے براءت کے اظہار کا طریقہ اختیار کیا گیا۔بہت سے فقہاء اس کی تعمیم بھی کرتے ہیں، یعنی تمام غیر مسلموں پر اس کا اطلاق کرتے ہیں۔لیکن میری رائے میں اگر کسی ماحول میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے عمومی تعلقات پرامن اور خوشگوار ہوں اور ایک دوسرے کو سلام نہ کرنے سے معاشرتی تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوتی ہو یا مسلمانوں سے متعلق کوئی منفی تاثر پیدا ہوتا ہو جو دعوت کے لیے یا مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہو تو پھر اس پر اصرار کرنا درست نہیں۔ یہ کیا جا سکتا ہے کہ سلام کرتے ہوئے ہدایت کی نیت ذہن میں رکھ لی جائے، لیکن ظاہری میل جول کے آداب کی حد تک سلام اور سلام کا جواب دینا چاہیے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ کے متعلق بھی مروی ہے کہ ایک سفر میں وہ کچھ یہودی یا مسیحی رفقاء سے جدا ہونے لگے تو ان کو سلام کیا۔ ساتھیوں نے اس پر اعتراض کیا تو ابن مسعود نے فرمایا کہ رفاقت کا حق ہوتا ہے، وہ ادا کرنا چاہیے۔
مطیع سید: نظر کے بارے میں آپﷺ نے فرمایاکہ تقدیر سے سبقت لے جانے والی کوئی چیز اگر ہوتی تو نظر ہوتی۔6 گویا یہ تقدیر سے سبقت نہیں لے جاسکتی، لیکن پھر نظر کے برحق ہونے کا کیا مطلب؟
عمار ناصر: نظر کا برحق ہونا تو تقدیر کے منافی نہیں۔ جیسے باقی تمام اسباب جو کسی فائدے یا نقصان کا ذریعہ بنیں، وہ تقدیر کے منافی نہیں۔ نظر لگنا بھی اسباب میں سے ایک سبب ہے اور اس حدیث میں اس کی تاثیر کی شدت بیان کی جارہی ہے کہ اگر تقدیر سے آگے بڑھ جانے والی کوئی چیز ہوتی تو یہ ہوتی، یعنی اتنا موثر سبب ہے۔
مطیع سید: آپﷺ جب بیمار تھے تو آپ کے منہ میں دوا ڈالی گئی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے گی جو یہاں موجود ہیں۔7 یہ کس حوالے سے نبی ﷺ نے فرمایا؟کیا آپ دوا نہیں پیناچاہ رہے تھے؟
عمار ناصر: جی، آپ پینا نہیں چاہ رہے تھے، لیکن حضرت عباس نے ازواج کے ساتھ مل کر زبردستی پلادی۔ بدلے میں پھر آپ نے بھی سب کو دوا پلوائی۔ یہ آپ کا اہل خانہ کے ساتھ دل لگی کا ایک انداز تھا۔
مطیع سید:آپﷺ نے فرمایاکہ مجھے فال پسند ہے۔8
عمار ناصر: اس سے اچھی فال مرادہے۔ بری فال کی تو آپﷺ نے نفی کی ہے۔
مطیع سید: اچھی فال اور بری فال میں فرق کیسے کریں گے؟
عمار ناصر: بری فال وہ ہے جسے ہم بدشگونی کہتے ہیں۔مثلاً کوئی ایسا کام ہو گیا جو بظاہر ناخوشگوار ہے تو آدمی یہ سوچے کہ یہ گویا اشارہ یا نشانی ہے کہ اس کام کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔یہ توہم ہے۔اچھی فال اچھی سمجھی گئی ہے،اس لیے کہ وہ آپ کے دل میں امید پیداکرتی ہے،اور اس سے دل میں اللہ تعالیٰ کے متعلق اچھا اعتقاد پیداہوتاہے۔ اس کی تحسین اسی پہلو سے ہے کہ اس سے انسان کے دل میں اللہ کے بارے میں اچھا گمان اور اچھی امید پیداہوتی ہے۔مثلاً آپ کوئی کام کرنے جارہے ہیں اور اچانک کوئی بندہ آگیا جس کا نام فلاح یا نافع ہے تو آپ اس سے یہ اچھی توقع قائم کریں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامیابی ملے گی۔اصل میں آپ اللہ سے امید وابستہ کررہے ہیں جو کہ اللہ کو پسند ہے۔ایمان کی یہ نشانی ہے کہ آپ اللہ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھیں۔
مطیع سید: یہ دست شناس اور نجومی وغیرہ بھی اگر آپ کے اندر ایسے ہی امید پیداکریں تو ان کے پاس جانا کیسا ہے؟
عمار ناصر:یہ بالکل اور چیز بن جاتی ہے۔ اچھی امید انسان کے اپنے احساس اور گمان کی بنیاد پر ہو تو یہ اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بناتی ہے۔ لیکن اس کو آپ ایک فن بنا دیں اور غیب دانی کا کوئی ذریعہ سمجھ لیں تو وہ انسان کو توہم پرست بنادیتاہے۔ ایمان تو چاہتاہے کہ آپ مستقبل کے بارے میں اللہ پر اعتماد رکھتے ہوئے اور اس پر توکل کرتے ہوئے معاملات کو انجام دیں۔ خود کو یقین دلانے کے مصنوعی اور غیر یقینی طریقے اختیار نہ کریں۔
مطیع سید:چھپکلی کو مارنے کا خاص طورپر اجر بیان کیا گیاہے9 حالانکہ چوہا اور دیگر جانور بھی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
عمار ناصر: بعض روایات میں اس کا تعلق حضرت ابراہیم کے واقعے سے جوڑاگیاہے کہ یہ چونکہ ان کی آگ کو بھڑکانے کے لیے پھونک مارتی تھی، اس لیے اس کو مار دیا کرو۔مختلف جانوروں کی طبیعت میں شر تو ہوتا ہی ہے جس کی وجہ سے وہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض جانوروں میں کفر وایمان کے ساتھ بھی مناسبت ہوتی ہے۔ تو چھپکلی طبعاً بھی ایک خبیث چیزہے جس کے اندر شر کا مادہ پایاجاتاہے اور کفر وایمان کے تقابل میں بھی اس کی مناسبت کفر سے ہے۔
مطیع سید:آپﷺ نے فرمایاکہ حوضِ کوثر پر میرے پاس آنے سے کچھ لوگوں کو روک دیا جائے گا۔وہ میرے صحابہ میں سے ہوں گے جو دنیا میں میرے ساتھ رہے ہوں گے۔10 یہ اصحابِ رسول میں سے ہی کچھ لوگوں کی طرف اشارہ ہے؟
عمار ناصر: حدیثوں میں اصحاب کی تعبیر دو طرح سے آتی ہے۔بعض حدیثوں میں اصحاب کالفظ آپ کے ان قریبی ساتھیوں کے لیے بولا گیا ہے جو آپ کے انتہائی معتمد تھے۔بعض دوسرے مواقع پر ذرا عموم کے ساتھ یہ لفظ آپ کے دور کے مسلمانوں کے لیے بولا گیا ہے جو مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے۔ان میں بہت سے منافقین بھی تھے اور بہت سے وہ لوگ بھی تھے جو آپ کی وفات کے بعد ارتداد کے فتنے کا شکار ہو گئے۔یہ بھی ہو سکتاہے کہ ان میں سے کچھ لوگ جس طرح ایک منتخب گروہ اپنے عہد پر قائم رہا،وہ اس طرح قائم نہ رہے ہوں۔ تو حوض کوثر سے روک دیے جانے والوں میں یہ سب لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد اور ثابت قدم اصحاب کی جو جماعت تھی، وہ اس سے مراد نہیں ہے۔
مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کےدرمیان مہرِ نبوت تھی۔11 روایت سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اسے ازخود بطور دلیل نبوت پیش نہیں فرمایا۔کسی نے دیکھاتو چھپ چھپا کر یا فرمائش کر کے ہی دیکھا۔اگر یہ مہرِ نبوت تھی تو آپﷺ نے باقاعدہ اسے بطور دلیلِ نبوت پیش کیوں نہیں فرمایا؟
عمار ناصر:نبوت کی مہر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کے کندھے پر مہر کا ہونا اس کو نبی ثابت کرتاہے۔یہ اس نوعیت کی چیز نہیں ہے۔یہ تو من جملہ علامات میں سے ایک جسمانی علامت تھی جو اہل کتاب کو بتائی گئی تھی،اور ظاہر ہے کہ یہ سب کے لیے اس طرح مفید بھی نہیں ہوسکتی تھی۔یہ تو انھی کے لیے مددگار ہو سکتی تھی جن کو ان نشانیوں کا کچھ علم تھا۔ تو جس نے آکر تحقیق کرنا چاہی، آپﷺ نے اس کو دکھا دی، لیکن عمومی طور پر ظاہر ہے یہ کوئی ایسی دلیل نہیں تھی کہ اسے یوں پیش کیا جاتا کہ دیکھو، چونکہ میرے کندھے پر مہر نبوت ہے، اس لیے میں نبی ہوں۔
مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ جب بچہ پیداہونے کے بعد روتاہے تو شیطان کے کچوکا لگانے سے روتا ہے۔12 سائنسی لحاظ سے توپیدائش کے فوراً بعد بچے کا رونا نہایت ضروری ہوتاہے۔اسی سے اس کے پھیپھڑے کام کرنا شروع کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات اسے خود رُلایا جاتا ہے۔
عمار ناصر: اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ اس کا رونا اچھا ہے یا براہے۔یہ بھی نہیں کہا گیا کہ اس کو رونا نہیں چاہیے۔ رونے کے، طبی یا جسمانی لحاظ سے بہت سے فوائد بھی ہیں، لیکن ایک پہلو سے رونا بظاہر ناخوشی اور دکھ کی بھی علامت ہے۔ اس پہلو سے اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔ حدیثوں میں آپ کو یہ اسلوب عام ملے گا کہ کسی بھی بُرے عمل کی نسبت عموماً شیطان کی طرف کی جاتی ہے۔اس سے مقصود انسان کو شیطان سے متنفر کرنا ہوتا ہے۔ حدیث سے مزید یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک سلسلہ اسباب وہ ہے جو ہمارے لیے مادی لحاظ سے قابل ادراک ہے،اور اس کے ساتھ ایک اور سلسلہ بھی ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔بہت سی احادیث میں اس غیبی سلسلہ اسباب کے کچھ پہلو بیان کیے جاتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جیسے ملائکہ کسی انسان کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں،اسی طرح شیاطین بھی پیدائش کے وقت سے ہی وابستہ ہو جاتے ہیں۔
مطیع سید: ختنہ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے نہیں ہوتا تھا؟13
عمار ناصر:بظاہر تو حدیث سے اور بائبل کے بیان سے بھی یہی لگتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ سے ہی ایک رسم کے طور پر اس کی ابتدا کی گئی۔ اول من اختتن کے الفاظ آئے ہیں۔ البتہ تاریخی لحاظ سے حتمی طور پر یہ کہنا کہ اس سے پہلے یہ طریقہ بالکل ہی نہیں تھا، مشکل ہے۔ ممکن ہے، فی نفسہ یہ طریقہ تو موجود ہو، لیکن خاص ماحول اور خطے میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت ہوئی، ثقافتی روایت کے طور پر یا مذہبی عمل کے طور پر اس کا رواج نہ ہو۔ اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے دور میں پہلی مرتبہ اس کو شریعت کا حصہ بنایا گیا اور ایک پوری امت نے اس کو اختیار کر لیا۔
مطیع سید: حضرت ابراہیم ؑ نے تین خلاف واقعہ باتیں کہیں،یہ مشہور روایت ہے۔14 اس کی آپ کیا تاویل کرتے ہیں؟ قرآن تو ان کو صدیقا نبیا کہتاہے۔
عمار ناصر:عربی میں اصل میں کذب کا لفظ وہاں بھی بول دیاجاتاہے جب حقیقت کے لحاظ سے یا سننے والے کے فہم کے لحاظ سے بات خلاف واقعہ ہو، لیکن کہنے والے کی نیت غلط بیانی کی یا جھوٹ کی نہ ہو۔اسی طرح بعض جگہ قائل جان بوجھ کر کسی حکمت کے تحت ایسے ذومعنی الفاظ بولتا ہے جن کی اصل مراد کو سامع سے اوجھل رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ اس کو توریہ کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے جن مثالوں کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے، وہ اسی نوعیت کی ہیں۔ معروف اور اصطلاحی مفہوم میں جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے، وہ یہاں مراد نہیں۔
مطیع سید: آپﷺ نے فرمایاکہ انبیا کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ایک موقع پرفرمایا کہ یونس بن متی پر بھی مجھ کو فضیلت نہ دو۔15 جبکہ قرآن کہتاہے کہ ہم نے بعض انبیا کو بعض پر فضیلت دی ہے۔
عمار ناصر:یہ دونوں باتیں درست ہیں، لیکن موقع ومحل الگ الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو باہم فضیلت تو دی ہےاور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر بھی کرتے ہیں۔نبیﷺ نے بھی بعض مواقع پر آپ کو جو خاص فضیلتیں دی گئیں،ان کا ذکر کیا۔لیکن بعض صورتوں میں وہی بات جو فی نفسہ درست ہوتی ہے، محرک بدل جانے سے نادرست قراردی جاتی ہے۔اگر تو محض اللہ کے فضل اور انعام کو بیان کر نا مقصود ہے،پھر تویہ ٹھیک ہے کہ انبیاء کی باہمی فضیلت کا ذکر کیا جائے۔ لیکن اگر یہ پہلو شامل ہو جائے کہ ایک نبی کی فضیلت کے ذکر سے دوسرے نبی کو کم تر دکھانا مقصود ہے تو پھر یہ جائز نہیں۔ اسی طرح دوسرے انبیاء کے ماننے والوں کے سامنے فضیلت جتائی جائے تو ان کی عقیدت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس سے بھی حدیث میں منع کیا گیا ہے۔
مطیع سید: آپﷺ نےفرمایا کہ کوئی ایسا نبی ہوا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔16 ایسے تو کئی انبیا ہیں مثلا ً حضرت سلیمان جنھوں نے شاید کبھی بکریاں نہیں چرائی ہوں گی۔ حضرت یوسف تو بچپن میں ہی مصر چلے گئے اور شاہی محل میں پہنچ گئے۔
عمار ناصر: حضرت سلیمان نے بھی ہو سکتاہے، بکریاں چرائی ہوں۔حضرت داؤد تو چراتے رہے ہیں، ہو سکتا ہے حضرت سلیمان بھی ساتھ چراتے رہے ہوں۔ اسی طرح حضرت یوسف نے بھی ممکن ہے، بچپن میں چرائی ہوں یا مصر میں جس عرصے میں غلام رہے، تب چرائی ہوں۔ البتہ یہ سمجھنا چاہیے کہ حدیث میں بعض دفعہ تعمیم کے اسلوب میں کہی جاتی ہے۔ اس سے یہ سمجھنا کہ اس میں کوئی استثنا نہیں ہوگا، یہ ضروری نہیں ہوتا۔
مطیع سید: یعنی یہ کہہ سکتے ہیں کہ انبیا ء کی اکثریت ایسی تھی؟
عمار ناصر: جی، مثلاً اگر یہ کہنا ہو کہ کم ہی کوئی نبی ہوگا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں تو عربی میں اس کے لیے بھی تھوڑے سے مبالغے کے اسلوب میں یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ ما من نبی الا۔ اور یہ سمجھ میں بھی آتاہے کہ انبیاء کا تعلق عموماً دیہی کلچر سے ہی رہا ہے۔ اس زمانے میں شہری کلچر بھی بڑی حد تک دیہی ہی ہوتا تھا۔
مطیع سید: روایت ہے کہ نبیﷺ کچھ لکھوانا چاہ رہے تھے،تو حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں ابوبکر کے حوالے سے تحریر لکھوا دوں تاکہ کوئی خلافت کی تمنا نہ کرے۔17 اس روایت سے تو بڑا واضح ہو جاتاہے کہ نبیﷺ کیا لکھواناچاہ رہے تھے۔
عمار ناصر:جی، واضح ہے۔ صورت حال اور سیاق بھی یہ تھا اور آپ ﷺ چاہ بھی یہی رہے تھے کہ اس معاملے کو بالکل واضح کردیں تاکہ کوئی مسئلہ نہ کھڑاہو۔
مطیع سید: عبد اللہ بن ابی کے جنازے پر حضرت عمر نے آپﷺ کو روکنے کی کو شش کی لیکن آپ نے پھر بھی پڑھا دی۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع فرمادیا۔18 اس کے بعد باقی منافقین کہاں گئے؟ حضرت عائشہ کے بقول تو منافقوں کا ایک سمندرتھا۔تو کیا کسی روایت میں آیاہے کہ کسی منافق کے جنازے کا مسئلہ نبیﷺ کے دور میں پیدا ہواہو اور آپﷺ نے اس کا جنازہ پڑھنے سے انکارکر دیاہو؟ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد منافقت کی پوری تحریک ہی زیرِزمین چلی گئی۔
عمار ناصر: اصل میں کچھ لوگ تھےجو منافقت میں بالکل نمایاں ہوکر سامنے آگئے تھے۔ قرآن نے ان کے بارے میں کہا کہ ان کا نفاق مختلف مواقع پر بالکل ابھر کر سامنے آگیاہے، ان کو نماز جنازہ پڑھانے کا اعزاز نہ دیا جائے۔ اسی طرح جن کے متعلق آپ کو وحی کے ذریعے سے بتا دیا گیا کہ وہ منافق ہیں، قرین قیاس یہی ہے کہ آپ اس ممانعت کے بعد ان کی بھی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے ہوں گے۔ البتہ یہ ضروری نہیں تھا کہ آپ اس کا اعلان بھی کریں کہ میں اس لیے جنازہ نہیں پڑھا رہا کہ یہ منافق تھا۔ اصل میں رسول اللہﷺ کو منع کیا گیا تھا کہ آپ نے ان کا جنازہ نہیں پڑھانا۔یہ نہیں کہا گیا کہ ان کی نمازِ جنازہ ہی نہ پڑھی جائے۔ البتہ بعد میں حضرت عمر بھی اس کا اہتمام کرتے تھے کہ کسی منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔حضرت حذیفہ کو آپﷺ نے ایک خاص واقعے میں بہت سے لوگوں کے نام بتائے تھے جو درپردہ منافق تھے۔تو مدینہ میں جب کوئی شخص فوت ہوتا تو حضرت عمر دیکھتے تھے کہ جنازے میں حذیفہ ہیں یا نہیں۔ اگر حذیفہ ہوتے تو حضرت عمر بھی جنازے میں شریک ہو جاتے تھے، ورنہ نہیں ہوتے تھے۔
مطیع سید: حضرت امیر معاویہ نے حضرت سعد کو خط لکھا کہ تم علی کو برا بھلاکیوں نہیں کہتے؟ یہاں لفظ "سبّ" آیاہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں علی کے بارے میں تین ایسی باتیں جانتاہوں کہ اگر ان میں سے ایک بھی میرے پا س ہوتی تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا۔19 اس روایت میں تو بڑا واضح ہے کہ وہ انہیں ابھار رہے ہیں کہ تم علی پر سب و شتم کیا کرو۔ تو یہ کیوں کہاجاتاہے کہ حضرت امیر معاویہ نے حضرت علی پر سب وشتم نہیں کروایا؟
عمار ناصر:جی،ہمارے ہاں تو ایسا ہی ماحول بن گیاہے کہ اس طرح کی ہر روایت کو کہہ دیا جاتاہے کہ یہ وضع کی گئی ہے۔تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں باہمی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے بارے میں برا بھلا کہنے کا عمل ہوا تھا۔ اس رسم بد کی ابتدا مخالفین عثمان نے کی تھی اور حضرت عثمان پر سیاسی ودینی اعتراضات اٹھانے کے علاوہ ان کے خلاف فتنہ برپا کرنے کے لیے لعن طعن اور سب وشتم کی رسم بھی جاری کی تھی۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حالات کے جبر کے نتیجے میں یہ سارا کیمپ حضرت علی کی چھتری تلے جمع ہو گیا تو دوسری طرف سے سب وشتم کی اسی بد رسم کا ہدف حضرت علی کو بنا لیا گیا، کیونکہ حضرت عثمان کے برابر کی شخصیت وہی تھے۔ ظاہر ہے، حضرت عثمان کے متعلق عیب جوئی یا بدزبانی کا بدلہ مالک اشتر کو گالی دینے سے نہیں ہو سکتا تھا، تسلی اور اطمینان تبھی ہو سکتا تھا جب نعوذ باللہ حضرت علی کو برا بھلا کہا جائے۔ گویا دونوں بزرگ اپنے مقام اور حیثیت کی وجہ سے فریقین کے سب وشتم کا مرکزی ہدف بن گئے تھے، حالانکہ دونوں کے درمیان کوئی شخصی جھگڑا نہیں تھا۔
البتہ اس "سبّ" کی نوعیت کیا تھی،یہ دیکھنے کی چیزہے۔وہ غالباً اسی مفہوم میں تھا کہ متحارب گروہ اور سیاسی فریق ایک دوسرے کے لیڈروں کے بارے میں معائب یا نقائص بیان کرتے تھے یا مختلف حوالوں سے نکتہ چینی کرتے تھے۔بسا اوقات خود کو حق پر اور مخالف کو باطل پر سمجھ کر ایک دوسرے پر لعن بھی کرتے تھے۔یہ لعن کا عمل صرف ایک طرف سے نہیں ہوا، حضرت علی کی طرف سے اور ا ن کے ساتھیوں کی طرف سے بھی مخالفین کے خلاف ہوا۔اہل شام کے بارے میں قنوتِ نازلہ کا اہتمام اور ان پر لعنت کی ابتدا حضرت علی نے کی تھی،اس لیے کہ وہ اپنے برحق ہونے کا پورا یقین رکھتے تھے اور مخالفین کو باغی سمجھتے تھے۔جواب میں اہل شام نے بھی قنوت نازلہ شروع کر دی۔
مطیع سید: حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں اسلام لانے سے تین سال پہلے بھی نماز پڑھتاتھا۔20 غامدی صاحب اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن نے نماز کا ڈھانچہ اس لیے بیان نہیں کیا کہ وہ عربوں کے ہاں معروف تھا۔ کیا یہ درست ہے؟
عمار ناصر: یہ بات تو ٹھیک ہے کہ نماز کا تصور اور اس کا طریقہ عرب میں معروف تھا۔ قرآن نے جب کہا کہ اقیموا الصلوۃ تو وہ ایک نئی اصطلاح نہیں تھی،بلکہ عرب کے ہاں معروف تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بھی ابتداءً اسی کے مطابق نماز پڑھتے تھے۔ روایات میں ہے کہ آپ نبوت کے بعد ابتدائی سالوں میں چاشت کے وقت کی نماز تو کھلے بندوں پڑھتے تھے، کیونکہ قریش کے لوگوں میں یہ وقت نماز کے لیے معروف تھا اور وہ بھی یہ نماز پڑھتے تھے، البتہ دیگر نمازیں آپ اور اہل ایمان چھپ کر ادا کرتے تھے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے طریقے میں ابتداءً خاص فرق نہیں تھا۔ لیکن پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تدریجاً اس میں ضروری تبدیلیاں بھی کیں اور بہت سے نئے احکام شامل کیے۔ وہ ظاہر ہے، پہلے سے معروف نہیں تھے بلکہ پیغمبر کے بتانے سے شریعت کا حصہ بنے۔
مطیع سید: ایک واقعہ تفسیروں میں بیان کیا جاتاہے کہ حضرت داؤد کو ایک عورت پسند آگئی تھی جو کسی کی بیوی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ جب وہ عورت انہیں پسند آگئی تو انہوں نے اسے طلاق دلوا دی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مروا دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس دورکا یہ کلچر تھا کہ کسی کی بیوی پسند آ جائے تو اس کے خاوند سے بات کرلیتے تھے کہ تم اسے چھوڑ دو۔کیاقرآن نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیاہے؟
عمار ناصر: یہ واقعہ بائبل میں بیان ہواہے کہ حضرت داود علیہ السلام چھت پر چڑھے تو دیکھا کہ ان کے پڑوسی اوریا حتی کی بیوی نہا رہی تھی۔ وہ انہیں پسند آگئی۔ پھر انھوں نے اس کو اس نیت سے کسی محاذ جنگ پر بھیج دیا کہ وہ جنگ میں مر جائے اور وہ اس کی بیوی سے نکاح کر لیں۔قرآن میں یہ واقعہ تو نہیں ہے، لیکن قرآن نے حضرت داود کے حوالے سے ایک خاص مثال بیان کی ہے کہ انھیں متنبہ کرنے کے لیے ان کے پاس دو ایسے فریق بھیجے گئے جن میں سے ایک دوسرے کی دنبی لے لینا چاہتا تھا، حالانکہ اس کے پاس ایک ہی دنبی تھی اور دوسرے کے پاس ننانوے تھیں۔ اس سے مفسرین نے قیاس کیا ہے کہ یہ شاید اسی طرح کے کسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن ہے، بعینہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہو،لیکن اس واقعہ کے علاوہ اور بھی کوئی بات ہو سکتی ہے۔
مطیع سید: اسرائیلی واقعہ کو اگر ہم لیں تو اس سے ایک پیغمبر کی شان پر حرف نہیں آتا؟ پرانےمفسرین نے اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس واقعہ کو لے لیا تو کیا اُن کے سامنے یہ پہلو نہیں تھا؟
عمار ناصر: بائبل میں جو تفصیلات مذکور ہیں، ان کے متعلق تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ساری صحیح ہیں یا قرآن ان کی تصدیق کر رہا ہے۔ ہمارے قدیم مفسرین عموماً اس آیت کے تحت اسرائیلی واقعہ ہی نقل کر دیتے ہیں، اس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔لیکن دورجدید میں زیادہ تر مفسرین اس روایت پر نقد کرتے ہیں۔
مطیع سید:اگر یہ واقعہ نہیں تھا، لیکن اس سے ملتا جلتا کوئی اور واقعہ تھا تو کیا نبی سے ایسا فعل صادر ہو سکتا ہے؟
عمار ناصر: انبیا کے بارے میں قرآن یہ بیان کرتاہے کہ وہ اللہ کے بہت منتخب بندے ہوتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ بشریت بھی ہوتی ہے، خواہشات بھی ہوتی ہیں، اور ان سے کچھ نامناسب چیزیں بھی سرزد ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ فوراً متنبہ ہو کر معافی کے طلب گار ہو جاتے ہیں۔وہ بالکل فرشتہ نہیں ہوتے۔ قرآن نے جو دنبیوں والی مثال بیان کی ہے، اس سے حضرت داؤد کو ان کی کسی غلطی کی طرف متوجہ کرنا ہی مقصود تھا۔قرآن کے بیان کے مطابق وہ فوراً سمجھ گئے اور انہوں نے توبہ کی اور اللہ نے بھی وہ خطا معاف کر دی۔فغفرنا لہ ذالک۔
مطیع سید: مجھے ایسے لگتاہے کہ نبی جب دنیا سے وفات پاتاہے، تب اس کی پوری زندگی عصمت والی ہوجاتی ہے۔مطلب جب تک وہ زندہ ہوتاہے،اس بات کا امکان ہے کہ اس سے کوئی خطاہو جائے۔ساتھ ساتھ اس کی اصلاح کا عمل بھی جاری رہتاہے، لیکن جیسے ہی وہ دنیا سے چلا جاتا ہے،اس کی زندگی مکمل ہو جاتی ہے۔ اب وہ مکمل طور پر گناہوں یا خطاوں سے پاک ہے۔
عمار ناصر:جی، یہ بھی تعبیر درست ہے کہ نبی دنیا سے گویا طاہر ومطہر ہوکر جاتا ہے۔
مطیع سید:کسی نے ایک اونٹنی پر لعنت کی،آپﷺ نے فرمایاکہ اسے چھوڑ دو۔ یہ ملعونہ ہے، یہ ہمارے ساتھ نہیں چلے گی۔21 ایک آدمی کی غلطی کی وجہ سے اونٹنی کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟
عمار ناصر: مراد یہ تھی کہ ایک ایسی چیز جس پر لعنت کر دی گئی ہے، وہ سفر میں ہمارے ساتھ نہ ہو۔ اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ لوگوں پر جانوروں پر لعنت کرنے کی شناعت واضح کی جائے، تاکہ وہ اس کو ہلکا اور معمولی عمل نہ سمجھیں۔ یعنی یہ حساسیت پیدا کرنے کا ایک حکیمانہ اسلوب تھا۔
مطیع سید: وعدہ الست مجھے تو یاد نہیں ہے۔کسی کو بھی یاد نہیں،کوئی نہیں کہتا کہ مجھے اس کا شعور ہے۔تو کیا یہ اعتراض نہیں بن جاتا کہ ایسے واقعے کا حوالہ دیاجارہاہے جو کسی کو یادنہیں؟
عمار ناصر:یہ کوئی ضروری بھی نہیں کہ مجھے اس وقت یاد ہو۔انسانی شعور کی مختلف سطحیں ہیں۔ نفسیات بتاتی ہے کہ جو اس کی تین سطحیں(شعور، تحت الشعور، لاشعور ) ہیں،اس میں احساس آپ صرف اسی کاکرسکتے ہیں جو آپ کےشعور کی سطح پر ہے۔ہمیں اس وقت وہ عہد یاد نہیں ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جب ہم سے یہ عہد لیا گیا تھا، اس وقت یہ پوری طرح ہماری شخصیت کا حصہ تھا،اور قیامت میں جب ہم سے پوچھا جائے گاتو پھر یہی کیفیت ہوگی۔
مطیع سید: بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بعد کی بات ہے جب آدم علیہ السلام پیداہوگئے اور دنیامیں آگئے تو ان کو اور ا ن کی اولاد کو مخاطب کرکے یہ کہا گیاہے۔
عمار ناصر: جی، بعض مفسرین مثلاً ابن کثیر اس کو ایک واقعہ نہیں مانتے۔ان کی رائے یہ ہے کہ یہ روحوں کی دنیا میں کوئی حقیقی واقعہ نہیں ہوا۔بلکہ مطلب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کر دیا اور ان کی اولاد کے لیے اس دنیا میں خدا کی معرفت کے دلائل اور معاون ذرائع مہیا کردیے۔پھر ان سے کہا کہ اِن دلائل کو دیکھو اور خدا کو پہچانو۔ یعنی وہ اس کو ایک تمثیلی تعبیر سمجھتے ہیں۔لیکن قرآن کے الفاظ بظاہر اس کو قبول نہیں کرتے۔الفاظ سے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ واقعہ ہوا۔ وہ واقعہ عالمِ ارواح میں ہوا ہو،قرآن کے الفاظ اس کا بھی احتمال رکھتے ہیں۔وہ واقعہ اس دنیا میں آدم علیہ السلام کے آنے کے بعد ہوا،اس کا بھی احتمال رکھتے ہیں۔زیادہ قرینِ قیاس یہی ہے کہ وہ عالمِ ارواح کا واقعہ ہے،کیونکہ اس میں حضرت آدم کا ذکر نہیں ہے۔اس میں ذکرہے کہ اللہ نے بنو آدم سے عہد لیا،جبکہ دنیا میں تو ابھی سارے بنی آدم آئے ہی نہیں۔اس لیے یہ امکان زیادہ درست لگتا ہے کہ عالمِ ارواح میں یہ عہد لیا گیا۔
مطیع سید: ایک بندہ تھا،وفات پا گیا۔اس نے اپنے وارثوں سے کہا کہ مجھے جلا کر میری راکھ پانی میں پھینک دینا اور ہوا میں اڑا دینا تاکہ مجھے اللہ کے سامنے پیش نہ ہونا پڑے۔22 ایک طرف وہ ایمان والا ہے اور اسے اتنا خوف ہے اور دوسری طرف وہ عجیب قسم کی وصیت کر تاہے۔ کیا اسے خدا کی قدرت کے بارے میں معلوم نہیں تھا؟
عمار ناصر: یہ بڑادلچسپ واقعہ ہے۔اس واقعے سے مختلف کلامی گروہوں کے بنائے ہوئے قاعدے اور قانون ٹوٹتے ہوئے لگتے ہیں۔لیکن واقعہ یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل چیز دل کی کیفیت ہے،ظاہری اعمال اتنے اہم نہیں۔ اس شخص کو اللہ کی قدرت کا بھی علم تھا اور گناہوں کے مواخذے کا قانون بھی معلوم تھا، لیکن اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خوف اتنا غالب تھا کہ اس نے یہ وصیت کر دی اور اللہ تعالیٰ کو بھی اس کا یہ جذبہ اتنا پسند آیا کہ اسی پر اس کی بخشش کا فیصلہ کر دیا گیا۔
مطیع سید: کیا اس کو یہ اندازہ نہیں تھاکہ ایساکرنے سے کچھ نہیں ہوگا؟ اللہ تو قادر ہے، وہ مجھے پھر جسم عطاکر کے اپنے حضور کھڑ اکر دے گا؟
عمار ناصر: نہیں، یہ ضروری نہیں کہ وہ یہ سمجھتاہوکہ اس طرح اگر کر لیا جائے تو میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ جاؤں گا۔یہ ایک ایسا بندہ ہے جو اپنے احساس ندامت کی وجہ سے اللہ کے حضور میں پیش ہونے سے بچنے کے لیے اپنی بساط کے مطابق جو کچھ سکتاہے، کر گزرتاہے۔ بس اس کا یہی احساس اللہ کو پسند آیا اور اس کی بخشش کا ذریعہ بن گیا۔
مطیع سید: قیامت کے دن جہنم سے چھٹکارا پانے کے لیے مسلمان کو ایک فدیہ دے دیاجائے گا۔ مسلمان کو کہاجائے گا کہ تم اپنی طرف سے فدیے کے طور پر ایک آدمی دےدو اور جہنم کی سزا سے بچ جاؤ۔پھر کوئی یہودی یا نصرانی اس کے حوالے کر کے کہاجائے گا اس کو اپنی جگہ فدیے میں دے دو اور جہنم سے بچ جاؤ۔23 اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ تو عجیب سی بات لگتی ہے۔
عمار ناصر: اصل میں تو اللہ تعالیٰ مومن کو بخشنا چاہتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کے طے کردہ کسی اصول پر بھی کوئی زد نہیں آرہی۔ جس یہودی یا نصرانی نے اپنے اعمال یا کفر کی وجہ سے جہنم میں ہی جانا ہے، اسی کو مسلمان کا فدیہ بنا دیا جائے گا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سزا سے بچانے کے لیے ایک رسمی کارروائی اس طرح ہو جائے گی، ورنہ اصل میں تو اللہ کی طرف سے چھٹکارے کا فیصلہ ہی اس کی بنیاد ہوگا۔
مطیع سید:آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں بارہ منافق ہوں گے24 جبکہ حضرت عائشہ ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ جب نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو مدینہ میں منافقین کا سمندر تھا۔
عمار ناصر:اس روایت میں جو آپﷺ نے بارہ منافقین کا ذکر کیا ہے، یہ تو وہ ہیں جن کے نام آپﷺ نے حضرت حذیفہ کو بتائے تھے۔ یہ مدینہ کے سرکردہ منافقین تھے۔ باقی آپ کی وفات کے بعد کئی کمزور ایمان کے لوگ بھی متزلزل ہو گئے تھے اور بہت سے کچے پکے منافق بھی کھل کر سامنے آ گئے تھے۔ سیدہ عائشہؓ اس کا ذکر کر رہی ہیں۔
مطیع سید: ایک دفعہ آندھی چلی تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ آندھی کسی بڑے منافق کی موت کی وجہ سے ہے۔25 وہ کون تھا؟
عمار ناصر: احادیث کی کتابوں میں تو اس کے نام کی تصریح نہیں ملتی۔بس اتنا ذکر ہے کہ آپﷺ ایک سفر میں تھے اور آندھی چلی تو یہ بات ارشاد فرمائی۔ جب صحابہ مدینہ پہنچے تو پتہ چلا کہ ایک بہت سرکردہ منافق کا انتقال ہو چکا ہے۔ البتہ بعض تفسیری روایات میں ذکر ہے کہ یہ رفاعہ بن زید نامی ایک یہودی تھا جو منافقین کی بڑی سرپرستی کرتا تھا۔ بغوی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔
مطیع سید:حضرت آدم کے قد کے بارے میں جو روایتوں میں آتاہے،26 وہ جنت میں ان کے قد سے متعلق ہے یا زمین پر بھی اتنا ہی قد تھا اور پھر کم ہوتا چلا گیا؟ تاریخی طورپر تو اس کا ثبوت نہیں ملتا۔انسانوں کے انتہائی پرانے ڈھانچے بھی جو ملے ہیں، ان کا قد ہمارے جیسا ہی ہے۔
عمار ناصر: بظاہر تاریخی شواہد سے اس کی تائید نہیں ہوتی اور صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر نے بھی اس اشکال کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ اس کا کوئی جواب ان کے سامنے نہیں ہے۔ ابن خلدون نے بھی یہ اشکال پیش کیا ہے۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ابتدائی حالات کے بارے میں ہمار ی تحقیق ابھی مکمل نہیں،اور اگر روایت صحیح نہیں تو غالباً اسرائیلیات میں سے ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر اہل علم کا رجحان یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے اور ہماری موجودہ معلومات ناقص ہو سکتی ہیں، جبکہ بعض اہل علم سیدنا ابوہریرہ کی مرویات میں اسرائیلیات کے مخلوط ہو جانے کی متعدد دیگر مثالوں کے پیش نظر یہ رجحان رکھتے ہیں کہ یہ روایت بھی اسی قبیل سے ہے۔ دونوں آرا کی علمی طور پر گنجائش نظر آتی ہے، حقیقت حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
مطیع سید: یاجوج ماجوج کے دیوار چاٹنے والی روایت سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
عمار ناصر: مسند احمد میں یہ روایت ہے۔ اس پر ابن کثیر نے یہ تبصرہ کیاہے کہ یہ اسرائیلیات میں سے ہے۔سند اس کی اگرچہ صحیح ہے لیکن اسرائیلیات میں سے ہے اور غلطی سے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ویسے جس طرح کی تفصیل اس میں بیان ہوئی ہے، وہ کافی افسانوی سی چیز بن جاتی ہے۔
مطیع سید:قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک جہجاه نامی شخص بادشاہ نہ بن جائے۔27 کیا اس نام کا کوئی شخص بادشاہ بنا ہے؟
عمار ناصر: ابھی تک تو نہیں ہوا۔اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں ہوگا۔
مطیع سید:قیامت کے قریب یہودی جب درختوں کے پیچھے چھپیں گے تو سارے درخت ان کا چھپنا بتادیں گے، سوائے غرقدکے درخت کے۔28 آپﷺ نے فرمایا کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔درخت یا اس طرح کی چیزیں تو کسی مذہب کی نہیں ہوتیں۔یہ کس پہلو سے نبیﷺ نے فرمایا؟کیا درخت کے اندر فطری طورپر ایساکچھ ہے؟
عمار ناصر:یقیناً چیزوں میں ایسی مناسبتیں ہوتی ہیں۔ ہمارے ادراک کے لحاظ سے بظاہر درخت وغیرہ شعور اور کسی خاص چیز سے مناسبت نہیں رکھتے، لیکن یہ ہمارے ادراک کا قصور ہے۔ نبی کو اس طرح کے بہت سے غیبی امور کی بھی اطلاع ہوتی ہے۔
مطیع سید: ابن صیاد کے بارے میں پڑھ کر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ آپﷺ اس سےسوال پوچھتے ہیں اور وہ جواب دیتاہے۔پھر آپ نے پوچھا کہ جنت کی مٹی کیسی ہوگی،وہ اس کا صحیح جواب بتادیتاہے۔پھرآپ نے فرمایا کہ میں نے دل میں ایک بات سوچی ہے، بتاؤ وہ کیا ہے۔وہ بھی وہ آدھی بو جھ لیتاہے۔پھر جب ابن صیاد جوان ہوتاہے تو اس سے اس طرح کے واقعات صادر نہیں ہوتے۔پھر وہ حج کے لیے جاتے ہوئے یہ گلہ بھی کرتاہے کہ دیکھو تم نے مجھے دجال سمجھا اور میں تو مکہ میں داخل ہوں گا۔لیکن پھر آخر میں یہ کہہ کر پھر شک میں ڈال دیتاہے کہ مجھے پتہ ہے کہ وہ یعنی دجال کہاں ہے۔29
عمار ناصر:جی، یہ ایک دلچسپ کردار تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اند رکچھ خفیہ اور غیرمعمولی نفسی صلاحیتیں تھیں جن کی بدولت اس کو کشف صدور وغیرہ ہو جاتا تھا۔بعض صحابہ کو تو ان واقعات کی وجہ سے پورایقین تھا کہ وہی دجال ہے۔
مطیع سید: نبیﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا۔30 جب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ حضرت نوح،ادریس، ابراہیم علیہم السلام کے دور میں وہ نہیں آئے گا تو پھر ہر نبی اپنی امت کو اس سے کیوں ڈرارہا ہے؟ جب ایک نبی کی امت کو ایک فتنہ سے واسطہ ہی نہیں پڑنا تو اس سے اپنی امت کو ڈرانے کی کیا ضرورت ہے؟
عمار ناصر: اصل میں یہ پیش گوئی کے طور پر یعنی لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے اور اس فتنے سے متعلق پیشگی آگاہی دینے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔دیکھیں، حضرت مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد اور قربِ قیامت کے بہت سے مناظر اور بہت سے واقعات بھی آپ کو پیشین گوئیوں میں ملیں گے۔اسی طرح سابقہ صحائف میں بھی اور خصوصاً یوحنا کے مکاشفہ میں بھی ایسی بہت سی چیزیں ہیں۔تواس پہلو سے اسے دیکھاجا سکتاہے۔
مطیع سید: یاجوج وماجوج کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ یورپی اقوام ہیں،اور یاجوج وماجوج کے دنیا میں پھیل جانے سے انہی اقوام کا دنیا میں چھا جانا مرادہے۔لیکن حدیث میں آیا ہے کہ حضرت مسیح کے بعدان کا ظہور ہوگا۔پھر تو یہ تاویل درست معلو م نہیں ہوتی۔
عمار ناصر: اصل میں بابئل کے بیانات ہیں،جن میں سے کچھ ہمارے ذخیرے میں بھی نقل ہوئے ہیں کہ حضرت نوح کے تین بیٹے تھے،سام، حام اور یافث۔ حام جو سیاہ فام نسلیں ہیں،ان کا ابوالآبا ہے۔ عرب اور بنو اسرائیل وغیرہ، یہ سام کی نسل سے ہیں۔اور جوسفید فام نسلیں ہیں، ان کا باپ یافث ہے۔ روایت میں اہل روم کا لفظ آیا ہے جس سے مرا د یہی سفید فام نسلیں ہوتی ہیں۔ انھی یعنی یافث کی اولاد میں سے یاجوج وماجوج کے قبیلے تھے۔
یورپی اقوام کو یاجوج وماجوج قرار دینا یہ مولانا آزاد اور علامہ أنور شاہ صاحب وغیرہ کا رجحان ہے۔ علامہ أنور شاہ صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یاجوج وماجوج کے خروج کی پیشین گوئیوں میں کسی ایک خاص اور متعین واقعے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ ایک سلسلہ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے خروج کا پہلا مرحلہ سد ذو القرنین کے ٹوٹنے کا تھا جس کے بعد یاجوج وماجوج، اپنے علاقے سے باہر نکلنا شروع ہو گئے۔ شاہ صاحب کے مطابق یہ تاریخ میں کئی صدیاں پہلے ہو چکا ہے۔ اس کے بعد فوقتاً فوقتاً مختلف مراحل پر ان کے خروج کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ ترکی نسل، اہل روس اور اہل برطانیہ یاجوج ماجوج کی اولاد ہیں اور دنیا میں فساد اور تباہی پھیلانے کے لیے ان کے خروج کا آغاز منگولوں کے حملوں کی صورت میں ہو چکا ہے۔ شاہ صاحب چنگیز خان، ہلاکو اور تیمور لنگ کی تباہ کاریوں کو بھی اسی پیشین گوئی کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ جب یہ سلسلہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا دنیا کی تباہی اور فساد کے آخری مرحلے میں داخل ہوگا تو وہ بالکل قیامت کا قریبی زمانہ ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ الانبیاء میں بھی ہے اور احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔
مطیع سید: یہ جو جساسہ والا واقعہ ہے، بڑا دلچسپ ہے۔ حضرت تمیم داریؓ ایک سمندری سفر میں ایک جزیرے پر جا پہنچتے ہیں اور وہاں ان کی ملاقات ایک عجیب وغریب جانور سے ہوتی ہے جس کو وہ جساسہ کہتے ہیں۔ وہ ان کو دجال کے متعلق اطلاع دیتا ہے۔31 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ لوگوں کو سنانے کے لیے خصوصی مجلس منعقد فرمائی اور لوگوں سے کہا کہ دیکھو، میرا بھائی تمیم داری بھی وہی بات کہہ رہاہے جو میں تمھیں بتاتا تھا۔ آج تو دنیا نے ہر جزیرہ چھان ماراہے۔اگر ایسا کوئی جزیرہ تھا تو دوبارہ صحابہ اس طرف کیوں نہیں گئے؟ اور وہ جزیرہ کہاں غائب ہوگیا؟
عمار ناصر: جی، یہ روایت کافی سوالات پیداکرتی ہے۔مثلاً اس روایت میں تمیم داری کہتے ہیں کہ وہ عجیب سی بولی بولتاتھا اور ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔لیکن اسی روایت میں اس کے ساتھ جو اتنا لمباچوڑا مکالمہ مذکور ہے، وہ کیسے سمجھ میں آگیا؟ بہرحال اس طرح کا ایک واقعہ عباسی عہد کے معروف سیاح ابن فضلان نے بھی اپنے سفرنامے میں بڑے وثوق سے بیان کیا ہے جس نے تیسری صدی ہجری میں روس اور ترکی کے بہت سے علاقوں کا سفر کیا تھا۔ حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔
مطیع سید: دجال سےمتعلق جو روایات ہیں،32 ان کو ہم دورِ جدیدکے الحاد پر منطبق کر سکتے ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دورِ حاضر میں جو انکارِ خداکی لہر پھیل رہی ہے اور الحاد بڑھ رہاہے، اسی کی انتہا دجال کا ظہور ہوگا۔
عمار ناصر: ظاہر ہے، انسان کا اپنا تخیل بھی کام کرتا رہتا ہے۔وہ جن چیزوں کو دیکھتا ہے، ان کا آپس میں رشتہ جوڑنے کی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔میرے خیال میں الحاد کو فتنہ دجال کے متعلقات یا تمہیدات کے معنی میں لے سکتے ہیں، لیکن بعینہ فتنہ الحاد کو آپ دجال کا مصداق قرار دے دیں، یہ کافی مشکل لگتا ہے۔دجال بظاہر ایک شخص ہی ہوگا۔
مطیع سید:ایسے لگتا ہے جیسے وہ کوئی غیر مذہبی آدمی ہوگا۔ جس طرح یہ دور چل رہاہے،ترقی ہورہی ہے اور الحادبڑھ رہا ہے،اسی کا ایک نمائندہ آئے گا۔
عمار ناصر: یہ تو اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ غیر مذہبی ہوگا۔ وہ تو خدائی کے دعوے کے ساتھ ظاہر ہوگا۔ یہودی تو بالکل اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔ جو خداہونے کا دعویٰ کرے گا، وہ غیر مذہبی کیسے ہوسکتاہے؟ وہ یہی دعویٰ کرکے آئے گا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کو اللہ نے یہ سارے اختیارات دیے ہوئے ہیں،لیکن حقیقت میں ہوگا نہیں۔وہ غیر مذہبی نہیں ہوگا بلکہ تینوں مذاہب کے اندر جو حضرت مسیح کا ایک انتظارِ شدید ہے، وہ اسی انتظار کو اپنے دعوے کی بنیاد بنائے گا۔ مطلب یہ کہ وہ غیر مذہبی نوعیت کی چیز نہیں ہوگی،بلکہ مذہبی قسم کا ایک فتنہ ہوگا۔
مطیع سید: کچھ دیہاتی آئے،انہوں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟آپﷺ نے فرمایاکہ یہ جو سامنے نوجوان ہے، اس کے بوڑھاہونے سے پہلے آجائے گی۔33 اس سے کیا مرادتھا؟
عمار ناصر: یہاں اصل مقصود قیامت کا وقت بتانا نہیں ہے،اور وہ آپﷺ کے علم میں بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید بیان کرتاہے کہ سوائے اللہ کے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کا وقت کیا ہے۔اصل میں آپ کا مقصود مخاطب کے لحاظ سے جواب دینا ہوتا ہے کہ اس کو کیا بات بتانی چاہیے یا کس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔مثلاً ایک مرتبہ آپ سے سوال ہوا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ نے فرمایا کہ تمہاری قیامت کے لیے کتنی تیاری ہے؟ اسی طرح اس واقعے میں آپ نے سائل کی تقریبِ ذہنی کے پہلو سے فرمایا کہ تم یہ سمجھو کہ گویا اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے آجائے گی۔مطلب یہ کہ اس کے لیے تم اب تیاری کرو۔قرآن میں بھی یہی اسلوب ہے۔قرآن میں آپ کو قیامت کا ذکر بہت سی جگہوں پر ایسے ہی ملے گا جیسے وہ بہت ہی قریب ہے۔اسی سے بعض مستشرقین نے یہ کہا ہے کہ شروع کے دنوں میں محمد ﷺ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا اپنے اختتام کے قریب ہے اور قیامت کا وقت بالکل آ پہنچا ہے۔
حواشی
- صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ، باب النہی عن التختم فی الوسطى والتی تليہا، رقم الحدیث: 2095، جلد:3،ص:1659
- صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ، باب تحريم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ، رقم الحدیث: 2122، جلد:3،ص:1676
- صحیح مسلم،کتاب الآداب، باب النہی عن التكنی بابی القاسم وبيان ما يستحب من الاسماء، رقم الحدیث: 2133، جلد:3،ص:1682
- صحیح مسلم،کتاب الآداب، باب كراہۃ التسميۃ بالاسماء القبیحۃ وبنافع ونحوه، رقم الحدیث: 2136، جلد:3،ص:1685
- صحیح مسلم،کتاب السلام، باب النہی عن ابتداء اہل الكتاب بالسلام وكيف يرد علیہم، رقم الحدیث: 2163، جلد:4،ص:1705
- صحیح مسلم،کتاب السلام، باب الطب والمرض والرقى، رقم الحدیث: 2188، جلد:4،ص:1719
- صحیح مسلم،کتاب السلام، باب كراہۃ التداوی باللدود، رقم الحدیث: 2213، جلد:4،ص:1733
- صحیح مسلم،کتاب السلام، باب الطيرة والفال، رقم الحدیث: 2224، جلد:4،ص:1746
- صحیح مسلم،کتاب السلام، باب استحباب قتل الوزغ، رقم الحدیث: 2240، جلد:4،ص:1758
- صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبينا صلى الله عليہ وسلم وصفاتہ، رقم الحدیث: 2290، جلد:4،ص:1793
- صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب اثبات خاتم النبوة وصفتہ ومحلہ من جسده صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2344، جلد:4،ص:1823
- صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب فضائل عيسى عليہ السلام، رقم الحدیث: 2366، جلد:4،ص:1838
- صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب من فضائل ابراہیم الخليل صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2370، جلد:4،ص:1839
- صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب من فضائل ابراہیم الخليل صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2371، جلد:4،ص:1840
- صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب فی ذكر يونس عليہ السلام، رقم الحدیث: 2376، جلد:4،ص:1846
- صحیح البخاری، ابواب الاجارۃ، باب رعی الغنم على قراريط، رقم الحدیث: 2262، ص:580
- صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابۃ رضی الله تعالى عنہم، باب من فضائل ابی بكر الصديق رضی الله عنہ، رقم الحدیث: 2387، جلد:4،ص:1857
- صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابۃ رضی الله تعالى عنہم، باب من فضائل عمر رضی الله عنہ، رقم الحدیث: 2400، جلد:4،ص:1865
- صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابۃ رضی الله تعالى عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی الله عنہ، رقم الحدیث: 2404، جلد:4،ص:1871
- صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابۃ رضی الله تعالى عنہم، باب من فضائل ابی ذر رضی الله عنہ، رقم الحدیث: 2473، جلد:4،ص:1923
- صحیح مسلم، كتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن لعن الدواب وغيرہا، رقم الحدیث: 2595، جلد:4،ص:2004
- صحیح مسلم، كتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ الله تعالى، وانہا سبقت غضبہ، رقم الحدیث: 2756، جلد:4،ص:2109
- صحیح مسلم، كتاب التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل وان كثر قتلہ، رقم الحدیث: 2767، جلد:4،ص:2119
- صحیح مسلم، كتاب صفات المنافقين واحكامہم، رقم الحدیث: 2779، جلد:4،ص:2143
- صحیح مسلم، كتاب صفات المنافقين واحكامہم، رقم الحدیث: 2782، جلد:4،ص:2145
- صحیح مسلم، كتاب الجنۃ وصفۃ نعيمہا واھلہا، باب اول زمرة تدخل الجنۃ على صورة القمر ليلۃ البدر وصفاتہم وازواجہم، رقم الحدیث: 2834، جلد:4،ص:2179
- صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتى يمر الرجل بقبر الرجل، رقم الحدیث: 2911، جلد:4،ص:2232
- صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتى يمر الرجل بقبر الرجل، رقم الحدیث: 2922، جلد:4،ص:2239
- صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذكر ابن صياد، رقم الحدیث: 2927، جلد:4،ص:2241
- صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذكر الدجال وصفتہ وما معہ، رقم الحدیث: 2933، جلد:4،ص:2248
- صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب قصۃ الجساسۃ، رقم الحدیث: 2942، جلد:4،ص:2261
- صحیح البخاری، كتاب احادیث الانبیاء، باب قول الله واذكر فی الكتاب مريم اذ انتبذت من اهلہا، رقم الحدیث: 3439، ص:884
- صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب قرب الساعۃ، رقم الحدیث: 2952، جلد:4،ص:2269
(مکمل)