حالانکہ اسلام نے معاملات کی صفائی کی طرف خاص توجہ دلائی ہے کہ جو بھی معاملہ کیا جائے، خواہ وہ قریب ترین رشتہ دار،بھائیوں کے درمیان ہو، باپ بیٹے کے درمیان ہو، شوہر اور بیوی کے درمیان ہو، غرض کسی بھی شخص اور فرد کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو، وہ بالکل واضح اور بے غبار ہونا چاہئے۔ اس میں ایسا ابہام نہیں ہونا چاہئے جو آئندہ کسی تنازع اور جھگڑے کا باعث ہو، اسی لئے خرید وفروخت کی ایسی تمام صورتوں کو منع کیا گیا ہے، جس میں فروخت کی جانے والی چیز، ادا کی جانے والی قیمت، سامان کی سپردگی کے مقام اور ادھار کی صورت میں قیمت یا ادائیگی کا وقت مبہم ہو، تجارت کے بہت سے احکام اسی اصول پر مبنی ہیں۔ اس لئے شرعی نقطۂ نظر سے جو معاملات کسی بھی پہلو سے ابہام کی وجہ سے آئندہ کسی نزاع کا سبب بن سکتے ہیں وہ درست نہیں ہوں گے۔
آپس میں بھائیوں کی طرح رہو مگر معاملات اجنبیوں کی طرح کرو
معاملات کے باب میں اہل علم حضرات لکھتے ہیں: "آپس میں بھائیوں کی طرح رہو، لیکن لین دین کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو"(1)۔ مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا برتاؤ اور حسن سلوک کرو، جیسے ایک مخلص بھائی کو دوسرے بھائی کے ساتھ کرنا چاہیئے، جس میں ایثار، محبت، شفقت، مروت، رواداری، تحمل اور انسانیت کا جذبہ ہو، لیکن جب روپے پیسے اور تجارت ونفع کے لین دین، جائداد کے معاملات اور شرکت وحصہ داری کا معاملہ آجائے ،تو اچھے تعلقات کی حالت میں بھی انہیں اس طرح انجام دو، جیسے دو اجنبی ا فراد انہیں انجام دیتے ہیں۔ کہ معاملہ کا ہر پہلواور بات صاف اور واضح ہو، نہ کوئی پہلو مبہم رہے، اور نہ معاملہ کی حقیقت میں کوئی اشتباہ باقی رہے۔
اگر محبت، اتفاق اور خوشگوار تعلقات کی حالت میں اس اصول پر عمل کر لیاجائے، تو بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں اور جھگڑوں کا سد باب ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوسناک صورت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اصول کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے ،جس کی ایک واضح صورت ہمارے معاشرے میں یہ ہے:
کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت
ہمارے ہاں تجارت وکاروبار میں عام طور پر یوں ہوتا ہے، کہ ایک شخص نے کاروبار شروع کیا، اس وقت اس کے بچے چھوٹے تھے۔ رفتہ رفتہ کاروبار بھی بڑھا اور بچے بھی بڑھے ہو کر اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے کاروبار میں پورے طور پر معاونت کرتے ہیں ، اس کاروبار کو اپنا کاروبار تصور کرتے ہیں اور حسب استطاعت اس کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ، والد ان کی جملہ ضروریات کی مکمل کفالت کرتا ہے اور جب تک حالات خوشگوار رہتے ہیں ،ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مشترکہ نظام برقرار رہے۔ لیکن جب والد کی زندگی میں اور یا ان کے انتقال کے بعد اس کا روبار کی تقسیم کا مسئلہ سامنے آتا ہے، تو بڑے لڑکوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کاروبار میں چھوٹے بھائیوں کی بنسبت ان کا تعاون زیادہ رہا ہے ، اسلئے اسی تناسب سے انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہئیے،پھر جب تمام بھائیوں کے درمیان کاروبار کی مساوی طور پر تقسیم کی بات ہوتی ہے۔توان کی احساس کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اور وہ اس میں اپنی حق تلفی محسوس کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بھائیوں کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں۔ یوں قریبی رشتہ داروں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم ہوتی ہے۔ اور بات مقدمہ بازی اور خون بہانے تک پہنچ جاتی ہے ،اسلئے ہونا یہ چائیے کہ اگر کسی کاروبار میں والد کے ساتھ ان کے بچے بھی شریک ہوں ،تو جس وقت وہ شریک ہوں اسی وقت یہ طے ہونا چائیے ،کہ اس کا روبار میں ان کی شرکت کس حیثیت سےہے ؟ کیا وہ اس میں پاٹنر ہیں ؟ یا ان کی حیثیت ملازم کی ہے ؟ یاوه محض اپنے والد کے معاون و مددگار ہیں؟ لیکن جس وقت لڑ کے والد کے خواہش پر کا روبار میں عملی طور پر شریک ہو جاتے ہیں، تو اس وقت معاملہ کو واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ چنانچہ ہر شخص اپنی خواہش یا ضررورت کے مطابق کاروبار کی آمدنی استعمال کرتا رہتا ہے۔
اگر کسی وقت کوئی شخص یہ تجویز پیش کرے کہ کاروبار میں حصہ یا تنخواہ وغیرہ متعین کر لینی چاہیے، تو اسے محبت، اتفاقی اور غیرت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسطرح کے کاروبار کا انجام اکثر وبیشتر یہ ہوتا ہے کہ دل ہی دل میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اور رنجشیں پرورش پاتی رہتی ہیں ،خاص کر جب تقسیم کا مرحلہ آتا ہے، تو ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ دوسرے نے کاروبار سے زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے۔ اندر ہی اندر ان رنجشوں کا لاوا پکتار رہتا ہے اور بالآخر جب رنجشیں بدگمانیوں کے ساتھ مل کر پہاڑ بن جاتی ہیں تو یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔محبت واتفاق کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ زبانی تو تکار سے لیکر لڑائی ، جھگڑے اور مقدمہ بازی تک کسی کام سے دریغ نہیں ہوتا۔ بھائی بھائی کی بول چال بند ہو جاتی ہے۔ ایک بھائی دوسرے کی صورت دیکھنے کا روادار نہیں رہتا۔ جس کے قابو میں کاروبار کاجتنا حصہ آتا ہے وہ اس پر قابض ہو کر عدل وانصاف کا جنازہ نکال لیتا ہے۔ اپنی نجی مجلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف ، الزامات ، بد زبانی اور بدگمانی جسے خطر ناک گناہوں کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ چونکہ سالہا سال مشترکہ کا روبارکا نہ کو ئی اصول طے تھا اور نہ حساب و کتاب کا خیال رکھا گیا ہو تا ہے۔ اسلئے بسا اوقات اختلاف کو ختم کرنے کے لئے افہام وتفہیم کی بھی کوشش کی جائے، تو بھی مصالحت کا کوئی ایسا فارمولاوضع کرنا بھی انتہائی دشوار ہوجاتا ہے،جو تمام متعلقہ فریقوں کے لئے قابل قبول ہو۔
معاملہ کرتے وقت کن پہلوؤں کو واضح کرنا ضروری ہے؟
یہ سارا فتنہ وفساد اس وجہ سے پیدا ہوتا ہےکہ کاروبار کےآغاز میں معاملہ صاف اور واضح نہیں رکھا تھا۔اگرشروع ہی میں یہ بات واضح کی جائے کہ کس کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ ملازمت کےطور پر کام کررہا ہے؟یاشرکت اور تعاون کے طورپر؟تو بعد میں پیش آنےوالی پیچیدگیوں اورجھگڑوں کا سد باب ہوجائے، لہذا اگر کسی کاروبار میں ایک سے زیادہ افراد کام کررہے ہیں،توپہلے ہی مرحلے میں ان میں سے ہر شخص کی حیثیت کا تعین ضروری ہے،کہ وہ تنخواہ پر کام کرےگا؟یا کاروبار میں باقاعدہ حصہ دار ہوگا؟یا محض اپنے والد کی معاونت کرےگا؟
پہلی صورت میں اس کی تنخواہ متعین ہونی چاہئے،نیز یہ وضاحت بھی کرلی جائے کہ وہ کاروبارکا حصہ دارنہیں ہوگا۔ دوسری صورت میں اگراسے ملکیت میں باقاعدہ حصہ داربنانا ہےتو اس کے لئے شرعایہ بھی ضروری ہےکہ اس کی طرف سے کاروبار میں کچھ سرمایہ شامل ہوناچاہئے(جس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باپ اسے کچھ نقد رقم ہبہ کردےاوروہ اس رقم سےکاروبارکا فیصد کے اعتبار سےایک متعین حصہ خریدلےاور فیصد کےاعتبارسے نفع کی تعیین بھی کرلے۔
یہ تمام تفصیلات تحریری طورپر ایک معاہدہ کی شکل میں محفوظ کرلینی چاہئے،تاکہ بعد میں کوئی الجھن پیدانہ ہو۔
اگر کسی ایک حصہ دارکو کاروبار میں وقت اور کام زیادہ کرنا پڑتا ہو،تویہ بات بھی طےکرلینی چاہئے،کہ زیادہ کام وہ رضا کارانہ طورپر کرےگا؟یا اس کا کوئی معاوضہ اسےدیا جائےگا،اگرکوئی معاوضہ دیاجائےگاتووہ نفع کے فیصد حصے میں اضافہ کرکےدیاجائےگا، یاالگ سے متعین تنخواہ کی صورت میں؟غرض ہر فریق کے تمام امور وحقوق اتنے واضح ہوں کہ ان میں کوئی ابہام واشتباہ باقی نہ رہے۔
معاملات کی صفائی کو محبت، اتفاق اور غیرت کے خلاف سمجھنا دھوکا ہے
اگر بالفرض کسی کاروبار میں اب تک ان باتوں پر عمل نہ کیا گیاہو، تو جتنی جلدی ہوسکے ان امورکو واضح طور پر طے کرلیا جائے۔ اس میں کسی شرم،مروت اور طعن وتشنیع کو آڑےنہ آنے دیناچاہئے۔معاملات کےمتعلق اس صفائی اوروضاحت کومحبت، اخوت،احترام اور اتحاد واتفاق کے خلاف سمجھنا بہت بڑا دھوکہ ہے،ورنہ آگے چل کریہ محبت واتحاد عداوت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
والد کی بزنس میں شرکت کے متعلق اہم مسائل
آج کل دارالافتاؤں میں اس طرح کے مسائل کثرت سے آتے ہیں،خاص کر جب میراث کی تقسیم کا مرحلہ سامنے آتا ہے،تو اس وقت اس طرح کے تنازعات کثرت سے پیش آتے ہیں، چوں کہ میرا تعلق بھی دارالافتاءسے ہےاورفتوی کے کام سے منسلک ہوں، اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ شرعی نقطہ نظر سے ان مسائل کو تفصیل سے لکھ دوں،تاکہ ان مسائل سے آگاہ ہوکرہم سب اس پر عمل پیرا ہوسکیں۔چنانچہ اس سلسلے میں عرض یہ ہےکہ شریعت کا اصل حکم تو وہی ہےکہ کاروبار کےشروع ہی میں ہر ایک کی حیثیت کاتعین کرلینا چاہئےاور معاملہ ہر پہلو سےواضح کردیناچاہئے۔
کاروبار میں شریک اولاد باپ کی زیر کفالت ہو
تاہم اگر معاملہ کوابتدا میں ویسی ہی چھوڑ دیا تھا، کسی چیز کی وضاحت نہیں ہوتی تھی ،تو اس پس منظر میں پہلے مسئلہ یہ ہے کہ اگر والد نے اپنے سرمائےسےکاروبار شروع کیا،بعد میں اس کے لڑکوں میں سےبعض والد کی خواہش پرکاروبارمیں شریک ہوگئے،مگر انہوں نےالگ سے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والدنے بھی ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہ کی ہو،تو اگر یہ لڑکےوالد کے زیرِ کفالت ہوں ،تواس صورت میں لڑکےوالد کے معاون شمارکئےجائیں گے،اور ان کی طرف سے یہ عمل تبرع شمار کیاجائےگا۔ان کی حیثیت پارٹنریا ملازم کی نہیں ہوگی،ہمارے ہاں عرف بھی یہی ہےکہ اس طرح کاروبارکی کل آمدنی باپ کی ملکیت شمار ہوتی ہےاور اولاد محض معاون ومددگارہوتے ہیں۔لہذا مذکورہ صورت میں کاروبارکی کل آمدنی باپ کی ملکیت ہوگی ،اور اس کے انتقال کےبعد معاونت کرنے والےلڑکوں کوالگ سے کچھ نہیں ملےگا،بلکہ دوسرےبیٹوں کے ساتھ ان کومیراث میں مساوی طورپرحصہ ملےگا۔(یعنی سب لڑکوں کو برابر حصہ ملےگا)
بزنس میں شریک بعض بیٹے زیرکفالت نہ ہوں
اگر بیٹےباپ کی کفالت میں نہ ہوں یعنی باپ ان کی جملہ ضروریات کے اخراجات برداشت نہ کرتاہو،توایسی صورت میں اگر متعین اجرت سے کام کرنا طے ہواہوتو لڑکےاسی اجرت کےحقدارہوں گے،تاہم اگر اس صورت میں اجرت طے نہ ہوئی ہ،وتو جہالت کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہوگا،جس کاحکم یہ ہےکہ کل سرمایہ بمع نفع باپ کاہوگا اوربیٹے اجرت مثل کے مستحق ہوں گے،خیال رہےکہ ان دوصورتوں میں اولادکی حیثیت ملازم کی ہوگی ،اور اگر اجرت کے متعلق بالکل بھی وضاحت نہ ہوئی ہو توایسے میں بیٹوں کا یہ عمل تبرع اوراحسان کے زمر ے میں آئے گااور وہ اجرت کے حقدار نہیں ہوں گے،کیوں کہ اجرت کا استحقاق عقدِاجارہ سے ثابت ہوتا ہے،جبکہ یہاں کوئی عقد نہیں ہوا ہے،لہذا اس صورت میں بیٹوں کی حیثیت محض معاون اور متبرع کی ہوگی۔کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگی۔
علامہ شامی ؒلکھتے ہیں :
الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب۔ (رد المحتار، فصل فی الشرکة، مطلب: اجتمعا فی دار واحد واکتسبا ولا یعلم التفاوت،/۶/۴۹۷)
ہندیہ میں ہے:
أب وابن یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری أنہ لو غرس شجرۃ تکون للأب۔ (الباب الرابع: فی شرکة الوجوہ وشرکة الأعمال،/۲/۳۳۲، مکتبة دارالفکر)
اولاد نے مشترکہ کاروبار میں کچھ سرمایہ بھی لگایا ہو
اگریہی صورت ہو لیکن بیٹوں نے کاروبار میں شریک ہوتے وقت اپنا کچھ سرمایہ بھی والدکی اجازت سے کاروبارلگایاہو، تو اس صورت میں اگر شرکت کی غرض سےسرمایہ لگایا گیا ہو ،توبیٹوں کی حیثیت شریک اور پاٹنر کی ہوگی اور بیٹےاپنے سرمایہ کے تناسب سے کاروباراوراس کے منافع میں شریک ہوں گے۔ اگر سرمایہ قرض کہہ کر دیا ہے تو قرض شمار ہوگا۔البتہ اگر زبانی طور پرشرکت یا قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں ،مگر لڑکے کا مقصود سرمایہ لگانے سے والد کی اعانت اور اس کے ساتھ حسن سلوک ہے توپھریہ اس کی طرف سے تبرع ہے،کل کاروبار والد کاشمارہوگا۔
تاہم اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ یعنی نہ کوئی صراحت ہےاور نہ ہی مقصد اعانت ہے تو پھر حسب عرف فیصلہ کیا جائے۔
فإذا خلطا المالين على وجه لا يمكن تمييز أحدهما عن الآخر؛ فقد ثبتت الشركة في الملك؛ فينبني عليه شركة العقد. ( المبسوط /کتاب الشرکة ۱۵۲ / ۱۱ )
وفي رد المحتار : يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.
ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحدا ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركا بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا كما أفتى به في الخيرية۔(۶/۴۷۲/ کتاب الشرکة ، مطلب : فیما یقع کثیرا في الفلا حین )
وفي البدائع : وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية. (فصل في حكم القرض:۷/۳۹۶)
بعض بھائیوں نے کسب معاش کے دوسرے ذرائع اختیار کیے اور بعض نے والد کا ہاتھ بٹایا
۲۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک بھائی یا کچھ بھائیوں نے کاروبار میں والد کا ہاتھ بٹا دیا ہے ، جبکہ دوسرے دیگر بھائیوں نے کسب معاش کے دوسرے ذرائع اختیار کئے ہیں اور آپس میں ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی ہے ،اس صورت میں اگر سب کا کھانا پینا ایک ساتھ ہواور تمام بھائی کمائی والد کے پاس جمع کرتے ہوں تو کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگا۔ والد کے انتقال کے بعد تمام لڑکے اس مال کے حق دار ہوں گے۔
( یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر بیٹےباپ کے عیال میں ہیں اور آپس میں تقسیم نہیں ہوئی ہے، تو خواہ سب ایک ہی کاروبار میں مشغول ہوں یا مختلف قسم کے کاروبار میں مشغو ل ہوں ، یعنی ایک کا کاروبار دوسرے کے کاروبار سے مختلف ہو، مثلا :ایک سبزی کے کاروبار میں لگا ہو اور دوسرا مارکیٹ میں فرنیچر کے کاروبار میں مشغول ہو ، بہر صورت تمام مال کا مالک باپ ہوگا ، اسلئے کہ ہمارے عرف میں سب بھائیوں کو ایک مشترک فیملی کا فرد سمجھا جاتا ہے ، ان کو علیحدہ تصور نہیں کیا جاتا۔ رہیں فقہاء کرام ؒکی وہ عبارتیں جن میں لڑکے کےمعاون ہونے کےلئے اتحاد ِصنعت کی صراحت ہے ، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ بظاہر اتحاد ِصنعت کی وضاحت فقہائے کرام نے اپنے زمانے کے عرف کے اعتبار سے کی ہیں ، لہذا وہ اپنے زمانے کے عرف پر مبنی ہیں۔
آج کل صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات اولاد کو دوسرے ذرائعِ معاش اختیار کرنے کا مشورہ باپ دیتا ہے ، اس سلسلے میں وہ اپنا مالی تعاون بھی کرتا ہے اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال بھی ، اس کے نفع و نقصان کی فکر بھی کرتا ہے ، اور سمجھتا ہے کہ میرے مختلف بیٹے مختلف ذرائع سے میرے معاون ہیں ، بلکہ بسا اوقات معاشی پریشانی کی وجہ سے باپ اپنے بعض لڑکوں کو دوسرے ملک بھیجتے ہیں ، اور اس کے لیے لمبا چوڑا خرچہ برداشت کرتا ہے ، اس کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے ، کھانا سب مشترک ہی رہتا ہے ، ایسی صورت میں لڑکوں کی دوسرے ممالک کی کمائی پوری باپ کی ملک ہوگی ، ایسے لڑکے باپ کے معاون شمار ہوں گے ، وہ اپنی کمائی کے تنہا مالک نہ ہوں گے ، البتہ اس صورت میں اگر کوئی لڑکا اپنا کھانا پینا الگ کردے اور باقاعدہ الگ ہونے کا والد سے اظہار کردے ،تو اس کے بعد وہ الگ شمار ہوگا اور اپنی کمائی کا وہ خود مالک ہوگا۔ لہذا آج کل کے عرف میں لڑکے کے معاون ہونے کے لیے اتحاد ِصنعت کی شرط قابل نظرہے۔)
الگ ذرائع معاش اختیارکرنے والوں کی کمائی کا حکم
اگر الگ ذرائع معاش اختیار کرنے والے بھائیوں کا رہنا سہنا اور کھانا پینا الگ ہو اور انہوں نے اپنا سرمایہ علاحدہ جمع کر رکھا ہو تو پھر وہ کمائی ان کی ذاتی ملکیت ہوگی، دوسرے بھائی اس میں شریک نہ ہوں گے۔
كما في رد المحتار : زوج بنيه الخمسة في داره و كلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب، و للبنين الثياب التي عليهم لا غير . (فصل في الشركة الفاسدة:۴/۳۹۲ ).
وأيضا فيه : الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب۔ (رد المحتار،فصل فی الشرکة، مطلب: اجتمعا فی دار واحد واکتسبا ولا یعلم التفاوت،/۶/۴۹۷)
وفي الهندية : أب وابن یکتسبان فی صنعة واحدۃ ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری أنہ لو غرس شجرۃ تکون للأب۔ (الباب الرابع: فی شرکة الوجوہ وشرکة الأعمال،/۲/۳۳۲،مکتبة دارالفکر)
وفي درر الحکام : فإذا کان الأب مزارعا والابن صانع أحذية فکسب الأب من الزراعة والابن من صناعة الحذاء ، فکسب کل واحد منهما لنفسه و لیس للأب المداخلة في کسب ابنه لکونه في عياله۔ (۳/۴۴۵/مادۃ:۱۳۹۸)
کاروبار ختم ہونے کے بعد اولاد میں سے کسی نے اپنے سرمایہ سے دوبارہ کاروبار شروع کیا
اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا ، لیکن کاروبار کی جگہ خواہ مملوکہ ہو یا کرایہ پر حاصل کی گئی ہو ، موجود ہو ، اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگا کر اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا ،اس صور ت میں جس لڑکےنے سرمایہ لگاکرکاروبارشروع کیاہے،یہ کاروبار اسی کی ملکیت شمار ہوگی ، والد اور دیگر بھائیوں کی ملکیت شمار نہیں ہو گی۔ البتہ وہ مملوکہ جگہ والد کی ہوگی۔ یا اگر دوکان کرایہ پر تھی اور اس سلسلے میں کچھ رقم پیشگی والد کو ادا کردیا تھا تو وہ رقم بھی والد کی ملکیت شمار ہوگی ، اور تمام بھائی والد کے بعد اس میں شریک ہوں گے۔
عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :"الخراج بالضمان"۔ (سنن أبی داؤد: باب فيمن اشترى عبدا فاستعمله/۵/۳۶۸)
وفي الدر المختار : لا يستحق الربح إلا بإحدى ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل.( مطلب شركة الوجوه:۴/۳۲۴)
اعلم أن أسباب الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب الصيد لا لجفاف على المباح الخالي عن مالك ( الدر المختار :کتاب الصید:۶/۴۶۳)
وفي رد المحتار : وما اشتراه أحدهم لنفسه يكون له ويضمن حصة شركائه من ثمنه إذا دفعه من المال المشترك۔ (کتاب الشرکة:۴/۳۰۷)
ائمہ، خطباء اور علماء کرام سے گزارش
ائمہ، خطباء اور علماء کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں میں معاملات کی صفائی کے سلسلے میں لوگوں کی ذہن سازی کریں۔ شرکت اور میراث کے متعلق جو شرعی احکام ہیں ان سے ان کو آگاہ کریں۔ خاص طور پر والدین اولاد اور بھائیوں کے درمیان کاروبار اور شرکت کے بنیادی مسائل سے واقف کرائیں۔