ایچ ای سی پنجاب نے جامعات کے وائس چانسلرز کے ساتھ سوک ایجوکیشن کے موضوع پر 16 اور 17 اگست کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں دو روزہ نشست کا اہتمام کیا۔ اس کے ایک سیشن میں ڈاکٹر راغب نعیمی، علامہ سید جواد نقوی، مولانا صہیب میر محمدی، جناب سبیسٹین فرانسس اور دیگر حضرات کے ساتھ راقم الحروف کو بھی کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا۔ اتفاق سے عین انھی دنوں میں جڑانوالہ میں قرآن مجید کی توہین کا اور اس کے ردعمل میں مسلمانوں کی جانب سے مسیحی عبادت گاہوں اور بستیوں کو جلا دینے کا سانحہ رونما ہوا جس پر مذکورہ مجلس میں بھی گفتگو ہوئی۔
ایک بنیادی نکتہ جس پر پوری مجلس کا عمومی اتفاق دکھائی دیا، یہ تھا کہ اس حوالے سے قومی شرمندگی کا باعث بننے والے واقعات اور رویوں پر اعلی دینی قیادت کا اظہار افسوس اور مذمت وغیرہ اپنی جگہ، لیکن مسئلے کی جڑ نچلی سطح پر منبر ومحراب سے مذہب کی نمائندگی کرنے والا وہ طبقہ ہے جو نہ کسی دینی یا سماجی ادارے کو جواب دہ ہے اور نہ ریاست کی نگرانی میں ہے۔ ایسے تمام واقعات میں یہی عنصر پیش پیش ہوتا ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ مساجد جو اوقاف کے تحت ہیں یا بڑے دینی اداروں یا جماعتوں کی نگرانی میں ہیں یا مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز کے زیر اہتمام کام کر رہی ہیں، وہاں سے ایسے غیر ذمہ دارانہ کردار کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہ وہی طبقہ ہوتا ہے جو یا تو مستند دینی تعلیم سے بہرہ ور نہیں ہوتا یا کہیں نہ کہیں سے دینی سند لے کر (جو بہرحال سند جاری کرنے والے دینی اداروں کے لیے بھی غور کا مقام ہے) اپنے زور خطابت سے عام لوگوں میں ایک حلقہ اثر پیدا کر لیتا ہے اور پھر کسی نہ کسی پرتشدد بیانیے سے مدد لے کر لوگوں کو بھڑکانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس خاص طبقے کا بندوبست ریاست، دینی اداروں اور سماج سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور یونیورسٹیاں سوک ایجوکیشن (شہری حقوق وفرائض کی تعلیم) کے مضمون کے ذریعے سے طلبہ میں ذمہ داری کا شعور پیدا کر کے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ایک بہت اہم بات ڈاکٹر راغب نعیمی نے یہ کہی کہ سوک ایجوکیشن کا مضمون مدارس کے نصاب میں شامل نہیں جبکہ اس کو ہونا چاہیے۔ یہ بہت اہم بات ہے، کیونکہ دراصل اسی مضمون سے طلبہ کو پتہ چل سکتا ہے کہ وہ جس ریاست کے شہری ہیں، وہ کن سیاسی وقانونی تصورات پر قائم ہے اور اس میں اقلیتوں کو کیا آئینی وقانونی ضمانتیں دی گئی ہیں جن کو پورا کرنا ریاست اور معاشرہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے خیال میں اس مضمون کی اہمیت عصری جامعات سے بھی زیادہ دینی مدارس کے لیے ہے، کیونکہ مدارس میں جو فقہی سیاسی تصورات پڑھائے جاتے ہیں، وہ بالکل مختلف ہیں اور اگر فکری سطح پر یہ واضح نہ ہو کہ ہماری ریاست اس تصورات پر قائم نہیں ہوئی اور نہ یہاں کے غیر مسلموں کی آئینی حیثیت کو "اہل ذمہ" کے تصور سے سمجھا جا سکتا ہے تو وہ تمام الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جو مذہبی طبقے میں اس حوالے سے عموما" اور احمدی کمیونٹی کے حوالے سے خصوصا" پائی جاتی ہیں۔
البتہ اس مجلس میں اس نکتے پر بات نہیں ہو سکی کہ نچلی سطح کا غیر ذمہ دار مذہبی طبقہ جن پرتشدد مذہبی بیانیوں کا سہارا لے کر عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، وہ کہاں سے اور کیسے وجود میں آتے ہیں؟ یہ نکتہ گفتگو میں نظروں سے اوجھل رہا جس کی وجہ سے ہمارے خیال میں بحث تشنہ رہی۔ لیکن بہرحال، جس بنیادی نکتے پر اتفاق رائے سامنے آیا، وہ بھی بہت اہم اور قابل قدر ہے۔ اس پر توجہ مرکوز کی جائے گی تو دوسرا نکتہ بھی خود بخود موضوع بنتا چلا جائے گا۔
گلی محلے کی سطح کے ائمہ وخطباء کے معیار اور کردار کی اور اس کو بہتر بنانے کی جب بھی بات ہوتی ہے، ایک خوف جو مذہبی طبقے کو فوری طور پر لاحق ہو جاتا ہے، وہ یہ کہ مساجد کو حکومتی کنٹرول میں لینے اور علمبرداران حق کو حکومتی ترجیحات کا پابند بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔ یہ درست ردعمل یا تاثر نہیں اور یہ مسئلے کے حل کا واحد طریقہ بھی نہیں۔ طریقے اور بھی ہو سکتے ہیں، لیکن پہلے مسئلے کی موجودگی کو تو ماننا چاہیے اور یہ بھی کہ اس کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے ذکر کیا کہ یہ ایک تجرباتی بات ہے کہ جو مساجد محکمہ اوقاف کے تحت ہیں یا ذمہ دار دینی اداروں کی نگرانی میں ہیں یا ہاؤسنگ سوسائٹیز کی انتظامیہ کو جواب دہ ہیں، وہاں کے ماحول اور خطباء سے متعلق یہ شکایت موجود نہیں کہ وہ عوام کو اشتعال دلانے میں ملوث ہوں۔ جہاں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، وہاں جواب دہی کا نظام مفقود ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایسے خطباء جو اپنے محلے کی مسجد میں شعلہ بیانی کر رہے ہوتے ہیں، کسی ذمہ دار فورم پر جانے سے ان کی ٹون بھی بدل جاتی ہے اور وہ بڑی مہذب گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خطیب یا امام کا کسی نہ کسی اتھارٹی کو یا اپنے مخاطبین کو جواب دہ ہونا غیر ذمہ دارانہ رویے کے سدباب کا آزمودہ طریقہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ائمہ مساجد کی اکثریت جو ایسی کسی اتھارٹی کو جواب دہ نہیں اور مقامی مسجد کمیٹیاں بھی عموماً تیز طرار خطیبوں کے زیر اثر ہی ہوتی ہیں، کیا انھیں جواب دہی کے کسی میکنزم کے تحت لایا جا سکتا ہے؟ مساجد کو حکومتی کنٹرول میں دے دینا ہمارے تناظر میں کوئی قابل عمل حل نہیں، لیکن کیا اس کے علاوہ کوئی اور طریقے بھی ہو سکتے ہیں؟ اہل فکر ودانش کو اس سوال کو سنجیدہ اظہار خیال کا موضوع بنانا چاہیے تاکہ ایک سماجی ودینی مسئلے کا کوئی بہتر اور قابل عمل حل ریاست، دینی اداروں اور سماج کے سامنے آ سکے۔
کسی دور میں علماء کرام، ہمارے ہاں مروج رسوماتی دین پر اس طرح کی پھبتیاں کستے تھے اور درست کستے تھے کہ محلے کے مولوی کی روزی روٹی یا اس کی سماجی اہمیت کسی نہ کسی کے مرنے سے وابستہ ہے۔ ایک آدمی مرے گا تو تیس چالیس دن تک مقامی مولوی صاحب کے رزق کا انتظام ہو جائے گا، اور یہ مدت پوری ہوتے ہوتے کوئی اور مر جائے گا۔ یوں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ہمارے خیال میں ذمہ داری مذہبی قیادت کو اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشرتی حالات کے بدلنے سے نچلی سطح کے ایک خاص مذہبی طبقے نے اپنی روزی روٹی اور معاشرتی اہمیت کو برقرار رکھنے کے کیا نئے طریقے ایجاد کیے اور کون سے نئے ایشوز کے ساتھ اس کو وابستہ کیا ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی کے سماجی تغیرات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ لمبے عرصے تک مسلکی اور فرقہ وارانہ تنازعات اس طبقے کے لیے وسیلہ رزق بنے رہے ہیں، پھر ریاستی سرپرستی میں فروغ پانے والے جہادی کلچر نے اس کے قیمتی مواقع پیدا کیے اور بدبخت سلمان رشدی کے بپا کردہ فتنے کے بعد سے پچھلی تین دہائیوں میں توہین مذہب، توہین رسالت اور توہین صحابہ واہل بیت نے ایک پوری نئی مارکیٹ تخلیق کی ہے۔ اس میں بے شمار بے گناہ لوگ شکار بنے ہیں اور اب بھی بن رہے ہیں۔ معاشرے پر اور نئی نسل کے دین وایمان پر اس کے جو تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہ اگلی نسل تو آنکھوں سے دیکھ لے گی۔ سوال موجودہ نسل کا ہے کہ ذمہ دار دینی قیادت کو اس کا کچھ احساس ہے یا نہیں؟ یا وہ یہ میدان اسی طبقے کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داریوں میں سرخرو ہے؟
یہ فرق ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ فطری اور ذمہ دار دینی قیادت ان ایشوز میں کردار ادا کرتی ہے جو واقعتاً سامنے آ جائیں۔ جب مذہبی لیڈر شپ کی ایک پوری مارکیٹ کھل جائے تو جدید دور تو سرمایہ داری کا دور ہے۔ بزنسز صرف مارکیٹ کی فطری طلب کو پورا نہیں کرتے، بلکہ ضرورت کو تخلیق کرنا اور بڑھاتے چلے جانا بزنس کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد ایک سرسری نظر ڈال کر دیکھ لیں، بلاسفیمی کے واقعات پر ایک مسلمان کو جو دکھ اور اضطراب ہونا چاہیے، وہ کتنا نظر آتا ہے اور اس کو شخصی یا گروہی اقتدار بڑھانے کے لیے ایک سنہری موقع کی نظر سے دیکھنے کا رویہ کتنا ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ایسے حضرات کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں جب ان کے علم میں کوئی ایسا واقعہ آتا ہے یا کسی واقعے کو یہ رنگ دینے کا امکان دکھائی دیتا ہے۔
جب ہم بزنس کہتے ہیں تو ضروری نہیں کہ اس کا نفع مالی صورت میں ہی ہو۔ اس کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور انسان کی نفسیاتی پیچیدگیاں بیشتر اوقات اس کو احساس بھی نہیں ہونے دیتیں کہ اس کے افعال کے اصل محرکات کیا ہیں۔ بہرحال، سرمایہ دارانہ نظام میں جو بھی مارکیٹ وجود میں آتی ہے، اسے اپنی بقا اور پھیلاؤ کے لیے مسلسل مصروف کار رہنا پڑتا ہے۔ تحفظ مذہب یا تحفظ ناموس رسالت کے عنوان سے وجود میں آنے والی مذہبی مارکیٹ کا بھی یہی معاملہ ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ مختلف سطحوں پر مختلف رنگ اور شکلیں پیدا کرنے اور اپنی بقا اور پھیلاؤ کے اسباب فراہم کرنے کی پوری استعداد بھی رکھتی ہے۔
ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو انفرادی واقعات کے طور پر دیکھنے کے بجائے سماج، سیاست اور معیشت کی حرکیات کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بحیثیت مجموعی پورا مذہبی طبقہ اپنی حالت اور رویوں کا جائزہ لے، کیونکہ معاشرتی تبدیلیوں کے تناظر میں نچلی سطح پر غیر ذمہ دار مذہبی قیادت کے سوال کا سامنا سبھی دینی طبقات کو ہے۔