مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۵)

سوالات: ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید:ایک عورت آئی اور مرگی کی تکلیف کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سے شفا یابی کی دعا فرمائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ مرگی پر صبر کرے تو اس پر اسے جنت ملے گی۔1 کیا اس وقت مرگی کا کوئی علاج نہیں تھا؟

عمار ناصر:علاج کا تو علم نہیں، لیکن وہ خاتون تو دعا کے لیے آئی تھی۔

مطیع سید :آپ ﷺ نے اسے علاج کروانے کا نہیں فرمایا؟

عمار ناصر:ہر موقع ہر طرح کی بات کہنے کا نہیں ہوتا۔ ممکن ہے، وہ علاج کروا رہی ہو یا ہو سکتا ہے، کوئی طبیب میسر نہ ہو۔ آپﷺ کے پاس وہ جس مقصد کے لیے آئی، اس میں آپ ﷺ اس کو ایک پہلو کی طرف راہنمائی فرمارہے ہیں کہ اگر وہ تکلیف پر صبر کرے تو اس کا اجر ملے گا۔ اس طرح کی تجویز مخاطب کے احوال کے لحاظ سے دی جاتی ہے۔ شاید کوئی اور ہوتا اور آپ یہ محسوس فرماتے کہ اس کے لیے تکلیف برداشت کرنا مشکل ہے تو اس کے لیے دعا فرما دیتے۔ اس خاتون میں آپ نے ایمان اور صبر کی ایسی حالت محسوس فرمائی کہ اسے بیماری کو برداشت کرنے کا مشورہ دینا زیادہ مناسب سمجھا۔

مطیع سید:بری نظر لگنے کی کیا حقیقت ہے؟2 کچھ لوگ نظر لگنے کی بات کو توہم سمجھتے ہیں۔

عمار ناصر:اس کا مطلب ہے، نظر میں ایسی تاثیر جس سے دوسرے انسان کو کوئی جسمانی نقصان پہنچے۔ عام طور پر تو اس کی تاثیر مانی ہی جاتی ہے۔ معتزلہ کے متعلق عموماً‌ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ایسی چیزوں پر سوال اٹھاتے ہوں گے، لیکن جاحظ نے کتاب الحیوان میں نظر لگنے کا واضح دفاع کیا ہے۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایاکہ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں ہوتی۔3 کیا اس دو ر میں ایسی کوئی بیماری نہیں تھی؟

عمار ناصر:اس موضوع سے متعلق دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ایک روایت میں ہے،لاعدوی ولا طیرۃ۔ لا طیرۃ تو واضح ہے کہ بدشگونی کوئی چیز نہیں ہوتی۔لا عدوی کے بارے میں شارحین کہتے ہیں کہ متعدی مرض کے بارے میں لوگوں میں جوتصور رائج تھا،اس نے توہم کی شکل اختیار کرلی تھی۔ حدیث میں اس کی نفی مقصود ہے، مطلقاً‌ بیماری کے متعدی ہونے کی نفی مقصود نہیں۔بہرحال روایتیں بظاہر متعارض ہیں۔بعض میں لگتا ہے کہ آپﷺ واقعتاً‌ نفی کررہے ہیں،لیکن دوسری روایات میں اس کا اثبات ہے۔ بعض محدثین اس میں ترجیح کا اصول استعمال کرتے ہیں، بعض تطبیق کی کوشش کرتےہیں۔ اس میں دو تین توجیہیں ہیں۔ شرح نخبۃ الفکر میں ابن حجر نے یہی احادیث تعارض کی مثال کے طور پر بیان کی ہیں۔

مطیع سید: ایک حدیث میں ہے کہ مکھی اگر کسی مشروب میں جا گرے تو اسے پورا ڈبو کر باہر نکالا جائے، کیونکہ اس کے ایک پر میں اگر بیماری ہوتی ہے تو دوسرے پر میں اس کی شفا ہوتی ہے۔4 یہ کوئی اس دور کی خاص مکھی تھی یا ایک کلی حکم ہے؟

عمار ناصر: جی، یہ حدیث معترضین کی طرف سے کافی محل اعتراض رہی ہے۔ بہرحال جدید سائنس میں اس نوعیت کی کچھ تحقیقات کا ذکر تو ملتا ہے کہ کیا مکھی کے پروں کو مائیکروب کشی کے قدرتی ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ممکن ہے، ان سے زیربحث حدیث کا مفہوم واضح کرنے میں کچھ مدد ملتی ہو۔ البتہ اصولی بات یہ ہے کہ اس طرح کی کسی بات کو ہم کلیت پر محمول نہیں کر سکتے۔ یعنی اس سے یہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ دنیاکی ہر مکھی میں یہی صفت پائی جاتی ہے۔جیسا کہ عجوہ والی روایت میں ہم نے دیکھا کہ مدینہ کی خاص عجوہ کھجوروں کے متعلق بات کہی گئی ہے۔ اس طرح کی کسی چیز کو کلی کہنا بڑا مشکل ہے۔

مطیع سید:کلالہ کے بارے میں حضرت عمر کیا فیصلہ کرنا چاہتے تھے؟5 وہ اس مسئلے کو کیوں اتنی اہمیت دیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں اس پر اتنا اصرار کرتے تھے؟

عمار ناصر: حضرت عمر ایک منتظم کا مزاج رکھتے تھے جس کی حدیث میں بھی تعریف آئی ہے کہ عمر کے دور حکومت میں مسلمانوں کے معاملات کا جتنا بہترین انتظام ہوگا، دوسرے کسی دور میں نہیں ہوگا۔ اسی پہلو سے حضرت عمر کے ہاں ایک نمایاں رجحان یہ بھی تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ سارے اہم مسائل کے بارے میں شریعت میں واضح اور حتمی فیصلہ کر دیا جائے تاکہ بعد میں لو گ اس معاملے میں الجھن اور اختلاف میں نہ پڑیں۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ کئی اجتہادی مسائل میں بھی انھوں نے اپنے عہد حکومت میں کوشش کی کہ صحابہ کے مابین جو اختلاف ہے، اس کو اتفاق میں تبدیل کر دیں۔ مثلاً‌ جنازے کی تکبیرات اور بغیر انزال کے غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں، ان مسائل میں انھوں نے صحابہ کے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

اس روایت میں کلالہ سے متعلق بھی وہ اپنے اسی رجحان کا ذکر کر رہے ہیں کہ میری خواہش اور کوشش تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وراثت میں کلالہ رشتہ داروں کے حصے بھی واضح فرما دیں اور سود کی جو بعض مشتبہ شکلیں ہیں، ان کا حکم بھی بیان فرما دیں۔ قرآن مجید نے کلالہ رشتہ داروں میں سے بہن بھائیوں کے حصے تو بیان فرمائے ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی کلالہ رشتے دار ہو سکتے ہیں۔ حضرت عمر چاہتے تھے کہ ان کے متعلق بھی واضح ہدایات دے دی جائیں، لیکن نبی ﷺ نے اس سے گریز کیا اور فرمایا کہ آیۃ الصیف یعنی سورہ مائدہ کی آخری آیت کافی ہے جس میں بہن بھائیوں کے حصے بتائے گئے ہیں۔ آپ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جن رشتہ داروں کے حصے بیان فرمائے ہیں، انھی پر اکتفا کی جائے۔

مطیع سید: کلالہ کے علاوہ دادا کے حصے اور سود کے بارے میں بھی حضرت عمر یہی بات فرماتے تھے۔6

عمار ناصر: جی، یہ بھی اسی نوعیت کے مسائل تھے۔ اگر باپ موجود ہے تو ظاہر ہے، دادا کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ لیکن اگر باپ نہیں ہے اور دادا زندہ ہے تواس کا حصہ کیا ہوگا؟ کیا وہ باپ کا قائم مقام ہے؟یا وہ وراثت میں حصہ دار نہیں ہوگا؟ یا اس کو شریک کرنے کا کوئی اور اصول ہوگا؟ تو یہ کچھ تفصیلی شکلیں ہیں جو حضرت عمر کے ذہن میں تھیں اور وہ ان کا فیصلہ چاہتے تھے۔سود کا بھی یہی معاملہ تھا۔سود کی کچھ شکلیں توبہت واضح ہیں،کچھ ایسی ہیں جن میں ایک پہلو سے سود کے ساتھ اشتباہ پایا جاتا ہے اور ایک لحاظ سے نہیں پایا جاتا۔ تو حضرت عمر چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کا بھی واضح حکم بیان فرما دیں۔

مطیع سید: ایک روایت ہے کہ جو شخص مال چھوڑے گا، وہ تو اس کے ورثا کا ہے لیکن اگر قرض چھوڑ کر جائے تو وہ ہ ہمارے ذمے ہے۔7

عمار ناصر: یہ بات نبیﷺ نے بطور صاحبِ امر کے بیان فرمائی ہے کہ ایسے شخص کے قرض کی ادائیگی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

مطیع سید: اصول تو یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑکر جا تا ہے، سب سے پہلے اس کا قرض اتار ا جا تا ہے۔ پھر جو بچ جائے، وہ ورثا میں تقسیم کیا جاتا ہے۔لیکن یہاں ایسے لگ رہا ہے کہ قرض کی ساری ذمہ داری ریاست لے رہی ہے۔

عمار ناصر:اگر مرنے والا ما ل چھوڑ کر گیا ہے اور اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس میں ریاست نہیں آئے گی۔لیکن اگر وہ مر گیا اور کچھ بھی نہیں چھوڑ کر گیا اور اس پر قرض ہے تو تب ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس میں یہ مضمر ہے کہ اس کے وارث بھی اس قرض کو اتارنے کے متحمل نہیں ہیں یا وارثوں میں کوئی ہے ہی نہیں جو اس ذمہ داری کو اٹھا ئے۔یہ ساری قیود اس کے اند رشامل ہیں۔

مطیع سید: ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ کوئی شخص تین راتیں ایسی نہ گزارے کہ وہ مال کے بار ےمیں جو وصیت کر نا چاہتا ہے، اس کو لکھوا نہ دیا ہو۔8 کیا یہ روایت وراثت کے حصے متعین ہونے سے پہلے کی ہے؟

عمار ناصر: نہیں،اس تخصیص کی ضرورت نہیں۔ ایک دائرے میں وصیت کا حق اب بھی ہے جس کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی تک وصیت کرنی چاہیے۔اگر آدمی کے ذہن میں کچھ چیزیں ہیں جن کی وہ وصیت کرنا چاہتا ہے تو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ لکھوا دینی چاہیے۔ موت کا چونکہ کوئی بھروسہ نہیں، اس لیے تین دن سے زیادہ وصیت لکھوانے میں سستی نہیں ہونی چاہیے۔

مطیع سید:ایصالِ ثواب کے مسئلے میں احادیث میں تو صدقہ کا ذکر آیا ہے9 لیکن قرآن ِ مجید پڑھنا یا دوسرے اعمال کا ثواب پہنچانا،کیا اس کو صدقے سے ہی اخذ کیا گیا ہے؟

عمار ناصر: جی، باقی اعمال کو صدقے پر ہی قیاس کیا جاتا ہے۔اس میں فقہا کا کچھ اختلاف بھی ہے۔ شوافع کے نزدیک قرآن کی تلاوت کا ایصال ثواب نہیں کیا جا سکتا، صرف انھی اعمال کا کیا جا سکتا ہے جن کا حدیث سے ثبوت ملتا ہے، مثلاً‌ صدقہ اور نفلی حج وغیرہ۔ دیگر فقہاء اس میں قیاس کے قائل ہیں اور تمام اعمال خیر کے ایصال ثواب کو درست مانتے ہیں۔

مطیع سید: واقعہ قرطاس10 کے حوالےسے عام طو رپر یہ تاویل کی جاتی ہے کہ آپﷺ دین کی ہی کچھ اہم باتیں بیان فرما نا چاہ رہے تھے۔مجھے یہ تاویل اطمینا ن بخش نہیں لگتی۔

عمار ناصر: واقعے کا سیاق تو واضح ہے کہ آپﷺ چاہتے بھی یہ تھے اور آپ نے بعض ایسے اقدامات بھی کیے اور آپ کو عمومی اعتما د بھی تھا کہ میرےبعد مسلمان ابو بکر ہی کو چنیں گے۔ تو عموماً‌ آپ یہی چاہ رہے تھے کہ اس معاملے میں کوئی حکم نہ دیں، بلکہ مسلمانوں پر ہی اس کو چھوڑ دیں۔لیکن کسی وقت آپﷺ کے دل میں یہ خواہش بھی پیداہوتی تھی کہ میں اس کو لکھوا دوں تاکہ کوئی نزاع نہ پیداہو۔یہ بعض اوقات میں ایک وقتی کیفیت ہوتی تھی جس پر آپ نے عمل نہیں فرمایا۔

مطیع سید: اس کے بعد بھی نبیﷺ زندہ رہے ہیں لیکن آپ نے کچھ نہیں لکھوایا۔ حضرت عباس بڑا افسوس کر تے تھے کہ کا ش آپﷺ لکھوا دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

عمار ناصر: دیکھیں، دونوں ہی پہلو تھے۔حضرت عمر کے سامنے ایک پہلوتھا۔ اگر جانشینی کی وصیت لکھوائی جاتی تو اس فیصلے کے بہت سے مضمرات ہوتے۔اگر آپﷺ کسی کو نامزد کر کے جاتے،تو اس سے آگے جو روایت بنتی اور جو تصورات پیداہوتے،وہ اور طرح کے ہوتے۔ آپﷺ اس کو امت پر چھوڑ کرچلے گئے تو ظاہر ہے کہ اس کے مضمرات دوسرے تھے۔دونوں ہی پہلو تھے۔ حضرت عمر کےسامنے ایک پہلو تھا، حضرت عباس دوسرے پہلو کو دیکھ رہے تھے۔

مطیع سید:آپﷺ بیمار تھے اور حضرت عائشہ کے پاس تھے۔آپ نے فرمایاکہ ابوبکر کے پاس کسی کو بھیجو تاکہ میں ان کو وصیت کر دوں۔ کیا یہ وصیت خلافت کے حوالے سے تھی؟

عمار صاحب: تعیین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ممکن ہے، خلافت کا مسئلہ ذہن میں ہو۔ ممکن ہے، کچھ اور اہم امور کے حوالے سے وصیت فرمانا چاہتے ہوں۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ نذر ماننےسے کوئی چیز نہیں ٹلتی۔11 نذر ماننا تو صدیوں سے چلاآرہا ہے اور کتب ِ حدیث میں نذر کے باقاعدہ ابواب ہیں،تو کیا اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا؟

عمار ناصر: دو پہلو ہیں۔ایک تو یہ کہ آپ کسی کام کی منت مانیں تو کیا اس کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اپنے تقدیری فیصلوں کو تبدیل کر دیتے ہیں؟ ایک یہ پہلو ہے۔دوسرایہ کہ منت ماننا اور اس کے مطابق کوئی مقصد پورا ہو جائے تو منت کو پوراکرنا، کیا یہ شریعت میں غیر مستحسن چیز ہے؟ تو حدیث میں یہ دوسری بات مرا د نہیں ہے۔قرآن بھی کہتا ہے کہ یوفون بالنذر، یعنی اہل ایمان جو منت مانتے ہیں، ا س کو پورا کرتے ہیں۔اس طرح کی حدیثوں میں یہ بھی مسئلہ ہوتا ہےکہ بعض دفعہ تبصرہ بڑا عمومی سا لگ رہا ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ کسی خاص واقعے پر ہوتا ہے۔اس لیے حدیثوں میں تعبیر وتشریح کی بڑی گنجائش رہتی ہے کہ آپ ﷺ عمومی طور پر منت ماننے کے عمل کے بارے میں فرما رہے تھے یاکسی واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے،کسی خاص سیاق میں یہ بات کہہ رہے تھے جس کی کوئی خاص وجہ تھی۔

مطیع سید:حالت ِ کفر میں اگر کوئی نذر مانی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ پوری کی جائے۔12

عمار ناصر: جی، اگر وہ پوری کرے گا تو اسے ثواب مل جائے گا۔

مطیع سید: میرے خیال میں احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔

عمار ناصر:نہیں وہ اور بحث ہے۔وہ بحث یہ ہے کہ کیا کفر کی حالت میں جو منت مانی تھی،اسلام لانے کے بعد اس کو پورا کرنا آدمی کے ذمے قانوناً‌ لازم ہے؟ احناف کہتے ہیں کہ وہ لازم نہیں ہے۔ اس میں احناف کے موقف میں ایک وزن ہے، لیکن وہ ایک فقہی بحث ہے۔یہاں جو مسئلہ حدیث میں بیان ہوا ہے، اس میں آپﷺ فقہی وجوب بیان نہیں فرما رہے۔آپ فرما رہے ہیں کہ جو منت مانی تھی، وہ کوئی غلط کام تو نہیں ہے،اس لیے اس کو پورا کرو گے تو اللہ اجر دے گا۔

مطیع سید: حضرت موسی ؑ موت کے فرشتے کو مکا مار دیتے ہیں۔13 اس کی عام توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ جلالی مزاج رکھتے تھے، لیکن پھر بھی یہ ہضم نہیں ہوتا کہ فرشتے کو مکا ہی مار دیا۔ اس سے حضرت موسی جیسے جلیل القدر پیغمبر کی شخصیت کی کیا تصویر بنتی ہے؟

عمار ناصر: اس واقعے کی ٹھیک ٹھیک صورت کیا تھی، اس کے متعلق یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ واقعے کے مطابق بظاہر حضرت موسیٰ نے فرشتے کے اچانک آ جانے کی وجہ سے اس کو مکا نہیں مارا، بلکہ وہ آپ کی روح قبض کرنا چاہتا تھا، اس پر اسے مکا مارا۔ فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے جا کر شکایت کی کہ حضرت موسیٰ اس وقت وفات کے لیے آمادہ نہیں، بلکہ دنیا میں مزید رہنا چاہتے ہیں۔ اشکال یہ بنتا ہے کہ روایت کے ظاہر کے مطابق آپ موت کے لیے تیار نہیں تھے اور پھر جب ان کو بتایا گیا کہ یہ کام آج ہو یا کئی ہزار سال کے بعد ہو، آخر مرناتو ہوگا تو انھوں نے اسی وقت رخصت ہونا قبول فرمایا۔ یہ کافی عجیب سی بات لگتی ہے۔ بظاہر یہ سنداً‌ درست ہے اور امام بخاری نے اسے نقل کیا ہے، لیکن اس طرح کی بعض دیگر روایات کے متعلق جو حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہیں، بعض اکابر محدثین نے کہا ہے کہ چونکہ وہ اسرائیلی روایات بھی بیان کرتے تھے، اس لیے غالباً‌ ایسی کوئی روایت ان کے شاگردوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دی ہے۔

مطیع سید: حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں واقعہ آتا ہے کہ انہو ں نے فرمایا کہ میں آج کی رات ۱۰۰ عورتوں کے پاس جاؤں گا اور ان سب کے پیٹ سے اللہ کی راہ کے مجاہد پیدا ہوں گے۔14 اس کے بارے میں آپ کے خیال میں کون سی توجیہ بہتر ہے؟

عمار ناصر: یہ روایت بھی پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی۔اس پر بعض اشکا ل ایسے ہیں جو حل نہیں ہوتے۔

مطیع سید: بعض لوگ اسے معجزے کے پہلو سے دیکھتے ہیں، لیکن معجزہ تو عموما َ کسی دینی یا دعوتی ضرورت کے تحت رونما ہوتا ہے،یعنی قوم پر اتمام ِ ججت کے لیے ہوتا ہے۔اگر یہ کوئی معجزہ تھا تو اس کا حضرت سلیمان علیہ السلام کی نبوت سے کیا تعلق تھا؟

عمار ناصر:یہ تو معجزے کا ایک عام مفہوم ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر بھی انبیا ؑ کے لیے اگر اللہ تعالیٰ کچھ غیر معمولی واقعات ظاہر فرما دیں تو ان کو بھی دینی اصطلاح میں معجزہ کہہ سکتے ہیں۔اس کا اُس دینی مقصد سے کوئی تعلق نہیں ہے،لیکن اپنے پیغمبر کی تکریم وتشریف کے لیے بھی اللہ تعالیٰ معجزہ رونما کر سکتے ہیں۔ مثلا َ حضرت سلیمانؑ کو اللہ نے غیر معمولی مردانہ طاقت دے دی ہو جیسے ان کو حکومت واقتدار کی بعض صورتیں اور شکوہ وجلال کے بعض پہلو ان کی خواہش پر دیے گئے،تو اس طر ح کی کوئی چیز دے دی ہو تو یہ کوئی بعید بات نہیں ہے۔ اگر حضرت سلیمان ؑ نے کسی موقع پر اس طاقت کا اظہار کرنا چاہا ہو تو اس واقعے کا ایک تناظر بن جاتا ہے۔ لیکن کچھ سوالات پھر بھی باقی رہتے ہیں۔

مطیع سید:قرآن مجید میں ایک جسم کا ذکر ہے جسے حضرت سلیمان کی کرسی پر ڈال دیا گیا۔ مفسرین عموما َاسی ضمن میں یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ان کے ہاں ناقص الخلقت بچے کی پیدائش ہوئی۔ کیا وہ اسی واقعے سے متعلق ہے؟

عمار ناصر: نہیں، قرآن کا سیاق تو اس واقعے سے ہم آہنگ نہیں ہے۔لیکن اس میں کس واقعے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفصیلات کیا تھیں،ہم حتمی طورپر کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مطیع سید:تو پھر اس کی وضاحت کیا کی جائے؟ وہ کیسا جسم تھا جو ان کی کرسی پر ڈال دیا گیا؟

عمار ناصر: یہ قرآن کے ان مقامات میں سے ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے واقعے کا جو پس منظر ہے، اس کا ذکر کیے بغیر بس ایک اشارہ سا کردیا ہے۔ایسے تمام مقامات پر ظاہر ہے، قرآن اولین مخاطبین کے پاس جو واقعے کا عمومی علم موجود ہے، اس پر ا نحصار کر رہا ہوتا ہے۔جیسے حضرت ایوب کے واقعہ میں کہا گیا کہ ایک جھاڑولیں اور بیوی کو مار دیں تاکہ قسم پوری ہو جائے۔ اب اس کا پس منظر کیا ہے،وہ قرآن نے نہیں بتایا۔

مطیع سید: اس کی تفصیل نبیﷺ نے حدیث میں بیان فرمائی ہے یا اسرائیلیات سے اس کی وضاحت کی جاتی ہے؟

عمار ناصر : مجھے جہاں تک مستحضر ہے، اس واقعے سے متعلق کوئی مستند حدیثیں موجود نہیں ہیں۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم کر ے، ان کو تو ایک مضبوط سہارا حاصل تھا۔15 یہ نبی ﷺ نے ان کے بارے میں منفی مفہوم میں فرمایا یا مثبت مفہوم میں؟

عمار ناصر:بظاہر منفی تبصرہ لگتا ہے۔مطلب یہ کہ مشکل صورت حال میں انہیں اس طرف توجہ نہیں رہی کہ مجھے تو اللہ کا سہارا حاصل ہے اور ان کے دل میں خیال آیا کہ کوئی ظاہری سہارا مثلاً‌ کسی مضبوط جتھے یا کنبے کی حمایت انھیں حاصل ہوتی تو قوم انھیں اذیت نہ پہنچا سکتی۔

مطیع سید: آپ ﷺ کو بیماری کی حالت میں گھر سے مسجد تک لے جایا گیا۔ آپ کو سہارا دینے والے ایک حضرت عباس تھے اور دوسری طرف حضرت علی تھے۔ حضر ت عائشہ نے روایت بیان کرتے ہوئے حضرت عباس کا نا م لیا، لیکن حضرت علی کا نا م نہیں لیا۔16 ان کا نام نہ لینے کی کیا وجہ تھی؟ کیا شروع سے ہی ان کا آپس میں کچھ اختلاف تھا؟

عمار ناصر: شارحین بعض روایات کی روشنی میں قیاس کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ پر واقعہ افک میں جو الزام لگایا گیا تھا، اس موقع پر حضرت علی سے جب حضور ﷺ نے ان کی رائے پوچھی تو انھوں نے کہا کہ اللہ نے آپ کے لیے اور بڑی عورتیں رکھی ہیں۔ اشارہ یہ تھا کہ ایک مشکوک معاملے میں اگر آپ علیحدگی اختیار کر لیں تو بہتر ہے۔ شاید اس وجہ سے حضرت عائشہ کے دل میں ایک رنجش ہو۔ ظاہرہے، وہ فطری طور پر حساس تھیں کہ اس موقع پر کس نے ان کے متعلق کیا کہا۔

مطیع سید: ایک موقع پر نبی ﷺ نے اپنی ازواج کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ تم انھی عورتوں جیسی ہو جن سے حضرت یوسف کو واسطہ پڑا تھا۔17 یہ کس حوالے سے نبی ﷺ نے تشبیہ دی؟

عمار ناصر: مراد یہ تھی کہ جیسے ان عورتوں نے مکر کیا یا تدبیر کی، اسی طرح تم بھی میری بات نہیں مان رہی اور دوسری طرف بات کو لے کر جارہی ہو۔مبالغے میں آپ ڈانٹ رہے ہوں تو اس میں تشبیہ اتنی مقصود نہیں ہوتی جتنا غصے کا اظہار ہو تا ہے۔

مطیع سید: ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے آپ کو بہت سی چیزیں بتائیں کہ میرے قبیلے کے لوگ توہم بھی کرتےہیں،کہانت بھی کرتے ہیں اور کچھ لکیریں بھی کھینچتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں، اللہ کے ایک نبی بھی لکیریں کھینچتے تھےتو جس کی لکیر ان کے موافق ہو، وہ ٹھیک ہے۔18 یہ کون ساعلم تھا؟

عمار ناصر:اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بظاہر رمل اور جفر یا کوئی زائچے بنانے جیسا علم لگتا ہے۔

مطیع سید: یہ اب موجود نہیں؟

عمار ناصر: کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اس وقت بھی حضورﷺ نے کہا کہ اس علم کی اصل تو ہے۔ لیکن یہ اب لوگوں کے پاس کتنا اس اصل کے مطابق ہےاور کتنا اس کے خلاف ہے، اس کی تصدیق کسی مستند ذریعے سے نہیں کی جا سکتی۔

مطیع سید: آج ہم زائچے کی مدد سے کسی کے مستقبل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ایک نبی کو اس کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی؟ وحی کا سلسلہ موجود تھا۔وہ اللہ تعالیٰ سے براہ ِ راست پو چھ سکتے تھے؟

عمار ناصر: ایسا تو نہیں ہے کہ نبی کو کسبی چیزوں سے دلچسپی نہیں ہوسکتی یا اسے سب کچھ جو بھی بتایا جاتا ہے، وہ وحی سے ہی بتایا جاتا ہے۔انبیا کی کسبی چیزیں بھی ہو سکتی ہے۔بہت سی چیزیں وہ تجربات سے اور اس طرح کے ذرائع سے بھی سیکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وحی کا موضوع اس طرح کی چیزیں نہیں ہوتیں۔وحی تو اللہ تعالیٰ اور مقصد کے لیے نازل فرماتے ہیں۔


حواشی

  1.  صحیح البخاری، ‌‌کتاب المرضی، ‌‌باب فضل من يصرع من الريح، رقم الحدیث : 5652، ص :1433
  2. صحیح البخاری، ‌‌کتاب الطب، ‌‌باب العین حق، رقم الحدیث : 5740، ص :1451
  3. صحیح البخاری، ‌‌کتاب الطب، ‌‌باب الجذام، رقم الحدیث : 5707، ص :1445
  4. صحیح البخاری، ‌‌کتاب الطب، ‌‌باب اذا وقع الذباب فی الاناء، رقم الحدیث : 5782، ص :1459
  5. صحیح مسلم، ‌كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نہی من اكل ثوم او بصلا او كراثا او نحوها، رقم الحدیث : 567، جلد:1،ص :396
  6. صحیح مسلم، كتاب التفسیر، باب فی نزول تحريم الخمر، رقم الحدیث : 3032، جلد:4،ص :2322
  7. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الفرائض، باب من ترك مالا فلورثتہ، رقم الحدیث : 1619، جلد:3،ص :1237
  8. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الوصیۃ، رقم الحدیث : 1627، جلد:3،ص :1250
  9. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الى الميت، رقم الحدیث : 1630، جلد:3،ص :1254
  10. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الوصیۃ، باب ترك الوصيۃ لمن ليس لہ شيء يوصی فيہ، رقم الحدیث : 1637، جلد:3،ص :1259
  11. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب النذر، باب النہی عن النذر وانہ لا يرد شيئا، رقم الحدیث : 1639، جلد:3،ص :1260
  12. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الایمان، باب نذر الكافروما يفعل فيہ اذا اسلم، رقم الحدیث : 1656، جلد:3،ص :1277
  13. صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ او نحوہا، رقم الحدیث : 1339، ص : 375
  14. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الایمان، باب الاستثناء، رقم الحدیث : 1654، جلد:3،ص :1275
  15. صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب احادیث الانبیاء، ‌‌باب قول الله تعالى لقد كان فی يوسف واخوتہ آيات للسائلين، رقم الحدیث : 3387، ص :866
  16. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الہبۃ وفضلها، ‌‌‌‌‌‌باب ہبۃ الرجل لامرأتہ، رقم الحدیث : 2588، ص :666
  17. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الاذان، ‌‌‌باب حد المريض ان يشهد الجماعۃ، رقم الحدیث : 664، ص :226
  18. صحیح مسلم،كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحريم الكلام فی الصلاةونسخ ما كان من اباحۃ، رقم الحدیث : 537، جلد:1،ص :381

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(جولائی ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter