مغربی فکر میں ایمان اور الحاد کی بحث

محمد عمار خان ناصر

جدیدیت کے پس منظر میں مغربی فکر کے ارتقا کی تفہیم کے کئی مختلف زاویے موجود ہیں۔ یہ سبھی زاویے کسی نہ کسی خاص پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں اور بحیثیت مجموعی بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک زاویہ میخائیل ایلن نے اپنی  کتاب ’’جدیدیت کی الہیاتی اساسات“ (The Theological Origins of Modernity) میں پیش کیا ہے۔

مصنف نے اس سوال کو موضوع بنایا ہے کہ جدیدیت بطور ایک ورلڈویو (نظام فکر) کیسے اور کس سوال کے جواب میں سامنے آئی ہے۔ مصنف کے نقطہ نظر کے مطابق مسیحی الہیات میں خدا، کائنات، انسان اور عقل کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے حوالے سے ایک کشمکش موجود تھی، اور اسی کشمکش کے تناظر میں جدیدیت نے بطور ایک ورلڈویو کے تشکیل پائی ہے۔

مصنف نے اس فکری سفر کے حسب ذیل مراحل متعین کیے ہیں:

۱۔ قرون وسطی کے اواخر میں تھامس اکوائنس وغیرہ کے ہاتھوں مسیحی متکلمانہ روایت جس کو Scholasticism  کا عنوان دیا جاتا ہے، تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ اس روایت میں یونانی فلسفے کے طبیعی کائنات اور فطری اخلاقیات کے تصورات کے ساتھ مسیحی عقیدہ خدا کو ملا کر ایک الہیاتی ورلڈویو تشکیل دیا گیا جس کا جوہر یہ ہے کہ خدا ایک ’’ریزن’’ رکھنے والی ہستی ہے جس کی ریزن کا ظہور کائنات میں ہوا ہے۔ چونکہ انسان کو خدا کی صورت پر پیدا کیا گیا اور اسے عقل دی گئی ہے، اس لیے انسان کائنات کے مشاہدے اور غور وفکر سے خدا کے ذہن کو سمجھ سکتا ہے اور کائنات میں موجودہ ’’غائیت’’ کو دریافت کر سکتا ہے۔

۲۔ اسکولیسٹسزم کے جواب میں اسمیت (nominalism) کے فلسفے کا ظہور ہوا جس نے بہت طاقتور استدلالات سے اس تصور کی نفی کی کہ کائنات خدا کے ذہن یا علم میں موجود کچھ خاص ماہیات (essences) کی جزئیات کا نام ہے جن کو انسانی عقل جزئیات کے مشاہدے اور مطالعے سے سمجھ سکتی ہے۔ اسمیت کے حامی مسیحی مفکرین نے کہا کہ کائنات کی ہر چیز انفرادی نوعیت رکھتی ہے اور کسی بھی کلی ماہیت کا جزوی نمونہ نہیں ہے۔ اس لیے کائنات اور اس کی اشیاء کی غرض یا معنویت خود کائنات کے مطالعے سے معلوم نہیں ہو سکتی، اس کا ذریعہ صرف بائبل میں درج الہام یا انسان کا روحانی تجربہ ہو سکتا ہے۔

۳۔ اسمیت کے پیدا کردہ چیلنج نے خدا، کائنات اور انسان کے باہمی تعلق کو نئے سرے سے متعین کرنے اور ایک نیا ورلڈویو تشکیل دینے کی کوششوں کو تحریک دی۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ اس نئے ورلڈویو میں مرکزی مقام کس کا ہو؟ خدا کا، فطرت یعنی کائنات کا یا انسان کا؟ یہ تینوں آپشن مغربی فکر میں مختلف مکاتب فکر نے اختیار کیے۔

۴۔ اصلاح مذہب کے قائدین یعنی پروٹسٹنٹ ماہرین الہیات نے خدا کو مرکزی مقام دیتے ہوئے انسان کے مقام اور انسانی عقل کی اہمیت کو محدود تر کرنے کی کوشش کی۔ ہیومنسٹ مفکرین نے اس کے برعکس (خدا کی نفی کیے بغیر) اپنے ورلڈویو میں انسان کے مقام کو مرکزیت دی اور انسان کے زاویہ نظر سے خدا اور کائنات کی نوعیت اور اہمیت متعین کرنے کی کوشش کی۔ (اس کشمکش اور مجادلے کے نمونے ہم مارٹن لوتھر اور اس کے ہم عصر ہیومنسٹ دانش ور اراسمس کے مباحثوں میں دیکھ سکتے ہیں جن میں لوتھر انسان کے جبر اور بے اختیاری کو موکد کرتا جبکہ اراسمس انسانی اختیار اور آزادی کا اثبات کرتا دکھائی دیتا ہے)۔

۵۔ اسی سوال کے جواب میں تیسرا آپشن یہ تھا کہ ان تینوں میں سے فطرت یعنی کائنات اور اس کے طبیعی قوانین کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے ان کے تحت خدا اور انسان کو سمجھا اور ان کا مقام متعین کیا جائے۔ اس انتخاب سے جو ورلڈویو تشکیل پاتا ہے، بنیادی طور پر اس کو ہم ’’جدیدیت’’ سے تعبیر کرتے ہیں۔

۶۔ لیکن فطرت کو مرکزی مقام دے کر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا، جب تک کہ خدا اور انسان کی (یعنی خدا اور انسان کے ایسے تصور کی جو نیچرلسٹک نہ ہو) نفی نہ کر دی جائے۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ خدا کی نفی کا نتیجہ انسان کو کلیتاً‌ ایک حیوان قرار دینے کی صورت میں نکلتا ہے، جبکہ انسان کی نفی مذہبی جنونیت پر منتج ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ جدیدیت دراصل مسیحی فکر میں ایک الہیاتی سوال (خدا، کائنات اور انسان کے مابین تعلق کس نوعیت کا ہے) کا متبادل جواب تلاش کرنے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی جس کی فکری مشکلات اور چیلنجز سے مغربی فکر ابھی تک نبردآزما ہے۔


ایک اور معاصر مصنف چارلس ٹیلر نے  اپنی کتاب  ’’عہد بے خدا “ (A Secular Age) میں ٹیلر نے پچھلی پانچ صدیوں میں ایمان والحاد کے سفر کے تین بنیادی مراحل واضح کیے ہیں۔

پہلا مرحلہ سولہویں سے اٹھارہویں صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ ان تین سو سالوں میں مسیحی ایمان کے متبادل کے طور پر خالص انسان پرستی (exclusive humanism) یعنی الحاد ایک فکری انتخاب کے طور پر سامنے آیا جو ماورائی حقائق کی نفی اور عقلی انداز فکر کا اثبات کرتا ہے اور باہمی افادہ (mutual benefit) کو انسانی معاشرے کی تنظیم کی بنیاد قرار دیتا ہے۔

دوسرا مرحلہ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے شروع ہو کر بیسویں صدی کے وسط تک آتا ہے۔ اس مرحلے کا بنیادی عنوان ’’نووا ایفکٹ’’ (nova effect) ہے، یعنی مسیحی ایمان، ڈی ازم (کائنات سے غیر متعلق خدا کا تصور) اور الحاد کی باہمی تنقید اور جدال کے نتیجے میں متنوع اور رنگارنگ آپشنز کا ظہور پذیر ہونا۔ ان آپشنز میں ایسے تصورات بھی شامل ہیں جن میں سے بعض عقلیت پسندی کو اور بعض انسانی مساوات کی تنویری فکر کو رد کرتے ہیں، جیسے رومانویت اور نیٹشے کا فلسفہ۔

تیسرا مرحلہ بیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوتا ہے، تاہم یہ ایک لحاظ سے دوسرے مرحلے کا تسلسل بھی ہے۔ پہلے اور دوسرے مرحلے میں الحاد سمیت جو مختلف آپشنز معاشرے کے بارسوخ طبقات (elite classes) کے لیے دستیاب ہوئے تھے، تیسرے مرحلے میں ان کا دائرہ عام آدمی تک وسیع ہو گیا ہے اور اس کے علاوہ کئی نئے آپشنز بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ اس مرحلے میں سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے زیر اثر انفرادیت اور شخصی پسند وناپسند نے ایک قدر کی حیثیت اختیار کی ہے جس کی جڑیں تو رومانوی تحریک میں ہیں، تاہم اس نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں عام ثقافت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

مذہبی شناخت پر اس تیسرے مرحلے کا اثر یہ ہے کہ اس سے پہلے مذہبی وروحانی زندگی جو کسی نہ کسی اجتماعی شناخت (مثلاً‌ ریاست، کلیسا یا کوئی مذہبی فرقہ) کے ساتھ جڑی ہوتی تھی، انفرادیت پسندی کے اس عہد میں یہ تعلق مزید کمزور ہو گیا ہے۔ (ص ۲۹۹، ۳۰۰)

--------------

مذکورہ کتاب کے اختتامی باب کے آخر میں ٹیلر نے الحاد کے مستقبل کے متعلق ایک (غیر حتمی) اندازہ بیان کیا ہے۔ ٹیلر کا کہنا ہے کہ جن مغربی معاشروں میں عموماً‌ الحادی طرز فکر کو قبول کر لیا گیا ہے اور کسی شخص کے خدا پر یقین رکھنے کو اچنبھے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہاں آئندہ نسلوں میں کئی وجوہ سے اس سے بے اطمینانی پیدا ہوگی اور سیکولرائزیشن کے رائج الوقت نظریے کی قوت یا تاثیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جائے گی۔

اس کا ایک سبب تو یہ ہوگا کہ جب دوسرے مغربی (اور غیر مغربی) معاشروں میں الحاد کی قبولیت عامہ پیدا نہیں ہوگی تو اس نظریے کی توقعات پر زد پڑے گی جو یہ قرار دیتا ہے کہ مذہب کا خاتمہ انسانی معاشروں کی ایک آفاقی منزل ہے اور جلد یا بدیر سب معاشروں کو اسی منزل پر پہنچنا ہے۔

ایک اور وجہ یہ بھی ہوگی کہ معاشرے کی جن قباحتوں اور خرابیوں کا ذمہ دار مذہب کو ٹھہرایا جاتا ہے، وہ ویسے ہی موجود رہیں گی۔ اس بیانیے کو استحکام دینے کے لیے مذہبی معاشروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے کہ وہ جدید اقدار کے لیے سازگار نہیں ہیں، جیسا کہ امریکی معاشرے پر اور اسی طرح مسلمان معاشروں پر یہ تنقید موجود ہے۔ تاہم سیکولرائزیشن کے نظریے کو اس طرح تقویت پہنچانے کا أسلوب زیادہ دیر تک کارگر نہیں ہوگا اور جلد یا بدیر غیر موثر ہو جائے گا۔

ایک تیسری وجہ یہ ہوگی کہ ماورائی حقائق سے انسان کو قطعی طور پر غیر متعلق کر دینے کے نتیجے میں زندگی کی بے معنویت کا إحساس گہرا ہوگا اور آئندہ نسلیں خود کو ایک waste land (بے مقصد دنیا) میں محسوس کریں گی۔ یوں نوجوان نسلیں مادیت کے محدود دائروں سے باہر معنویت کی تلاش کی طرف دوبارہ متوجہ ہوں گی۔

آراء و افکار

(جولائی ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter