دین کی دعوت دینے والوں کو اسیر ومحصور کرنے کا سلسلہ تو ہمیشہ سے جاری رہا ہے، لیکن خود دعوت کو پابند سلاسل کرنے کا ایک نیا آئیڈیا ابھی سامنے آیا ہے۔ یہ آئیڈیا ہمیں محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ غامدی صاحب نے قانونِ دعوت کے نام سے اپنی کتاب میزان میں ایک باب باندھا ہے اور اس میں دعوت کی اتنی قسمیں کی ہیں، اور ہر قسم کو اس طرح الگ الگ دائروں میں محصور کیا ہے، کہ امت مسلمہ کے عام فرد کے لیے دعوت کا میدان بہت چھوٹا اور قدرے غیر اہم ہوکر رہ جاتا ہے۔
غامدی صاحب دعوت کے بہت بڑے حصے کو بنی اسماعیل کے لیے خاص کردیتے ہیں، ایک حصہ ارباب اقتدار کو دے دیتے ہیں، ایک چھوٹا حصہ علما کو دیتے ہیں، اور ایک بہت چھوٹا حصہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھماتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس بات کو تفصیل سے بیان کریں گے۔
بنی اسماعیل میں محصور دعوت
قرآن مجید میں یابنی اسرائیل کہہ کر متعدد بار خطاب کیا گیا ہے، لیکن یابنی اسماعیل، یا عرب، یا اہل مکہ اور یا قریش کہہ کر ایک بار بھی خطاب نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کا پیغام آفاقی ہے، اس کے مخاطب سارے انسان ہیں، اس لیے اس کا اصل اور بنیادی خطاب یا ایھا الناس اور یا ایھا الذین آمنوا کہہ کر ہوتا ہے۔
یہود ونصاری کو قرآن مجید یا اھل الکتاب کہہ کر انھیں بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہے۔
قرآن مجید عرب کے مرکزی شہر مکہ میں حضرت محمد ﷺ پرنازل ہوا۔ آپ اور آپ کی قوم کا تعلق بنی اسماعیل سے تھا اور یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا عین مصداق تھا۔ قرآن مکہ میں نازل ہوا توفطری طور پر قرآن کے اولین مخاطب مکہ کے لوگ اور پھر عرب کے لوگ ہوتے۔عرب کے تمام قبائل کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ سب بنی اسماعیل سے تھے تاریخی طور سے درست نہیں ہے۔ عرب کے مکہ شہر میں بنی اسماعیل کے درمیان اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پرقرآن مجید کے نازل ہونے کی حکمتوں پر کئی پہلوؤں سے گفتگو کی گئی ہے۔اسے اس آخری رسالت کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ امام حمیدالدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
غرض یہ کہ بنی اسماعیل کے درمیان قرآن مجید نازل ہوا اور اس لحاظ سے وہ قرآن مجید کے اولین مخاطب ٹھہرے۔ لیکن ان کی حیثیت قرآن مجید کے اصل مخاطب کی نہیں تھی۔ قرآن مجید کے اصل مخاطب تورہتی دنیا تک کے تمام انسان ہیں۔
قرآن مجید نے اپنے مخاطبین کو یا ایھا الناس کہہ کر خطاب کیا، وہ خطاب سب سے پہلے اہل مکہ، پھر اہل عرب اور پھر ساری دنیا تک پہنچا۔
قرآن مجید نے دعوت قبول کرنے والوں کو یا ایھا الذین آمنوا کہہ کر مخاطب کیا، وہ خطاب سب سے پہلے مکہ پھر عرب کے مسلمانوں اور پھر دنیا کے تمام اہل ایمان پر منطبق ہوا۔
دراصل زمانہ نزول کے تقاضوں اور کتاب کے اصلی خطاب کے تقاضوں میں فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ زمانہ نزول کے تقاضوں کے تحت اس وقت کے حالات اور افراد کا ذکر ضرور ہوگا۔ لیکن اصلی خطاب ان تک محدود رہے یہ ضروری نہیں ہے۔ اصلی خطاب کی وسعتیں اس خطاب کا اسلوب بیان متعین کرے گا۔
قرآن مجید کی تعلیم وہدایت کا عملی ظہور اس کے نزول کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا۔ اس لحاظ سے قرآن مجید کی آیتوں میں عرب کے اس وقت کے حالات اور اقوام کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب کبھی نہیں سمجھا گیا کہ اس کے بعض بہت بنیادی احکام صرف عربوں کے لیے تھے۔
قرآن کے مخاطب صرف عرب یا صرف بنی اسماعیل کبھی بھی نہیں رہے۔ہمیشہ اس کا خطاب سب کے لیے رہا۔ یہ قرآن مجید کا امتیاز ہے۔اس امتیاز کی وجہ سے اس کا خطاب کبھی باسی نہیں ہوسکتا ہے۔ یا ایھا الناس اور یا ایھا الذین آمنوا کے الفاظ قرآن کے خطاب کو ہمیشہ زمانی لحاظ سے تازگی اور مکانی لحاظ سے لامحدود آفاقیت عطا کرتے رہے اور کرتے رہیں گے۔
جاوید احمد غامدی صاحب نے ایسی راہ اختیار کی جو قرآن مجید کے اس امتیاز سے مناسبت نہیں رکھتی ہے۔ انھوں نے جب قانونِ دعوت کے عنوان کے تحت گفتگو کی تو قرآن کی ان آیتوں کو جو دعوت دین کی عظیم ذمے داری امت مسلمہ کے تمام افراد پر عائد کرتی ہیں، بنی اسماعیل کے ساتھ خاص کردیا۔
غامدی صاحب کی پوری گفتگو کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم اقوام کو دعوت دینے کا کام صرف بنی اسماعیل کا ہے۔
غامدی صاحب یہ وضاحت نہیں کرتے ہیں کہ جو ذمہ داری بنی اسماعیل کو انجام دینی ہے، وہ بنی اسماعیل کے ہر فرد کو انجام دینی ہے یا ان کے علما یا حکام کو انجام دینی ہے، حالاں کہ یہ سوال بہت اہم ہے۔
غامدی صاحب، وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ، وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ اور وجیء بالنبیین والشھداء جیسی آیتوں میں مذکور دعوت دین، شہادت حق اور أمر بالمعروف ونھی عن المنکر کے کارہائے عظیم کو ذریت ابراہیم اور خاص طور سے بنی اسماعیل کے لیے خاص کردیتے ہیں۔ ان آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ذریت ابراہیم کو بھی اللہ تعالی نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کا حکم دیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے“۔ (میزان، ص547)
مزید لکھتے ہیں:
”اللہ تعالی نے بنی اسماعیل کو اسی بنا پر درمیان کی جماعت امۃ وسطا قرار دیا ہے جس کے ایک طرف خدا اور اس کا رسول دوسری طرف الناس یعنی دنیا کی سب اقوام ہیں، اور فرمایا ہے کہ جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے اب وہی شہادت باقی دنیا پر تمہیں دینا ہوگی“۔ (میزان، ص 548)
ان کے نزدیک دعوت کے نتیجہ میں غلبہ ونصرت کا وعدہ بھی ذریت ابراہیم کے ساتھ خاص ہے، لکھتے ہیں:
”ذریت ابراہیم کا یہی منصب ہے جس کے تحت یہ اگر حق پر قائم ہو اور اسے بے کم وکاست اور پوری قطعیت کے ساتھ دنیا کی سب قوموں تک پہنچاتی رہے تو ان کے نہ ماننے کی صورت میں اللہ تعالی ان قوموں پر اسے غلبہ عطا فرماتے ہیں اور اس سے انحراف کرے تو انھی کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل، دونوں اس وقت اسی عذاب سے دوچار ہیں۔“ (میزان، ص 548)
درج ذیل آیتوں کی تفسیر میں بھی غامدی صاحب نے یہ بات کھل کر کہی ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ (البقرۃ: 143)
اس آیت کی تفسیر میں دین کی شہادت کو بنی اسماعیل سے جوڑ کر پیش کرتے ہیں:
”اس آیت میں یہ نبی ﷺ کی قوم بنی اسماعیل کے لیے آیا ہے۔ سورہ حج (22) کی آیت 78 میں ھو اجتباکم کے الفاظ دلیل ہیں کہ انھیں اللہ تعالی نے دین کی اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔“ (البیان، ج1، ص 142)
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیْء َ بِالنَّبِیِّیْنَ وَالشُّہَدَاء۔(الزمر 69)
اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”یعنی ذریت ابراہیم کے لوگ جو زمین پر نبیوں کی دعوت کے گواہ بنائے گئے۔ ان کی نمائندگی ظاہر ہے کہ ان کے مجددین ومصلحین کریں گے۔“ (البیان، ج 4، ص 349)
وَجَاہِدُوا فِیْ اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلّةَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِن قَبْلُ وَفِیْ ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔
”اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسا جہاد کا حق ہے۔ اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ۔ پس تمہیں چاہیے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط تھام لو، وہی تمہارا ولی اور مالک ہے۔ پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے۔“ (الحج: 78)
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے غامدی صاحب بنی اسماعیل کے علاوہ دیگر لوگوں کو تبعاً اس میں شریک قرار دیتے ہیں (حالاں کہ یہاں خطاب یا أیھا الذین آمنوا کہہ کر کیا گیا ہے جو اس سے پہلی والی آیت میں ہے اور یہ آیت اسی پر عطف ہے۔) وہ کہتے ہیں:
”نیز یہ حقیقت بھی اس سے واضح ہوتی ہے کہ اصلا اس ذمہ داری کے لیے بنی اسماعیل کو چنا گیا ہے۔ دوسرے سب لوگ جب ان کی دعوت قبول کرکے اسلام میں داخل ہوتے ہیں تو تبعاً اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔“ (البیان، ج 3، ص 376)
غامدی صاحب دین حق کی شہادت کے ساتھ اتمام حجت کے قانون کو بھی بنی اسماعیل سے جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
”اوپر جس انتخاب کا ذکر تھا، یہ اس کی وضاحت کردی ہے کہ وہ دین حق کی شہادت کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ شہادت محض دعوت و تبلیغ نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خدا کی دینونت کا ظہور بھی ہے جس کے تحت یہ اگر حق پر قائم ہوں اور اسے بے کم وکاست اور پوری قطعیت کے ساتھ دنیا کی سب قوموں تک پہنچاتے رہیں تو ان کے نہ ماننے کی صورت میں اللہ تعالی ان قوموں پر انھیں غلبہ عطا فرماتے ہیں اور اس سے انحراف کریں تو انھی کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔چناں چہ ان کا وجود ان حقائق کی گواہی بن جاتا ہے جو یہ زبان وقلم سے پیش کرتے ہیں۔ دعوت وتبلیغ کے بجائے‘شہادت’کا لفظ اسی رعایت سے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت اتمام حجت ہے جو اگر ہوجائے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلہ الٰہی کی بنیاد بن جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد عالمی سطح پر اس اتمام حجت کے لیے اللہ تعالی نے یہی انتظام فرمایا ہے۔“ (البیان، ج 3، ص377)
مذکورہ بالا عبارتوں سے غامدی صاحب کا یہ مدعا بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اقوام عالم کے سامنے اس دین کی شہادت کی ذمے داری بنی اسماعیل نامی کسی مخصوص نسلی گروہ کی ہے۔ غیر مسلموں میں دعوت کے کار عظیم کو بنی اسماعیل کی مخصوص ذمہ داری قرار دیتے ہوئے پوری امت کو اس ذمہ داری سے علیحدہ کردینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں نکلتا ہے کہ دعوت کا کام محدود سے محدود تر ہوجائے، جب کہ قرآن مجید سے منشائے خداوندی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کام کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اصل ذمے داری تو بنی اسماعیل کی ہے اوردیگر مسلم اقوام اس میں تبعاً شریک ہیں، تو اس تبعیت کے لیے اول تو واضح دلیل درکار ہوگی، دوسرے یہ کہ پھر دوسری مسلم اقوام کے لیے اس خطاب میں اتنی طاقت نہیں رہ جاتی ہے کہ وہ اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
بہرحال یہ بات کسی برہان کے بغیر قبول نہیں کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی دین کے سب سے اہم کام کو جو نبیوں کا کام رہا ہے ایمان وعقیدہ سے جوڑنے کے بجائے کسی مخصوص سلسلہ نسب سے جوڑ دے۔ اس باب میں غلطی کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں ان کی ذریت میں سے امت اٹھانے کا مطلب محدود معنوں میں لے لیا گیا۔ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ وہ امت ابتدائی طور سے آل اسماعیل میں سے ہوگی۔ چناں چہ یہی ہوا کہ نبی ﷺ کے جاں نثاروں میں سب سے پہلے آل اسماعیل شامل ہوئے، پھر بعد میں آنے والی پوری امت مسلمہ ان کے راستے پر چل کر اس امت میں شامل ہوتی رہی اور یہ سلسلے قیامت تک جاری رہے گا۔ سورہ جمعہ کی آیت نمبر (2) میں بھی یہی بات کہی گئی کہ اللہ نے اپنے رسول کو امیوں یعنی اہل مکہ یا اہل عرب کے درمیان بھیجا۔ لیکن اس کا مطلب یہ کسی نے نہیں سمجھا کہ امت مسلمہ میں ذمے داریوں کے پہلو سے عرب اور غیر عرب کی تفریق یا تقسیم کی گئی ہے۔
یہی بات اللہ کے رسول نے اس امت کو تیار کرتے ہوئے بتائی تھی، کہ یہ امت نسب کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدہ کی بنیاد پر تیار کی جارہی ہے اور عقیدہ وعمل سے گہری وابستگی ہی بلاتفریق ہر شخص کو اس خیر امت میں شمولیت کا حق دے گی۔ جزیرہ عرب کے ہزاروں غیر عرب غلام ایمان لاکر راست خیر امت میں شامل ہورہے تھے نہ کہ کسی دوسرے درجے کے امتی بن رہے تھے۔ اول روز سے یہ واضح کردیا گیا تھا کہ تاقیامت خیر امت میں شامل ہونے کے لیے کوئی حسب ونسب بنیاد نہیں بنے گا بلکہ خیر امت کے مذکورہ اوصاف ہی بنیاد بنیں گے۔
آج بھی یہ بات کسی طرح قابل قبول نہیں ہے کہ خیر امت میں شامل ہونے کا حق صرف کچھ عرب قبائل کو ہے، اور ہم ہندوستانی مسلمانوں کو نہیں ہے۔ ہندوستان کے غیر مسلموں تک دین کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری اولین درجے میں ہندوستانی مسلمانوں کی ہے، اور یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہوگا کہ ہم اپنے اہل خانہ کی اصلاح تک خود کو محدود رکھیں اور انتظار کریں کہ عرب کے بنی اسماعیل یہاں آکر دعوت دین کا کام کریں گے۔
تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر بنی اسماعیل اور غیر بنی اسماعیل کی تقسیم کبھی نہیں رہی ہے، عہد رسالت میں مہاجرین اور انصار کے الگ الگ امتیازی تذکرے ملتے ہیں، دونوں کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے۔ صحابہ کی مخصوص حیثیت بھی سامنے آتی ہے۔لیکن امت کے اندر بنی اسماعیل اور غیر بنی اسماعیل کی تقسیم غامدی صاحب کے ذہن کی اختراع ہے۔ یہ تقسیم دین کے مزاج کے خلاف ہے اور اس سے بہت سارے مفاسد کا دروازہ کھل سکتا ہے۔سب سے بڑا مفسدہ یہ ہے کہ قرآن کا وہ بڑا حصہ جو شہادت حق پیش کرتا ہے امت کے عام افراد کے لیے اجنبی ہوجائے گا۔ اس کا علم بردار صرف بنی اسماعیل کو سمجھا جائے گا۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد بار بنی اسرائیل کا تذکرہ ہوا، اور بنی اسرائیل کے نام سے ہوا۔ لیکن پورے قرآن مجید میں کہیں بنی اسماعیل کا لفظ نہیں آیا، خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسماعیل کی کوئی خصوصی پہچان امت مسلمہ کے اندر متعارف نہیں کرائی اور غامدی صاحب نے کسی واضح دلیل کے بغیر خیر امت کا دائرہ صرف بنی اسماعیل کے لیے خاص کردیا، اور اس پوری امت کو اس سے محروم کردیا جو اب تک یہ سمجھتی آئی تھی کہ ایمان اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے ذریعے اس میں شامل ہوا جا سکتا ہے۔
کیا یہ بات آسانی سے قبول کی جاسکتی ہے کہ وحی الٰہی کی اہم ترین باتیں جیسے دین کی شہادت، اتمام حجت اور اللہ کا قانون دینونت بنی اسماعیل سے خاص طور پر متعلق ہو، اور اس طویل تاریخ میں خود بنی اسماعیل کو اس کا علم تک نہ ہو؟ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا پورا علمی ورثہ امت کی اس طرح کی تقسیم سے یکسر خالی ہے۔
صحیح تعبیر وہی ہے جو امت میں ہمیشہ رائج رہی یعنی صحابہ کی جماعت جو رسالت کی اولین علم بردار تھی، اور پھر پوری امت جو صحابہ کی تابع رہی۔بلاشبہ صحابہ کی اکثریت بنی اسماعیل پر مشتمل تھی، لیکن بنی اسماعیل کی کوئی ایسی امتیازی حیثیت نہیں تھی جو صحابہ کے بعد قیامت تک نسل در نسل جاری وساری رہے۔ صحابہ کی جماعت کو خیر امت کہا گیا اور وہ بھی اوصاف کے حوالے سے کہا گیا تاکہ ان اوصاف کے راستے سے خیر امت میں شمولیت کا دروازہ تمام انسانوں کے لیے رہتی دنیا تک کھلا رہے۔
خلاصہ یہ کہ دین حق کی دعوت اور شہادت کی جس ذمے داری کو غامدی صاحب بنی اسماعیل کے لیے خاص بتاتے ہیں وہ پوری امت مسلمہ کے لیے عام ہے۔ نظم قرآن کی روشنی میں یہی موقف امام فراہی نے واضح کیا۔
نظم قرآن کی دلالت
اگر ہم سورہ آل عمران کی آیت 102 سے 110 تک سامنے رکھیں تو یا ایھا الذین آمنوا کے خطاب سے اہل ایمان کو بنیادی ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ تمام ہدایات تمام اہل ایمان کے لیے ہیں۔ نظم قرآن کے امام، علامہ فراہی نے نظم کلام کی بھرپور رعایت کرتے ہوئے سب کا مخاطب اس امت کو قرار دیا ہے۔
وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّةٌ یدْعُونَ إِلَی الْخَیرِ وَیأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (یہ بیان ہے اس منصبِ شہادت کے فرائض کا جو اللہ نے اس امت کو دیا ہے۔) وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَہُمُ الْبَینَاتُ۔ پھر اہل کتاب کے برے انجام کا ذکر کیا جب انھوں نے شہادت کے امر کو ضائع کردیا، حالاں کہ وہ شہدا بنائے گئے تھے۔ پھر ان (اہل ایمان) کے منصب کی دوبارہ توصیف کی، اور فرمایا: کُنْتُمْ خَیرَ أُمّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ۔ پس یہ اللہ کے اس قول کا بیان ہے جو سورہ بقرۃ میں آیا ہے: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاس (تفسیر سورۃ البقرۃ 143)
غامدی صاحب نظم کلام کو دلیل بنانے کے علم بردار ہیں، لیکن اس باب میں انھوں نے نظم کلام کے شیرازے کو بکھیر کر رکھ دیا ہے، اور نظم کلام کی اتنی بھی رعایت نہیں کی ہے، جتنی رعایت نظم قرآن کو نہیں ماننے والے کرتے ہیں۔
ان کی تفسیر البیان میں متعلقہ آیات کی تفسیر پڑھتے ہوئے عجیب وغریب صورت حال سامنے آتی ہے، اور نظم کلام بالکل بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔
واعتصموا بحبل اللہ کا خطاب مسلمانوں کے لیے بتاتے ہیں، کہتے ہیں:
”اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ ان کی اجتماعی حیثیت میں ہے“۔
اسی آیت میں وکنتم علی شفا حفرۃ کا خطاب عربوں کی طرف موڑ دیتے ہیں، کہتے ہیں:
”یہ اس عظیم احسان کی یاد دہانی ہے جو قرآن کے ذریعے سے عربوں پر ہوا۔“
اسی سیاق میں ولتکن منکم أمة کا خطاب عام مسلمانوں کے لیے قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں:
”یہ مسلمانوں کو ان کی اجتماعی حیثیت میں حکم دیا ہے کہ اس ہدایت پر قائم رہنے کے لیے اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو مقرر کریں جو انھیں بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے رہیں۔ پھر اسی حیثیت سے فلاح کی بشارت بھی دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ حکم ارباب اقتدار سے متعلق ہے“۔
اور اسی سیاق میں کنتم خیر أمة، کا خطاب بنی اسماعیل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں:
”یہ بنی اسماعیل کے لیے تسلی اور بشارت ہے کہ ایمان وعمل کے لحاظ سے اس وقت وہ خیر امت ہیں“۔ (البیان،جلد اول، ص 388)
امام فراہی منصب شہادت کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اہل کتاب سے لے کر امت مسلمہ کے حوالے کیا گیا۔ سورہ حج کی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں امام فراہی لکھتے ہیں:
وکذلک اجتبی اللہ المؤمنین لیکونوا شہداء علی الناس، کما أن النبی شہید علی المؤمنین۔
اس طرح اللہ نے مومنوں کو منتخب کرلیا کہ وہ لوگوں کے سلسلے میں شہدا بنیں، جس طرح نبی مومنوں کے سلسلے میں شہید ہے۔ (تعلیقات الفراہی)
جب کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ یہ منصب بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کے حوالے کیا گیا۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔ خاص طور سے آج کے تناظر میں۔ آج اس کا موقع نہیں ہے کہ بنی اسماعیل کو ان کی ذمے داری یاد دلائی جائے، موقع اس کا ہے کہ امت مسلمہ کو اس کی ذمے داری یاد دلائی جائے۔
حکم رانوں میں محصور دعوت
پوری امت پر دعوتی ذمے داری عائد کرنے والی دو اہم آیتوں کو غامدی صاحب ارباب اقتدار کے لیے مخصوص کردیتے ہیں اور اربابِ اقتدار کو بھی دعوت کی کچھ مخصوص راہیں دکھاتے ہیں۔
ایک آیت ہے:
وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّة یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ،
”اور چاہیے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“ (آل عمران:104)
اس آیت کے ضمن میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:
”آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ اجتماعی حیثیت میں اس کے مخاطب ہیں، لہٰذایہ حکم ارباب اقتدار سے متعلق ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو اگر کسی خطہ ارض میں سیاسی خود مختاری حاصل ہوجائے تو اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں، برائی سے روکیں اور بھلائی کی تلقین کریں۔ یہ ذمہ داری، ظاہر ہے کہ بعض معاملات میں تبلیغ وتلقین کے ذریعے سے اور بعض معاملات میں قانون کی طاقت سے پوری کی جائے گی۔ پہلی صورت کے لیے جمعہ کا منبر ہے جو اسی مقصد سے ارباب حل وعقد کے لیے خاص کیا گیا ہے۔ دوسری صورت کے لیے پولیس کا محکمہ جو مسلمانوں کی ریاست میں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا جاتا اور اپنے لیے متعین کردہ حدود کے مطابق اس کو انجام دینے کے لیے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتا ہے“۔(میزان 554)
دوسری آیت ہے:
الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ۔
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘ (الحج: 41)
اس آیت کے سلسلے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:
”یہاں سے آگے اب اللہ تعالی نے وہ فرائض بیان فرمائے ہیں جو مسلمانوں کو اگر کسی جگہ اقتدار حاصل ہو تو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر عائد ہوتے ہیں —حکومت کی سطح پر نماز قائم کرنے کے لیے جو سنت رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمائی ہے، اس کی رو سے اولا مسلمانوں کے ارباب حل وعقد خود بھی نماز کا اہتمام کریں گے اور اپنے عمال کو بھی اس کا پابند بنائیں گے، ثانیا نماز جمعہ اور نماز عیدین کا خطاب اور ان کی امامت ہر جگہ یہ ارباب حل وعقد اور ان کے مقرر کردہ حکام ہی کریں گے یا ان کی طرف سے ان کا کوئی نمائندہ یہ خدمت انجام دے گا۔“ (البیان ج 3 ص 358)
غامدی صاحب نے پہلے تو ان دونوں آیتوں کو ارباب اقتدار کے ساتھ خاص کردیا، پھر ارباب اقتدار کے کام کو مسلمانوں کی داخلی اصلاح تک محدود کردیا، اور داخلی اصلاح کے کام کو جمعہ کے خطبے اور پولیس کے محکمے میں سمیٹ دیا۔ چناں چہ مسلمانوں کے ارباب اقتدار کی ذمہ داریوں میں غیر مسلم دنیا کو دین کی دعوت دینے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔
ان دونوں آیتوں کو ارباب اقتدار کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ ان آیتوں میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ آیتوں کے الفاظ، سیاق وسباق، اور اب تک کا امت کا فہم یہی بتارہا ہے کہ ان آیتوں میں پوری امت کو اس کی ذمے داری یاد دلائی گئی ہے۔
پہلی آیت میں ولتکن منکم أُمَّة میں من اگر بیانیہ ہے تو یہ ذمے داری پوری امت کی ہے، اور اگر تبعیض کا ہے تو بھی من حیث الجملہ پوری امت کی ذمے داری ہے،جب تک کسی ایک گروہ کے ذریعے یہ ذمے داری ادا نہیں ہوجاتی۔ بہرحال ذمے داری ارباب اقتدار پر نہیں بلکہ امت پر ہے، امت کا جو فرد فرض کی ادائیگی کے جذبے سے اس میں شریک ہوجائے اس کے لیے فلاح وکام یابی کی بشارت ہے۔ چناں چہ آگے کنتم خیر أُمَّة والی آیت بتاتی ہے کہ عہد رسالت میں فرض کی ادائیگی کا یہ جذبہ پوری امت میں پیدا ہوگیا تھا اور پوری امت اس میں شامل ہوگئی تھی۔
دوسری آیت میں افراد کو اقتدار دینے کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ امت کو غلبہ وتمکین دینے کی بات ہے، کہ جب ایمان والوں کو کسی علاقے میں دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اپنا یہ فرض بھول نہیں جاتے ہیں، بلکہ تن دہی سے ادا کرتے ہیں۔چناں چہ ان فرائض میں زکوٰۃ وصول کرنا نہیں بلکہ زکوٰۃ ادا کرنے کا ذکر ہے۔ ان تعلیمات کی روشن عملی مثال عہد رسالت ہی میں سامنے آگئی تھی۔ اہل ایمان کو مدینہ میں تمکین حاصل ہوئی اور انھوں نے یعنی تمام اہل ایمان نے ان فرائض کو وہاں بحسن وخوبی انجام دیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت انھی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنھیں اپنے گھروں سے نکالا گیا اور انھیں مدینے میں ٹھکانا حاصل ہوا۔ اور پھر یہ لوگ رہتی دنیا تک تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ بنے۔
یاد رہے کہ اس آیت میں جو فرائض بیان کیے گئے ہیں وہ غلبہ وتمکین کی صورت میں ضرور انجام دینے ہیں۔ تاہم غلبہ وتمکین حاصل نہ ہو تو بھی ان تمام کاموں کو کرنا ہے کیوں کہ ان کے بغیر غلبہ حاصل ہوہی نہیں سکتا ہے۔ غرض اقامت صلاۃ کی طرح یہ سب مستقل کام ہیں، اہل ایمان جس حال میں ہوں انھیں یہ کام کرنا ہے، یہ ان پر بھی فرض ہیں جن کو زمین میں غلبہ نصیب ہوا اور ان پر بھی فرض ہے جن کو غلبہ نصیب نہیں ہوا ہے۔
امت کے ارباب اقتدارچوں کہ امت کے حقیقی نمائندے ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس کے مکلف ہوتے ہیں کہ امت کی اس ذمے داری کی ادائیگی کے لیے بہتر سے بہتر انتظامات کریں۔ اقامت صلاۃ کے لیے مساجد کی تعمیر، زکاۃ کی ادائیگی کے لیے وصولی اور تقسیم کا انتظام، نیز امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی امت کے منتخب حکم رانوں کی ذمے داری ہے۔
علما میں محصور دعوت
قرآن مجید میں جہاں بھی دعوت کا حکم دیا گیاہے، پوری امت کو دیا گیاہے۔ اس سلسلے میں عالم اور غیر عالم کے درمیان کوئی تفریق نظر نہیں آتی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے پیش نظر پوری امت کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے اور پوری امت کو دعوت کے لیے سرگرم رکھنا ہے، نہ یہ کہ چند علما ہوں جو داعی ہوں اور باقی غیر عالم اور غیر داعی رہیں۔ درج ذیل آیت سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَآئفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون۔
’’اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں۔‘‘ (التوبہ: 122)
اس آیت سے منشائے الٰہی معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود تو یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تفقہ فی الدین ہر مومن پر فرض ہے اور صرف وہ اس فرض سے بری ہے جو اس کی استطاعت نہیں رکھتا ہو۔ اسی لیے اہل مدینہ سے کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ ان میں بعض لوگ تفقہ فی الدین سے آراستہ ہوں اور بعض آراستہ نہ ہوں۔تفقہ فی الدین کے لیے سفر نہ کرنے کی اجازت دراصل صرف ان لوگوں کو دی گئی جو بہت زیادہ دور ہونے کی وجہ سے اس مقصد کے لیے سفر نہیں کرسکتے ہوں، جس طرح حج تمام مسلمانوں پر فرض ہے ماسوا اس کے جو سفر حج کی استطاعت نہیں رکھتا ہو۔اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی وہ آیت سامنے رہنی چاہیے جس میں کہا گیا: انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء، اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کو وہ علم حاصل کرنا چاہیے جس سے خشیت الٰہی پیدا ہو، چوں کہ خشیت الہی ہر مومن سے مطلوب ہے، لہذا وہ علم بھی سب سے مطلوب ہے، جس سے خشیت الہی پیدا ہو۔ اسی طرح دعوت، انذار، أمر بالمعروف ونھی عن المنکر کا کام ہر مومن سے مطلوب ہے، اور اس کے لیے جو علم اور جو دین کی سمجھ ضروری ہے اس کا حصول بھی ہر مومن پر فرض ہے۔
غرض اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک دین کی سمجھ تمام مسلمانوں تک پہنچانے کا انتظام نہیں ہوجاتا کچھ لوگ لازما دین کی سمجھ حاصل کرکے انذار کام کریں، لیکن جیسے جیسے انتظامات میسر ہوتے جائیں دین کی سمجھ پوری امت میں عام ہوتی جائے اور امت کے اندر دین کی سمجھ رکھنے والے اور نہیں رکھنے والے کی تفریق ختم ہوجائے، جس طرح عہد رسالت کے مدینہ میں یہ تفریق نہیں پائی جاتی تھی۔
غامدی صاحب اس آیت سے یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ علما بننے کی ذمے داری کچھ لوگوں پر عائد ہوتی ہے، اور نبیوں کے بعد ان کی انذار والی ذمے داری بھی انھیں ہی انجام دینی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”دعوت کا یہ حکم علما کے لیے ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے، لیکن ان کی ہر جماعت میں سے کچھ لوگوں کو لازما اس مقصد کے لیے نکلنا چاہیے کہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور اپنی قوم کے لیے نذیر بن کر اسے آخرت کے عذاب سے بچانے کی کوشش کریں۔ سورہ توبہ کی اس آیت پر غور کیجیے تو اس سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دعوت کا جو حکم اس میں بیان ہوا ہے، اس کا مکلف اللہ تعالی نے ہر مسلمان کو قرار نہیں دیا۔“ (میزان، ص 550)
غامدی صاحب کے نزدیک انذار کا کام علما کے لیے خاص ہے، لکھتے ہیں:
”دین کا عالم بن کر اپنی قوم کو انذار کیا جائے، اس کی توقع ہر مسلمان سے نہیں کی جاسکتی۔ چناں چہ اللہ تعالی نے یہ بات اس آیت میں صاف واضح کردی ہے کہ تمام مسلمانوں کو نہیں بلکہ ان کے گروہ میں سے چند لوگوں کو اس کام کے لیے نکلنا چاہیے۔“ (میزان، ص 550)
(یہاں لفظ چند بھی غور طلب ہے) وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ علما امت کی دعوت کا دائرہ کار امت کے اندر ان کی اپنی قوم ہے، وہ بھی وہ علما جو ”پہلے دین کا گہرا علم حاصل کریں“ اور ”قرآن وسنت میں گہری بصیرت پیدا کریں“ وہ لکھتے ہیں:
”سورہ توبہ کی یہ آیت دین میں بصیرت رکھنے والوں کو اس بات کا مکلف ٹھہراتی ہے کہ جاھدوا فی اللہ حق جھادہ کے جذبے سے وہ اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق امت کی ہر بستی اور ہر قوم میں اس دعوت کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ وہ اپنی قوم اور اس کے ارباب حل وعقد کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں پوری درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ خبردار کرتے رہیں۔ ان کے لیے ہر سطح پر دین کی شرح و وضاحت کریں۔“ (میزان، ص 551)
اصل میں اگر یہ کہا جائے کہ انذار کا کام صرف علما کے کرنے کا ہے، تو بات کچھ اور ہوتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ علما پر انذار کا کام فرض ہے، تو بات بدل جاتی ہے۔ انذار کا کام اہل ایمان کے کرنے کا ہے اور تفقہ فی الدین سے آراستہ ہونا بھی اہل ایمان سے مطلوب ہے۔ انذار کا کام بہر حال مطلوب ہے، اس کام کے لیے مطلوبہ معیار کے علما تیار نہ ہوسکیں تب بھی اس کام کو ہونا ہے، اور اس معیار کے علما اس کام کے لیے آگے نہ بڑھیں تو بھی یہ کام ہونا ہے۔ اس کام کے لیے شرط لازم صرف مومن ہونا ہے۔ کوئی صاحب ایمان ہے تو وہ انذار کرے، وہ عالم ہوکر اس فرض میں کوتاہی نہیں کرے، اور عالم نہ ہو تو بھی اس فرض سے پہلوتہی نہ کرے۔
علما کے ساتھ گہرے علم وبصیرت کی قید لگانا خود علما کو انذار کے کام سے روک دینے کا باعث بن سکتا ہے، کون ہے جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجائے اور اس کا ادعا بھی کربیٹھے کہ مجھے گہرا علم وبصیرت حاصل ہوگیا ہے، اور اب میں انذار کے مرتبے پر فائز ہوتا ہوں۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انذار کے لیے گہرے علم وبصیرت والا عالم ہونا ضروری نہیں ہے۔ عام فرد جسے دین کی روشنی حاصل ہوجائے وہ انذار کرنے والا بن سکتا ہے۔ درج ذیل آیت اس کی واضح مثال ہے:
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَراً مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوہُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا إِلَی قَوْمِہِم مُّنذِرِیْنَ۔
”اور جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں، پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ، پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے واپس لوٹ گئے۔“ (الاحقاف:29)
واقعہ یہ ہے کہ صرف جنوں کی جماعت نہیں بلکہ انسانوں میں سے بھی جو شخص کچھ آیتیں سن کر ایمان لے آتا تھا وہ اپنے قبیلے کی طرف منذر بن کر روانہ ہوجاتا تھا۔ عرب کے قبائل میں بھی اسلام اسی طرح پھیلا اور ملکوں ملکوں بھی اسلام کی روشنی اسی طرح پہنچی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن آیتوں کو غامدی صاحب ارباب اقتدار اور علما کے ساتھ خاص کرتے ہیں، وہ بھی اولین مخاطب کے لحاظ سے تو اس وقت کے عربوں (بنی اسماعیل) سے متعلق ہیں، تو کیا انھیں بھی بنی اسماعیل کے ارباب اقتدار اور انھی کے علما کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے!
بہرحال، قرآن وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان پر فرض ہے اور دین کی دعوت دینا بھی ہر مسلمان پر فرض ہے۔
عام فرد کی دعوت
ایسا نہیں ہے کہ غامدی صاحب امت کے عام افرادکو دین کی دعوت کی ذمے داری سے بالکل بری قرار دیتے ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ مختلف کیٹیگری سے ہوتے ہوئے جب وہاں تک پہنچتے ہیں تو دعوت کا دائرہ بہت چھوٹا ہوکر متعلقین تک محدود ہوجاتا ہے۔ نیز انھیں دعوت کی ترغیب دینے والی آیتیں بھی کم رہ جاتی ہیں، کیوں کہ زیادہ تر آیتیں بنی اسماعیل کی دعوت اور ارباب اقتدار کی دعوت کے لیے خاص ہوچکی ہوتی ہیں۔
عام فرد کی دعوت کے سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:
”یہ فرض باپ کو بیٹے کے لیے اور بیٹے کو باپ کے لیے، بیوی کو شوہر کے لیے اور شوہر کو بیوی کے لیے، بھائی کو بہن کے لیے اور بہن کو بھائی کے لیے، دوست کو دوست کے لیے اور پڑوسی کو پڑوسی کے لیے، غرض یہ کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ متعلق ہر شخص کے لیے ادا کرنا چاہیے۔ وہ جہاں یہ دیکھے کہ اس کے متعلقین میں سے کسی نے کوئی خلاف حق طریقہ اختیار کیا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے علم اور اپنی استعداد وصلاحیت کے مطابق اسے راستی کی روش اپنانے کی نصیحت کرے۔“ (میزان، ص 556)
فرد کی دعوت کے سلسلے میں چوں کہ غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ متعلقین کی آپس میں ایک دوسرے کو خیر کی تلقین والی دعوت ہے، اس لیے انھوں نے اس آیت کے ترجمے کو بھی اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی، جس کو وہ مومن افراد کی باہم دگر دعوت کے سلسلے میں رہ نما دلیل مانتے ہیں۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیاءُ بَعْضٍ یأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (التوبہ: 71) کا ترجمہ کرتے ہیں:
”اور مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ باہم دگر بھلائی کی نصیحت کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔“ (میزان، ص 557)
اس ترجمہ میں ”باہم دگر“ کے الفاظ اضافہ ہیں، کیوں کہ آیت میں یأمرون اور ینھون کے الفاظ ہیں اور ان کے اندر باہم دگر کا مفہوم نہیں پایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے منافقین کے بارے میں آیا ہے، الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ یأْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَینْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوف (التوبہ: 67) اور وہاں بھی باہم دگر کا محل نہیں ہے بلکہ عمومی بات ہے، کہ منافقین مسلم معاشرے میں منکر کو فروغ دینے اور معروف کو مٹانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے البیان میں اسی آیت کا درست ترجمہ کیا ہے:
”مومن مرد اور مومن عورتیں، وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ (ان منافقوں کے برخلاف) وہ بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں“۔ (البیان)
غامدی صاحب کے نزدیک اس آیت میں یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر اور سورۃ العصر میں مذکور تواصوا بالحق وتواصوا بالصبر دونوں کا مضمون ایک ہی ہے، الفاظ کا فرق ہے۔ (میزان، ص 555)
غامدی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے۔ سورہ عصر میں تواصوا کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس میں باہم دگر کا مفہوم موجود ہے۔ جب کہ یہاں آیت کے الفاظ عام ہیں، اور ان الفاظ سے مطلق أمر بالمعروف اور نھی عن المنکر مراد ہے۔ سورہ عصر میں الحق اور الصبر کی باہم دگر تلقین کی بات ہے، ظاہر ہے صبر کی تلقین اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کو کریں گے۔ جب کہ اس آیت میں معروف ومنکر کا مسئلہ ہے، جو اہل ایمان کا آپس کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ سارے انسانوں کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے تواصی کے بجائے امر ونہی کی بات کہی گئی ہے، معروف ومنکر سے متعلق أمر ونہی کا کام کرنے کی اہل ایمان کو حسب موقعہ آپس میں بھی ضرورت پیش آسکتی ہے، لیکن اصل تو یہ ہے کہ اہل ایمان معروف ومنکر کے سلسلے میں عام طور سے خود آگاہ اور محتاط رہیں گے اور خود کو اس کے لیے تیار کریں گے کہ یہ کام ان سارے انسانوں میں جاکر کریں، جو اس سلسلے میں بے شعوری، غفلت اور کوتاہی کا شکار ہیں۔ غرض الفاظ اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کرتے ہیں کہ امر بالمعروف ونھی عن المنکر سے مقصود سارے انسانوں کو دعوت دینا ہے، اور تواصی بالحق وتواصی بالصبر سے مقصود اہل ایمان کا آپس میں ایک دوسرے کو تلقین کرنا ہے۔
خود ساختہ وعیدیں اور بندشیں
غامدی صاحب علمائے امت اور افراد امت کو اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے دعوت دینے کی ہدایت دیتے ہیں، اور اس سے باہر نکلنے کے خطرناک عواقب سے ڈراتے ہیں۔
علما سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
”اس دعوت کے ہر داعی کے لیے اصل مخاطب کی حیثیت اس کی اپنی قوم کو حاصل ہے۔ چناں چہ فرمایا ہے: ”ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم“ آیت کا یہی حصہ ہے جس سے اس دعوت کا دائرہ بالکل متعین ہوجاتا ہے اور اس چیز کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس کے داعی اصل حق داروں کو چھوڑ کر یہ دولت جہاں تہاں دوسروں میں بانٹتے پھریں“۔ (میزان، ص 550)
افراد سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
”آدمی سب سے بڑھ کر اپنے اہل وعیال کو دوزخ سے بچانے کی کوشش کرے۔ اسے متنبہ رہنا چاہیے کہ وہ اگر دوسروں کے دروازے پر دستک دیتا رہا اور اس کے اپنے گھر والے شب وروز جہنم کے لیے ایندھن فراہم کرتے رہے تو ہوسکتا ہے کہ ساری جدوجہد کے باوجود اس کی یہی کوتاہی دنیا اور آخرت میں اس کے لیے وبال بن جائے۔“ (میزان، ص 556)
اپنی قوم اور اپنے گھر والوں کی دعوت وتربیت کی اہمیت مسلم ہے، لیکن اسے کار دعوت کا متعین دائرہ قرار دینے اور اس کی رعایت نہ کرنے والے داعیان حق کو خطرناک انجام کی وعیدیں سنانے کے لیے آفتاب جیسی روشن دلیل کی ضرورت ہے۔ قرآن کی آیتوں کا عموم تو اسے واجب کرتا ہے کہ ہر شخص داعی بنے، اور جو شخص دیگر لوگوں یا دیگر اقوام تک اللہ کے پیغام کو لے کر جائے وہ کسی بھی طرح کی حوصلہ شکنی کا سزاوار نہیں ہو۔ آج دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام کی دعوت یقینا انھیں لوگوں کے ذریعے پھیلی ہے جو سارے انسانوں تک پیغام حق پہنچانے کے جذبے سے دور دراز علاقوں تک پہنچے۔
خود محترم جاوید غامدی صاحب نے اس چیز کی دعوت واشاعت کو جسے وہ بلاشبہ دین کی دعوت سمجھتے ہیں، اپنے متعلقین یا اپنی قوم تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے عالمی بنانے کے تمام وسائل اختیار کیے۔ اسی طرح امت کے دیگر افراد کو بھی اس کا ترغیب سے بھرپور جواز ملنا چاہیے کہ وہ دین کی دعوت کو جتنی دور تک پہنچاسکیں ضرور پہنچائیں۔ ترتیب کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے، اصل اعتراض دعوت کی حصار بندی پر ہے۔
جمعہ اور عیدین کی نماز
“نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی۔ یہ نمازیں صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائیں گی جو حکومت کی طرف سے اُن کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے۔ اِن کا منبر حکم رانوں کے لیے خاص ہوگا۔ وہ خود اِن نمازوں کا خطبہ دیں گے اور اِن کی امامت کریں گے یا اُن کی طرف سے اُن کا کوئی نمائندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کے حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر اِن نمازوں کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔”(جوابی بیانیہ از جاوید احمد غامدی)
جوابی بیانیہ ایک نہایت مختصر دستاویز ہے، جس میں محترم غامدی صاحب نے بہت بنیادی باتوں کا تذکرہ کیا ہے، اس بنیادی مختصر دستاویز میں اس مسئلے کا اس قدر اہتمام کا ساتھ تذکرہ تعجب خیز ہے۔
بہرحال، محترم جاوید غامدی صاحب کے نزدیک یہ بات اتنی اہم ہے کہ انھوں نے اسے جوابی بیانیہ میں کہا اور اس کے علاوہ اپنی کتاب میزان میں یہ بات کم سے کم چار مقامات پر ذکر کی۔ (میزان، قانون عبادات ص 330) (میزان، قانون عبادات، ص 332) (میزان، قانون سیاست، ص 487) (میزان، قانون دعوت، ص 554)
اس کے علاوہ اپنی تفسیر البیان میں یہ بات انھوں نے کم سے کم تین مقامات پر ذکر کی:
البیان۔ ج 1، ص 388، تفسیر سورۃ آل عمران، آیت104؛ البیان، ج 3، ص 358، تفسیر سورہ الحج، آیت 41؛ البیان، جلد پنجم، ص 206، تفسیر سورۃ الجمعۃ، آیت 9۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بات مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے تدبر قرآن میں کسی ایک مقام پر بھی نہیں کہی ہے اور میرے علم کی حد تک اپنی کسی کتاب میں نہیں کہی ہے۔
آخر وہ بات جو اسلامی لٹریچر میں کبھی ذرا اہمیت کی حامل نہیں رہی، مشرق ومغرب میں دین کی دعوت پر لکھی گئی کتابوں میں اس نے کبھی جگہ نہیں پائی وہ غامدی صاحب کے یہاں اس قدر اہم کیوں ہوگئی؟
یہ درست ہے کہ فقہ حنفی کی کتابوں میں جمعہ کے سلسلے میں یہ شرط ملتی ہے، لیکن اس کی حیثیت تو ایک فقہی فرعی مسئلے کی ہے، جس کی پشت پر نہ قرآن کی کوئی آیت ہے، نہ کوئی صحیح وصریح حدیث ہے اورجس کی علت بس یہ بتائی جاتی ہے کہ امت کو نزاع سے بچانے کے لیے جمعہ کے خطبہ ونماز کا حاکم کے زیر انتظام رہنا ضروری ہے۔
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حنفی مسلک میں (صرف حنفی مسلک میں) خطبہ جمعہ کے لیے سلطان کی اجازت کو ضروری بتایا ہے۔ لیکن دور حاضر میں جب ہندوستان میں مسلم حکومت نہیں رہی تو فقہائے احناف نے جمعہ کو بند کرنے کے بجائے اسے عوام کے ذریعے جار ی رکھنے کو ترجیح دی، اسی طرح دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں نے خطبہ جمعہ کے انتظام کو اہتمام کے ساتھ جاری وساری رکھا۔ امام کاسانی کی درج ذیل عبارت اس کے لیے حوالہ بن گئی:
''فأما إذا لم یکن إمامًا بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم یحضر وال آخر بعد حتی حضرت الجمعة ذکر الکرخی أنه لا بأس أن یجمع الناس علی رجل حتی یصلی بہم الجمعة۔'' (اگر فتنے کے سبب یا موت کے سبب حاکم نہیں ہو، اور دوسرا والی ابھی نہیں آیا ہو، یہاں تک کہ جمعہ کا وقت ہوگیا ہو تو کرخی نے ذکر کیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ لوگ ایک آدمی پر متفق ہوجائیں جو انھیں جمعہ کی نماز پڑھادے۔ بدائع الصنائع)
علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ سلطان کی شرط اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ جمعہ کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔ ایسا نہ ہو کہ باہمی نزاع کی وجہ سے حالات بگڑ جائیں اور جمعہ ہی تعطل کا شکار ہوجائے۔ (شرح فتح القدیر) غرض یہ کہ فقہائے احناف کا مقصد سلطان کی مدد سے جمعہ کے قیام کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ سلطان کی اجازت کے نہیں ہونے کا حوالہ دے کر جمعہ کو بند کرانا۔
علامہ ابن قدامہ نے امت کے تعامل کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
إن الناس یقیمون الجمعات فی القری من غیر استئذان أحد (لوگ بستیوں میں جمعہ قائم کرتے رہے ہیں بنا کسی کی اجازت مانگے۔ (المغنی)
دور حاضر میں جب کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد غیر مسلم ممالک میں بستی ہے، اور جمعہ کا خطبہ ان کی دینی تربیت کا بہت اہم ذریعہ ہے، اور پھرخود بیشتر مسلم ممالک میں لادینی حکم رانوں اور دین بے زار سرکاری عہدے داروں کا دور دورہ ہے، اور انھیں مسلمانوں کی دینی تعلیم وتربیت سے بے زاری بلکہ دشمنی ہے،اور واقعہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی بستی بستی میں جمعہ کا منبر مسلمانوں کے دین کی حفاظت کا اہم ذریعہ بنا ہواہے۔ ایسے میں تمام زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پر زور دینا اور بار بار شدت کے ساتھ زور دینا کہ یہ منبرحکومت کے عہدے داروں کے لیے خاص ہے، اور حکومت کی اجازت کے بغیر جمعہ کا قیام ہی نہیں ہوگا، حیرت انگیز ہے۔
جمعہ کے خطبے کے حوالے سے غامدی صاحب کی یہ اپروچ فریضہ دعوت کو دو پہلوؤں سے سکیڑدیتی ہے، ایک تو یہ کہ وہ فریضہ دعوت جو اسلامی حکومت پر متعدد جہات سے واجب ہے اسے خطبہ جمعہ تک محدود کردیتی ہے۔ چناں چہ وہ جہاں بھی اسلامی حکومت کی دعوتی ذمہ داری کو ذکر کرتے ہیں تو خطبہ جمعہ وعیدین اور محکمہ پولیس تک اسے محدود کردیتے ہیں۔ دوسری طرف خطبہ جمعہ جو امت کی دینی تعلیم وتربیت کا زبردست انتظام ہے وہ اسے سرکاری عہدے داروں تک محدود کردیتے ہیں۔
جمعہ کے خطبے کے سلسلے میں محترم غامدی صاحب کی اس اپروچ کے کیا نتائج متوقع ہیں، اور اس کے پوری دنیا کے مسلمانوں پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جمعہ کے نظام کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے مسلم ممالک کے استبدادی حاکم بہت زیادہ کوشاں رہے ہیں، لیکن امت کا یہ عرف ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے کہ جمعہ کے خطیب کو دین کا عالم ہونا چاہیے۔ (دین کے عالم سے مراد مدرسے کا سند یافتہ فارغ نہیں بلکہ صاحب علم شخص مراد ہے) عرب بہار کی گزشتہ لہر میں جمعہ کے خطبوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا تھا۔ عرب ملکوں میں بہت سے جمعہ کے خطیب محض اس وجہ سے جیل میں بند کردیے گئے کہ انھوں نے حق گوئی سے کام لیا تھا اور جمعہ کے منبر سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دیا تھا۔
یہ درست ہے کہ بیشتر مسلم ممالک میں جمعہ کا نظام عملًا حکومت کے زیر انتظام ہے، لیکن خطیب عام طور سے دینی عالم ہوتا ہے، اور جس ملک میں استبداد کا شکنجہ جتنا ڈھیلا ہوتا ہے، جمعہ کا خطیب اتنا ہی زیادہ دینی حقائق اور امت کے جذبات کا ترجمان ہوتا ہے۔جمعہ کے نظام کو اہل علم سے چھین کر موجودہ دور کے سرکاری عہدے داروں کے حوالے کرنا اور سرکاری عہدے داروں کے لیے دین دار ہونے کی شرط کو لازم قرار نہیں دینا اس نظام کو مفلوج کردینے کی صورت کے علاوہ اور کیا ہے۔
جمعہ کی ادائیگی امت پر فرض ہے، امت کے منتخب حکم رانوں کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اس کے لیے بہتر سے بہتر انتظامات کریں،علم اور دین داری کے پہلو سے لائق وفائق خطیبوں کی فراہمی اور تقرر کریں، نزاعات سے بچانے کی تدابیر کریں، وہ اگر اس ذمے داری کو انجام نہیں دیں گے تو امت خود یہ انتظام کرے گی، لیکن وہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے حکم رانوں پر منحصر نہیں رہے گی۔ امت کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔
یہ وضاحت بھی قرآن سے ہوتی ہے کہ جمعہ کا خطبہ محض سرکاری فرمانوں کو سنانے کے لیے نہیں ہے، وہ تو امت کو اللہ کے ذکر سے مالا مال امت بنانے کے لیے ہے۔سرکاری عہدے دار یہ کام کرتے ہیں تو بہت خوب، لیکن اگر وہ اس کے اہل نہیں ہیں تو جو اہل ہیں انھیں جمعہ کے خطبے کے لیے مقرر ہونا چاہیے۔
بات جمعہ کے منبر کی ہو یا دعوت کے میدان کی، یہ بات واضح ہے کہ محترم غامدی صاحب کی اپروچ دعوت کو بریک لگانے والی ہے، نہ کہ اسے تیز رفتار کرنے والی۔ یعنی علما کے لیے گہری دینی بصیرت کی شرط لگادی جائے، جمعہ کا منبر سرکاری عہدے داروں کے حوالے کردیا جائے اوردعوت کی ذمے داری بنی اسماعیل کو دے کر انھیں چراغ لے کر تلاش کیا جائے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب دعوت کے محرکات کی حرارت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ان کے یہاں دعوت اور جہاد کے بیچ گہرا تعلق ہے۔شاید وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ دعوت کے جذبے کو قابو میں کرکے جہاد کے جذبے کو بھی قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مذہبی انتہا پسندی کا ایک تصور اپنے ذہن میں تشکیل دیا ہے، جس کا ذمے دار وہ دینی اداروں کو قرادیتے ہیں۔ اس بنا پر وہ قانونِ دعوت اور قانون جمعہ کے ذریعے دینی اداروں کو میدانِ دعوت سے بے دخل کردینا چاہتے ہیں۔ ہمارے اس خیال کا تعلق ان کی نیت سے نہیں بلکہ ان کی گفتگو کے منطقی نتائج سے ہے۔
بہرحال، یہ اپروچ درست نہیں ہے۔ قرآن مجید نے دعوت کے جذبے کو جس قوت کے ساتھ پیش کیا ہے، اس میں کمی کرنا قرآن کی حق تلفی ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دعوت ہو یا جہاد، اسے غلط رخ سے بچایا جائے اور صحیح رخ دیا جائے۔ نہ یہ کہ اس کو خود ساختہ قسموں اور شرطوں کے حصار میں قید کردیا جائے۔ دعوت تو امت مسلمہ کی منصبی ذمے داری ہے، اس کی جتنی طاقت ور ترغیب قرآن مجید میں ملتی ہے اتنی ہی طاقت ور ترغیب ہماری تشریح میں بھی ملنی چاہیے۔