مصنفین: ڈاکٹر محمد سلطان شاہ، ڈاکٹر خورشید احمد قادری
سن اشاعت: 2022
ناشر: ورلڈ ویو پبلشرز لاہور
صفحات: 149
قیمت: درج نہیں
کسی بھی تحریر یا کتاب کے ترجمے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اس کا معانی ومفہوم کو غیر قوم میں منتقل کرنا مقصود ہو، الہامی اورتبلیغی مذاہب اپنی تعلیمات کو دوسری اقوام تک منتقل کرنے کی آرزو بھی رکھتے ہیں تاکہ اس فوز وفلاح میں وہ بھی شریک ہو جائیں۔یہی وجہ ہے کہ آخری اور ابدی آسمانی تعلیم انسانیت کوقرآن مجید کی صورت میں میسر آئی،اور اس کتاب کو عربی مبین میں نازل کیا گیا جس کی وجہ سے دوسری اقوام کو اس کے سمجھنے میں دشواری کا پیش آنا ایک فطری عمل تھا۔ اس کےلیے ضروری تھا کہ اس کا ترجمہ مقامی زبان میں کیا جائے۔
سب سے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہوا اور اس کے اولین یورپی مترجم Robert of Ketton ہیں۔ اوراس کے بعد انگریزی زبان میں اس کتاب کے ترجمے کا آغاز ہوا۔، اورپندرہویں صدی عیسوی میں جان(John) نے قرآن کا نیا ترجمہ کیا۔ الیگزینڈر راس (Alexander Ross) نے 1649ء میں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کیا۔ اس کے بعد جارج سیل (Geroge Sale) کاترجمہ 1734ء میں شائع ہوا ایڈورڈ ہنری پالمر (Edward Henry Palmer1840۔1882) نے ۱۸۸۰ میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا۔اسی طرح انگریزی زبان کے ذخیرے میں قرآن مجیدکے تراجم کا اضافہ ہوتا رہا۔
جب انیسویں صدی کے آخر میں مسلمان برصغیر میں مسلمان اپنی فکری اور ثقافتی بقا کی جنگ میں مصروف تھے، تو اسی دور میں غلام احمد نامی ایک شخص نے "نبوت" کے میدان میں قدم رکھنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں، جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں خلفشار پیدا کرنا مقصو د تھا۔ ظاہر بات ہے جب اس پر "وحی" کاسلسلہ بھی جاری ہوگیا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے مسلمانوں کے عقائدپرغیر محسوس طریقے سے حملہ کیا جائے اور ان پر اثرا نداز ہونے کے لیے مختلف طریقے وضع کیے جائیں، اس کے لیے فکری لٹریچر کی تیاری بہت ضروری تھی، تو وہاں قرآن مجید کے انگریزی ترجمے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تاکہ اس نام نہاد "دعوت" کو دور دور تک پہنچایا جائے۔ قادیانی مذہب نےاپنی تعلیمات کو قرآن مجید سے جوڑتے ہوئے ترجمے میں تحریف کیا۔ زیرِ نظر کتاب میں قادیانیوں اور لاہوری گروپ کے تراجم کی تحریفات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی۔
کتاب"احمد ی تراجم اور تفاسیرِ قرآن ( ایک تنقیدی مطالعہ)" اس موضوع پر اردو زبان میں راقم الحروف کی اطلاع کے مطابق یہ پہلی جامع کتاب ہے۔ اس سے قبل پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کے مضامین شائع ہوئے، ان کو پروفیسر عبدالواسع نے مرتب کیے اور وہ مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن کے نام سے مکتبہ قاسم العلوم نے اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔اس اشاعت پر تاریخ نہیں لکھی گئی لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ زیرِ تبصرہ سے قبل شائع ہوئی تھی، اس میں قادیانی تراجم قرآن کے نام سے ایک مضمون شامل کیا گیا ہے جوتقریباً آٹھ صفحات پر محیط ہے۔ اس کتاب پر دو مصنفین : ڈاکٹر محمد سلطان شاہ اور ڈاکٹر خورشید احمد قادری کا نام درج ہے۔ کتاب بنیادی طور پر تین ابواب پر مشتمل ہے :
باب اول: احمدی (قادیانی) تراجم و تفاسیر قرآن کے نام سے لکھا گیا ہے، ا س کے ابتدائی پانچ صفحات احمدیت اور اس کے فرقے اور قادیانی ترجمہ وتفسیر کی پہچان کے عنوانات کے تحت لکھے گئے۔ بالکل ابتداء میں مصنفین لکھتے ہیں: قادیانیوں نے سات مکمل انگریزی تراجم قرآن شائع کیے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تراجم میں ایسے تفسیری حواشی ہیں جو ان آیات کی غلط تفسیر کرتے ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت سے متعلق ہیں۔ مسلمان مفسرین کے برعکس زیادہ تر احمدی مفسرین نے تسمیہ کو ( سورۃ التوبۃ کے علاوہ)تمام سورتوں کی پہلی آیت کےطور پر شمار کیا ہے۔ انہوں نے حروف مقطعات کا اس تصور کے تحت ترجمہ کیا ہے کہ وہ خاص عربی الفاظ کے مخففات ہیں۔ احمد ی مترجمین اور مفسرین متن قرآن کریم میں کسی نسخ کے قائل نہیں ہیں (ص:2،3)مصنفین نے قادیانی ترجمہ وتفسیر کی پہچان کے لیے پانچ آیات:آل عمران 3:55، المائدہ 5: 117، النساء 4:157، المومنون، 23:50، الاحزاب 33:40 لکھی گئی ہیں جن کی ترجمہ میں قادیانی مذہب کی روشنی میں تحریف کی گئی ہے۔
اسی باب میں قادیانی مذہب کے نمائندہ تراجم اور تفسیری حواشی کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنفین نے مترجمین کا تذکرہ کرتے ہوئے درج ذیل منہج واسلوب اختیار کیا ہے : (1) مترجم کے حالات زندگی لکھتے ہوئے مصنفین نے بنیادی مصادر کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، اور ہر ممکنہ صورت اختیار کی گئی، بعض جگہوں پر بالمشافہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا اور ایک جگہ پر ایک طالب علم کے انٹرویو کو جگہ دی گئی (2) عمومی طور پرمذکورہ بالاآیات اور بعض جگہوں پر دیگر آیات بھی لکھ د ی گئی ہیں جن میں قادیانی مذہب کے مطابق تحریف کی گئی ہے (3) بعض جگہوں پر حروف مقطعات کے قادیانی مذہب کے مطابق خودساختہ تراجم بھی دے دیے گئے ہیں۔(4) مترجم کی لکھی گئی انگریزی کااردو میں ترجمہ کرتے ہوئے کمال مہارت سے کام لیا گیا ہے (5) آخر میں عبداللہ سعید، ڈاکٹر عبدالرحیم قدوائی کی رائے بھی درج کی گئی ہے اور بعض جگہوں پر مستشرقین کی ترجمہ کے بارے میں رائے بھی لکھ دی گئی ہے۔
اس باب میں ڈاکٹر محمد عبد الحکیم خاں کے ترجمے کو اولین قادیانی مذہب کا ترجمہ میں شمار کیا جاتا ہے، اس کے عقائد کے بیان کے لیے مصنفین نےچار آیات: آل عمران 3:55، المائدہ 5: 117، النساء 4:157، البقرۃ 2:106 کا انتخاب کیا ہے۔عربی عبارت بھی درج ہے اس کے علاوہ انگریزی ترجمہ بھی ذکر کیا گیا ہے، اور انگلش سے اردو ترجمہ رواں انداز میں کیاگیا ہے۔ اس کے ساتھ تفسیری حواشی اور وضاحتیں بھی لکھ دی گئی ہیں۔ مصنفین نے اس کی گمراہی اور انحراف کے پہلو ؤں کو بھی واضح کیا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس ترجمہ کو لکھنے کے بعد اس مذہب سے علیحدگی اختیار کر لی، عبدالرحیم قدوائی کے بقول غیر مصدقہ روایات ہیں (مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن:ص 25) جبکہ زیرِ تبصرہ کتاب کے مصنفین نے قادیانی مذہب کےبانی کے دو بیان سے یہ واضح کر دیا کہ وہ تائب ہوگئے تھے (دیکھئے: ص 18)
دوسرا ترجمہ مرزا بشیرا لدین محمود احمد کا ہے، جو کہ ایک نامکمل ترجمہ قرآن ہےاس میں اسی مذہب کا پرچار کیا گیا۔ اس کے عقائد کو واضح کرنے کے لیے سورۃ البقرۃ: 2:137 کا انتخاب کیا گیا ہے، عربی عبارت، انگریزی ترجمہ اور تفسیری حاشیہ لکھا گیا ہے۔ تیسرا مترجم مرزا بشیر احمد ہے۔مصنفین نے اس کےعقائد کے بیان کےلیے بھی پانچ آیات:آل عمران 3:55، النساء 4:157، الاحزاب 33:40، سورۃ النور 24:55، سورۃ الصف:61:6 کا ترجمہ دیا گیا ہے۔ تفسیری حواشی لکھتے ہوئے انگریزی لکھنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔آخر میں اس ترجمہ کے بارے میں ایک مستشرق ایڈون ای۔کیلوری اور عبدالرحیم قدوائی کی رائے نقل کی گئی ہے۔ چوتھا مترجم پیر صلاح الدین کا تذکرہ کیا گیا ہے پانچ آیات: آل عمران 3:55، المائدہ 5: 117، النساء 4:157،المومنون، 23:50، الاحزاب 33:40 درج کی گئی ہیں، مصنفین نے یہاں بھی عربی عبارت کے ساتھ انگریزی عبارت بھی درج کی ہے اور اردو ترجمہ بھی کیا گیا ہے اور ترجمے میں تحریف کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک اور مترجم پیر معین الدین کا ذکر بھی موجود ہے جس کے بارے میں اس کے مختصر حالات زندگی اور سورۃ الفاتحہ اور سور ۃ البقرۃ ک ترجمہ کیا گیا ہے، بس اتنا ہی معلو م ہورہا ہے۔
فہرست کے مطابق چھٹا، جبکہ متن کی نمبرنگ کے مطابق پانچواں مترجم مولوی شیر علی ہیں اس کے لیے انہوں نے تین آیات:آل عمران 3:55، النساء 4:157، الاحزاب 33:40 کے ترجمے کو بیان کیا ہے۔اس ترجمے کے بارے میں عبداللہ سعید اور پروفیسر ڈاکٹر قدوائی کی رائے بھی دی گئی ہے۔ فہرست کے مطابق ساتواں جبکہ متن کی نمبرنگ کے مطابق چھٹا مترجم ملک غلام فرید ہے ایک صفحات پر اس کے حالات زندگی درج کیے گئے ہیں جبکہ پانچ صفحات اس کے ترجمے کےلیے مختص کیے گئے ہیں پانچ آیات:آل عمران 3:55، النساء 4:157، الاحزاب 33:40 اور البقرۃ 2:222، کا ترجمہ دیا گیا جبکہ سورۃ الاحزاب کے ترجمے کے علاوہ تفسیر بھی دی گئی، اور ختم نبوت کے چار معانی لکھے گئے یہاں اشد ترین ضرورت تھی کہ ان معانی کے بارے میں حاشیہ میں روایتی مسلمانوں کے دلائل لکھے جاتے تاکہ عام قاری کسی الجھن کا شکار نہ ہوتے۔
فہرست کے مطابق آٹھواں جبکہ متن کی نمبرنگ کے مطابق ساتواں مترجم سر ظفرا للہ خان ہے، اس کے حالات زندگی اور ترجمے کے بارے میں پندرہ صفحات لکھے گئے ہیں۔ اس کے بارے میں مصنفین نے کتاب کے روایتی منہج سے ہٹ کر لکھا ہے، حالاتِ زندگی لکھنے کے بعد چودہ حروف مقطعات کے معنی لکھے گئے ہیں۔ تو اس کے لیے جن آیات کا تذکرہ کیا گیا ان میں غالباََ مصنفین قادیانی عقائد کے بیان کے علاوہ عربی سے انگریزی ترجمہ میں تحریفات اور الحاقات کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ فہرست کے مطابق نواں جبکہ متن کی نمبرنگ کے مطابق آٹھواں مترجم اور مفسر حکیم نورا لدین بھیروی ہے۔ اس نے اردو میں ترجمہ قرآن کیا جس کو عبدالمنان نے اپنی بیوی امۃ الرحمن بنت شیر علی کے ہمراہ مل کر انگریزی کے قالب میں ڈھالا۔مصنفین نے اس کے نظریات کے بیان کے لیےآل عمران 3:55، المائدہ 5: 117، النساء 4:157، المومنون، 23:50، الاحزاب 33:40، سورۃ النور 24:55 کا ترجمہ دیا گیا ہے۔ اس ترجمہ قرآن میں سوائے سورۃ الفاتحہ کے تسمیہ کو کسی بھی سورت کی پہلی آیت شمار نہیں کیا گیا۔ مصنفین نے دو حروف مقطعات کے معنی بھی بطور مثال درج کیے ہیں۔
باب اول میں کتاب کے شروع میں دی گئی فہرست کے مطابق 11 مترجمین کا تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ لیکن کتاب کے متن کے مطابق 8مترجمین کا تذکر دیا گیا ہے کتاب کے متن کے مطابق پیر معین الدین کے نام کے ساتھ نمبرنگ نہیں دی گئی۔ حکیم نورالدین بھیروی کے ترجمہ قرآن کو اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ لیکن ان کو مترجمین کی فہرست میں لکھا گیا ہے اور مترجمین کو بھی مترجم کے طور پر فہرست کے مطابق شمار کیا گیا لیکن متن میں ان کے حالات زندگی تو لکھے گئے ہیں لیکن نمبرشمار نہیں کیا۔
باب دوم میں لاہوری گروپ کے مترجمین اور مفسرین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان میں چھ مترجمین اور مفسرین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔پہلے صفحہ پر قادیانی اور لاہوری گروپ کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا۔ مولوی محمد علی لاہوری کے ترجمہ قرآن اور حالات زندگی کے بیان کےلیے 15 صفحات مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے عقائد و نظریات کے بیان کےلیے انگریزی زبان میں اس کی تحریر نہیں لکھی گئی بلکہ صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا۔ اس کے نظریات کا پوسٹمارٹم کر تے ہوئے مصنف نے مذکورہ بالا آیات اور 14 حروف مقطعات کے معنی لکھے ہیں جو اس کے ترجمہ میں درج ہیں۔ اس کے ترجمہ قرآن کے بارے میں عبداللہ یوسف علی، سید حبیب الحق ندوی، حافظ غلام سرور، عبداللہ سعید، نیل رابسن اور عبدالرحیم قدوائی کی رائے درج کی جو اس کے ترجمے کے بارے میں مختلف کمزور پہلو واضح کیے۔
دوسرا مترجم ڈاکٹر خادم رحمان نوری ہیں، مصنفین نے حالات زندگی کے علاوہ مذکورہ بالا آیات میں اس کی تحریف کی نشاندہی کی ہے، تیسرا مترجم خواجہ کمال الدین ہے اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے مصنفین نے مخصوص آیات کا حوالہ نہیں دیا۔ چوتھا مترجم ناصر احمد ابن آفتاب الدین احمد ہے اس کے بیان کرتے ہوئے آیات کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ پانچواں مترجم خاں صاحب چوہدری محمد منظور الہٰی ہیں۔ آٹھواں مترجم ڈاکٹر بشارت احمد ہیں۔
باب سوم پچیس صفحات پر مشتمل ایک مضمون ہے جو الحاج غلا م سرور کے انگریزی ترجمہ کا تعا رف ہے، ان کا تعلق عمومی طور پر قادیانی مذہب سے جوڑا جاتا ہے، جس کی مصنفین نے تردید کی کوشش کی۔ مصنفین لکھتے ہیں: حافظ غلام سرور پر غلطی سے احمد ی مترجم قرآن ہونے کا الزام لگا دیا گیا۔ انہوں نے احمدیت سے تعلق کا اقرار کیا ہے نہ ان کے ترجمہ سے ایسے شواہد ملتے ہیں کہ ان کا اس گروہ سے کوئی تعلق ہے (ص149)۔ آپ کا ترجمہ قرآن 1920ء کے عشرے میں منظر عام پر آیا۔یاد رہے کہ "مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن" میں اولین مسلم تراجم کے ذیل میں غلام سرورکوبھی شمار کیا گیا ہے-
کتاب کی پیشکش بہت خوبصورت ہے لیکن انسانی کام غلطی سے مبرا نہیں ہوا کرتا، اس میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے ذیل میں کچھ نکات پیش کیے جارہے ہیں جو دراصل اس غرض سے پیش کیے جارہے ہیں تاکہ اگلے ایڈیشن میں بہتری لائی جاسکے۔
اس طرح کی علمی نوعیت کی کتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے بیک ٹائٹل پر مصنف کا تعارف لکھا جاتا ہے تاکہ قاری مصنف کے بارے میں جان سکے لیکن زیرِ نظر کتاب میں اس کا اہتمام نہیں کیا گیا،اس کے علاوہ کتاب کے پہلے پانچ صفحات کی تحریر کو بطور مقدمہ درج کیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا، اس کے علاوہ حاشیہ میں یا ایک باب میں حیات عیسی علیہ السلام، ختم نبوت، حروف مقطعات، ناسخ ومنسوخ اور تفسیر بالرائے پر ایک جامع مضمون لکھ دیا جاتا جس سے مسلم علمی روایت کی خبر ہوتی توعامی کے مطالعے کے لیے بھی کتاب بہت فائدہ مند ثابت ہوتی، گو بعض جگہوں پر مصنفین نے ان موضوعات پر تبصرے کیے ہیں لیکن وہ موضوع کے لحاظ سے ناکافی ہیں۔اس کے علاوہ غلام احمد کے حالات زندگی لکھتے ہوئے ایک انگریزی مضمون پر انحصار کیا گیا جو اس کتاب کے شان شایان نہیں ہے۔
پروف ریڈنگ کی ایک غلطی ابتدائی صفحات کی نمبرنگ میں نمایاں ہوگئی ہے،اس کےعلاوہ باب اول میں گیارہ مفسرین کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن متن میں صرف آٹھ مفسرین کا تذکر ہ لکھا گیا جو دو اردو سے انگریز میں ڈھالنے والے مترجم تھے، پتہ نہیں ان کو مترجمین میں شامل کیا گیا ہے یا ان کومفسرین لکھا گیا ہے۔ کتاب پڑھنے سے واضح نہیں ہو رہا کہ یہ دومصنفین کی علمی کاوش ہے یا صرف ایک مصنف نے اس کو لکھا ہے، ص 111 اور ص 113 سے یہ واضح ہور ہا ہے کہ یہ کتاب اصل میں ڈاکٹر محمد سلطان شاہ کی لکھی ہوئی ہے-
اس کتا ب کو ہر اس شخص کی لائبریری میں موجود ہونا چاہیے جس کو قرآن مجید کے مطالعے کا شغف ہے، اور دینی علوم سے ناواقف شخص کو اس کتاب سے پڑھنے سے پہلے کسی عالم دین سے قادیانی مذہب کے بارے میں بنیادی نوعیت کی معلومات حاصل کرنی چاہئیں اور کتاب کے اول حصے میں جن آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کو ابتدائی کلاسز میں نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ ختم نبوت کے تصور کو ابتدائی عمر میں طلباء کے دل ودماغ میں راسخ کر دیا جائے اور اس کتاب کے مندرجات کو ایم فل سطح پر اسلام او راستشراق کے ذیل میں متعارف کروایا جائے تاکہ نوجوان اسکالرز علمی میدان میں اس گروہ کا مقابلہ کر سکیں۔