ساحل افتادہ گفت گرچہ بے زیستم
ہیچ نہ معلوم شدہ آہ کہ من چیستم
موج ز خود رفتہ، ئی تیز خرامید و گفت
ہستم اگر میروم، گر نروم نیستم
1972ء میں جب میں چھٹی جماعت میں تھا۔ میر ے ایک محترم استاد کلاس میں باآواز بلند حضرت اقبالؒ کی یہ نظم پڑھ کر ہمیں سنایا کرتے تھے:
چاند اور تارے
ڈرتے ڈرتے دم سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
نظارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا، چلنا، مدام چلنا
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکوں، نہیں ہے
رہتے ہیں ستم کشِ سفر سب
تارے، انساں، شجر، حجر سب
ہو گا کبھی ختم یہ سفر کیا
منزل کبھی آئے گی نظر کیا
کہنے لگا چاند، ہم نشینو
اے مزرعِ شب کے خوشہ چینو!
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
انجام ہے اس خرام کا حسن
آغاز ہے عشق، انتہا حسن
(بانگ درا از محمد اقبالؒ)
میرا نا پختہ ذہن اس خوبصورت نظم کے پُر شکوہ معنوں کو نہ سمجھ سکا۔ پھر بھی میں نے اس کے غنائی ابیات اور ہم وزن مصرعوں کو زبانی یاد کر لیا۔ جوں جوں میرا شعور ترقی کرتا رہا۔ ان کے معنی اور اہمیت میری روح کو سیراب کرتی رہی۔ میرے استاد کی رعب دار تحریک انگیز آواز میرے ذہن میں گونجتی رہی۔
جب میں نے ایک مدرسے میں فلسفہ اور منطق کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو پہلی کتاب جو ہم نے پڑھی ایسا غوجی فی منطق تھی۔ اس کتاب کے فلسفیانہ مفروضوں میں سے ایک یہ ہے کہ کائنات ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ایسا غوجی فی منطق، ہرقلیطس کے نقش قدم پر چل رہا تھا۔ جس نے بجا طور پر کہا تھا کہ ہرچیز متغیر ہوتی ہے، کوئی چیز ساکن نہیں رہتی۔ کوئی شخص ایک ہی دریا میں دو مرتبہ قدم نہیں رکھ سکتا۔ میرے نو خیز اور اثر پذیر ذہن نے کتاب کے نام کوکسی حد تک مزاحیہ پایا تاہم اس نے مجھے کائنات پر سنجیدگی سے غور کرنے پر آمادہ کر دیا جو ہمیشہ متغیر ہوتی اور وسیع سے وسیع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ میں زندگی بھر حرکت اور تبدیلی (تغیر) کے ہمہ گیر تصورات کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کرتا آ رہا ہوں۔ تاہم جب میں ان تصورات کو سمجھنا شروع کرتا ہوں تو وہ پہلے ہی تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ صاحبِ شعور انسان بننے کے چالیس سال بعد اور زندگی کے عملی تجربات حاصل ہونے پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تبدیلی کائنات کا جوہرِ حقیقی ہے اور ہم سب کو اس سے ہم قدم ہو کر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیرّ کو ہے زمانے میں
(ستارہ: بانگ درا از محمد اقبالؒ)
قرآن تغیر پیہم کے اس اصول کی توثیق کرتا ہے۔
كُلَّ يَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَاْنٍ. (سورۃ الرحمٰن، آیت: ۲۹)
(ہر آن وہ نئی شان میں ہے)
اس کارگاہ عالم میں اللہ تعالیٰ کی کارفرمائی کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔ وہ بے حد و حساب نئی سے نئی وضع اور شکل اوصاف پیدا کر رہا ہے۔ اس کی دنیا کبھی ایک حال پر نہیں رہتی۔ ہر لمحہ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اوراس کا خالق ہر بار اُسے ایک نئی صورت سے ترتیب دیتا ہے جو پچھلی تمام صورتوں سے مختلف ہوتی ہے۔
يُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّيْلَ وَالنَّھَارَ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ. (سورۃ النور، آیت: ۴۴)
(رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے)
یہ آیات اس بدیہی (manifest) صداقت کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ کائنات میں بنیادی اصول حرکت ہے، جمود (innertia) نہیں۔ یہاں مسلسل آگے کی طرف بڑھتی ہوئی ایک حرکت اور ایک مستقل تخلیقی بہاؤ ہے، نہ کوئی ٹھہراؤ ہے اور نہ رکاوٹ ہمیشہ ایک پیش قدمی ہے، ہر لمحہ نیا ہے اور ہر لمحہ ایک نئی دنیا سامنے لاتا ہے۔ کائنات متحرک ہے اور مستقلاً حرکت میں رہتی ہے۔ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی واضح و صحیح تقسیم نہیں۔ جدید سائنس اس حقیقت کی دریافتوں کے ساتھ شہادت دیتی ہے کہ مادہ (matter) مستقل وجود نہیں رکھتا بلکہ ہمیشہ سیال حالت میں رہتا ہے۔
لیکن کائنات کی تبدیل ہوتی ہوئی حالت کے بارے میں ہمارے علم کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کی گئی ہے جس میں ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ صرف تغیر مستقل ہے۔ خالق حقیقی ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ صرف اہل بصیرت حالتِ تغیر کو سمجھ سکیں گے بہ الفاظ دیگر نادان مستقل رہتے ہیں اور حالتِ موجود میں خوش و خرم رہتے ہیں اور وہ مستقلاً تبدیل ہوتے ہوئے زمانے اور ہمیشہ برپا رہتی ہوئی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ وہ یقینا فہم و بصیرت سے محروم ہیں۔
اس فہم کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں حالتِ تغیر کو قبول کرنا ہوگا۔ ہر تغیر ایک لمحہ پہلے مستقل (constant) تھا۔ تسلسل، تغیر کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ حال (present) کے لیے ماضی (past) ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت میں تغیر اور تسلسل / استقلال (استحکام) پہلو بہ پہلو موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک دائمی قانون ہے جو بتاتا ہے کہ پائیداری اور تغیر کو لازماً ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ صرف حالتِ استحکام (stability) میں موجود رہنے کا مطلب جامد (static) رہنے اور ملیامیٹ ہو جانے کی طرف میلان کا مظہر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناعاقبت اندیشی سے تبدیلی کر دینا دروازے کے قبضے اکھاڑ دینے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی آدمی استحکام کے ساتھ زنجیر سے بندھا رہے اور مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ نہ دے تو وہ ماضی کی یاد گار بن جائے گا، یا زیادہ بہتر الفاظ استعمال کئے جائیں تو وہ ایک پتھرایا ہوا ڈھانچہ (fossil) کہلا سکے گا۔ اگر وہ صرف تبدیلی کے ہی ساتھ رہے تو وہ ماضی کے استحکام کے ساتھ اپنے نفع بخش روابط منقطع کر بیٹھے گا۔ شواہد کے اس مجموعے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تسلسل اورتغیر کائنات کے دو مطلق حقائق ہیں اور ان کامسلسل باہمی انحصار انسانی زندگی کے توازن کی ضمانت ہے۔
اس تغیر کا انسانی اور اخلاقی، سیاق و سباق میں ایک خاص مقصد اور خصوصی مطلب ہے: وہ ہے انسانی تجربات کی تقطیر کرنا۔ فطرت، اس طریق عمل کے ذریعے بنی نوع انسان کو آزمائش میں ڈالتی ہے اور مفید کو غیر مفید سے چھانٹ کر الگ کر دیتی ہے۔ قرآن مجید اس نقطے کو یوں واضح کرتا ہے:
وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُھَدَاءَ ۭ(سورۃ آل عمران، آیت: ۱۴۰ )
(ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں تاکہ ہم چھانٹ سکیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و نظام کو کون سمجھتا ہے اور کون اس کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے)
یہ آیت اس بات کو کافی حد تک واضح کر دیتی ہے کہ جو لوگ تبدیلی کا ساتھ دیتے ہیں وہ بقا پائیں گے۔ حضرت اقبالؒ نے حرکت کے اس تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شخصیت کا ایک تسلسل ہے جس کے لیے خودی کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
شخصیت ایک کیفیت اضطراب ہے اور یہ صرف اسی صورت میں جاری رہ سکتی ہے کہ یہ حالت قائم رہے۔ اگر کیفیت اضطراب برقرارنہ رہے تو سکون آنا شروع ہو جائے گا۔ حالت اضطراب انسان کی انتہائی بیش قیمت کامیابی ہے اس لیے اسے اس امر کا اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ حالت سکون کی طرف واپس نہ لوٹ جائے۔ وہ چیز جو کیفیت اضطراب کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتی ہے وہ ہمیں لافانی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس طرح اگر ہمارے مشاغل کا رخ اضطراب برقرار رکھنے کی طرف ہے تو موت کا صدمہ اس کو متاثر نہیں کرے گا۔ (تعارفی نوٹ، اسرار خودی از محمد اقبالؒ)
ساحلِ افتادہ گفت گرچہ بے زیستم
ہیچ نہ معلوم شدہ آہ کہ من چیستم
موج ز خود رفتہ، ئی تیز خرامید و گفت
ہستم اگر میروم، گر نروم نیستم
(شکستہ ساحل نے کہا اگرچہ میری زندگی کے دن بیت چکے)
(آہ میں سمجھ نہیں سکا کہ میں کون ہوں)
(آپے سے باہر ہوتی موج نے پاس سے گزرتے ہوئے کہا)
(میں اس وقت تک ہوں جب تک چلتی رہوں، اگر نہ چلی تو مر جاؤں گی)
(زندگی و عمل: پیام مشرق از محمد اقبالؒ)
تسلسل کے ساتھ ہونے والا یہ تغیر ہم سے توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ عظیم مسلم فلسفی اور سائنسدان ابن مسکویہ نے کہا ہے کہ کائنات میں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر جہدللبقا (بقا کی کوشش) جاری ہے۔ جس میں صرف اعلیٰ صلاحیتوںوالی انواع بقاپاسکتی ہیں۔ یہی وہ اصول ہیں جو چارلس ڈارون نے جہد للبقا اور بقائے اصلح کے عنوانات سے لکھے ہیں۔ ہم بطور مسلمان ان حیاتیاتی اصولوں کی تعبیرات سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے۔ بہرحال ہم ان اصولوں کے انسانی اور اخلاقی سطحوں پر عملی اطلاقات کا ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ جو لوگ روحانی اور مادی طور پر ترقی کی منازل طے نہیں کرتے صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔
بنی نوع انسان اور انبیاءعلیہم السلام کی تاریخ جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے اس حقیقت کی ایک قابل اعتماد گواہی ہے کہ بنی نوع انسان کا ارتقاء اور اس کی بقا جہدِ مسلسل اور بلند اخلاقی اقدار کا علم بلند رکھنے میں مضمر ہیں۔ قرآن مجید اس کی یوں تاکید کرتا ہے:
كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْھَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ. (سورۃ الرعد، آیت: ۱۷ )
(اللہ تعالیٰ حق و باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جاتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نفع دینے والی ہے وہ زمین میں قائم رہتی ہے)
کیا خوبصورت اصول بیان کیا گیا ہے۔ بے کار جھاگ اور غیر مفید چیزیں غائب ہو جاتی ہیں۔ اگر ایک شخص جھاگ جیسا ہے یا اس جیسا ہو جاتا ہے وہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہے وہ دوام حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی نسل، قوم یا مذہب انسانیت کے لیے بے فائدہ ہو جاتا ہے، اسے صفحاتِ تاریخ سے مٹا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی قوم، نسل یامذہب انسانیت کے لیے نفع بخش ہے، وہ اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک اپنے اندر افادیت رکھتا ہے۔ حافظ شیرازیؒ بالکل بجا کہتے ہیں:
ہرگز نمیرد آن کہ دلش زندہ باعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
(جس کا دل عشق سے زندہ ہو جائے وہ کبھی بھی نہیں مرتا)
(ہم انسانیت کے عشق میں مبتلا ہیں، لہٰذا دنیا کے نقشہ پر ہمیشہ رہیں گے)
(غزلیات از حافظؒ)
انسان کے اندر زندہ رہنے کی صلاحیت، ترقی کرنے اور بقا پانے کی اہلیت اور مقامِ عظمت حاصل کرنے کی استعداد ان اوصاف اور اعمال کے ذریعے نشوونما پاتی ہیں جن کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ مثلاً علم، عبادت، صداقت، دیانت، محبت، انسان کی خدمت، انصاف، گناہ سے نفرت اور دیگر خصوصیات جو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ودیعت کی ہیں، انہیں فروغ دینے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ ان خصوصیات کے برعکس بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ سخت نا پسند کرتا ہے۔ سچائی ایک قوت ہے اور جھوٹ کمزوری ہے۔ انصاف ایک قوتِ کار ہے اور بے انصافی ایک ضعیفی ہے۔ صرف ایسے لوگ بقا پاتے ہیں جو نیک اعمال کے ذریعے اپنے اندر قوت اور صلاحیتِ زیست پیدا کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید (سورۃ الانبیاء، آیت: ۱۰۵) میں ارشاد فرماتا ہے:
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُھَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ.
(ہم نے زبور میں (اچھائی اور برائی کے) ذکر کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ زمین کے وارث وہی لوگ ہوں گے جو اچھے اعمال (قوت والے اعمال) کریں گے)
انیسویں صدی کا جرمن فلسفی نطشے اس تصور کو یوں بیان کرتا ہے: جو چیز بھی زندگی کو بڑھاتی اور اس میں بہتری لاتی ہے، مفید ہے، باقی چیزیں بالکل ردّی ہیں اور انسانی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینے کے قابل ہیں۔ بنی نوع انسان کے لیے بیکار چیزوں کو ضائع کر دیئے جانے پر انسانی تاریخ میں کوئی نوحہ نہیں ہے۔
متذکرہ بالا روایات، مذہبی اور دنیاوی، دونوں سے یہ بات کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ صرف وہ لوگ اور مذاہب باقی رہ جاتے ہیں جو بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہوں، جن میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہو۔ علمی معیار رکھتے ہوں۔ سچائی کے حامل ہوں۔ بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں اور عدل گستری کرتے ہوں۔ ظلم، جھوٹ اور انسان سے نفرت پر استوار قوموں اور مذاہب کا تاریخ صفایا کر دیتی ہے۔ لوگوں کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی اخلاقی اور جسمانی کمزوریاں انہیں نیست و نابود نہیں کریں گی۔ انہیں یقینی طور پر معلو م ہونا چاہیے کہ ان کے لیے موت کا گھنٹہ ضرور بجے گا:
And therefore never send to know for whom the bell tolls;
It tolls for thee. (John Donne, Meditation XVII)
(کسی کو یہ جاننے کے لیے باہر مت بھیجو کہ گھنٹہ کس کے لیے بج رہا ہے)
(یہ تمہارے لیے بج رہا ہے جناب)
تغیر کے ساتھ چلنے والے معاشرے اس گروہ، نسل یا قوم کو لازماً پیچھے چھوڑ دیتے ہیں جس کا قدم آہستہ اٹھتا ہے۔ انگریز رومانوی شاعر کیٹس نے لکھا ہے:
So on our heals a fresh perfection treads,
A power strong in beauty, born of us
And fated to excel us, as we pass
In glory that old darkness. (Hyperion: A fragment book II)
(پس پیچھے پیچھے ہمارے کامل تازہ صاحبان کمال آ رہے ہیں)
(یہ ایک قوت ہیں، حسین بھی ہیں جو ہم سے ہی پیدا ہوئے)
(مقدر ان کا ہے کہ وہ ہم سے آگے نکل جائیں)
(اور ہم دیرینہ تاریکیوں میں شان سے گزرتے ہیں)
اگر کوئی کمزور اور پیچھےمڑمڑ کر دیکھنے والی قوم کسی بحران سے دوچار ہے تو ترقی کی راہ پر گامزن اقوام ایک لمحہ رک کراظہار افسوس کر سکتی ہیں لیکن وہ پھر سے اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔ ہم اس مادی دنیا میں یہی چیز دیکھ رہے ہیں۔ جب کسی گاڑی کو حادثہ پیش آ جاتا ہے تو پیچھے سے آنے والی گاڑیاں لمحہ بھر کے لیے رکتی ہیں اور پھر اپنی منزل کی طرف سفر شروع کر دیتی ہیں۔
(دانش کی دیوی کے) اُلّو کو اپنا سفر ہر حال میں پوہ پھٹنے سے پہلے شروع کر دینا ہوتا ہے۔ حضرت اقبالؒ نے اپنی نظم ٹیپو کی وصیت میں جو الفاظ کہے وہ اس تصور کی بڑی خوبصورتی سے عکاسی کرتے ہیں اور ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ہم اس تبدیلی کا خوش دلی سے خیر مقدم کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھی ہے۔
تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
(ضرب کلیم)
حضرت اقبالؒ نے بارہا جدوجہد کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے اس لیے کہ آزادیٔ عمل ایک انعام ہے جسے جیتا جانا چاہیے۔
میارا بزم بر ساحل کہ آنجا
نوای زندگانے نرم خیز است
بہ دریا غلت و باموحبش در آویز
حیاتِ جاودان اندر ستیز است
(ساحل پر بزم آرائی نہ کرو)
(وہاں نغمۂ زندگی بہت دھیما ہے)
(دریا میں غوطہ زن ہو اور موجوں سے زور آزمائی کرو)
(کیونکہ دائمی زندگی جدوجہد میں مضمر ہے)
(لالہ صحرا: پیام مشرق)
چکنم کہ فطرتِ من بہ مقام در نسازد
دل نا صبور دارم چو صبا بہ لالہ زاری
(کیا کروں، میں فطری طور پر زیادہ عرصہ ایک جگہ پر ٹک نہیں سکتا)
(میں دل مضطرب رکھتا ہوں، جوایسے مچلتا ہے جیسے مغرب کی طرف سے آنے والی ہوا سے گلِ لالہ کے کھیتوں میں ہلچل مچتی ہے)
چو نظر قرار گیرد بہ نگارِ خوبروئے
تپد آن زمان دل من پی خوبتر نگاری
(جونہی میری نظریں ایک خوبصورت چہرے سے ٹکراتی ہیں)
(میرا دل اس سے بھی زیادہ خوبصورت چیز کے لیے مچلنے لگتا ہے)
زشرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابی
سرِ منزلی ندارم کہ بمیریم از قراری
(میں چنگاری سے ستارہ تلاش کرتا ہوں اور ستارے سے سورج)
(منزل کا کچھ پتہ ہی نہیں، ٹھہراؤ کی وجہ سے مرا جا رہا ہوں)
چو ز بادہ بہاری قدحی کشیدہ خیزم
غزلی دگر سرایم بہ ہوای نو بہاری
(جب ایک چشمے سے کشید کی ہوئی شراب نوش کرکے اٹھتا ہوں)
(تو دوسرا شعر الاپتے ہوئے ایک اور چشمہ تلاش کرنے لگتا ہوں)
طلبم نہایتِ آن کہ نہایتی ندارد
بہ نگاہِ ناشکیبی بہ دل امیدواری
(میں اس چیز کی انتہا ڈھونڈتا ہوں جس کی کوئی نہایت ہے ہی نہیں)
(بے قرار نظروں اور پر امید دل کے ساتھ جی رہا ہوں)
(حور و شاعر: پیام مشرق)
زندگی کے لیے تغیرو ثبات دونوں ہی نہایت ضروری ہیں۔ تغیر صرف اس صورت میں اچھا ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر انسانیت کے لیے کوئی افادیت رکھتا ہو اور بقائے انسانیت کے لیے کوئی کردار صرف وہ قومیں ادا کرسکتی ہیں جو علم کے زیور سے آراستہ ہوں اوربنی نوع انسان کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں۔
ہمیں بحیثیت انسان اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم زمان و مکان میں رونما ہونے والے تغیر و تبدل کا ساتھ دے رہے ہیں؟ کیا ہمارے پاس وہ علم موجود ہے جس کی ہمیں زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہے؟ کیا ہم انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں؟ کیا ہم عہد حاضر کے چیلنجوں کا مناسب جواب دے سکتے ہیں؟ یہی وہ سوالات ہیں جن کا دورِ جدید کے مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب A Study of History (مطالعۂ تاریخ) میں جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں قوموں کے عروج و زوال کی وضاحت کرتا ہے۔
ٹائن بی نے تہذیبوں کی فرداً فرداً نشاندہی کرتے ہوئے انہیں اکائیاں (units) قرار دیا ہے اور وہ ہر تہذیب کے لیے ایک للکار (challenge) اور ایک جواب (response) کا تصور پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تہذیبیں چند شدید مشکلات کے ایک مجموعے اور ان کے جواب کے طو رپر وجود میں آئی ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والی اقلیتوں نے ان کے ایسے حل وضع کئے جنہوں نے ان کے سارے سماج کی از سر نو تشکیل کر دی۔
یہ للکاریں (challenges) اور ان کے جوابات (responses) مادّی و جسمانی تھے جیسا کہ قدیم بابل کے سمیریوں (Sumerians) نے جواب دیا۔ جب انہوں نے جنوبی عراق کے بے قابو دلدلی علاقوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اور وہ اس طرح کہ انہوں نے عہد حجری کے آخری دور کے ایسے باشندوں کو اپنے معاشرے میں ضم کر لیا جو بڑے پیمانے کے آبپاشی کے منصوبوں کوعملی جامہ پہنا سکتے تھے۔ (اور ان سے کام لے لیا گیا) جبکہ بعض تہذیبوں نے للکار کا سماجی جواب دیا جیسے کیتھولک چرچ نے بعداز روما کے یورپ میں چھڑنے والی بد نظمی پر اس طرح قابو پایا کہ نئی جرمن خصوصیات رکھنے والی بادشاہتوں کو ایک غیر منقسم مذہبی کمیونٹی کی شکل دے دی۔
جب کسی تہذیب نے پیش آمدہ چیلنج (للکار) کا جواب دیا تو اس نے فروغ پایا۔ تہذیبوں کو اس وقت زوال آیا جب ان کے رہنماؤں نے موجدانہ انداز میں جواب دینا چھوڑا تو وہ قومیت، عسکریت اور مستبدِ اقلیت کے جبر کی وجہ سے ڈوب گئیں۔ ٹائن بی اپنی قوتِ استدلال کی بنا پر دعویٰ کرتا ہے کہ معاشرے قدرتی اسباب کی بہ نسبت خودکشی یا قتل کی وجہ سے زیاد ہ مرتے ہیں۔ خود کشی کے باعث تقریباً ہمیشہ مرتے ہیں۔ وہ تہذیبوں کے عروج و زوال کو ایک روحانی طریق کار کے طور پر دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ انسان جو تہذیب پاتا ہے وہ اعلیٰ درجے کے حیاتیاتی عطیے یا جغرافیائی ماحول کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتی بلکہ اس للکار یا چیلنج کا مناسب جواب دینے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے جس کا وہ خصوصی نوعیت کی مشکل پیش آنے پر فقید المثال اظہار کرتی ہے۔
(A Study of History by Arnold Toynbee, p.570)
اسلام بطور ایک مذہب فطرت جو فلسفہ پیش کرتا ہے وہ بقول حضرت اقبالؒ یہ ہے:
اسلام ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سے کائنات (universe) کے قدیم جامد نظرئیے کو مسترد کرتے ہوئے ایک متحرک و توانا (dynamic) نظریہ پیش کرتا ہے۔ جملہ زندگی کی حتمی و قطعی روحانی بنیاد جو اسلام کی پیش کردہ ہے دائمی و ابدی ہے اور یہ اپنا اظہار تنوع اور تغیر کی صورت میںکرتی ہے۔ جو معاشرہ حقیقت (reality) کے ایسے تصور پر استوار ہو، اسے اپنی زندگی، دوام اورتغیر کی تمام اقسام کے ساتھ لازماً ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اسے لازماً ازلی و ابدی اصولوں کا حامل ہونا چاہیے تا کہ یہ اپنی اجتماعی زندگی کو منضبط (regulate) کر سکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جو حی و قیوم ہے ہمیں مستقل تغیرّات کی دنیا میں قدم جمانے کی جگہ عطا کرتا ہے۔ لیکن جب دائمی اصولوں کو یہ سمجھ لیاجائے کہ وہ تغیرّ کے تمام امکانات کو خارج کر دیتے ہیں، جو کہ ازروئے قرآن اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نشانیوںمیں سے ہے۔ یہ ایسے مظہر کو ساکت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے جو اپنی فطرت کے تحت اساسی طور پر متحرک ہے۔ یورپ کی سیاسی اور سماجی علوم میں نا کا می اوّل الذّکر اصول کو روز روشن کی طرح واضح کر دیتی ہے؛ اسلام کی گزشتہ پانچ سو (۵۰۰) سالوں کے دوران حرکت نا پذیری (immobility) مؤخر الذکر اصول کی وضاحت کر دیتی ہے۔ تو پھر اسلام کی تشکیل میں اصولِ تحرک کیا ہے؟ اسے اجتہاد کہا جاتاہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے: ہم کیسے یقین حاصل کریں کہ ہم پہلے ہو چکے ہوئے تغیر سے جا ملیں گے کہ ہم بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ کہ ہم بنی نوع انسان کے لیے نفع بخش ہیں؟ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں اپنے آپ کو جانچنا اور اپنا احتساب کرنا ہوگا۔
اپنا احتساب کرنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں: یہ کام ہم خود کریں یا دوسروں کو اجازت دیں کہ وہ ہمارا احتساب کریں۔ اسلام ہمیں خود احتسابی (self-reckoning) کی تعلیم دیتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے خود احتسابی کے عمل کو پسند فرماتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے:
فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا. (سورۃ الصافات، آیت:۲)
(پھر قسم ان کی جو جھڑک کر چلاتے ہیں)
یہ تصوّف کی تعلیمات کا ایک لازمی جزو ہے کہ ہر رات سونے سے پہلے ہم اپنے دن بھر کے اعمال پر غور و فکر کریں۔ اپنا محاسبہ کریں اور اپنے آپ کو جانچیں۔ ہر لمحے کے بارے میں سوچیں اور ہر قدم پر غور کریں۔ صوفیاء کرامؒ کے دو اصول ہیں۔ (i) نظر بر قدم (اپنے قدموں کا مشاہدہ کرنا) اور (ii) نگاہ داشت (دھیان رکھنا):
(i)۔ نظر بر قدم (اپنے قدموں کا مشاہدہ کرو): اپنی توجہ کو مسلسل مقصد پر مرکوز رکھو۔ قدموں کا مشاہدہ کرنے کا مقصد اپنے حالات پر نظر رکھنا بھی مراد ہے۔ اس امر کا خیال رکھو کہ اقدام کرنے کے لیے کونسا وقت صحیح ہے؟ کون سا وقت ایسا ہے کہ اقدام نہ کیا جائے اور کون سا وقت توقف کے لیے صحیح ہے؟ بعضوں کا خیال ہے کہ نظر برقدم ایک جملہ ہے جو کسی کے فطری مزاج میں مضمر دانش کا حوالہ دیتا ہے۔
(ii)۔ نگاہ داشت (دھیان رکھنا): تمام اجنبی اور ضعیف خیالات اور اعمال کا مقابلہ کرو۔ ہمیشہ خیال رکھو کہ تم کیا سو چ رہے ہو اور کیا کر رہے ہو؟ تاکہ ہر گزرتے واقعے اور تمہاری روزمرہ کی زندگی کے ہر معاملے پر تمہاری بقائے دائمی کا نقش ثبت ہو سکے۔ خبردار رہو۔ خیال کرو کہ کونسی چیز تمہاری توجہ کو کھینچتی ہے؟ اپنی توجہ کو نا پسندیدہ چیزوں سے واپس موڑنا سیکھو۔ اس امر کا اس طرح بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ خیالوں میں چوکنا رہو اور اپنے آپ کو یاد رکھو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے فکر اور عمل کے ہر پہلو کے بارے میں محتاط اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ یہ مسلسل خود احتسابی بطور فرد اور بطور قوم ہماری بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
صورت شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
(مسجد قرطبہ: بال جبریل از محمد اقبالؒ)
اسلام نے تغیر اور ثبات کے دو اساسی اصولوں کو درست قرار دیا ہے۔ اسلام کے اندر بھی چند نظریات ہیں جنہیں محکمات (مستقل) کہا جاتا ہے جو زمان یا مکان کی تبدیلی کے تابع نہیں ہیں۔
ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْہُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ . (سورۃ آل عمران، آیت: ۷)
(وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنی واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معانی معلوم یا معین نہیں)
مثال کے طو رپر خدا کی وحدانیت پرایمان لانا۔ رسولوں پر ایمان لانا۔ حضور نبی کریمﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان۔ قرآن پر ایمان۔ جزا و سزا پر ایمان۔ بنیادی اشیائے ضرورت کے جائز و نا جائز ہونے پر ایمان۔ یہ سب دائمی و مستقل اصول ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہ بنیادی عقائدِ ایمان ہیں جو اثبات و استحکام کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور صحت مند انسانی نفسیات او راجتماعی وجود کے لیے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
اسلام نے تغیر و تبدل کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلنے کے لیے ہمیں اجتہاد کا تصور دیا ہے۔ لفظ اجتہاد عربی کے لفظ جَہَدَسے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں جدوجہد (جہد فی الامر کسی کام کے لیے بہت کوشش کرنا) بالخصوص اجتہاد کے معنی ہیں گہرے غور و فکر کے ذریعے اپنے آپ سے سخت مقابلہ کرنا۔ اسلامی قانون میں اجتہاد کے معنی ہیں ایسے مسائل کی آزادانہ یا فطری و خلقی تعبیر کرنا جن کا قرآن پاک اور سنت (حضور نبی کریمﷺ کی زندگی اور ارشادات) اور اجماع (اہل علم کے اتفاق رائے) میں واضح طور پراور حسب ضرورت ذکر موجود نہیں۔ قرون اولیٰ کی امت مسلمہ میں مناسب استعداد اور اہلیت رکھنے والے ہر قانون دان کو اپنی فکر کو بروئے کار لا کر ان مسائل پر اپنی رائے اور قیاس کے استعمال کا حق ہوتا تھا۔ جن فقہا نے یہ ذہنی کاوشیں کیں انہیں اصطلاحاً مجتہدین کہاجاتا تھا۔ عباسیوں کے دور (750 ء - 1258ء) میں مختلف مذاہب فقہی وجود میں آ گئے تھے۔ بعض سنی علما نے تیسری صدی ہجری کے اواخر میں قرار دیا کہ اجتہاد کے دروازے بند ہوچکے ہیں اور کوئی عالم کبھی بھی مجتہد کی اہلیت حاصل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ طے پایا کہ بعد میں آنے والے فقہا کو صرف تقلید کرنا ہوگی۔ یعنی انہیں اپنے عظیم پیشروؤں کی رائے بلا حیل و حجت مستند سمجھنا ہوگی اور وہ زیادہ سے زیادہ اس امر کے مجاز ہوں گے کہ وہ اپنی قانونی رائے ان مسلمہ نظائر (established precedents) کی روشنی میں قائم کریں۔ اہل تشیع (جو اسلام کے اندر ایک اقلیتی فرقہ ہے) نے اس معاملے میں سنیوں کی کبھی پیرو ی نہیں کی اور وہ اب بھی اپنے سرکردہ فقہا کو مجتہد قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود متعد د سنّی ممتاز علما مثلاً شیخ ابن تیمیہؒ او رامام جلال الدین سیوّطیؒ نے خود کو مجتہد کے طور پر پیش کرنے کی جرأت کی۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں متعدد اصلاحی تحریکیں اٹھیں جنہوں نے بڑے زور و شور سے اجتہاد کے احیاء کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسلام کو ان بدعتوں کی ضرر رسانیوں سے نجات دلائی جائے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہیں اور ایسی اصلاحات کی جائیں جو اسلام کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے قابل بنا دیں۔
اسلام اپنے بنیادی اصولوں (محکمات) کے تحت ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اجتہاد کے ذریعے ہر نئے چیلنج کا جواب دیں۔ قرآن مجید اور احادیث کی ہر دور کے مطابق تشریح و تعبیر کی ضرورت ہے۔ اگر ہم قرآن پاک یا احادیث میں کسی مسئلے پر اپنی رہنمائی نہیں پاتے تو پھر ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنی ذہانت اور تمثیلی استدلال سے کام لیں۔
حضور نبی کریمﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا قاضی بناکر بھیجا۔ یمن اس وقت ریاست مدینہ کے سیاسی اثر تلے آ گیا تھا۔
آپﷺ نے پوچھا: جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ مسئلہ سنت رسول(ﷺ) میں بھی نہ پاؤ اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے قاصد (معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو اس چیز کی توفیق دی، جس سے رسول اللہ (ﷺ) راضی ہیں۔ (سنن ابوداؤد، ج: ۳، رقم الحدیث: ۱۹۹)
اس حدیث شریف سے یہ بالکل واضح ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے چشم تصور سے دیکھ لیا تھا کہ انسانی تہذیب کی مسلسل ترقی کے جاری عمل کی وجہ سے یقیناً ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب مسلمان قرآن و سنت سے براہِ راست رہنمائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے آپﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کو بے حد پسند فرمایا کہ وہ جن معاملات کے بارے میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل نہیں کر پائیں گے وہ آزادانہ طور پر سوچیں گے اور ایسا کرتے ہوئے قرآن پاک میں مذکور رحم، انصاف، غیر جانبداری اور مساوات کے بنیادی اصولوں کو یقیناً ذہن میں رکھیں گے۔ یہی اجتہاد کے تصور کا ماخذ ہے۔
اس سیاق و سباق میں ایک اور حدیث بھی قابل ذکر ہے۔ جب حضور نبی پاکﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو آپﷺ نے کھجور کے درختوں کے عملِ زیرہ پوشی (pollination) کو پسند نہ کیا۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: میں حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ تھا۔ ہم چند لوگوں کے پاس سے گزرنے لگے تو وہ اپنی کھجوروں کے بالائی حصے پر کچھ کام کر رہے تھے۔ آپﷺ نے پوچھا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ (بعض لوگوں نے) جواب دیا: یہ درختوں میں نر حصوں کو مادہ حصوں کے ساتھ ملا کر زیرہ پوشی کرر ہے ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میرا نہیں خیال کہ اس سے کوئی فائدہ پہنچے گا۔ انہیں آپﷺ کی بات بتائی گئی اور انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔ پھر رسول اللہﷺ کو ان کے یہ کام چھوڑنے سے متعلق مطلع کیا گیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ ان کو فائدہ پہنچاتا ہے تو پھر انہیں یہ کرنا چاہیے۔ میں نے محض ایک خیال ظاہر کیا تھا، مجھے اظہار خیال پر اس کا ذمہ دار مت ٹھہراؤ۔ جب میں تم سے اللہ تعالیٰ سے متعلق کچھ کہوں اسے قبول کر لو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹی بات نہیں کہتا۔ آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا اپنی دنیاوی زندگی کے بارے میں تم بہتر جانتے ہو۔ (صحیح مسلم، ج: ۳، رقم الحدیث: ۱۶۲۵، ۱۶۲۶، ۱۶۲۷)
اس سے عام بھلائیوں پر ایمان معروف کا تصور دیا گیا ہے۔ عرف ایک رائج الوقت قاعدے یا رسم کو کہا جاتا ہے جسے لوگوں کا اجتماعی شعور قبول کرتا ہے اور قابل اعتبار ہوتی ہے۔ عربی میں ایک عادت یا رواج جسے وسیع پیمانے پر قبولیت اور احترام حاصل ہو اس کو معروف کہا جاتا ہے۔ معروف ایک اسلامی تصور ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جسے عام طور پر جاناپہچانا جاتا ہو۔ اسے سمجھا، تسلیم کیا جاتا اور قبول کیا جاتا ہو۔ قرآن مجید میں اس کا چالیس سے زیادہ مقامات پر ذکر آیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی رُو سے بنی نوع انسان کا اجتماعی ضمیر جس بات پربھی متفق ہو جائے مسلمانوں کو اسے بطور ایک امرلازم قبول کر لینا چاہیے۔
قرآن پاک اور احادیث کے مطالعہ سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ تمام مسلمانوں کے لیے عصری علوم سے آگاہی حاصل کرنا ایک فریضے کی حیثیت رکھتا ہے اور انہیں اچھے اور مشترکہ طور طریقوں کو قبول کرنا چاہیے۔ اجتہاد اور معروف آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلنے کے لیے ذرائع اور وسائل ہیں۔ ابتدائی دور کے مسلمانوں نے ان خدائی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر بہت سے مسائل کے حل ڈھونڈ لیے تھے۔ درحقیقت انہوں نے نئے نئے شعبہ تعلیم تخلیق کئے اور دنیا کی قیادت کی۔ اس طرح وہ دنیا کے بڑے حصے پر صدیوں حکمرانی کرتے رہے۔
مسلمانوں نے بطور ایک امت عمومی اجتہاد کے دروازے بند رکھے ہوئے ہیں اور معروف پر یقین کرنا بھی ترک کر دیا ہے۔ وہ ماضی کے ساتھ زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں جو غیر متغیر ہیں اور ایک یادگار ماضی بن کر زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے گرد و پیش کی دنیا سے ہم آہنگ اور ہمقدم ہونا چھوڑ چکے ہیں۔ ایک سنجیدہ تجزئیے کی ضرورت ہے تا کہ پتہ چلے کہ آج کے مسلمان کہاں کھڑے ہیں اور وہ کل کہاں چلے جائیں گے؟
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات، کشمکشِ انقلاب
(مسجد قرطبہ؛ بال جبریل از محمد اقبالؒ)