والد گرامی کی روایت ہے، گوجرانوالہ میں یوسف کمال نام کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب مقرر ہوئے جو کافی رعونت پسند اور طبقہ علماء کے بہت خلاف تھے۔ ایک میٹنگ میں، جس میں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب سمیت شہر کی بڑی مذہبی شخصیات شریک تھیں، ڈی سی صاحب نے گفتگو شروع فرمائی کہ مجھے علماء کرام پر بہت ترس آتا ہے، میرا دل دکھتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، ان کا روزگار لوگوں کی جیب سے وابستہ ہوتا ہے، وغیرہ۔ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب مضطرب ہوئے اور زیر لب کہنے لگے کہ یہ بہت زیادتی ہے۔ والد گرامی نے کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں ڈی سی صاحب کو جواب دوں؟ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ ہونا تو چاہیے۔ اپنی باری آنے پر والد گرامی نے کہا کہ میں ڈی سی صاحب کا بہت ممنون ہوں کہ انھوں نے علماء کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے، بس اتنی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ روزگار آپ کا بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ ٹیکس کلکٹر ڈنڈے کے زور پر لوگوں کی جیب سے وصول کرتا ہے، اور علماء کے پاس لوگ خود آ کر کہتے ہیں کہ حضرت، ہدیہ قبول فرمائیں اور ساتھ دعا کی درخواست بھی کرتے ہیں۔
تبصرے کا حاصل یہ ہے کہ پوری ریاستی مشینری اور اس کے کروفر والے سارے عہدے دار (آرمی چیف، صدر اور چیف جسٹس سمیت) اسی جیب سے روزگار پاتے ہیں جہاں سے مولوی کو ملتا ہے اور یہ اس اصول پر مبنی ہے کہ معاشرے کی اجتماعی ضروریات کا بندوبست معاشرے ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جیسے پوری ریاستی مشینری کے اخراجات ٹیکس کی صورت میں لوگوں کی جیب سے وصول کیے جاتے ہیں اور کوئی اسے ’’طفیلی پن” نہیں سمجھتا، اسی طرح دینی تعلیم اور دینی خدمات کا انتظام وانصرام بھی معاشرے کی مجموعی ضروریات میں سے ہے اور مذہبی علماء نے اگر عوامی تبرعات کی بنیاد پر اس کا ایک نظم بنایا ہوا ہے تو وہ بھی اسی اصول پر قائم ہے۔ البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ ریاست اپنے اخراجات، ریاستی طاقت کے بل پر وصول کرتی ہے اور ٹیکس دینے سے انکار کو بغاوت کے درجے کا قانونی جرم قرار دیتی ہے، جبکہ مساجد ومدارس کا نظام (اور اسی طرح رفاہ عامہ کے دیگر تمام شعبے) لوگوں کے مذہبی واخلاقی احساسات کو اپیل کر کے اور اللہ کے ہاں اجر اور ثواب کے تصورات کی بنیاد پر انھیں آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ان مختلف شعبوں میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔
یہ تو ہوئی اصول کی بات۔ تاہم یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ اصول چاہے ایک ہی کام کر رہا ہو، معاشرے میں بن جانے والے تاثرات کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ ریاست جو وسائل طاقت سے وصول کرتی ہے، اس کا تاثر اور بنتا ہے، اور لوگ اپنی مرضی سے، اجر وثواب کی نیت سے اور ’’صدقہ وخیرات” کے عنوان سے جو رقم دیتے ہیں، اس کا تاثر کچھ اور بنتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں مدارس بنیادی طور پر اوقاف کے نظام کے تحت کام کرتے رہے ہیں جو ایک باوقار طریقہ تھا۔ استعماری دور میں اوقاف کے پورے نظام کو برباد کر دیے جانے کے بعد علماء نے بامر مجبوری عوامی چندے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ ضروری دینی تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھا جا سکے۔ ہمارے ہاں پایا جانے والا عوامی تاثر بنیادی طور پر اس تبدیلی سے پیدا ہوا ہے اور اس کی منفیت کو خود صاحب فہم علماء بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک ارشاد ملاحظہ ہو جو مساجد ومدارس کے ذمہ داران کے لیے بہت ہی قابل توجہ ہے۔
مولانا فرماتے ہیں:
’’مدارس کے متعلق میری ایک رائے یہ ہے کہ دینی مدارس میں صنعت وحرفت کا بھی انتظام ہو، خواہ طلبہ بعد میں یہ کام نہ کریں، لیکن سکھایا ضرور جائے۔ اس لیے کہ آج کل عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان مولویوں کو اس کے سوا اور کچھ نہیں آتا، اس لیے وہ انھیں اپنا محتاج سمجھتے ہیں جس سے ان کی تحقیر ہوتی ہے۔ اگر کوئی دستکاری وغیرہ سیکھ لیں اور کسی وقت کسب معاش کی ضرورت ہو تو اپنے کام میں تو لگ جائیں گے اور اس طرح چندہ مانگنے سے بچ جائیں گے، اس لیے کہ چندہ مانگنے میں حد درجہ تحقیر ہے۔” (الافاضات الیومیہ، حصہ ششم، ص ۲۶۶)
اس تناظر میں الشریعہ کے نومبر ۲٠۱۸ء کے شمارے میں ’’دینی مدارس کا نظام :بنیادی مخمصہ” کے عنوان سے جو تفصیلی معروضات پیش کی گئی تھیں، ان کے ایک حصے کا اعادہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے:
’’دینی تعلیم میں مہارت اور اختصاص کے لیے صلاحیت اور استعداد نیز رجحان طبع کا ایک معیار مقرر کیا جائے اور انھی طلبہ کو اس میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے جو ایک “عالم دین” کے طور پر معاشرے میں کردار ادا کر سکیں۔ ان کے علاوہ مدارس سے رجوع کرنے والے عام طلبہ کے لیے مختلف سطحوں پر ان کی ضرورت اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف دورانیے کے متبادل نصابات تشکیل دیے جائیں جنھیں مکمل کرنے کے بعد دو سال، تین سال یا چار سال میں وہ سسٹم سے باہر جا سکیں۔ ایسے حضرات کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ہنر لازماً سکھائے جائیں جو کل کو روزگار کے سلسلے میں ان کی مدد کریں، مثلاً انگریزی زبان، ریاضی، کمپیوٹر آپریٹنگ، اداراتی انتظام وغیرہ۔ پنجاب حکومت کا ادارہ TEVTA اس حوالے سے یہ سہولت دے رہا ہے کہ مختلف تکنیکی ہنر سکھانے کے لیے دینی اداروں کے اندر سرکاری اخراجات سے سیٹ اپ قائم کیے جا سکتے ہیں اور مختلف اداروں میں یہ تجربہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر مدارس سے رجوع کرنے والے تمام طلبہ کو “علماء” بنا کر فارغ التحصیل کرنے کے ہدف میں ترمیم کر لی جائے اور عام طلبہ کے لیے بھی اپنے سسٹم میں گنجائش پیدا کر لی جائے تو طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے ایک سال، دو سال یا تین سال کے دورانیے پر مبنی دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ مختلف تکنیکی ہنر شامل کر کے وسیع معاشرتی افادیت رکھنے والا ایک تعلیمی نظام آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔
یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ داعی کا معاشرے کی نظر میں محترم اور باوقار ہونا دعوت دین کے موثر ہونے کے لیے بہت اہم ہے اور ذریعہ معاش کا سوال اس مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں دین کو فکری غلبہ اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہو، وہاں معاشرہ اہل دین کی ضروریات کے بندوبست کو اپنا فریضہ اور ذریعہ سعادت تصور کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں حکمران اور ارباب ثروت ہمیشہ دراہم ودنانیر نیاز مندانہ اہل علم کی خدمت میں پیش کرتے رہے ہیں۔ تاہم جدید معاشرے میں دین اور اہل دین کی یہ حیثیت برقرار نہیں رہی اور لازم ہے کہ معاشرتی وقار کی بحالی کے لیے حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وقت کے مروجہ معیارات کے مطابق ایسی صلاحیتیں اور اہلیتیں پیدا اور ایسے ہنر حاصل کیے جائیں جو باوقار روزگار کا ذریعہ تصور کیے جاتے ہوں۔ اہل دین معاشرے کو دینے والے ہوں اور جو کچھ وہ دیں، اس میں دوسری خدمات کے ساتھ ساتھ دعوت دین کی خدمت بھی شامل ہو۔
دینی تعلیم کا مروجہ نظام ایسی مہارتیں سکھاتا ہے جن کی، عموماً، معاشرے کی نگاہ میں کوئی خاص قدر نہیں۔ معاشرہ حصول ثواب کی غرض سے یا مذہب کے ساتھ ایک روایتی وابستگی کے زیر اثر اس کام کے لیے صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات وغیرہ تو دے دیتا ہے، لیکن اس عمومی تاثر اور احساس کے ساتھ کہ مذہبی طبقہ لوگوں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ کسی عالم کو قوت لا یموت سے زیادہ کچھ مل جائے تو معاشرے کو ہضم نہیں ہوتا، کیونکہ اس طبقے کا درجہ معاشرے نے یہی متعین کیا ہے۔ اس رویے پر معاشرے کو قصور وار ٹھہرانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ جواز۔ یہ فطری انسانی رویہ ہے۔ اہل دین اگر بحیثیت طبقہ اپنے لیے وقار اور احترام چاہتے ہیں، جو دعوت دین کے لیے بے حد ضروری ہے، تو انھیں خود اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی۔”
غیر مسلموں کے لیے استغفار یا دعائے رحمت
غیر مسلموں کے لیے پس از مرگ کس نوعیت کی دعائے خیر کی جا سکتی ہے اور کس نوعیت کی نہیں، یہ سوال موجودہ عالمی ماحول میں خاص طور پر مخلوط معاشروں کے تناظر میں عموما زیر بحث آتا رہتا ہے۔ معروف عرب اسکالر الدکتور احمد الغامدی نے اس حوالے سے ایک رائے پیش کی تھی جو بہت معتدل اور متوازن معلوم ہوتی ہے۔
الدکتور الغامدی کہتے ہیں کہ قرآن وسنت کے نصوص کی روشنی میں کفار کے بارے میں یہ عمومی حکم بیان کرنا تو درست ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے، لیکن متعین افراد کے بارے میں یہ بات کہنا اس بات کے یقینی علم کے بغیر درست نہیں کہ وہ جانتے بوجھتے کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ غیر مسلموں کے لیے استغفار کا جواز یا عدم جواز بھی اس پر مبنی ہے، اور جن غیر مسلموں کی حالت یقینی طور پر معلوم نہ ہو، ان کے متعلق جہنم میں جانے کا متعین حکم لگانا اللہ کے حق میں جسارت اور حدود سے تجاوز ہے۔ یوں اگر ان کا دانستہ انکار کی حالت میں مرنا یقینی نہ ہو تو اصولا ان کے لیے استغفار کیا جا سکتا ہے، تاہم چونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ دانستہ کفر کی حالت میں مرے ہیں یا لاعلمی اور ناواقفیت کی وجہ سے، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے متعلق سکوت اختیار کیا جائے۔
الدکتور الغامدی دوسری اہم بات یہ کہتے ہیں کہ جن غیر مسلموں کا، دانستہ کفر پر مرنا یقینی ہو، ان کے لیے بھی استغفار کی ممانعت ہے، لیکن ترحم اور عمومی دعائے خیر کی ممانعت نہیں ہے۔ استغفار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے کفر کی معافی، نجات اور جنت میں داخلے کی دعا کی جائے۔ یہ درست نہیں، لیکن ان کے لیے رحمت کی دعا کرنا جائز ہے، کیونکہ کامل مغفرت سے ہٹ کر کفار کے بعض اچھے اعمال کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کیا جانا نصوص سے ثابت ہے اور ان معنوں میں ان کے لیے رحمت کی دعا کی جا سکتی ہے کہ ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جائے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کے لیے دعا فرمائی تھی۔
ہماری رائے میں غیر مسلموں کے لیے مغفرت یا رحمت کی دعا کی بحث میں درج ذیل چند پہلووں کو بڑی احتیاط اور توازن کے ساتھ ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے:
سب سے پہلی اور بنیادی بات تو حق اور باطل کا فرق ہے جس کی اہمیت کو گھٹانا راسخ العقیدہ اسلامی فکر میں کسی حال میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ یہ سمجھنا کہ عقیدے میں حق اور باطل کا فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور بس انسان کا ’’اچھے کردار” کا حامل ہونا اصل چیز ہے، اس لیے سب بھلے لوگ بلا تفریق مغفرت ورحمت کے حق دار ہیں، صحیح اسلامی عقیدہ نہیں ہے، بلکہ اس کو ڈھا دینے والا ہے۔ اسلام کی نظر میں ’’اچھے کردار” کا بنیادی معیار حق اور باطل کے فرق کو ماننا اور حق کو قبول کرنا ہے جس کا ایک تقاضا حق پر عمل کرنا بھی ہے۔ جو شخص حق اور قبولیت حق کی اہمیت کو نہیں مانتا، وہ اسلام کی نظر میں ’’اچھے کردار” کا حامل نہیں، چاہے بظاہر کئی اعمال خیر کر رہا ہو۔ اس لیے اس تصور کے تحت غیر مسلموں کے لیے دعائے مغفرت کرنا اتنا ہی باطل عمل ہے جتنا توحید اور شرک اور ایمان اور کفر کو ایک سمجھنے کا تصور باطل ہے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اور بخشش کا اپنے لیے اور دوسرے انسانوں کے لیے امیدوار ہونا ایک فطری انسانی جذبہ ہے۔ یہ اپنے بنی نوع کی ہمدردی کا مظہر ہے اور اسی ہمدردی کے تحت اہل ایمان، خلق خدا کی خیر خواہی میں دعوت حق کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اسی جذبے سے خدا کے گنہگار اور نافرمان بندوں کے لیے بخشش کی خواہش کا دل میں پیدا ہونا کوئی مذموم چیز نہیں، بلکہ محمود ہے۔ البتہ، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے انسانوں کو یہ بتایا ہے کہ حق کے منکرین جب حق بالکل واضح ہو جانے کے بعد کھلم کھلا عناد پر بضد رہیں تو پھر اہل حق کی ایمانی غیرت کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ بدستور ان کے ساتھ ہمدردی اور تعلق خاطر رکھتے رہیں۔ ایسی صورت میں اللہ تعالی یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان سے براءت کا اظہار کر کے قطع تعلق کر لیں، جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی اللہ کے حضور میں پیش نہ کریں۔
قرآن وحدیث کے نصوص میں غیر مسلموں کے لیے بد دعا اور ان کے لیے آفات ومصائب کی خواہش کرنے کی مثالیں بھی بنیادی طور پر انھی کفار سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کے خلاف برسرجنگ تھے یا اپنے علاقوں میں اہل ایمان کو تکلیفیں پہنچا رہے تھے، وگرنہ دنیوی آفات ومصائب میں انسانی ہمدردی میں مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنی بہترین انتظامی صلاحیتیں جس قوم کو قحط کے اثرات سے بچانے کے لیے پیش کیں، وہ مصر کے مشرک اور دیوتا پرست تھے۔
تیسری اہم بات عام کافروں سے متعلق ہے جن پر نہ تو پیغمبر کے ذریعے سے اتمام حجت ہوا ہے اور نہ ان کے طرز عمل سے اس طرح کا عناد سامنے آتا ہے جو مذکورہ صورت میں بیان ہوا۔ ایسے کفار کے لیے انسانی ہمدردی کی بنا پر یا مختلف قسم کے دنیوی علائق کی وجہ سے یا مسلمانوں کے ساتھ ان کے اچھے برتاو کی وجہ سے دعا کی خواہش کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اللہ کے دو پیغمبروں سیدنا ابراہیم اور سیدنا عیسی ٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن میں بھی بیان ہوا ہے اور حدیث میں بھی اس کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنی امت کے کفر کے باوجود ان کی بخشش کی خواہش رکھتے تھے، البتہ ان دونوں پیغمبروں کے اسوے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور پر شرک کرنے والوں کے بارے میں انھوں نے براہ راست اور صریح دعائے مغفرت نہیں کی، بلکہ ایک طرح کی امید اور توقع ہی بارگاہ الہی میں پیش کرنے پر اکتفا کی۔ پس مبنی براعتدال اور متوازن بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ غیر معاند اہل کفر کے بارے میں یا تو سکوت اختیار کیا جائے اور یا امید اور توقع کا بالواسطہ اسلوب استعمال کیا جائے اور صریح دعائے مغفرت سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ ان کے ساتھ آخرت میں نرمی برتے جانے اور سزا میں تخفیف کی دعا بالکل درست ہوگی۔ یہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے اور اس میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا۔
ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم