قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۷)

محمد عمار خان ناصر

قانون اتمام حجت پر مبنی احکام

غامدی صاحب کے نقطۂ  نظر کے مطابق قرآن مجید سے رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی ایک مخصوص سنت واضح ہوتی ہے جس کی رو سے منصب رسالت پر فائز کسی ہستی کو جب کسی قوم میں مبعوث کیا جاتا ہے تو اس فیصلے کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق اور باطل کے فرق کو بالکل قطعی درجے میں اور علیٰ رؤوس الاشہاد واضح کر دیے جانے کے بعد بھی جو لوگ حق کے انکار پر مصر رہیں، وہ اسی دنیا میں خدا کے عذاب کے مستحق ہو جائیں گے۔ غامدی صاحب کے الفاظ میں ’’اللہ تعالیٰ کی حجت جب کسی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو منکرین حق پر اسی دنیا میں اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ عذاب کا یہ فیصلہ رسولوں کی طرف سے انذار، انذار عام، اتمام حجت اور اس کے بعد ہجرت وبراء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوتی، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا ہو جاتی ہے ‘‘ (میزان  ۵۹۸) ۔

قانون رسالت کے تحت اتمام حجت کا یہ عمل چونکہ پوری دنیا کی قوموں پر نہیں، بلکہ رسول کے براہ راست مخاطبین پر کیا جاتا ہے، اس لیے غامدی صاحب اس قانون کے تحت کیے جانے والے مخصوص اقدامات کو شریعت کے عمومی اور ابدی احکام قرار نہیں دیتے، بلکہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطبین تک محدود قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں عہد رسالت کے منکرین حق کے خلاف جہاد وقتال اور ان پر جزیہ عائد کرنے کے علاوہ احادیث میں مذکور بعض احکام کی تفہیم بھی وہ قانون اتمام حجت کے تحت کرتے ہیں، چنانچہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے سے متعلق مذکورہ اقتباس میں انھوں نے عذاب قبر، کعب بن اشرف کے قتل، ’أمرت أن أقاتل الناس‘ اور ’من بدل دینه فاقتلوه‘ کی روایات کا ذکر اسی پہلو سے کیا ہے۔  یہ اور ان کے علاوہ جن دیگر احادیث کی تعبیر میں غامدی صاحب نے نمایاں طور پر اس اصول کا اطلاق کیا ہے، ان کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:

۱۔ ’امرت ان اقاتل الناس‘  کا محل اور دائرۂ اطلاق واضح کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’یہی قانون ہے جس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی: ... ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اِن لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔‘‘ … یہ قانون، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، صرف اُن مشرکین کے ساتھ خاص تھا جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست اتمام حجت کیا۔ اُن کے علاوہ اب قیامت تک کسی دوسری قوم یا فرد کے ساتھ اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ اہل کتاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے، قرآن مجید نے اُنھیں بھی اِس سے بالصراحت مستثنیٰ قرار دیا ہے۔‘‘ (برہان ۱۴۱-  ۱۴۲)

 اس توجیہ کے حوالے سے غامدی صاحب منفرد نہیں ہیں۔ کلاسیکی فقہی روایت میں احناف کا نقطۂ نظر بھی یہی رہا ہے کہ اسلام قبول نہ کرنے پر قتل کیے جانے کا حکم خاص طور پر مشرکین عرب کے لیے دیا گیا تھا جن کے بارے میں قرآن مجید میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے دین کا خاتمہ کر کے پورے جزیرۂ عرب پر اسلام کو غالب کر دیا جائے اور مہلت ختم ہونے کے بعد بھی وہ اگر کفر وشرک سے توبہ کر کے دائرۂ اسلام میں داخل نہ ہوں تو انھیں بے دریغ قتل کر دیا جائے (التوبہ ۹: ۵)۔ فقہاے احناف مشرکین عرب سے متعلق اس خصوصی حکم کی وجہ اتمام حجت کے اصول کو قرار دیتے ہیں اور ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ چونکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس قوم میں مبعوث کیے گئے تھے اور اللہ کی کتاب انھی کی زبان میں انھی کے سامنے نازل کی گئی تھی، اس لیے حجت تمام کر دیے جانے کے بعد ان کے پاس قبول حق سے گریز کے لیے کوئی عذر موجود نہیں تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے جرم کی سنگینی کی وجہ سے ان کے لیے سزا بھی سنگین ترین مقرر فرمائی اور اسلام قبول نہ کرنے پر انھیں گردن زدنی قرار دے دیا۔ اس نقطۂ نظر کے تحت حنفی فقہا اور بعض دیگر شارحین حدیث زیربحث حدیث کی یہی توجیہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا تعلق صرف مشرکین عرب سے ہے (جصاص، احکام القرآن ۱/۶۰، ۲/۲۴۸۔  ابن حجر، فتح الباری ۱/۷۷)۔

۲۔ ارتداد اختیار کرنے پر قتل کی سزا کا تناظر بھی غامدی صاحب کی راے میں اتمام حجت کا یہی قانون ہے اور اس کا تعلق بھی انھی مشرکین عرب سے ہے جنھیں اصلاً اپنے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’...اس کا یہ لازمی تقاضا بھی صاف واضح ہے کہ اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص اگر ایمان لانے کے بعد پھر کفر اختیار کرتا تو اُسے بھی لامحالہ اِسی سزا کا مستحق ہونا چاہیے تھا۔ وہ لوگ جن کے لیے کفر کی سزا موت مقرر کی گئی، وہ اگر ایمان لا کر پھر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹتے تو لازم تھا کہ موت کی یہ سزا اُن پر بھی بغیر کسی تردد کے نافذ کر دی جائے۔ چنانچہ یہی وہ ارتداد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حکم میں ’من‘ اُسی طرح زمانۂ رسالت کے مشرکین کے لیے خاص ہے، جس طرح اوپر ’امرت ان اقاتل الناس‘ میں ’الناس‘ اُن کے لیے خاص ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اصل جب قرآن مجید میں اِس خصوص کے ساتھ موجود ہے تو اِس کی اِس فرع میں بھی یہ خصوص لازماً برقرار رہنا چاہیے۔ ہمارے فقہا کی غلطی یہ ہے کہ اُنھوں نے ’الناس‘ کی طرح اِسے قرآن میں اِس کی اصل سے متعلق کرنے اور قرآن وسنت کے باہمی ربط سے اِس حدیث کا مدعا سمجھنے کے بجاے، اِسے عام ٹھیرا کر ہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اِس طرح اسلام کے حدود وتعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کر دیا جس کا وجود ہی اسلامی شریعت میں ثابت نہیں ہے۔‘‘ (برہان ۱۴۲-  ۱۴۳)

۳۔ مسلمان اور کافر کے مابین وراثت کی ممانعت کے حوالے سے غامدی صاحب کی یہ توجیہ اوپر بیان کی جاچکی ہے کہ یہ حکم منفعت کی اس علت پر مبنی ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کو  ایک دوسرے کے ترکے میں حصہ دار قرار دیا ہے، اور منفعت ختم ہو جانے کی صورت میں وراثت کے حکم کا معطل کر دیا جانا اسی اصول کا تقاضا ہے۔ البتہ غامدی صاحب اس تعطیل کو اتمام حجت کے قانون کی روشنی میں جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ سے متعلق قرار دیتے ہیں، یعنی اسے شریعت کا کوئی ابدی اور دائمی حکم تصور نہیں کرتے۔ لکھتے ہیں:

’’...اتمام حجت کے بعد جب یہ منکرین حق خدا اور مسلمانوں کے کھلے دشمن بن کر سامنے آ گئے ہیں تو اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرابت کی منفعت بھی اِن کے اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے ختم ہو جانی چاہیے۔ چنانچہ یہ اب آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔‘‘ (میزان ۴۰)

اس ممانعت کی تخصیص وتحدید کے ضمن میں یہ راے تو فقہاے صحابہ وتابعین کے دور سے موجود رہی ہے کہ اس کا اطلاق صرف مشرکین عرب پر ہوگا، جب کہ اہل کتاب اس کے دائرے میں شامل نہیں۔ چنانچہ سیدنا معاویہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کا نقطۂ نظر یہی تھا اور وہ اہل کتاب اور مسلمانوں کے مابین وراثت کا حکم مذکورہ ممانعت کے بجاے ایک قیاسی اصول کی روشنی میں متعین کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان تو اپنے اہل کتاب اقربا کا وارث بنے گا، لیکن اہل کتاب کو ’الإسلام یعلو ولا یعلی‘ کے اصول کے تحت اپنے مسلمان رشتہ دار کی وراثت میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ اس صورت میں بھی وہی اصول لاگو ہوگا جو اہل کتاب کے ساتھ نکاح کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے، یعنی مسلمان مرد تو اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن مسلمان خواتین، اہل کتاب مردوں سے نکاح نہیں کر سکتیں (جصاص، احکام القرآن ۲/۱۰۲)۔

یوں غامدی صاحب کی راے اس پہلو سے جمہور فقہا کے موقف سے ہم آہنگ ہے کہ یہ ممانعت مشرکین اور اہل کتاب، دونوں سے متعلق ہے، لیکن اس پہلو سے منفرد ہے کہ وہ اس ممانعت کوصرف جزیرۂ عرب کے مشرکین اور اہل کتاب تک محدود سمجھتے ہیں جن پر اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ اہل ایمان کے ساتھ ان کی قرابت اللہ کی نظر میں گویا کالعدم ہے اور اس تعلق کی بنا پر رشتہ داروں کا ایک دوسرے کے مال پر جو حق عائد ہوتا ہے، وہ بھی اس صورت میں اپنی بنیاد سے محروم ہو جاتا ہے۔

۴۔ کتب حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کے قصاص میں مسلمان کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ جمہور فقہا اس حکم کو ظاہر پر محمول کرتے ہوئے قرار دیتے ہیں کہ کسی مسلمان کو غیر مسلم کے قصاص میں قتل نہیں کیا جا سکتا، جب کہ حنفی فقہا اس ممانعت کو حربی کافر سے متعلق قرار دیتے ہوئے اہل ذمہ اور مسلمانوں کے مابین قصاص کا قانون جاری کرنے کے قائل ہیں۔ اس ضمن میں جصاص کی راے یہ ہے کہ مذکورہ ارشاد میں کافر سے مراد وہ کافر ہے جسے کسی مسلمان نے زمانۂ جاہلیت میں قتل کیا ہو، یعنی یہاں قصاص کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین عدم مساوات کا حکم بیان کرنا نہیں، بلکہ حالت کفر میں کیے گئے قتل کا بدلہ حالت اسلام میں لینے کی ممانعت بیان کرنا مقصود ہے۔

غامدی صاحب بھی اس ہدایت کو عمومی قانون قرار نہ دینے کے حنفی نقطۂ نظر سے اتفاق رکھتے ہیں، تاہم اس ہدایت کا مخصوص تناظر اتمام حجت کے اصول کی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’...منکرین ... کی معاندت پوری طرح ظاہر ہو جانے کے بعد رسولوں کی تکذیب کا وہ قانون اُن پر نافذ کردیا گیا جو قرآن میں ایک سنت الہٰی کی حیثیت سے مذکور ہے۔ بعض مقتولین کے خون کو ہدر قرار دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔ ’لا یقتل مسلم بکافر‘ اِسی کا بیان ہے۔‘‘ (مقامات ۳۳۴)

۵۔ موت کے وقت مردے کو بشارت یا زجر وتوبیخ اور اسی طرح قبر میں سوال وجواب اور ثواب یا عذاب کی روایات کا ماخذ غامدی صاحب قرآن مجید میں متعین کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ قرآن مجید کی مختلف آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں اہل ایمان اور اہل کفر کے ساتھ روح قبض کرنے والے فرشتوں کے رویے کا، شہادت پاکر اللہ کے پاس پہنچ جانے والے اہل ایمان پر اللہ کی طرف سے فضل وانعام کا، اور فرعون اور اس کے متبعین کے، آگ کے عذاب میں ڈال دیے جانے کی بات بیان کی گئی ہے۔ البتہ غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بعد از وفات فوری ثواب یا عذاب کا یہ معاملہ اللہ کے پیغمبروں کے براہ راست مخاطبین کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ ایسے لوگوں پر پیغمبر اتمام حجت کر چکے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ثواب وعذاب کو قیامت تک موخر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان کے مرتے ہی ان کے انعام واکرام یا عذاب کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ عذاب قبر کے علاوہ قبر میں مردے سے سوالات پوچھے جانے کی روایات کو بھی غامدی صاحب انھی گروہوں سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب کے الفاظ میں ’’آپ کی بعثت جن لوگوں میں ہوئی، ان کے لیے ابتدا اس سوال سے ہوگی کہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ اپنی بعثت کے بعد رسول ہی اپنی قوم کے لیے حق وباطل میں امتیاز کا واحد ذریعہ ہوتا ہے، اس لیے اس پر ایمان کے بعد پھر کسی سے اور کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی‘‘(میزان  ۱۸۹)۔

غامدی صاحب نے اس تخصیص کے قرائن بیان نہیں کیے، تاہم اس نوعیت کی راے بعض دیگر اہل علم  کے ہاں بھی ملتی ہے جن کے پیش نظر یہ سوال ہے کہ بعض نصوص سے عالم برزخ میں ثواب وعذاب ثابت ہوتا ہے، جب کہ بعض دیگر نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ موت اور قیامت کے دن کے درمیان ایک برزخ کا عالم ہوتا ہے جس میں مردے ایک طرح کی نیند کی کیفیت میں ہوتے ہیں، اسی لیے جب انھیں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو وہ حیران ہو کر پوچھیں گے کہ ہمیں کس نے ہماری نیند سے اٹھا دیا۔ چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری ان مختلف نصوص کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ برزخ میں سب مردوں کے احوال ایک جیسے نہیں ہوتے، بلکہ ان کے مراتب کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں (فیض الباری ۱/۲۶۷)۔ غامدی صاحب نے غالباً اسی اختلاف کی تطبیق کی یہ صورت اختیار کی ہے کہ جن نصوص سے عالم برزخ میں جزا وسزا ثابت ہے، انھیں پیغمبر کے براہ راست مخاطبین کے ساتھ خاص قرار دیا جائے۔

۶۔ متعدد احادیث میں مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی انتہائی تاکید وارد ہوئی ہے، حتیٰ کہ بعض روایات میں آپ نے باجماعت نماز کے لیے حاضر نہ ہونے والوں کے گھر تک جلا دینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی طرح ایک نابینا صحابی کو بھی، جنھیں مسجد تک لانے والا کوئی ساتھی میسر نہیں تھا، پابند کیا کہ وہ مسجد میں ہی نماز ادا کریں۔

بعض محدثین ان روایات کی بنیاد پر باجماعت نماز میں شرکت کو فرض قرار دیتے ہیں، جب کہ جمہور اہل علم اس کو سنت موکدہ قرار دیتے ہوئے مذکورہ روایات کی مختلف توجیہات بیان کرتے ہیں، مثلاً یہ کہ ممکن ہے یہ تشدید پہلے دور کی ہو جو بعد میں منسوخ ہو گئی ہو یا یہ کہ یہ اسلوب محض تاکید وترغیب کے لیے استعمال کیا گیا ہو، اور اس کا مقصد فقہی وجوب کا بیان کرنا نہ ہو۔ غامدی صاحب ان احادیث کی تشریح بھی قانون اتمام حجت کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان کی راے میں اس کا پس منظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جب منافقین کو، جو بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے، ان سے الگ کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تو اس امتیاز کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ مسلمان ہر حال میں مسجد کی باجماعت نماز میں شریک ہوں تاکہ اس حکم کی پابندی نہ کر سکنے والے منافقین کو ان کے عمل کی شہادت پر مخلص اہل ایمان سے ممتاز کیا جاسکے۔ غامدی صاحب کے نزدیک باجماعت نماز میں شرکت کے حوالے سے تشدید کا تعلق اسی مخصوص صورت حال سے تھا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکم کی یہ صورت باقی نہیں رہی، البتہ یہ بہرحال ایک بڑی فضیلت کی چیز ہے جس سے کسی مسلمان کو بغیر عذر کے محروم نہیں رہنا چاہیے (میزان ۳۱۸)۔

قرآن سے متعارض روایات

جب اخبار آحاد مستقل بالذات دین کو بیان نہیں کرتیں اور ان میں وارد ہونے والے احکام کا قرآن، سنت یا عقل عام میں کسی اصل سے متعلق ہونا ضروری ہے تو ایک بدیہی نتیجے کے طور پر ان میں سے کسی بھی اصول سے ٹکرانے والی اخبار آحاد قبول نہیں کی جا سکتیں۔ غامدی صاحب کا یہ اصول بھی کوئی نئی دریافت نہیں ہے، بلکہ علمی وفقہی روایت میں پہلے سے تسلیم شدہ ایک اصول کا اظہار ہے، البتہ اس کے انطباق میں جہاں انھوں نے بعض روایتی آرا سے اتفاق اور بعض سے اختلاف کیا ہے، وہاں کچھ نئے انطباقات بھی کیے ہیں اور متعدد ایسی روایات کو رد کر دیا ہے جنھیں جمہور اہل علم قبول کرتے ہیں۔

جن اہم روایات کی تنقید میں غامدی صاحب نے اس اصول کو برتا  ہے، وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ قرآن کے معارض ہونے کی بنا پر روایت کو رد کرنے کے حوالے سے سلف کی بعض آرا سے اتفاق کی ایک مثال فاطمہ بنت قیس کی روایت ہے۔ غامدی صاحب قرآن مجید سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ مطلقہ کو دوران عدت میں رہایش اور نان ونفقہ مہیا کرنے کی ذمہ داری شوہر پر تیسری طلاق کے بعد بھی عائد ہوتی ہے، کیونکہ عدت کی پابندی عورت اسی کے حمل کی تعیین اور حفاظت کے لیے قبول کرتی ہے۔ غامدی صاحب ا س کے لیے بطور خاص قرآن مجید کی اس تعبیر کا حوالہ دیتے ہیں کہ ’فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا‘ (الاحزاب  ۳۳: ۴۹) جس سے واضح ہوتا ہے کہ حمل کا امکان ہونے کی صورت میں عدت گزارنا دراصل شوہر کا حق ہے جو بیوی پر واجب ہوتا ہے۔ جب بیوی اس عرصے میں شوہر کے حق کے لیے محبوس ہے تو پھر شوہر سے ’’بیوی کو رہنے کی جگہ اور نان ونفقہ فراہم کرنے کی ذمہ داری کسی حال میں بھی ختم نہیں کی جا سکتی ‘‘ (میزان ۴۵۸)۔ اس نکتے کی روشنی میں غامدی صاحب نے فاطمہ بنت قیس کی روایت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا کہ تیسری طلاق کے بعد وہ دوران عدت میں شوہر کی طرف سے رہایش یا نان و نفقہ کی حق دار نہیں ہیں۔ غامدی صاحب نے اس روایت پر نقد کے ضمن میں سیدنا عمر اور سیدہ عائشہ کے آثار کا حوالہ دیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’یہ اس روایت کی حقیقت ہے، لہٰذا کسی شخص کو اب بھی اسے قابل اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے‘‘ (میزان ۴۵۹)۔

۲۔ متعدد احادیث میں قیامت کے قریبی زمانے میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے دنیا میں دوبارہ تشریف لانے اور دجال کو قتل کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ محدثین کے معیار کے مطابق یہ روایات مستند اور قابل اعتماد ہیں، اور اسے عموماً اعتقادی امور میں شمار کیا جاتا ہے جن پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔

غامدی صاحب کی راے میں یہ روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں اور وہ اس ضمن میں تین پہلوؤں کا حوالہ دیتے ہیں: پہلا یہ کہ سیدنا مسیح کی شخصیت اور سیرت کو قرآن مجید نے متعدد پہلوؤں سے موضوع بحث بنایا ہے، لیکن ان کے دنیا میں دوبارہ آنے کا کہیں ذکر نہیں کیا، جب کہ ’’ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے‘‘ (میزان ۱۸۲) جس سے قرآن کا خاموشی اختیار کرنا کسی بھی طرح قابل فہم ہو۔ دوسرا یہ کہ سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن مسیح علیہ السلام کے ساتھ اپنے ایک مکالمے کا ذکر کیا ہے جس میں ان سے یہ سوال پوچھا جائے گا کہ کیا انھوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ تلقین کی کہ وہ انھیں خدا مانیں۔ اس کے جواب میں مسیح علیہ السلام عرض کریں گے کہ یا اللہ، جب تک میں ان کے اندر رہا، میں نے انھیں توحید ہی کی دعوت دی، لیکن جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو پھر توہی ان پر نگران رہا، یعنی میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ غامدی صاحب کا استدلال یہ ہے کہ ’’مسیح علیہ السلام اگر ایک مرتبہ پھر دنیا میں آ چکے ہیں تو یہ آخری جملہ کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ اس کے بعد تو انھیں کہنا چاہیے کہ میں ان کی گم راہی کو اچھی طرح جانتا ہوں اور ابھی کچھ دیر پہلے انھیں اس پر متنبہ کر کے آیا ہوں‘‘ (میزان ۱۸۲)۔ تیسرا یہ کہ سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں قیامت تک کا لائحۂ عمل بیان فرمایا ہے، لیکن یہاں بھی ان کی آمد ثانی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ ’’سیدنا مسیح کو آنا ہے تو یہ خاموشی کیوں ہے؟ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی‘‘ (میزان ۱۸۳)۔

نزول مسیح کی روایات پر ابتدائی صدیوں میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا ختم ہو جانا اور اس کے بعد کسی نبی کا دوبارہ دنیا میں آنا، یہ دو متضاد باتیں ہیں، چنانچہ امام ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘ میں اس اعتراض کا ذکر کر کے اس کا جواب دیا ہے (تاویل مختلف الحدیث  ۳۵۷- ۳۶۰، دار ابن القیم، الریاض، الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۳۰ھ)۔ دور جدید میں بھی کئی اہل علم کے ہاں ان روایات کے استناد پر سوال اٹھانے کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ محمود شلتوت، علامہ موسیٰ جار اللہ، علامہ محمد اقبال، تمنا عمادی اور ایک روایت کے مطابق مولانا عبید اللہ سندھی وغیرہ مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب اسی دوسرے نقطۂ نظر سے اتفاق رکھتے ہیں، البتہ اس حوالے سے ان کا استدلال مذکورہ حضرات کے مقابلے میں زیادہ متعین اور واضح ہے۔

۳۔ روایات میں سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عثمان کے زمانے میں قرآن مجید کی جمع وتدوین کے جو واقعات نقل ہوئے ہیں، ان سے بظاہر یہ مترشح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی قرآن مجید کے حتمی متن کی تعیین کا مسئلہ حل طلب تھا جسے ان دونوں خلفا کے زمانے میں طے کرنے کی کوشش کی گئی اور صحابہ کے پاس موجود تحریری ریکارڈ اور گواہیوں کی روشنی میں قرآن کا ایک مستند متن تیار کیا گیا۔ غامدی صاحب ان روایات کو قرآن مجید اور عقل عام کے خلاف قرار دیتے ہیں (میزان ۳۱)۔ اس ضمن میں ان کا استدلال سورۂ اعلیٰ اور سورۂ قیامہ کی انھی آیات سے ہے جن کا ذکر اوپر اختلافات قراء ت کی بحث میں کیا گیا۔ ان آیات میں قرآن مجید کے نزول اور جمع وترتیب سے متعلق ایک پوری اسکیم خود واضح کی ہے جس کی رو سے قرآن کے متن کی جمع و ترتیب نیز تفہیم و تبیین کے تمام مراحل کا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل ہونا ضروری تھا۔ روایات کے مطابق جبریل علیہ السلام نے آپ کی زندگی کے آخری رمضان میں دو مرتبہ آپ کو قرآن پڑھ کر سنایا جسے ’’عرضۂ اخیرہ کی قراء ت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی قرآن کا آخری اور حتمی متن تھا جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء صحابہ کو دی اور آپ کی وفات کے بعد ازسرنو قرآن کے متن کی تحقیق اور جمع وترتیب کی کوئی ضرورت نہیں تھی (میزان ۲۸، ۳۱)۔

غامدی صاحب سے پہلے قریبی دور میں مذکورہ روایات پر اسی نوعیت کی تنقید علامہ تمنا عمادی، عبد اللطیف رحمانی اور مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی نے بھی کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ عہد نبوی میں قرآن کا ایک باقاعدہ مرتب نسخہ بھی تیار کیا گیا تھا جس کے ہوتے ہوئے قرآن کی جمع وتدوین کی کسی نئی کوشش کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ غامدی صاحب کے نقطۂ نظر میں کسی باقاعدہ مرتب نسخے پر تو اصرار نہیں کیا گیا، تاہم ان روایات میں متن کی تعیین اور تحقیق کے حوالے سے جو تفصیلات مذکورہیں، غامدی صاحب انھیں قرآن مجید کی اپنی تصریحات کے منافی تصور کرتے ہیں۔

حاصل بحث

غامد ی صاحب نے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث کو ایک نئے انداز سے موضوع بنایا اور اصولی فکر میں ایک اہم زاویۂ نگاہ کا اضافہ کیا ہے۔ اصول فقہ کی روایت میں اس حوالے سے اپنی امتیازی خصوصیات رکھنے والے جو مختلف فریم ورک پائے جاتے ہیں، ان کی نمایندگی ہمیں امام شافعی، حنفی اصولیین، ابن حزم اور شاطبی کے ہاں ملتی ہے۔ غامدی صاحب کا فریم ورک کسی نہ کسی پہلو سے ان سب مواقف کو  چھوتا ہے اور انھوں نے ان سب سے مختلف اجزا لے کر اور بعض اہم اور بنیادی نوعیت کے اضافے شامل کر کے بحث کو کافی حد تک نئی اساسات پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔

مثال کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابن حزم کے فریم ورک کے ساتھ غامدی صاحب کے فریم ورک کی نسبت کلی تضاد اور ایک طرح کے جوابی موقف (counter-narrative) کی ہے، کیونکہ ابن حزم نصوص میں کسی بھی نوعیت کی درجہ بندی اور اصل وفرع کا تعلق متعین کرنے کے قائل نہیں ہیں، جب کہ غامدی صاحب کے فریم ورک میں یہ تقسیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

مآخذ دین کی درجہ بندی میں قطعیت اور ظنیت کے سوال کو بنیادی اہمیت دینے میں غامدی صاحب کا اصولی موقف شاطبی سے بہت قریب ہے، اگرچہ اس کی عملی شکل اور تفصیلات کافی مختلف ہیں۔ شاطبی قطعیت کے سوال کو بنیادی طور پر نصوص کی مجموعی اور استقرائی دلالت کے حوالے سے دیکھتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب کے ہاں اس تقسیم کی بنیاد مآخذ کے تاریخی استناد کی نوعیت، یعنی تواتر یا عدم تواتر پر ہے۔ سنت کے حوالے سے دونوں کے مابین ایک اور اہم اختلاف یہ ہے کہ شاطبی ، سنت کو ثبوت کے اعتبار سے بہ حیثیت مجموعی ظنی قرار دیتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب سنت کو ظنی الثبوت اخبار آحاد سے ممتاز کرتے ہوئے اسے قرآن ہی کی طرح ایک قطعی الثبوت اور متواتر ماخذ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح شاطبی قرآن کو پورے دین کا اصل الاصول، جب کہ سنت کو علی الاطلاق قرآن کی فرع تصور کرتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کی فرع کے طور پر اس کے ساتھ دراصل اخبار آحاد متعلق ہوتی ہیں، جب کہ سنت، قرآن کی فرع نہیں، بلکہ ایک مستقل بالذا ت ماخذ ہے جو قرآن سے زمانی طور پر مقدم ہے۔ اس نکتے کی روشنی میں وہ قرآن کے ان احکام میں جن کی ابتدا اصلاً قرآن سے ہوئی ہے اور ان احکام میں جن کی ابتدا سنت نے کی ہے، جب کہ قرآن نے ان کا ذکر ایک معہود اور معلوم چیز کے طور پر کیا ہے، امتیاز ملحوظ رکھنے کا اہم نکتہ بحث میں شامل کرتے ہیں۔

احادیث کو قرآن میں ان کی اصل سے متعلق کرنے کے حوالے سے بھی غامدی صاحب کے منہج میں ایک انفرادیت پائی جاتی ہے۔ وہ ظنی الثبوت اخبار آحاد کو کسی اصل قطعی کے ساتھ متعلق کرنے میں تو شاطبی سے اتفاق رکھتے ہیں اور خبر واحد کو مستقل بالذات حکم کا ماخذ تسلیم نہیں کرتے، تاہم اس تعلق کی تعیین میں ان کا منہج شاطبی سے مختلف ہے۔ شاطبی یہ تعلق شریعت کے اصول کلیہ اور مقاصد کی روشنی میں متعین کرتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب کے نقطۂ نظر میں اسے انفرادی نصوص کی دلالت اور ان کے لفظی ومعنوی اشارات کے تناظر میں دیکھنے کا رجحان غالب ہے۔ یوں ان کا فریم ورک حنفی وشافعی اصولیین کے فریم ورک سے کافی حد تک ہم آہنگ ہے اور انھوں نے دلالت عموم کے حوالے سے بنیادی طور پر امام شافعی کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ہے جو امام شافعی کے ہاں پایا جاتا ہے۔

اس بحث میں حنفی اصولیین کے ساتھ غامدی صاحب کا اتفاق بس اس حد تک ہے کہ احادیث کو، قرآن کی دلالت کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے، کسی بھی طریقے سے قرآن سے متعلق کر دینے کو ’تبیین‘ نہیں کہا جا سکتا اور یہ کہ تخصیص کی بنیاد اگر قرآن میں موجود نہ ہو تو اسے نسخ ہی تصور کیا جائے گا۔ غامدی صاحب اصول کی حد تک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، تاہم ان کی راے میں عملاً ایسی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں جو قرآن کے حکم میں تخصیص یا زیادت کرتی ہو اور اس کی بنیاد قرآن میں نہ بتائی جا سکے۔ یوں نتیجے کے اعتبار سے امام شافعی ہی کا موقف درست قرار پاتا ہے کہ حدیث، صرف قرآن کی مراد کو واضح کرتی ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کرتی۔

بحث میں ایک بہت بنیادی اور اہم گوشے کا اضافہ غامدی صاحب نے قرآن کی روشنی میں احادیث کی تفہیم و توجیہ اور تحدید وتخصیص کے اصول کی صورت میں کیا ہے اور اس کے تحت کئی اہم موضوعات سے متعلق احادیث کی تعبیر وتشریح ان کے ظاہری عموم کے تحت کرنے کے بجاے ان کا ایک مخصوص دائرۂ اطلاق متعین کیا ہے جو ان کی راے میں قرآن مجید میں اس اصل حکم سے واضح ہوتا ہے جس پر یہ احادیث متفرع ہوئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں  جنگی قیدیوں کو غلام بنانے، رجم، ربا الفضل، ارتداد پر سزاے موت اور بعض دیگر اہم مسائل سے متعلق احادیث کی تاویل وتوجیہ میں ان کا نقطۂ نظر جمہور فقہا سے بہت مختلف ہو جاتا ہے۔

قرآن سے متعارض اخبار آحاد کو قبول نہ کرنے کے ضمن میں غامدی صاحب نے اصولاً کوئی نیا موقف پیش نہیں کیا، البتہ بعض اہم روایات پر اس کے انطباق میں ان کی راے جمہور اہل علم سے مختلف ہے اور انھوں نے، مثال کے طور پر نزول مسیح، جمع قرآن اور اختلاف قراء ت وغیرہ سے متعلق روایات کو قرآن مجید کے بیانات سے متصادم ہونے کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔

غامدی صاحب کے اس پورے فریم ورک کے کئی پہلوؤں پر علمی نقد کیا گیا ہے اور مزید کئی پہلو بھی اس حوالے سے زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔ تاہم یہاں یہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان کے نقطۂ نظر اور استدلال کو روایتی اصولی فکر میں چلے آنے والے سوالات اور مباحث کے تناظر میں سمجھا جائے اور اتفاقات و اختلافات کے اہم جوانب کی طرف اہل علم کو متوجہ کر دیا جائے تاکہ غامدی صاحب کے نتائج تحقیق پر غور وفکر یا نقد وانتقاد کا سلسلہ درست تناظر میں اور مستند علمی بنیادوں پر آگے بڑھ سکے۔


(جون ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter