ناموس رسالت اور امت مسلمہ کا موقف

محمد عمار خان ناصر

توہین رسالت اور اس پر  مسلمانوں کے دینی موقف  کا مسئلہ گزشتہ دنوں میں حکومت فرانس کے ایک اقدام کے تناظر میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زیر بحث رہا۔  فرانس کے حالیہ اقدام میں بیک وقت تین عوامل کارفرما تھے۔ ایک، سیکولر قومی شناخت کا مخصوص فرانسیسی تصور۔ دوسرا، اسلامو فوبیا کی لہر جو نسل پرستی کے رجحانات کی وجہ سے یورپی ملکوں میں پھیل رہی ہے۔ اور تیسرا، پاپولسٹ سیاست کا کھیل جو دنیا میں تقریبا ہر خطے میں اس وقت اقتدار کے کھلاڑیوں کو مرغوب ہو رہا ہے۔ فرانس کے حالیہ اقدام میں ان عوامل کی اثر اندازی کی ترتیب  معکوس ہے، یعنی سب سے اہم عامل پاپولسٹ سیاست ہے، پھر اسلامو فوبیا اور سب سے آخر میں سیکولرزم بطور ایک سیاسی قدر  اس اقدام کا محرک ہے۔

گستاخانہ خاکوں سے متعلق فرانس کے سرکاری موقف کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایک خاص کمیونٹی کے جذبات کے احترام میں آزادی اظہار پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ اس سے قومی وحدت کمزور ہوتی ہے۔ لیکن اس منافقانہ استدلال کی حقیقت اس سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ۱۹۹٠ء  کے بعد ہولوکاسٹ کا انکار فرانس میں جرم مانا جاتا ہے اور کئی معروف مصنفین اس جرم کے ارتکاب پر سزا بھگت چکے ہیں۔ ذرا غور کرنے سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بدبودار نسل پرستی نے سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ یہودی، صدیوں سے یورپی شناخت کا حصہ ہیں، اس لیے ان کے جذبات کا احترام ضروری ہے، لیکن مسلمان باہر سے آئے ہوئے ہیں اور ایک اجنبی ثقافت کے ساتھ یورپی معاشرے میں دخیل ہو رہے ہیں، اس لیے ان کے جذبات کا احترام قومی وحدت کو کمزور کرتا ہے۔ مزید براں   فرانسیسی حکومت نے اپنے صدر پر   ترکی کے سربراہ طیب اردوان کی طرف سے کیے گئے ایک تبصرے کو ’’ناقابل قبول“ قرار دیتے ہوئے   اپنے سفیر کو واپس بلا لیا   اور  بعض اطلاعات کے مطابق  فرانسیسی حکومت ان دنوں حکومتی عہدہ داروں کی تضحیک وتمسخر  کو  قابل تعزیر قرار دینے کے لیے قانون سازی  کرنے پر غور وفکر کر رہی ہے۔ حکومت فرانس  کے اس مبنی برتعصب رویے اور  منافقانہ طرز عمل کا عالمی سطح پر  بھی بجاطور پر ادراک کیا گیا ہے اور اقوام متحدہ کی طرف سے  اسے  رواداری اور  مفاہمت کے منافی قرار دیے جانے کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے  فرانسیسی حکومت کی جانب سے  آزادی اظہار پر قدغن  عائد کرنے کی کوششوں کو ’’بے شرم منافقت“ سے تعبیر کیا ہے۔

توہین مذہب کے، ایک ’’حق “ ہونے یا نہ ہونے کی بحث سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب کی اشاعت کے بعد گزشتہ تین دہائیوں میں بتدریج  عالم اسلام اور مغرب کے مابین ایک   تہذیبی سطح کا نزاع  بن گئی ہے۔  تاہم امت مسلمہ کو اس صورت حال کا سامنا پہلی دفعہ نہیں ہوا، بلکہ   اس کی تاریخ کی ابتدا  ہی اس صورت حال سے ہوئی ہے۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے اور عقلی ونفسی استدلالات کی بنیاد پر اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے۔ وہ قرآن اور پیغمبر، دونوں کی حقانیت کو عقل وفطرت کے دلائل پر پرکھنے کے لیے پیش کرتا ہے اور ہر طرح کے اشکالات واعتراضات کا انھی کی روشنی میں جواب دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگوں کے مسلمہ موروثی عقائد کو چیلنج کرتا اور انھیں کفر وشرک قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ان سے تائب ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید مخالفانہ ردعمل کا پیدا ہونا ایک فطری انسانی رویہ ہے اور اس ردعمل کو صبر وتحمل کے ساتھ گوارا کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ دعوت دین کو پیش کرتے رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو ایک دعوتی مذہب اختیار کر سکے۔ اگر اسلام اپنی پہلی ترجیح دعوت کے فروغ کے بجائے ناموس رسالت کے تحفظ کو بناتا اور مسلمان ہر گستاخ رسول کے ساتھ لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کو اپنی اولین ایمانی ذمہ داری بناتے تو تاریخ میں اس کا ذکر مکے میں پیدا ہونے والے چند "شرپسندوں“ کے الفاظ میں ملتا اور بس۔ یہ ترجیحات کا حکیمانہ تعین تھا جس نے اسلام کو ایک نہایت مخاصمانہ صورت حال سے، جس میں ہمہ وقت پورا معاشرہ توہین رسالت کا مرتکب ہو رہا تھا، نبرد آزما ہونے کی طاقت بخشی اور پرامن طور پر دنیا میں پھیلنے والا عالمی مذہب بنا دیا۔

یہ حکمت عملی  حسب ذیل دو نکات پر مبنی ہے:

۱۔ جس معاشرے میں مسلمان اصلا غیر مسلموں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں، وہاں ایسے مخالفانہ رویوں پر صبر اور اعراض سے کام لیں اور اشتعال ظاہر کر کے دعوت کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔   قانون کو ہاتھ میں نہ لینا ایک عام انتظامی اصول ہے جس کی پابندی ہر جگہ ہی ضروری ہے۔ خاص طور پر جن ممالک میں توہین رسالت پر قانونی طور پر قتل کی سزا مقرر نہیں کی گئی، وہاں سوچ سمجھ کر ایسا اقدام کرنا زیادہ قابل اعتراض ہے۔ کسی نے وقتی اشتعال میں ایسا کر دیا ہو تو اس کا معاملہ الگ ہے، لیکن اس کو شرعی مطلوب کے طور پر پیش کرنا یا اس کو جواز دینا درست نہیں۔ ایسے ممالک میں مسلمانوں کے لیے مکی دور میں اسوہ ہے اور صبر وحکمت کے ساتھ اور قانون کے دائرے میں ہی مبنی بر توہین اظہارات پر ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور دینی حمیت سے تعلق نہیں رکھتا، دین کی دعوت اور مسلمانوں کے معاشرتی وسیاسی امیج کا ساتھ بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ کسی بھی معاشرے میں مسلمان اپنا کوئی موقف طے کرتے ہوئے ان تمام دینی مصلحتوں کو ملحوظ رکھنے کے پابند ہیں۔

۲۔  اگر مسلمانوں کے قانونی دائرہ اختیار میں  کوئی فرد یا گروہ اس جرم کا مرتکب ہو   تو اس صورت حال کے متعلق سورہ احزاب میں مسلمانوں کو    واضح راہ نمائی فراہم کی گئی ہے۔  سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس گروہ کو تفصیل سے موضوع بنایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، آپ کے اہل خانہ اور عام مسلمان خواتین کو مسلسل اسکینڈلائز کرنے کی مہم میں مصروف تھا اور مسلمان سماج کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ قرآن مجید نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دنیا وآخرت میں خدا کی لعنت کے سزوار ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنی روش سے باز آ جائیں، اور اگر اس تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو پھر اے پیغمبر، ہم آپ کو حکم دیں گے کہ ان کے خلاف آپریشن کریں، اور پھر یہ لوگ مدینے میں رہنے نہیں پائیں گے، بلکہ جہاں ملیں گے، ان کو پکڑ کر قتل کر دیا جائے گا۔

اس ہدایت میں قرآن نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے شریعت کا یعنی فقہی اصطلاح میں "حدود" کا نہیں، بلکہ سیاست شرعیہ کا معاملہ ہے۔  چنانچہ کوئی ایک یا چند افراد یا ایک  پورا گروہ توہین رسالت کو باقاعدہ ایک مہم بنا کر مسلمانوں کے درپے آزار ہو تو اسے تنبیہ کی جائے گی، زجر وتوبیخ اور دوسرے تعزیری اقدامات سے اپنی روش بدلنے پر مجبور کیا جائے گا اور پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کے خلاف آخری اور انتہائی اقدام کر کے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ توہین رسالت کے جرم کو قذف کی طرح حدود کے زمرے میں شامل نہ کرنے اور اسے سیاست شرعیہ سے متعلق قرار دینے میں گہری دینی حکمتیں مضمر ہیں جن کی کچھ تفصیل ہماری کتاب ’’براہین’’ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

قرآن مجید کی اس راہ نمائی کو پیش نظر رکھا جائے تو موجودہ صورت حال میں  توہین رسالت کے واقعات پر امت مسلمہ کی طرف سے رد عمل کے اظہار  کا  جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس میں کئی چیزیں  نظر ثانی اور اصلاح کا تقاضا کرتی ہیں۔  یہاں اس حوالے سے چند اہم پہلووں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔

پہلا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ باعتبار عقیدہ، ہمارے لیے کسی بھی نبی کی توہین ناقابل قبول وناقابل تصور ہے، لیکن پوری امت، مغرب میں توہین انبیاء کے کسی واقعے پر صرف اس وقت برسر احتجاج ہوتی ہے جب توہین کا نشانہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جائے۔ حالانکہ اس سے کہیں زیادہ توہین آمیز فلمیں اور کتابیں سیدنا موسیٰ اور سیدنا مسیح علیہما السلام کے متعلق منظر عام پر آئی ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اور  ظاہرہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ایمان تو تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن نعت صرف آخری نبی کی کہتے ہیں۔ کبھی کسی معروف یا غیر معروف نعتیہ مجموعے میں یا محافل نعت میں حضرت آدم سے لے کر حضرت مسیح تک، علیہم السلام، کسی نبی کی نعت پڑھنے یا سننے کو نہیں ملتی۔  غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ نبی آخر الزمان علیہ السلام کے متعلق مطلق افضلیت کے عقیدے کی وجہ سے ہم ’’تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض’’ اور ’’ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض’’ جیسی آیات کو ہم صرف سابقہ انبیاء تک محدود مانتے ہیں۔ ہماری نعتوں میں نبی اکرم کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے باقاعدہ ان کا سابقہ انبیاء کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے جس کی احادیث میں تصریحاً‌ ممانعت کی گئی ہے۔ ہمارے شارحین نے اس ’’اشکال’’ کے ساٹھ ساٹھ جوابات سوچنے کا اہتمام کیا ہے کہ درود ابراہیمی میں ’’کما صلیت علی ابراھیم’’ کے الفاظ سے تو حضرت ابراہیم کا افضل ہونا ثابت ہے، کیونکہ مشبہ بہ میں وجہ شبہ، مشبہ کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔  نعت میں بھی چونکہ منعوت کی کسی نہ کسی امتیازی صفت اور فضیلت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر ہمیں یہ گوارا نہیں کہ کسی دوسرے نبی کی کوئی امتیازی فضیلت نمایاں ہو۔ اس لیے ہم نے غیر شعوری طور پر نعت کا دائرہ ہی خاتم الرسل تک محدود کر لیا ہے۔ انبیاء اور رسولوں کی توہین پر احتجاج کو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود  کر دینا بھی اسی   سوچ کا ایک افسوس ناک مظہر معلوم ہوتا ہے۔

دوسرا قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے ناموس کی حفاظت جہاں کسی گستاخ کو کیفر کردار تک پہنچانے سے یقینی بنتی ہے، وہاں قانون کی پاسداری سے اس سے بھی زیادہ یقینی بنتی  ہے۔ اسلام اور اہل اسلام کے لیے یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی توہین جیسے حساس ترین معاملے میں بھی قانون اور انصاف کے حدود کی پابندی کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں کے پاس فصل کا حصہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو انھوں نے یہودیوں سے کہا کہ خدا کی قسم، تم میرے لیے روئے زمین کی مبغوض ترین قوم ہو، لیکن یہ بات بھی مجھے تمھارے ساتھ ناانصافی پر آمادہ نہیں کرتی۔ اور اس کے جواب میں یہودیوں نے گواہی دی تھی کہ بخدا یہی وہ انصاف ہے جس کے سہارے زمین وآسمان قائم ہیں۔ (ابوداود)

تاہم اس نوعیت کے مقدمات میں  ہماری مذہبی قیادت نے عموما جو پوزیشن اختیار کی ہے، اس سے  معاشرے میں اس تباہ کن رجحان کو تقویت پہنچی ہے کہ توہین رسالت کا معاملہ اصلاً‌ ایمانی جذبات کا معاملہ ہے اور قانون ضابطے کی حیثیت اس ضمن میں ثانوی ہے۔  یہ پوزیشن ایک بڑے سیاق میں معاشرے میں مذہبی ڈسکورسز کے، اخلاقی جواز سے تہی دامن ہو جانے کے مرحلے کی طرف پیش رفت میں آسانی پیدا کر رہی ہے۔ توہین مذہب پر سزا کے قانون کا جواز اور معنویت اسی وقت تک ہے جب اس کی تنفیذ کے لیے عدالتی اختیار کو عملا قبول کیا جائے، چاہے نظری طور پر کسی فیصلے سے اختلاف ہی کیا جائے۔ اگر قانون کے اطلاق اور تنفیذ کا اختیار بھی مذہبی جذبات سے معمور کسی شخص  کے پاس ہے تو ظاہر ہے، قانون سازی ایک فضول کام ہے۔ اس نوعیت کے مقدمات میں مسلسل یہ پوزیشن لے کر مذہبی قیادت نے معاشرے کو دراصل یہی پیغام دیا ہے۔ وقتی طور پر ممکن ہے، خوف اور دہشت کی فضا مذہبی مواقف کو چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک کارآمد وسیلہ بن رہی ہو، لیکن اس کے مجموعی اثرات مذہبی پوزیشن کے لیے مہلک اور تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔

تیسرے نکتے کے طور پر  یہ یاددہانی بھی اس موقع پر مناسب ہے کہ مذہبی جذبات ہر کمیونٹی کے ہوتے ہیں جن کو مجروح کرنا نہ حق بات کو واضح کرنے کا کوئی تقاضا ہے، نہ مذہبی اختلاف کا اور نہ حکمت دعوت کا۔ اس حوالے سے  والد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی ایک تحریر سے درج ذیل اقتباس نقل کرنا یہاں نہایت برمحل ہے:

’’یہ گزشتہ صدی عیسوی کی چھٹی دہائی کا قصہ ہے کہ وہ (فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ) گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں علما اور طلبہ کو قادیانیت کے سلسلے میں تربیتی کورس کرانے کی غرض سے چند روز کے لیے تشریف لائے۔ میں ان دنوں مدرسہ نصرة العلوم میں زیر تعلیم تھا اور قادیانیت کے عقائد کے بارے میں ابتدائی تیاری میں نے انھی دنوں حضرت مولانا محمد حیات رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس تربیتی کورس میں شامل ہو کر کی۔

کورس کے دوران ایک روز ”حیات عیسیٰ علیہ السلام“ کا موضوع زیر بحث تھا۔ مولانا مرحوم نے قادیانیوں کے چند دلائل کا ذکر کیا اور ان کے جوابات سمجھائے اور مجھے کہا کہ میں اٹھ کر تقریر کی شکل میں ان کی گفتگو کا خلاصہ بیان کروں۔ میرا نوجوانی کا دور تھا اور ایک دینی مدرسے کا طالب علم تھا، اس لیے گفتگو کا انداز فطری طور پر جذباتی اور جارحانہ تھا، چنانچہ جب مرزا غلام احمد قادیانی کی کسی بات کا حوالہ دینے کا موقع آیا تو میں نے اس کا ذکر ان الفاظ سے کیا کہ ”مرزا بھونکتا ہے۔“ مولانا محمد حیاتؒ نے فوراً یہ کہہ کر مجھے ٹوک دیا کہ:

”ناں  بیٹا ناں، ایسا نہیں کہتے۔ وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے، اس لیے بات یوں کرو کہ مرزا صاحب یوں کہتے ہیں، لیکن ان کی یہ بات اس وجہ سے غلط ہے۔“

استاذ محترم کا یہ جملہ ذہن کے ساتھ کچھ اس طرح چپک گیا کہ اس نے سوچ کا زاویہ اور گفتگو کا انداز بدل کر رکھ دیا۔ اس لیے آج بھی جب اس واقعہ کی یاد ذہن میں تازہ ہوتی ہے تو مولانا محمد حیاتؒ کے لیے دل کی گہرائی سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے۔“ (روزنامہ اوصاف، ۱۲ مئی ۲۰۰۰ )

عالم اسلام اور مغرب

(دسمبر ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter