مولانا کی یہ کتاب 1672 صفحات اور 3 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اپریل 2016ء کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کی ۔ اس کتاب میں مولانا نے شخصیات کے حوالے سے لکھی گئی سابقہ تمام کتب کے مندرجات کو جمع کر دیا ہے۔ اسی طرح مولانا نے احتساب قادیانیت کے نام سے جو مجموعہ تیار کیا ہے، اس میں شائع ہونے والی کتب ورسائل کے تعارف میں مصنفین کا بھی مختصر تعارف کروایا ہے، وہ بھی مکمل اس کتاب میں نقل ہو گیا ہے۔ (بعض شخصیات پر مولانا کی مستقل کتب بھی موجود ہیں، جیسے حضرت خواجہ خان محمد صاحب، مولانا عبد المجید لدھیانوی صاحب ، اس کتاب میں وہ کتب نہیں بلکہ متفرق مضامین کو جمع کیا گیا ہے۔)
کتاب کے اہم خصائص وامتیازات:
1. کتاب میں برصغیر میں ختم نبوت اور رد قادیانیت کے حوالے سے کام کرنے والے تمام فوت شدہ اہل علم ومجاہدین کا تذکرہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، گویا کہ یہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ مولانا خود اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: " یہ خیال رہے کہ جو حضرات اس دنیا سے رخصت ہو گئے ان کے حالات جمع کیے ہیں۔ جو حضرات زندہ سلامت باکرامت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دین و دنیا کی بہترین صحت و سلامتی کے ساتھ مزید زندہ رکھیں۔ ان کے حالات کو جمع کرنا آنے والی نسلوں کے ذمہ رکھ چھوڑا ہے۔" ( جلد اول صفحہ 10 )
2. کتاب کو الف بائی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے، جس کی بدولت تلاش آسان ہے۔
3. کتاب میں کسی مسلک یا جماعت کی ترجمانی نہیں کی گئی، بلکہ مسلمانوں کے جتنے بھی گروہ ہیں، ان سب میں ختم نبوت ورد قادیانیت پر کام کرنے والے افراد کے حالات کو جمع کیا گیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں: " --- اس میں شیعہ ، سنی ، دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث کی تقسیم و تفریق ، سیاسی غیر سیاسی ، کانگریسی، مسلم لیگی کا امتیاز ، مسٹر ملا کے فرق کے بغیر جس نے ختم نبوت کے لیے جو خدمت سر انجام دی ان کے تھوڑے یا زیادہ حالات جمع ہو گئے ہیں۔"( جلد اول ، ص 10)
4. قادیانی جماعت پر نقد کے حوالے سے اگر کسی قادیانی یا عیسائی نے بھی کچھ لکھا ہے تو مولانا نے اس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں: " ہاں البتہ ایک وضاحت ضروری ہے کہ رد قادیانیت پر تحریری خدمات کے سلسلہ میں بعض قادیانیوں یا مسیحیوں کا تذکرہ بھی آپ کو ملے گاجو بظاہر کتاب کے نام سے میل نہیں رکھتا۔--- " (جلد اول ، ص 10 )
5. کتاب کی جلد اول عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امراء ، نظماء اور مبلغین کے تذکرہ پر مشتمل ہے، جبکہ جلد دوم اور جلد سوم دیگر اہل علم و مجاہدین کے تذکرہ پر مشتمل ہیں۔
بعض تسامحات:
1. کتاب میں حالات زندگی جمع کرنے میں کوئی خاص معیار طے نہیں کیا گیا، بلکہ جیسے اور جتنا مواد ملا دے دیا، جس کی وجہ سے بعض بزرگوں کے حالات پر تو باقاعدہ مقالے تیار ہو گئے، اور بعض دیگر معروف بزرگوں کے حالات میں صرف چند سطریں ہی لکھی جا سکیں ، اور ان میں بھی ان کا بنیادی تعارف نہیں دیا گیاحالانکہ معمولی کاوش سے ان کا جامع تذکرہ کیا جا سکتا تھا۔
2. حالات زندگی جمع کرنے میں تاریخ پیدائش و وفات ذکر کرنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا، اور بعض معروف بزرگوں کی تواریخ وفات بھی رہ گئی جس سے ان کے زمانے کا تعین کرنے میں قاری کو مشکل پیش آتی ہے۔ جیسے جلد سوم صفحہ 1548 پر مولانا پروفیسر نجم الدین مرحوم جہلمی فاضل دیوبند کا تذکرہ ہے۔ مولانا اورینٹیل کالج لاہور میں خدمات سرانجام دیتے رہے، 1952ء میں ان کی وفات ہوئی۔ اس کتاب میں 7 سطروں میں ان کا تذکرہ ہے جس میں ان کے سن پیدائش و وفات اور آبائی علاقہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
3. کتاب کے شروع میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں صرف مرحومین کا تذکرہ ہے، مگر کتاب میں بہت سے زندہ حضرات کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ بعض تو بہت ہی معروف اہل علم ہیں جن کی حیات و موت کا معلوم ہونا نہایت سہل ہے، جیسے کہ جلد دوم ، صفحہ 628 پر مولانا اسرار الحق شاہ، صفحہ 630 پر حکیم ڈاکٹر محمد اسحاق ، صفحہ 790 پر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ، صفحہ 943 پر رفیق باجوہ ، صفحہ 1082 پر پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری ، جلد سوم صفحہ 1445 پر مجیب الرحمن شامی ، جلد سوم ص 1524 پر پروفیسر منور احمد ملک کا تذکرہ ہے۔ یہ تمام اہل زندہ ہیں، اور معروف ہیں، ممکن ہے کہ کچھ اور بھی زندہ بزرگوں کا تذکرہ موجودہ ہو۔
4. کتاب کی ابتدا میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں ختم نبوت کے حوالے سے کام کرنے والے اہل علم کا تذکرہ کیا جائے گا۔ آگے چل کر اس کا اہتمام نہیں کیا گیا، اور بعض ایسے بزرگوں کا تذکرہ بھی آگیا جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ کتاب کی جلد سوم کے صفحہ 1549 پر پیر سید نذر دین کا تذکرہ ہے۔ دو صفحوں پر مشتمل اس تذکرہ میں پیر مہر علی شاہ صاحب کی ایک روایت بیان ہوئی ہے، جس میں ان کے والد محترم پیر سید نذر دین صاحب کی آوائل عمری کی کرامت کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ موضوع پر پیر سید نذر دین صاحب کا کیا کام ہے، یہ نہیں بتایا گیا۔ نیز اس طویل روایت کے علاوہ پیر صاحب کے تعارف میں بھی بالکل بنیادی امور کا بھی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ ( یہ واقعہ اس سے پہلے مولانا نے "ایمان پرور یادیں " ، " تذکرہ مجاہدین ختم نبوت " میں بھی بیان کیا ہے۔)
5. بعض مواقع پر ایسی تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن کی تاریخ و تذکرہ کی کتاب میں خاص اہمیت نہیں، جیسا کہ جلد سوم کے صفحہ 1609 سے صفحہ 1622 تک مولانا محمد یعقوب پٹیالوی کا تذکرہ ہے۔ اس میں مولانا کی کتاب " تحقیق لاثانی" اور " عشرہ کاملہ" کا تعارف ہے۔ اس مقالہ میں مولانا محمد یعقوب پٹیالوی کے تعارف میں صرف دو جملے لکھے ہیں، باقی تمام تر تفصیلات ان کی دونوں کتابوں کے بارے میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کتاب " عشرہ کاملہ" کا دیباچہ پورا مضمون میں دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح کتاب پر مولانا خلیل احمد سہارنپوری و شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی تقریظات بھی نقل کر دی گئی ہے۔ یہ تمام چیزیں اپنی جگہ بہت اہم ہونے کے باوجود تاریخ و تذکرہ سے خاص مناسبت نہیں رکھتیں، بلکہ ان سے اہم مصنف کا تعارف تھا۔
6. کتاب میں بعض تحریرات دوسرے اہل علم کی ہیں، مگر منسوب مولانا اللہ وسایا صاحب کی طرف ہو گئی ہیں۔ ( بسا اوقات بڑے لوگوں کے ہاں اس طرح کے اتفاقات ہو جایا کرتے ہیں، جو کہ خود تحریر وہ صاحب تحریر کے لیے اعزاز ہوا کرتا ہے۔)
چند اغلاط
1. کتاب میں بہت سی ایسی چیزیں بھی بیان ہوئی ہیں، جو کہ تاریخی حوالے سے درست نہیں ہیں، جیسا کہ جلد اول کے صفحہ 41 پر مولانا محمد علی جالندھری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
" جمعیت علمائے اسلام کے قیام میں آپ کی مخلصانہ کوششوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا پہلا اجلاس جو مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں ہوا۔ اس میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے صدارتی خطبہ میں حضرت جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کا نام لے کر فرمایا کہ میرے خیال میں صدر اجلاس حضرت جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کو ہونا چاہیے تھا "
مولانا کی یہ عبارت ایک عام غلطی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا پہلا اجلاس قاسم العلوم میں نہیں ہوا، بلکہ یہ اجلاس 8 اکتوبر 1956ء کو خان محمد بہرام بلڈنگ ، چوک فوارہ بالمقابل سول ہسپتال ملتان میں منعقد ہوا تھا۔ ( ماہ نامہ لولاک ، نومبر 2016ء ص: 25 )
اس عبارت میں مولانا نے صدارتی خطبہ کا حوالہ دیا ہے، جب کہ مولانا جالندھری کے حوالے سے مولانا احمد علی لاہوری نے خطبہ استقبالیہ میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ مولانا احمد علی لاہوری ؒ کے الفاظ بحوالہ " لولاک نومبر 2016ء " ملاحظہ ہوں:
" --- جب مجھے لاہور میں اس تجویز کی اطلاع دی گئی تو میں نے انکار کر دیا اور عرض کی کہ مجھ سے بہتر آدمی موجود ہیں۔ مثلا حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھری کا ذکر میں نے کیا کہ وہ علماء کرام کی مقدس جماعت کے بہترین صدر ہو سکتے ہیں۔" (لولاک نومبر 2016ء ص 25 )
اس اجلاس کی صدارت مولانا خدا بخش صاحب ملتانی کر رہے تھے۔
2. بعض مواقع پر محض سنی سنائی باتیں لکھی گئی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، جیسا کہ جلد سوم صفحہ 1327 سے 1329 تک غازی علم الدین کاتعارف ہے۔ اس تعارف میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی 1927ء کو کی گئی تقریر کا اقتباس نقل کیا اور پھر آگے چل کر لکھا :
" --- صبح ترکھان کا بیٹا غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ اٹھا ، جا کر راجپال کا کام تمام کر دیا۔"
اس واقعہ کے بیان میں تاریخی حوالے سے صریح غلطی کی گئی۔ جس جلسہ کا حوالہ دیا جاتا ہے، وہ 1927ء میں ہوا، اور اس کے بعد شاہ جی گرفتار ہوئے، جب کہ راجپال کے قتل کا واقعہ 1929ء کا ہے۔ 1929ء میں شاہ جی اپنے آبائی شہر امرتسر اور ڈیرہ غازی خان میں مختلف تبلیغی واصلاحی دوروں پر رہے ہیں۔ (ملاحظہ ہو، حیات امیر شریعت ، جانباز مرزا ، ص 100، 101)
مولانا اللہ وسایا صاحب نے اپنی کتاب " ایمان پروریادیں " جون 1986ء میں شائع کی، اس کے ص 16 پر یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ اسی طرح " تذکرہ مجاہدین ختم نبوت" اگست 1990ء میں شائع کی، اور " ایمان پرور یادیں" کو اس کا حصہ بنایا اور اب اپریل 2016ء میں " چمنستان ختم نبوت کے گلہائے رنگا رنگ " شائع کی۔ سب جگہ یہی غلطی کی ۔ حالانکہ تھوڑی سی توجہ سے اس واضح غلطی کی اصلاح کی جا سکتی تھی۔
علم الدین والےواقعہ میں بہت سے تذکرہ نگاروں نے شاہ جی کی تقریر اور علم الدین کے اقدام کو اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا یہ تمام واقعہ شاہ جی کی تقریر کا نتیجہ ہے۔ مولانا محمد علی جالندھری شاہ جی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں:
" اور شاہ جی فرماتے تھے کہ علم الدین میرا مرید تھا ۔ جب میں تقریر کر رہا تھا وہ اسٹیج کے قریب زمین پر بیٹھا تھا۔ میرے الفاظ سن کر چلا گیا اور جا کر شاتم رسول راجپال کو قتل کر دیا ۔ " ( خطبات جالندھری ، مرتب مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی ، ص 139، ناشر مدرسہ تعلیم القرآن صدیقیہ ، شجاع آباد ، طبع دوم ، رمضان المبارک 1433ھ)
مجلس احرار اسلام کے سرگرم کارکن اور گوجرانوالہ کے رہنما چودھری غلام نبی مرحوم اپنی کتاب " تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک " میں غازی علم الدین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" ---- شاہ جی فرمایا کرتے تھے کہ میری تقریر کے آخری جملے تھے کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی دروازے پر کھڑا ہے اور پوری توجہ اور انہماک سے تقریر سن رہا ہے۔ شاہ جی کی تقریر کے آخری جملے ، "اے لوگو! تمہاری ماں ، ہم سب کی ماں ---- اماں عائشہ صدیقہ کھڑی ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کوئی ہے اس گستاخ سے میرے آپ کا دامن چھڑائے ۔ اے لوگو، یا تو راجپال نہ رہے یا سننے والے کان نہ رہیں۔" ادا ہوتے ہی وہ نوجوان جو دروازہ میں کھڑا تھا، غائب ہو گیا۔ دوسرے روز لاہور میں شور وغل تھا کہ راجپال قتل ہوگیا تھا اور غازی علم الدین کے نام سے مسلمانوں کی عظمت کا نشاں بن گیا ۔ شاہ جی کو اس مقدمے میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی کہ انہوں نے غازی علم الدین کو اشتعال دلایا تھا جس نے راجپال کو قتل کیا۔ " (47، 48)
چودھری صاحب مذکورہ بالا روایت سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ دوسری طرف مورخ احرار جانباز مرزا اس جلسہ کی روداد بیان کرتے ہوئے تقریر کے اہم نکات روزنامہ زمیندار کے حوالے سے نقل کرتے ہیں اور پھر ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" یہ تقریر اس قدر مؤثر اور جذباتی تھی کہ تمام مجمع میں حشر بپا تھا۔ شاہ صاحب کی تحریک پر لوگوں کے جتھے باغ میں جلسہ گاہ جاتے اور گرفتار ہو جاتے۔ ان پر لاٹھی چارج بھی کیا جاتا، یہ سلسلہ تھوڑی دیر جاری رہا، بعد ازاں شاہ جی نے عوام کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی اپیل کی اور کہا!
'ہمارا مؤقف قتل و غارت گری نہیں۔ بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت تعزیرات ہند میں ایک ایسی دفعہ کا اضافہ کرے جس کی رو سے بانیان مذاہب کے خلاف تقریر و تحریر کی پابندی ہو اور اس کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم قرار پائے۔'
اس قرار داد کے بعد جلسہ برخاست کر دیا گیا لیکن عوام کو پرامن طور پر احاطہ سے باہر نکالنے کے لیے شاہ جی خود دروازے پر کھڑے ہو گئے۔ ان کے سامنے مسٹر اوگلوی کھڑا تھا۔ شاہ جی اپنے مخصوص انداز میں لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین کر رہے تھے اور ساتھ ہی مسٹر اوگلوی سے پنجابی میں کہا: ' اوگلوی! اوکھے گھرنیوندرہ پایا ای' اوگلوی! تم نے مشکل گھرانے سے ٹکر لی ہے۔" ( حیات امیر شریعت، جانباز مرزا، ص 102)
اب یہاں اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ علم الدین نے شاہ جی کی تقریر سن کر قتل کا فیصلہ کیا اور علم الدین کو شاہ جی جانتے تھے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم الدین کی گرفتاری کے بعد شاہ جی اور ان کی جماعت نے اس نوجوان کے لیے کیا اقدامات کیے؟ شاہ جی کا مزاج تو ان کے سوانح نگار یہ بیان کرتے ہیں کہ حیدر پہلوان کے مقدمہ میں جب حیدر پہلوان کی غربت کی بنا پر اس کے کیس ہارنے کے امکانات پیدا ہوئے تو شاہ جی نے خود اس کے لیے چندہ کیا۔ اور سر میاں محمد شفیع کو کیس لڑنے کے لیے آمادہ کیا۔ (ملاحظہ ہو، حیات امیر شریعت ، جانباز مرزا ، ص 108) جس جلسہ میں یہ تقریر ہو رہی تھی، اس میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی صدر جمعیت علماء ہند اور سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی ناظم اعلیٰ جمعیت علماء ہند بھی شریک تھے، ہندوستان کی سب سے بڑی جمعیت علماء کے ان ذمہ داروں نے اس کے کیس میں کیا کردار ادا کیا؟
ان روایات میں اس قدر تضاد ہے کہ خودحضرت شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت مشکوک ہو کر رہ گئی۔ حضرت شاہ جی سے عقیدت نہ رکھنے والا ایک غیر جانبدار قاری تو ان مختلف روایتوں کو سن کر کہے گا کہ شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ خود واقعات گھڑتے تھے، جبکہ نقل کرنے والے بھی شاہ جی کےقریبی لوگ ہوں، خصوصا حضرت مولانا محمد علی جالندھری شاگرد رشید محدث اعظم ہند حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ جیسے اہل علم کی روایت یوں نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
غازی علم الدین کے واقعہ میں ہی مولانا اللہ وسایا صاحب نے قاضی احسان احمد صاحب شجاع آبادی کی ایک روایت نقل کی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
" بعد میں حضرت قاضی احسان احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسی جیل میں گرفتار ہو کر گئے۔ آپ کو اسی کوٹھڑی میں بند کیا گیا جس میں پہلے غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ وہ چکا تھا۔ جیل وارڈن نے کہا: "قاضی صاحب تم بہت خوش نصیب ہو، یہ بہت ہی برکت والی کوٹھڑی ہے۔" قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے استفسار پر اس نے بتایا کہ صاحب ! غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ اس کوٹھڑی میں تھا تو ایک رات کوٹھڑی روشن ہوگئی ۔ بقعہ نور بن گئی۔ میں پہرے پر تھا۔ میں حیران وپریشان دوڑا ہوا آیا کہ کہیں ملزم اپنے آپ کو آگ تو نہیں لگا رہا۔ مگر وہ تو بڑے اطمینان سے اس دنیا سے گم صم تشریف رکھتے تھے۔ میں حیران کھڑا رہا ، کافی دیر بعد جگایا، پوچھا تو میرے اصرار ، منت وسماجت پر غازی مرحوم نے کہا کہ خواب میں رحمت عالم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تھے۔ فرمایا علم دین ! ڈٹ جاؤ، میں حوض کوثر پر آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ " ( جلد سوم ، ص 1329)
یہ روایت حد درجہ مجہول ہے۔ قاضی صاحب سے کس وارڈن نے کہا، وہ اس کا نام وغیرہ ذکر نہیں کرتے ۔ بعض اہل علم نے اس واقعہ کے ساتھ یہ تصریح بھی کی ہے کہ قاضی صاحب 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں جب گرفتار ہوئے تو اس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ غازی علم الدین میانوالی جیل میں تھا۔ قاضی صاحب میانوالی جیل میں کس زمانے میں رہے ہیں؟ قاضی صاحب کے سوانح نگار قاری محمد نور الحق قریشی ایڈوکیٹ (داماد قاضی احسان احمد شجاع آبادی) کے مطابق قاضی صاحب تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں چھ دفعہ قید ہوئے ہیں۔ قاری محمد نور الحق قریشی صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ 40 سے 80 تک ان کی تفصیلات دی ہیں۔ تیسری گرفتاری سن 1937ء میں وہ چھ ماہ کے لیے میانوالی جیل میں رہے۔ اس کے بعد قاضی صاحب میانوالی جیل میں نہیں رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ قاضی صاحب نے اس گرفتاری کے بعد کہاں بیان کیا ہے؟ اور کتنی دفعہ بیان کیا ہے؟
بعض واقعہ نگاروں نے (شہیدان ناموس رسالت از متین خالد صاحب ْ، تحفظ ختم نبوت اہمیت اور فضیلت از محمد متین خالد صاحب ، ص 193)اس واقعہ کے ساتھ سن 1953کی وضاحت کی ہے۔ کیا وہ وارڈن اتنا عرصہ وہیں تعینات رہا؟ دوسری طرف یہ مسلم ہے کہ قاضی صاحب نے قید کا یہ زمانہ سنٹرل جیل ملتان اور ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں گزارا ہے۔ ( ملاحظہ ہو ، سوانح حیات ، خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی ، منصف محمد نور الحق قریشی، ناشر مکتبہ احسان ، ملتان ) یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قاضی صاحب کے سوانح نگاروں میں سے کس کس نے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے؟ اور کس حوالہ سے کیا ہے؟
بہرحال، بعض کمزوریوں کے باوجود یہ ایک انتہائی مفید کتاب ہے جسے حضرت مولانا نے انتہائی محنت وجانفشانی سے مرتب کیا ہے۔ اللہ کریم اس عظیم کاوش پر انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔