تعارف
عظیم اور قدیم تعمیراتی شاہکار قبۃ الصخرۃ کے لیے "فراموش شدہ گواہ" کی ترکیب راقم نے نیویارک کی مشہورِ زمانہ کولمبیا یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر ایسٹیل وھیلن (Estelle Whelan) (م:13 ؍ اکتوبر 1997ء) سےمستعار لی ہے [1]۔ اس کی تقریب یہ ہوئی کہ بیسویں صدی کے آغاز میں مستشرق الفانسو منگانا (Alphonso Mingana) 1 نے اسلامی تاریخ کے پورے فریم ورک کو چیلنج کرتے ہوئے وھیلن کے الفاظ میں" واضح تعصب "کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ قرآن کی جمع و تدوین پانچویں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔ پھر 1970ء میں جان وانسبَرو (John Wansbrough) نے آگے بڑھ کر "انکشاف" کیا کہ قرآن کا کوئی معیاری یا سرکاری (canonical) مصحف نویں صدی شمسی کے اوائل تک موجود نہ تھا ۔ وھیلن کہتی ہیں، وانسبَرو کے تجزیہ سے متشرح ہوتا ہے کہ پوری قرآنی تاریخ حقیقت میں ایک متقیانہ جعلسازی تھی جو اتنی مؤثر تھی کہ آزاد ذرائع سے اصل حقیقت معلوم کرسکنے کی کوئی شہادت ہی باقی رہنے نہ دی گئی ۔ وھیلن کے بقول، اگر وانسبَرو صحیح ہے کہ قرآن ایک معیاری مصحف کی صورت میں آغازِ اسلام کے ڈیڑھ سو سالوں کے بعد وجود میں آیاتو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے جو قدیم نُسَخ جو اس عرصے میں لکھے گئے تو وہ سب دراصل بعد کے دور میں نقل ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وانسبَرو کی تحقیق کا جائزہ لینا چاہیے۔
وھیلن کہتی ہیں کہ اسلام کی پہلی صدی کی اہم ترین شہادت وہ طویل قرآنی کتبات (inscriptions) ہیں جو یروشلم میں واقع قبۃ الصخرۃ کی تعمیر کے دوران عبدالملک بن مروان (دورِحکومت: 65-86ھ) نے نیلے اور سنہرے رنگ کے شیشے کی پچی کاری (mosaic) کی صورت لگوائے تھے۔ عام طور سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اولین اسلامی کتبات جن پر قرآنی اقتباسات دیکھے گئے ہیں، وہی ہیں جو قبۃ الصخرہ کے اندر محرابوں کی قطار (arcade) کے اوپر دونوں جانب منقش ہیں2۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ تاریخی اور جغرافی پسِ منظر واضح کردیا جائے۔
یروشلم شہرِ قدیم (Jerusalem, the Old City)
یروشلم بہت قدیم شہر ہے، 4500 ق م تک یہاں آبادی کا سراغ ملتا ہے۔ یروشلم یا اس سے مماثل تلفظ پر مبنی نام اس شہر کیلیے زمانۂ قدیم سے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ رومی بادشاہ ہیڈرین (Hadrian) کے دورِ حکومت (117-138ء ) میں یہود کی بغاوت 'بار کوخبا'(135-137ء)کے بعد ہیڈرین نے یہود کا شہر میں رہنا ممنوع قرار دے دیا تھا۔ اسی نے شہر کا نام اپنے خاندنی نام پر ایلیاکیپیٹولینا (Alia Capitolina) رکھا تھا ۔ چونکہ امیر امؤمنین حضرت عمر ِ فاروقؓ نے 638ء میں رومیوں ہی سے اس شہر کاقبضہ لیا تھا ، اس لیے نہ صرف مسلم روایات و آثار بلکہ نقاشی اور کتبات وغیرہ میں بھی اس شہر کے لیے ایلیاء نام کا استعمال ملتا ہے۔
قدیم شہرِ مُسَوَّرَہ (walled city) میں "حرم شریف" اوراس کے آس پاس آرمینی، عیسائی، یہودی اور مسلم محلے شامل ہیں (دیکھیے شکل رقم 1)۔ یہ دیواریں اوران میں داخلہ کے دروازے سلطان سلیمان ذیشان (دورِ حکومت: 1520ء-1566ء) کی محبت کی یاد گار ہیں۔ 1981ء سے 'یروشلم، شہرِ قدیم' یونیسکو کے عالمی ورثہ قرار دیے جانے والے مقامات میں شامل ہے۔ قدیم شہرکے ساتھ مزید مضافات ملا کرمشرقی یروشلم کہلاتا ہے جو 1948ء کی جنگِ فلسطین کے بعد ایک معاہدے کے نتیجہ میں اردن کے حصہ میں آیا تھا اور مغربی یروشلم اسرائیل کی عملداری میں تسلیم کرلیا گیا تھا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور آس پاس کے علاقے، سب صہیونی ریاست کے قبضہ میں آگئے۔قانون بین الممالک کی رُو سے یہ قبضہ اور مقبوضہ علاقوں میں بنائی گئی بستیاں غیر قانونی تسلیم کیے جاتے ہیں۔
الحرم الشریف
جس جگہ کو اوپر "حرم شریف" لکھا گیا وہ مشرقی یروشلم کے جنوب مشرقی کونے پر واقع زمین سے تھوڑا بلند ایک ہموار پلیٹ فارم ہے جو ذوزنقہ1 کی شکل کا ایک احاطہ ہے۔شکل نمبر 1 میں یہ احاطہ واضح ہے۔ مشرقی یروشلم میں جو علاماتِ مرور(traffic signs) ٹیلیویژن، انٹرنیٹ اور اخباری تصاویر وغیرہ میں نظر آتی ہیں ان میں عبرانی، انگریزی اور عربی میں بالترتیب ہیکلِ سلیمانی، Temple Mount اور الحرم الشریف لکھا دیکھا گیا ہے۔ غالباًیہ نام "الحرم الشریف" لغوی معنیٰ کے اعتبار سے اختیار کیا گیاہوگا ورنہ تو اسلام میں قرآن و حدیث کی نصوص سے صرف دو ہی حرم معلوم ہیں۔ اس تیسرے "حرم" کا ثبوت کسی نص سے نہیں ملتا [5]۔
اصل میں35 ؍ایکڑ رقبہ پر مشتمل یہ احاطہ ہی وہ مسجدِ اقصیٰ ہے جس کا ذکر قرآنِ مجید اور احادیث ِ مبارکہ میں آیا ہے۔ مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ ہی وہ تین مساجد ہیں جن کیلیے بطورِ خاص سفر کی نیت کرکے جانا جائز ہے اور وہاں پڑھی جانے والی نمازوں کا کئی گُنا اجرملنا احادیث سے ثابت ہے۔شکل نمبر1 میں ہی احاطۂ ذوزنقہ کے جنوب مغربی کونے میں وہ مسجد ہے جسے اہلِ فلسطین مسجد القِبلی کہتے ہیں لیکن عام طور پر وہ "مسجدِ اقصیٰ" کے نام سے معروف ہے۔ یہ مسجد چھٹے اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے بنوائی تھی۔ مسلمان اس سے جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں حتیٰ کہ رباط میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا قیام اسی مسجد میں آتشزدگی کے واقعہ (1969ء) کے ردِّ عمل کے طور پر آیا تھا۔حالانکہ صحیح معنوں میں یہ اصل مسجدِ اقصیٰ کا محض جنوب مغربی کونہ ہے جس کا سیسہ کی پتریوں سے مزیّن سرمئی رنگ کا گنبد تصاویر میں نظر آتا ہے اور 'گوگل ارتھ' کے ذریعہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یقیناً اس مسجد میں نماز کا وہی اجر ہے جو احادیث میں بیان ہوا ہے لیکن اس کے باہر احاطہ پر کہیں بھی نماز پڑھی جائے وہ مسجدِ اقصیٰ ہی میں پڑھنا سمجھی جائے گی اور وہی اجر اس کیلیے بھی ثابت ہے۔
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے مسجدِ حرام کی بناء رکھی اور پھر چالیس سال بعدارضِ مقدسہ میں جبلِ موریہ پرمسجدِ اقصیٰ کا احاطہ متعین کیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ احاطۂ اقصیٰ لمبائی کے رخ پر قبلہ رُو ہے ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفرِ معراج میں اس جگہ تشریف لائے تھے تو اس کا ذکر مسجد کے عنوان سےقرآنِ عظیم کی سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں آیاہے۔ اس وقت ولید بن عبدالملک کی بنائی ہوئی "مسجدِ اقصیٰ" کا نام و نشان تک نہ تھا۔ پھر ساتویں آیات میں اسی مسجد کادوبارہ ذکر ہے:
إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَھا ۚ فَإِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاخِرَةِ لِيَسُـئُوا۟ وُجُوھکمْ وَلِيَدْخُلُوا۟ المَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوہ أَوَّلَ مَرَّۃ وَلِيُتَبِّرُوا۟ مَا عَلَوْا۟ تَتْبِيرًا۔
[ترجمہ سید مودودیؒ: "تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اُسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں"]۔ 4
اس آیت میں بنی اسرائیل کی دو سزاؤں کا ذکر ہے۔ پہلی سزابابل کے شاہ بخت نصر کے ہاتھوں 586ق م اور دوسری سن 70ء میں جنرل طیطس (Titus) کی قیادت میں رومی سپاہ کے ہاتھوں ملی۔ دونوں مواقع پر مسجد کو تاراج کرنے کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ سے مراد نہ صرف ایک متعین احاطہ تھا بلکہ اس پر عمارت بھی موجود تھی جو پہلے بخت نصر کے ہاتھوں اور پھر طیطس کے ہاتھوں برباد کی گئی ۔ ممکن ہے ، یہ وہی مسجد ہو جس کی تجدید و تزئین حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام نے کروائی تھی، جس کو عام طور پر ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے نبی کی بنائی ہوئی عبادت گاہ کیلیے مسجد یا بیت کے ا لفاظ ہی موزوں ہیں اوریہی تعبیر ات قرآن و احادیث میں استعمال کی گئی ہیں۔ پیغمبران اسلام سے نسبت کی وجہ سے یہ احاطہ مسلمانوں ہی کی تراث ہے۔
احادیث کے مطابق شبِ اسراء میں جنابِ رسول اللہ ﷺ مسجدِ حرام سے براق کے ذریعہ مسجدِ اقصیٰ تشریف لے گئے، نماز پڑھی ، پھر آپ ﷺ نے انبیاء کرامؑ کو نماز کی امامت کرائی، اور پھر آپ معراج پر آسمانوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ واپسی پر پنجوقتہ نمازوں کی فرضیت کا حکم لیکر نبی ﷺ اسی جگہ آئے اور پھر براق سے مکہ پہنچے—سوچنے کی بات ہے آخر بیت المقدس کا پڑاؤ کیوں اس مقدس سفر میں شامل کیا گیا جبکہ اللہ تعالیٰ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدِ حرام سے براہِ راست آسمانوں پر لے جاسکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف احاطۂ مسجدِ اقصیٰ بلکہ ارضِ مقدسہ فلسطین اسلامی قلمرو کا لازمی اور مستقل حصہ ہے ۔ بیت المقدس کی طرف شدِّ رحال کی احادیث میں یہی اشارہ تھا جس کی وجہ سے اسلامی فتوحات کے آغاز پر مسلمانوں کی پہلی ترجیح شام و فلسطین کی سرزمین ہی تھی ۔
اسلامی یروشلم
خلیفہ دوم حضرت عمر نے جب بِزَنطینیوں سے شہرِ کا قبضہ لیا تو سب سے پہلے احاطۂ مسجدِ اقصیٰ کے جنوب مغربی کونے میں ایک مسجد کی جگہ متعین کی ۔تقریباً پچاس سال بعد عبدالملک بن مروان نے اسلامی تہذیبی تشخص کو مزید نمایاں کیا جب شہر کے منظر پر قبۃ الصخرہ جیسی عظیم الشان عمارت ابھری۔ اس کے معنی خیز کتبات کے ذریعہ واشگاف اعلان کردیا گیا کہ یروشلم نصرانی نہیں بلکہ اسلامی شناخت اور دینِ حق کی عظمت اور غلبہ کا علمبردار شہرہے اور رہے گا۔ عبدالملک ہی نے حضرت عمر کی مقرر کردہ جگہ پر مسجد کی بناء رکھی ، سرکاری زبان عربی مقرر کی، پہلی دفعہ اسلامی سکہ ڈھالا جس پر قرآنی آیات نقش تھیں ، اور اس کے علاوہ ا حاطہ اقصیٰ کے جنوبی سمت بہت سے محلات اور عمارتیں تعمیر کروائیں ۔ اس نے شاہرائیں بنوائیں جن پر سنگ ِمیل بھی نصب کروائے۔ ڈاکٹر ہیثم الرطروط کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں المَقدِسی (م:380ھ) کی تاریخی شہادت ہی قابلِ اعتبار ہے کہ خلیفہ عبد الملک نے دراصل مسلم یروشلم قائم کیا تھا۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یروشلم میں جو سرگرمیاں عبدالملک کے زمانے میں نظر آتی ہیں، ان سے واضح ہو تا ہے کہ یہ مکہ یا مدینہ کا متبادل نہیں بلکہ ان کا مؤید شہر بنایا جانا مقصود تھا ۔ عبد الملک چونکہ فقیہ بھی تھا، اس لیےاس نے نصرانیوں اور یہودیوں پر کسی قسم کی پابندی بھی نہیں لگائی تھی[6]۔
قبۃ الصخرة
شکل نمبر 1میں ذُوزَنقہ شکل کی مسجدِ اقصیٰ میں ایک اور ذوزنقہ دیکھا جاسکتاہے جس کے تقریباً وسط میں ایک مثمن (octagon)5 عمارت ہے۔ اسی کو قبۃ الصخرۃ کہتے ہیں اور انگریزی میں ڈوم آف راک (Dome of Rock)۔ دونوں زبانوں میں گنبد اور عمارت کو ایک ہی مجموعۂ الفاظ سے تعبیر کیا گیاہے۔ عاصم الحدادؒنے سفرنامہ ارض القرآن میں گنبدِ صخرہ اور مسجدِ صخرہ کی الگ الگ تعبیرات استعمال کی ہیں۔ زمینی حقیقت تو یہی ہے کہ یہ عمارت بطورِ مسجد بھی استعمال ہوتی ہے لیکن ابتداءً یہ بطورِ مسجد نہیں بنائی گئی تھی ۔بلکہ یہ اظہارِ دینِ حق اور شوکت و عظمتِ اسلام کی علامت تھی اوراس بات کا اعلان کہ ارضِ مقدسہ بلادِ اسلام کا غیر منفک اور دائمی جزء ہے۔
قبۃ الصخرۃ کی بیرونی دیواریں ایک مثمن (octagon) کے اضلاع ہیں۔ ان دیواروں کے زیریں حصہ میں سنگِ مرمر اور بالائی حصہ میں سیرامیک کے نیلے ٹائلز کا خوبصورت کام عثمانی سلطان سلیمان ذیشان (Süleymân, the Magnificent) نے 1545-46ء میں کروایا تھا۔ اس کے کچھ باقیات ابتک موجود ہیں لیکن زیادہ تر ٹائلز 1960ء میں اٹلی میں عثمانی ٹائلز کی ہوبہو نقل کرکے بنائے گئے تھے۔ ان دیواروں پر سولہویں صدی سے پہلےشیشہ کی پچی کاری کا کام تھا جو اولین تعمیر کا ہی حصہ تھا، جس کے کچھ آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ یہ پچی کاری پوری دیواروں پر تھی یا کچھ حصوں پر۔ لیکن یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ رنگین اور مرصع کام اپنے دور میں فنِ تعمیرکا ایک منفرد شاہکار رہا ہوگا [7]۔ عمارت میں ہر چہار سمتِ رئیسی (Cardinal Directions) سے داخلے کے دروازے ہیں جن کے اوپر پورچ بنے ہوئے ہیں۔ اندر داخل ہونے کے بعد ایک اندرونی مثمن پر محرابوں کی ایک قطار یا آرکیڈ (arcade) ہے ۔ اس آرکیڈ اور چھت کو آٹھ (8) بھاری ستونوں (piers) نےسہار رکھا ہے جو مثمن کے ہر کونے پر واقع ہیں۔اس کے علاوہ ہر ضلع میں دو (2) یعنی کُل 16 کالم ہیں جن پر محرابیں ٹِکتی ہیں۔ اس کے بعدآگے بڑھیں تو گنبد کا اسطوانہ (drum)ہے جو چار (4) بھاری ستونوں پر استوار ہے۔ ان کے علاوہ 12 کالم ہیں جو ایک گول آرکیڈکو سہارنے کیلیے ہیں۔ پلیٹ فارم سے تقریباً 30 میٹر کی بلندی تک پہنچتا ہوا گنبداصل میں لکڑی کا بنا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں لکڑی سے بنا ہوا اتنا قدیم سٹرکچر جو ابتک قائم ہے، کہیں نہیں پایاجاتا ۔ 20 میٹر قطر کا گنبد سونے کی ایک بھرت (alloy) سے بناہواہے جس کی وجہ سے یہ دور سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔شکل نمبر 2 اور 3 میں یہ تعمیر واضح کی گئی ہے۔
مثمن آرکیڈ کی بیرونی اور اندرونی جانب تقریباً 10 میٹرکی بلندی پر وہ پٹی ہے جس میں نیلے اور سنہرے رنگ کے شیشہ کی پچی کاری سے خطِ کوفی میں وہ تحریرمنقش ہے جو اس مضمون کا موضوع ہے۔یہ تحریر اور بہت سی دوسری آرائشیں اب تک مکمل طور پرمحفوظ ہیں۔ کتبات میں صرف ایک تبدیلی ہوئی جب عباسی خلیفہ مامون الرشید(دورِ حکومت: 198ھ-218ھ) نے عبدالملک کے نام کے اوپر اپنا نام کندہ کروایا تھا6۔ اس نے البتہ سنِ تعمیر جو 72ھ (691-692ء)ان کتبات میں رقم تھا اس کو ویسے ہی رہنے دیا ۔ چنانچہ یہ تاریخِ تعمیر خود ان کتبات سے ثابت ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ عبدالملک بن مروان کا ہی دور تھا۔ ان کتبات میں قرآن کی آیات اور دوسری عبارات ہیں جو اللہ کی وحدانیت، اسکی شہادت، اسکی قدرت اور اس کے نبی پر درود و سلام اور دوسری دعاؤں پر مشتمل ہیں ۔ زیادہ تر قرآنی اقتباسات عیسائی عقائد کو چیلنج کرتے تھےایک ایسے شہرِ کے عین مرکز میں جو عیسائیوں کی مقبول ترین زیارت گا ہ تھا۔
کتباتِ صخرہ
پچی کاری کے متن کی نقل (transcription) عالمی شہرت یافتہ خاتون مؤرخ ِ فنِ اسلامی (Islamic art-historian) کرسٹل کیسلر(Christel Kessler) کا کارنامہ ہے جو اس نے پہلی بار 1970ء میں پیش کیا[8]۔ یہ اس کے اپنے ہاتھوں سے کتابت کی ہوئی تحریر ہے جس میں اس نے اصل کوفی خط سے مماثلت کی اچھی کوشش کی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ قلم کا موٹا قط جیسا کہ خطِ کوفی میں ہوتا ہے، بنانا ممکن نہ تھا۔ اردو زبان میں بھی یہ اعزاز الشریعۃہی کے حصہ میں آرہا ہے جب غالباً پہلی بار قبۃ الصخرۃ کے کتبات کی کیسلر کے ہاتھ سے کی گئی نقل کے عکوس اور جدید عربی خط میں ان کی ٹرانسکرپشن پیش کی جارہی ہے۔
موزائیک پر یہ متن اصل میں دو جدا گانہ کتبات پر مشتمل ہے۔بیرونی کتبہ کا سامنا وہ افراد کرتے ہیں جو عمارت میں داخل ہونے کے بعد صرف سامنے اور تھوڑا سا اطراف کا حصہ ہی دیکھ پاتے ہیں ۔ آرکیڈ کے اس بیرونی کتبہ کا آغاز اگر جنوبی ضلع سے کریں جو جانبِ قبلہ ہے اور بائیں جانب (clockwise) گھومتے جائیں تو ترتیب سے جو عبارات سامنے آتی ہیں وہ جدول نمبر 1 میں دی گئی ہیں۔ یہ متن چھے (6) حصوں میں سجاوٹی پھولوں کے ذریعے تقسیم کیا گیا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ راہداری (ambulatory) بہت چوڑی نہیں ہے (تقریباً 4 میٹر) جس میں اونچائی پر منقش کتبات کی عمدہ تصاویر لینا کافی مشکل کام رہا ہوگا [7-8]۔
مثمن آرکیڈ کی اندرونی جانب جو پچی کاری کی پٹّی ہے اس میں اصل پیغام درج ہے۔ یہاں کشادگی بھی ہے۔اندر داخل ہونے والا زائر جب دائیں طرف مڑ کر گھومتے ہوئے(counter clockwise) ایک چکر پورا کرتا ہے تو واپسی تک پورا مرکزی پیغام دیکھ چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی کتبہ کے بالعکس اندرونی جانب متن مسلسل ہے اور نقاط (diacritics) کا استعمال بھی زیادہ کیا گیا ہے تاکہ پیغام کے ابلاغ میں کوئی کسر نہ رہے۔ جدول نمبر 2 میں اندرونی کتبہ کی نقول اسی ترتیب پر پیش کی گئی ہیں۔عمارت کے بیچ گنبدِ صخرہ کے عین نیچے وہ چٹان (الصخرہ) ہے جو نیچے غار سے برآمد ہوتی ہے اور عمارت کے فرش سے تقریباً پانچ فٹ اونچائی تک جاتی ہے۔ اس چٹان پر بقولِ یہود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسحٰق علیہ السلام کی قربانی دی تھی7۔ مسلمانوں میں عام طور پر مشہور ہے کہ اسی چٹان سے جنابِ رسول اللہ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
نیچے دیے ہوئے دونوں جداول میں پہلا کالم اضلاعِ مثمن کی سَمتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوسرے کالم میں کیسلرکی خطِ کوفی میں کی گئی نقل کا عکس ہے اور اس کے نیچے یہی متن جدید عربی خط میں پیش کیا گیا ہے۔اس میں قرآنی آیات کو ممیز کرنے کے لیے ان کے مصحفِ مدینہ منورہ ( www.tanzil.net )سے بعینہ لیے گئے ہیں۔ باقی عربی عبارات حَرَکات کے بغیر ہیں۔ قدیم عربی نسخ اور کتبات کی ایک خاصیت کہ وہ خطِ ناقص (scriptio defectiva) [9] میں لکھے جاتے تھے ، وہ ان کتبات میں بھی بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔ کچھ غیر معمولی خواص (idiosyncrasies) کی طرف حواشی میں اشارے کیے گئے ہیں، وہ بھی صرف قرآنی عبارات کی حد تک ۔
وھیلن نے لکھا ہے کہ کیسلر سے نقل میں کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سعیدنسیبہ(Saïd Nuseibeh) اور عالمی شہرت یافتہ مؤرخِ فنِ اسلامی اور ماہرِ اثریات پروفیسر اولیگ گرابر (Oleg Grabar) کی کتاب جس میں بہترین معیار کی تصاویر شامل ہیں [7] سے تقابل کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسلر کی نقل میں درستگی کی ضرورت ہے۔ راقم نے نُسیبہ اور گرابر کی تصاویر سے کیسلر کی تحریر کشائی کا مقابلہ کیا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اول الذکر میں طباعت کی اغلاط واقع ہوئی ہیں۔ جیسے پانچ اضلاع کے عنوانات غلط طبع ہوئے ہیں یا آلِ عمران:19 (اندرونی کتبہ، جنوب مغربی ضلع، جدول 2 کی آخری سطر)پر یہ واضح نہیں کہ باييات لکھا ہے یا باييت اور اس کے بعد ﷲ بھی نظر نہیں آرہا کیونکہ اس مقام پر تصویر تقسیم ہوگئی ہے ۔ اسی طرح صفحہ 93 ، شمال مغربی ضلع، اندرونی کتبہ پر دو تصاویر غلط لگنے کی وجہ سے جملہ کا ابتدائی حصہ مشتبہ ہوگیا ہے ۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب مسلسل تحریر آٹھ بھاری ستونوں(piers) پر سے گزرتی ہے تو ہر موقع پر چار دفعہ 90 درجہ کا خم کھا تی ہے۔ ایسے میں ہر ستون کےاجانب اور سامنے کی تصاویر لینا، وہ بھی 10 میٹر کی بلندی پر، بہت مشکل کام ہے۔ پھران تصاویر سےکتبہ کی تحریرکشائی (deciphering) خاصا عرق ریزی کا کام ہے۔کیسلر نے خود 1967ء کے موسمِ بہار میں ان کتبات کو دیکھا تھا اور ان کے فوٹو مناسب روشنی اور صفائی کے بعدلیے تھے ۔ انہوں نے سوئس مؤرخ میکس فان برشم (Max van Berchem, d. 1921) کی 1914ء میں لی گئی تصاویر جو بہت کم روشنی میں پرانے کیمرے سے لی گئی تھیں جبکہ کتبات پرگردو غبار بھی تھا، عالمی شہرت یافتہ برطانوی مؤرخ ِ تعمیرات ِ اسلامی کیسلر (K.A.C. Cresswell, d.1974) کی 1927-28ء کی تصاویر سے، اور مصر و اردن کی مشترکہ بحالی کمیٹی کی 1960ء میں بنائی گئی رنگین شفافیوں (transparencies)سے تقابل کرکے نقول تیار کی تھیں۔ چنانچہ صحیح یہی ہے کہ کیسلر سے تحریر کشائی میں کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ کیونکہ زیادہ تر مؤلفین بشمول وھیلن نے کتبات کامحض ترجمہ دینے پر ہی اکتفا کیا ہے، اس لیے وھیلن کے مشاہدہ کی تصدیق کا اور کوئی ذریعہ بھی نہیں ۔
اگرچہ وھیلن نے مِنگانا کی طرف تعصب کی نسبت کی ہے لیکن وہ اس کیلیے ایک تاویل بھی پیش کرتی ہیں کہ شاید اس نے ان کتبات کو دیکھ کر یہ رائے قائم کی ہو کہ قرآن کی تدوین عبد الملک کے عہد میں ہوئی ہوگی۔ وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا جب سے ان کتبات پر مغرب میں تحقیق ہورہی ہے لیکن کسی عالم نے ان کتبات کے متن پر غور نہیں کیا ۔ بیرونی اور اندرونی پٹّی پر جو تحریر کندہ ہے اس میں قرآن کی آیات کے علاوہ دوسری عبارات جو اللہ کی وحدانیت، حاکمیت،اور قدرت کا بیان اور اس کی شہادت کا اعلان ہیں،اور اس کے عالی مقام نبی پر درود و سلام پر مشتمل ہیں جن کے اجزاء میں بھی قرآنی فارمولے شامل ہوتے ہیں لیکن ان کو قرآن نہیں کہا جاسکتا۔ اس طرح کی مختلط عبارات جن کو فرد اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے، سے بعض مستشرقین نے سمجھا کہ قرآن کا متن ارتقاء کے عمل سے گزرتا ہواڈیڑھ یا دو سو سالوں میں مستحکم ہوا ہے۔ وھیلن اپنے ناظرین کو بتاتی ہیں کہ اس طرح کی ملے جلے بیانات اسلام میں ممنوع نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں وہ طَبَری سے دو خطبوں کی مثال بھی پیش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ قرآن مسلمانوں کی توجہات کا مرکز تھا اور اس کے معیاری متن کی حفاظت بلا کسی ادنیٰ تحریف کے پوری اسلامی تاریخ کا معلوم واقعہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ضرورت پڑنے پر کسی خاص موضوع کے پیشِ نظر قرآنی اجزاء اور دوسرے بیانات کو ملا کر پیش کرنا کلام کی خوبصورتی اور تاثیر کیلیے کیا جاتا تھا۔ وہ کہتی ہیں اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں البتہ اگر مسلمان ایسا نہ کرتے تو باعثِ تعجب ہوتا۔ اس طرح کے رواج کا انحصار اس پر تھا کہ سننے یا پڑھنے والے اچھی طرح قرآن اور غیرِ قرآن کو ممیز کرسکتے ہوں۔ بہرحال، وقت کے ساتھ ساتھ یہ رواج کم ہوتا چلاگیا یہاں تک کہ بیسویں صدی تک بالکل ختم ہو چکا تھا[10]۔
مصحفِ مدینہ منورہ سے تقابل
1. مریم:33 میں مصحفِ مدینہ منورہ میں آتا ہے: وَالسَّلَـٰمُ عَلَیّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا۔ اس کے برعکس، اندرونی کتبہ کے شمال مغربی ضلع پر ثبت اس جملہ میں ضمیرمتکلم (1st person)کے بجائےضمیر غائب (3rd person) استعمال ہوئی ہے، اس لیےہم نے اس کو بغیر اعراب کے درج کیاہے کیونکہ اب یہ کلامِ الٰہی نہ رہا۔ اس سلسلے میں وھیلن کی وضاحت کا ذکر گزر چکا۔
2. اگلی آیت، مریم:34 میں مصحف مدینہ منورہ میں يَمْتَرُونَ آتاہے، جبکہ اندرونی کتبہ میں شمال مغربی ضلع پر'تمتروں' دیکھا جاسکتاہے، یعنی خطاب کا صیغہ۔یہ عین ممکن ہے کہ پچھلا بیان جس میں قرآنی آیت میں تصرف کیا گیا تھا، وہ جاری ہے اور یہاں صیغہ بدل کر گویا زائر سے خطاب ہے: "سلام ہے اس پر جب وہ پیدا ہوا اور جب وہ مرے گا اور جب زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ یہ ہے عیسٰی ابن مریم اور یہ ہے اُس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں تم لوگ شک کرتے ہو"۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ آیت 34 قراءت 'تمتروں' کے ساتھ لکھی گئی ہو (دیکھیے حاشیہ 19)، تاہم قیاس یہی کہتاہے کہ پہلے سے جو بیان چلا آرہا تھا، اس کی رعایت کرتے ہوئے کلامِ پاک میں تصرف ارادتاً کیا گیا ہے۔
3. آلِ عمران:18 میں مصحفِ مدینہ میں قائمًا بالقسط ہے جبکہ اندرونی کتبہ میں مغربی ضلع پر اسے قیماٮالٯسط لکھا گیاہے ۔ کیسلر کہتی ہیں کہ یہ خطِ ناقص کی وجہ سےہے1۔
4. النساء:171 میں مصحفِ مدینہ کی قراءت ہے: القٰھآ جبکہ اندرونی کتبہ میں مشرقی ضلع پر لکھا ہے: الڢیھا۔ اس لفظ میں 'ق'، جس کا نقطہ نیچے لگایاگیا ہے، کے بعد ایک زائد شوشہ 'ی' کیلیے مع نقاط کے نظر آرہا ہےجو بظاہر اِمالہ کیلیے ہے ۔ یہ قراءت بھی صحیح ہے۔ نُسَخِ قدیمہ میں 'الفِ مدہ' اور 'الفِ مقصوریٰ' کا ادل بدل دیکھا گیا ہے[5]، چنانچہ یہاں 'ی' کا شوشہ الفِ مقصوریٰ کیلیے بھی ہوسکتا ہے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان کتبات میں مرقوم آیاِتِ قرآنی اور معیاری متن میں کوئی فرق نہیں سوائےاس کے کہ اول الذکر خطِ ناقص میں لکھے گئے ہیں۔
مسجدِ رسول ﷺ کی مثال
وھیلن مسجدِ نبوی کی جانبِ قبلہ دیوار پر منقش عبارتوں سے شہادت پیش کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ کتبات اب موجود نہیں ہیں لیکن تیسری/ چوتھی صدی ہجری کے ایرانی سیاح اور جغرافیہ داں ابنِ رستہ نے 290 ھ/903ء میں ان کو دیکھا تھا اور ان کا ذکر اپنی کتاب الاعلاق النفیسۃ میں کیا تھا۔ وہ کہتا ہے ، یہ کتبات مغربی دیوار میں باب دارِ مروان ( باب السلام) سے سورۂ الفاتحہ سے شروع ہوتے ہیں۔ پھر جنوب مغربی کونے سے مڑ کرجنوبی یعنی جانبِ قبلہ دیوار سے ہوتے ہوئے جنوب مشرقی کونے پر مڑ کر مشرقی دیوار پر بابِ علی ( بابِ جبرائیل) پرختم ہوتے ہیں ۔ سورۂ الفاتحہ کے بعد سور ۂ الشمس ہے پھر لگاتار سورتیں ہیں جن کا اختتام سور ۂ الناس پر ہوتا ہے۔ ابنِ رستہ کہتا ہے کہ یہ کتبات اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے اس وقت کے گورنر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی زیرِ نگرانی لکھوائے گئے تھے۔ اس مشاہدے کی تائید ایک اندلسی سیاح کی عینی شہادت سے بھی ہوتی ہے جس نے 307ھ/920ء اور 317ھ/929ء کے دوران حرمین کی زیارت کی تھی۔ اس کا ذکر الِعقد الفرید میں ہے۔ اس سیاح کے بیان سے معلوم ہوتاہے کہ کتبات مرمریں لوح پر سنہرے اور نیلے شیشے کی پچی کاری سے لکھے گئے تھے۔ یہ بالکل وہی سٹائل ہے جو قبۃ الصخرۃ میں پایا جاتا ہے۔ اس اندازے کو تقویت خطِ کتبہ سے بھی ملتی ہے جو دیکھنے والوں کے بقول خاصا موٹا خط ہے بالکل ویسا ہی جیساقبۃ الصخرۃکے کتبات میں استعمال ہوا [1]۔
مسجدِ نبوی کے یہ کتبات ولید بن عبدالملک کے دور میں 88ھ/706ء اور 91ھ/710ء کے درمیان لکھے گئے تھے۔ اتنے قدیم کتبات سے تین اہم امور پتہ چلتے ہیں: ایکؔ، قرآنی سُوَرکی ترتیب اس وقت ایک معلوم حقیقت تھی۔ اسی سے منسلک یہ دوسریؔ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت قرآن ایک مدون کتاب کی صورت میں موجود تھا۔ اور آخریؔ یہ کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ (م: 32ھ/653ء)سے منسوب روایات جن کے مطابق وہ سورۂ الفاتحہ اور معوذتین کو اپنے مصحف میں نہیں لکھتے تھے ، کومسلم جماعت نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ خود جنابِ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں ان سورتوں کا منقش ہونا اور وہ بھی ایسی ہستی، عمر بن عبد العزیزؒ، کے ہاتھوں جن کے تقویٰ کی قسم ان کے مخالفین بھی کھایا کرتے تھے—ان روایات کو رد کرنے کیلیے کافی ہونا چاہیے ۔
وھیلن کہتی ہیں کہ ابنِ رستہ اور دوسرے مشاہدین کے مطابق ولید نے مسجد کے صحن میں نماءِ جنوب (southern facade) میں بھی قرآنی نقوش کا کام کروایا تھا جس کو خوارج نے مروان ثانی کے عہد میں 130ھ/747ء میں تباہ کردیا تھا۔ ایسی تاریخی شہادتیں بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری مسجدِنبوی شریف میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قرآنی آیات کی نقاشی کروائی تھی۔ اموی دور میں قرآنی اقتباسات کتبات کی صورت میں اتنے زیادہ پائے جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اپنی مدون صورت میں پوری اسلامی دنیا میں ایک معروف حقیقت تھا۔ اس طرح وانسبَرو کا یہ نظریہ کہ متنِ قرآنی نویں صدی شمسی کے اوائل تک قانونی معاملات میں نامعلوم تھا، بالکل بے بنیاد ثابت ہو جاتا ہے۔
یہیں سے ایک ضمنی معلومات ابن الندیم (م: 385 ھ) کی الفہرست کے ذریعہ حاصل ہوتی ہےکہ خالد بن ابی الہیّاج نے مذکورہ کتبات لکھے تھے۔ خالد اموی اور عباسی ادوار کا ایک نامور خطاط تھا جس نے ولید بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں بہت سے مصاحف اور نُسَخ کی کتابت کی تھی۔ وھیلن خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ایک کاتب سعد جو صاحبِ المصاحف کہلاتے تھے، کا بھی ذکر کرتی ہیں جو کاتبِ وحی حضرت حُوَیطِب بن عبد العزیٰ (م 54ھ) کے مولیٰ تھے ۔ حضرت حویطب کے سردارِ قبیلہ عامر بن لؤی تھے جو اُن 16 قریشیوں میں شامل تھے جو نبی ﷺ کی بعثت کے وقت لکھنا جانتے تھے۔ حضرت حویطب مدینہ منورہ میں اصحاب المصاحف کے محلہ میں رہا کرتے تھے۔ وھیلن نے تاریخی شواہد کی بناء پر لکھا ہے کہ ساتویں صدی شمسی (پہلی /دوسری صدی ہجری) میں مدینہ منورہ میں ایک محلہ ہوا کرتا تھا جہاں قرآنِ کریم کی کتابت کی جاتی تھی اور مصاحف فروخت کیے جاتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس امر کی شہادتیں بڑھتی جارہی ہیں کہ اموی دور میں مدینہ اہلِ علم و فکر کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ بصرہ اور کوفہ کے مراکز کے ابھرنے سے پہلے آٹھویں صدی شمسی کے نصف اول میں مدینہ منورہ میں نحویین کا ایک مکتبِ فکربھی قائم ہوچکا تھا ۔ ان میں سے اکثر افراد کی معاشی ضروریات قرآنِ کریم کی نقل و اشاعت کے ذریعہ پوری ہوتی تھیں۔ ان میں ایک تابعی ابو داؤد عبد الرحمٰن بن ہرمز بن کیسان الاعرج ؒ (م117 یا 119ھ) بھی تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنو ہاشم کے مولیٰ تھے اور مصحف کی کتابت کیا کرتے تھے۔
غرض، مدینہ میں پہلی صدی ہجری کے ربعِ آخر اور دوسری صدی کے اوائل میں پیشہ ورانہ کتابت، خطاطی اور نقاشی کرنے والوں کا ایک سُوق موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ مساجد ، مدارس اور ذاتی استعمال کیلیے کتابِ پاک کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کیلیے ماہرین کی یہ جماعت وجود میں آئی ہوگی۔ قرآنی مصاحف کی نشر و اشاعت، تعمیراتی کتبات میں ان کااستعمال، دراہم و دینار پر قرآنی اقتباسات کی نقاشی اور منبرِ رسول ﷺ کی اتھاریٹی کا قیام —یہ سب اموی خلفاء کی جانب سے ایک نئے اسلامی ورلڈ آرڈر کا اعلان تھے، ایسا ورلڈ آرڈر جس کا مرکز و محور قرآنِ عظیم تھا۔ وھیلن کہتی ہیں کہ ان حقائق سے بغیر کسی شک کے معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کی تدوین و اشاعت کا کام ان واقعات سے بہت پہلے ہوچکا تھا نہ کہ بعدمیں، جیسا کہ وانسبرو سمجھتا ہے۔ چنانچہ وہ نتیجہ نکالتی ہیں کہ مسلم روایات ، جن کے مطابق سرکاری اہتمام کے ساتھ تدوین و اشاعتِ قرآن کا کام خلیفۂ راشد حضرت عثمانکے ہاتھوں ہوا تھا، قطعی طور پر قابلِ اعتماد ہیں۔
اختتامیہ
آخر میں وھیلن مسجدِ صخرہ کے کتبات کی طرف دوبارہ ر ُخ کرتے ہوئے توجہ دلاتی ہیں کہ یہ طرزِ کتابت واضح طور پر ابتدائی عربی تحاریر سےممیز ہے خواہ وہ کسی بھی میڈیم میں ہو (کتبات، پارچے، عمارتی نقوش، یاسکے وغیرہ) اور اس کو مسجدِ نبوی شریف کی قرآنی نقاشی کے پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے ۔ جس طرح خلیفہ ولید نےاصحاب المصاحف کے ایک کاپی نویس کو مسجدِ رسول ﷺ میں قرآنی نقاشی کیلیے طلب کیا تھا، یہ بالکل قرینِ قیاس ہے کہ پندرہ یا بیس سال قبل عبدالملک نے بھی ماہرین کے اُسی گروہ کی طرف رجوع کیا ہوگا۔ وھیلن سوال اٹھاتی ہیں کہ تجربہ کار اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل کاتبوں کا ایسا مرکز جیسا کہ مدینہ میں اصحاب المصاحف کا تھا، اور کہاں ہوسکتا تھا، جہاں سے ایسے مشاق خطاط مل سکیں جو قبۃ الصخرۃکی حسین و جمیل عمارت کے شایانِ شان نقاشی کر سکتے ہوں— ایسے نفیس کتبات جو 1300 برسوں سے اپنی نُدرت اور خوب صورتی قائم رکھے ہوئے ہیں۔
الحمد للہ، الشریعۃ کو یہ اعزاز حاصل ہو ا کہ عمارتِ صخرہ کے کتبات کی نقل پہلی بار اہالیانِ اردو کے لیے پیش کی گئی اورقرآنِ عظیم کے استناد کے بارے میں مستشرقین کے پیداکردہ شکوک و شبہات کو انہی میں سے ایک فرد کے ذریعہ صاف کردیا گیا۔
حواشی
- مِنگانا کے بارے میں کچھ معلومات اشارہ [2] میں دی گئی تھیں۔
- قبۃ الصخرہ سے قبل زمانے کا ایسا کتبہ جس پر قرآنی آیات ثبت ہوں، کی ایک ہی مثال سامنے آئی ہے۔ یہ قبرص سے دریافت ہونے والا ایک قبر کا کتبہ ہے جس پر مکمل سورۂ اخلاص لکھی ہوئی ہے، جس کے بعد لکھا ہے: "یہ عروہ ابن ثابت کی قبر ہے جو رمضان 29 ھ میں فوت ہوا"۔تاہم اس کتبہ کی کوئی تصویر اب تک شائع نہیں ہوئی ہے [3] ۔
- ذوزنقہ وہ چوکور ہوتا ہے جس کے صرف دو مقابل اضلاع متوازی لیکن غیر متساوی ہوتے ہیں۔
- مولانا مودودیؒ اور کئی علماء نے ترجمہ میں مسجد کے بعد قوسین میں بیت المَقدِس یا بیت المُقَدّس لکھا ہے جو صحیح ہے۔ عبرانی میں اس کا نام Beit HaMikdash ہے جس کا مطلب مقدس گھر ہے۔ یہ نام اقصیٰ کمپاؤنڈ یا اصلی مسجدِ اقصیٰ ہی کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ بعد میں یہ نام یروشلم شہر کیلیے بھی استعمال ہونے لگا لیکن صحیح مراد احاطۂ مسجدِ اقصیٰ ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی بیت المقدس اورمسجدِ اقصیٰ کے نام اسی معنیٰ میں آئے ہیں۔ مولانا وحید الدین خان نے سفرنامہ سپین و فلسطین میں مسجدِ صخرہ کو بیت المقدس سے تعبیر کیا ہے حالانکہ یہ اس کا ایک جزء ہے، کُل نہیں۔
- جیومیٹری میں ایسی کثیر الاضلاع (polygon) شکل کو کہتے ہیں جس کے آٹھ اضلاع ہوں۔
- المامون نے قبۃ الصخرہ کے مدخل شرقی پر بھی لنٹل کے اوپرتانبے کی پتری پر اپنا نام اور قرآنی آیات کے اجزاء نقش کروائے تھے۔ اس کی تصویر مع ترجمہ اشارہ [11] میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس نےشمالی دروازہ پر بھی تانبے کی ایک پتری لگوائی گئی تھی لیکن اس کی کوئی تصویر میسر نہیں البتہ ترجمہ حوالۂ مذکور میں دیا گیا ہے۔
- کچھ نئی تحقیقات ،جن کوابتک یہود میں قبولِ عام نہیں حاصل ہوا ہے، کے مطابق ہیکل اور قربان گاہ وغیرہ چشمۂ گیحان پر واقع تھے (شکل نمبر 1)۔ اس تحقیق کے مطابق دیوارِ گریہ جو احاطۂ اقصیٰ کی مغربی دیوار کا جنوبی حصہ ہے، ایک بے بنیاد فسانہ ہے۔
- سورۂ اخلاص۔
- یہاں سے ا لاحزاب: 56 کا آغاز ہوتا ہے۔
- یہاں سے سورۃ الاسراء کی آیت: 111 شروع ہوتی ہے لیکن پہلا لفظ وَقُلِ محذوف ہے۔
- یہ اگرچہ سورہ الحدید آیت: 2 کا حصہ ہے، لیکن پورا کلمہ جو شمالی ضلع پر لا اله الا الله وحدہ لا شريك له سے لیکر اس ضلع پر شَىْءٍ قَدِيرٌ تک ہے، حدیث میں بھی آتا ہے۔ توحید اور اللہ تعالی کی بلا شرکتِ غیرے حاکمیت اور کامل قدرت کا یہ اعلان تحریری اور زبانی طور پر کرنا اسلامی ثقافت کا ناگزیر جزء ہے۔ اس تحدی کو اس تناظر میں بھی اس کتبہ میں دیکھا جانا چاہیے۔
- یہ خط کشیدہ حصہ ترمیم شدہ ہے۔ یہ الفاظ عباسی خلیفہ مامون الرشید نے عبد الملک کے نام کی جگہ درج کروائے تھے لیکن اس نے تاریخِ تکمیلِ تعمیر جو معاً بعد درج ہے، سے تعرض نہیں کیا تھا۔
- یہاں سے الاحزاب آیت: 56 شروع ہوتی ہے۔
- یہاں سے سورۂ النساء آیات171-172 شروع ہوتی ہیں جن کا اختتام شمالی ضلع پر ہوتا ہے۔
- کتبہ پر اصل میں نقش ہے: ولاتٯولوا، دیکھا جاسکتا ہے کہ 'ق' کے اوپر یا نیچے کوئی نقطہ نہیں۔
- اصل میں لکھا ہے: الحٯ، اور یہاں بھی 'ق' کے اوپر یا نیچے کوئی نقطہ نہیں۔
- یہاں' الڢيها' میں درمیانی 'ق' کے نیچے ایک نقطہ ہے۔
- شمال مغربی ضلع پر یہ جملہ سورہ مریم:33 میں ضمیر متکلم کے بجائے ضمیر غائب کے ساتھ لکھا ہے، گویا یہ انسانی کلام ہے ۔
- مریم:34 میں یمترون کی جگہ تمترون لکھا گیا ہے۔ اگرچہ قراءت لٹریچر میں یہ قراءت رپورٹ ہوئی ہے، تاہم صحیح یہی ہے کہ قرآنی آیت کو موقع کی مناسبت سے صیغہ بدل کر بیان (paraphrase) کیا گیا ہے۔
- اصل کتبہ میں 'ٯول الحٯ' ہے، دونوں 'ق' بغیر نقطہ کے ہیں۔
- یہاں سے مریم:35-36 شروع ہوتی ہیں۔
- آ یت 35 کے اس ٹکڑے میں ' إِذَا قَضَىٰٓ' اور ' يَقُولُ' دونوں میں 'ق' پر کوئی نقطہ نہیں ، لیکن اسی ضلع پر آیت 36 کے ٹکڑے 'صِرَٰطٌ مُّسْتَقِيمٌ' میں 'ق' کے نیچے ایک نقطہ ہے۔
- یہاں سے سورۂ آل عمرا ن آیات 18-19 کا آغاز ہوتا ہے جو جنوب مغربی ضلع تک چلتا ہے۔
- 'ڢيما' میں 'ق' کے نیچے ایک نقطہ ہے جبکہ معاًبعد 'ٮالٯسط' ہے جہاں 'ق' کے اوپر یا نیچے کوئی نقطہ نہیں۔
- اگرچہ الزمخشری کے مطابق یہ ابو حنیفہؒ کی قراءت ہے [الکشاف ، ص 164]، تاہم کیسلر کا نکتہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
حوالہ جات
1. Whelan, Estelle. "Forgotten Witness: Evidence for the Early Codification of the Qur'an." Journal of the American Oriental Society, 118, (1998), pp. 1-14.
2. احمد، سید ظفر. "جامع عمرو بن العاص: فسطاط کا ایک قدیم نسخۂ قرآن." ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن. جولائی 2020ء، ص 27-33
3. "An Arabic Inscription From Cyprus, 29 AH / 650 CE," Islamic Awareness, Last Modified 05 August 2007, https://www.islamic-awareness.org/history/islam/inscriptions/urwa.html.
4. Landay, Jerry M. Dome of the Rock. (New York: Newsweek, 1972).
5. 6b-1411- فتاویٰ الحرم المکی/الشیخ محمد بن صالح العثیمین رقم https://www.alathar.net/home/esound/index.php?op=codevi&coid=120544۔
6. Al-Ratrout, Haithem, The Architectural Development of Al-Aqsa Mosque in Islamic Jerusalem in the Early Islamic Period, Monograph on Islamic Jerusalem Studies (no.4), (Dundee: Al-Maktoum Institute Academic Press 2004).
7. Nuseibah, Saïd and Grabar, Oleg, The Dome of the Rock, (New York: Rizzoli International Publications, 1996).
8. Kessler, Christel. "Abd al-Malik's Inscription in the Dome of the Rock: A Reconsideration." Journal of the Royal Asiatic Society of Great Britain and Ireland, No.1 (1970), pp. 2-14.
9. احمد، سید ظفر. "جامع عمرو بن العاص: فسطاط کا ایک قدیم نسخۂ قرآن-2." ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن. اگست 2020ء، ص61-75