علامہ محمد اقبال نے کہیں کسی سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ خدا کو اس لیے مانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ خدا موجود ہے۔ ہمارے محترم دوست طالب محسن صاحب نے کافی سال پہلے اس پر ماہنامہ ’’اشراق” لاہور میں شذرہ لکھا تھا کہ اقبال کا یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ قرآن مجید نے وجود باری اور توحید وغیرہ پر آفاق وانفس کے دلائل سے استدلال کیا ہے۔ بظاہر اقبال کی بات منطقی طور پر بھی الٹ لگتی ہے، کیونکہ محمد رسول اللہ پر ایمان بذات خود، خدا پر ایمان کی فرع ہے اور اس کے بعد ہی اس کا مرحلہ آ سکتا ہے۔ شاید اقبال نے یہ بات کسی عقلی استدلال کے طور پر کہی بھی نہیں ہوگی، اور غالبا اس کی نوعیت ایک ذاتی تاثر کے اظہار کی ہے۔ تاہم ہمارے خیال میں اپنے محل میں اور اپنے درست سیاق میں بطور ایک عقلی استدلال کے بھی، اقبال کی بات کمزور نہیں ہے، بلکہ بہت مضبوط بات ہے۔
خدا کے وجود کو عقلی غور وفکر سے ماننا اور اس غور وفکر کا واجب ہونا ہمارے متکلمین کے ہاں بھی ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ علم کلام میں اس کو ’’وجوب النظر” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ معتزلہ اور ماتریدیہ عموما اس کے قائل ہیں کہ کم سے کم خدا کے وجود تک عقلی استدلال سے پہنچنا ہر فرد بشر پر واجب ہے اور وحی کی راہ نمائی نہ بھی ہو تو محض عقلی صلاحیت کی بنا پر انسان اس کا مکلف ہے اور اس تک نہ پہنچ پانے والا خدا کی نظر میں قصوروار ہے۔ لیکن حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مکتوب میں ماتریدیہ کے اس موقف پر نقد کیا ہے اور اسے عقل انسانی کی صلاحیت پر ضرورت سے زیادہ اعتماد اور اس کی محدودیتوں اور کمزوریوں سے صرف نظر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ مجدد صاحب اس پر فلاسفہ کے طبقے کو بطور مثال پیش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے ذہین وفطین ہونے اور سنجیدگی سے امور کائنات میں غور وفکر کرنے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے باوجود تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں کہ کوئی فلسفی تنہا عقلی غور وفکر کے نتیجے میں خدا کی ویسی معرفت تک پہنچ سکا ہو جو انبیاء کے دین میں بیان کی جاتی ہے۔
ہماری رائے میں علمائے کلام کے اس مکتب فکر کی رائے زیادہ صائب ہے جو وجود باری اور توحید کے باب میں بھی اتمام حجت کی بنیاد پیغمبر کی دعوت ہی کو قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی ’’لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل” اور ’’وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا” کے الفاظ میں انبیاء کی دعوت ہی کو اس حوالے سے فیصلہ کن قرار دیا ہے۔
اس سے اس سوال کا جواب بھی ملتا ہے جو ایمان کے عقلی یا غیر عقلی ہونے کی بحث سے فوری طور پر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا فہم یہ ہے کہ خالصتا عقلی سطح پر ایمان یا الحاد مساوی امکانات کی حیثیت رکھتے ہیں اور شعور انسانی ایک خاص طرح کی کیفیت میں ایمان کی طرف بھی مائل ہو سکتا ہے اور الحاد کی طرف بھی۔ دونوں کے حق میں عقلی دلائل کا مرحلہ اس بنیادی رجحان کے بعد آتا ہے اور ہر رجحان اپنی تائید کے لیے ایسے عقلی دلائل پیش کر سکتا ہے جو خود اسے مطمئن کرتے اور بنیادی رجحان کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر یہ لازم نہیں آتا کہ الحاد کے رجحان کو اخلاقی اعتراض سے ماورا سمجھا جائے، یعنی اسے اخلاقی لحاظ سے کوئی قابل اعتراض رویہ نہ تصور کیا جائے؟ ہماری رائے میں اگر انبیاء کی دعوت سے صرف نظر کر لیا جائے تو انفس وآفاق کے دلائل کی حد تک یہ بات درست ہے۔ چونکہ یہ دلائل فی نفسہ فیصلہ کن نہیں ہو سکتے، اس لیے صرف ان کی بنیاد پر کوئی اخلاقی ججمنٹ بھی صادر نہیں کی جا سکتی۔
تاہم اس بحث میں انبیاء کے شامل ہونے کے بعد صورت حال یہ نہیں رہتی۔ یہ نکتہ مستقل تفصیل کا متقاضی ہے۔ مختصرا یہ کہ انبیاء خدا کے وجود اور توحید کو محض ایک عقلی امکانی مفروضے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک دعوے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ایسے شواہد ودلائل کے ساتھ انسانی شعور کو متوجہ کرتے ہیں کہ انسان کے لیے غیر جانبداری کا امکان باقی نہیں رہتا۔ اسے یا تو ایمان کی طرف آنا پڑتا ہے اور یا نبی کی دعوت کے مدمقابل ایک پوزیشن لینی پڑتی ہے، یعنی نبی کی تکذیب کرنی پڑتی ہے اور یا کم سے کم اس سے اعراض اور بے اعتنائی کا رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور یوں سادہ عقلی قیاس آرائی سے آگے بڑھ کر وہ بنیاد فراہم ہوتی ہے جس پر انسان کو اس کے فیصلے کے لیے اخلاقی طور پر ماخوذ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ پس انسان جو، نبی کی دعوت کی غیر موجودگی کے مفروضہ ماحول میں، کسی اخلاقی ذمہ داری کے بغیر کوئی ایک یا دوسرا رجحان اختیار کرنے کے لیے آزاد تھا، نبی کی دعوت ماحول میں موجود ہونے کی صورت میں اپنے فیصلے کے لیے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرتا ہے اور اعراض یا تکذیب، ہر دو صورتوں میں خدا کے سامنے اخلاقی بنیاد پر جواب دہ بن جاتا ہے۔ کسی کو شبہات لاحق ہونے یا بات کا مکمل ابلاغ نہ ہونے کی وجہ سے معذور سمجھے جانے کا امکان اپنی جگہ درست ہے جس کا فیصلہ خدا ہی کر سکتا ہے، لیکن ایک عمومی اصول کے طورپر صورت حال وہی بنتی ہے جس کی مختصرا وضاحت کی گئی۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم