اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ(۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

اہل تشیع (خاص طور پر اثنا عشریہ )اسلامی تاریخ کا واحد گروہ ہے ،جنہوں نے  اہل سنت کے مقابلے میں  جداگانہ، ممتاز اور  لاکھوں روایات  پر مشتمل  اپنا علم حدیث ترتیب دیا ہے ،جو  بعض اعتبارات سے اہل سنت کے حدیثی ذخیرے سے  بالکل الگ تھلگ  ہے ، اہل تشیع نے احادیث ،موضوعات ، کتب کی ابواب بندی ،مضامین ،مفاہیم، اصطلاحات ،رواۃ  ،اصول  و قواعد    سب اپنے  ترتیب دیے۔اس مقالے میں اہل تشیع اور اہل سنت کے حدیثی ذخیرے کا ایک تقابلی جائزہ  پیش کیا جائے گا ، اس جائزے کا مقصد  فریقین کے حدیثی ذخیرے کے فروق و  مشترکات  کا تعارف ہے،   یہ  ایک علمی و تحقیقی  سرگرمی  ہے ، اس لئے اسے مناظرانہ پس منظر کی بجائے خالص تحقیقی  نظر سے دیکھا جائے۔   

بحث اول :اصطلاحات و مفاہیم

اہل سنت اور اہل تشیع کے علم حدیث کا بنیادی فرق اصطلاحات و مفاہیم کا الگ الگ تصور ہے ، ان  علیحدہ مفاہیم کی وجہ سے فریقین کا علم ِحدیث ایک دوسرے سے کلی طور پر  مختلف ہوجاتا ہے ، ذیل میں چند اہم  اساسی امور کے متعلق   فریقین کا نظریہ بیان کیا جاتا ہے :

1۔حدیث و سنت کا مفہوم اور مصداق

اہل سنت کے ہاں حدیث و سنت  کا مصداق1 آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا قول ،عمل اور تقریر ہے ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں  حدیث و سنت کا اطلاق آپ علیہ الصلاۃ و السلام کے اقوال ،افعال و تقریرات سمیت بارہ ائمہ معصومین کے اقوال ،افعال اور تقریرات پر بھی ہوتا ہے  اور بارہ ائمہ کے اقوال و فرامین بھی تشریع کا مستقل ماخذ اور حدیث و سنت  کا مصداق ہیں ،معروف شیعہ عالم حید رحب اللہ اپنی کتاب "نظریۃ السنۃ فی  الفکر الامامی الشیعی "میں لکھتے ہیں :

"و اما فی الاصطلاح الخاص بعلوم الدرایۃ و الحدیث  و المتعارف فی العلوم الدینیہ عادۃ، فتعنی بالسنۃ قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم  او المعصوم علیہ السلام او فعلہ او تقریرہ" 2

یعنی علم حدیث و علم درایہ اور علوم دینیہ میں لفظ سنت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا معصوم (علیہ السلام ) کا قول، فعل اور تقریر ہے ۔

معروف  شیعہ عالم شیخ رضا المظفر لکھتے ہیں :

و اما فقہاء الامامیہ  بالخصوص فلما  ثبت لدیہم ان المعصوم من ال البیت یجری قولہ مجری قول النبی من کونہ حجۃ علی العباد واجب الاتباع ،فقد توسعوا فی اصطلاح السنہ الی ما یشمل قول کل واحد  من المعصومین او فعلہ او تقریرہ 3

یعنی  شیعہ کے ہاں چونکہ ائمہ معصومین کے اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی طرح بندوں پر حجت اور واجب الاتباع ہیں ،اس لئے فقہائے امامیہ  نے سنت کی اصطلاح میں توسیع کرتے ہوئے ائمہ معصومین کے اقوال،افعال اور تقریرات کو بھی سنت شمار کیا ہے ۔

  سنت و حدیث کی اصطلاح کا یہ فرق بنیادی ترین  اختلافی نکتہ ہے ،اسی نکتے پر دونوں  حدیثی ذخیرے ممتاز اور ایک دوسرے سے سے بالکلیہ جدا ہوجاتے ہیں ، اہل سنت کے ہاں جب حدیث کا محور آپ علیہ السلام کی ذات ِگرامی ہے ،تو  تمام حدیثی سرگرمیاں آپ علیہ السلام کے گرد گھومتی ہیں ،محدثین کی تالیفات کا بنیادی مقصد آپ علیہ السلام کے فرامین کی جمع و تدوین ہے،فقہاء و اصولیین کے حدیثی مستدلات  کا منبع آپ علیہ السلام کی ذات اقدس  ہے ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں حدیثی سرگرمی میں بارہ ائمہ معصومین کے  اقوال بھی شامل ہیں  اور ائمہ معصومین کے اقوال  بوجہ ماخذ تشریع ہونے کے حفاظت و تدوین میں اسی  اہتمام کی متقاضی  ہیں  ،جو اہتمام   اقوال ِرسول علیہ السلام  کی حفاظت میں کیا جاتا ہے ۔ اہتمام اور توجہ کی اس دوئی کی وجہ سے سنت کی جمع وتدوین  اور اس کی حفاظت  و نقل  میں بہت سے مسائل پیدا ہوجاتے  ہیں ،جس کا بیان آگے آئے گا ۔

2۔عدالت صحابہ کا مسئلہ اور اس کے نتائج

مفاہیم و تصورات میں دوسرا بنیادی مسئلہ صحابہ کرام کی عدالت اور ان سے مروی روایات کا حکم ہے ،اہل سنت کے ہاں تمام وہ حضرات ،جن کی صحابیت ثابت ہے ،ان کی روایت قابل ِقبول ہے ،"الصحابۃ کلہم عدول" والا اصول  اہل سنت  کا متفقہ موقف ہے ،لہذا  اہل سنت کے نزدیک صحابہ کے بعد رواۃ کی جانچ پڑتال ہوگی ،خود صحابہ میں اگرچہ درجات  میں تفاضل ہے ،لیکن روایت کے اعتبار سے جملہ صحابہ عادل کے مقام پر فائز ہیں ،جبکہ اس کے بر خلاف اہل تشیع صحابہ کے ساتھ بھی بقیہ رواۃ جیسا معاملہ کرتے ہیں  اور ان کے ہاں صحابہ میں بھی عادل ، فاسق ، منافق ،بدعتی اور دیگر اقسام موجود ہیں ،اس لئے  اہل تشیع صرف عادل صحابہ کی روایات قبول کرتے ہیں  اور عادل صحابہ سے مراد وہ صحابہ ہیں ،جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے رہے ،چنانچہ معروف شیعہ عالم  احمد حسین یعقوب "نظریۃ عدالۃ الصحابہ " میں لکھتے ہیں :

"کل الذین وقفوا مع  علی و والوہ ھم صحابۃ عدول" 4

 اب سوال یہ ہے وہ کتنے صحابہ ہیں ،جن کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ   موالات ثابت ہیں ،تو معروف شیعہ محدث  شیخ جعفر سبحانی لکھتے ہیں :

و قد قمنا بتالیف کتاب حول صحابۃ النبی الذین شایعوا علیا فی حیاۃ النبی و بعد رحلتہ الی ان لفظوا اخر نفس من حیاتہم فبلغ عددھم 250 شخصا" 5

یعنی ہم نے ان صحابہ کے حالات پر ایک کتاب لکھی ہے ،جو زمانہ نبوت اور اس کے بعد آخر وقت تک حضرت علی کے ساتھی رہے ،تو ان کی تعداد 250 تک جا پہنچی ۔

ویسے تو  صحابہ کرام کی تعداد  ایک لاکھ سے زائد کتب  تاریخ میں منقول ہے ،لیکن جن صحابہ کے احوال (خواہ قلیل ہو یا کثیر ) محفوظ ہیں،ان کی تعداد بارہ ہزار سے  اوپر ہے ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب "الاصابہ فی تمییز الصحابہ "جو احوال صحابہ میں مفصل کتاب شمار ہوتی ہے، اس میں 12446 تراجم مذکور ہیں6،   اب سوال یہ ہے کہ  ان میں سے کتنے صحابہ کرام سے روایات منقول ہیں ،تو اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ،امام ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں امام  حاکم ابو عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں  کہ راویان ِحدیث صحابہ کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے۔7 لیکن اس پر خود اشکال وارد کر کے کہتے ہیں کہ مسند احمد ،جو موجود دواوین میں حدیث کی سب سے بڑی مسند ہے ،اس میں  987 صحابہ کی مروایات  ہیں ،تو بقیہ کتب،جو مسند احمد سے کم حجم کی حامل ہیں ،ان میں اس سے بھی کم صحابہ کی مرویات ہونگی  ؟اسی طرح امام ابن حزم    نے راویان صحابہ کے اسماء اور ان کی مرویات پر ایک  کتاب "اسماء الصحابہ و ما لکل  واحد منھم من العدد "لکھی ہے جس میں 999 نام جمع کئے ہیں ،لیکن اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب مسند بقی بن مخلد    میں مذکور رواۃ صحابہ کے نام پر مشتمل ہے ۔

الغرض رواۃ صحابہ کی تعداد  قطعی طور پر تو کسی نے استیعاب کے ساتھ بیان نہیں کی ،لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق جمیع کتب حدیث کے رواۃ صحابہ  کی تعداد دو ہزار کے قریب قریب بنتی ہے ،اگر اس میں  مزید کمی کریں ،تو پندرہ سو  کے لگ بھگ رواۃ صحابہ بنتے ہیں ،ان میں سے اہل تشیع کے ہاں صرف ڈھائی سو کی روایات قابل قبول ہیں، یوں اہل تشیع  رواۃ صحابہ میں سے صرف  پندرہ فیصد صحابہ کی روایات لیتے ہیں ،اور پچھتر فیصد  رواۃ صحابہ کو غیر عادل قرار دے کر ان کی روایات رد کرتے ہیں ،جن میں مکثرین صحابہ حضرت ابو ہریرہ  اور حضرت عائشہ جیسی شخصیات بھی شامل ہیں ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت ِصحابہ کے نظریے کو نہ ماننے کی صورت میں کتنی احادیث  کو رد کرنا پڑیں گی ،یہی وجہ  ہے کہ شیعہ کتب احادیث میں مرفوع روایات انتہائی قلیل ہیں ہم نے کتب ِاربعہ کی پہلی جلدوں کا با الاستیعاب  صفحہ بہ صفحہ جائزہ لیا   اور مرفوع روایات کو الگ کیا  ،تو تعداد کچھ یوں بنی   :

  1. الکافی(دار الحدیث للنشر و الطباعۃ ،قم ) کی پہلی جلد میں758 روایات ہیں ،جن میں مرفوع ،خواہ قولی ہو یا فعلی ،یا دور ِنبوت کا کوئی بھی واقعہ ،اس کی تعداد 45 ہیں، احتیاطا 50  فرض کر لیتے ہیں ، جو اس جلد کی  کل روایات کا صرف 7 فیصد ہے ۔
  2. من لا یحضرہ الفقیہ (موسسہ الاعلمی للمطبوعات ) کی پہلی جلد میں 1573  روایات ہیں ،جن میں مرفوع (قولی و فعلی ) 141 روایات ہیں ،اسے ہم احتیاطا 150 فرض کر لیتے ہیں ،یوں یہ پہلی جلد کی روایات کا  تقریبا دس فیصد ہے ۔
  3. تہذیب الااحکام (دار الکتب الاسلامیہ ،تہران ) کی پہلی جلد میں 1541 روایات ہیں ،جن میں مرفوع (قولی و فعلی )95 روایات ہیں ،ہم احتیاطا 100 شمار کر لیتے ہیں ،جو پہلی جلد کی روایات کا  تقریبا سات فیصد ہے۔
  4. الاستبصار فیما اختلف من الاخبار (دار الاضواء ،بیروت ) کی پہلی جلد میں  کل 1885 روایات ہیں ،جن میں مرفوع روایات (قولی و فعلی )55 ہیں ،احتیاطا 60 شمار کر لیتے ہیں ،جو اس جلد کی کل روایات کا  صرف 3 فیصد ہے ۔

یوں کتب اربعہ کی پہلی چار جلدوں کی کل روایات 5757 ہیں ،جن میں مرفوع روایات (قولی ،فعلی  ) صرف 360 ہیں ،جو  5757 روایات کا تقریبا ساڑھے چھ فیصد بنتا ہے ،ان میں اگر مکررات کو نکال لیا جائے تو تعداد اس سے کہیں کم بنے گی ۔8

مرفوع روایات کی قلت کا اشکال عمومی طور پر اہل تشیع محققین یہ جواب دیتے ہیں کہ  ائمہ معصومین کے اقوال بھی دراصل آپ علیہ السلام کے فرمودات ہیں کیونکہ  کتب شیعہ میں مذکورہ سب روایات ہی مرفوع کے حکم میں ہیں،لیکن   یہ جواب  اصل سوال کو حل نہیں کرتا ،کیونکہ ائمہ معصومین کے فرمودات اس لئے مرفوع کے حکم میں ہیں کہ وہ خود اہل تشیع کے ہاں  عصمت کے مقام پر فائز  ہیں، منصوص من اللہ ہیں  اور ان کے اقوال خود حجت ہیں ، تو  بارہ ائمہ کے اقوال مرفوع کے حکم میں ہونے کے باوجود اقوال ِائمہ ہیں ،نا کہ اقوال ِرسول ،سوال یہ  تھا کہ آپ علیہ السلام کے ارشادات ،فرامین اور آپ کی عملی زندگی سے متعلق کتب شیعہ میں مواد اتنا کم کیوں ہے ؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں  کہ ائمہ  کے اقوال بے شک اہل تشیع کے اصولوں کے مطابق حجت  اور تشریع کا ماخذ ہیں ،لیکن  براہ راست آپ علیہ السلام کے  اقوال و افعال کا حجم کتب شیعہ میں  اقوال ِائمہ کی بنسبت آٹے میں نمک کے برابر کیوں ہے ؟ائمہ کے اقوال سے تو تشریع کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے ،لیکن ائمہ کے اقوال و فرامین  سے آپ علیہ السلام  کی حیات مبارکہ کی قولی و عملی زندگی کی تصویر سامنے نہیں آتی ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ کے اقوال حکم و اطاعت میں اقوال رسول کی طرح ہیں ۔    خلاصہ یہ کہ  یہ بات بدیہی ہے  کہ قول ِامام حکما قول ِرسول ہے نا کہ حقیقتا قول رسول ،سوال  دوسرے نکتے سے متعلق ہے نا کہ پہلے نکتے سے ۔

الغرض اہل سنت و اہل تشیع  کے علم حدیث کے مفاہیم و تصورات میں دوسرا بڑا فرق عدالت ِصحابہ کا مسئلہ ہے ،اوپر ذکرکردہ تفصیل سے اس مسئلے کے نتائج بخوبی واضح ہوتے ہیں ۔

 3۔حدیثی ذخیرہ قبل از تدوین

مفاہیم و تصورات میں تیسرا بڑا مسئلہ زمانہ قبل از تدوین میں احادیث  و روایات کی صورتحال کا تعین ہے ، پہلی صدی ہجری کے اختتام کے ساتھ ہی اہل سنت کے مجموعات ِحدیث منظر عام پر آنا شروع ہوئے ،امام مالک کی موطا، امام ابو یوسف و امام محمد کی کتاب الاثار  اور دیگر مجموعات یکے بعد دیگرے  مرتب ہونا شروع ہوئے ،ان مجموعات سے پہلے صحابہ و تابعین   اور تبع تابعین نے اپنی ذاتی نسخے ترتیب دیئے تھے اور اپنے شیوخ سے سنی حدیثیں ان میں جمع کی تھیں ،ڈاکٹر مصطفی اعظمی رحمہ اللہ نے اپنی قابل قدر کتاب "دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ " میں  صحابہ  کے 52 صحائف و مجموعات ،کبار تابعین کے  53 مجموعات ِحدیث ،صغار تابعین کے 99 مجموعات  اور تبع تابعین کے 252 مجموعات حدیث  کی فہرست مرتب کی ہے ،یوں حدیث کی اولین تصنیفات سے پہلے 456 مجموعات حدیث  اہل علم کے حلقوں میں رائج رہے ،اس کے علاوہ  حرمین شریفین ، عراق ،شام ،مصر  اور یمن میں حدیث کے معروف شیوخ کی درسگاہیں قائم تھیں ،جن میں ہزاروں طالبان ِعلم  مختلف شیوخ سے روایات لیتے رہے ،محدث خطیب بغدادی نے اپنی کتاب "الرحلہ فی طلب الحدیث " میں ان اسفار و درسگاہوں کی تفصیل دی ہے، ان تفاصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کا ذخیرہ حدیث تدوین سے پہلے تحریری شکل میں بھی موجود تھا اور   اکابر شیوخ   کی مجالس ِحدیث کی  صورت میں  تعلیم و تعلم کی شکل میں بھی موجود تھا۔

اہل تشیع کا زمانہ تدوین تیسری صدی کا آخر اور چوتھی صدی ہجری کا شروع ہے ،کیونکہ شیعہ کتب ِحدیث کے اولین مصادر  جیسے بصائر الدرجات  (ابو الحسن الصفار قمی متوفی 290ھ) اور الکافی ( محمد بن یعقوب الکلینی متوفی 329 ھ) اسی دور کی تصانیف میں سے ہیں ،اب سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے کی  تین صدیوں میں اہل تشیع کے  حدیثی ذخیرے کی تحریری و تدریسی شکل کیا تھی؟جہاں تک تعلیم و تعلم کا   تعلق ہے ،تو اہل سنت کی طرح اہل تشیع  میں شیوخ الحدیث کی   وسیع مجا لس درس اور درسگاہوں کی کوئی  روایت نہیں رہی ہے ،کیونکہ  یہ تین صدیاں اہل تشیع کے نزدیک "دور ِ تقیہ " میں آتی ہیں ،جن میں اہل تشیع علانیۃ اپنی احادیث کو نشر نہ کر سکتے تھے ،شیعہ رجال حدیث  پر سب سے ضخیم کتاب لکھنے والے معروف  عراقی شیعہ محدث امام خوئی لکھتے ہیں :

إن أصحاب الائمۃ عليھم السلام وإن بذلوا غايۃ جھدھم واھتمامھم في أمر الحديث وحفظہ من الضياع والاندراس حسبما أمرھم بہ الائمۃ عليھم السلام ، إلا أنھم عاشوا في دور التقيۃ ، ولم يتمكنوا من نشر الاحاديث علنا

کہ ائمہ کے تلامذہ نے اگرچہ  حدیث کی حفاظت اور اس کو ضیاع سے بچانے کے لئے ائمہ کے حکم کے مطابق اپنی پوری کوششیں صرف کیں ،لیکن وہ تقیہ کے زمانے میں تھے ،جس کی وجہ سے احادیث کو علانیہ نشر کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے ۔

امام خوئی کی اس بات پر الکافی و دیگر کتب کی روایات بھی دلالت کرتی ہیں ،چنانچہ الکافی میں امام جواد کی روایت ہے کہ ان سے  ان کے ایک شاگرد   محمد بن حسن نے پوچھا:

قلت لأبي جعفر الثاني : جُعلت فداك؛ إن مشايخنا رووا عن أبي جعفر وأبي عبد اللہ عليھما السلام وكانت التقيۃ شديدۃ، فكتموا كتبھم ولم يرووا عنھم، فلما ماتوا صارت الكتب إلينا. فقال : حدّثوا بھا فإنھا حق9

کہ میں  نے امام جواد سے پو چھا کہ ہمارے مشائخ نے امام باقر و امام جعفر صادق سے روایات  لیں ،جبکہ  سخت تقیہ کا زمانہ تھا ، تو انہوں نے اپنی کتب چھپائیں اور انہیں سر عام روایت نہیں کیا ،جب وہ مشائخ مرگئے ،اب وہ کتب ہمارے پاس ہیں ،تو امام نے کہا کہ ان کتب کی روایات بیان کرو ،کیونکہ وہ  سچی ہیں ۔

لہذا دور ِتدوین سے قبل اہل تشیع کا حدیثی ذخیرے اہل سنت کے حدیثی ذخیرے کی طرح کھلم کھلا تدریس،تعلیم ،مجالس حدیث اور درسگاہوں کی بھٹی سے نہیں گزرا۔

یہی وجہ ہے کہ شیعہ کی اولین کتاب الکافی ،جو اہل تشیع میں  اسی مقام کی حامل ہے ،جو  صحیح بخاری کو اہلسنت میں حاصل ہے ،الکافی کے مصنف محمد بن  یعقوب الکلینی کی اولین زندگی کی تاریخ مجہول ہے ،چنانچہ  معروف شیعہ محقق شیخ عبد الرسول عبد الحسن الغفار اپنی ضخیم کتاب "الکلینی و الکافی  "میں لکھتے ہیں :

"اطبقت المصادر القدیمہ و الحدیثہ  علی عدم ذکر سنۃ و لادتہ و مکان تولدہ و کم ھو عمرہ ،حیث ان حیاتہ و نشاتہ الاولی مجہولۃ10

 یعنی قدیم و جدید مصادر  متفقہ طور پر کلینی کا سن ولادت ،مکان ولادت اور عمر کے ذکر سے خالی ہیں ،کیونکہ آپ کی زندگی  کا اولین دور اور نشو ونما    نامعلوم ہے ۔

سن ولادت کا معلوم نہ ہونا  قابل تعجب نہیں ،کہ کئی کبار علماء کے سنین ولادت بوجوہ  نا معلوم ہوتے ہیں ، لیکن  جائے ولادت  اور زندگی کی اولین نشو و نما کا نامعلوم ہونا حد درجہ  باعث استعجاب ہے ،کہ  اپنے دور کے سب سے بڑے محدث ،جنہوں نے سولہ ہزار شیعی روایات کو مدون کیا ،ان کی زندگی کی اولین تاریخ ہی نامعلوم ہے ۔

 یہ معاملہ صرف شیخ کلینی تک محدود نہیں ہے ،بلکہ ان کے والد (جو اہل تشیع کے نزدیک اکابر علمائے شیعہ میں سے تھے ) ان کے احوال بھی غیر معلوم ہیں ،چنانچہ   مصنف آگے جاکر لکھتے ہیں :

"و الشیخ الکلینی ہو احد  اولئک العلماء التی ضاعت اخبارہ، و لم تصل الینا عن نشاتہ و حیاتہ العلمیہ فی مراحلہا الاولی الا النزر القلیل، بل و حتی والدہ یعقوب بن  اسحاق الکلینی  الذی حالیا لہ مقبرۃ و مزار عام فھو الاخر لم یحدثنا التاریخ عن سیرتہ بالتفصیل 11

یعنی صرف شیخ کلینی کے ہی  اولین احوال نامعلوم  نہیں ہیں ،بلکہ ان کے والد  یعقوب بن اسحاق ،جن کا مقبرہ آج کل مزار عام ہے ،ان کی سیرت کے بارے میں تاریخ ہمیں زیادہ تفصیلات نہیں بتاتی ۔

یہاں بجا طور پر سوال ہوتا ہے کہ جن کے والد و خاندان کے احوال نامعلوم ہیں ،اور خود ان کی ابتدائی زندگی پردہ خفا میں رہی ، ان کی لکھی ہوئی کتاب کا  علمی و تحقیقی اعتبار سے کتنا وزن ہوگا ؟یہ قضیہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے، جبکہ اس کے برخلاف  امام بخاری ،امام بخاری کے والد اسماعیل  کے نہ صرف اپنے احوال روز ِروشن کی  طرح معلوم ہیں ،بلکہ ان کے آباء و اجداد   میں سے اولین اسلام لانے والے   کے احوال بھی معلوم ہیں ۔

امام کلینی کی اولین زندگی  ہی مجہول نہیں ،بلکہ ان کے اسفار علمیہ کابھی کوئی تذکرہ کتب تاریخ میں نہیں ملتا، چنانچہ      شیخ عبد الحسن عبد الغفار  شیخ کلینی کے اسفار کے بارے میں علمائے شیعہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

"اما متی جاء الی بغداد و متی رحل الی غیرہا و الی ای مدینۃ سافر ،کل ذلک یبقی فی طی الغموض 12

یعنی کلینی کب بغداد آئے ،کب  اور کس شہر کی طرف اسفار کئے ،یہ سب امور پردہ خفا میں ہیں ۔

اس موقع پر ایک وضاحت کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اہل تشیع کے معاصر محققین  الکلینی  کو اپنے زمانے کے ایک معروف شیخ ثابت کرنے کے لئے  اہل سنت کے کتب تراجم میں سے کلینی کے احوال نقل کر کے لکھتے ہیں کہ اگر شیخ کلینی  اپنے زمانے کے ابتداء ہی سے ایک معروف  شخصیت نہ ہوتی تو مخالف فرقہ کے اہل علم میں ان کی شہرت کیسے پہنچتی ؟لیکن اس کا جواب  یہ ہے کہ شیخ کلینی کا تذکرہ  ان کے ہم عصر اہل سنت علماء کی کتب میں نہیں  ملتا ،چنانچہ شیخ عبد الحسن الغفار لکھتے ہیں :

و بعض من عاصر الکلینی فی بغداد او فی غیرہا قد اھملوا ترجمتہ کالخطیب البغدادی، و السمعانی و یاقوت و ابن الجوزی و امثالہم 13

کہ کلینی کے بعض معاصرین جیسے خطیب بغدادی ،علامہ سمعانی ،یاقوت حموی اور ابن جوزی جیسے حضرات نے کلینی کا ترجمہ تحریر نہیں کیا ۔

اس لئے محقق مذکور کی رائے یہ ہے کہ کلینی اہل سنت کے علماء میں اسی وقت معروف ہوئے ،جب وہ اہل تشیع میں مشہور ہوئے ،لکھتے ہیں :

ان الکلینی ما اشتہر عند المذاہب الاسلامیہ الاخری الا بعد ما  ا شتہر عند الطائفۃ المحقہ 14

یہی وجہ ہے شیخ کلینی کا  تذکرہ ہمیں  چھٹی صدی ہجری کے ابن عساکر ،ساتویں صدی ہجری کے ابن اثیر اور آٹھویں صدی ہجری کے علامہ ذہبی کے ہاں ذرا تفصیل سے ملتا ہے۔

 احوال کے خفا کا معاملہ صرف شیخ کلینی کے ساتھ خاص  نہیں ہے ،بلکہ اولین دور کے شیعہ محدثین میں تقریبا سب کا یہی معاملہ ہے ،کہ ان کی علمی زندگی کی زیادہ تفاصیل نہیں ملتیں ،چنانچہ  مرکز بحوث قم سے الکافی کا محقق شدہ نسخہ ،جو محققین کی ایک جماعت کی تحقیق کے ساتھ چھپا ہے ،اس کے ضخیم مقدمے میں کتاب کے محققین لکھتے ہیں :

"ھنا الکثیر من الا مور الغامضہ فی الحیاۃ الشخصیہ لعباقرہ الشیعہ ،لم تزل طرق البحث موصدۃ امام اکتشافہا، لعدم وجود ما یدل علی تفاصیل تلک الحیاۃ خصوصا بعد حرق مکتبات الشیعہ  فی القرن الخامس الہجری 15

یعنی شیعہ کے اکابر ین کی زندگیاں بوجوہ پردہ خفا میں ہیں ،اس راز کو کھولنے میں ابھی تک بحث و تحقیق کے دروازے بند ہیں ،کیونکہ ان زندگیوں پر دلالت کرنے والا مواد موجود نہیں ہے ،خصوصا پانچویں صدی میں شیعہ مکتبات کو جلانے کے بعد یہ مواد ختم ہوگیا ۔

وجہ جو بھی ہو ،کم از  کم اتنی بات ثابت ہے کہ پانچویں صدی سے پہلے کے  اکابر محدثین کے احوال پردہ خفا میں ہیں ،جن میں سر فہرست ا ولین  اور سب سے معتمد مصد ر کے مصنف الکلینی کے احوال  ہیں ۔

اس ساری تفصیل سے  معلوم ہوا  کہ اہل تشیع کے ہاں  حدیث کی تعلیم و تعلم ،حلقات  درس ِحدیث اور مجالس   حدیث کی اس روایت کا نام و نشاں نہیں ملتا ،جو اہل سنت کے قبل از مانہ تدوین  کا خا صہ رہا ہے ،جس میں محدثین کے اسفار اور ان کی علمی درسگاہوں  کا بالتفصیل   تذکرہ موجود ہے ۔اسی وجہ سے اہل تشیع کے اکابر محدثین کی علمی نشو نما اور اسفار کے احوال  نامعلوم ہیں کما مر ۔


حواشی


(۱)  یہاں سنت کا لفظ  مستقل تشریعی ماخذ کے پس منظر میں بولا جارہا ہے ، ورنہ توسعا اہل سنت کے ہاں حدیث و اثر یا سنت کا اطلاق خلفائے راشدین کے اقوال پر بھی ہوجاتا ہے ۔لیکن یہ اطلاق محض مجازی اور قول الرسول کے تابع ہے ۔تشریع کا مستقل  اور واجب الاتباع ماخذ سنت بمعنی قول ،فعل او تقریر الرسول ہی ہے ،فافہم

(۲)  نظریۃ  السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی ،ص 24

(۳)  اصول الفقہ للمظفر ،55/2

(۴)  نظریۃ عدالۃ الصحابہ،ص77

(۵)  کلیات فی علم الرجال ،ص494

(۶)  ان میں سے اگر ان صحابہ کو نکال لیا جائے ،جن کی صحبت مختلف فیہا ہے  ،تو تعداد اس سے کم بنتی ہے ۔

(۷)  البدایہ و النھایہ ،دار ھجر للطباعہ و النشر ،قاہرہ ،360/8

(۸)  مذکورہ تعداد مقالہ نگار نے خود ان کتب کی پہلی جلدوں کے تمام صفحات کا بالا ستیعاب جائزہ لینے کے بعد   نکالی ہے ۔

(۹)  الکافی ،1/53

(۱۰)  الکلینی و الکافی ،ص123

(۱۱)   الکلینی و الکافی ،ص 159،160

(۱۲)  ایضآ ،ص 162

(۱۳)  ایضآ ،ص165

(۱۴)  ایضا،ص 164

(۱۵)  الکافی ،31/1

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(جون ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter