مدینۃ العلم قطر میں چھ دن ۔ (مدرسہ ڈسکورسز کے ونٹر انٹنسو ۲٠۱۹ء کی روداد)

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

گزشتہ سال بھی مدرسہ ڈسکورسز کا ونٹرانٹینسِو (winter intensive) قطرمیں رکھا گیا تھا اور جامعہ حمدبن خلیفہ ہی نے اس کی میزبانی کی تھی، اس میں راقم شریک نہ تھا۔اب کی باربھی ہمارے انٹینسِوکی ضیافت جامعہ حمدبن خلیفہ نے قبول کی تاہم اِس بارپروگرام کی نوعیت تھوڑی مختلف یوں تھی کہ بجائے مختلف موضوعات پر باہرسے ماہرین کو بلانے کے، اس سال یہ نظم کیاگیاتھاکہ مدرسہ ڈسکورسز کے سال سوم (تحقیق ورسرچ)کے طلبہ اپنے اپنے رسرچ پیپیرزکی پرزینٹیشن دیں گے۔ان کے پیپرزیاان کے خلاصے تمام شرکاءکوپہلے ہی بھیج دیے گئے تھے تاکہ وہ ان کوپڑھ کر،سمجھ کر اور تیارہوکرآئیں اوران موضوعات پر بحث ومباحثہ کی محفل جمے ۔ اس سے تحقیق کاروںکوفیڈبیک ملے گااورشرکاءان پربحث وتحقیق کے نئے گوشوں سے آشنائی حاصل کرسکیں گے ۔

مدرسہ ڈسکورسزنوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاداور بین الاقوامی شہرت کے حامل معروف اسکالرپروفیسرابراہیم موسیٰ کی قیادت میں ایک تین سالہ آن لائن کورس ہے جومدارس کے فارغین کے لیے جاری کیاگیاہے۔ پہلے سال میں اسلامی علمی ورثہ سے منتخب متون پڑھائے جاتے ہیں، دوسرے سال میں سائنس لٹریسی پر فوکس کیاجاتاہے اورتیسرے سال کے طلبہ کسی ایک موضوع پر رسرچ کرتے ہیں۔سال میں دوبارسردی اورگرمی کی چھٹیوں میں اس کے ہفت روزہ یاپندر ہ روزہ تربیتی پروگرام ہوتے ہیں جوزیادہ تربیرون ملک رکھے جاتے ہیں۔ہمارایہ انٹینسوبھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا۔ ہم لوگ مقامی ٹائم کے مطابق ۳ بجے دن میں دوحہ کے اپنے مستقرپہنچ گئے تھے ۔ ہماراقیام الفندق، الغرافہ (ہوٹل پریمئر ان ) میں تھاجوقطرایجوکیشن سٹی میں ہی واقع ہے۔

پروگرام کا نظم یوں تھاکہ مدرسہ ڈسکورسز کے چاروں لیڈفیکلٹی پروفیسرابراہیم موسی ٰ،مہان مرزا، مولانا عمارخان ناصر اور ڈاکٹروارث مظہری کے رسرچ گروپوںمیں سے ہرایک کوایک ایک دن دیاگیا۔پہلے چار مقالے پیش ہوتے۔ہرمقالہ پر خاصاڈسکشن ہوتا۔اس کے بعددوپہرکی نشستوں میں تمام شرکاءکوچارگروپوںمیں تقسیم کر دیا  جاتا اور صبح کے مباحثہ میں سامنے آئے سوالات پر مزیدتنقید،تنقیح اوربحث ہوتی ۔چاربجے تک پروگرام ختم ہو جاتا۔ اس کے بعدرات میں دوسرے دن کی ریڈنگ کی تیاری کی جاتی۔ سیمینارکی شکل یہ تھی کہ پہلے مقالہ نگار سلائڈ اور پروجیکٹرکی مددسے دس سے پندرہ منٹ میں اپنے پیپرکا خلاصہ بیان کرتااوراہم نکات شرکاءکے سامنے رکھتا۔ پھر تقریبا ۲٠ منٹ اس پر شرکاءسوال جواب کرتے اورکھلامباحثہ ہوتا۔ڈسکشن کی زبان اردواورانگریزی تھی۔شرکاءہندوپاکستان کے علاوہ نوٹرے ڈیم سے آئے تھے جوکل ملاکرپچاس  طلبہ وطالبات سے زایدتھے۔

سب سے پہلے مولاناعمارخان ناصر کے رسرچ گروپ نے پرزینٹیشن دی۔اس میں حافظ عبدالرحمان نے کلامی مسائل میں مختلف مکاتب فکر کے تاویل کے اصول ومناہج پرروشنی ڈالی ۔انہوں نے بتایاکہ تاویل کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ زبان کے معانی مختلف ہوتے ہیں۔ لفظ کا ایک معنی لفظی اورظاہری ہوتاہے اورایک معنوی ومجازی۔ پھرمتن خبریاانشادوطرح کاہوتاہے۔ انشاءیعنی احکام میں چونکہ عمل کا مطالبہ ہے، اس لےے اس میں تاویل جائز ہے، مگرخبرمیں تاویل جائز نہیں۔ یہ محدثین کا مسلک ہے ۔اس کے مقابلہ میں متکلمین کا مسلک تاویل کا ہے ،پھرمتکلمین کے کئی گروپ ہوجاتے ہیں مثلاً معتزلہ ،اشاعرہ ماتریدیہ وغیرہ ۔یہ توماضی کا قصہ ہوا،آج اِن کلامی مباحث سے ہمیں کیامددمل سکتی ہے، اصل سوال یہ ہے۔اس پر ابھی شایدحافظ صاحب آگے کام کریں گے ۔

زیدحسن کے مقالہ “شریعت وتمدن کا باہمی تعلق ،شاہ ولی اللہ کے افکارکی روشنی میں” میں یہ بات کہی گئی کہ شرائع کی اساس تمدن پر رکھی جاتی ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ کا نظریہ ہے اوراس بات پر فوکس کرکے ان سے پہلے شایدکسی نے اس چیزکوبیان نہیں کیا۔شاہ صاحب اپنے فلسفیانہ ذہن سے خدا، انسان اورمعاشرہ ان تینوںکو دیکھتے ہیں اوراپنے نظریہ کی بنیادرکھتے ہیں۔شاہ صاحب کے مطابق انسان عام حیوانوںکی طرح کام نہیں کرتابلکہ کسی کام کے کرنے کے عام اصول رکھتاہے۔ مثلاًوہ مستقبل کے بارے میںسوچتا ہے، عام حیوان نہیں سوچتے ۔اس کے کام میں لطافت وحسن ہوتاہے ۔ ان سب کے مجموعہ کورائے کلی کہتے ہیں اوررائے کلی پر مبنی عملی اصولوںکوشاہ صاحب سنت راشدہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ شاہ صاحب کے نزدیک مذکورہ اصولوںکی حفاظت کے لیے اللہ نے شریعت نازل کی ہے۔دین وشریعت میں فرق عام وخاص کا ہے۔البتہ مابعدالطبیعا ت اورامورتعبدیہ ارتفاقات (تمدنی امور)سے الگ ہیں۔

شاہ صاحب کا ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ شریعتوںکی تشکیل انسانی عادا ت ومالوفات پر ہوتی ہے۔اب اس پر سوال اٹھتاہے کہ شریعت کولوگوں کے مزاج وطبیعت پر مبنی مان لیاجائے تواگرمزا ج وطبیعت بدل جائے توکیااحکام بدل جائیں گے ؟اگرایساہے توپھراسلام آخری شریعت کیسے ہوا؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اصول توشاہ صاحب نے یہ بنادیامگروہ خودبھی جزوی احکام کی تشریح روایتی طورپر (اسلام کوابدی مان کر)ہی کرتے ہیں۔ اس کی توجیہ کیاہے ؟

مولاناوقاراحمدنے حدودوتعزیرات کی ابدیت اوربدلتے حالات میں عملی صورتیں کے عنوان سے مولانا عبیداللہ سندھی کے افکارکا مطالعہ پیش کیا۔ مولاناسندھی نے روایت سے ہٹ کرلیکن روایت کے اندررہتے ہوئے کام  کیااورشاہ ولی اللہ کے فکرکی تشریح کی۔تجدیدکے حاملین میں وہ یوںمختلف ہیں کہ وہ حدیث کوردنہیں کرتے بلکہ اس کی نئی توجیہ پیش کرتے ہیں۔مولاناکی رائے یہ ہے کہ موطااہل مدینہ کا قانون ہے اوربخاری ومسلم وغیرہ اس کی شرحیں اوراس پر اضافے ہیں۔مولاناسندھی کا کہناہے کہ بنیادی قانون قرآن میں دے دیاگیاہے، تفصیلی قانون انسان خودمرتب کرے گا اوراس میں غلطیوں کا امکان ہے جس کواللہ معاف کردے گا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حدودعادی مجرموں کے لیے ہیں۔ان میں حالات کی تبدیلی سے تبدیلی کی جاسکتی ہے اوراسی طرح زکوة کے نصابات میں بھی ۔مختلف سوال وجواب کی روشنی میں بظاہرایسامحسوس ہواکہ مولاناسندھی کے خیالات منضبط اصولوں پر مبنی نہیں ہیں۔لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ علما مصلحین کے طبقہ میں مولاناسندھی جیسے اوریجنل فکررکھنے والے اورزمانہ سے آگے دیکھنے والے مفکرین شاذونادرہیں۔المیہ یہ ہواکہ روایتی علمانے ان کی فکرکوبالکل مستردکردیا۔اب پاکستان میں ان پر کام ہورہاہے۔

مولانا عمار خان ناصر کے مقالہ“مسلم قومی ریاستوں میں غیرمسلموں کے آئینی حقوق” میں جوچنداہم باتیں سامنے آئیں، وہ یہ ہیں : غیرمسلموںکی حیثیت کے بارے میں مسلمان جوکچھ لکھ رہے ہیں، وہ زیادہ ترفقہی اسلو ب میں لکھتے ہیں۔ماڈل ہم جدیددورکا لیتے ہیں اور جزئیات فقہی نظائرسے لے لیتے ہیں۔حالانکہ سسٹم کوسسٹم کے سامنے رکھ کردیکھیں تو اسلامی نظام اورغیراسلامی نظام دونوںمیں(جزئیات کے اعتبارسے )کچھ مماثلت کے باوجودکلی طورپر بنیادی سطح کا اختلاف ہے۔ ذمہ کا معاہدہ اورشہریت یہ دونوں بالکل الگ الگ چیزیں ہیں، دونوں کو الگ رکھناچاہیے۔ فیملی لازاورحدودکے مسائل (روایتی فکرمیں )قطعی اصولوں پر مبنی بتائے جاتے ہیں۔ البتہ سیاسیات کے بارے میں بہت سے علمایہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسلام نے کسی ماڈل کا پابندنہیں کیا۔ کچھ ضروری اصول دے دیے ہیں، باقی سب چیزیں اجتہادی ہیں۔یعنی اس ضمن ہمیں جوماڈل ملاہے، اس کا ابدی ہونامطلوب نہیں۔ ایک اخلاقی سوال یہ بھی ابھرتاہے کہ چالیس فیصدمسلمان آج غیرمسلم ملکوںمیں رہتے ہیں۔ اگرمسلم ممالک میں غیرمسلموں کواہل الذمہ قراردیاجاتاہے تو آج مسلمان کس منہ سے سیکولرملکوںمیں اپنے لیے انسانی حقو ق طلب کریں گے؟ مقالہ سے ایک اہم نکتہ یہ نکل کرسامنے آیاکہ تاریخی طورپر غیرمسلموں کو مناصب دینے اوران سے کام لینے کے مسئلہ میں مسلمان حکمرانوں اورفقہاءکے مابین ایک کشمکش اور نزاع نظرآتی ہے۔مولاناعمارصاحب نے رائے دی کہ حکمرانوں کے تعامل کوبھی نظائر میں شمار کیا جانا چاہیے۔ راقم اس رائے سے کلی طورپر متفق ہے کیونکہ یہ عملی مسئلہ ہے اورعملی مسائل میں اہل حل وعقداورحکمران علماءکے مقابل کہیں زیادہ صائب الرائے واقع ہوئے ہیں۔فقہاءاورعلما فقہی جزئیات میں پھنس کرجاتے ہیں جبکہ ارباب حل وعقدعملی مسائل ومصالح کی بنیادپر فیصلہ کرتے ہیں۔جزئیات سے چمٹے رہنے کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلاہے کہ اسلام کی مبنی برنصوص سیاسی فکرمیں کوئی ارتقاءنہیں ہوااورماوردی وابن خلدون سے آگے بڑھ کرانسانی تجربات پر مبنی کوئی سیاسی فکرسامنے نہیں آسکی ہے۔

دوسرے دن پروفیسرماہان مرزاکے رسرچ گروپ نے میدان میں مورچہ لیا۔ اس کے سورماﺅںمیں شہزاد حسین نے نظریہ ارتقاءکے سلسلہ میں علماءدیوبندکاموقف بتایااوراس پرسخت تنقیدکی ۔اس سلسلہ میں انہوں نے فتاوی کی کتابوں سے جومواداستعمال کیا، وہ بڑاخام قسم کا تھا۔اس سلسلہ میں اصل کام مولاناوحیدالدین خاں کا ہے جن کی کتاب’ مذہب اورجدیدچیلنج،‘مذہب اورسائنس‘ اور’اظہاردین ‘میں سائنسی موضوعات پر وسیع مطالعہ کی روشنی میں اظہارخیال ملتاہے اورانہوں نے ریشنل بنیادوں پر ارتقاءکومستردکرنے کی کوشش کی ہے۔روایتی علما اورمفتیان نے سائنس کے بارے میں چندمفروضات سنی سنائی باتوں پر قائم کرلیے ہیں، اس لےے ان کی کتابوں یافتاوی میں اس کے بارے میں کوئی کام کی بات موجودنہیں ۔شہزاد حسین نے البتہ عالم عرب کے بارے میں بتایاکہ وہاں ارتقاءوغیرہ کے بارے میں اتناتوحش یابے خبری نہیں پائی جاتی جتنی برصغیرمیں پائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے ارتقاءکے بارے میں مثبت رائے دی تھی اوراپنے خطبات بہاولپورمیں ایک جگہ بتایاہے کہ مسلم فلاسفراورصوفیاءکے ہاں یہ تصورکسی نہ کسی شکل میں پایاجاتاہے، اس کے لیے انہوں نے ابن مسکویہ کا حوالہ دیاہے۔

دوسرے انقلابی تحقیق کاروقاص احمدنے تاریخ عظیم The Big History کا تعارف کرایااوربتایاکہ کس طرح اس سے پورا ورلڈویو تبدیل ہوکررہ جاتا ہے اورمذہب کے سامنے کیساشدیدچیلنج پیداہوجاتاہے۔ ان کے مطابق تاریخ عظیم، ارتقاسے بھی آگے کی چیز ہے اوراس سے مذہب کی جڑبنیادہی ختم ہوکررہ جاتی ہے۔تاہم اس پر راقم کا سوال یہ ہے کہ تاریخ عظیم کی بنیاد Big Bang  تھیوری ہے ۔سائنس کے نزدیک کائنا ت کی پیداپش بگ بینگ کے ذریعہ تقریبا 13بلین سال پہلے ہوئی ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ انفجارعظیم کس نے کیا، یہ کیوںکرہوا، یہ اسی وقت کیوں ہوا، اس سے پہلے یابعدمیں کیوں نہیں ہوا؟سائنس کہتی ہے کہ اندھے قوانین فطرت کے مطابق خودبخودہوا۔ مذہب کہے گاکہ خدانے کیا۔اسی طرح سائنس اس سوال کا جواب بھی نہیں دیتی کہ قوانین فطرت کس نے بنائے اوران کوکون حرکت دیتاہے؟سائنس کہے گی کہ یہ قوانین خودنیچرکے اندرسے برآمدہوئے، مذہب کہے گاکہ خدانے بنائے۔ اس لیے مجھے ایسالگتاہے کہ تاریخ عظیم وغیرہ سے متوحش یاخوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

محمد تہامی بشرعلوی نے اپنے معنی خیز پیپر“سائنسی دوراورمذہبی بیانیے” میں اب تک پیش کیے گئے مذہبی بیانیوں اوران پر واردہونے والے اشکالات کا جائزہ لیا۔ان کے مطابق مذہبی متون کی تعبیرمیں جومناہج اختیار کیے گئے، ان میں ایک یہ ہے کہ متن کوکثیرالمعانی جان کرلغت کے اشتقاقات کی بنیادپر معنی متعین کیاجائے ۔یہ منہج غلام احمدپرویزنے اختیارکیااوراس پر سب سے بڑااعتراض تویہی واردہوتاہے کہ اس میں بغیرکسی دلیل کے لغت کے واضح اورمتبادرمعنی کوچھوڑکرغیرمتبادرمعنی کی طرف جایاجاتاہے جس کی کوئی بنیادنہیں ہے۔دوسرامنہج سرسیدکا ہے کہ معنی تک رسائی  میں انسانی علم کا ارتقا تسلیم کیاجائے اورجس زمانہ میں رائج علم کے مطابق جو معنی فٹ بیٹھے، اس کوقبول کرلیاجائے ۔انسانی علم وتجربہ بڑھے گاتوواحددرست معنی بھی سمجھ میں آجائے گا۔یہ منہج پہلے سے بہترہے، مگراشکالات سے خالی نہیں۔اس میں فرض کیاجاتاہے کہ ورک آف گاڈاورورڈ آف گاڈ میں تضادنہیں ہوسکتا، اس لیے ورڈ آف گاڈکوورک آف گاڈ کے مطابق سمجھاجائے گا۔سوال یہ ہے کہ اس کے الٹ کیوں نہیں ہوسکتاکہ ورک آف گاڈکو ورڈ آف گاڈ کے مطابق سمجھاجائے جیساکہ روایتی علماءکہتے ہیں؟ 

ایک منہج یہ ہے کہ صریح عقل اورصریح نقل میں تعارض نہیں ہوگا۔ یہ مولاناتھانوی کا نقطہ نظرہے۔ انہوں نے اس کی چارصورتیں بیان کی ہیں۔البتہ آج تاریخ عظیم اورارتقاءکوتسلیم کرلینے کے بعدعقل ونقل میں تعارض پایاجا رہا ہے تو اس کوکیسے دورکیاجائے گا؟اس سوال کا کوئی جواب اس نقطہ نظرکے پاس نہیں ہے۔ایک بیانیہ یہ ہے کہ سائنس اورمذہب دونوںکا مقصداوردائرہ کارالگ الگ مان لیاجائے ۔یہ مولاناانورشاہ کشمیری کی رائے ہے۔ ایک بیانیہ ڈاکٹرفضل الرحمن کا ہے کہ سامعین کے شعورکی جوسطح تھی، اس کوسامنے رکھ کرایک بات مذہبی متن میں کہہ دی گئی ۔اس تعبیرکومان لینے کے نتیجہ میں کائنات کی تفہیم سائنس سے ہوگی، مذہب سے نہیں ہوگی ۔بلاشبہ فضل الرحمن کے ہاں جدیددورکا گہراادراک پایاجاتاہے مگریہ سارے بیانیے اشکالات سے خالی نہیں۔ ان پر غوروفکرکا سلسلہ جاری رہناچاہیے۔البتہ راقم کا رجحان ابھی تک مولاناانورشاہ کشمیری کی رائے کی طرف ہے، بلکہ کشمیری اورفضل الرحمن کی رایوںمیں مطابقت دی جاسکتی ہے۔

اگلی مقالہ نگارمریم مدثرکی غیرموجودگی میں سمیراربیعہ نے ان کامقالہ پیش کیاجس میں بتایا گیا تھا کہ علاج اور enhancement میں فرق یہ ہے کہ موخرالذکرمیں انسان کی صلاحیت کوفطری حدسے بڑھا دیا جاتا ہے۔ مثلاً اس کی نیند میں کمی لائی جاسکتی ہے، اس کی اغلاط کی شرح میں کمی آئے گی ،اس کے فہم میں اضافہ ہوگا، جنین کی بیماریوں کو ختم کیا جا  سکے گا، بولنے اور یاد رکھنے کی صلاحیتیں بڑھیں گی، نیوروسائنس میں اس سے کام لیاجاسکتاہے۔ مثلا 3 D پرنٹنگ ترکیب سے انسانی دماغ میں مطلوبہ تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ پہلے صحت ومرض کا تصوریہ تھاکہ اگر کوئی بیمارنہیں ہے تووہ صحت مند سمجھاجاتا تھا، مگر آج انسان صحت مندتب سمجھاجائے گا جب بیماربھی نہ ہواوروہ اپنے معاشر ہ میں فٹ ہوجائے اورخوش رہ سکے ۔مقالہ بڑامعلوماتی تھااوراس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ سائنس اور خصوصاً میڈیکل سائنس اب کس رخ پر جانے والی ہے اور اس سے انسان کے مستقبل پر کیا مثبت ومنفی اثرات پڑیں گے۔

پروفیسر مہان مرزا کا مقالہ Egalitarian Turn as Copernican Revolution: Theorizing Continuity and Change in Islamic Theology and Law کے موضوع پر تھا۔  اس اہم مقالہ میں کہاگیاکہ ہمیں اپنی روایت کومحبت کے ساتھ لینے کے ساتھ ہی اس پر تنقیدکا عمل بھی جاری رکھنا چاہیے۔ان کا سوال تھاکہ کیااسلامی قانون میں تبدیلی اورcontiniuty برابرجاری رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے بتایا  کہ ارسطوکے ورلڈویومیں نالج کی تشریح الگ تھی، آج اس کا تصوربالکل بدل چکاہے۔ماہان صاحب کے مقالہ کا خلاصہ یہ تھاکہ کسی قوم کی تھیولوجی موجودہ دورکی Cosmology کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ارسطوکے ورلڈویوکے مطابق فقہاءنے معاشرت وغیرہ کے جواحکام مرتب کیے، ان کے جوجوازہم دیتے آئے ہیں، وہ اب کام نہیں کریں گے کیونکہ اب ورلڈویوتبدیل ہوچکاہے۔ انہوں نے بتایاکہ کیشا علی کے مطابق خود قرآن سے ایسے اصول مل سکتے ہیں جن سے جدیدیت کے مسائل حل کیے جاسکیں۔سائنس کے مفکر تھامس کہن ( Kuhn)کہتے ہیں کہ جب روایت سے مختلف آراءاتنی زیادہ ہوجائیں کہ ان کونظراندازکرنامشکل ہوجائے تو پھر بحران پیداہوجاتاہے اوربحران سے نکلنے کے لیے ایک کلی تبدیلی( paradigme shift)کی ضرورت ہوتی ہے۔

مہان صاحب کہتے ہیں کہ آج ہماری روایت بھی بحران سے گزررہی ہے، اس لیے پیراڈائم شفٹ کی ضرورت ہے۔تاہم اس پوزیشن پر سوال یہ بنتاہے کہ سائنسی حقائق اوردینی حقائق دونوں یکساں کیسے ہوسکتے ہیں اوردونوںمیں ایک ہی طرح کے tools کیسے استعمال کیے جاسکتے ہیں؟زیادہ صحیح پوزیشن یہ معلوم ہوتی ہے کہ سائنس کی بنیادپر مذہب کوثابت نہیں کیاجاسکتااورنصوص کی سائنٹیفک اصولوں پر تاویل سے مذہب اورسائنس دونوں کے ساتھ انصاف نہ ہوسکے گا۔کیونکہ جیساکہ غامدی صاحب کہتے ہیں، سائنسی حقائق مذہب کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔مذہب کا مسئلہ انسان کا تزکیہ نفس،آخرت کی تذکیراوراخلاق کی تطہیرہے۔ہاں، جب مذہب کوساری زندگی پر پھیلایا جاتا ہے جیساکہ دین کی سیاسی تعبیرکے حاملین کرتے ہیں تواس میں عقل کے کردار کی نفی ہوجاتی ہے اور لاینحل مسائل پیداہوتے ہیں۔

انٹینسِوکے تیسرے دن ڈاکٹروارث مظہری اوران کی ٹیم نے اپنے مقالے پیش کیے۔ وارث مظہری صاحب کے ریسرچ پیپرکا عنوان تھا: ’’قرآنی نصوص کی تاویل کا مسئلہ ابن رشدکے حوالہ سے“۔ انہوں نے تاویل کے قدیم مناہج سے یکسرمختلف جدید منہج کا جائزہ لیاجو آج کے ماڈرنسٹوں کا ہے۔اس کے نمائندہ نام ہیں: نصر حامد ابوزید،حسن حنفی،محمدشحرور وغیرہ۔یہ منہج اس کا قائل ہے کہ قرآن کی ازسرنوقراءت عہدجدیدکے ذہن کوسامنے رکھ کرکی جائے۔یہ منہج قدیم روایت کوپوری طرح مسترد کرتا ہے۔ ڈاکٹر وارث کا کہنا تھاکہ ماڈرنسٹوں کی یہ مستردکرنے والی فکرتوصحیح نہیں البتہ قدیم وجدیدکے درمیان ایک درمیانی منہج ابن رشدکا ہوسکتاہے۔ اس کے بعدانہوں نے ابن رشدکے منہج کا تفصیل سے جائزہ لیا۔راقم کا اس پر سوال یہ ہے کہ ابن رشدبنیادی طورپر ارسطوکے مقلداورشارح ہیں۔آج جبکہ ارسطوکا ورلڈویومستردہوچکاہے توہم ان کے منہج کوکس طرح follow کرسکتے یااس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟

محمدفرقان نے اپنے پیپرمیں احترام انسانی Human Dignity  کے تصورکا جائزہ لیا۔انہوں نے بتایاکہ تھامس اکویناس کے خیال میں گنا ہ کی وجہ سے انسان کا احترام جاتارہتاہے۔بدھ ازم میں احترام انسان ،حیوان اورشجروحجرسب کوحاصل ہے ۔اسلام میں امام شافعی اس کواسلام سے جوڑتے ہیں اورغیرمسلم کے لیے احترام نہیں مانتے، جبکہ آلوسی اورامام ابوحنیفہ اس کوعام رکھتے ہیں،ان کے ہاں یہ نیک وبدمسلمان غیرمسلم سبھی کوشامل ہے۔اسلامی تاریخ اورفقہ میں احترام انسانی کی خلاف ورزیوں کی جومثالیں ملتی ہیں، ان کے بارے میں تحقیق کا رکا کہنا تھا کہ یہ ہوئی ہیں اوران کا اعتراف کرناچاہیے، مگراس کا ذمہ داراسلام نہیں، خودمسلمان ہیں۔

غلام رسول دہلوی نے حنفی فقہ کے پس منظرمیں بلاسفیمی لایااہانت رسالت کے قانون (پاکستا ن )کا جائزہ لیا۔ حقیقت میں یہ بڑا حساس اورنازک ایشوہے جس کوپاکستان کے علما ،دائیں بازوکے دانشوروں اورسستی مذہبی صحافت نے ایک متشدد مسئلہ میں بدل دیاہے۔پاکستان کی بلااستثناءتمام مذہبی ودینی جماعتیں اورادارے کسی نہ کسی حیثیت میں اس حوالہ سے قوم کی صحیح تربیت کرنے میں بالکل ناکام رہے اوربہت سے تواس ایشوکواپنے مذموم سیاسی مقاصدکے لیے استعمال بھی کرتے رہے ۔انہوں نے یہ valid سوال اٹھایاکہ ہرہرجزئیے میں فقہ حنفی کا حوالہ دینے والے پاکستانی علما اس معاملہ میں اصل حنفی موقف سے روگردانی کرکے کیوں ابن تیمیہ ؒ کے موقف کواختیارکیے ہوئے ہیں؟ سوال اپنی جگہ درست ہے ،تاہم میرااحساس ہے کہ اس سلسلہ میں صرف فقہ حنفی یامقاصدشریعت کے حوالہ سے بات بننے والی نہیں بلکہ اس سلسلہ میں جتنی روایات آئی ہیں اورجوواقعات سیرت کی کتابوںمیں ملتے ہیں، ان کی تحقیق وتجزیہ درکارہے جوتحقیق کار نے نہیں کیا۔

 ریسرچ اسکالرمحمدعلی نے مشہوربریلوی عالم مولانااحمدرضاخاںبریلوی کا ایک اچھوتے زاویے سے مطالعہ پیش کیا۔ان کے پیپرکا حاصل یہ تھاکہ عشق رسول کا غلوآمیز تصورتوصوفیاءکے ہاںہمیشہ پایاگیا، مگروہ ان کاذاتی رجحان ہوتاتھا۔اس پر تنقیدبھی ہوتی تھی اوراس کے حامل بھی پائے جاتے تھے مگراس کومسلک بناکراس کا پرچار نہیں کیاجاتاتھا ۔مولانااحمدرضانے اس تصورکوفقہی اسلو ب میں ڈھال دیااوراب وہ دین وایمان کا اورعقیدہ کا مسئلہ بن گیا اور جو اس کونہ مانے، وہ کافرمتصورہوا۔

ونٹرانٹینسوکے پانچویں دن پروفیسرابراہیم موسیٰ کے گروپ نے اپنی جولانی طبع کا مظاہرہ کیا۔عادل عفان نے مختصراً ارتدادکی سزاپرنئے سرے سے غوروفکرکی ضرورت پر اپنے نتائج فکر پیش کیے۔ان کا خلاصہ تھاکہ قرآن کے مطابق ارتدادکی کوئی سزانہیں ہے۔تاہم بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ توایشوسے نہایت ظاہری اور سرسری سا گزرناہوا۔معاملہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں متعددروایات ثابت ہیں۔اکثرفقہاءکا اس پر اجماع ہے۔یعنی دوسرے لفظوںمیں کہاجاسکتاہے کہ اس میں تعارض ادلہ ہوگیاہے، کیونکہ قرآن تواس معاملہ میں واضح ہے اور تبدیلی مذہب کی کوئی سزانہیں بتاتا ہے مگرآثاروروایات میں نیزفقہاءکے اقوال اسلام کوچھوڑکرکوئی اورعقیدہ قبول کرنے کی سزاقتل قراردیتے ہیں ۔اگرحدیث کوبھی دین کا اساسی مصدرماناجاتاہے تواب ان تمام روایات واحادیث کوبھی address کرناپڑے گاجن میں مرتدکی سزاقتل بتائی گئی ہے۔

محمدبلال نے شان نزول کی روایتوں کا سہارا لے کر فہم قرآن میں تاریخ کے تناظرکے کردارپربات کی۔ ڈاکٹرفضل الرحمن ،آمنہ ودود اور نصر حامد ابوزیدنے تاریخ کے تناظرکی بات کہی ہے، مگرشان نزول کی روایتوں سے شایداس پر استدلال کرناخلط مبحث ہوگا۔

اس کے بعدمنظرامام نے“اسلام اور انسانی حریت ”پر ترکی میں Young Turks کے مخصوص عہدکے پس منظرمیں بڑی خوبی سے گفتگوکی۔ گفتگوزیادہ ترتھیوریٹیکل رہی۔ تھیوری کی حدتک بات نبھ جاتی ہے اورہم اسلام کے اس ضمن میں فضائل بیان کرلے جاتے ہیں،  مگرمسئلہ اصلاً عملی ہے۔سوال یہ ہے کہ اسلام غلامی کوختم کرنے آیا تھا(جیساکہ دعوی کیاجاتاہے )توپوری مسلم تاریخ میں غلامی کیوں جاری رہی؟ فقہاءنے اس کے احکام کیوں مرتب کیے؟مسلمانوں کے ادوارحکومت میں غلاموں کے باقاعدہ بازارلگتے تھے۔ نوجوان باندیوں کے چہرے، سینے اور پستان کھول کھول کردیکھے جاتے تھے تویہ کس قسم کا انسانی احترام تھااورکیسی حریت تھی ؟ اس کے علاوہ تمام فقہا اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ مرتدکوقتل کیاجائے گااورو ہ اس معاملہ میں محارب وغیرمحارب کا کوئی فرق نہیں کرتے۔ پھر یہ کہنے کی کیاتک بنتی ہے کہ اسلام حریت فکراورحریت اعتقادکا محافظ ہے؟ بہرحال یہ مسائل نہایت  غوروفکر اور جرات وہمت کاتقاضاکرتے ہیں۔

آخرمیں میر کارواں پروفیسرابراہیم موسی ٰنے اپنا پیپر پیش کیاجس کا عنوان تھا: Being and Knowing in an age of Contingency ۔ یہ پیپرفلسفہ وکلام کا آمیزہ تھااورروح ،دل ودماغ کے بارے میں جدیدمیڈیکل تحقیقات اوران کے اطلاقات کے فکری وفقہی نتائج سے بحث کرتا تھا۔ انہوں نے ابن عربی کے حوالے سے کہاکہ انسان کا وجودبھی کہیں نہ کہیں Divinity سے وابستہ ہے اوردونوںکوالگ کرکے نہیں سمجھا جا سکتا۔ پیپرکا خلاصہ یہ تھا کہ وحی پر ایمان کی وجہ سے ہم کسی نہ کسی طرح تقلیدپرمجبورہیں مگرہماری تقلید تغیرپذیر ہونی چاہیے۔ہم یہ تحقیق وجستجو کریں کہ موجوددورمیں کس طرح اپنی تھیولوجی کوموجودہ دورکی علمیات کے مطابق بنائیں۔ ہمیں دینیات میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سوشل سائنسزنیزنیچرل سائنسزکے tools استعمال کرنے ہوں گے ۔

پروگرام کے تمام دنوںمیں چائے کے وقفوںمیں، کھانے کی میزپر اورچلتے پھرتے پروفیسرابراہیم موسیٰ شرکاء سے گھلے ملے رہتے ،ان کے سوال پوری توجہ سے سنتے اوران کی علمی رہنمائی کرتے ،بس میں بیٹھے ہیں اور علمی ضوفشانی کا سلسلہ جاری ہوگیا!  

چھٹادن کالج آف اسلامک اسٹڈیز کے اساتذہ سے استفادہ اورانٹرایکشن کے لیے اورشرکاءکے تاثرات کے لیے رکھاگیا۔ اس میں معاصرقرآنی اسٹڈیز کے ماہر پروفیسرجوزف لمبارڈ ،مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے ماہرپاکستان کے ڈاکٹرمدثرعلی اورسری لنکا کے پروفیسردین محمدنے مختصراًخطاب کیااورشرکاءنے ان سے سوالات کیے۔ جوزف لمبارڈ نے جاپانی مفکرتوشیکوہیکو کے حوالے سے بتایاکہ قرآن کی اپنی خاص زبان ہے جس کی مثال دنیاکی کسی زبان میں نہیں۔ اس نے بعض الفاظ کومخصوص معانی دیے۔ مثال کے طورپر کفر جاہلی دورمیں اخفاء(چھپانے )کے معنی میں استعمال ہوتا تھا، مگرقرآن نے اس کوعدم ایمان باللہ کے معنی میں استعمال کیا۔ انہوں نے کہاکہ قدیم تفاسیرکے ساتھ ایک خاص مشکل یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی مکتب فکرکی وکالت میں لکھی گئی ہیں۔ڈاکٹرمدثرعلی نے مولانامناظراحسن گیلانی اوران کی کتاب الدین القیم پر روشنی ڈالی اوران کے تعلیمی نظریات سے آگا ہ کیا۔مولاناگیلانی کے مطابق تعلیم حصول معاش میں مددگارہونی چاہیے۔گیلانی نے اسلامی یونیورسٹی کا تخیل بھی پیش کیا تھا۔ پروفیسردین محمدنے ابن عربی کے حوالہ سے بتایاکہ ہماری روایت میں دینیات کے اندرخداکا تجربہ شخصی طورپر ہوتاتھا۔انہوں نے آیت کریمہ: افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فہو علی نور من ربہ (وہ شخص جس کے سینہ کو اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا، اسے اپنے رب کی طرف سے ایک نورحاصل ہے(زمر : ۲۲) کے حوالہ سے بتایاکہ ہماری روایت میں صوفی اس علی نور من ربہ کوبہت اہمیت دیتے ہیں۔

اس سیشن کے بعد ہندوپاک اورنوٹرے ڈیم کے تقریبا بیس  شرکاءنے مختصراً مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے اورچاروں اساتذہ نے بھی مختصرکلمات اداکیے۔ اپنے اختتامی کلمات میں پروفیسرابراہیم موسیٰ نے کہاکہ مدرسہ ڈسکورسز میں سوالوں کا جواب نہیں دیاجاتا بلکہ ذہن کوسوال کرنے اورخودجواب ڈھونڈنے کے لائق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ سوال کوسمجھنازیادہ اہم ہے۔اگرہم انفرادی سوالوں کا جواب دے کر بات ختم کر دیں تو مقصد فوت ہوجائے گا۔زیادہ اہم یہ ہے کہ انفرادی سوالوں کا جواب نہیں بلکہ جوتہذیبی چیلنج درپیش ہے، اس کے جواب کی تیاری کی جائے۔ کیونکہ آج مغربی انٹیلیکچول روایت کے مقابلے میں کوئی انٹیلیکچول روایت سامنے نہیں آرہی ہے۔ ہماری روایت میں بہت تنوع اور Diversity رہی ہے اورمدرسہ ڈسکورسزاسی روایت کے احیاءکی ایک کوشش ہے۔

اخبار و آثار

(فروری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter