ایمان والحاد اور فلسفہ ومذہب کی باہمی گفتگو میں عام طور پر ایمان کا تقابل عقل سے کیا جاتا ہے، اور یہ دونوں فریقوں کی جانب سے ہوتا ہے۔ تاہم ذرا غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقل اور ایمان کے تقابل کا مفروضہ منطقی طور پر غلط ہے، اس لیے کہ یہ دونوں انسانی شعور کے دو الگ الگ مراتب سے تعلق رکھتے ہیں۔ الحاد یا ایمان کا تعلق انسانی شعور کے اولین مرتبے یعنی اپنی وجودی حالت کے تصور سے ہے، جبکہ عقل کی فعلیت اس کے بعد شروع ہوتی ہے اور سرتاسر وجودی مفروضات کے تابع ہوتی ہے۔ وجودی مفروضات کے لحاظ سے ایمان یا الحاد میں سے کوئی بھی پوزیشن عقلی سطح پر قابل توجیہ ہو سکتی ہے۔
مذہبی ایمان کا مفروضہ انسان کا وجودی لحاظ سے لاچار اور محتاج ہونا، جبکہ جدید تصور انسان کا وجودی مفروضہ انسان کا خود مختار اور ہر لحاظ سے خود کفیل ہونا ہے۔ جدید انسان کو انسانی معاملات میں دخل نہ دینے والے خدا سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن فعال ومرید اور مطالبات رکھنے والا خدا اسے قبول نہیں۔
انسان کے محتاج یا مختار ہونے میں سے کوئی بھی مفروضہ عقلی قضیہ نہیں، بلکہ ایک نفسی حالت کا بیان ہے۔ نفسی حالت، احوال وجود کے عمومی اور ان کے تعلق سے ہیومن کنڈیشن کے خصوصی مشاہدے سے بننے والے تاثر سے تشکیل پاتی ہے۔ اس نفسی حالت میں طاقت کا احساس، چاہے وہ علم کی ہو یا تصرف کی، غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
ماقبل جدید انسان کو چونکہ طبیعی کائنات کے قوانین سے متعلق زیادہ علم حاصل نہیں تھا، اس لیے انسان کا اپنے متعلق عمومی وجودی مفروضہ احتیاج اور انحصار تھا جو ایمان کے لیے زیادہ سازگار تھا۔ اس کے مقابل وجودی مفروضے، یعنی انسان کی خود مختاری کا امکان بھی یقینا موجود تھا اور الحاد کی پوزیشن بھی بہت قدیم ہے، لیکن یہ عمومی انسانی شعور کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔ جدید انسان چونکہ احوال وجود کے علم اور ان میں تصرف کی بے پناہ طاقت سے لیس ہے، اس لیے خود مختاری کے وجودی مفروضے کو مختلف عقلی علوم کی مدد سے جدید تصور انسان پر غالب بنا دیے جانے کا امکان پوری طرح قابل فہم ہے۔
اس تجزیے سے واضح ہے کہ عقل کی فعلیت کے دائرے میں ایمان یا الحاد میں کسی کو بھی غیر عقلی کہنا غیر منطقی بات ہے۔ جدید تصور انسان میں انسانی فہم وشعور کو تاریخی ارتقا کے لحاظ سے ایمان اور عقل کے ادوار میں تقسیم کرنا محض ایک منطقی مغالطہ اور خود فریبی ہے، کیونکہ یہ دو مختلف مراتب سے تعلق رکھنے والی چیزوں کے مابین تقابل ہے۔ تقابل ایمان اور عقل کا نہیں، بلکہ انسان کے وجودی لحاظ سے محتاج ہونے یا خود مختار ہونے کے مفروضوں کے مابین بنتا ہے جو عقل سے مقدم ہیں۔ ایمان اور الحاد، دو عقلی پوزیشنیں ہیں جو ان میں ایک یا دوسرے وجودی مفروضے پر مبنی ہیں۔ اصل بحث اس سوال پر بنتی ہے کہ کون سا وجودی مفروضہ انسان کے شعوری وسائل، اس کی وجودی حالت اور اس کے نفسیاتی تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔
انسانی عقل اپنی فعلیت میں کچھ وجودی مفروضات کی محتاج ہوتی ہے، یہ فلسفہ علم کی ایک پیش پا افتادہ بات ہے۔ فلسفہ، سائنس اور مذہب، تینوں میں سلسلہ استدلال کسی ایسے مفروضے پر جا رک جاتا ہے جس کو انسان بس مانتا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں دے سکتا اور اس پر شک بھی نہیں کر سکتا۔ یہ انسانی شعور کی بے چارگی اور محدودیت ہے جس سے اسے کسی بھی حال میں کوئی مفر نہیں۔ سارا استدلالی عمل اس بے دلیل ماننے کے تابع ہوتا ہے، اس سے ماورا ہو ہی نہیں سکتا:
Wittgenstein argued that questioning and doubting can only take place within a ‘frame of reference’, which he also terms a ‘world picture’ or even ‘mythology’, which is not itself questioned or doubted; that is a ‘system’ which is ‘the element in which arguments have their life’, which ‘stands fast’, and is the ‘substratum of all my enquiring and asserting’, the ‘hinge …. on which the questions we raise and our doubts depend. (Burn, Philosophies of History, page 11)
یہ پیش قیاسی مفروضات صرف عقل کی فعلیت کی بنیاد فراہم نہیں کرتے، بلکہ معلومات کی تنظیم اور ان کی باہمی نسبتوں کی تعیین میں پیش آنے والی مشکلات میں بھی عقل کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ گویا یہ منطق کی shortcomings کی بھی تلافی کرتے ہیں۔ استدلال کی صحت کو قبول کرنے کے لیے منطق کا سب سے بنیادی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ تمام مقدمات باہم اس طرح مربوط ہوں جیسے کسی مشین کے مختلف پرزے ہوتے ہیں کہ ایک کی حرکت سے دوسرا اور پھر تیسرا پرزہ خود بخود حرکت میں آ جاتا ہے۔ اگر کوئی ایک مقدمہ بھی مابعد مقدمے کو مستلزم نہ ہو تو پورا استدلال بے کار ہو جاتا ہے۔ تاہم کسی بھی عقلی استدلال کے لیے، وجودی مفروضات کی معاونت کے بغیر اس کڑے منطقی معیار پر پورا اترنا ناممکن ہے۔ اس کے تین پہلو یہاں قابل ذکر ہیں۔
۱۔ دو مظاہر کو باہم مربوط کرنے کے کئی مختلف امکان ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ امکانات کو خارج از قیاس قرار دینا یعنی exclusion منطقی عمل کا بنیادی حصہ ہے اور یہ بیشتر حالات میں پیش قیاسی مفروضات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔
۲۔ مقدمات کے باہمی تلازم کے لیے قطعیت کے بجائے عموما probability سے کام چلانا پڑتا ہے اور غالب امکان کو فیصلے کی بنیاد بنانے کی جرات صرف پیش قیاسی مفروضات کی مدد سے ممکن ہوتی ہے۔
۳۔ کسی نظریے کے حق میں دستیاب شواہد میں کہیں خلا پایا جاتا ہو تو اس کو پر کرنے، یعنی gap filling کی ذمہ داری بھی پیش قیاسی مفروضات کی ہوتی ہے۔
حیاتیاتی ارتقا کی مروج تعبیر اس کی خوب صورت مثال ہے۔ اس میں ارتقا کی توضیح کے لیے ارادی تخلیق کے امکان کو خارج از قیاس سمجھنا بنیادی ہے۔ یعنی یہ پہلے سے طے ہے کہ ارتقا کی توضیح کے لیے خدا کا فعل ہونے کا امکان زیرغور نہیں لایا جائے گا۔ پھر انواع میں عمومی طور پر ارتقا پائے جانے سے یہ نتیجہ کہ ہر ہر نوع ارتقا کی پیداوار ہے، بدیہی طور پر قطعی نہیں بلکہ probable ہے، لیکن تخلیق کو خارج از قیاس سمجھنے کا پیش قیاسی مفروضہ اسے، ماہرین حیاتیات کی نظر میں، ایک سائنسی حقیقت قرار دینے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ ارتقا کے حق میں دستیاب شواہد میں جو خلا پایا جاتا ہے، اس کی تلافی بھی اسی پیش قیاسی مفروضے سے کی جاتی ہے۔ گویا اس پورے نظریے کو منطقی طور پر مدلل بنانا exclusion, probability and gap filling کے بغیر ممکن نہیں اور یہ سارے وظائف ایک وجودی اور پیش قیاسی مفروضہ انجام دے رہا ہے۔
یہاں نظریہ ارتقا کے متعلق کوئی رائے دینا مقصود نہیں، صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس چیز کو عقلی استدلال کہا جاتا ہے، اس کی مکمل توضیح صرف منطق کے اصولوں سے نہیں ہوتی اور نہ منطق، پورے انسانی شعور کی توضیح کی استعداد ہی رکھتی ہے۔ عقل اپنی فعلیت کی ابتدا اور استمرار، دونوں کے لیے وجودی مفروضات کی محتاج ہوتی ہے اور وہی ایک زیادہ بنیادی سطح پر انسانی شعور کی حالت کو واضح کرتے ہیں۔
منطقی استدلال کی نوعیت اور اس کی یہ محدودیتیں پیش نظر رہیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ قرآن مجید نے اپنے طرز استدلال کو منطقی اسلوب پر کیوں استوار نہیں کیا۔ امام حمید الدین فراہیؒ اس نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ترکیب منطقی کی بنیاد تجزیہ پر ہے۔ یہ اس طریقے کے خلاف ہے جس کے مطابق ذہن اور خطاب عام طور پر کام کرتا ہے۔ فطرت تمام امور کو مرکب صورت میں سامنے لاتی ہے اور نفس انسانی اسی مرکب صورت ہی میں ان کا احساس اور ادراک کرتا ہے۔ پھر وہ ان میں سے بعض امور کو اسی طرح سے لیتا ہے اور بعض کو دوسرے امور کے ساتھ ترکیب دے لیتا ہے۔ رہا تجزیہ تو یہ دوسری نگاہ میں (یعنی اگلے مرحلے پر) وجود میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل بھی کسی منطقی تجزیہ کے بغیر ہی معانی اخذ کرتی اور حق اور باطل میں امتیاز کرتی ہے۔ لیکن جب کوئی معاملہ گڈمڈ ہو جاتا ہے اور عقل دلائل میں کسی خلل کا احساس کرتی ہے تو اس وقت وہ منطق کے اصولوں کو استعمال کر کے کلام کے تجزیہ کی طرف مائل ہوتی ہے تاکہ بات کے مختلف اجزا پر غور کرے۔ یہ اسی طرح کا عمل ہوتا ہے جس کا استعمال ہم نظم میں علم عروض کی صورت میں کرتے ہیں۔ شاعر اگر عروض کی صنعت کا عالم بھی ہو تو وہ شعر کہتے وقت ان کو استعمال نہیں کرتا۔ یہی حال سامع کا بھی ہوتا ہے۔ وہ شعر سنتے وقت اس علم کو استعمال نہیں کرتا۔ اس کے استعمال کی نوبت اس وقت آتی ہے جب شعر میں کسی خلل کا احساس ہو یا ایک وزن دوسرے وزن میں گڈمڈ ہو رہا ہو۔ تب شعر کے اجزا کو الگ کر کے اس کو علم عروض کی کسوٹی پر پرکھ لیا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی مصرف منطق کا بھی ہے۔ یہ حجت کو مختلف اجزا میں تقسیم کر کے یہ متعین کرتی ہے کہ کون سی چیز دلیل میں سے حذف ہو گئی ہے۔ اگر کوئی چیز زائد ہو تو منطق اس کو دور کر دیتی ہے۔ ..............
اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترکیب منطقی خلاف فطرت ہے۔ یہ صنعت کلام کو سہل نہیں رہنے دیتی، اس لیے اس کے ماہر خود بھی اس کا لحاظ نہیں رکھ سکتے اور خطابیانہ انداز اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ لطیف مطالب پر کلام کر رہے ہوں جن کو تصور میں لانا لوگوں کے لیے مشکل ہو جیسے الٰہیات کے مسائل، یا بیان ایسے موضوع کا ہو جس کو قبول کرنا لوگوں کو مشکل نظر آتا ہے جیسے اخلاق اور شرائع کے مضامین یا ایک مسئلہ کے دلائل مختلف ہو رہے ہوں اور کوئی شخص ان کو گڈمڈ کرنے کی نیت رکھتا ہو تو وہ منطقی استدلال سے پہلو تہی کرتا ہے تاکہ اس کی دلیل کی کمزوری واضح نہ ہونے پائے۔ “(توضیحات فکر فراہی، از علامہ خالد مسعود، جلد دوم، ص ۶۴)
قرآن کا موضوع دعوت ایمان ہے، اور ایمان کا مخاطب عقل نہیں، بلکہ دل ہے جو جذبات واحساسات اور فطری تصورات کا مرکز ہے۔ اعتراف نعمت اور تشکر ان فطری احساسات میں سے ایک بنیادی احساس ہے۔ ایمان اسی سے پیدا ہوتا ہے۔ بالعموم ایمان سے گریز یا اس میں تردد کا رویہ پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ یہ فطری احساس کسی دوسری منفی کیفیت سے مغلوب نہ ہو جائے۔ تب عقل اس خاص کیفیت میں وہ دلائل ڈھونڈھنے لگتی ہے جو ناشکری اور عدم اعتراف کی اس کیفیت کو جواز فراہم کر سکیں۔ اس کیفیت کا علاج بھی بالعموم کسی عقلی بحث یا منطقی استدلال سے نہیں ہو سکتا، بلکہ بیشتر اوقات بحث ومباحثہ انا اور ضد کو مزید مستحکم کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
قرآن کی نظر میں مذہب اور ایمان کی بحث، دینی معتقدات کے عقلی اثبات سے زیادہ نفس انسانی کو آلائشوں سے پاک کرنے کی بحث ہے۔ کسی ایمانی حقیقت کو سمجھنے میں ناکامی کی وجہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ نفس کسی ایسی کیفیت میں مبتلا ہے جو اسے اس حقیقت کی طرف متوجہ ہونے یا اسے قبول کرنے سے مانع ہے۔ یہ موانع عموماً یہ ہوتے ہیں:
۱۔ اپنے علم اور مشاہدہ پر بے جا ناز
۲۔ تکبر، یعنی اپنی بڑائی کا جھوٹا احساس
۳۔ تعصب، یعنی گروہی یا طبقاتی وابستگی
۴۔ حب عاجلہ، یعنی دنیا کی وقتی اور عارضی آسائشوں کی محبت
۵۔ بغیا بینہم، یعنی گروہوں کی ایک دوسرے کے مقابلے میں تفوق اور سرکشی کی جبلت۔
دور جدید میں انسان کو اپنی ’’آزادی “ اور ’’مرکزیت “ کا جو واہمہ لاحق ہوا ہے، اس کا ازالہ منطقی استدلال کے بس کی بات نہیں۔ یہ شعور کی نہایت بنیادی سطح پر لاحق ہونے والا ایک عارضہ ہے جس کے علاج کے لیے انسانی آزادی اور عظمت کے فلسفے کو قرآن مجید کے اسلوب میں موضوع بنانے کی ضرورت ہے:
قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۔ مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ (سورہ عبس، آیت ۱۷ تا ۲۳)
’’ہلاک ہو انسان، کیسا نا شکرا ہے۔ اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟ نطفہ سے اس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اس کا تعین فرما دیا۔ پھر راہ اس کے لیے آسان فرما دی۔ پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں (دفن) کر دیا۔ پھر جب وہ چاہے گا، اسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کرے گا۔ یقیناً اس (نافرمان انسان) نے وہ (حق) پورا نہ کیا جس کا اسے (اللہ نے) حکم دیا تھا۔“