حضرت مولانا حمد اللہ آف ڈاگئیؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

استاذ العلماء حضرت مولانا حمد اللہ صاحب آف ڈاگئی کی وفات حسرت آیات کی خبر مجھے کراچی کے سفر کے دوران ملی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ ہمارے ان پرانے بزرگوں میں ایک اہم شخصیت تھے جنہیں عوام کے ساتھ ساتھ اہل علم میں بھی مرجع اور راہنما کی حیثیت حاصل تھی اور بہت سے مشکل معاملات و مسائل میں ان سے رجوع کر کے اطمینان ہو جاتا تھا کہ متعلقہ مسئلہ و معاملہ کا صحیح رخ کیا ہے۔ مجھے ان کی خدمت میں ڈاگئی حاضری کی سعادت ہوئی اور مختلف علمی و دینی محافل میں ان کے ساتھ استفادہ اور دعاؤں کا تعلق رہا۔

ایک موقع پر جب جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمان گروپ میں تقسیم تھی، حضرت مرحوم کے ساتھ درخواستی گروپ کے ایک وفد میں بلوچستان کے چند روزہ دورے کی رفاقت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اسی موقع کی بات ہے کہ چمن میں سینکڑوں علماء کرام کے ایک اجتماع میں اسلامی معاشیات کے حوالہ سے ان کی وقیع علمی گفتگو سن کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ حضرت مولانا شمس الحق افغانیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے بعد وہ پہلی شخصیت ہیں جن سے اسلامی معاشیات کے موضوع پر اس قدر جاندار علمی گفتگو سننے کو ملی ہے۔ میں نے حضرتؒ سے اس کا تذکرہ بھی کیا کہ آپ کا عمومی تعارف تو اس سے مختلف مسائل کے حوالہ سے ہے مگر آپ تو ہماری لائن کے بزرگ ہیں اور ہمیں ایسے سرپرستوں کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے مسکرا کر اپنے ایک معاصر بزرگ کا نام لیا اور فرمایا کہ ان کی وجہ سے مجھے بعض مسائل میں الجھنا پڑا ورنہ میرا ذوق بھی یہی ہے۔

حضرت مولانا حمد اللہؒ نے سو سال سے زیادہ عمر پائی اور زندگی بھر درس و تدریس میں مصروف رہے۔ صوابی کے علاقہ میں پنج پیر، ڈاگئی اور شاہ منصور کے تین علمی مراکز دورۂ تفسیر قرآن کریم کے عنوان سے قرآن کریم کے علم و معارف کی تدریس و فروغ کے باب میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ حضرت مولانا حمد اللہ جانؒ کے اس علمی مرکز میں ہزاروں علماء کرام نے ان سے فیض حاصل کیا جو اب دنیا کے مختلف حصوں میں دینی خدمات میں مصروف ہیں اور حضرتؒ کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔ اللہ تعالٰی کا حضرت مرحوم کے درجات جنت میں بلند فرمائیں اور تمام تلامذہ، متعلقین اور اہل خاندان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔


اخبار و آثار

(فروری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter