جدید سائنس کے مباحث اور علم الکلام

مولانا محمد رفیق شنواری

(پروفیسر نضال قسوم (امیریکن یونیورسٹی، شارجہ) کے مقالہ Kalam’s Necessary Engagement with Modern Science سے مستفاد)


خالص عقیدے سے متعلق قدیم مباحث پر مشتمل علم کلام سائنسی مباحث پر کیوں مشتمل ہو؟ سائنس کی تعریف پر غور و فکر کسی حد تک اس سوال کا جواب سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ سائنس کی تکنیکی اعتبار سے جو بھی تعریف کی جائے، ان میں پائے جانے والی فنی اور دقیق فروق سےہٹ کر بنیادی عناصر تقریبا سب میں یکساں پائے جاتے ہیں اور وہ ہیں اس علم کی معروضیت، آفاقیت ، تجربیت اور معیاریت کے دعوے۔ یعنی جدید علم جو معلومات فراہم کرتا ہے، وہ معروضی حقائق ہیں ، یہ علم مذہب اور کلچر وغیرہ تمام بندھنوں سے آزاد ہو کر ایک آفاقی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ علم نرے نظریات کا مجموعہ اور محض عقلی و فکری عیاشی نہیں بلکہ تجربے اور مشاہدے پر مبنی مطمئن کر دینے والا علم ہے۔ نیز یہ علم دیگر تمام علوم اوران کی صحت کے لیے کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ سائنس خود کو اس کائنات کے واقعات کی توجیہ اورنظام اسباب کی معرفت تک محدود رکھتی ہے، یعنی سائنس "کیسے " کا جواب تلاش کرنے کی محنت کا نام ہے۔ جہاں تک غایات یعنی اس پورے نظام کے مقصد اور رونما ہونے والے ہر واقعے کے پیچھے غرض و غایت (Teleological Considerations) کا تعلق ہے تو سائنس اس سے پہلو تہی کیے ہوئے ہے۔ یہ پورا نظام کیوں وجود میں آیا ، کیوں یہ تمام واقعات جنم لیتے ہیں اور آخر انجام اس پورے نظام کا کیا ہے ؟ ایسے سوالات سائنس کا موضوع نہیں ہیں۔ 

کیا سائنس اور مذہب کے درمیان تصادم ہے؟ 

کائنات اور اس دنیا میں آئے دن رونما ہونے والے واقعات کی توجیہ کے سلسلے میں بحث و تحقیق کے دوران اس علم کا طریقہ کار ان اسباب کی نشاندہی اور ان میں پائے جانے والے تعلق کی وضاحت ہے جوان واقعات کے رونما ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ سائنس اس دوران کسی بھی واقعے کا سبب بتانے یا توجیہ پیش کرنے میں خدا ، فرشتہ یا کسی بھی ہماری عقل کے دائرے سے باہر ذات کا حوالہ معتبر نہیں سمجھتی۔ سائنس کے اس ماورائے عقل (metaphysical)  ذات کے حوالے کے بغیر کائنات کے حوادث کی توجیہ اور اسباب معلوم کرنے کے طریقہ کار کو methodological naturalism کہا جاتا ہے۔ یہی طریقہ کار توحید پر مبنی نظریہ علم اور مشرکانہ تصورِ علم کے درمیان نکتۂ نزاع ہے۔ یہ طریقہ کار آخر جدید سائنس کی بنیادی خاصیت کیوں اور کیسے بنی ؟ فلسفۂ سائنس کے ماہرین کے مطابق اس کی وجہ Pragmatism ہے۔ یعنی اس علم نے کائنات اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کی توجیہ پیش کرتے ہوئے عملی اطلاقات اور تجربات و مشاہدات کی مدد سے اپنے نظریات اور اعتقادات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سائنس دانوں کی نظر میں اس کائنات کی ہر شے دوسری سے ایسے جڑی ہوئی ہے کہ ان کا یہ باہمی تعلق ہمیں کم سے کم چیزوں کا سہارا لے کر ان واقعات کی توجیہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اب ایسے میں کسی ماورائے عقل ذات (مثلا فرشتے یا خدا) کے حوالے کی ضرورت کیوں کر پیش آ سکتی ہے۔ ایسا حوالہ بظاہر کائنات کے بارے میں مزید معلومات کی فراہمی کے پراسس کو کم رفتار بلکہ غیر بار آور بنا دیتا ہے؛ کیوں کہ اس حوالے کے بعد تجسس اور مزید تحقیق کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ 

حصولِ علم کے اس طریقہ کار کا مذہبی عقائد سے واضح تصادم پایا جاتا ہے بالخصوص اس رائے کے مطابق کہ نظامِ اسباب کے ہوتے ہوئے بھی خدائے تعالی براہ راست اس جہان میں بعض اوقات کچھ افعال کردیتے ہیں۔ مثلا معجزات ، سیلاب ، زلزلے ، لاوا پھٹ جانا، بظاہر اسباب کارآمد نہ دِکھتے ہوئے کسی بندے کی دعا قبول کرلینا ، یا اس کا برعکس کہ اسباب کی مساعدت کے باوجود کسی کام کا نہ ہو پانا، ادویات نہ ہونے کی صورت میں صحت دینا ، یا اس کے برعکس صورت وغیرہ ۔ ان تمام صورتوں میں مذہب کی تعلیم کا سارا استناد ما ورائے عقل ہستی پر ہے جب کہ سائنس اس سے مخالف سمت میں جا کر ایسی ماورائے عقل ذات کا حوالہ تسلیم کر کے خود کو مطمئن نہیں کر رہی۔ ایسے مسائل مذہب اور سائنس کے درمیان ٹکراؤ کے واضح مظاہر ہیں۔ لہذا نئی ایجادات کے استعمال کے فقہی جواز کی بنیاد پر اس اساسی اور عقائدی تضاد کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔ اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کائنات کے طبیعیاتی حقائق یا مشاہداتی مطالعے کے نتائج اور خدا کے وجود سے لے کرنظامِ کائنات کے اندر اس کے براہِ راست عمل دخل تک مذہبی اعتقادات کےدرمیان تضاد کے سوال پر غور و فکر کیا جائے۔ غور و فکرکا یہ عمل اپنے عقائد پر غیر متزلزل ایمان کے علاوہ سائنس ، فلسفہ اور دیگر کئی پہلوؤں سے منسلک ہونا ضروری ہے۔ اس دوران کائنات کے سائنسی مطالعے سے متعلق مواد Natural Theology سے ملے گا۔ Natural Theology ،آسان لفظوں میں ، کائنات کے مشاہدے ، علم و فہم اور عقل و تعلیل پر مبنی مطالعے کانام ہے۔ تھیولوجی کی یہ قسم Revealed Theology سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں غور و فکر کا سارا عمل صرف مذہبی معتقدات پر مبنی ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ نیچرل تھیولوجی میں خدا کے وجود کا اثبات معروضی حقائق یعنی کائنات، اسباب اور عقل کی مدد سے ہوتا ہے جب کہ ریویلڈ تھیولوجی کے اندر اس مدعا کو مذہبی بنیادوں پر ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ 

خدا کے وجود ، طاقت اور صفات پر ایک اہم دلیل جو نیچرل تھیولوجی سے دی جاتی ہے، وہ انگریزی لٹریچر میں Argument from Design یا Teleological Argument یا دیگر مختلف ناموں سے یاد کی جاتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم مصنوع ہے اور ہر مصنوع کے لیے صانع کا ہونا ضروری ہے، لہذا اس عالم کا ایک صانع ہے جو کہ خدائے عز وجل ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات کائنات میں غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔ گویا یہ طرزِ استدلال ان تمام آیات کے موافق ہے۔ یہ دلیل فلاسفۂ یونان سے لے کر آج تک دی جاتی رہی ہے۔ اس دلیل کے حق اور نقد دونوں میں بہت کچھ بسط و تفصیل کے ساتھ لکھا جا چکا ہے۔ اس دلیل کے حق میں انگریزی زبان میں ایک مشہور کتاب ولیم پے لے کی Natural Theology or Evidence of the Existence and Attributes of the Deity Collected from the Appearances of Natureہے   جو انیسویں صدی کے اوائل میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب نے انیسویں صدی میں عیسائی دنیا میں اس دلیل کی مقبولیت میں کافی کردار ادا کیا تھا۔ چنانچہ اس وقت رائج سائنسی نظریات کو درست ماننے کے باوجود اس طرزِ استدلال کے مطابق خدا کے وجود پر دلائل و شواہد پر مشتمل “Bridgewater Treatises” کے نام سے آٹھ جلدوں کا ایک مجموعہ تیار کرایا گیا جو ۱۸۳۳ سے ۱۸۴۰ کے درمیان چھپ گیا تھااور حال ہی میں مشہور طباعتی ادارے کیمبرج یونیورسٹی پریس نے دوبارہ شائع کیا ہے۔ نیچرل تھیولوجی کی یہ کتاب انسان ، جانور اور کائنات کی دیگر اشیا کا مختلف پہلووں سے مطالعہ کر کے اس کائنات کے صانع کے وجود پر استشہاد و استدلال کرتی ہے۔ اس دلیل کا فلسفیانہ بنیادوں پر تنقیدی جائزہ ڈیوڈ ہیوم نے اپنی کتاب “Dialogue Concerning Nature” میں جب کہ سائنسی بنیاد پر ڈارون نے اپنے مشہور نظریۂ ارتقا میں لیا ہے۔ بہر حال یہ دلیل ، جو خدا کے وجود سے باغی سائنسی نظریات کا توڑ پیش کرنے معاون ہو سکتی ہے، ایک اہم بحث کے طور پر ہمیشہ سے ہمارے علم الکلام کے نصاب میں شامل رہی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری گفتگو اب تک اس بحث میں ہونے والی پیش رفت اور رائج تصورات سے ہی متعلق ہو۔ 

دوسراا ہم سوال ’قوانینِ فطرت‘ یا — خدا کو ماننے والوں کی تعبیر کے مطابق— ‘Laws of God’ یعنی ’اللہ کی سنتوں‘ سے متعلق ہے۔ ایک اشکال اس بارے میں یہ ہے کہ کیا یہ ’قوانینِ فطرت‘ ازلی و ابدی ہیں؟ یعنی کیا ہمیشہ سے ایسے قوانین موجود رہے ہیں جن کے مطابق یہ کارخانۂ عالم چل رہا ہے اور ہم صرف ان قوانین کو دریافت ہی کر نے کی کوشش میں لگے ہیں۔ یا ہم اس نظا م کو چلتے ہوئے دیکھ کر اپنے مشاہدے کی مدد سے کچھ قوانین تشکیل دے رہے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ، مزید تحقیق کے نتیجے میں ، نئی شکل میں مرتب ہوں۔ کیا اس دنیا میں ایسی دوسری کوئی ہستی بھی ہے جن کے نزدیک اس کائنات اور نظام کی توجیہ کا عمل ہم سے مختلف ایک دوسرے طریقے سےیا بالکل ہمارے جیسے ہو رہا ہو؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا یہ ’قوانینِ فطرت‘ یا ’اللہ کی سنتیں‘ زمان و مکان کے اعتبار سے متعین یعنی ناقابل منسوخ اور آفاقی ہیں، جن کا اطلاق ہر وقت اور ہر جگہ رد وبدل کی گنجائش کے بغیر ایک جیسا ہوتا رہا ہے اور ہوتے رہنا ضروری اور لازمی ہے؟ اسلامی نقطہ نظر سے ایک رائے تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیت ﴿وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا﴾(الأحزاب ۶۲) کے مطابق خدا کی سنتیں ناقابل تبدیلی ہیں؛ لہذا اس کائنات کا نظام ایسے قوانین کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جو کبھی بھی تبدیلی کی گنجائش نہیں رکھتے، سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ان قوانین کو صرف دریافت اور سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں سے دروازہ ایک اور بحث کی طرف کھلتا ہے کہ کیا انسانی فہم اور علم معروضی ہے یعنی کائنات اور اس نظام کو اور ان قوانین کو انسان جیسے سمجھ رہا ہے، درحقیقت بھی ایسا ہی ہے؟ یا انسانی فہم و علم ایک اضافی حیثیت رکھتے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں مزید تحقیق اور اصلاحات کے نتیجے میں بالکل ایک نئی اور مختلف صورت میں سامنے آئے۔ اس پر بھی سائنس دانوں اور فلاسفہ کی طویل بحثیں ہوئی ہیں۔ بہر حال ایسے کئی مسائل ہیں جو سائنس اور فلسفے کے مباحث سے جنم لے چکے ہیں اور مسلمان اہل علم سے ان کا جواب طلب کیا جا رہا ہے۔ ذیل میں کئی ایک ایسے سوالات یا مباحث کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کو نصاب میں رائج علم الکلام کےنصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ 

اولا: کائنات کی تخلیق کب اور کیسے ہوئی؟

پہلا اور اہم سوال اس کائنات کی تخلیق اور اس تخلیق کے طریقۂ کار اور ارتقائی مراحل سے متعلق ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ، تخلیق کے مراحل کب اور کیسے طے ہوتے رہے اور کائنات جب تخلیق ہوئی تو کیسے تھی اور اب کیا اس میں تبدیلی آ رہی ہے؟ اگر تبدیلی آ رہی ہے تو کیسے اور کن اسباب کے تحت تبدیلی کا یہ عمل انجام پاتا ہے؟  اس سوال کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود قرآن کی کئی آیات اس بابت آئی ہیں۔ قرآن کریم اللہ تعالی کو مختلف ناموں خالق، فاطر، مصور وغیرہ سے یاد کر کے خدا کے وجود ، طاقت اور دیگر صفات کے اقرار کو ایمان کی اولین سیڑھی قرار دیتا ہے۔ امام بخاری نے آج سے سیکڑوں سے سال قبل اس موضوع سے متعلق صحیح اور مستند حدیثیں اکٹھی کرکے اپنی کتاب میں ”كتاب بدء الخلق“ کے عنوان سے بحث کی ہے۔ مسلمان اہل علم احداث ، ابداع ، خلق اور تکوین جیسی اصطلاحات کی مدد سے اپنا بیانیہ تشکیل اور اس کی تفصیل دیتے آ رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل سائنسدان بگ بینگ کا نظریہ پیش کرتے ہیں  جس کے مطابق کائنات کی پیدائش ایک انتہائی کثیف اور آتشی حالت میں ایک زبردست دھماکے کے نتیجے میں ہوئی تھی، اور اب حالت یہ ہے کہ کائنات Dark energy کی بدولت روز بروز پھیلتی جا رہی ہے۔ کائنات کی تخلیق سے متعلق اس نظریے کا سارا دار ومدار انرجی اور نظامِ اسباب کے باہمی تفاعل پر ہےجس میں خدا کے وجود اور طاقت و قدرت کا بالکل بھی اعتراف نہیں۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ محض نیچرل سائنسز کی دنیا کی تفریح نہیں بلکہ ایمان کا جز بنتا ہے اور معاصر سائنسی نظریات مثلا بِگ بینگ تھیوری ، نظریۂ ارتقا وغیرہ کا تنقیدی جائزہ اور معقول جواب وقت کی اہم ضرورت بنتا ہے۔

ثانیا: نظریۂ تسخیر یا کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے؟

اسلامی فلسفے کی ایک دلچسپ بحث اس کائنات کی معنویت اور اس نظام کو کھڑا کر نے کے پیچھے اغراض و مقاصد سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ امام غزالی نے ”الحكمة في مخلوقات الله“ میں اسی پہلو سے بحث کی ہے۔ امام غزالی نے اس کائنات کی توضیح کرنے کے بعد اس نظام کے اندر انسانی زندگی کے لیے پنہاں خوبیاں بتلائی ہے۔ اس کے مقدمے میں امام غزالی لکھتے ہیں: اگر اس کائنات پر غور کریں تو یہ ایک گھر کی مانند ہے۔ آسمان اس کی چھت ، زمین اس کا فرش ، سورج چاند ستارے اس میں لٹکائے گئے چراغوں کی طرح ہیں، اور انسان کو اس گھر کا ’مالک‘ بنایا گیا ہے   جہاں اس کی ضروریات کی ہر چیز مہیا کی گئی ہے۔ امام غزالی مزید یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس کائنات کے اندر اس کے بنانے والے کے وجود پر دلالت کرنے کے لیے واضح نشانیاں ہیں۔ جس خوب صورتی کے ساتھ اس کو ڈیزائن کیا گیا ہے اور جس کمال دقت سے اس کی ہر شے مرتب کی گئی ہے، یہ سب اس کے بنانے والے اور اس کمال ترتیب سے شکل و صورت دینے والے ایک ذات پر ہی دلالت کر رہے ہیں۔  قرآنی آیات کی تصریحات کے مطابق یہ کائنات پوری کی پوری محض انسان کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے۔

امام غزالی کی یہ کتاب گویااسی نوع کی آیات کی ایک تفسیر ہے۔ ان آیات کے مطابق کائنات کو انسانوں کے لیے مسخر بنانے کا مطلب یہ ہے کہ کروڑوں کے حساب سے ستارے ، سیاروں میں کشش ثقل ، ان کے درمیان فاصلے، ہر سیارے کا اپنے مدار اور دائرے میں حرکت اور سورج اور زمین کے اندر کی گرمی ، انوع و اقسام کے گیسوں کا مختلف جگہوں پر مخصوص تناسب سے پایا جانا وغیرہ یہ سب انسانی زندگی کو ممکن بلکہ آسان بنانے کے لیے ہی کیا گیاہے۔ کائنات کی چھوٹی سی چھوٹی چیز سے لےکر بڑی سے بڑی چیز تک ہر شے کو اس کمال دقت و باریک بینی اور انسانی زندگی کے لیے اسی موجودہ حالت میں مفید ہونے کو دیکھ کر فزکس کے ایک مشہور عالم فریمن ڈائسن نے کہا تھا کہ کائنات یوں بنی ہے گویا یہ جانتی تھی کہ اس میں رہنے کے لیے ہم انسان آنے والے ہیں۔ اس کو Anthropic Principle یا Fine-tuned آئیڈیا کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی آیات تسخیر کے علاوہ وہ آیتیں بھی Fine-tuned آئیڈیا کے لیے بنیاد بن سکتی ہے جس میں اس دنیا کی مخلوقات کے لیے ’تقدیر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مثلا ’’جس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اس کو ایک نپا تلا انداز عطا کیا ہے” (الفرقان ۲)، یا ”ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔ ” (الرعد: ۸) 

مذہبی حدود و قیود سے آزاد سائنس کئی سوالات سامنے رکھتی ہے۔ کیا واقعی ایسی کوئی ہستی موجود ہے جس نے اتنی بڑی اور روز بروز وسیع سے وسیع تر ہونے والی کائنات کوایک انسانی زندگی کی خاطر بنایا ہے، یا یہ سب کچھ “فطرت کے قوانین” کے تحت چل رہا ہے؟ کیا خدا ان قوانین سے ما ورا ہوکر بھی کائنات میں عمل دخل رکھتا ہے؟ اگر خدا موجود ہے تو کیا وہ قوانین فطرت کے ہاتھوں مجبور تھا کہ کائنات کو اسی انداز سے بنایا یا وہ اس سے مختلف صورت میں بھی بنانے پر قدرت رکھتا تھا؟ اس کے علاوہ کچھ سائنس دان یہ خیال رکھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ کائنات صرف یہی ہو جس میں ہم بستے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی ایک دوسری بلکہ متعدد کائناتیں ہوں جہاں مرکزی و محوری شے انسان یا انسانی زندگی نہ ہو۔ اس کو “Idea of Multiverse” کہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق ضروری نہیں کہ قوانین فطرت سے آزاد ایک ذات نے پوری کی پوری کائنات انسان کے لیے ہی مسخر کردی ،بلکہ یہ کائنات ، جس کا اب تک مشاہدہ کیا جا چکا ہے، قوانین فطرت کے تحت اپنے تئیں چل رہی ہے  جس کے ساتھ یہ امکان ہے کہ اس کے علاوہ بھی مزید کائناتیں ہوں جہاں کی ہر شے انسانی زندگی کی خاطر نہ سجی ہو۔ قرآن کریم یا Revealed Theology خدا کی ذات کے حوالے سے “موجود، حی ، قدیر ، علیم ، مالک، رب، کلمۂ کن”  وغیرہ اصطلاحات استعمال کر کے خدا کے وجود ، لامحدود قدرت، بے انتہا علم سے متعلق اپنا موقف واضح انداز میں دے رہی ہیں۔ 

ثالثا:  انسان اور نظریۂ ارتقا

نظریۂ ارتقا کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کی ابتدا ایک دوسرے مخلوق سے ہوئی تھی ، ارتقا اور مختلف تبدیلیوں کے عمل سے گذر تے ہوئے موجودہ ، اور ترقی یافتہ ، صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ نظریۂ ارتقا انیسویں صدی کے نصف اخیر میں متعارف ہوا تھا جب Charles Darwin نے ۱۸۵۹ میں اپنی کتاب On the Origins of Species لکھ کردنیا کے سامنے پیش کی۔ ارتقا کا یہ تصور بظاہر واضح طور پر قرآن کریم کی ان آیات سے متصادم ہے جن میں انسانی زندگی کی پیدائش اور ارتقا کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ قرآن کریم کی تفصیلات کے مطابق انسانی زندگی کی ابتدا حضرت آدم سے ہوئی۔ ابتدا میں انسانی قد موجوہ انسانوں کے قد سے لمبے تھے، اسی طرح اور بھی جسمانی تبدیلیاں شاید واقع ہوئی ہوں، مگر انسان کی ابتدا انسان سے ہی ہوئی ، کسی دوسری مخلوق سے نہیں۔ قرآن کریم کی اس قدر واضح تصریحات کے باوجود بھی عام ، بالخصوص تعلیم یافتہ ، لوگوں کا نظریۂ ارتقا سے متاثر ہونا  ’معاصر متکلم‘ کے لیے ہرگز ایک چیلنج سے کم نہیں۔ یہاں ہر گز یہ نہیں عرض کیا جا رہا کہ قرآنی عقیدے کی اساس نیچرل تھیولوجی یا بیا لوجی پر رکھنا ضروری ہے، بلکہ قرآنی عقیدے کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ انسانی زندگی سے متعلق یہ تفصیلات خود انسانوں کے خالق نے بتائی ہیں، جو اپنی صحت و استناد میں ہر گز نیچر اور کائنات سے متعلق تغیر پذیر انسانی تحقیق کی محتاج نہیں۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ نیچرل تھیولوجی کے مفروضات و مسلمات کی مدد سے ہی ’جینیاتی تبدیلیوں‘ پر مبنی اس تصورِ ارتقا کا تنقیدی جائزہ لیا جا ئے، جیسا کہ امام غزالی نے فلسفے کے اصول و مسلمات کی بنیادپر ہی فلسفیانہ معتقدات کا تنقیدی جائزہ لیا تھا۔

قرآن کے ظاہر کے مطابق صرف حضرت آدم کو اولین انسان ماننا، ان سے پہلے کسی انسان کا موجود نہ ہونا اور ’جینیاتی تبدیلی‘ کو صرف نوع کی سطح تک تسلیم کر کے جنس کی سطح پر مؤثر نہ ماننا یعنی ’جینیاتی تبدیلیوں‘ سے ایک نوع کے افراد مثلا انسانوں کے قد وغیرہ تو متاثر ہو سکتے ہیں، اس کو ایک جنس سے دوسری جنس مثلا جانور سے انسان یا اس کا عکس میں مؤثر ہونا تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ان خیالات کو معاصر زبان میں Creationism Idea سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان تصورات کی بنیاد پر انسان کو کائنات کی ایک ممتاز مخلوق ، جس کی ابتدا کسی دوسری مخلوق سے نہیں ہوئی ، سمجھ کر اور اسی کو کائنات کا محور و مرکز ماننے کو Human Exceptionalism کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے واضح الفاظ میں انسان کو خدا کا ’خلیفہ‘ قرار دیا ہے۔ یہاں ’شیطان‘ کے حوالے سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انسان کو اتنے بڑے مرتبے پر فائز کر کے اس پر ’شیطان‘ نامی مخلوق کو کیوں مسلط کر دیا گیا جس کے بہلاوے میں آکر انسان خداکی طرف سے عذاب کا نشانہ بن جاتا ہے؟ اس دنیا کو دار الامتحان بنانے میں آخر کار کیا حکمت تھی؟ اس جیسے اور بھی اعتراضات ہیں جو اہمیت کے اعتبار سے موجودہ علم الکلام کے نصاب کا حصہ ہونا ضروری ہےاور جدید ذہن وفکر کو عقل و نظر کی درست سمت پر ڈالتے ہوئے انجام کار و نتائج سے آگاہ کر کے ایسے دعاوی سے متاثر نہ ہونے دینا چاہیے جو  سرسری تجربے اور مشاہدے پرمبنی ہمیشہ بدلتے رہنے والے ہوں اور اس کی صحت کچھ ہی وقت بعد واضح ہونےوالی ہو۔ 

رابعا: معجزات کا مسئلہ 

معجزات کی فنی اعتبار سے جو بھی تعریف کی جائے، اس کی اساس میں یہ عنصر شامل ہے کہ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس میں قوانین فطرت کی واضح خلاف ورزی پائی جاتی ہے اور سائنسی ذہن کا ماننا یہ ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ مثلا سائنس کا عام اصول یہ ہے کہ اگر آپ اپنے ہاتھ سے کچھ کنکریاں گرنے دیں گے تو کشش ثقل کے اصول کے مطابق ان کنکریوں نے زمین پر گرنا ہے، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ   کسی نبی کے ہاتھ سے، معجزاتی طور پر، یہ کنکریاں زمین پر گرنے کی بجائے ہوا میں ہی معلق رہیں؟ مذہبی تعلیمات کے مطابق ایسا بالکل ممکن ہے جب کی سائنس اپنے اصولوں کی واضح خلاف ورزی دیکھ کر اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قوانین فطرت اور معجزات کے مسئلے کو معاصر محققین نے اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے۔ مثلا Zygon: Journal of Religion and Science کے عنوان سے شائع ہونے والے مجلے کا دسمبر ۲۰۰۴ کا شمارہ اسی مسئلے کے لیے مختص کیاگیا۔ (مقالات کی فہرست اور ملخصات کے لیے اس ویب سائٹ کو وزٹ کیجئے:

http://www.zygonjournal.org/issue2004_4.html)

 اس کے علاوہ بھی یورپ اور مغرب سے مشہور مجلات کے خصوصی شمارے شائع کیے گئے ہیں بلکہ مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایسی کتابوں میں سائنسی مباحث کے مقابلے مذہب کا مقد مہ عیسائیت کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہوتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے سائنس اور معجزات کے مسئلے کو ابصار احمد بھی اپنے ایک مقالے میں زیر بحث لائے ہیں۔ ان کا یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی سے فلسفے کے مشہور مجلہ ’ الحکمت‘ کے ۲۰۰۳ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس کی الیکٹرانک کاپی اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:

http://pu.edu.pk/home/journal/11/v_23_2003.html

ان چار مسائل کے علاوہ بھی ایسے حساس موضوعات کا پایا جانا ممکن ہے جو براہ راست مذہبی عقائد سے متصادم ہوں۔ایسے مسائل عام تعلیم یافتہ آدمی کے ذہن کو، جو اگر اسلام کے اصولوں سے واقف نہ ہو ،  ضرور متاثر کر سکتے ہیں۔ اس تاثر کے عام ہونے اور ایک ناقابل تبدیل اصول کی صورت اختیار کرنے سے پہلے ہی ضروری ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے اور علمی اور تحقیقی نوعیت کا مواد فراہم کر کے غور وفکر کے عمل کو جاری اور آسان بنایا جائے۔ 

اسلام اور عصر حاضر

(فروری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter